وہ سیدھی سادھی معصوم لڑکی تھی۔ مگر گھر والے اسے پیار سے نور کہا کرتے تھے۔ اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ وہ غیروں پر اندھا اعتبار کر لیتی تھی، اور یہی عادت بعد میں اس کی تباہی کا سبب بنی۔ جب وہ جوان ہوئی تو اس کی شادی ایک پیچیدہ مسئلہ بن گئی، حالانکہ وہ خوش شکل، خوش لباس اور معصوم صورت کی لڑکی تھی۔ بہت سے رشتے آئے، لوگ اسے پسند بھی کر لیتے، لیکن بات آگے نہ بڑھتی، کیونکہ نور انہیں دیکھ کر ناک بھوں چڑھا لیتی۔
جب وہ بی ایس سی کر رہی تھی، تو دو تین اچھے رشتے آئے۔ نور خاموش رہی، تو والدین نے سوچا کہ پہلے وہ تعلیم مکمل کر لے۔ انہیں جلدی نہ تھی، اور بعد میں معاملہ سلجھ نہ پایا۔ گریجویشن کے بعد نور ہوشیار ہو گئی اور جو رشتہ آتا، اُس میں کوئی نہ کوئی نقص نکالنے لگتی۔ رفتہ رفتہ عمر ڈھلنے لگی۔ اچھے رشتوں کے انتظار میں والدین بھی دنیا سے رخصت ہو گئے، اور وہ بھائی اور بھابھیوں کے رحم و کرم پر رہ گئی۔ اس کا اصل نام نورجہاں تھا۔ ایک بار جب اس کی ماں زندہ تھی، وہ اپنی سہیلی دُردانہ کے ساتھ ایک عامل کے پاس گئی، جو فال نکالتے تھے۔ عامل نے اُس اور اُس کی ماں کا نام پوچھا، اور فال نکال کر بتایا کہ نور پر سخت بندش کی گئی ہے تاکہ اس کی شادی نہ ہو سکے۔ اگرچہ وہ ان باتوں پر یقین نہیں رکھتی تھی، لیکن جب عامل نے اس کے چند قریبی رشتہ داروں کے نام بتا دیے، تو وہ یقین کرنے لگی۔
پھر دردانہ اُسے ایک اور جادو ٹونے کرنے والے کے پاس لے گئی، جس نے کچھ سفلی عملیات کیے۔ اتفاقاً اُسی دوران نور بیمار پڑ گئی اور پھر وہ مسلسل بیمار ہی رہنے لگی۔ اُس نے جادو ٹونے والے کے دیے ہوئے تعویذ پینے بند کر دیے، اور جو پہننے کو دیے تھے، انہیں بھی اتار کر جلا دیا، لیکن اس کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اس کی شادی نہ ہونے کی وجہ کسی قریبی رشتہ دار کی کرائی ہوئی بندش ہے۔ خدا جانے ان باتوں میں کتنی حقیقت تھی، مگر وہ انہیں سوچ سوچ کر چڑچڑی اور بد مزاج ہو گئی تھی۔ اس میں خودسری بھی آ گئی تھی۔ والدین کی وفات کو ابھی ایک سال ہی گزرا تھا کہ اُس نے دوبارہ عاملوں اور وظیفے بتانے والوں کے پاس جانا شروع کر دیا۔ جہاں سنا کہ فلاں جگہ کوئی عامل یا بابا رہتا ہے، وہ فوراً وہاں پہنچ جاتی۔ درحقیقت وہ اپنی شادی اور خراب صحت دونوں سے پریشان تھی۔
عمر ڈھلتے ڈھلتے وہ چالیس سال کی ہو گئی تھی اور اب سخت ڈپریشن میں مبتلا تھی۔ اُسے ذرا ذرا سی بات پر غصہ آتا۔ اس تنگ مزاجی کے سبب بھابھیوں سے روز کسی نہ کسی بات پر جھگڑا ہونے لگا۔ چنانچہ وقت گزاری کے لیے اس نے گھر کے قریب ایک اسکول میں بطور ٹیچر ملازمت اختیار کر لی۔ اب وہ دوپہر ڈھائی تین بجے اسکول سے آتی اور تھکن سے چور ہو کر سو جاتی۔ اس تھکن کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اُسے نیند آنے لگی، اور بے خوابی ختم ہو گئی۔ بلاشبہ کام اور تھکن صحت کے لیے بہتر ثابت ہوئے، مگر ان سب کے باوجود اُس نے عاملوں پر اعتقاد ترک نہ کیا۔
ایک دن وہ اپنے ساتھ کام کرنے والی ایک ٹیچر کے گھر گئی، جہاں اُس کی ملاقات اس کی کزن عاصمہ سے ہوئی۔ عاصمہ نے بھی کسی عامل کا ذکر کیا۔ نور نے فوراً اس کا پتہ لیا اور اگلے ہی دن اس عامل کے پاس پہنچ گئی۔ اُس عامل نے بتایا کہ نور پر نہ صرف سفلی عملیات کیے گئے ہیں بلکہ بدروحیں بھی حاوی ہیں، اور یہی اُس کی خرابیِ صحت کی وجہ ہیں۔ نور پہلے ہی بڑے بڑے ڈاکٹروں، یونانی اور ہومیوپیتھک معالجوں سے علاج کروا چکی تھی، اور بہت سا پیسہ خرچ بھی کر چکی تھی۔ اس کی ہر میڈیکل رپورٹ نارمل آتی تھی، مگر بیماری کا کچھ پتہ نہ چلتا۔ جب بھی وہ کسی عامل کے پاس جاتی، وہ یہی پوچھتی کہ کیا کسی قریبی رشتہ دار نے میری شادی پر بندش کروائی ہے؟ اور ہر بار عامل یہی جواب دیتا کہ ہاں بی بی، تمہارے قریبی رشتہ داروں نے تمہاری شادی اور صحت دونوں پر سخت بندش کروائی ہے، اسی لیے تمہارا چہرہ بے رونق، زرد اور بجھا بجھا سا لگتا ہے۔ جب تک اس جادو کا توڑ نہیں ہوتا، تمہاری حالت بہتر نہیں ہو سکتی، اور تمہارے نصیب پر لگی مہر نہیں ہٹے گی۔ یہی باتیں نور کے ذہنی انتشار کا سبب بن رہی تھیں۔ اب وہ اُس نئے عامل کے پاس ہر ہفتے جانے لگی۔ دُردانہ کی کزن عاصمہ بھی وہاں جاتی تھی، اپنے نابینا بھائی عامر کے ساتھ۔ وہ اس کی بینائی کی بحالی کے لیے عمل کرواتی تھی۔ عامر کی آنکھیں بالکل نارمل تھیں، مگر اچانک اسے نظر آنا بند ہو گیا۔ کسی نے کہا تھا کہ عامل سے پڑھائی کرواؤ۔ اگرچہ ڈاکٹروں سے بھی اس کی بینائی کا مکمل معائنہ کروایا گیا، لیکن کوئی مسئلہ سمجھ نہ آیا، اور بینائی واپس نہ آ سکی۔
عاصمہ کا تعلق لوئر مڈل کلاس گھرانے سے تھا۔ وہ خود ایک دفتر میں بطور کلرک کام کرتی تھی۔ ان کے کچھ رشتہ دار خوشحال تھے، مگر ان کی اپنی مالی حالت خاصی کمزور تھی۔ اس کا ایک بھائی بیرونِ ملک گیا ہوا تھا، مگر وہاں بمشکل اپنا گزارہ کرتا تھا، اس لیے گھر کچھ نہیں بھیج پاتا تھا۔ دوسرا بھائی عامر نابینا ہو چکا تھا، جبکہ تیسرا بھائی فاخر ایک معمولی ملازمت کرتا تھا، جس سے گھر کا نظام کسی نہ کسی طرح چل رہا تھا۔ ان کا اپنا ذاتی مکان بھی نہیں تھا۔ عاصمہ نے نور کو بتایا کہ اس کا بھائی عامر ایک دوا ساز فیکٹری میں ملازم تھا، جہاں دشمنی کی بنیاد پر کسی نے اسے کیمیکل ملا پانی پلا دیا، جس کے نتیجے میں وہ بینائی سے محروم ہو گیا۔ یہ بات سمجھ میں آنے والی نہ تھی کہ کیمیکل کے اثرات صرف آنکھوں پر پڑے، باقی جسم پر کوئی نقصان نہ ہوا۔ عامل کے گھر عاصمہ اور نور کی تفصیلی ملاقات ہوئی، جس کے بعد دونوں میں دوستی ہو گئی۔
چند ملاقاتوں کے بعد نور کو عامر سے ہمدردی ہونے لگی۔ عامر صورت میں اچھا تھا، اور بظاہر اس میں نابینا ہونے کے علاوہ کوئی اور خامی نہیں تھی۔ عاصمہ نے باتوں باتوں میں نور کے حالات پوچھے، جو اس نے اپنے سادہ دل کے باعث کھل کر بتا دیے۔ عاصمہ نے اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی، جسے نور نے قبول کیا۔ عاصمہ کے والدین، بھائی اور بھابھیوں نے نور کا خیر مقدم کیا، اور عامر کے والدین نے تو اسے منہ بولی بیٹی بنا لیا۔ وہ محبت کی پیاسی تھی اور یہاں اسے خلوص و محبت ملا، جبکہ اپنے گھر میں وہ تنک مزاجی اور بھابھیوں کے رویوں کے باعث زندگی سے بیزار رہتی تھی۔ ان لوگوں کی میٹھی باتوں سے متاثر ہو کر وہ اکثر ان کے گھر جانے لگی، مگر اس کے گھر والوں کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہوتی۔
وہ اسکول کے بعد یا چھٹی کے دن صبح سے شام تک وہاں رہتی، اور پھر رات کو آٹھ بجے کے قریب گھر واپس آتی۔ اگر کوئی پوچھتا کہ کہاں گئی تھی، تو دردانہ کا نام لے دیتی کہ ہم دونوں ساتھ تھے۔ اس کی بد مزاجی کے باعث بھابھیاں اس کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرتی تھیں، اور خودسری کی وجہ سے بھائیوں نے بھی اس سے لا تعلقی اختیار کر لی تھی۔ وہ ہر کسی کو یہی جواب دیتی کہ میں بالغ ہوں، اپنا اچھا برا خوب جانتی ہوں۔ عاصمہ اس پر محبت کا جال پھینک رہی تھی اور چاہتی تھی کہ کسی طرح نور کی شادی اپنے نابینا بھائی سے کروا دے، کیونکہ وہ بھانپ چکی تھی کہ نور عامر سے ہمدردی رکھتی ہے۔ وہ نور کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی تھی کہ لوگ اس کی زیادہ عمر کے باعث رشتے سے انکار کر دیتے ہیں، حالانکہ وہ خوش شکل ہے مگر اب چہرے پر عمر کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں، بہتر ہے کہ وہ ایسے شخص سے شادی کر لے جو اسے دیکھ ہی نہ سکے۔ اللہ تعالیٰ نابینا کا سہارا بننے کے عمل کو پسند کرے گا اور اس پر اجر دے گا، اور اس کے گھر والے بھی اس نیکی کی بنا پر نور کی قدر کریں گے۔
عاصمہ کے گھر والوں کے علاوہ نور کی عامر سے بھی اچھی شناسائی ہو چکی تھی۔ عاصمہ کی بار بار ایسی باتیں دہرانے سے نور سوچنے لگی کہ اگر وہ کسی نابینا سے شادی کر کے اس کی زندگی میں خوشی لا سکتی ہے تو ممکن ہے اللہ تعالیٰ اسے بدلے میں صحت و سکون عطا کر دے۔ نور سادگی میں اپنے گھر کے حالات، جائیداد، بینک بیلنس اور نوکری کی تفصیلات عاصمہ کو بتا چکی تھی۔ وہ یہ بھی کہہ چکی تھی کہ وہ کسی کی محتاج نہیں، بھابھیوں کا دباؤ کیوں سہے، جبکہ وہ اپنی کمائی خود کھاتی ہے۔ ایک دن ترنگ میں آ کر اس نے اپنی والدہ کے دیے ہوئے قیمتی زیورات بھی عاصمہ کو دکھا دیے۔ اب عاصمہ کا خاندان اسے بار بار دعوت دینے لگا۔ ان کا مقصد نورکی شادی عامر سے کروا کر، گھر بیٹھے سونے کی چڑیا ہاتھ لگانا تھا تاکہ اس کے مال سے پورا کنبہ عیش کرے اور مالی حالات بھی سنور جائیں۔
نور ان کی نیت کو نہ سمجھتے ہوئے انہیں سچا ہمدرد سمجھنے لگی اور عاصمہ کی باتوں میں آ کر آئے دن اپنے گھر والوں سے الجھنے لگی۔ اب اس کی عمر چالیس سے بھی زیادہ ہو چکی تھی، مگر وہ مسلسل عاصمہ کے گھر جاتی اور وہاں سکون محسوس کرتی، حالانکہ وہ لوگ کبھی اس کے گھر نہ آئے۔ عاصمہ نے اسے سمجھا رکھا تھا کہ فی الحال اپنے گھر والوں کو یہ مت بتانا کہ تم ہمارے گھر آتی جاتی ہو، صرف دردانہ کا نام لینا کیونکہ وہ تمہاری کولیگ ہے، تو زیادہ اعتراض نہیں ہوگا۔
ایک روز نورکی بھابھی نے اپنے شوہر سلیم سے کہا کہ تمہیں معلوم ہے تمہاری بہن روز رات نو بجے گھر آتی ہے؟ میں تو کچھ کہتی نہیں، ورنہ لڑنا شروع کر دیتی ہے، تم ہی پوچھ لو۔ سلیم کو اپنی بہن نور پر اعتماد تھا، اس نے بیوی کو جواب دیا کہ ٹھیک ہے، کسی دن پوچھ لوں گا، تم کیوں پریشان ہوتی ہو؟ بیوی بولی کہ مجھے ہمارے پرانے محلہ دار کی بیوی نے بتایا ہے کہ نور ہمارے پڑوس میں عاصمہ کے گھر آتی جاتی ہے، جس کا ایک بھائی نابینا ہے۔ سلیم نے بیوی کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ یہ کون سی انوکھی بات ہے، میں نور سے خود پوچھ لوں گا۔ کچھ دن بعد جب سلیم گھر میں موجود تھا اور نور دیر سے واپس آئی، تو اس نے پوچھا کہ نور، تم اتنی دیر کہاں تھیں؟ وہ بولی کہ دردانہ کے گھر تھی، ہم بچوں کی امتحانی کاپیاں چیک کر رہے تھے، عاصمہ اُس کی کزن ہے، وہ بھی مدد کرتی ہے۔ نور کی بات سن کر سلیم مطمئن ہو گیا، اور بھابھی خاموش ہو گئی، لیکن اُسے اپنے میکے کی پڑوسن کے ذریعے اب تمام حالات کی خبریں ملنے لگیں، کیونکہ وہ عاصمہ کے برابر میں رہتی تھی۔ جب بھی بھابھی شوہر سے کچھ کہنا چاہتی، سلیم اُسے ڈانٹ کر خاموش کرا دیتا، تب وہ اپنی جٹھانی کو نور کے بارے میں بتانے لگی۔
ایک دن بالآخر نورنے خود ہی کہہ دیا کہ وہ عاصمہ کے نابینا بھائی عامر سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ بھائیوں نے سمجھایا کہ وہ لوگ مالی لحاظ سے کمزور ہیں، اور تم پر عمر بھر ایک نابینا شوہر کا بوجھ آ جائے گا، جسے نبھانا آسان نہیں ہوگا۔ بچوں کی پرورش، گھر کا خرچ، سب کچھ تم پر ہوگا۔ مگر جب نور نے دیکھا کہ بھائی نہیں مان رہے، تو اُس نے عاصمہ اور اُس کے والدین کی موجودگی میں عامر کے ساتھ کورٹ میرج کر لی، جبکہ لڑکی کی طرف سے کوئی موجود نہ تھا، اور اہلِ خانہ کو اس بات کی خبر تک نہ ہوئی۔ نکاح کے بعد نور نے اپنی خالہ زاد ماہرہ کو اعتماد میں لیا اور اسے کہا کہ فی الحال میرے گھر والوں کو شادی کی اطلاع نہ دینا، صرف اتنا کہنا کہ میں ان کے گھر والوں سے مل چکی ہوں، اچھے لوگ ہیں۔ یوں ماہرہ نے بیچ میں پڑ کر ان کے رشتے کی راہ ہموار کی۔ انہی دنوں عامر کا بیرونِ ملک مقیم بھائی واپس آگیا اور اس نے ماہرہ کے ذریعے نور کے بھائیوں کو رشتہ بھیج دیا۔ جب بھائیوں نے نور سے پوچھا کہ کیا واقعی تم ایک نابینا شخص سے شادی پر آمادہ ہو؟ تو وہ بولی کہ ہاں، میں انسانیت کی خاطر یہ نیکی کرنا چاہتی ہوں، اور جو قسمت میں ہوگا، دیکھا جائے گا۔ میں برسر روزگار ہوں، آپ لوگوں پر مالی بوجھ نہیں ڈالوں گی۔ ماہرہ نے بھی عامر کے کردار کی تعریف کی۔ یوں بھائیوں نے یہ سوچ کر کہ اب نور کی شادی کی عمر نکل چکی ہے، اور یہ اُسی کا ردِ عمل ہے کہ اس نے پہلے اچھے رشتے رد کیے، اب ایک نابینا کو بھی قبول کرنے پر تیار ہے، رشتہ منظور کر لیا۔
نکاح کے وقت لڑکے والوں نے کہا کہ ہمیں نہ کچھ لینا ہے نہ دینا، بس آپ اپنی بہن کو سادگی سے، بغیر جہیز کے رخصت کر دیں۔ یوں بھائیوں نے بہن کی خوشی کے لیے اسے ایک نابینا شوہر کے ساتھ رخصت کر دیا۔ شادی کے بعد نور چند دن سسرال میں رہی، پھر شوہر کے ساتھ میکے آئی، تو بھائی اور بھابھیوں نے خوش دلی سے استقبال کیا۔ تین دن گزارنے کے بعد وہ واپس چلے گئے، مگر دو دن بعد دوبارہ آ گئے اور بتایا کہ مالک مکان نے عدالت سے مقدمہ جیت کر گھر خالی کروا لیا ہے، اور ان کا سارا سامان گلی میں رکھ دیا گیا ہے۔ عامر کے والدین اور بہن بھائی عارضی طور پر بڑے بھائی کے سسرال میں چلے گئے ہیں، اور نور اپنے شوہر کے ساتھ میکے آ گئی ہے۔ نور نے بھائیوں سے کہا کہ میں جیٹھ کے سسرال میں نہیں رہنا چاہتی، جب تک سسرال والے کوئی معقول رہائش تلاش کریں، ہمیں اپنے گھر میں اوپر والا پورشن دے دیں۔ ایسے موقع پر بھائی کیا کہتے؟ انہوں نے اوپر کا حصہ رہنے کو دے دیا، کیونکہ ایک نابینا شوہر کے ساتھ وہ کہاں جاتی؟ دوسرا فائدہ یہ بھی تھا کہ نور کے اسکول کی ملازمت میکے کے قریب تھی، جس سے آنے جانے میں آسانی ہوتی تھی۔ البتہ چھٹی کے دن وہ عامر کو لے کر سسرال جاتی، تاکہ وہ اپنے والدین سے ملاقات کر سکے۔
دو ماہ گزر گئے مگر عامر کے ماں باپ کا کوئی پتا نہ چلا، پھر دو ماہ مزید بیت گئے، وقت کے ساتھ نور کے چہرے سے رونق اور خوشی غائب ہو گئی، بھابھی نے پوچھا تو بتایا گیا کہ ساس و نند نے کہا کہ تم امیر گھر سے تھیں پھر بھی جہیز میں کچھ نہ لائے، اس لیے اپنے والد کی جائیداد سے مکان کا حصہ لو کیونکہ ہمارے پاس رہنے کو اپنا گھر نہیں، اور اگر کرائے کا گھر بھی مل بھی گیا تو اتنے بڑے کنبے میں تمہارا رہنا مشکل ہوگا، ماہرہ نے رخصتی کے وقت نور سے کہا تھا کہ ابتدائی طور پر سسرال میں نہ تو قیمتی جوڑے یا زیورات لے کر جانا اور نہ روپے پیسے، کیونکہ انہوں نے کچھ بھی نہیں دیا، پہلے ان کا برتاؤ دیکھو اور پرکھو، نور نے یہی سمجھ بوجھ سے کیا، جبکہ عاصمہ اور اس کے والدین امید کرتے تھے کہ نور کچھ اثاثے، زیورات یا بینک بیلنس ساتھ لائے گی تاکہ وہ بزنس شروع کریں اور گاڑی وغیرہ خریدیں کیونکہ یہ لوگ بہت امیر ہیں، مگر نور صرف ایک سادہ لال جوڑے اور شادی کے وقت پہنایا گیا سونے کا ایک سیٹ ہی لے کر آئی۔
اب عاصمہ نے تقاضا شروع کر دیا کہ بھائیوں سے مکان کا حصہ لو اور اپنے بینک بیلنس سے فاخر بھائی اور اپنے سسر کے ساتھ کاروبار شروع کرو تاکہ تم لوگ ماہانہ منافع سے سکون سے گزارہ کر سکو، مگر بھائیوں نے انکار کیا اور کہا کہ جو تمہارے مکان کا حصہ ہے وہ تمہیں ملے گا لیکن ابھی تقسیم کا وقت نہیں ہوا، ہم سب اکٹھے رہ رہے ہیں تتر بتر ہو جائیں گے، اگر تم رہنا چاہتی ہو تو شوہر کے ساتھ یہاں رہو، عامر خاموش رہا، اسے کسی کے رحم و کرم پر رہنا عادی تھا، لیکن عاصمہ کا مطالبہ تھا کہ مکان بیچ کر نیا گھر خریدو تاکہ تم، عامر، میرے والدین اور ہم سب اکٹھے رہ سکیں، ہم نے تمہارا رشتہ اس لیے لیا کہ تم ہم سب کا خیال رکھو گی، میرے بوڑھے والدین اور میں، عامر اور تم، سب ساتھ رہیں گے، نور کے بھائی کہتے تھے کہ ہم ایک نابینا بہنوئی کا تو خیال رکھیں گے لیکن اس کے پورے گھرانے کو سنبھالنے کی ذمہ داری ہماری نہیں، ان کو ان کے دوسرے لڑکوں کو سنبھالنا چاہیے، اس رویے سے اختلاف پیدا ہوگیا، نور سسرال واپس نہ گئی، جاتی بھی تو کیسے اور کہاں کیونکہ وہاں رہنے کو گھر بھی نہیں تھا۔
عامر نے بھی کچھ دن بیوی کے پاس قیام کے بعد اپنے والدین کے ہاں جانا مناسب سمجھا، لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ یہ جدائی عارضی نہیں بلکہ دائمی ہوگی، جب عاصمہ اور اس کے والدین نے اپنے مقاصد حاصل نہ کیے جن کی خاطر انہوں نے نور کو رشتہ دیا تھا تو وہ اس سے منہ موڑ گئے اور عامر کو بھی ساتھ لے گئے، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ نور چالیس سال کی ہے جبکہ ہمارا بھائی بائیس سال کا، اس عمر میں اتنی بزرگ بیوی سے اسے کیا سکھ ملے گا، ایک وقت آئے گا جب یہ عورت بوڑھی ہوجائے گی اور اس کے بچوں کو کون سنبھالے گا، اب نور کو احساس ہوچکا تھا کہ اس کے سارا اثاثہ قبضے میں لے کر اسے محتاج بنایا گیا، اگرچہ اس کی عقل نے سچ سمجھ لیا تھا، مگر وہ طلاق نہیں چاہتی تھی، لیکن جب اس نے نند و جیٹھ کی شرائط قبول نہیں کیں تو انہوں نے خود ہی طلاق بھجوادی، نور نے بعد میں تسلیم کیا کہ جذبات میں آکر شادی کرنا اس کی غلطی تھی، نابینا شوہر کے ساتھ نباہ اس وقت ہی ممکن ہے جب انسان بے غرض ہو، لیکن عامر نے اب پیسوں کے لیے بھی اس پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔
نور نے اپنے اچھے جذبے کی بنا پر اس کا خرچہ برداشت کیا، مگر سسرال والوں نے دو دن بھی اسے سکون سے نہ رکھا اور اپنی شرائط لاگو کر دیں، بعد میں اسے معلوم ہوا کہ عامر کچی شراب بناتا بیچتا تھا اور خود بھی استعمال کرتا تھا، اسی وجہ سے اس کی آنکھیں ضائع ہو گئیں، یہ بات اس کی ایک سسرالی رشتہ دار نے بتائی، طلاق کے بعد محلے والں، ملنے والوں، رشتہ داروں نے بھی نور کو مجرم سمجھا کہ باوجود نابینا ہونے کے بھی تم اس سے شادی کیوں کی، تمہیں چاہیے تھا کہ سہاگن کا ڈھونگ نہ رچاتی یا کم از کم سہاگت کا چار دن کا کھیل نہ کھیلتی، نور اب پچھتاتی تھی کہ جب والدین زندہ تھے اچھے رشتے آتے تھے، وہ انہیں ٹھکرا دیتی تھی، اب اسی غرور کی سزا اسے مل گئی۔
.jpg)