جھوٹی گواہی

Sublimegate Urdu Stories

جیسے ہی میں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا، رنگ روپ بھی نکھر گیا۔ میں اپنی  آپی سے چھوٹی تھی۔ آپی انیس سال کی دوشیزہ تھیں۔ اماں کو آپی کے ہاتھ پیلے کرنے کی اتنی فکر تھی کہ جب بھی گھر میں خواتین ملنے آتیں، یہی تذکرہ چھیڑ دیتیں۔ میری نازو اب تو انیس برس کی ہو رہی ہے، ابھی تک کوئی ڈھنگ کا رشتہ نہیں ملا۔ بہن، اگر آپ کی نظر میں کوئی اچھا گھرانہ ہو تو بتانا۔  دعا کرنا میری بچی عزت سے اپنے گھر کی ہو جائے۔ خود بھی دعا کرتے کرتے ان کے لب سوکھ جاتے۔ تبھی میں سوچتی کہ آپی کی عمر اتنی تو نہیں ہو گئی جو اماں نے خود پر چین و سکون حرام کر لیا ہے۔ 

جانے ماں کو بیٹی بیاہنے کی کیوں اتنی جلدی پڑ جاتی ہے؟ بیٹی بیچاری تو یوں بھی پرایادھن کہلاتی ہے۔ آج نہیں تو کل اسے بابل کے گھر سے چلے جانا ہی ہوتا ہے۔ بالآخر وہ دن بھی آ گیا جب آپی کے لیے ایک مناسب رشتہ آیا۔ بات چیت طے ہو گئی۔ تب ہی امی نے سکھ کا سانس لیا۔ جس دن نازو آپی کی شادی ہوئی، وہی نہیں ہم سبھی بہت خوش تھے لیکن جب وہ رخصت ہو گئیں، مجھ کو احساس ہوا کہ لڑکی کی شادی ہو جانا کوئی ایسی خوشی منانے والی بات بھی نہیں۔ وہ تو پرائی ہو گئی، پھر تو مہمانوں کی طرح کبھی کبھار آتی ہے۔ شادی کے بعد آپی واقعی پرائی ہو گئیں۔ اب ان کو دولہا بھائی پندرہ روز بعد اتوار کے دن ہمارے گھر لاتے اور میں یہ دن انگلیوں پر گنتی تھی۔ وہ صرف دن بھر کے لیے آتیں، شام ہوتے ہی دولہا بھائی لینے آ جاتے۔ وہ انہیں رات کو رکنے نہیں دیتے تھے۔ جتنی دیر وہ ساتھ رہتیں، جی خوش رہتا۔ جونہی جانے لگتیں، دل کا پھول مرجھا جاتا تھا۔

میں آپی کے گھر بہت کم جاتی۔ کبھی جاتی بھی تو زیادہ دیر نہ ٹھہرتی، ان کی چڑ چڑی جیٹھانی مدیحہ کی وجہ سے، جو ٹیڑھی ٹیڑھی آنکھوں سے مجھے دیکھتی تھیں۔ مدیحہ کی بہن کا رشتہ ٹھکرا کر دولہا بھائی نے اپنی بھابھی کو مایوس کیا تھا۔ آپی کی ان سے شادی قسمت میں لکھی تھی لیکن اس عورت نے تو میری بہن سے اللہ واسطے کا بیر ڈال لیا تھا۔ مدیحہ کو یہی غصہ رہتا کہ اس کی بہن اس گھر کی بہو بن کر کیوں نہ آ سکی۔ جوں جوں دن گزرتے گئے، یہ غصہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا گیا۔ بات بے بات کا وہ بتنگڑ بنا لیتی اور جھگڑا کرنے لگتی۔ ساس کو اس کی عادت کا علم تھا، تبھی وہ چھوٹی بہو کی طرفداری کرتی تھیں جس پر مدیحہ کو سخت اہانت محسوس ہوتی۔ اللہ کی دین، آپی کو شادی کے ایک سال بعد اس ذات پاک نے بیٹے جیسی نعمت سے نوازا۔ اشعر کی پیدائش کے بعد آپی کے گھر خوشیاں ٹوٹ کر برسیں۔ ساس ان پر واری صدقے جا رہی تھیں اور شوہر بیوی اور نومولود بچے کے گرد پروانے کی مانند گھوم رہے تھے۔ ننھے اشعر کی وجہ سے وہ سسرال میں یوں جگمگا اٹھی تھیں جیسے ان کے گھر کا چاند ہوں۔ جس خوشی کے لیے آپی کے ساس، سسر ترس رہے تھے، وہ خوشی نیاز آپی سے ان کو ملی تھی۔ 

دولہا بھائی کے بڑے تینوں بھائی بے اولاد تھے۔ دو لاہور میں رہتے تھے اور تیسرا بھائی دیہات میں ہوتا، تبھی اس کی بیوی ساس سسر کے پاس رہتی تھی۔ اشعر کی پیدائش پر انہوں نے پوتے کی خوشی میں دل کھول کر خیرات کی کہ مدتوں بعد یہ ان کی مسرتوں کا پیام بنا تھا۔ دادا دادی نے عقیقے اور رت جگے پر اس قدر خرچ کیا کہ سارا شہر دنگ رہ گیا۔ آپی پر خدا کی رحمتوں کی برسات ہو رہی تھی اور ادھر جیٹھانی کے دل پر وحشت برس رہی تھی۔ اب تو وہ گھر میں ایک بجھے ہوئے دیے کی مانند تھی، کوئی اس کی جانب توجہ بھی نہ کرتا تھا۔ اس بات نے مدیحہ کو جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ گویا آپی کی وجہ سے اس کی گھر میں اہمیت باقی نہ رہی تھی۔ وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا اور اشعر سال بھر کا ہو گیا۔ یہ اس منحوس دن کی بات ہے کہ دادا دادی اپنے اکلوتے پوتے کی سالگرہ منانے کی خاطر شاپنگ کے لیے گھر سے نکلے تھے۔ سالگرہ میں ایک دن باقی تھا۔ اشعر نے رات بھر آپی کو جگایا تھا کیونکہ اس کی طبیعت ناساز تھی۔ آپی کا بیڈ روم چھت پر تھا۔

 دوپہر کا وقت تھا، آپی اوپر جا کر پلنگ پر بیٹھتے ہی سو گئیں۔ جیٹھانی کچن میں تھی، جیسے زخمی ناگن تاک میں رہتی ہے۔ مدیحہ نے مٹی کے تیل کی بوتل اور ماچس لی اور دبے پاؤں چھت پر پہنچی جہاں اپنی خواب گاہ میں میری ناز و پالی بہن، رات بھر کی بے خوابی سے چور، بیٹے کے ساتھ بے خبر سو رہی تھی۔ اس بے خبر کو کیا پتا تھا کہ مدیحہ اجل کا فرشتہ بن کر دبے پاؤں اس کے کمرے میں آ گئی ہے۔ وہ اس کو موت کی نیند سلانے آئی ہے، ورنہ اس روز اپنی اور اپنے لخت جگر کی زندگی بچانے کو کبھی بھی خود کو نیند کے حوالے نہ کرتی۔ مدیحہ نے اس کے پلنگ کی چادر کے اطراف مٹی کا تیل چھڑکا اور پھر ماچس کی تیلی جلا کر چادر پر ڈال دی۔شعلوں نے بھڑکنے میں سیکنڈ بھی نہ لگایا۔ تپش کے پہلے وار پر ہی آپی کی آنکھ کھل گئی۔ خود پر شعلوں کو لپکتا دیکھ ان کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ مدیحہ سیڑھی میں کھڑی تھی۔ دیورانی کی چیخ سن کر جلدی سے سیڑھیاں اتر کر غسل خانے میں گھس گئی۔ پڑوس کی چھت پر ان کا بچہ گیند اٹھانے کے ارادے سے آیا تھا۔ اس نے جو چیخ سنی، بھاگ کر منڈیر کی جانب آیا اور دوڑتا ہوا نیچے گیا اور ماں کو بتایا کہ دلہن آنٹی کو آگ لگ گئی ہے۔

پڑوس سے ان کی ملازمہ چھت پر دوری آئی، منڈیرے نیت پر پہنچی۔ اس نے دیکھا کہ آپی کے کپڑوں میں آگ لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنے بچے کو اٹھا کر پلنگ سے دور پھینک دیا تھا۔ بچہ فرش پر گرا ہوا تھا۔ ملازمہ نے جان پر کھیل کر بچے کو اٹھا لیا اور کمرے سے باہر لے آئی۔ اس کے پیچھے آپی کمرے سے نکلی، تب تک ان کے کپڑوں کو آگ نے لپیٹ میں لے لیا تھا۔ کپڑوں میں ہوا لگنے سے آگ بھڑک کر اور زیادہ ہو گئی، پھر بھی آپی نے ہمت نہ ہاری۔ ممتا کی ماری ماں ملازمہ کے پیچھے بھاگی، مگر سیڑھیوں تک آتے آتے گر گئی۔ ملازمہ کے بعد ٹونی کے بتانے پر اس کی والدہ اور چچی بھی بھاگتی ہوئی آ گئیں۔ انہوں نے زور زور سے دروازہ بجایا۔ ملازمہ، جس کے بازوؤں میں بچہ تھا، صحن عبور کر کے آپی کے گھر کا دروازہ کھولا۔ یہ خواتین اوپر گئیں جہاں سیڑھیوں کے پاس میری بہن جلے ہوئے کپڑوں میں پڑی تھی۔ وہ اسی فیصد جل چکی تھی۔ ٹونی نے یہ بھی دیکھا تھا کہ جب مدیحہ سیڑھیاں اتر رہی تھی، اس کے ہاتھ میں بوتل اور ماچس تھی، تبھی وہ تیزی سے نہانے کے بہانے غسل خانے میں گھس گئی تھی۔
ابھی یہ لوگ گھر میں موجود ہی تھے کہ آپی کے ساس، سسر آ گئے۔ ملازمہ نے سارا ماجرا بیان کیا۔ دادی نے پوتے کو اس کے بازوؤں سے لے لیا۔ بچہ چوٹ لگنے کی وجہ سے بے ہوش ہو گیا تھا، غالباً سر میں چوٹ آئی تھی۔ ساس سسر اوپر گئے، بہو بے ہوش پڑی تھی۔ اس نے کوئی بیان نہ دیا۔ اس کی زبان کو شعلوں کی تپش نے چاٹ لیا تھا، الفاظ اور خیالات تک جل کر خاکستر ہو گئے تھے۔ وہ چاند سا چہرہ اور صندل سا بدن راکھ میں بدل گیا تھا۔ آپی کو نیچے لایا گیا، وہ ہوش میں آئیں اور نہ ہی انہوں نے کچھ بیان دیا۔ بچے کو اسپتال لے جایا گیا۔ اس کی جان بچ گئی مگر ماں ہمیشہ کے لیے اس سے بچھڑ گئی۔ کہتے ہیں ظالم کو ظلم کی سزا ضرور ملتی ہے اور ہر ایک کو اس کے کیے کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ نجانے کون سی دنیا میں… میری بے چاری، بے قصور بہن کے معاملے میں تو ایسا نہیں ہو سکا۔ وہ اپنے جلے ہوئے وجود کے ساتھ منوں مٹی تلے جا سوئی اور اس کی منحوس جیٹھانی اسی گھر میں رہتی رہی۔ 

ملازمہ کو ڈرا کر آپی کے جیٹھ نے کافی موٹی رقم دے کر اس کا منہ بند کرا دیا۔ ٹونی تو بچہ تھا، اس کے والدین نے اس کو بھی سختی سے تاکید کر دی کہ تم نے اس بارے میں ایک لفظ نہیں بولنا، ورنہ پولیس ہم سب کو، پڑوسن کو، جلانے کے الزام میں پکڑ کر لے جائے گی اور جیل میں بند کر دے گی۔ اچھا ہے کہ ہم اس معاملے سے دور رہیں۔ جہاں انصاف کا بول بالا نہ ہو اور رشوت کے کرشمے جلوہ گر رہتے ہوں، وہاں تو لوگ سچی گواہی دینے سے بھی ڈرتے ہیں۔ غرض آپی کے جیٹھ اور سسر نے چولہا پھٹنے کا کیس درج کرا دیا کیونکہ مدیحہ، دولہا بھائی کی سگے چچا کی بیٹی تھی۔ مگر جلنے والی تو جل کر مر گئی، وہ کب واپس آ سکتی تھی اور کون عینی شاہد تھا جو اس کے حق میں گواہی دیتا؟ ایک محبت کرنے والا شوہر غمزدہ تھا، مگر وہ تو حادثے کے وقت پردیس میں تھا۔میں سوچتی ہوں کہ نجانے کب تک یہ چولہے پھٹتے رہیں گے اور میری بہن جیسی بے گناہ عورتیں جل کر مرتی رہیں گی۔ اف! یہ شرفا کے گھرانے، جو اپنی عزت رکھنے کو تھانے کچہری سے دور بھاگتے ہیں، پھر کہہ دیتے ہیں کہ جلنے والی تو جل کر مر گئی۔ 
اگر مرنے والی سے ناتا تھا تو جس نے جلایا، وہ بھی تو ان کے گھر کی عزت تھی اور گھر کی عزت بچانا ہمیشہ شرفا کا شیوہ رہا ہے۔اشعر کو انہوں نے ہمیں نہ دیا کیونکہ وہ اپنے دادا کی جائیداد کا اکلوتا وارث تھا۔ اسے اس کی تائی نے گود لے لیا اور پالا پوسا۔ وہ اب ماشاء اللہ جوان ہے۔ کبھی کبھار ہم سے ملنے آتا ہے۔ جب بھی اس کی صورت دیکھتی ہوں، آپی کے نقوش کی جھلک نظر آتی ہے۔ آپی کا پیار بے اختیار یاد آ جاتا ہے۔ سوچتی ہوں، اگر اس دنیا میں انصاف نہیں، تو اللہ کے گھر میں ضرور ہو گا۔
 (ختم شد)
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ