بند گلی کا انوکھا راز - مکمل اردو کہانی

urdu stories
 

Sublimegate Urdu Font Stories

بند گلی کا انوکھا راز - مکمل اردو کہانی


تقریباً 1992 کی بات ہے جب پاکستان ورلڈ کپ جیتا تھا اس وقت گلی گلی میں کرکٹ کھلی جایا کرتی تھی اس وقت گلستان کالونی میں سکول روڈ پر ہماری نانی ماں کا گھر تھا اور میں اکثر ان کے گھر جا کر سکول کی چھٹیاں انجوائے کیا کرتا تھا کیونکہ وہاں بھی میرے بہت سے دوست تھے جن کے ساتھ میں سارا سارا دن کرکٹ کھیلا کرتا تھا اور وہیں میری نانی کے گھر سے کچھ ہی دوری پر ایک پرانی اینٹوں سے بنی بند گلی ہوا کرتی تھی جو کہ دونوں اطراف سے بند تھی ایسا کیوں تھا مجھے یہ تو سمجھ نہیں آیا لیکن اس گلی کے آخر میں ایک بڑے گھر کی بیک سائیڈ لگتی تھی اسی وجہ سے گلی اس سائیڈ سے بند تھی اور دوسری سائیڈ پر چار پانچ فٹ کی دیوار تھی جس وجہ سے باہر والی مین گلی سے اس گلی کا راستہ جدا ہو گیا تھا

 لیکن باہر والی مین گلی سے اس دیوار کو پھلانگ کر آسانی سے اس گلی میں جایا جا سکتا تھا اور حیرت والی یہ بات تھی کہ اس گلی میں دائیں بائیں جتنے بھی مکانات تھے وہ بہت پرانے زمانے کے تھے اور اس سے بھی عجیب بات یہ تھی کہ تقریباً سارے گھروں میں یاں تو زنگ آلود تالے لگے رہتے تھے یا پھر جن میں تالے نہیں تھے وہ بھی خالی تھے کیونکہ وہاں کوئی بھی نہیں رہتا تھا لیکن ان خالی گھروں کی حالت ایسی تھی کہ ان کو دیکھ کر خوف سا آتا تھا کیونکہ ان گھروں کے صحن کچے تھے جن میں زیادہ تر گھروں میں پرانے زمانے کی قبریں، جھاڑیاں، گھاس کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے پرانے درخت لگے ہوئے تھے ایسا لگتا تھا کہ یاں تو یہ گھر کسی پرانے قبرستان میں بنائے گئے تھے یاں پھر گھروں میں قبریں بنائی گئیں تھیں اور ان گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹے پھوٹے تھے جس کی وجہ سے اکثر چور چکے وغیرہ وہاں چھپ جایا کرتے تھے اور سب سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ اس گلی میں دن کے وقت بھی اتنی خاموشی تھی کہ وہاں کوئی چھوٹا سا کنکر بھی پھینک دے تو اس کی بھی آواز صاف سنائی دیتی تھی
 یہاں کے علاقہ مکین اس گلی کو انگریز کالونی بولتے تھے کیونکہ ان کے مطابق یہاں کسی دور میں انگریز رہا کرتے تھے اور یہ تمام گھر انہی انگریزوں کے زیراستعمال تھے اسی گلی کے ساتھ ہی میرے دوست شاہد کا گھر تھا اور ہم اکثر شاہد گھر کی چھت سے اس گلی کو دیکھا کرتے تھے۔ تو سردیوں کا موسم تھا میں میرے رامگڑھ کے دوست بلال کو بھی اپنے ساتھ میری نانی کے گھر لے گیا اور ہم دونوں میرے دوست شاہد کے ساتھ اس کی چھت پر دھوپ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ہمیں عجیب سی آواز سنائی دی جیسے کوئی اونچی آواز میں چیخا ہو۔ اسے سنتے ہی میں اور بلال ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ لیکن اس دوران شاہد بالکل ایسے بیٹھا ہوا تھا جیسے کہ اس نے وہ آواز سنی ہی نہیں تو بلال نے شاہد سے پوچھا یار یہ کیسی آواز تھی۔۔۔؟؟ شاہد نے کہا یار چھوڑ اسے یہ آواز اکثر یہاں سے آتی رہتی ہے۔ یہ سنتے ہی بلال نے کہا لیکن یہ آواز کہاں سے آئی تھی

 شاہد نے وہیں بیٹھے ہوئے اپنے انگوٹھے سے اس گلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہاں سے آتی ہے لیکن وہاں ہوتا کوئی نہیں ہے بس ایسے ہی کوئی پاگل لڑکی چیخ کر کہیں بھاگ جاتی ہے۔ یہ سنتے ہی میں جلدی سے دیوار کی طرف گیا اور نیچے اس گلی کی طرف دیکھنے لگا پر وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا اتنے میں بلال بھی میرے پاس آکر اس گلی میں دیکھنے لگا اور بولا یار واقعی میں وہاں کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا جبکہ شاہد اپنی جگہ سے اٹھا ہی نہیں تھا تو اس نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا یار آجاؤ کوئی فائدہ نہیں۔۔ وہ کہیں بھاگ جاتی ہے یاں چھپ جاتی ہے۔ شاہد کی یہ بات سن کر میں نے حیرانی سے شاہد کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ یار تو کس کی بات کر رہا ہے۔۔۔ کیا تو نے اس لڑکی کو دیکھا ہے۔۔۔؟؟ شاہد نے ہنستے ہوئے کہا ہاں میں نے دو تین بار اسے دیکھا ہے لیکن میں نے کبھی اس کا چہرہ نہیں دیکھا کیونکہ وہ بہت تیزی سے بھاگ کر چھپ جاتی ہے بس اس کی جھلک ہی نظر آتی ہے۔ یہ سنتے ہی بلال نے کہا تو پھر تجھے کیسے پتا کہ وہ لڑکی ہی ہے۔۔؟؟ شاہد نے کہا کیونکہ اس نے لڑکیوں والے کپڑے ہی پہنے ہوتے ہیں اور اس کے بال بھی لڑکیوں کی طرح ہی لمبے ہیں تو وہ لڑکی ہی ہو گی نا۔۔۔؟؟ یہ سنتے ہی بلال نے کہا لیکن وہ چھپتی کہاں ہے۔۔؟؟ 

شاہد نے نا میں سر ہلاتے ہوئے کہا ارے یار اب چھوڑو بھی اسے وہ پاگل ہے انہی ٹوٹے پھوٹے گھروں میں چھپ جاتی ہے ۔ لیکن تم لوگ اس کے بارے میں اتنا انٹرسٹ کیوں لے رہے ہو دفعہ کرو اُس پاگل کو ۔ جب بھی ہم اس گلی میں کھیلتے ہیں تو اکثر ہماری بال ان گھروں میں چلی جاتی ہے تو وہ ہماری بال بھی اٹھا کر بھاگ جاتی ہے ہم نے بہت بار لوگوں کو اس کے بارے میں بتایا ہے لیکن کوئی ہماری بات پر یقین ہی نہیں کرتا یہاں کے سبھی لوگ کہتے ہیں وہاں کوئی نہیں رہتا تم لوگ وہاں مت کھیلا کرو۔۔ جبکہ میرے ساتھ تین چار اور دوستوں نے بھی اسے دیکھا تھا اس وقت وہ پاگل درخت کی ڈال پر لیٹی ہوئی تھی۔ شاہد کی یہ باتیں سن کر میں اور بلال ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر بلال نے کہا یار کہیں وہ کوئی روح تو نہیں ہے۔۔۔؟؟ یہ سن کر شاہد زور زور سے ہنسنے لگا اور بولا ارے یار وہ کوئی روح نہیں ہے بلکہ کوئی گھر سے بھاگی ہوئی پاگل لڑکی ہے روحیں تو نظر ہی نہیں آتیں کیا ہو گیا ہے تم لوگوں کو۔۔۔؟؟ یہ کہتے ہوئے شاہد اڑتی ہوئی پتنگوں کی طرف دیکھنے لگا ۔ اتنے میں پھر سے عجیب کی چینخ کی آواز سنائی دی۔۔ تو میں نے فوراً دیوار سے نیچے اس گلی کی طرف دیکھا تو مجھے کوئی کھلے بالوں والی لڑکی دکھائی دی جو کہ بھاگ کر ایک ٹوٹے دروازے میں گھس رہی تھی اسے دیکھتے ہی میں نے بلال سے کہا بلال وہ دیکھ وہی لڑکی۔۔۔؟؟
 یہ سنتے ہی بلال دوڑ کر میرے پاس آیا لیکن اس وقت وہ دروازے سے اندر جا چکی تھی۔ بلال نے کہا کہاں ہے وہ۔۔۔؟؟ میں نے ایک دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ اس ٹوٹے دروازے سے اندر گئی ہے۔ بلال نے کہا چل اسے دیکھنے چلیں۔۔؟؟ میں نے کہا یار پتا نہیں کہیں وہ ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔ اتنے میں شاہد نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے وہ تمہیں وہاں ملے گی تو نقصان پہنچائے گی نا۔۔۔؟؟ یہ سنتے ہی میں شاہد سے کہا کیا مطلب۔۔ وہ وہیں تو گئی ہے ٹوٹے دروازے سے۔۔۔؟؟ شاہد نے کہا لیکن وہ تمہیں وہاں نہیں ملے گی کیونکہ وہ ایسی جگہ پر چھپ جاتی ہے کہ کسی کو نہیں ملتی۔۔ میں نے بہت بار دوستوں کے ساتھ جا کر اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے پر وہ نہیں ملتی۔۔ بس اپنی مرضی سے نظر آتی ہے اور اپنی مرضی سے چھپ جاتی ہے۔ یہ سن کر بلال نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا چل دیمی پھر آج ہم بھی ایک بار ٹرائی کر ہی لیتے ہیں اسے ڈھونڈنے کی ۔۔؟ میں نے کہا ٹھیک ہے ویسے بھی ابھی دن کا وقت ہے اس لیئے ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔۔ ہماری بات سن کر شاہد نے کہا اچھا اگر تم لوگوں کو میری بات پر یقین نہیں آتا تو چلو میں بھی تمہارے ساتھ ہی چلتا ہوں پر وہ ہمیں کہیں نہیں ملے گی اسی لیئے تو یہاں کے لوگ ہم پر یقین نہیں کرتے۔ یہ کہتے ہوئے شاہد بھی ہمارے ساتھ اس گلی میں چلا گیا لیکن اس گلی میں جاتے ہی اچانک میرا سر بھاری ہونے لگا تو میں نے شاہد سے کہا یار پتا نہیں اچانک میرا سر کیونکہ بھاری ہو رہا ہے۔

 شاہد نے کہا کیونکہ یہ گلی باقی گلیوں سے ٹھنڈی ہے اوپر سے ہم دھوپ میں سے آئے ہیں اس لیئے بھی سر ٹھنڈا گرم ہو سکتا ہے۔ ابھی ہم یہ باتیں کرتے ہوئے اس گھر کی طرف جاہی رہے تھے کہ اچانک ہمیں کسی کے ہنسنے کی آواز سنائی دی اسے سنتے ہی ہم لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تو شاہد نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے ہمیں اشارے سے چپ رہنے کا اور وہیں ٹھہرنے کہا تو ہم دونوں اسی گھر کے قریب رک گئے اور شاہد دبے پاؤں چلتا ہوا اسی گھر کے دروازے پر پہنچنے کے بعد اس نے مشکوک انداز میں ہماری طرف دیکھا پھر وہاں سے آہستہ آہستہ سے دروازے میں داخل ہو گیا اور ہم دونوں اسی جگہ رک کر اسے دیکھ رہے تھے کہ اچانک شاہد واپس دروازے سے باہر نکلا اور اس نے خاموشی سے اشارا کرتے ہوئے ہمیں اپنے پاس بلایا جب ہم اس کے پاس پہنچے تو شاہد نے شرگوشی میں کہا میرے ساتھ آؤ لیکن چپ ہی رہنا وہ پاگل اندر ہی اور جیسے ہی ہم اس دروازے سے اندر گئے تو وہاں ہمیں کوئی دکھائی نہیں دیا اتنے میں ہمیں درختوں کے درمیان موٹی زنجیروں سے بنا پرانے زمانے کا زنگ آلود جھولا نظر آیا جو کہ خودبخود ہی ہل رہا تھا جیسے کہ اس پر کوئی بیٹھ کر جھول رہا ہو لیکن وہ نظر نہیں آرہا ۔ یہ دیکھتے ہی میں نے سرگوشی میں شاہد سے کہا یار یہ کیا چکر ہے جھولا خودبخود کیوں ہل رہا ہے۔؟؟
 شاہد نے کہا پتا نہیں لیکن ابھی وہ پاگل اس جھولے کے پاس ہی کھڑی تھی اسی نے ہلایا ہو گا۔۔ اتنے میں بلال نے کہا اگر وہ یہاں تھی تو ہمیں نظر کیوں نہیں آرہی۔۔؟؟ شاہد نے کہا یار لگتا ہے وہ کہیں چھپ گئی ہے ابھی شاہد یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اچانک جھولا خود ہی رک گیا اور ہمیں بھاری سی آواز میں پھر سے کسی کے ہنسنے کی آواز سنائی دی تو ہم سبھی چونک گئے اور ایک دوسرے کی طرف حیرانی سے دیکھنے لگے۔۔ تو شاہد نے کہا مجھے لگتا ہے یہ اسی پاگل کی آواز ہے اور وہ کہیں آس پاس ہی ہے چلو اس کو ڈھونڈتے ہیں یہ کہتے ہوئے شاہد اس ٹوٹے پھوٹے گھر کے کمروں میں دیکھنے لگا اور ہم دونوں گھر کے صحن میں ادھر اُدھر جا کر اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگے کہ اتنے میں اچانک ہمیں کسی نے دور سے آواز دیتے ہوئے کہا ارے تم لوگ وہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔؟؟ یہ سنتے ہی ہم نے ادھر اُدھر دیکھا تو ہمیں کوئی نظر نہیں آیا اتنے میں پھر کسی نے اونچی آواز میں کہا۔۔۔ ارے ادھر دیکھو اوپر۔۔۔ یہاں دیکھو۔۔۔ ؟؟ یہ سنتے جیسے ہی ہم نے اوپر دیکھا تو شاہد کا بڑا بھائی ماجد اپنی چھت پر کھڑا ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا تم لوگ وہاں کیا کر رہے ہو جلدی سے واپس آؤ سارے۔۔۔ یہ سنتے ہی میں نے شاہد کو آواز دیتے ہوئے کہا یار ماجد بھائی بلا رہے ہیں چلو جلدی یہاں سے باہر نکلو۔۔ یہ کہتے ہوئے میں اور بلال وہاں سے باہر نکلنے لگے تو شاہد بھاگتا ہوا ہم سے پہلے باہر نکل گیا اور ہمیں بھی کہنے لگا جلدی آجاؤ ورنہ ماجد بھائی ابو کو بتا دیں گے۔

 یہ سن کر ہم فوراً وہاں سے نکل کر واپس شاہد کی چھت پر چلے گئے تو ماجد بھائی نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے تم لوگ وہاں کیا لینے گئے تھے۔۔؟؟ کیا تمہیں پتا نہیں وہاں بہت عجیب عجیب واقعات ہوتے ہیں۔ یہ سنتے ہی میں اور بلال حیرت انگیز نظروں سے ماجد بھائی کی طرف دیکھنے لگے تو اتنے میں شاہد نے ماجد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بھائی آپ کیا ہمیں ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ ہم اکثر اس گلی میں ہی کرکٹ کھیلتے ہیں ہمارے ساتھ تو کبھی کوئی عجیب واقع نہیں ہوا۔۔۔ شاہد کی یہ بات سن کر ماجد نے کہا ارے تم تو بیچ میں نہ ہی بولو تو اچھا ہے۔ کیا ججی چچا کے ساتھ اس گلی میں ڈرامہ نہیں ہوا تھا جب انہیں وہاں کوئی ڈراونی سی عورت نظر آئی تھی اور کیا اس نے انہیں دیوار سے نیچے دھکا نہیں دیا تھا۔۔۔؟؟ جب ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔۔۔؟؟ یہ سن کر شاہد نے کہا ارے بھائی وہ تو بہت پرانی بات ہے اور ویسے بھی وہ رات میں وہاں گئے تھے اس لیئے وہ کسی چیز سے ڈر گئے تھے اور ان کا دیوار سے پاؤں پھسل گیا تھا لیکن ہم تو دن میں وہاں جاتے ہیں۔۔ لیکن ہمیں تو آج تک اس پاگل لڑکی کے سوا اور کچھ بھی نظر نہیں آیا۔۔۔ ماجد نے اپنا ہاتھ اپنے ماتھے پر مارتے ہوئے کہا ارے کتنی بار بتاؤں وہ کوئی پاگل لڑکی نہیں ہے بلکہ وہ بہت خطرناک چیز ہے جو ان کھنڈرات میں یہاں سے وہاں گھومتی رہتی ہے۔ شاہد نے کہا تو بھائی پھر یہاں کے لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ وہاں کوئی نہیں ہے۔۔۔؟؟ ماجد نے کہا وہ اس لیئے کہتے ہیں کہ ان کے مطابق وہاں واقعی میں کوئی نہیں رہتا اور تم ہو کہ پاگل لڑکی۔۔۔

 پاگل لڑکی۔۔۔ کہہ کر انہیں بتاتے رہتے ہو۔۔۔ ذرا سوچو جن لوگوں نے ججی چچا کی بات کا یقین نہیں کیا تھا وہ تمہاری بات کا یقین کیسے کریں گے ۔۔ اس لیئے میں تم سے بار بار کہتا ہوں وہاں مت جایا کرو۔۔۔ یہ کہتے ہوئے ماجد شاہد کو سمجھانے میں لگا ہوا تھا جبکہ اس دوران میں اور بلال ان دونوں بھائیوں کی باتوں کو سن کر حیران ہو رہے تھے کیونکہ ہم کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ دونوں بھائیوں میں سہی کون ہے۔۔۔ اتنے میں بلال نے ماجد سے پوچھا بھائی کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ آخر آپ کے چچا کے ساتھ ہوا کیا تھا۔۔۔؟؟ ماجد نے کہا دراصل میرے ججی چچا رات میں نہر کے کنارے گول گپوں کا ٹھیلا لگاتے تھے اس وجہ سے اکثر وہ رات کو دیر سے گھر آتے تھے تو ایک رات وہ ٹھیلا لے کر واپس گھر آ رہے تھے کہ انہیں اس بند گلی کی دیوار پر ایک خوبصورت سی عورت بیٹھی ہوئی دکھائی دی جو کہ رو رہی تھی تو میرے چچا نے اس عورت کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا کیا ہوا بی بی۔۔۔ تم کون ہو۔۔۔اور رو کیوں رہی ہو۔۔۔؟؟ تو اس عورت نے چچا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میں یہی پاس میں ہی رہتی ہوں دراصل میرا بیٹا کہیں کھو گیا ہے میں کب سے اسے دھونڈ رہی ہوں لیکن وہ مجھے ابھی تک نہیں ملا۔۔۔ اب میں اتنی رات میں اسے کہاں تلاش کروں یہ کہتے ہوئے وہ عورت پھر سے رونے لگی۔۔۔؟؟ تو میرے چچا نے اس عورت سے پوچھا کہ تمہارا بیٹا کس جگہ پر کھویا تھا۔۔۔
 تو اس عورت نے کہا وہ کھلونے لینے کی ضد کر رہا تھا میں نے اسے ڈانٹا تو وہ اس دیوار سے کود کر اس گلی میں گیا تھا اس کے بعد وہ مجھے کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔۔۔ میں بہت پریشان ہوں اگر میں نے اسے تلاش نہیں کیا تو میرا شوہر مجھے گھر سے نکال دے گا۔۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہا اسے کہاں تلاش کروں ایک تو پہلے ہی یہ گلی بہت سنسان ہے اور اوپر سے یہاں کسی گھر کی لائٹ بھی نہیں جل رہی ۔۔۔ تو اس عورت کہ یہ بات سن کر ججی چچا نے اس سے کہا محترمہ آپ پریشان نہ ہوں میں اس کو ڈھونڈنے میں آپ کی مدد کرتا ہوں یہ کہتے ہوئے چچا نے اپنے ٹھیلے سے لالٹین نکالی اور اس عورت کو لالٹین پکڑاتے ہوئے کہا محترمہ آپ اسے پکڑ لیں اور چلیئے میرے ساتھ آپ کے بیٹے کو ڈھونڈتے ہیں یہ کہتے ہوئے چچا اس عورت کے ساتھ اس کے بیٹے کو ڈھونڈنے لگے ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اچانک اس عورت نے چچا کو ایک گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا مجھے لگتا ہے وہ اس گھر میں گیا ہو گا کیونکہ وہ اس طرف ہی بھاگا تھا۔ یہ سن کر چچا نے کہا ٹھیک ہے چلو اور جیسے ہی چچا اس گھر میں گئے تو اچانک لالٹین کی روشنی بند ہو گئی اسی وقت چچا نے لالٹین کی طرف دیکھنا چاہا تو میرے چچا حیران ہو گئے کیونکہ نہ تو وہاں لالٹین تھی اور نا ہی وہ عورت ۔۔ یہ دیکھ کر چچا کو جھٹکا سا لگا اور انہوں نے اندھیرے میں ہی ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا محترمہ۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔ بی بی۔۔۔ کہاں ہو آپ۔۔۔؟؟ لیکن چچا کو کوئی جواب نہیں ملا پھر اچانک ہلکی سی چاند کی روشنی میں چچا کو ایک لمبا سا سایہ دکھائی دیا جو کہ چچا سے کچھ ہی دور کھڑا تھا اسے دیکھتے ہوئے چچا نے کہا کون ہے وہاں۔۔۔۔ 

تو وہ سایہ آہستہ آہستہ سے چچا کے قریب آنے لگا اور چچا اسے دیکھتے ہوئے اپنے قدم واپس پیچھے لینے لگے پھر اچانک چچا کو ایک خوفناک سی چینخ کی آواز سنائی دی اور وہ سایہ تیزی سے چچا کی طرف بڑھنے لگا تو چچا جلدی سے دوڑ کر اس گھر کی دیوار پر چھڑے تو کسی نے چچا کو پیچھے سے زور کا دھکا مارا اور چچا باہر گلی میں گر گئے اور بہت مشکل سے ایک پاؤں سے لنگڑاتے ہوئے وہاں سے بھاگ کر بہت ہی مشکل سے اس بند گلی کی دیوار پر چڑھے اور وہاں سے باہر اپنی گلی میں آئے اور انہوں نے شور مچا دیا تو محلے کے کچھ لوگوں نے ججی چچا کی مدد کر کے انہیں گھر تک پہچایا تھا اس وقت چچا نے لوگوں کو وہ سب بتایا تو کچھ لوگ وہاں جا کر واپس آ گئے اور بولے وہاں تو کوئی نہیں تھا۔ چچا نے کہا میں سچ کہہ رہا ہوں وہاں ایک عورت تھی لیکن کسی نے بھی ججی چچا کی بات پر غور نہیں کیا اور انہوں نے چچا سے کہا کہ یہ آپ کا وہم ہے اس بند گلی میں ایسا ویسا کچھ نہیں ہے جبکہ چچا نے بتایا کہ میری لالٹین بھی اس رات غائب ہو گئی تھی اور اس رات چچا کو تیز بخار بھی ہو گیا تھا۔ ماجد کی یہ بات سن کر میں اور بلال ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ اتنے میں شاہد نے کہا اور اس دن کے بعد ماجد بھائی بھی اس گلی میں جانے سے ڈرنے لگے۔۔۔ کیوں بھائی میں نے سہی کہا نا۔۔۔؟؟ یہ کہتے ہوئے شاہد زور زور سے ہنسنے لگا۔۔۔ یہ دیکھ کر ماجد نے نہ میں سر ہلاتے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر شاہد نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا ویسے دوستوں جو بھی ماجد بھائی نے کہا وہ سب سچ ہے لیکن ایسا سچ جو کہ صرف بھائی اور چچا ہی جانتے ہیں اس لیئے تو میرے ابو نے بھی ان کی بات پر غور نہیں کیا تھا کیونکہ بھائی کے مطابق انہوں نے بھی اس گلی میں تقریباً پندرہ فٹ لمبی عجیب سی عورت دیکھی تھی جو کہ آٹھ فٹ کی دیوار کو ایسے پھلانگ کر ایک گھر میں جارہی تھی کہ جیسے اس کا ایک پاؤں گھر کے اندر اور دوسرا باہر گلی میں ہی تھا اور بھائی کے مطابق اس کے پاؤں کی ایڑھیاں آگے کی طرف تھیں اور اسے دیکھ کر اس دن بھائی بھی بیمار ہو گیا تھا۔۔۔ کیوں ایسا ہی ہے نا بھائی۔۔۔؟؟یہ کہتے ہوئے شاہد مسکرا کر ماجد کی طرف دیکھنے لگا۔۔ تو ماجد نے کہا ہاں یہ بالکل سچ ہے اور میں نے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھا تھا پھر اس پر کوئی یقین کرے یا نہ کرے۔۔۔ مجھے کسی سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ۔۔

 یہ سنتے ہی میں نے ماجد بھائی سے کہا تو بھائی پھر وہ پاگل لڑکی کون ہے جو ہمیں کچھ دیر دکھائی دی تھی۔۔ ماجد نے کہا پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ لڑکی نہیں عورت ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ کوئی پاگل نہیں بلکہ شیطانی بدروح ہے ورنہ وہ درختوں پر کیوں سوتی ہے اور اکثر میں نے اسے درخت پر بیٹھ کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھا ہے ایسا کام تو کوئی شیطانی چیز ہی کر سکتی ہے ورنہ انسان تو ایسا نہیں کرتے۔۔ ابھی ماجد یہ بات کر ہی رہا تھا کہ شاہد نے اکتاتے ہوئے کہا اچھا بھائی اب جانے بھی دو اس بات کو آپ کیا انہیں ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں ابھی تو ہم نے اس گلی میں میچ بھی کھیلنا ہے اور اگر یہ ڈر گئے تو پھر یہ اس گلی میں نہیں جائیں گے ۔ یہ سنتے ہی ماجد نے کہا دیکھو تم لوگ وہاں پہلے بھی کھیلتے ہو تب بھی میں تمہیں منع ہی کرتا ہوں لیکن تم میری بات نہیں سنتے اگر کسی دن تمہارا اس چیز سے سامنا ہو گیا نا۔۔۔ تو پھر تمہیں خود ہی پتہ چل جائے گا کہ میں تمہیں وہاں کھینلے سے کیوں روکتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے ماجد چھت سے نیچے چلا گیا اسی وقت شاہد نے سیڑھوں کہ طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے بھائی اگر اس چیز سے کبھی ہمارا سامنا ہو بھی گیا تو وہ چیز خود ہی پچھتائے گی کہ اس کا سامنا کن لوگوں سے ہو گیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے شاہد ہنسنے لگا تو میں نے شاہد سے کہا یار وہ تیرے بڑے بھائی ہیں تم ان سے ایسے بات کیوں کرتے ہو جبکہ وہ تو تمہارے بھلے کی بات ہی کر رہے تھے ۔ شاہد نے کہا یار وہ بات تو ٹھیک ہے لیکن بھائی پتا نہیں کیوں اس گلی سے ڈرتا رہتا ہے جبکہ ہم سارا سارا دن اس گلی میں کھیلتے رہتے ہیں کیونکہ نا تو یہاں کوئی آتا جاتا ہے اور نا ہی کسی قسم کی ٹرافیک ہوتی ہے اور یہاں یہ بھی ڈر نہیں ہوتا کہ کسی کی کھڑکی کا شیشہ یا پھر کسی کا بلب ٹوٹ جائے گا اس لیئے یہ گلی کرکٹ کے لیئے ہر لحاظ سے بہتر ہے اوپر سے اور دیمی تم بھی تو بہت بار ہمارے ساتھ یہاں کھیل چکے ہو تمہیں کبھی ڈر لگا ہے یہاں سے۔۔۔۔؟؟

 یہ سن کر میں نے نہ میں سر ہلایا تو اتنے میں بلال نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا یار مجھے بھی یہ گلی بہت اچھی لگی ہے بہت پرسکون ہے ورنہ باقی گلیوں میں تو کرکٹ کم اور شکائتیں زیادہ ہوتی ہیں ہر منٹ میں کوئی نا کوئی گزر کر ہماری کرکٹ کو ڈسٹرب کر دیتا ہے۔ یہ سن کر شاہد نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا تو کیا خیال ہے چلیں کھیلنے۔۔؟؟ میں نے کہا ہاں ہاں چلو ویسے بھی یہاں چھت پر بیٹھے بیٹھے بور ہی ہو رہے ہیں اس کے بعد شاہد نے اپنے محلے سے تین اور دوستوں کو بلا لیا جو کہ کافی مسخرے سے لگ رہے تھے اور ان کے نام بھی ان کی طرح ہی تھے ان میں ایک کا نام نومی دوسرا مٹھو اور ایک بوبی تھا اور وہ تینوں بھی ہماری طرح ہی کرکٹ کے جنونی تھے پھر ہم سب اس گلی میں کرکٹ کھیلنے لگے اس دوران بار بار ہماری بال کسی نا کسی خالی گھر میں جاتی رہی اور ہم اسے ڈھونڈ کر لے آتے۔ تحریر دیمی ولف۔ ہم ایسے ہی کھیلتے ہوئے انجوائے کر رہے تھے کہ اس دوران اچانک ایک بڑی سی پتنگ کہیں سے کٹ کے آئی اور وہ اسی جھولے والے گھر میں ایک درخت پر جا کر اٹک گئی اور اسے دیکھتے ہی ہم سبھی دوست بھاگ کر اس گھر میں گھس گئے اور پتنگ کو اس درخت سے اتارنے کی کوشش کرنے لگے لیکن وہ بہت بری طرح سے اٹکی ہوئی تھی تو اتنے میں بوبی نے کہا دوستوں تم لوگ مجھے پکڑ کر تھوڑا اوپر اٹھاؤ تو میں اس درخت پر آسانی سے چڑھ سکتا ہوں یہ سنتے ہی شاہد نے کہا ارے بوبی دھیان سے۔۔ کہیں پتنگ کے چکر میں ہاتھ پیر نا توڑوا لینا بوبی نے کہا ارے ٹینش مت لو بس تم سب مجھے اوپر اٹھاؤ۔۔ یہ کہتے ہوئے بوبی درخت کے تنے کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو ہم سب نے اسے پکڑ کر اوپر کی طرف کیا تو اس نے درخت کی ایک ٹہنی کو پکڑ لیا اور اس کی مدد سے وہ درخت پر چڑھ گیا پھر آہستہ آہستہ سے شاخوں پر پاؤں رکھتا ہوا پتنگ کی طرف بڑھنے لگا اس دوران بلال نے جھولے کی طرف دیکھا تو اس نے مجھ سے کہا یار تم لوگ بوبی کو دیکھو تب تک میں ذرا جھولا جھول لوں
 یہ کہتے ہوئے وہ جھولے میں بیٹھ گیا اور آہستہ آہستہ سے جھولا جھولنے لگا اس دوران ہم باقی دوست بوبی کو دیکھ رہے تھے اور مٹھو ایک کمرے کی طرف جا رہا کہ اچانک ہمیں ایک خوفناک سی آواز سنائی دی تو ہم سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے تو اتنے میں اوپر سے بوبی نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا یہ کیسی آواز تھی میں تو ڈر ہی گیا تھا۔۔۔؟؟ یہ سن کر مھٹو زور زور سے ہنسنے لگا اتنے میں شاہد نے کہا ارے مھٹو یہ آواز تو نے نکالی تھی نا۔۔۔ مٹھو نے کہا نہیں۔۔۔ نہیں مجھے کیا ضرورت ہے ایسی آواز نکالنے کی۔۔ تو اتنے میں بلال بھی مھٹو کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگا اور بولا مھٹو میں نے تمہیں آواز نکالتے ہوئے دیکھ لیا تھا یہ سن کر مھٹو پھر سے زور زور سے ہنستے ہوئے کہنے لگا۔ ہاں یار میں نے ہی نکالی تھی لیکن ذرا اوپر تو دیکھو بوبی صاحب کا ایک رنگ آرہا ہے اور ایک جا رہا ہے یہ کہنے کے بعد مھٹو نے بوبی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے کہیں اوپر ہی تیری پینٹ گیلی نا ہو جائے ذرا دھیان سے بھائی۔۔؟؟ یہ سنتے ہی بوبی نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے کہا او کمینے تیری اس حرکت کی وجہ سے میں اوپر سے گرنے والا تھا دیکھ اب بھی میرے ہاتھ پاؤں کانپ رہے ہیں ذرا مجھے نیچے آنے دے پھر تجھے میں بتاتا ہوں پیٹ کس کی گیلی ہوتی ہے ذرا میں پتنگ اتار لوں ایک بار۔۔۔ بوبی کی یہ بات سن کر ہم سب بھی زور زور سے ہنسنے لگے اتنے میں بوبی نے مھٹو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یار اب ڈراما نا کرنا مجھے پتنگ اتارنے دے یہ کہتے ہوئے بوبی پھر کے پتنگ قریب جانے لگا ابھی وہ پتنگ پکڑنے ہی والا تھا کہ پھر سے ایک خوفناک سی چینج کی آواز سنائی دی تو سبھی دوست مٹھو کی طرف دیکھنے لگے لیکن مھٹو اس بات سے انجان ہو کر ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا اتنے میں بوبی نے غصے سے مھٹو کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ 

اب اپنا منہ بند کر لے ورنہ میں نیچے آکر تیرا منہ توڑ دونگا ۔۔ یہ سنتے ہی مھٹو حیرت انگیز نطرون سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے بولا یار تم سب لوگ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو۔۔۔۔؟؟ میرا یقین کرو اس بار یہ میں نے نہیں کیا دیکھو میں تمہاری پاس ہی تو کھڑا ہوں ۔ مھٹو کی یہ بات سن کر ہم سب حیرانی ایک دوسرے کی دیکھنے لگے لیکن ہمیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اگر مٹھو نے یہ نہیں کیا تو پھر وہ کس کی آواز تھی ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے اتنے میں اچانک بلال کا جھولا تیز تیز ہلنے لگا جیسے کہ کوئی بلال کو تیزی سے جھولا جھلا رہا ہو جبکہ بلال گھبراتا ہوا اپنے آگے پیچھے دیکھ رہا تھا ابھی ہم بلال کی طرف دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک بوبی نے چیخنے لگا اور ڈرے ہوئے انداز میں جلدی سے درخت سے نیچے اترنے لگا تو اچانک اس کا پاؤں شاخ سے پھسل گیا اور وہ باقی شاخوں سے الجھتا ہوا نیچے آکر گرا اور درد سے چلانے لگا ہم نے جلدی سے اسے اٹھایا تو وہ بری طرح کانپتا ہوا درخت کے اوپر دیکھ رہا تھا پھر بوبی نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے اپنی کانپتی ہوئی انگلی سے درخت کے اوپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔وہ۔۔۔وہاں اوپر کوئی ڈراونی سی عورت ہے۔۔ یہ کہتے ہوئے بوبی آہستہ آہستہ سے اس طرف دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹنے لگا یہ سنتے ہی ہم سب دوستوں اس کے اشارے کی جگہ پر دیکھنے لگے لیکن ہمیں وہاں کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا پھر ہم نے واپس بوبی کی طرف دیکھا تو اس وقت بوبی کے چہرے گردن اور بازوں پر بہت سی خراشیں لگیں ہوئیں تھی جن سے خون بہنے لگا تھا لیکن شاید خوش قسمتی سے اس کی ہڈیاں فیچر ہونے سے بچ گئیں تھیں ۔ اتنے میں شاہد نے بوبی سے کہا کون ہے وہاں۔۔۔ لیکن بوبی مسلسل ڈرتے ہوئے وہاں سے پیچھے ہٹتا ہوا کہہ رہا تھا کہ وہاں کوئی ڈراونی سی عورت ہے وہ ساتھ والے درخت پر بیٹھی ہوئی ہے ۔ ابھی بوبی نے اتنا ہی کہا تھا کہ اچانک پھر سے خوفناک سی چیخ سنائی دی اسی دوران بلال نے چیختے ہوئے کہا یار کوئی اس جھولے کو رکو۔۔ یہ رک نہیں رہا ۔۔۔ یہ سنتے ہی ہم نے بلال کی طرف دیکھا تو وہ گھبراہٹ میں ہماری طرف دیکھ رہا تھا کیونکہ اس وقت بلال کا جھولا بہت تیزی سے ہل رہا تھا جس کی وجہ سے بلال اس جھولے سے اتر نہیں پا رہا تھا یہ دیکھتے ہوئے نومی اور میں جلدی سے بلال کی طرف بڑھنے لگے تو اچانک ہمیں بلال کے پیچھے بہت ہی خوفناک چہرے والی عورت دکھائی دی جو کہ بلال کے جھولے کو زور زور سے دھکا دے رہی تھی اس کا چہرہ بہت ہی بڑا اور پوری طرح سے کالا تھا اور اس کی بڑی بڑی خوفناک آنکھوں میں سیاہ پتلیاں ہی نہیں تھیں جس کی وجہ سے اس کی آنکھیں پوری کی پوری سفید لگ رہیں تھیں اسے دیکھتے ہی ہمیں ایک دم جھٹکا سا لگا اور ہم ڈرتے ہوئے اسی جگہ رک گئے اور فوراً ہمارے رونگٹے کھڑے ہو گئے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ہمارے ہاتھوں پیروں سے جان ہی نکل گئی ہو۔ وہ عجیب طریقے سے غراتی ہوئی بلال کو زور زور سے جھولا جھلا رہی تھی کہ اچانک بلال نے مڑ کر اپنے پیچھے دیکھا تو بلال نے ڈر کر چلتے ہوئے جھولے سے چھلانگ لگا دی 
لیکن جھولا اس وقت بہت اونچا تھا تو بلال بہت بری طرح سے زمین پر آکر گرا جس کی وجہ سے اس کا سر زمین پر پڑے ایک پتھر سے ٹکرا گیا اور اس کا سر پھٹ گیا اور اس کے سر سے بھی بہت خون بہنے لگا یہ سب دیکھتے ہوئے مٹھو اور شاہد نے جلدی سے بلال کو اٹھایا پھر شاہد نے جلدی سے اپنی شرٹ اتار کر اسے بلال کے سر پر باندھ دی۔ اسی وقت وہ خوفناک عورت کہیں غائب ہو گئی اس دوران میں اور نومی دوڑ کر شاہد کے پاس جا کر بلال کو دیکھنے لگے تو اتنے میں درختوں کے پتوں میں عجیب سی ہلچل سنائی دی جس کی وجہ سے درختوں کی شاخیں تیزی سے ہلنے لگیں یہ دیکھتے ہوئے بوبی نے کہا وہ آرہی ہے بھاگو یہاں سے۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے وہ وہاں سے باہر بھاگ گیا تو ہم سب بھی بلال کو لے کر وہاں سے بھاگنے لگے اور جیسے ہی بھاگ کر وہاں سے نکلنے لگے تو مجھے اپنے پیچھے دھمک کی آواز سنائی دی تو میں نے بھاگتے ہوئے اپنے پیچھے دیکھا تو وہی خوفناک عورت زمین پر گرا بلال کا خون اپنی لمبی سی زبان سے چاٹ رہی تھی ۔ یہ دیکھتے ہی میرا دل ہی دہل گیا اور میں تیری سے دوڑتے ہوئے سب سے آگے نکل گیا اور باہر جاتے ہی نومی نے کہا یار وہ عورت کہاں سے آئی تھی کتنی ڈراونی شکل تھی اس کی۔۔ مجھے تو اب بھی خوف آرہا ہے ۔۔۔۔ شاہد نے کانپتے ہوئے کہا یار مجھے تو اب بھی یقین نہیں ہو رہا کہ ہم نے اتنی بھیانک چیز دیکھی ہے یہ کہتے ہوئے شاہد کے دانت بج رہے تھے کیونکہ بنا شرٹ کے اس کو شدید سردی لگ رہی تھی لیکن وہ پوری پسینے سے بھیگا ہوا تھا اور خوف کی لہر اس کے چہرے سے صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اتنے میں مٹھو نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا تجھے بھی ڈر لگا نا۔۔۔؟؟ لیکن اس وقت میری ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی کہ میں کچھ بھی بول سکوں ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی نے میری زبان ہی بند کر دی ہو اس لیئے میں نے ہاں میں ہلا دیا اور تیز تیز اپنے دوستوں سے آگے چلنے لگا

 ابھی ہم اس گلی سے نکلنے ہی والے تھے کہ ہماری نظر بوبی پر پڑی جو کہ ماجد بھائی کو ساتھ لے کر ہماری طرف آرہا تھا انہیں سامنے دیکھ کر ہمیں سکون ہو گیا اور ماجد بھائی نے پاس آکر پوچھا تم سب ٹھیک تو ہو۔۔۔؟؟ شاہد تمہاری شرٹ کہاں ہے یہ کہتے ہوئے ماجد نے بلال کی طرف دیکھا تو کہنے لگے ارے۔۔۔۔ کیا ہوا اسے ۔۔۔۔؟؟ شاہد نے کہا بھائی اس سر پھٹ گیا ہے۔۔ یہ سنتے ہی ماجد نے بوبی کی طرف دیکھا اور پھر واپس شاہد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا مجھے کوئی کچھ بتا کیوں نہیں رہا بوبی بھی بری طرح زخمی ہے اور بلال کا بھی سر پھٹا ہوا ہے ۔۔؟؟ شاہد نے کہا بھائی بوبی نے آپ کو بتایا نہیں۔۔۔؟؟ ماجد نے کہا نہیں یہ تو بری طرح سے گھبرا یا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تم سب لوگ مشکل میں ہو اس لیئے میں اس کے ساتھ یہاں آیا ہوں۔ شاہد نے کہا بھائی بات تھوڑی عجیب ہے۔۔ یہ سنتے ہی ماجد نے حیرت سے ہم سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا۔۔۔ بات ہے۔۔ جلدی بتاؤ مجھے۔۔۔؟؟ یہ سنتے ہی شاہد نے پہلے پلٹ کر اس گھر کی طرف دیکھا اور پھر واپس ماجد کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا بھائی گھر چل کر بتاتے ہیں۔ ماجد نے کہا ہاں ہاں ٹھیک ہے چلو لیکن پہلے بلال کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے ۔ اس کے بعد ماجد بھائی اور ہم سب بلال کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے پھر وہاں سے فارغ ہو کر ہم سب دوست شاہد کے گھر بیٹھ گئے تو اس کے بعد سب نے ہمارے ساتھ ہوۓ اس واقعے کے بارے میں ماجد بھائی کو بتایا تو وہ شاہد کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے بولے۔۔ میں نے تم سے کہا تھا نا کہ وہ عورت کوئی شیطانی چیز ہے شکر کرو کہ تم لوگ وہاں سے زندہ بچ کر نکل آئے ورنہ وہ تمہارے ساتھ مزید برا کر سکتی تھی ایسی چیزوں کا کوئی بھروسا نہیں ہوتا ۔

 ابھی ماجد یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اس ابو بھی وہاں آگئے تو انہوں نے بلال کے سر پر بندھی ہوئی پٹی دیکھ کر کہا ارے اسے کیا ہوا ۔۔۔؟؟ ابھی صبح تو یہ بچہ بالکل ٹھیک تھا۔۔؟؟ پھر ماجد نے اپنے ابو کو بھی ہمارے ساتھ ہوئے اس واقعے کے بارے میں بتایا تو انہوں نے کہا دیکھو بچوں تم لوگ ابھی نا سمجھ ہو اس لیئے تمہیں پتا نہیں کہ جب کوئی بڑا کسی ایسی بات سے روک رہا ہو جس میں تمہیں کوئی نقصان یاں کچھ بھی غلط ہو تو تمہیں اپنے بڑوں کی بات کو ماننا چاہیئے کیونکہ بڑوں کا تجربہ چھوٹوں سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے زندگی کے اتار چڑھاؤ چھوٹوں سے زیادہ دیکھے ہوتے ہیں اس لیئے وہ ہمیشہ اپنے چھوٹوں کے فائدے اور نقصان کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں اس لیئے جہاں تک ہو سکے اپنے ماں باپ بڑے بزرگوں اور بڑے بھائیوں کی بات کو کبھی نظرانداز نا کرو۔۔ یہ جو بھی ابھی ماجد نے مجھے بتایا میں اس کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کیونکہ اس سے پہلے میرے کزن ججی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا تھا لیکن اس وقت مجھے اس کی بات پر یقین نہیں آیا تھا کیونکہ تب بہت سے لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کر رہے تھے تو میں نے بھی اس کی بات پر زیادہ غور نہیں کیا تھا لیکن پھر ایک رات مجھے بھی اس قسم کی چیز اس بند گلی میں نظر آئی تھی لیکن مجھے معلوم تھا کہ میری بات پر یہاں آس پاس کے لوگوں نے یقین نہیں کرنا اس لیئے میں نے کسی سے کچھ نہیں کہا لیکن میں نے ماجد کو سمجھایا تھا کہ تم خود بھی اس جگہ جانے سے پرہیز کرو اور شاہد کو بھی وہاں کھیلنے سے روکا کرو کیونکہ میں طتو سارا دن کام پر ہوتا ہوں تو ایسے میں تم اپنے بھائی کا خیال رکھا کرو لیکن شاہد نے اس بات نہیں مانی اور اپنے ساتھ تم لوگوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا جس کا نتیجہ تم لوگوں کے سامنے ہے۔ تحریر دیمی ولف۔ انکل کی یہ بات سنتے ہی میں نے کہا انکل آپ ہمیں بھی بتائیں نا۔۔؟؟ آپ نے وہاں کیا دیکھا تھا۔۔۔ تو انکل نے کہا ایک رات میں کھانا کھانے کے بعد اپنی چھت پر ٹہل رہا تھا کہ اچانک مجھے کسی کے غرانے کی آواز سنائی دی تو میں نے چونک کر ادھر اُدھر لیکن مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا پھر اچانک آواز دوبارہ سے آئی تو مجھے محسوس ہوا کہ وہ آواز اس بند گلی کی طرف سے آئی ہے تو میں نےفوراً دیوار کے پاس جا کر اس گلی میں دیکھا تو مجھے کوئی عورت گلی میں ٹہلتی ہوئی دکھائی دی جس کا قد کافی بڑا تھا اور اس کی آنکھیں رات میں آگ کی طرح چمک رہیں تھیں ابھی میں اس کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک اس نے میری طرف دیکھ لیا اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے مزید غرانے لگی اور پھر اس کا قد اتنا لمبا ہو گیا کہ میں اس کو نیچے دیکھنے کی بجائے بالکل اپنے سامنے دیکھ رہا تھا جیسے کے میرے سامنے کوئی بجلی کا بڑا سا کھمبا آگیا 
کیونکہ کا چہرہ بالکل ہماری چھت کی دیوار کے پاس آگیا تھا اور وہ مجھے آنکھیں پھاڑے گھور رہی تھی یہ دیکھتے ہی میری حالت خراب ہونے لگی میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میرے پورے جسم پر خوف تاری ہو گیا تو میں جلدی سے آیت الکرسی پڑھنا شروع کر دی اور بھاگ کر چھت سے نیچے آگیا لیکن اس رات خوف سے مجھے بہت تیز بخار ہو گیا اور پھر میں پورے پانچ روز تک بخار میں پڑا رہا لیکن اس کے بعد میں نے دوبارہ کبھی بھی اسے دیکھنے کی جستجو نہیں کی کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر بار تمہاری قسمت اچھی رہے۔ تو بچوں اب دوبارہ وہاں جانے کی غلطی میں کرنا کیونکہ جیسے ہم ان چیزوں کو اپنے درمیان نہیں دیکھنا چاہتے ویسے ہی وہ چیزیں بھی ہمیں اپنی بسیرے کی جگہ پر برداشت نہیں کرتیں تو بہتر ہے کہ ہمیں اپنی حد میں ہی رہنا چاہیئے اور جہاں ویران جگہ پر ایسی چیزوں کا بسیرا ہو وہاں سے کنارہ کشی ہی کرنی چاہیئے اور اگر اس جگہ کسی وجہ سے جانا بھی پڑے تو ہمیشہ آیت الکرسی پڑھتے ہوئے جانا چاہیئے۔ انکل کی یہ بات سنتے ہی ہم نے جی انکل ہم اب دوبارہ کبھی اس جگہ نہیں جائیں گے۔ اس کے بعد ہم میں سے کوئی بھی دوبارہ اس بند گلی میں کھیلنے نہیں گیا۔۔
واقع ختم۔۔

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

 صحبت کا اثر

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے