یہ پاک محبت والی دوستی نہیں تھی بلکہ یہ ناپاک تعلقات والا معاملہ تھا۔ دیکھنے والے کہتے تھے کہ ان کی شادی ہو جائے گی۔ دونوں ایک ہی ذات اور برادری کے تھے لیکن ٹھیکیدار کو یہ لڑکی اتنی اچھی لگی کہ اس کے باپ سے رشتہ مانگا اور باپ نے بیٹی ٹھیکیدار کے – اتمی بیاہ دی۔ میرے کہنے پر نوکرانی نے بتایا کہ یہ تو سب کہتے ہیں کہ ٹھیکیدار نے لڑکی کو منہ مانگی قیمت دے کر خریدا ہے۔
نوکرانی نے خاص بات یہ بتائی کہ مقتولہ کے اس دوست کے ساتھ تعلقات شادی کے بعد بھی چلتے رہے تھے۔ ٹھیکیدار کو تو مقتولہ اپنا صرف شرعی خاوند بجھتی تھی، عملاً اس کا خاوند یہ دوست تھا۔ نوکرانی نے بتایا کہ ٹھیکیدار آٹھ دس دنوں بعد ایک دو راتیں باہر رہتا تھا۔ وہ ٹھیکیداری کے سلسلے میں بڑے شہر چلا جایا کرتا تھا۔ اس کی غیر حاضری میں مقتولہ اپنے دوست کر رت کے وقت اپنے گھر یعنی ٹھیکیدار کے گھر بلایا کرتی تھی ۔ پیغام نوکرانی نے جاتی تھی۔ دوست محموماً آدمی رات سے ذرا پہلے آیا کرتا تھا اور اپنے آنے کی اطلاع اس طرح دیتا تھا کہ پہلو والی چھوٹی گلی میں آ کر باہر دیوار پر چھوٹا سا پتھر اٹھا کر یا کوئی اور سخت چیز دو تین بار مارتا تھا۔ بیڈ روم کی دیوار اس گلی کی طرف تھی ۔ ٹک ٹک کی آواز بیڈ روم میں سنائی دیتی تھی ۔ مقتولہ اپنے دوسرے کمرے میں سے گزر کر بیٹھک میں جاتی اور بیٹھک کا دروازہ کھول کر دوست کو اندر لے آتی تھی۔ اس کو ایسا کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا کہ اندر سے کوئی بیڈ روم میں آجائے گا۔ اس کے کمرے میں تو دن کے وقت بھی کوئی نہیں آتا تھا۔ ٹھیکیدار کی بہو نے ٹھیک کہا تھا کہ مقتولہ نے اپنی الگ تھلگ ایک زندگی بنارکھی تھی ۔
پھر مقتولہ کے اس دوست کی شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد بھی مقتولہ اس کو بلاتی رہی اور وہ آثار ہا لیکن ایک روز دوست نے اچانک مقتولہ کے ساتھ یہ تعلق توڑ دیا۔ یہ چھ سات مہینے پہلے کا واقعہ ہے۔ مقتولہ نے نوکرانی کو کہا کہ وہ اس کے دوست کو کہے کہ آج رات آجائے بہ نوکرانی دوست سے ملی اور پیغام دیا۔ دوست نے صاف لفظوں میں کہا کہ اس کو کہہ دو کہ آج سے ہمارا تعلق ختم ہے اور آئندہ کبھی مجھ کو نہ بلائے ۔
یہاں مجھ کو شک ہوا کہ یہ رقابت والا معاملہ ہو گا۔ رقابت بھی اتنی شدید ہو گی جس کا نتیجہ قتل کی واردات کی صورت میں سامنے آیا۔ میں نے نوکرانی سے پوچھا کہ اس دوست کے علاوہ مقتولہ کا کوئی اور دوست ہوگا۔ نوکرانی نے کہا کہ مقتولہ کا چال چلن کچھ ایسا ہی تھا لیکن وہ اس کے کسی اور دوست کو نہیں جانتی نہ اس نے اس کو کبھی کسی اور شخص کے پاس بھیجا تھا۔ اس کے بعد ٹھیکیدار کا خاص ملازم اقبال تھا جو مقتولہ کے کمرے میں آتا جاتا تھا۔ نوکرانی نے وہی خیال ظاہر کیا جو ٹھیکیدار کی بہو میرے ساتھ کر چکی تھی۔ وہ یہ کہ ٹھیکیدار نے اقبال کو مقتولہ پر جاسوس مقرر کیا تھا کہ اس کی نگرانی کرتا رہے اور اگر یہ کوئی خفیہ حرکت کرے تو ٹھیکیدار کو بتائے۔ ظاہری طور پرٹھیکیدار نے یہ ظاہر کیا تھا کہ اقبال کو اس نے مقتولہ کی خدمت پر مامور کیا تھا۔
میں نے نوکرانی کو کہا کہ سنا ہے جب اقبال مقتولہ کے کمرے میں ہوتا تھا تو اس کو یعنی نوکرانی کو بھی کمرے میں جانے کی ممانعت تھی … نوکرانی نے میرے اس سوال کا جواب بھی خوب کھل کر دیا۔ اس نے بتایا کہ ایک روز اقبال مقتولہ کے کمرے میں تھا کہ نوکرانی اندر چلی گئی۔ نوکرانی نے دیکھا کہ اقبال کو مقتولہ نے اپنے بازوؤں میں لے رکھا تھا اور دونوں کے منہ جڑے ہوئے تھے ۔ نوکرانی کو دیکھ کر مقتولہ نے اس کو بہت ڈانٹا اور کہا کہ جب اقبال اس کے کمرے میں ہو تو وہ کمرے میں نہ آیا کرے۔ اقبال چلا گیا تو مقتولہ نے نوکرانی کو بلایا اور اس کا منہ بند کرنے کے واسطے اس کو کچھ پیسے دیئے۔ نوکرانی کا منہ تو بند ہی رہنا تھا۔ اس کو تنخواہ کے علاوہ مقتولہ سے پیسے ملتے رہتے تھے ۔ غریب عورت کی یہی ضرورت تھی۔ اس کی تو بالائی آمد نی لگی ہوئی تھی۔ سنا ہے اقبال کا اس گھر پر بہت ہی اعتماد ہے۔ میں نے کہا۔ ” گھر کا ہر فرد کہتا ہے کہ اقبال بہت ہی شریف اور دیانتدار آدمی ہے۔ یہ بالکل ٹھیک ہے۔ نوکرانی نے کہا ”اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال دیانتدار آدمی ہے اور ایک پیسے کا بھی دھوکہ نہیں دیتا اور اس کے خلاف کسی کو کوئی شکایت نہیں۔ یہ جو میں نے آپ کو سنایا ہے کہ اقبال کو بی بی کے کمرے میں کس حالت میں دیکھا تھا، یہ سب بی بی کی کرتوت ہے۔ اس کا چال چلن کچھ ایسا ہی تھا۔ اقبال کا اخلاق ایسا ہرگز نہیں۔
باتیں ہوتی رہیں اور اس دوران نوکرانی نے بتایا کہ اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ مقتولہ اقبال کو بھی فالتو پیسے دیتی رہتی ہے۔ عید پر اقبال کو اس نے بڑھے اچھے کپڑے سلوا دئیے تھے اور ان سردیوں کے شروع میں اس کو ایک نئی اور قیمتی جرسی لے دی تھی۔ ایسی جرسی ٹھیکیدار کے بیٹے ہی پہن سکتے ہیں۔ میں نے نوکرانی سے پوچھا کہ مقتولہ اقبال کو رات کے وقت اپنے بیڈ روم میں بلاتی ہو گی۔ نوکرانی نے بتایا کہ مقتولہ نے اس کو کبھی نہیں کہا تھا کہ اقبال کو کہنا کہ آج رات آ جائے۔ بہر حال نوکرانی کو اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا نہ وہ یقین کے ساتھ کچھ کہہ سکتی تھی ۔ پھر میں نے نوکرانی سے پوچھا کہ ٹھیکیدار کے بیٹوں میں سے کوئی مقتولہ کے ساتھ اتنا بے تکلف ہوگا اور اس کے کمرے میں آتا جاتا رہتا ہوگا اور کبھی مقتولہ نے نوکرانی کو کہا ہوگا کہ وہ فلاں لڑکے کو اس کے پاس بھیج دے۔
نوکرانی نے وہی جواب دیا جو ٹھیکیدار کی بہو سے میں پہلے ہی سن چکا تھا۔ بڑا بیٹا تو نمازی پرہیز گار آدمی تھا اور وہ مقتولہ کے ساتھ بولتا چالتا ہی نہیں تھا۔ سب سے سے چھوٹے بیٹے کا رویہ بھی یہی تھا البتہ درمیانے بیٹے کی بابت نوکرانی نے کہا کہ اس کا کوئی اعتبار نہیں پھر بھی اس نے اس لڑکے کو مقتولہ کے کمرے میں بیٹھے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس لڑکے پر اس وجہ سے شک کیا جا سکتا تھا کہ اخلاقی لحاظ سے وہ اپنے بھائیوں سے بہت مختلف تھا۔ آوارہ سالڑ کا تھا اور آزاد خیال بھی تھا۔ میں ابھی نوکرانی کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا کہ ٹھیکیدار کے تینوں بیٹے بڑے غصے کی حالت میں میرے دفتر میں داخل ہوئے ۔ وہ ہسپتال سے آرہے تھے ۔ میں نے ان کو ایک خاص ٹسٹ کے واسطے بھیجا تھا۔
یہ ٹسٹ تو لاہور میں ہونا تھا لیکن یہاں کے ڈاکٹر نے ان کے جسموں سے کچھ مواد لیتا تھا۔ پوسٹمارٹم ہو چکا تھا اور یہ تینوں فارغ ہو کر سید ھے میرے پاس آگئے ۔ وہ احتجاج اور غصے سے بھرے ہوئے تھے ۔ میں نے ان سے اس ناراضگی کی
وجہ پوچھی ۔ بڑے بیٹے نے کہا کہ میں نے ان کو مشتبہ سمجھا ہے اور اس واسطے ڈاکٹر کے پاس اس ٹسٹ کے واسطے بھیجا ہے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ مینوں بھائیوں میں سے کسی نے بھی کبھی مقتولہ سے منہ بھی نہیں لگایا تھا اور ان پر بڑا ہی تو ہین آمیز اور شرمناک شک کیا گیا اور ڈاکٹر کے پاس بھیجا گیا۔ دو کیا ہمارے والد صاحب نے ہمارے خلاف شک کیا ہے؟“۔ درمیانے بیٹے
نے پوچھا۔ میں نے نوکرانی کو باہر بیٹھا دیا اور ان تینوں بھائیوں کو بٹھایا۔ میں ان کے غصے کے جواب میں غصہ نہیں جھاڑنا چاہتا تھا۔ ان کو ٹھنڈا کرنے کا ارادہ تھا۔ بڑے بیٹے نے کہا کہ ٹھیکیدار گھر آیا تو اپنی بیوی کو مرا ہوا دیکھ کر اس نے تینوں کو بلایا اور یہ شک کیا کہ ان تینوں میں سے کسی نے اس کو قتل کیا ہے اور وہ بتادے۔ اس وقت بھی ان کو غصہ آیا تھا لیکن باپ پر وہ غصہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے ۔
میں نے ان کو سمجھایا کہ ان کے باپ نے میرے آگے ان پر شک ظاہر نہیں کیا اور یہ تفتیش کا معمول ہے کہ تفتیش کرنے والے کے ذہن میں جو آتا ہے اس کی وہ پوری طرح تسلی کر لیتا ہے۔ مختصر بات یہ کہ میں نے ان کو بہت کچھ کہ سن کر ٹھنڈا کر لیا۔ یہ میں نے اس واسطے کیا کہ ان سے کچھ باتیں معلوم کرنی تھیں ۔ یہ باتیں وہی تھیں جو میں ٹھیکیدار کی بہو اور نوکرانی سے پوچھ چکا تھا۔ امید تھی کہ شاید کوئی اور بات سامنے آجائے یا کم از کم ان تین بھائیوں کی بابت ہی کچھ اندازہ ہو جائے کہ مقتولہ کی بابت ان کے خیالات کیا ہیں ۔ یہ میں آپ کو مختصر بتا دیتا ہوں تفصیلی باتیں پہلے تحریر کر دی ہیں ۔ ان سے معلوم ہوا کہ مقتولہ کے ساتھ ان کا کوئی لڑائی جھگڑا اور کوئی تنازعہ نہیں تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ مقتولہ . نے اس گھر میں آکر کبھی یہ دعویٰ کیا ہی نہیں تھا کہ وہ اس گھر میں مالک ہے اور اس کا حکم چلے گا۔ ٹھیکیدار کی پہلی بیوی فوت ہو گئی تو گھر کا کام کاج ، باورچی خانہ اور دیگر انتظامات بڑے بیٹے کی بیوی نے سنبھال لئے جس میں مقتولہ نے کبھی دخل اندازی نہیں کی تھی اور نہ کبھی ایسی فرمائش کی تھی
کہ آج وہ فلاں چیز کھانا چاہتی ہے وغیرہ۔ سیدھی بات ہے صاحب! بڑے بیٹے نے کہا۔ ”یہ لڑکی ہمارے باپ کی بیوی نہیں داشتہ تھی اور ہم اس کو اپنی سوتیلی ماں سمجھتے ہی نہیں تھے۔ میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ اس نے ہم تینوں کے ساتھ فری ہونے کی کوشش کی تھی ۔ ہم تینوں جانتے تھے کہ یہ اچھے چال چلن کی لڑکی نہیں“۔ اس کے ساتھ ہماری دوستی بھی نہیں تھی دشمنی بھی نہیں تھی۔ درمیانے بھائی نے کہا۔ اصل قصور تو ہمارے جناب والد صاحب کا ہے جنہوں نے اس عمر میں اس نو عمر لڑکی کے ساتھ شادی کی اور یہ بھی نہ دیکھا کہ لڑکی بدنام ہے۔ اس لڑکی کا ایسا قصور ہرگز نہیں کہ اس نے زبر دستی آکر ہمارے والد صاحب پر قبضہ کر لیا تھا۔ قصور ہمارے باپ کا تھا جس نے اس لڑکی کو خریدا اور اس سے بڑا قصور وار لڑ کی کا باپ ہے جس نے ہمارے باپ سے رقم وصول کی۔
نوکرانی نے میرے دل میں اقبال کی بابت شک ڈال دیا تھا۔ میں نے ان تینوں بھائیوں سے اقبال کی بابت پوچھا۔ تینوں بھائی جیسے بیک زبان بول اٹھے کہ اقبال ایسا آدمی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیج ہے کہ وہ زیادہ دیر مقتولہ کے کمرے میں رہتا تھا لیکن وہ سو فیصد دیانتدار اور وفادار آدمی ہے۔ وہ بیچارہ تو اپنے گھر کی ضروریات کی خاطر دن رات اس نوکری میں مصروف رہتا ہے۔ بھائی نے کہا کہ اقبال اپنی نوکری کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا ۔ اکیلا کمانے والا ہے۔ باپ معذور اور بہنیں شادی کی عمر کو پہنچی ہوئی ہیں۔ ان تینوں بھائیوں نے جو شور شرابہ اور احتجاج کیا تھا وہ اگر کوئی اور سنتا تو فورا فتویٰ دے دیتا کہ یہ تو بالکل ہی بے گناہ ہیں اور اپنے خلاف معمولی سے شک کو بھی اپنی تو ہین سمجھتے ہیں لیکن میرا دماغ ایک عام آدمی کا دماغ نہیں بلکہ پولیس آفیسر کا دماغ تھا۔ اصل مجرم اسی طرح شور شرابا کر کے یا آنسو بہا کر یا جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے آپ کو بے گناہ ظاہر کیا کرتے ہیں ۔ بعض بے گناہی کی ایکننگ بڑی ہی مہارت سے کرتے ہیں ۔ میں ان تینوں کی باتوں اور احتجاج سے ایسا نہیں کر سکتا تھا کہ ان کو اسی طرح چھٹی دے دیتا۔ میں نے اپنا شک رفع کرنا تھا۔ ان کو مزید ناراض بھی نہیں کرنا تھا۔
میرے پاس ایک اور ذریعہ تھا۔ میں نے ایک ہیڈ کانسٹیبل کو سنگار میز، اس کی درازوں اور ٹین کی چھوٹی سی صندوقچی سے فنگر پرنٹ (انگلیوں کے نشان) اتارنے کا کام دیا تھا۔ یہ کام اس نے کر لیا تھا اور میں نے دیکھا کہ انگلیوں کے بڑے صاف نشان ہمارے خاص کا غذ پر منتقل ہو گئے تھے۔ میں نے ان تینوں بھائیوں سے کہا کہ میں ایسا بندو بست کر رہا ہوں کہ ان کی بے گناہی ثابت ہو جائے گی اور کوئی ان پر انگلی نہیں اٹھا سکے گا ۔ ان کو کہا کہ وہ کورے کاغذ پر اپنی پانچوں انگلیوں کے نشان لگا دیں۔ انہوں نے کچھ پس و پیش کی ۔ میں نے ان کو کہا کہ یہ انہی کے فائدے میں ہے۔ بہر حال میں نے تینوں کے انگلیوں اور انگوٹھوں کے نشان الگ الگ کاغذ پر لے لیے۔ اصل نشانات اور ان بھائیوں کے لئے ہوئے نشانات کو معائنے اور رپورٹ کے واسطے پھلور جانا تھا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ مجھ کومل گئی تھی ۔ ڈاکٹر نے لکھا تھا کہ مقتولہ کا گلا گھونٹ کر اس کو مارا گیا ہے۔ یہ بھی لکھا تھا کہ مرنے سے پہلے مقتولہ کی آبروریزی ہوئی ہے۔ موت کا وقت رات گیارہ بجے لکھا گیا تھا۔ ٹھیکیدار کی انگلیوں کے نشانات بھی لینے تھے لیکن میں نے سوچا کہ اس کو بیوی کی لاش واپس مل گئی ہے اور وہ کفن دفن کے انتظامات میں مصروف ہو گا۔ اس کو میں نے دن کے پچھلے پہر تھانے بلانا تھا۔ میں نے ان بھائیوں کو رخصت کر دیا۔ تینوں میرے دفتر سے نکلے لیکن درمیان والا بھائی برآمدے سے واپس آگیا اور میرے سامنے آن بیٹھا ۔ اس . نے کہا کہ وہ میرے ساتھ تھوڑی سی الگ تھلگ بات کرنا چاہتا ہے۔
میں یہ بات اپنے بھائیوں کے سامنے نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے کہا۔ ہمارے باپ کی اس بیوی نے مجھ کو پھانسنے کی انتہا درجے کوشش کر ڈالی تھی لیکن میں نے اس کو لفٹ نہیں کرائی ۔ ہماری امی فوت ہو گئی تو اس لڑکی نے اپنی کوششیں تیز کر دیں ۔ کبھی تو موقع دیکھ کر میرے کمرے میں آجاتی تھی یا مجھ کو اپنے کمرے میں بلاتی رہتی تھی ۔ میں دو تین مرتبہ اس کے کمرے میں چلا گیا تو اس نے بڑے ہی جذباتی اور پیارے سے انداز میں میرے ساتھ محبت کا اظہار کیا۔ میں اس محبت کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔ میں نے تو یہاں تک سوچا تھا کہ اپنے والد کو بتا دوں لیکن اس واسطے چپ رہا کہ یہ بڑی چالاک اور فریب کارلڑکی ہے، کہیں ایسا نا تک نہ کھیل جائے کہ مجھے کو لینے کے دینے پڑ جائیں ۔ آخر میں نے بڑی سختی سے اس کو دھتکار دیا حالانکہ میں کوئی شریف آدمی نہیں ۔ میرے بارے میں آپ کسی سے بھی پوچھیں گے تو وہ یہی بتائے گا کہ یہ لڑکا اچھے کردار والا نہیں ، عیاش اور آوارہ طبع بندہ ہے. میں نے آپ کو حقیقت بتادی ہے، آپ اپنا شک رفع کرلیں۔ یہاں میں پھر کہوں گا کہ وہ تو بات کر کے چلا گیا جیسے مجھ کو اس نے اپنی بات سے قائل کر لیا ہو لیکن میرے دماغ میں شک قائم رہا۔ یہ شک کسی ثبوت یا قابل اعتماد شہادت کے بغیر رفع نہیں ہو سکتا تھا۔
تینوں بھائی چلے گئے تو میں نے نوکرانی کو پھر بلایا۔ اسے کہا کہ وہ کسی کو نہ بتائے کہ اس کی میرے ساتھ کیا با تیں ہوئی تھیں ۔ اس کو بھی رخصت کر دیا۔ بھائیوں کے پیچھے پیچھے میں نے ایک کانسٹیبل کو یہ کہہ کر دوڑا دیا کہ وہ ٹھیکیدار کے گھر جائے اور اس کے ایک ملازم اقبال کو اپنے ساتھ لے آئے ۔ مجھ کو معلوم تھا کہ اب اقبال ٹھیکیدار کے ساتھ ہی ہو گا۔ کانسٹیبل کو میں نے خاص طور پر یہ بات کہی کہ یہ تینوں بھائی جا رہے ہیں، خیال رکھنا کہ ان کی اقبال کے ساتھ کوئی بات نہ ہو سکے ۔ کہنا کہ اس کو بہت جلدی تھانے جانا ہے۔ جیسا کہ ایسی وارداتوں میں ہوتا ہے کہ ادھر واردات ہوئی ادھر ایک دوخوشامدی قتسم کے معزز افراد اپنے نمبر بنانے کے واسطے تھانیدار کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور اندر کی خبر میں سناتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر بڑی کارآمد باتیں بتا جاتے ہیں اور ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے جو محض چغل خور ہوتے ہیں۔ میں جب کانسٹیبل کو بھیج چکا تو ایسا ہی ایک بظاہر معزز آدمی آگیا ۔ اس کو دیکھ کر مجھ کو خوشی ہوئی۔ میں نے سوچا کہ کوئی کارآمد بات معلوم ہو جائے گی ۔ مجھے کو یہ بھی معلوم تھا کہ ٹھیکیدار چونکہ دولت مند آدمی ہے اور وہ آدھے راستے میں آکر دولت مند بنا ہے اس واسطے قصبے میں اس کے حاسد بھی موجود ہوں گے ۔
میں نے اس شخص کا بڑا خندہ پیشانی سے استقبال کیا ، بٹھایا اور پوچھا کہ وہ کس طرح آیا ہے اور میں اس کی کیا خدمت کروں۔ یہ میں رسمی طور پر کہہ رہا تھا، مجھ کو تو معلوم تھا کہ وہ کیوں آیا ہے۔ وہ ہو گیا ہے جو سب کو معلوم تھا ہوگا اس شخص نے کہا۔ ٹھیکیدار کو دولت نے اندھا کر دیا تھا، یہ بھی نہ سوچا کہ کم سن لڑکی کو ہی گھر لانا ہے تو کسی عزت دار گھرانے کی لڑکی لاتا۔ لڑکی بھی ایک بے غیرت خاندان کی لایا اور لڑکی نے ٹھیکیدار کے گھر میں چکلا کھول لیا۔ اس لڑکی کی ماں ابھی تک اپنے آپ کو چلاتی ہے۔ ٹھیکیدار کو اسی عورت نے پھانسا اور لڑکی دے کر رقم وصول کی تھی ۔ اب وہ لڑکی کو چلا رہی ہے۔
چوھدری صاحب! میں نے کہا۔ یہ باتیں تو مجھ کو معلوم ہو چکی ہیں، آپ یہ بتائیں کہ مقتولہ نے اپنے خاوند کے گھر میں چکلا کھول لیا تھا تو اس کے گاہک کون کون تھے اور وہ گاہک کون ہو سکتا ہے جولڑ کی کو قتل کر گیا ؟“
مجھ کو تھوڑی سی مہلت دیں۔ اس نے کہا ” میں آپ کو دو چار نام بتاؤں گا۔ یہ ہن میں رکھ لیں کہ مقتولہ کی ماں کی چور ہے اور یہی عادت مقولہ میں تھی ۔ آپ ابھی اس تھانے میں تعینات نہیں ہوئے تھے ۔ اس عورت نے ایک چوری کی تھی اور مال اس کے گھر سے برآمد ہوا تھا۔ کچھ بھلے لوگوں نے بیچ بچاؤ کر کے یہ معاملہ تھانے میں نہیں آنے دیا تھا۔ اس لڑکی کے قصے تو بہت ہی مشہور ہیں ۔ میں نے یہ سنا کہ مقتولہ میں ماں والی چوری کی عادت تھی تو مجھ کو یہ شک ہوا کہ یہ جو اس کے زیورات بکھیرے گئے اور سنگار میز کی تلاشی لی گئی تو یہ اس لیے کیا گیا ہو گا کہ گھر میں کوئی چیز چوری ہوگئی ہوگی اور ٹھیکیدار کے بیٹوں نے مقتولہ کی یہ اشیاء اور دراز میں اچھی طرح دیکھی ہوں گی لیکن یہاں سوال پھر سامنے آتا ہے کہ اس کو بے آبرو کیا گیا اور پھر قتل کر دیا گیا۔ کیا یہ اس کو سزا دی گئی تھی؟ یہاں سے آگے مجھے کو پھر اندھیر انظر آتا تھا، بہر حال میں نے اس شک کو اپنے دماغ میں محفوظ کر لیا۔ اس معزز مخبر اور خوشامدی نے اس کے بعد جتنی باتیں کہیں وہ محل حسد تھا جس کا وہ اظہار کر رہا تھا۔ ٹھیکیدار کو دو زبر دست پائی اور نہ جانے کیا کیا ثابت کر رہا تھا۔ وہ ابھی رخصت ہونے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اتنے میں میرا بھیجا ہوا کا نشیبل اقبال کو لے کر آ گیا۔ اقبال کو باہر بٹھا کر وہ میرے دفتر میں آیا اور اطلاع دی۔
میں نے اس معزز آدمی کو چلتا کیا۔ ایک خاص بات سن لیں صاحب !“ کا نشیبل نے مجھ کو کہا۔ ”میں جس شخص اقبال کو ساتھ لایا ہوں، اس پر مجھ کو کچھ شک ہو گیا ہے۔ تھانے آنے سے تو ہر کوئی گھبراتا ہے لیکن اس کی گھبراہٹ دیکھنے والی تھی۔ میں نے ٹھیکیدار کے گھر کے باہر اس کو کہا کہ تھانے چلو تو اس کی آنکھیں ٹھہر گئیں اور منہ کھل گیا پھر اس طرح لگا جیسے اس پر غشی آ جائے گی۔ میرے ساتھ چل تو پڑا لیکن اس سے چلا نہیں جا تا تھا اور منہ سے بات بھی نہیں نکلتی تھی ۔ راستے میں اس نے مجھ کو روک لیا اور کہنے لگا کہ میں تمہیں پیسے دوں گا تم یہ بتاؤ کہ مجھ سے تھانیدار کیا پوچھے گا اور میں کیا جواب دوں ۔ میں نے اس کو تسلی دی تو پھر یہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ وہ لوگ جو جرم کرتے ہیں وہ تھانے میں کس طرح کا بیان دیتے ہیں ۔ اس نے پھر کہا کہ میں تمہیں بہت پیسے دوں گا، مجھ کوٹھیک بتاؤ کہ میں تھانیدار صاحب کے ساتھ کس طرح بات کروں … یہ تھانے تک مجھ سے یہی پوچھتا آیا اور میں اس کو حوصلہ اور تسلی دیتا رہا۔ مجھ کو اس پر بڑا شک ہے ۔ یہاں میں ایک بات کہتا ہوں ۔ آج کل کے کانٹیل آپ نے دیکھے ہوں گے ۔ میں . ان کو دیکھتا ہوں تو اس طرح لگتا ہے جیسے یہ لوگ پولیس کے محکمے کے واسطے ہی نہیں بلکہ جو وردی انہوں نے پہنی ہوئی ہوتی ہے اس وردی کے واسطے بھی یہ سراسر تو ہین کے مجسمے ہوتے ہیں۔ یہ کانٹیبل اپنی وردی کی بے ادبی کرتے ہیں۔
ہمارے وقتوں میں ایسے کانسٹیبل ہوا کرتے تھے جو اپنے کام میں مہارت رکھتے تھے اور میں تو یہاں تک کہوں گا کہ آج کل کے تھانیداروں سے زیادہ سیانے اور تجربہ کار ہوتے تھے ۔ اپنا کچھ وقار بھی رکھتے . تھے۔ میرا یہ کانسٹیبل ایسے ہی کانٹیبلوں میں سے تھا۔ اس نے اقبال کی باتیں غور سے سنیں ور اس کا انداز اور رویہ دیکھا تو اس نے مجھ کو بتا دیا کہ یہ شخص بہت ڈرپوک ہے یا واردات کے ساتھ اس کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔ میں نے اس کو کہا کہ اس کو اندر بھیج دو۔ کانسٹیبل باہر نکلا تو ایک دو منٹ بعد ایک خوبرو جوان، دروازے میں آن کھڑا ہوا۔ مجھ کو اس کا قد کاٹھ بڑا اچھا لگا لیکن سر آگے کو جھکا ہوا اور کندھے بھی کچھ سکیٹرے ہوئے تھے۔ اس کی بابت کانسٹیبل نے مجھ کو پہلے ہی بتا دیا تھا۔ اگر یہ نو جوان سیدھا کھڑا ہوتا تو دل کو بہت ہی اچھا لگتا۔
آ جاؤ اقبال ! میں نے مسکرا کر کہا۔ ” آؤ اس کرسی پر بیٹھ جاؤ“۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا کرسی تک آیا۔ مجھ کو ایک بار پھر کہنا پڑا کہ بیٹھ جاؤ۔ تب وہ نظریں میرے چہرے پر جمائے کرسی پر بیٹھ گیا۔ نظریں جمائے بیٹھنے کو بیٹھنا نہیں بلکہ ڈھیر ہونا کہا
جاتا ہے۔ تم اتنا زیادہ ڈرے ہوئے کیوں ہوا قبال ؟“ میں نے پوچھا۔
وہ کچھ دیر میرے منہ کی طرف دیکھتا رہا اور پھر اس کے منہ سے جو جواب نکالا وہ نہ نہیں تھا اور نہ ہی ہاں تھا بلکہ وہ کچھ کہنے لگا تو اس کی زبان ہکلا گئی۔ وہ غالبا یہ کہنا چاہتا تھا کہ وہ ڈرا ہوا نہیں لیکن اس کا یہ خیال بھی تھا کہ کہہ دے کہ میں آپ سے ڈر گیا ہوں ۔ میں نے اس کی گھبراہٹ یا خوف قائم رہنے دیا۔ کانٹیل میرے دماغ میں ایک شک پیدا کر گیا تھا۔
تمہاری بی بی قتل ہوگئی ہے۔ میں نے کہا۔ ” کیا تم میری کچھ رہنمائی کر سکتے ہو؟ مجھے کو معلوم ہے کہ اس کے ساتھ تمہارا بڑا گہرا اور راز داری والا تعلق تھا۔ نہیں جناب!“ اس نے کانپتی ہکلاتی زبان میں کہا۔
تمہارے تو منہ سے بات بھی نہیں نکل رہی ۔ صاف کہہ دو کہ اس کے ساتھ تمہارا کوئی ایسا ویسا تعلق نہیں تھا لیکن میں تمہیں یہ بتا دیتا ہوں کہ میرے پاس خاصی زیادہ شہادت آگئی ہے کہ تہارا اسکے ساتھ گہراتعلق تھا۔
میں نے اس کو وہ بات سنائی کہ نوکرانی بیڈ روم میں گئی تو اقبال مقتولہ کے بازوؤں میں تھا اور ان کے منہ جڑے ہوئے تھے ۔ اب تو اس اقبال کی حالت اور ہی زیادہ بگڑ گئی۔ میں نے اس کو ایک بار پھر کہا کہ مقتولہ کے ساتھ اگر اس کی کچھ بے تکلفی تھی تو یہ کوئی جرم نہیں . تھا وہ اس کا اقرار کرنے سے نہ گھبرائے لیکن اس کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ میں نے اس سے بے تعلق ہی دو تین اور باتیں کیں تو میں نے دیکھا کہ وہ مجھ سے بھی بے ق ہوتا جارہا تھا۔ یہاں تک کو مجھے کہ اس پر کچھ غصہ آنے لگا۔