بد گمانی کی موت

Sublimegate Urdu Stories

پہلا دن جب کالج میں قدم رکھا، تو ایک پیاری سی لڑکی سے ملاقات ہوئی۔ اس کا نام نازش تھا۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس کی خوبصورتی نے ہی متاثر کیا تھا۔ نازش کو اپنے حسن کا ذرا بھی احساس نہ تھا اور نہ ہی وہ اس پر غرور کرتی تھی۔ اس کے حسن میں پاکیزگی تھی۔ اس نے کبھی نظر اٹھا کر کسی غیر مرد کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ وہ اخلاق کی بہت اچھی تھی۔ اسی وجہ سے میں نے اس سے دوستی کر لی۔ کالج کی لڑکیاں نازش سے حسد کرتی تھیں کیونکہ اس کی چمکتی آنکھوں اور چاند جیسے چہرے سے وہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتی تھیں۔ 

ہم دونوں کے خواب ایک جیسے تھے۔ ہم دونوں ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں۔ پڑھائی میں وہ بہت اچھی تھی۔ خدا نے اسے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ہم دوسری لڑکیوں کی طرح گپ شپ میں وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔ ہمہ وقت پڑھائی میں گم رہتے تھے، کیونکہ ہمیں ڈاکٹر بن کر اپنی منزل حاصل کرنی تھی۔ امتحان شروع ہونے والے تھے۔ میرا اور نازش کا رول نمبر آ گیا، تو ہم الگ الگ گروپس میں بٹ گئے۔ پیپرز ہو گئے تو میں نے اس کے گروپ کی لڑکیوں سے پوچھا: ’’نازش کے پیپرز کیسے ہوئے ہیں؟ پھر جو بات سامنے آئی، وہ حیران کن تھی کہ اس نے تو کوئی پیپر دیا ہی نہیں! یہ خبر سن کر میں بہت غمزدہ ہو گئی۔ جو لڑکی کہا کرتی تھی کہ مجھے ہر صورت اپنے والدین کے خوابوں کی تعبیر بننا ہے، وہ پیپرز میں شامل ہی نہ ہو سکی۔ میں فوراً اس کے گھر گئی۔ 

وہ بیمار لگ رہی تھی۔ میں نے پوچھا: نازش، تمہیں کیا ہوا؟ خیریت تو ہے؟ وہ رونے لگی اور بولی: جہاں آراء، میں بیمار ہوں۔ چکر آتے ہیں، سانس پھول جاتا ہے، لیکن والدین کو میری بیماری کا یقین نہیں آتا۔ ایک بار امی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں تو ڈاکٹر نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے، کوئی بیماری نہیں ہے۔ مگر میں محسوس کرتی ہوں کہ میں ٹھیک نہیں ہوں۔ چند قدم بھی نہیں چل سکتی، اسی وجہ سے پیپرز نہیں دے سکی-ابھی ہم بات کر رہے تھے کہ اس کی امی آ گئیں اور بولیں: جہاں آراء، تم نازش کو سمجھاؤ، ضد نہ کرے۔ اس کے چچا شادی کی تاریخ مانگ رہے ہیں اور یہ انکار کر رہی ہے۔ بیٹیاں اپنے گھر میں ہی اچھی لگتی ہیں۔

 یہ سن کر نازش مایوس ہو کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ میں بھاگ کر اس کے پیچھے گئی، وہ رو رہی تھی۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی۔ میں نے اُسے گلے لگایا، دلاسا دیا اور پوچھا: تم نے اپنی امی سے نہیں کہا کہ شادی بعد میں کریں، پہلے تعلیم مکمل کرنے دیں؟ تم تو بہترین طالبات میں شمار ہوتی ہو۔ جانے کیا بات ہے جہاں آراء! یہ میری بات ہی نہیں سنتے۔ کہتے ہیں کہ تم تیزی سے موٹی ہو رہی ہو، تمہارا پیٹ بڑھتا جا رہا ہے۔ بدہیئت ہو جاؤ گی تو کون تم سے شادی کرے گا؟ میں نے کئی بار کہا ہے کہ مجھے شادی کی جلدی نہیں ہے اور میں واقعی بیمار ہوں، کیونکہ میرا ہارمون سسٹم خراب ہو چکا ہے، مگر وہ جانے کیوں دوبارہ ڈاکٹر کو دکھانے سے ڈرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ شادی ہی علاج ہے۔ شاید اس لیے ڈاکٹر کو نہیں دکھاتے کہ ڈرتے ہیں کہیں واقعی کوئی بیماری نہ نکل آئے، تو علاج کروانا پڑے گا۔ کیا ماں باپ ایسے ہوتے ہیں؟ نازش روتے ہوئے بولی۔ تم اپنے ہونے والے شوہر سے بات کرو، وہ تمہارا چچا زاد ہے اور تمہیں بچپن سے پسند کرتا ہے۔ اُس سے کہو کہ مجھے پڑھنے کی مہلت دے۔ 

 بات کی ہے میں نے، مگر وہ بھی یہی کہتا ہے کہ شادی کے بعد پڑھ لینا۔ جیسے اُسے بھی شادی کا بے حد شوق ہو۔ پہلے تو کہتا تھا کہ نازش، تم جتنا چاہو پڑھو، میں تمہارے ڈاکٹر بننے کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنوں گا۔ مگر اب اُسے بھی میرے والدین نے اپنا ہم خیال بنا لیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تم لڑکی ہو، نہ بھی پڑھو تو کیا؟ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا ہوں، تم گھر سنبھال لینا، میں زیادہ کما لوں گا۔ ماں باپ کے سمجھانے سے اس کے خیالات بھی بدل گئے ہیں۔ اب وہ جلد شادی سے بہت خوش ہے۔ تمہیں پتا ہے، خیام مجھے پسند ہے۔ میں اسے بہت چاہتی تھی، پر اب تو مجھے ہر وقت اُس پر غصہ آتا ہے۔ اُس نے بھی میری بات نہیں مانی۔تب میں نے سرد آہ بھر کر کہا کہ جب وہ تمہیں پسند ہے اور تمہارے گھر والوں کو بھی، اور تم بھی اسے پسند کرتی ہو، تو بات بگاڑو مت، شادی کر لو۔ شاید اسی میں تمہاری بھلائی ہو۔ رہی بیماری کی بات، تو تمہارے والدین علاج کے خرچے سے ڈر رہے ہیں، لیکن سسرال والے تمہیں بخوشی قبول کر رہے ہیں، وہ تمہارا علاج بھی کروا لیں گے۔

نازش نااُمید ہو کر بولی کہ تم میری پیاری سہیلی ہو، تم بھی ایسا کہہ رہی ہو؟ قسمت میں ہوا تو پڑھائی بعد میں کر لوں گی۔ اچھا، تم میری شادی میں آؤ گی ناں؟اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں نے پہلی بار ایسی لڑکی دیکھی تھی جو اپنی پسند کے منگیتر سے شادی ہونے پر بھی اتنی ناخوش تھی۔ میں اُسے خدا حافظ کہہ کر رخصت ہو گئی کیونکہ معاملہ میری سمجھ سے باہر تھا۔ہفتے بعد اس کی شادی تھی۔ مایوں والے دن اس کی امی خاص طور پر مجھے بلانے آئیں، پھر دھوم دھام سے شادی ہو گئی۔ رخصتی والے دن نازش مجھ سے گلے مل کر خوب روئی۔ شادی کے بعد میں پریکٹیکل کی تیاری میں لگ گئی۔ پیپرز بھی ہو گئے۔ گرمیوں کی چھٹیاں ملیں تو میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی۔ ایک خیال تھا کہ اب نازش کے گھر جاؤں گی۔ مجھے یقین تھا کہ وہ شادی کے بعد اپنے گھر میں خوش ہو گی اور اس کی بیماری بھی ٹھیک ہو گئی ہو گی، یا کم از کم اس کا علاج ہو چکا ہو گا۔

میں نے پتا کروایا کہ وہ میکے کب آئے گی؟ اس کی والدہ نے کہلوا بھیجا کہ نازش میکے میں ہی ہے۔ میں فوراً اس کے گھر چلی گئی، مگر اس کی حالت دیکھ کر ششدر رہ گئی۔وہ اُجڑی ہوئی، اپنے کمرے میں پلنگ پر پڑی تھی۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ، مگر پیٹ پھولا ہوا۔ میری آواز سن کر اُٹھی اور گلے لگ گئی۔ اس کے گلے میں سسکیاں اٹکی ہوئی تھیں۔ اُسے اتنا دکھ تھا کہ وہ ٹھیک سے رو بھی نہ سکتی تھی۔بڑی مشکل سے میں نے اُسے سنبھالا، پلنگ پر لٹایا اور حال پوچھا۔ کہنے لگی کہ شادی کے بعد میری طبیعت سنبھلی نہیں، بلکہ مزید بگڑ گئی۔ نقاہت بڑھتی گئی، یہاں تک کہ میں کھڑی بھی نہ ہو سکی۔ کھانا کھاتی تو اُلٹی ہونے لگتی۔ خیام سے کہا کہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے چلو، مجھے چکر آتے ہیں اور پیٹ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ اُس نے اپنی ماں سے بات کی۔ وہ ان پڑھ عورت ہے، اُس نے پڑوسن سے مشورہ کیا، جو اس سے بھی زیادہ جاہل نکلی۔کہنے لگی کہ مجھے تو کچھ اور ہی لگتا ہے۔ پہلے گھر میں دائی کو بُلا کر دکھا دو، کیا خبر کیا معاملہ ہے؟ اگر اسپتال تک بات پہنچی، تو بدنامی ہو جائے گی۔
اُس پڑوسن نے سب کو ایسا شک میں ڈال دیا کہ ان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ پھر انہوں نے میری ماں کو بلوا کر کہا کہ تمہاری بیٹی کا معاملہ پہلے سے ہی کچھ مشتبہ لگتا ہے۔ ہم نے محلے کی دائی کو بلوایا، اس نے کہا کہ کل شادی ہوئی ہے، اور آج ہی پیٹ اتنا بڑھا ہوا ہے؟ یہ تو میکے سے ہی معاملہ چلا آ رہا ہے۔ لڑکی کی ماں ہی اس راز سے پردہ اٹھا سکتی ہے کہ کیوں اتنی جلدی چٹ منگنی پٹ بیاہ کر دیا؟ پڑھائی بھی فوراً چھُڑوا دی، سوچنے کی مہلت بھی نہ دی۔ جلدی جلدی اپنی بلا دوسروں کے سر ڈال دی گئی تاکہ خود بدنامی سے بچ سکیں۔ لیکن قتل کی طرح، گناہ کبیرہ بھی زیادہ دیر چھپتے نہیں۔ برائی آخرکار ظاہر ہو کر ہی رہتی ہے۔ایسی باتوں نے ساس، سسر اور خیام کو نازش سے بدظن کر دیا۔ انہوں نے بھی جہالت کا ثبوت دیا۔ بجائے اس کے کہ اُسے ڈاکٹر کے پاس لے جاتے، اُسے میکے کی دہلیز پر چھوڑ گئے۔ یہ کہہ کر کہ جس کا گناہ ہے، وہی سزا بھگتے، ہم کیوں کسی اور کی بلا اپنے سر لیں؟انہوں نے طلاق لکھ دی، اور اس میں بھی بدچلنی کا الزام لگا دیا۔ 

یوں میری سہیلی کو کوئی خوشی راس نہ آئی۔ اس کا چہرہ اور ہاتھ پاؤں سوکھتے جا رہے تھے۔ غذا بند ہو گئی تھی اور اب صرف دودھ کے چند گھونٹ پی کر زندہ تھی۔انہی دنوں نازش کے بہنوئی ظفر لندن سے آ گئے، وہ ڈاکٹر تھے۔ گھر والے نازش کو مختلف سوالات سے ہراساں کر رہے تھے کہ بتا! تیرا ایسا حال کیوں ہوا؟ بہنوئی نے اُس کی حالت دیکھی تو فوراً کہا، مجھے لگتا ہے کہ اس کے پیٹ میں رسولی ہے۔ آپ لوگوں نے بروقت علاج کیوں نہیں کروایا؟ کیا کسی ماہر ڈاکٹر یا اسپیشلسٹ کو دکھایا؟ساس نے دبے الفاظ میں کہا کہ بدنامی کے خوف سے نہیں دکھایا۔ظفر نے کہا، کمال ہے آنٹی! آپ کی بیٹی موت کے منہ میں جا رہی ہے اور آپ اس خوف سے اسے ڈاکٹر کو نہیں دکھا رہے کہ کہیں بدنامی نہ ہو جائے؟اس نے فوراً ایمبولینس منگوائی اور نازش کو اسپتال لے گیا۔ ٹیسٹوں سے پتا چلا کہ پیٹ میں رسولیاں بڑھ چکی ہیں۔ آپریشن کیا گیا، لیکن کامیاب نہ ہو سکا کیونکہ یہ رسولیاں بروقت علاج نہ ہونے کے باعث کینسر میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ ظفر گھر والوں پر برس پڑا کہ حد کر دی آپ لوگوں نے! ایک بار بھی بیٹی کا ایکسرے تک نہیں کروایا؟ پڑھے لکھے ہو کر بھی اتنی غفلت اور الٹی سوچ؟ جب کہ بچی مسلسل رو رو کر یقین دلاتی رہی کہ اسے واقعی کوئی بیماری ہے، ڈاکٹر کو دکھائیں۔اب نازش کے والدین کو ہوش آیا، تو یہی سوچتے رہ گئے کہ ہم سے کیسا ظلم ہو گیا۔ وہ ساری عمر بدنامی سے بچنے کی ترکیبیں سوچتے رہے، لیکن بیٹی کو مرتے دم تک یقین دلانے کا موقع نہ دیا۔ادھر خیام کے والدین کی ذہنی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ وہ بھی بدنامی کے خوف سے بہو کو علاج کے لیے اسپتال لے کر نہ گئے اور جاہل دائی کی بات پر یقین کر بیٹھے۔
کتنا ظالم ہے ہمارا معاشرہ، جہاں سگی اولاد اور شریکِ حیات کے درد اور سچ کو بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ سیدھی سادی لڑکی کے رونے، بلکنے اور قسمیں کھانے کا یقین نہ کیا گیا، بلکہ الٹے سیدھے سوالات کر کے اسے مزید پریشان کیا گیا۔بیچاری نازش رو رو کر بے حال تھی۔ وہ آپریشن سے ڈرتی تھی اور اب جبکہ سب ڈر ختم ہو چکے تو اس کے والدین رو رو کر نڈھال تھے۔ سسرال والے ندامت محسوس کر رہے تھے کہ ان سے کتنی فاش غلطی سرزد ہوئی ؟ دیہاتی نہ تھے ، شہری تھے ، پھر بھی ایک شریف لڑکی کا علاج کرانے کے بجائے اس کو بد چلن سمجھ لیا۔ آخری بار ملاقات میں اس نے مجھ سے کہا تھا کہ جہاں آراء دیکھ لینا! جب میں مر جاؤں گی، پھر سے سب روئیں گے۔ تکلیف سے مجھ سے دو قدم چلا نہیں جاتا اور یہ کہتے ہیں کہ گناہ گار کا نام بتاؤ۔ حالانکہ میرے اندر کوئی ایسی بیماری ہے کہ میرا یہ حال ہے۔ اگر میں بیمار نہ ہوتی تو میرا اتنا برا حال تو نہ ہوتا۔ اب مجھے جینے کی تمنا بھی نہیں ہے۔ 

نازش صرف دو ماہ زندہ رہ سکی۔ ایک ڈاکٹر ہونے کے ناتے ظفر کو نازش کے فوت ہونے کا بہت دکھ ہوا۔ وہ کہتے تھے کہ اگر پہلی اسٹیچ پر اور جلد علاج ہو جاتا، تو نازش کی زندگی بچائی جا سکتی تھی، مگر گھر والوں نے دیر کر دی، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ ایک بے گناہ زندگی کی بازی ہار چکی تھی۔
 (ختم شد)
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ