مہرو کی ساری رات آنکھوں میں کٹی تھی۔ اُس نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر غزان کے نمبر پر تین سے چار بار کالز بھی کیں، لیکن اُس کا نمبر بند تھا۔ رات بھر رونے سے اُس کی آنکھیں سوج گئیں۔ صبح شازیہ بیگم کو دیکھتی اور اُن کے پاس آئی، جو کچن کی جانب بڑھتے ملازم سے ناشتہ لگوانے لگی تھی۔ آنٹی، غزان نہیں آیا؟ وہ اُس کے ساتھ اپنا رشتہ شروع کر چکا ہو گا۔ مہرو ہچکیوں سے رو رہی تھی۔ تو اب کیا ماتم بناؤں؟ شازیہ بیگم رات بھر ٹھیک طرح سے سو بھی نہیں سکی تھی۔ اوپر سے اب پھر سے مہرو کی وہی باتیں، وہ ضد سی ہونے لگی۔ آنٹی، آپ کیا بول رہی ہیں؟ آپ تو نہیں چاہتی تھیں کہ شانزے اور غزان ایک ہوں، پر ہو گئے نا۔ شازیہ بیگم نے اُس کی بات کاٹی اور گہرا سانس بھرا۔
کچھ باتیں اللہ کی طرف سے ہو جاتی ہیں۔ مہروک، ہم چاہے کتنی ہی کوشش کر لیں، نہیں بدل سکتے، کیونکہ وہ اوپر والا ہے نا، اُس سے کوئی نہیں لڑ سکتا۔ اگر غزان اور شانزے ایک ہو گئے ہیں تو اُن کو پھر کوئی نہیں کر سکتا۔ اس لیے بہتر ہے جو جیسا چل رہا ہے، اُسے چلنے دو۔ شازیہ بیگم نے تلخی بھرے لہجے میں کہا۔ آنٹی، آپ اتنی جلدی بدل جائیں گی، مجھے اندازہ نہیں تھا۔ وہ آنسو پونچھتی زخمی لہجے میں بولی اور اندر کی جانب بڑھ گئی۔ تو وہ لب پہ چبائے دروازے کو دیکھتی رہ گئی۔ اُن کو تو اب بس ایک ہی فکر ستا رہی تھی کہ یہ نہ ہو شانزے غزان کو سب کچھ بتا دے۔ ایسے میں غزان اُن سے بدگمان ہو جائے گا، اور وہ ہرگز نہیں چاہتی تھیں۔
٭٭٭
صبح آنکھ کھولی تو شانزے کو یوں لگا جیسے وہ ہواؤں میں ہے۔ گھبرا کر یکدم آنکھیں کھولیں تو نظروں کے سامنے غزان کا چہرہ لہرایا اُس کے چہرے پر ایک بہت گہری اور معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ وہ اُس کے لیے باتھ روم میں آیا۔ شانزے نے گھبرا کر غزان کو دیکھا۔ “باتھ ٹب رومانس سنا تو ہوگا؟” ایک آنکھ ماریں کرتے ہوئے وہ باتھ ٹب میں گر گیا۔ شانز کا پانی میں ایک دم سانس بند ہو گیا۔ وہ گہری سانسیں بھرتا سر باہر نکالا۔ غزان کو باتھ ٹب میں آتا دیکھ کر پیچھے ہٹ گئی۔ “سر، آپ کیا کر رہے ہیں؟ کوئی آ جائے گا!” شانزے کا دل 120 کی رفتار سے دھڑک رہا تھا۔ “یہاں میرے علاوہ تمہارے پاس کون آئے گا؟” گلاب کے پھولوں کی پتیوں کو اُس کے چہرے پر گراتے اور مسکراہٹ چھپاتے بولتا۔ باتھ ٹب کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا، شانز کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔ “آپ بہت بی…” اُس کی بات پوری ہونے سے پہلے غزان نے اُس کے الفاظ چُن لیے تھے۔ “شوہر اپنی بیوی کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔” غزان نے اُسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
شانزے نے اُس کے سینے میں چہرہ چھپا لیا۔ “یار، یو آر ٹو سافٹ۔” وہ اُس کو اپنے ساتھ لگائے بہکے انداز میں بولا۔ “آپ بہت ہارڈ ہیں۔” وہ بھی بے ساختہ اُس کے کان میں بول گئی، جس پر غزان کا قہقہہ گونج اٹھا۔ شانزے خجل سی ہو کر واپس اُس کے سینے میں چھپ گئی۔ لیکن غزان کی نظروں سے زیادہ دیر کہاں بچ سکتی تھی؟ غزان کا شدت بھرا لمس پھر سے ایک بار اُس پر طاری ہو گیا۔ “اب کیا خیال ہے؟” وہ جی جان سے لرز اٹھی تھی۔ “ہاں، سیٹسفائی۔ یہ ایک راؤنڈ اب ڈریسنگ روم میں لگاتے ہیں۔” وہ گہری سانسیں بھرتا شانزے کی بھولی ہوئی سانسوں کو بحال کرتے بہکے انداز میں بولا۔ “نہیں، آ گیا یقین۔” اُس کے گھبرا کر بولنے پر اُسے باتھ روم سے باہر لے آیا۔ اُس کا نیا ڈریس اُسے ہاتھ میں تھما دیا۔ “یہ، یہ کہاں سے آیا؟” وہ حیران ہوئی۔ “تمہاری ہر چیز کا خیال ہے مجھے۔ بیوی ہو میری، میں نہیں رکھوں گا خیال تو کون رکھے گا؟” اُس کی کچھ خاص اور پرسنل چیزیں بھی اُسے تھما دیں، اُسے شرمانے پر مجبور کر دیا۔ “جاؤ، چینج کرو۔ پھر چلتے ہیں گھر۔ اماں ابّا ویٹ کر رہے ہوں گے۔” اپنے کپڑے کپڑے سے نکالتے ہوئے نرمی سے شانزے سے کہا۔ خود بھی تیار ہونے لگا۔
وہ تیار ہو کر باہر آیا تو شانز ابھی بھی ڈریسنگ روم میں بند تھی۔ اُس کی جانب پیش قدمی کرتا کہ ایک دم سے شانزے کا فون بجنے لگا۔ غزان نے آگے بڑھ کر نمبر دیکھا تو ماتھے پر بل پڑ گئے۔ مہرو، شانز کو کیوں کال کر رہی تھی؟ غزان نے کچھ سوچتے ہوئے کال ریسیو کر لی۔ “کہاں ہو تم؟ اور میرا غزان کہاں ہے؟ کیا کہا تھا تمہیں میں نے کہ میرے غزان سے دور رہنا؟ لیکن تمہیں ایک بات سمجھ نہیں آتی، نا؟ بولا تھا، ختم کر دو یہ تعلق، لیکن تم نہیں مانی میری بات۔ اب تم واپس آؤ، دیکھو تمہارا کیا بندوبست کرتی ہوں۔ جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔” کال بند ہو چکی تھی، جبکہ غزان کے ماتھے پر ان گنت بلوں کا جال بنا ہوا تھا۔ “چلو، ریڈی؟” شانز کی آواز سن کر وہ اُس کی جانب پلٹا۔ اُس کے لیے کے ڈریس میں وہ اُس کو اپنی ہی سی محسوس ہوئی۔ لیکن وہ اُس سے اتنا بڑا سچ چھپائے ہوئے تھی۔ غزان کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ “کیا ہوا؟ ٹھیک نہیں لگ رہی؟” وہ تھوڑا سا شرماتے ہوئے بولی۔ “یہاں آؤ میرے پاس۔” شانزے تھوڑی جھجھکتی ہوئی اُس کے قریب ہوئی۔ غزان نے اُس کے ماتھے پر لب رکھے تو وہ آنکھوں میں آنسو لیے اُسے دیکھنے لگی۔ “کیا ہوا؟” اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پیار سے اُس کے گال پر ہاتھ پھیرتے پوچھنے لگا۔ “آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں؟” ایک معصومیت تھی شانزے کے لہجے میں۔ “کیوں، رات کے گزرے لمحوں کے بعد بھی یہ پوچھنے کی گنجائش بنتی ہے؟” وہ جو معنی خیز انداز میں کہتا، اُس کی شرماہٹ پر اپنا انگوٹھا ملنے لگا۔ “بتاؤ نا، غزان۔” وہ اصرار کرنے لگی۔ “لگتا ہے ایک اور راؤنڈ لگانا پڑے گا۔ ابھی بیوی سیٹسفائیڈ نہیں ہوئی ہم۔” وہ اُس کے رخسار پر شدت سے جھکا، اُسے سسکنے پر مجبور کر دیا۔ “اُف، یوں تو نہ کریں۔ اب میں سیٹسفائیڈ ہوں، پلیز، اگین نہیں۔” وہ گھبراتے ہوئے بولی۔ تو غزان کے چہرے کو مسکراہٹ نے چھو لیا۔ “تم تو میری تھوڑی سی شدت پر بے حال ہو جاتی ہو۔ ابھی تو مکمل شدت ڈھائی ہی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ باہر کی جانب قدم بڑھاتے حیرت سے پوچھنے لگی۔ “میرے جنون کا ایک فیصد بھی نہیں سہا ابھی تم نے۔ جو رات بھر کیا، وہ کیا تھا؟” اُسے شرم تو آ رہی تھی ان باتوں سے، لیکن اُسے کلئیر بھی تو کرنا تھا۔ “اگر یہ جنون نہیں تھا تو جنون کیا ہوتا ہے؟ پھر کبھی بتاؤں گا۔ ابھی گھر چلتے ہیں۔ اماں ابّا کا بھی دو دفعہ فون آ چکا ہے، تمہارا پوچھ رہے تھے۔” اُسے گاڑی میں بٹھاتے اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آیا۔ “غزان، ہم گھر کی بجائے کہیں اور چل…” اُس کے چہرے پر ڈر سوار تھا۔ “کیوں؟ گھر کیوں نہیں جانا؟” وہ گاڑی اسٹارٹ کرتے بولا۔ “نہیں، وہ بس ایسے ہی۔” وہ اپنی انگلیوں کو چٹخا کر بولی۔ غزان نے ایک نظر اُسے دیکھا اور پھر توجہ ساری ڈرائیونگ پر کر دی، جبکہ دماغ سے مہرو کی باتیں نہیں نکل رہی تھیں۔
٭٭٭
اس وقت وہ سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ اشفاق صاحب نے شانزے کی طبیعت کا پوچھا تو وہ سر جھکائے ہاں میں جواب دینے لگی، جبکہ مہرو کی تیز نگاہیں اُسی پر تھیں۔ اُس کا ڈریس چینج تھا اور کافی قیمتی بھی۔ جس طرح وہ سر جھکائے غزان کی کسی بات پر شرما کر اُسے دیکھتی تھی، مہرو کے دل پر بجلیاں گر رہی تھیں۔ وہ اپنے دماغ میں پلاننگ کرتی وہاں سے اٹھ گئی۔ موبائل فون پر کسی سے بات کرتے ہوئے وہ اب نفرت سے اپنے گندے کھیل کو سَرانجام دینا چاہتی تھی۔
“شانزے، تمہارے بڑے ابّا تمہارے ہاتھ کی چائے بہت شوق سے پیتے ہیں، تو بنا لاؤ۔” شازیہ بیگم نے اُسے کچن کی طرف بھیجا تو وہ جلدی سے اٹھ گئی۔ جیسے ہی وہ کچن میں آئی، مہرو نے اُسے آڑے ہاتھوں لے لیا۔ “بہت شوق ہے نا تمہیں غزان کی بانہوں کا ہار بننے کا؟ دیکھو، اب میں تمہارے ساتھ کیا کرتی ہوں۔ تم اب غزان کے ساتھ تعلق رکھنے پر خود پچھتاؤ گی۔” مہروک اُسے نفرت اور حقارت سے کہتی باہر نکل گئی۔ شانزے کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ تبھی اُس کی تائی اماں شازیہ بیگم وہاں آ موجود ہوئیں۔ “غزان سے کوئی بات تو نہیں ہوئی تمہاری؟” اُنہوں نے تلاش کرتی نگاہوں سے شانزے کو دیکھا۔ “نہیں، تائی اماں، کوئی بات نہیں ہوئی۔” وہ گھبراتے ہوئے بولی۔ “تعلق چھوڑ دو غزان سے۔” اُسے سر سے پاؤں تک چانسی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اُنہوں نے پوچھا۔ شانز ےکا سر شرم سے جھک گیا۔ شازیہ بیگم نے گہرا سانس بھرا۔ “ٹھیک ہے، سب باتیں بھول کر تم بھی غزان کے ساتھ اپنی زندگی میں آگے بڑھو۔” وہ منہ بناتی کہتی باہر نکل گئیں۔ شانز کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔ اُس کی تائی اماں اُس سے قبول کر چکی تھیں۔ اس خیال نے اُس کے دل سے ایک بوجھ سرکا دیا تھاتھینکس، اللہ کا شکر ہے۔ اب لگتا ہے سب ٹھیک ہو جائے گا۔” وہ چائے بناتی سب کو چائے سرو کرنے لگی۔
رات کے کھانے پرمہرو نےمیٹھے کی فرمائش کی، وہ بھی شانز کے ہاتھ کی رس ملائی کھانے کی۔ وہ اتنی محبت اور شیریں لہجے میں بولی کہ شانزے نہ چاہتے ہوئے بھی بنانے چلی گئی، لیکن نہیں جانتی تھی کہ مہرو اُس کے لیے گڑھا کھود کے بیٹھی ہے۔ ابھی وہ رس ملائی بنا کے فریج میں رکھ رہی تھی کہ کچن میں کسی کی موجودگی کا احساس جاگا۔ وہ مسکرا کے پلٹی تو کسی اجنبی کو دیکھ کر وہیں ٹھٹک کے رُک گئی۔ “کون ہیں آپ؟” شانزے کی ڈرتی ہوئی آواز پر وہ مسکرایا۔ “تمہارا عاشق۔” اتنا کہتے ہوئے اُس نے شانزے کا ہاتھ تھام لیا۔ شانزے نے شور مچانے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اُس شخص نے شانزے کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اُس کی آواز کا گلا گھونٹ دیا۔ شانزے نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی اور اسی کشمکش میں اُس کا ہاتھ کانچ کے جگ سے جا لگا اور نیچے گرتے گرتے جمنے والا تھا۔ اپنے کمرے کی جانب جاتے ہوئے غزان ٹھٹکا اور کچن کا رخ کیا، لیکن مہرو اُس کی راہ میں حائل ہو کر اُس کے سینے سے لگ گئی۔ “غزان، وہاں کوئی ہے۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔” وہ گھبراتے ہوئے بولی۔ اُس کی بات پر غزان کو شانزے کی فکر ہوئی۔ وہ ایک منٹ کی دیر کیے بغیر کچن کی جانب بھاگا۔ وہ شخص شانز کی کمر میں ہاتھ ڈالے اُسے شیلف پر دھکیل رہا تھا اور اُس کے منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا۔ غزان نے آگے بڑھ کر اُس شخص کو کھینچ کے پیچھے کیا۔
شانزے خوف زدہ ہو کر اپنا سانس بحال کرنے لگی جو اُس شخص نے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر روکا ہوا تھا۔ غزان نے غصے سے اُس شخص کو دھو کے رکھ دیا۔ “میں نہیں آیا، مجھے بلایا تھا اِس لڑکی نے۔” وہ منہ سے خون صاف کرتے بولا۔ غزان نے ایک اور تھپڑ رکھ کر اُس کے منہ پر مارا۔ اشفاق صاحب نے آ کر غزان کو روکا، ورنہ وہ تو اُسے آج مارنے کے درپے تھا۔ “میں نے پولیس کو کال کر دی ہے۔ بس بیٹا، سنبھالو خود کو۔” وہ اُسے روک رہے تھے، جبکہ وہ شخص زخموں سے چور زمین پر ادھم پڑا تھا۔ پولیس کا نام سن کر مہرو کا دل سوکھے پتے کی مانند لرز گیا۔ غزان پھر سے اُسے مارنے کو بڑھا کہ شازیہ بیگم نے غزان کو روکا۔ “بیٹا، شانزے کو سنبھالو۔ وہ ڈر گئی ہے۔” شازیہ بیگم نے گھبراتے ہوئے کہا۔ “جب تک اُسے اُس کے کیے کی سزا نہیں دے دیتا، میں اِسے نہیں چھوڑوں گا۔” اتنی دیر میں ملازم نے انسپکٹر کے پہنچنے کی اطلاع دی۔
غزان اُس شخص کو گردن سے تھامے باہر صحن میں لے آیا اور پٹک دیا۔ انسپکٹر دانش نے اُس شخص کو اپنی حراست میں لیا۔ “میں خود نہیں آیا، مجھے بلایا تھا اُس لڑکی نے۔” اُس شخص نے مہرو کی جانب اشارہ کرتے کہا۔ مہرو کا دل بری طرح دھڑکا۔ ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوئے۔ غزان اُس کی جانب بڑھا۔ “مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم اِس حد تک گر جاؤ گی۔” غزان کی اونچی آواز پر وہ بری طرح سہم کے پیچھے ہٹی۔ “میری بیوی کو کچھ بھی ہو جاتا تو یقین کرو، تمہاری روح کھینچ لیتا۔” غزان کے غصیلی لہجے پر مہرو نے روتے ہوئے اُسے شکوہ بھری نظروں سے دیکھا۔ “اِس سے پہلے کہ میں کچھ کر گزرُوں، یہاں سے دفع ہو جاؤ اور دوبارہ اِس گھر میں قدم مت رکھنا۔” وہ کٹھور انداز میں بولا۔ “بیٹا، وہ تمہاری خالہ کی بیٹی ہے۔ اِسی لیے لحاظ کر رہا ہوں، اماں جان۔ ورنہ پولیس کے حوالے کرنے میں مجھے دیر نہیں لگنی تھی۔” غزان نے لب بھر کر کہا تو مہرو کو شازیہ بیگم نے وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔ پلک جھپکتے وہاں سے نکل گئی۔ اگر غزان اُسے پولیس کے حوالے کر دیتا تو وہ کیا کرتی؟ اپنی جان بچ جانے پر شکر کرتی ہوئی وہ وہاں سے نکل گئی۔ شازیہ بیگم نے اُسے ڈرائیور کے ساتھ اُس کے گھر روانہ کر دیا تھا۔ “مجھے معاف کر دیں۔ آج کے بعد ایسا کچھ نہیں کروں گا۔” وہ شخص بھی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہا تھا۔ اشفاق صاحب نے پولیس انسپکٹر دانش کو اشارہ کیا کہ وہ اُسے یہاں سے لے جائے۔
غزان شانزے کو کمرے میں لے آیا۔ اُس کے چہرے کو تھام کر وہ اُس پر شدت سے جھکا۔ شانز اِس اچانک واقعے پر یکدم بےقابو ہو گئی۔ اُسے یوں اچانک خود پر حاوی ہوتے دیکھ کر وہ بری طرح گھبرا گئی تھی۔ غزان اُسے پھر سے ایک بار قریب آتے دیکھ کر وہ کانپتی ہوئی پیچھے ہٹی۔ “جب وہ تمہیں دھمکیاں دے رہی تھی تو تم مجھے نہیں بتا سکتی تھی؟” غزان اُس پر اپنی شدت نچھاور کرتے بولا۔ “میری بات…” وہ کچھ بولنے لگی کہ غزان نے اُس کے ہونٹوں پر پھر سے کفن لگا دیا۔ “اب کچھ بھی نہیں سنوں گا۔ بس سزا اور سزا میں میری قربت۔” وہ اُسے پیار سے اپنے قریب کرتے بولا۔ شانز چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔ “کیا ہوا؟ رو کیوں رہی ہو؟” غزان بےقابو ہو گیا۔ “اب مجھے پھر سے سزا دیں گے۔ میرا قصور نہیں تھا۔ سارا قصور مہرو کا تھا۔ اُسی نے مجھے یہ سب کرنے پر اکسایا۔ تو آپ سزا مجھے کیوں دے رہے ہیں؟” “کیا مطلب؟ یہ سزا اُسے دوں؟ پاگل لڑکی، میری قربت صرف تمہارے لیے ہے۔ میرا پاگل پن، میرا جنون، میری پیاس، میری زندگی کا حاصل، سب کچھ تمہارے لیے ہے۔” وہ اُسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
شانزے اُس سے لفظوں میں اظہار چاہتی تھی، اور غزان اُسے اتنا ہی تڑپا رہا تھا۔ “پیار کرنے دو گی تو بتاؤں گا نا، کتنا پیار کرتا ہوں۔” وہ لائٹس کو ڈِم کرتا اُس کے لیے بستر تیار کرنے لگا۔ “آج کسی اور انداز سے نہ کریں، تاکہ مجھے پتہ چل سکے کہ غزان مغل تم سے کتنا پیار کرتا ہے۔ اُس کی ناک کے ساتھ ناک رگڑتے ہوئے بولانہیں، میں سمجھ گئی۔ آپ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ وہ شرماتے ہوئے بولی، جبکہ غزان کی زندگی سے بھرپور قہقہہ گونج رہا تھا۔