لیڈی نرس

Sublimegate Urdu Stories

میری ماں سے شادی کو چار برس بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ کسی معمولی سی بات پر والد صاحب نے انہیں طلاق دے دی۔ وہ غصے کے تیز تھے، ذرا ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتے تھے۔ طلاق دے کر بہت پچھتائے، لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ شادی کا بندھن مضبوط ہوتا ہے، مگر یہ مکڑی کے جالے جیسا نازک بھی ہوتا ہے۔ اگر ٹوٹ جائے تو کسی صورت ان دھاگوں کو جوڑنا ممکن نہیں ہوتا۔ اماں روتی دھوتی میکے چلی آئیں۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو خود کو ماموں اور نانی کے رحم و کرم پر پایا۔ جب طلاق کا غم کچھ کم ہوا، تو ماں نے گزر بسر کے لیے خود کفیل ہونے کا سوچا۔ اگر زیادہ پڑھی لکھی ہوتیں تو کسی اسکول یا کالج میں نوکری کے لیے کوشش کرتیں، لیکن وہ صرف میٹرک پاس تھیں، دل پریشان ہو گیا اور وہ مزید غم زدہ ہو کر رہ گئیں۔

میں اور انور اُس وقت چھوٹے تھے، اس لیے نانی کے گھر آ کر بہت خوش تھے۔ ہمیں ماں باپ کی جدائی اور طلاق کے دکھوں کا کچھ علم نہ تھا۔ میری ماں اب فکرِ معاش میں مبتلا رہنے لگیں، مگر بدقسمتی سے ان کے پاس ایسا کوئی ہنر نہ تھا جس کی اس دور میں قدر و قیمت ہو۔اماں پر طلاق کا صدمہ ابھی تازہ تھا، اس لیے خالائیں اور نانی ہمیں پلکوں پر بٹھا کر پال رہی تھیں۔ ذرا ذرا سی بات پر یہ لوگ بے چین ہو جاتے، اور حتی الامکان ہماری ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتے۔ میری ماں سمجھ دار تھیں۔ جانتی تھیں کہ یہ چار دن کی چاندنی ہے۔ وقت گزرنے پر جب بہن بھائی سب اپنے اپنے گھروں کے ہو جائیں گے، تو ان کی حیثیت میکے میں دو کوڑی کی رہ جائے گی۔ اسی لیے وہ چاہتی تھیں کہ زمانے کی نگاہیں بدلنے سے پہلے خود کو خود کفیل بنا لیں۔ایک سہیلی کے مشورے پر انہوں نے نرسنگ کی تربیت حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا۔ 

وہ سہیلی خود بھی ایک اسپتال میں ہیڈ نرس تھی۔ تب میٹرک پاس لڑکیوں کو بھی نرسنگ کے کورس میں داخلہ مل جاتا تھا، کیونکہ اس وقت لڑکیاں اس شعبے کی طرف کم آتی تھیں۔ نرسنگ کے پیشے کو کم تر سمجھا جاتا تھا، مگر امی کی سہیلی نے سمجھایا کہ یہ پیشہ نہ صرف انسانیت کی خدمت ہے، بلکہ تم جیسی ضرورت مند خواتین کے لیے بہترین ذریعۂ روزگار بھی ہے۔امی نے سوچا، ماریہ ٹھیک کہتی ہے۔ واقعی نرسنگ میرے اور میرے بچوں کے لیے روزی روٹی کا سامان مہیا کرے گی۔ نانی اور ماموں نے مخالفت کی، لیکن امی نے ان کی نہ مانی اور نرسنگ کی تربیت لے لی۔ انہیں ایک اسپتال میں ملازمت مل گئی۔ کبھی دن کی ڈیوٹی ہوتی، کبھی رات کی۔ اب وہ ہمیں زیادہ وقت نہ دے پاتیں، تب ہمیں بہت گھبراہٹ ہوتی۔ ماں تو چھپر چھاؤں ہوتی ہے۔ جب وہ گھر میں موجود ہوتیں، تو ہمیں کسی بات کا خوف نہ ہوتا۔ اور جب وہ نہ ہوتیں، تو ہم اپنوں سے بھی ڈرے سہمے رہتے۔ ہمیں بھوک لگتی، تو کھانے کی درخواست نہ کرتے، نہ ہی فریج سے کچھ نکالتے، حالانکہ کسی نے کبھی منع نہیں کیا۔ جب نانی یا خالہ خود کھانا دیتیں، تو ہم کھا لیتے۔ فروٹ سامنے رکھا ہوتا، جب تک وہ خود اٹھا کر نہ دیتیں، ہم ہاتھ نہ لگاتے۔ اماں ہر وقت نصیحت کرتی رہتیں کہ گھر میں کسی کو پریشان مت کرنا۔ یہ ان کی نصیحتوں ہی کا اثر تھا کہ ہم بچپن ہی سے بڑوں کی طرح سنجیدگی سے زندگی گزارنے لگے۔ 

حالات کی نزاکت نے ہمیں بچپن میں ہی بالغ نظر کر دیا تھا۔ میں ان دنوں میٹرک کا امتحان دے رہی تھی کہ ایک روز امی ڈیوٹی سے لوٹیں اور آتے ہی بستر پر گر گئیں۔ میں سمجھی کہ ڈیوٹی کی وجہ سے تھکی ہوئی ہیں، مگر آج وہ کچھ زیادہ نڈھال تھیں۔ بستر پر لیٹتے ہی بخار چڑھ گیا۔ پھر تو روز بروز طبیعت بگڑتی چلی گئی۔ دھان پان سی تھیں، دو چار الٹیاں آئیں اور بے ہوش ہو گئیں۔ یہ حالت دیکھ کر سب گھبرا گئے۔ ماموں جان انہیں اسپتال لے گئے، جہاں انہیں داخل کر لیا گیا۔اب تو گھر کا ہر فرد اداس اور پریشان دکھائی دینے لگا۔ میری اور انور کی حالت اور بھی خراب تھی۔ امی کے بغیر دل سنسان اور گھر ویران لگ رہا تھا۔ رات کو ہم دونوں اپنے کمرے میں جائے نماز بچھا کر ماں کی صحت یابی کے لیے دعا کرتے رہے، مگر شاید ہماری دعاؤں میں تاثیر نہ تھی۔ ہماری دعائیں رائیگاں گئیں۔ امی کو کسی مریض سے کوئی ایسا مہلک مرض لاحق ہوا تھا کہ آخرکار وہ اپنی جان کی بازی ہار گئیں۔ اور ان کے ساتھ ہم بھی زندگی کی بازی ہار گئے۔

کچھ دن رونے دھونے میں گزر گئے۔ رفتہ رفتہ وقت نے یہ احساس دلایا کہ اب زندگی کا مقابلہ ماں کے بغیر کرنا ہے، اور اس کٹھن سفر کو طے کرنے کے لیے زادِ راہ درکار ہے۔ اگر ابھی سے نہ سوچا، تو آنے والے کل کا سامنا کیسے کریں گے؟ میں بڑی تھی، اس لیے مجھے ہی کچھ سوچنا تھا۔ وقت تو بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑ رہا تھا، اسے کوئی قابو نہیں کر سکتا۔ اس لیے آج کا کام آج ہی نمٹانا ہوگا، اسے کل پر نہیں ڈالنا۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ مزید نہیں پڑھوں گی۔ بی اے، ایم اے کر بھی لیا، تو بڑی نوکریاں بغیر رشوت اور سفارش کے نہیں ملتیں۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے، جو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اعلیٰ ڈگریاں رکھنے والے بھی دھکے کھاتے پھرتے ہیں، لیکن جس کے پاس ہنر ہو، وہ بھوکا نہیں مرتا۔ دو وقت کی روٹی کما کر پیٹ بھر کر سوتا ہے۔

میں ہر کسی سے خندہ پیشانی سے ملتی، کسی کو دکھ پہنچانے کی کوشش نہ کرتی، دیانت داری سے محنت کرتی، چنانچہ ڈاکٹروں کی نظروں میں بھی ایک مقام بنا لیا۔ عملے کے علاوہ مریض اور ان کے لواحقین بھی میرا احترام کرتے تھے۔ اس عزت و محبت کے ماحول میں میں نے اپنی زندگی کے کتنے ہی قیمتی سال گزار دیے۔ میرے سیاہ گھٹاؤں جیسے بالوں پر اب وقت کی چھلنی نے ہلکی ہلکی برف چھڑکنا شروع کر دی تھی۔ اب میں الہڑ دوشیزہ نہیں رہی تھی، بلکہ ایک سمجھ دار ادھیڑ عمر خاتون لگنے لگی تھی۔ زندگی کے بیس صبر آزما برسوں کی سخت تپسیا کے بعد بالآخر اس مقام پر پہنچی کہ انور کے روشن مستقبل کو دیکھ کر خوش اور سرخرو ہو سکوں۔ اور کیوں نہ خوش ہوتی؟ آخر وہ میرا سگا بھائی تھا۔ وہ مجھے اتنا پیارا تھا کہ اس کی خاطر میں بڑے بڑے مصائب جھیل سکتی تھی۔ یہ تو زندگی کے چند سال تھے، جن کے ضائع ہونے کا نہ مجھے پچھتاوا تھا، نہ ملال۔ میں نے دن رات کی محنت اور مسلسل ڈیوٹی کر کے اپنے بھائی کو اعلیٰ تعلیم دلوائی، یہاں تک کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا۔اس نے بتایا کہ وہ ایک لڑکی کو پسند کرتا ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس کی خوشی کے لیے میں نے انور کی شادی اسی لڑکی سے کرا دی۔

 اس کو خوش اور مطمئن دیکھ کر مجھے طمانیت کا احساس ہوتا۔ دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرتی کہ اس نے مجھے اتنا حوصلہ اور طاقت دی کہ ہم عزت اور سکون سے جینے کے قابل ہو گئے۔امی کی جدائی کا دکھ کبھی کبھی بے چین کر دیتا تھا، پھر یہ سوچ کر دل کو شانت کر لیتی کہ میری ماں نے انسانیت کے جس جذبے کے تحت نرسنگ کا پیشہ اپنایا تھا، میں نے ان کے مشن کو اس طرح پایۂ تکمیل تک پہنچایا کہ کبھی کسی مریض کی خدمت میں کوتاہی نہ کی۔ مریض جب اسپتال سے رخصت ہوتے، تو خوشی اور دعاؤں کے ساتھ جاتے۔ ان کی یہ دعائیں میرے لیے کسی اعلیٰ ایوارڈ سے زیادہ قیمتی تھیں۔ 

وہ ایک وقت تھا جب میں کماتی تھی اور اپنی ہمت کے بل پر جی رہی تھی۔ سب عزت سے بات کرتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ رفتہ رفتہ ہمت ہارنے لگی۔ عمر کی کمزوری مجھ پر غالب آنے لگی اور میں مزید محنت کے قابل نہ رہی، تو وقت کی ڈور میرے ہاتھوں سے چھوٹنے لگی۔ ناتوانی نے مجھے بٹھا دیا۔اب میں گزرے وقت کو آواز دینے کی سکت بھی نہ رکھتی تھی۔ شدت سے اپنی کم مائیگی کا احساس ہونے لگا۔ پچھتاوے مجھے گھیرنے لگے۔ میرا بھائی، جسے میں عزیز از جان جانتی تھی، جو اب ایک انجینئر اور بڑا افسر بن چکا تھا، اپنے ملنے جلنے والوں سے میرا تعارف کرانے سے کترانے لگا۔ وہ اپنے دوستوں اور ان کی فیملیز کو یہ بتانے میں شرمندگی محسوس کرتا کہ اس کی بہن نرس ہے۔ میرا پیشہ گویا اس کی عزت کو گھٹانے کا سبب بن گیا تھا۔وہ مجھ سے کہتا کہ باجی، پنشن کی خاطر ملازمت نہ گھسیٹیں۔ ہمارے پاس کسی شے کی کمی نہیں ہے۔ایک دن اس کے افسر کی بیوی آپریشن کے سلسلے میں اسپتال داخل ہوئی۔ اتفاق سے اُس مریضہ کے روم میں میری ڈیوٹی تھی۔ میں نرسنگ کی وردی پہنے، مریضہ کا درجہ حرارت نوٹ کر رہی تھی کہ اچانک مریضہ کا شوہر اور میرا بھائی کمرے میں داخل ہوئے۔ بھائی کے افسر نے مجھے پہچان کر حیرت سے کہا کہ باجی، آپ یہاں؟ کیا آپ نرسنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں؟جی بھائی ساجد، میں نے مسکرا کر جواب دیا۔تب میں نے دیکھا کہ میرے بھائی کا رنگ فق ہو چکا تھا۔ وہ شرمندہ تھا، پسینے میں شرابور۔ گھر آکر اس نے کہا کہ باجی، میں تبھی تو آپ سے کہتا تھا کہ ملازمت چھوڑ دیں۔ دیکھئے، میری کتنی سبکی ہوئی ہے آج اسپتال میں۔ میرا افسر میری عزت نہیں کرے گا۔ وہ سب کو بتائے گا کہ اس کی بہن نرس ہے۔میں نے کہا کہ تو کیا ہوا انور؟ نرس ہونا کوئی ملامت کی بات تو نہیں۔
 نرسنگ ایک قابلِ احترام پیشہ ہے۔ تم ایسا کیوں سوچتے ہو؟ ایسا تو جاہل لوگ سوچتے ہیں۔اس نے کہا کہ باجی، آپ نہیں جانتیں اس دنیا کو۔ یہاں عزت اور مرتبے کے معیار آپ کی سوچ سے مختلف ہیں۔ پلیز باجی، آپ ملازمت چھوڑ دیں۔ مزید میری ذلت کا باعث نہ بنیں۔ مجھے بڑی شرمندگی ہوتی ہے جب میں اپنے دوستوں اور جاننے والوں کی نظروں میں گر جاتا ہوں، جب ان کو پتا چلتا ہے کہ میری بہن نرس ہے۔ میرا دل چاہا کہ انور کو خوب کھری کھری سنا دوں، لیکن اس کو کچھ کہنا لاحاصل تھا۔ وہ تو وہی زبان سمجھتا تھا جو زمانہ بولتا ہے۔اس نے تو دنیا والوں کی بات کی تھی، اور یہ سچ ہے کہ دنیا والے خلوصِ دل سے نرسنگ کے پیشے کی عظمت کو تسلیم نہیں کرتے۔ معاشرے میں آج بھی نرسنگ کے شعبے کو وہ مقام حاصل نہیں ہوا، جو اسے ملنا چاہیے۔ دنیا ہمیں حقارت سے دیکھتی ہے، سسٹر کہہ کر پکارتی ہے، لیکن اس رشتے کو حقیقت میں اپنانے کا حوصلہ کسی میں نہیں۔ہماری اہمیت صرف اس وقت ہوتی ہے جب کوئی مریض بسترِ مرگ پر ہوتا ہے۔ جیسے ہی وہ صحت یاب ہو کر اسپتال سے جاتا ہے، ہمیں بھول جاتا ہے۔ اکثر گھرانوں میں نرسوں سے دوستی کو بھی ناپسند کیا جاتا ہے، اپنی بیویوں یا بہنوں کو نرسوں کے ساتھ گھلنے ملنے سے روکا جاتا ہے۔ معزز گھرانے لیڈی ڈاکٹر کے رشتے کو ترجیح دیتے ہیں، مگر کبھی نرس کو بہو بنانے کی خواہش نہیں رکھتے۔
زمانے کا دکھ اپنی جگہ، لیکن دکھ تو یہ ہے کہ آج میرا اپنا سگا بھائی مجھے نرس کے رشتے سے پہچانے جانے سے گھبراتا ہے، صرف اس لیے کہ وہ ایک بڑا افسر بن چکا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ میرا رشتہ اس وجہ سے نہیں ہو سکا کہ میں نرس ہوں۔ کہتا ہے اگر میں ڈاکٹر ہوتی، تو لوگ میرے رشتے کے لیے چکر لگاتے۔جب کہ میں کہتی ہوں کہ رشتے، عزت اور قسمت کی باتیں ہیں۔ یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔اب میں اسے کیسے سمجھاؤں کہ شادی میں نے خود اس لیے نہیں کی، کیونکہ مجھے تمہیں پڑھانا تھا، تمہیں بڑا آدمی بنانا تھا۔یہ میری محنت تھی جس کے نتیجے میں تم انجینئر بنے، ورنہ شاید کسی ورکشاپ میں چھوٹے موٹے مکینک ہوتے۔ بہن کی نرسنگ کی کمائی سے تم ایک اعلیٰ عہدے پر تو پہنچ گئے، مگر اب یہی شعبہ تمہارے لیے شرمندگی کا باعث بن گیا ہے؟آخر ہم بطور معاشرہ کب باشعور ہوں گے؟ کب ہم اتنے بالغ نظر ہوں گے کہ نرسنگ جیسے اہم، مقدس اور انسانیت کی خدمت پر مبنی پیشے کو بھی وہی عزت دے سکیں، جو اس کا حق ہے؟

(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ