یہ نوٹ کریں کہ میں نے ٹھیکیدار کی بہو کے ساتھ بہت سی باتیں کی تھیں اور اتنے ‘ زیادہ سوال کئے تھے کہ خود مجھ کو یاد نہیں رہا تھا کہ کیا کچھ پوچھ چکا ہوں ۔ یہاں نہایت ضروری باتیں تحریر کر رہا ہوں تا کہ آپ کو کہانی سمجھنے میں آسانی ہو۔ میں نے مقتولہ اور ٹھیکیدار کے بیٹوں کے آپس کے تعلقات کی بابت اتنا زیادہ کریدا تھا جیسے بال کی کھال اتاری جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھ کو شک تھا کہ مقتولہ نے ان بھائیوں میں سے کسی کو پھانس رکھا ہو گا۔ میں آپ کو ایک بات بتاتی ہوں۔ بہو نے کہا ”یہ میں خود خیال رکھتی تھی بلکہ ایک قسم کا پہرہ دیتی تھی کہ ان بھائیوں میں سے کوئی بھی مقتولہ کے کمرے میں زیادہ دیر نہ ٹھہرے۔ میں سمجھی کہ لڑکی غلط خیالات رکھتی ہے اور اس کا چال چلن بھی صحیح نہیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ لڑ کے آخر جوان ہیں، کوئی لڑکا اس کے قابو میں آجائے ۔ میں بہت حد تک یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ کوئی ایک بھی بھائی اس کی باتوں میں نہیں آیا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ تینوں بھائی مقتولہ کو اپنی ماں کی دشمن سمجھا کرتے تھے۔
میرا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ اس چال چلن کی لڑکیاں جس چال چلن کی مقتول تھی ، اپنی نوکرانیوں کو راز دان بنالیتی ہیں اور ان کو پیغام رسانی کے واسطے استعمال کرتی ہیں ۔ مجھ کو بتایا گیا تھا کہ گھر کی نوکرانی در اصل مقتولہ کی ذاتی نوکرانی بن گئی تھی اور زیادہ تر اس کے کمرے میں رہتی تھی۔ میں نے اس کی بابت ٹھیکیدار کی بہو سے پوچھا اور اپنا یہ خیال بھی راہ ظاہر کیا کہ نوکرانی اس کی راز دار ہو گی ۔ بہو نے میرے اس خیال یا شک کی تائید کی اور کہا کہ مقتولہ کی در پردہ زندگی میں اس نوکرانی کا اچھا خاصا عمل دخل ہے۔ بہو نے ایک اور بات بھی بتائی ۔ اس نے ایک جواں : سال آدمی کا نام لیا جو ٹھیکیدار کا خاص ملازم تھا ، وہ زیادہ تر مقتولہ کے پاس آیا کرتا تھا۔ نوکرانی نے ایک بار بہو کو بتایا کہ مقتولہ نے اس کو بڑی سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ جب یہ آدمی اس کے کمرے میں ہو تو وہ کمرے میں نہ آیا کرے۔
یہ ایک نیا شخص تھا جو بہو کی زبانی میرے سامنے آیا۔ میری مختصر سی ڈائری میں اس کا اصل نام لکھا ہوا ہے لیکن میں اس کی بجائے اس کا نام اقبال تحریر کروں گا۔ بہو نے بتایا کہ اس کی عمر چوبیس پچیس سال ہے اور یہ ٹھیکیدار کا خاص ملازم ہے۔ اس کا بالکل مختصر سا ذکر بلکہ اشارہ ساٹھیکیدار نے بھی دیا تھا اور میں نے توجہ نہیں دی تھی۔ یہ شخص اس واسطے میری نگاہ میں اہم ہو گیا کہ بہو کہتی تھی کہ یہ بھی مقتولہ کے زیادہ قریب تھا۔ اس کے ساتھ ہی بہو نے اقبال کی شرافت اور دیانتداری کی بہت ہی تعریف کی ۔ وہ کہتی تھی کہ بڑے ہی ستھرے اور پاکیزہ کردار کا نو جوان ہے۔ میں اس کا تھوڑا سا تعارف ضروری سمجھتا ہوں جو بہو نے مجھے کو بتایا تھا۔ ٹھیکیداری کے کام کی چھوٹی چھوٹی وصولیاں اور ادائیگیاں اقبال کے ہاتھوں ہوتی تھیں ۔ مجھ کو یاد آیا کہ میری جیب میں کاغذ کا چھوٹا سا ایک ٹکڑا پڑا ہے جو مجھ کو مقتولہ کے پلنگ کے قریب سے ملا تھا۔ اس پر کچھ نام اور ان کے آگے رقمیں لکھی ہوئی تھیں
میں نے کاغذ کا یہ ٹکڑا اپنی جیب میں ڈال لیا تھا۔ گھر کا سارا انتظام اور اس کے اخراجات اور باورچی خانے کے اخراجات اقبال کے ہاتھ میں تھے۔ ٹھیکیدار کو اور خود بہو کو بیٹوں پر اتنا اعتبار نہیں تھا جتنا اقبال پر تھا۔ بہو نے ان لفظوں میں تعریف کی تھی کہ اس کے ہاتھ میں ہزاروں کی رقم دے دوخواہ چند آنے دے دو، یہ ایک ایک پائی کا حساب دیتا ہے اور چند روپے جو ٹھیکیدار کو بھی یاد نہ ہوں اور پھر گھر میں بھی ان کا کسی کو خیال نہ ہو، اقبال بتا دیتا ہے کہ فلاں جگہ خرچ ہوئے یا خرچ نہیں ہوئے۔ اور یہ واپس لے لیں۔ یہ شخص اقبال چونکہ باہر کا آدمی تھا اور اس کی حیثیت ایک ملازم کی تھی اور اس کا گھر میں عمل دخل بہت زیادہ تھا اس واسطے میں نے ضرورت محسوس کی کہ اس کی بابت ساری معلومات لے لوں۔
بہو نے اس شخص کی بیک گراؤنڈ یہ سنائی کہ اس نے میٹرک پاس کی تو ایک ہندو آڑھتی کے پاس منشی لگ گیا۔ اس کا باپ آرے کی مشین پر کام کرتا تھا۔ یہ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اور دو بہنیں تھیں ۔ جب ٹھیکیدار کا کام خوب چل پڑا تو اس نے آرے کی دو مشینیں لگوالیں ۔ اقبال کا باپ کسی اور کی مشین پر کام کرتا تھا۔ ٹھیکیدار نے اس کو اپنی طرف کھینچ لیا اور تنخواہ زیادہ پیش کر کے اپنی مشین پر لگا لیا۔ ایک سال بعد نہ جانے کیسے یہ حادثہ ہو گیا کہ اقبال کے باپ کا بازو آرے میں آگیا اور کہنی کے قریب سے ہڈی بالکل کٹ گئی۔ بدقسمتی یہ کہ یہ دایاں بازو تھا۔ ہڈی کئی بھی ایسی کہ جڑ نہیں سکتی تھی اس واسطے ہسپتال میں وہاں سے بازو کاٹ دیا گیا۔
اقبال کی دو بہنیں تھیں جن کی شادی کے واسطے جہیز ، زیورات اور کپڑے وغیرہ. بنانے تھے لیکن باپ بے کار ہو گیا اور اقبال کی تنخواہ بہت تھوڑی تھی ۔ ٹھیکیدارا اقبال کو آڑھتی کی نوکری سے ہٹا کر اپنے پاس لے آیا۔ اقبال نے بہت جلدی یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ پوری طرح دیانتدار اور محنتی آدمی ہے۔ ٹھیکیدار نے اس کی تنخواہ خاصی زیادہ مقرر کر دی اور اس کو ایک طرح کا مینجر بنا دیا۔ ورکروں اور دیگر مزدوروں وغیرہ پر وہی نظر رکھتا تھا اور ان کی تنخواہیں اور دیہاڑیاں وہی ادا کرتا تھا۔ پھر ٹھیکیدار نے اس کی دیانت داری کو دیکھتے ہوئے اس کو گھر کے انتظامات بھی دے دیئے اور یہ شخص ایک طرح کا گھر کا فرد بن گیا۔ ٹھیکیدار نے اقبال کو اس قدر قابل اعتماد سمجھا کہ اس کو مقتولہ کا جیسے باڈی گارڈ بنا دیا ہو۔ بہونے ذرا مسکراتے ہوئے کہا کہ ٹھیکیدار نے دراصل اقبال کو جاسوسی کے واسطے مقتولہ کے ساتھ لگا دیا تھا اور مقتولہ کو کہا تھا کہ اس کو وہ اپنا ذاتی ملازم سمجھے ۔ یہ وجہ تھی کہ اقبال مقتولہ کے پاس دن میں ایک آدھ مرتبہ ضرور آتا اور خاصی دیر کمرے میں رہتا تھا۔
بہو کا خیال یہ تھا کہ ٹھیکیدار در اصیل معلوم کرتا رہتا تھا کہ مقتولہ گھر رہتی ہے یا جاتی ہے تو کہاں جاتی ہے اور گھر میں اس کا رویہ کیا ہے ۔ اقبال ٹھیکیدار کو پوری رپورٹ دیتا تھا ۔ ٹھیکیدار کی بہو کے ساتھ میری اتنی زیادہ باتیں ہو چکی تھیں کہ ہم میں بے تکلفی ہو گئی تھی۔ مجھ کو اس بہو کی بابت یہ اطمینان مل گیا تھا کہ کھل کر بات کرتی تھی اور عقل سے کام لیتی تھی۔ کوئی فضول بات اس کے منہ سے نہیں نکلی ۔ میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ وہ میری ہر بات اور میرا ہر سوال تہہ تک سمجھ لیتی تھی ۔ مثلاً میں نے کہا کہ اس کا خیال ہے کہ اقبال بھی آخر تئیس چو میں سال کا جوان لڑکا ہے، مقتولہ نے اس کے ساتھ دوسری قسم کی دوستی لگائی ہوگی۔ بہو میری بات فورا سمجھ گئی ۔ اس نے پورے یقین اور وثوق کے ساتھ کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ اس واسطے نہیں ہو سکتا تھا کہ اقبال صرف دیانتدار ہی نہیں تھا بلکہ پکا نمازی بھی تھا اور وہ ٹھیکیدار کا اتنازیادہ احسان مند تھا کہ اس کے ساتھ بے وفائی اوردھوکہ دہی نہیں کر سکتا تھا۔ بہو نے یہ بھی بتایا کہ تین ساڑھے تین مہینے پہلے اقبال کی شادی ہو گئی ہے۔
وہ اپنی بیوی کو دو چار مرتبہ اس گھر میں لایا تھا۔ وہ بہو سے بھی ملی اور مقتولہ کے پاس بھی بیٹھی رہی تھی۔ بہو نے اقبال کا ذکر اس واسطے نہیں کیا تھا کہ اس کو کوئی شک شبہ نہیں تھا کہ اس واردات میں اس کا بھی ہاتھ ہو سکتا ہے۔ بہو نے مجھ کو صرف یہ بتا نا چاہا تھا کہ نوکرانی کے علاوہ اقبال کا مقتولہ کی زندگی میں عمل دخل تھا اور میں مزید کچھ معلوم کرنا چاہوں تو اقبال سے پوچھوں۔ فجر کی اذان ہو چکی تھی اور صبح طلوع ہو رہی تھی ۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ میں نے ٹھیکیدار کی بہو سے کس قدر طویل گفتگو کی تھی۔ مجھ کو معلوم تھا کہ کچھ دیر بعد لاش پوسٹ مارٹم کے بعد گھر آجائے گی اور اس گھر میں سارا محلہ اکٹھا ہو جائے گا اور ماتم کی فضا بن جائے گی اس واسطے میرا وہاں ٹھہر نا ٹھیک نہیں تھا۔ لاش آجانے سے میں وہاں کوئی تفتیش نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے نوکرانی سے لمبی پوچھ کچھ کرنی تھی اس واسطے میں نے یہ بہتر سمجھا کہ نوکرانی کو اپنے ساتھ تھانے لے چلوں۔ میں نے ٹھیکیدار کو اندر بلایا اور کہا کہ اس کی نوکرانی کو میں ساتھ لے جا رہا ہوں۔ اس کو یہ بھی کہا کہ وہ کوئی بچہ یا کم عمر آدمی نہیں ، وہ خود بھی جاسوسی اور سراغ رسانی کرتار ہے اور کہیں سے بھی اس کو ذرا سا اشارہ ملے تو فوراً مجھ کو تھانے اطلاع دے۔
ٹھیکیدار نے نوکرانی کو میرے ساتھ بھیج دیا۔ مجھ کو اس کے خاص ملازم اقبال کی سی ضرورت تھی لیکن ابھی باہر کسی کو بھی پتہ نہیں لگا تھا کہ اس گھر میں کیا قیامت ٹوٹی ہے۔ اسی وجہ سے اقبال بھی نہیں آیا تھا۔ اگر آیا ہوتا تو میں اس کو بھی تھانے لے جاتا۔ میں تھانے پہنچا تو صبح کی روشنی سفید ہونے لگی تھی ۔ میں دو بجے کا جاگا ہوا مغز مار رہا تھا اور کچھ آرام کی ضرورت تھی لیکن میں نے آرام کی بالکل نہیں سوچی اور پکا ارادہ کر لیا کہ کسی نتیجے پر پہنچ کر دم لوں گا۔ ایک کانسٹیبل کو اپنے گھر بھیجا کہ میرے واسطے ناشتہ لے آئے ۔ نوکرانی کو میں نے باہر بٹھا دیا تھا اور ایک ہیڈ کانٹیبل کو کہا کہ اس کے واسطے چائے اور ایک بند لے آئے۔ میں خود اپنے دفتر میں یہ سوچنے بیٹھ گیا کہ قتل کا باعث کیا ہو سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو باعث معلوم کرنا تھا ، یہ معلوم ہو جانے سے قاتل تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔
میں دماغ کو لیموں کی طرح نچوڑنے لگا۔ مجھ کو یقین ہو رہا تھا کہ مقتولہ کے ساتھ زیادتی جبری طور پر نہیں ہوئی بلکہ اس میں مقتولہ کی رضا ورغبت شامل تھی۔ یہ بھی پہلے تحریر کر چکا ہوں کہ زبردستی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے۔ مقتولہ کو کمر سے نیچے برہنہ کیا نہیں گیا تھا بلکہ وہ خود بر ہنہ ہوئی تھی ۔ ٹھیکیدار کی بہو نے مقتولہ کے چال چلن کی جو باتیں سنائی تھیں ان کی روشنی میں میری سوچیں کام کر رہی تھیں ۔ سوچنے والی بات یہ تھی کہ ملزم باہر سے آیا تو اس کے واسطے دروازہ کس نے کھولا تھاؤ مقتولہ نے ہی کھولا ہوگا اور یہ اس کا چاہنے والا کوئی دوست یعنی آشنا ہو گا لیکن سوال یہ پیدا ہو ر ہا تھا کہ اس نے قتل کیوں کیا ؟ یہ تو صاف ظاہر تھا کہ قتل زیادتی کے بعد کیا گیا۔ پھر یہ بھی ایک معمہ تھا کہ اس نے زیورات کے ڈبے اور سنگار میز کی دراز میں کیوں کھولیں ؟ اگر کھولی تھیں تو زیورات اور پرس میں سے اتنی رقم چھوڑ کیوں گیا ؟
یہ خیال بھی آیا کہ ہو سکتا ہے ملزم کے پاس ریوالور یا خنجر تھا اور اس نے مقتولہ کو اس قدر خوفزدہ کر دیا تھا کہ اس نے ہتھیار ڈال دیئے اور ملزم کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن گئی۔ مقتولہ کوئی شریف لڑکی تو تھی نہیں کہ اس کو اپنی عصمت کا اتنا زیادہ خیال ہوتا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ ملزم نے چہرہ نقاب یا منڈا سے میں چھپا رکھا ہو اور کسی طرح چہرہ نگا ہو گیا اور ملزم کی شناخت ہو گئی۔ اس صورت میں ملزم نے مقتولہ کو قتل کر دینا ضروری سمجھا لیکن پھر وہی بات سامنے آگئی کہ ملزم آیا کس طرف سے تھا۔ اگر وہ بیٹھک کے دروازے سے آیا تھا تو دروازہ مقتولہ نے ہی کھولا ہوگا۔ وہ اس کی منتظر ہوگی ۔ اس صورت میں یہ ملزم کوئی غیر یا ایسا شخص نہیں تھا جس کو مقتولہ نہیں جانتی تھی ۔ پھر وہی سوال کہ ملزم اتنا قیمتی مال چھوڑ کیوں گیا ؟ یہ خیال بھی آیا کہ وہ جو کوئی بھی تھا اس کو معلوم تھا کہ آج رات ٹھیکیدار گھر میں نہیں ۔ ہو سکتا ہے مقتولہ کو معلوم تھا کہ ٹھیکیدار رات پھیلی گاڑی سے آئے گا۔
یہ کوئی اس کا اپنا آشنا ہو گا جس کو اس نے بلایا تھا۔ اس خیال کے آگے پھر اندھیرا آ گیا کہ وہ آشنا ہی تھا۔ تو وہ مقتولہ کو قتل کیوں کر گیا ؟ ایک اور امکان دماغ میں آیا۔ وہ یہ کہ مقتولہ کا آشنا بیٹھک سے واپس نکل رہا تھا تو ٹھیکیدار کے کسی بیٹے نے اس کو دیکھ لیا۔ وہ آدمی تو نکل گیا اور بیٹا بیٹھک سے مقتولہ کے بیڈ روم میں آ گیا۔ اس نے مقتولہ کو اس حالت میں دیکھ لیا۔ مقتولہ نے ابھی اپنے آپ کو سنبھالا نہیں تھا۔ بیٹے نے غصے سے پاگل ہو کر مقتولہ کا گلا دبوچ لیا اور اس کو مار ڈالا ۔ یہاں پھر بکھرے ہوئے زیورات میرے سامنے آگئے ۔ اگر بیٹا ہی قاتل تھا تو اس نے سنگار میز کی درازین کیوں کھولیں اور زیورات بکھیرے کیوں؟
پھر یہ امکان بھی دماغ میں آیا کہ مقتولہ نے در پردہ تعلقات ٹھیکیدار کے درمیانے بیٹے یا اس سے چھوٹے بیٹے کے ساتھ بنا رکھے ہوں گے ۔ ان میں سے کوئی بیٹھک کی طرف سے مقتولہ کے بیڈروم میں آیا۔ وہاں سے جب نکل رہا تھا تو بڑے بھائی نے دیکھ لیا جو مولوی ٹائپ تھا اور مذہب کے معاملے میں بڑا ہی سخت تھا۔ اس نے اپنے بھائی کو تو چھوڑ دیا لیکن بیڈ روم میں آکر مقتولہ کا گلا گھونٹ دیا۔ اس نے سوچا ہوگا کہ فساد کی جڑ یہ شیطان عورت ہے، اس کو دنیا کے تختے سے اٹھا دیا جائے۔ ایسا ممکن ہو سکتا تھا لیکن اس مولوی ٹائپ بھائی نے زیورات الٹ پلٹ کیوں کئے ؟ زیورات اور رقم کا سوال مجھ کو بار بار پریشان کرتا تھا۔ میں نے اس پر غور کیا تو یہ سوچ آئی کہ یہ حق ٹھیکیدار کو حاصل تھا کہ وہ مقتولہ کے زیورات اچھی طرح دیکھے اور اس کا پرس بھی کھول کر چیک کرے۔ اس سوچ سے مجھ کو یہ امکان نظر آیا کہ ٹھیکیدار ریل گاڑی سے اتر کر گھر آیا تو بیٹھک کا دروازہ کھلا دیکھا۔ دبے پاؤں بیڈ روم تیک گیا تو بیوی کو ایسی حالت میں دیکھا جیسے اس کے پاس کوئی اس کا دوست آشنا آیا تھا۔ ٹھیکیدار نے غصے میں آ کر اس کو پلنگ پر گرایا یا کھڑے کھڑے اس کا گلا گھونٹ دیا اور پلنگ پر ڈال دیا۔ پھر ٹھیکیدار نے دیکھا ہو گا کہ مقتولہ نے اپنے زیور کی کوئی چیز یا کچھ پیسے اپنے دوست کو دیے ہوں گے ۔ ایسے ہی اس کی یہ ساری اشیاء کھول کر دیکھی ہوں گی ۔ اس کے بعد اس نے اپنے بیٹوں کو بلا کر بتایا کہ مقتولہ کو کوئی قتل کر گیا ہے۔
میں ان امکانات پر غور کرتارہا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ زبر دستی والا معاملہ نہیں تھا۔ بات ساری آشنائی کی تھی اور کچھ گڑبڑ ہوگئی جس کے نتیجے میں مقتولہ قتل ہو گئی ۔ ابھی تو میں نے اپنے مخبروں سے رپورٹیں لینی تھیں۔ مقتولہ کی سرگرمیاں بہر حال خفیہ اور پُر اسرار تھیں ۔ میں نے نوکرانی کو اپنے پاس بلا کر بٹھا لیا۔ غریب عورت کچھ گھبرائی ہوئی تھی ۔ اس کو تسلیاں دیں اور حوصلہ افزائی کی۔ یہ بھی کہا کہ وہ کوئی بات چھپانے کی کوشش نہ کرے۔ بڑے لوگوں کے گناہ بڑے بڑے ہوتے ہیں اور اکثر ان کی سزا چھوٹے چھوٹے لوگوں کو ملتی ہے۔ میں نے اس کو یہ گھسے پٹے لفظ بھی کہے کہ کسی کو پتہ نہیں لگنے دیا جائے گا کہ اس نے میرے ساتھ کیا باتیں کی ہیں۔
میں نے اس سے ایک دو باتیں پوچھیں ، چھوٹے چھوٹے ایک دو سوال کئے اور کچھ باتیں اس نے از خود ہی بتا دیں، اس طرح جو معلومات حاصل ہوئیں وہ یوں تھیں کہ اس نوکرانی کو ٹھیکیدار نے کہا تھا کہ وہ نئی بیوی کا زیادہ خیال رکھا کرے اور زیادہ وقت اس کی خدمت خاطر میں لگایا کرے۔ مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو مقتولہ کی ملازمہ سمجھے ۔ اس نوکرانی کو میں نے غور سے دیکھا اور اس کا بولنے کا انداہ دیکھا تو میں نے یہ رائے قائم کی کہ دکھاوے کے لیے بھولی اور سیدھی سادی بنی ہوئی ہے۔ ویسے اچھی خاصی چالاک اور جہاندیدہ عورت تی۔ میں نے کچھ باتیں واردات سے ہٹ کر بے تکلفی سے کیں تو وہ
میرے ساتھ ذرا اور فری ہوگئی۔ اس نے بتایا کہ مقتولہ نے اس کو پیسے دینے شروع کر دیئے اور اس کو اپنے ساتھ ہے تکلف کر لیا۔ نوکرانی نے مجھے کو صاف لفظوں میں کہا کہ وہ بچی تو نہیں تھی کہ کچھ نہ بجھتی ، وہ سمجھے گئی کہ مقتولہ اس کو اپنے خفیہ کاموں میں استعمال کرنا چاہتی ہے۔
نوکرانی نے یہ خاص طور بتایا کہ مقتولہ ٹھیک چال چلن کی لڑکی نہیں تھی اور اس کی یہ تربیت اس کی ماں نے کی تھی۔ اس کے باپ کی بابت نوکرانی نے بتایا کہ لانچی اور دھو کہ فریب کرنے والا آدمی ہے لیکن بالکل غریب اور مسکین بنارہتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کہاں تک صحیح ہے کہ مقتولہ یہاں سے پیسے اڑا کر اپنے ماں باپ کو دیا کرتی تھی ؟ دوسروں کو شک ہوگا۔ نوکرانی نے جواب دیا۔ ” مجھ کو شک نہیں ، مجھے کو تو یقین ہے۔ یقین اس طرح ہے کہ کئی بار بی بی ( مقتولہ ) نے مجھ کو پیسے دیئے اور کہا کہ یہ اس کی ماں کو دے آؤں۔ ٹھیکیدار صاحب کو تو پتہ ہی نہیں کہ ان کی جیب میں کس طرح دولت آتی ہے اور یہ کدھر جارہی ہے۔ اس گھر میں دولت کا تو کوئی حساب کتاب ہی نہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ٹھیکیدار صاحب کو کبھی شک بھی نہیں ہوا کہ ان کی نئی دلہن نے نہر کا رخ کدھر کو پھیرا ہوا ہے”۔ ا میں نے نوکرانی کو شاباش دی اور خوب حوصلہ افزائی کر کے کہا کہ وہ اگر پیسے اس کی ماں تک پہنچاتی رہی ہے تو پھر مقتولہ کے دوستوں کو اس کے پیغام بھی پہنچاتی ہوگی۔ نوکرانی اب بولنے پر آگئی تھی۔ اس نے بڑے صاف لفظوں میں بتایا کہ یہ تو اس کا ایک خاص اور خفیہ کام تھا جس کا اس کو مقتولہ سے بہت انعام ملتا تھا۔ اس نے مقتولہ کے محلے کے ایک نو جوان آدمی کا نام لے کر بتایا کہ شادی سے پہلے مقتولہ کی اس کے ساتھ دوستی چل رہی تھی ۔