گاؤں میں محبتوں کے کھیل اکثر کھیتوں اور درختوں کی آڑ میں چھپ کر کھیلے جاتے ہیں۔ رضیہ نے بھی گھر کی گھٹن کا حل سرفراز کے چند شیریں بولوں میں ڈھونڈا۔ مگر وہ صرف نام کا سرفراز تھا، حقیقت میں ایک لالچی اور دغاباز نوجوان نکلا۔ اس نے رضیہ کو پھسلا کر گاؤں سے بھگا لیا اور کراچی لے آیا۔ یہ نادان لڑکی عشق کی آگ میں اپنی سبھی کشتیاں جلا کر، گھر سے نقدی، زیورات سمیٹ کر سرفراز کے ساتھ چل پڑی۔ کراچی آ کر سرفراز نے اس سے زیور اور پیسے لے لیے۔ اس نے کہا کہ یہ سب سفر میں کام آئیں گے۔ رضیہ، جو گاؤں کی بھولی بھالی مٹیار تھی، اس کے جھانسے میں آ گئی اور سب کچھ اس کی جھولی میں ڈال دیا۔
ایک ہفتہ ہوٹل میں رہنے کے بعد، سرفراز نے اسے بتایا کہ ارجنٹ پاسپورٹ بنوالیے گئے ہیں۔ اب صرف ٹکٹ لینا ہے اور ویزا بھی ایک دوست کے ذریعے خریدنا ہے، اس لیے کچھ دن اور یہاں رکنا ہوگا۔ بہرحال، دس دن بعد وہ اسے ایئرپورٹ لے آیا اور ایک جگہ بٹھا کر کہا کہ ابھی تھوڑی دیر میں واپس آتا ہوں۔ صبح سے شام ہو گئی، لیکن سرفراز واپس نہ آیا۔ رضیہ گھبرا گئی۔ جب رات کا اندھیرا پھیلنے لگا تو وہ ہر آنے جانے والے سے پوچھنے لگی کہ دبئی کی فلائٹ کب جائے گی۔ لوگ حیرانی سے اسے دیکھتے تھے۔ ایئرپورٹ کے عملے نے بھی نوٹس لیا کہ یہ عورت مسافروں کو پریشان کر رہی ہے، لہٰذا اسے روکا گیا۔ پوچھ گچھ کی گئی، لیکن وہ کیا بتاتی؟ کراچی میں اس کا کوئی رشتہ دار نہ تھا۔ کبھی کسی بند دکان کے تھڑے پر، کبھی فٹ پاتھ کے کسی کونے میں سوجاتی۔ جلد ہی اس نے ایئرپورٹ کے قریب ایک فٹ پاتھ کے کونے کو اپنا مسکن بنا لیا۔
اس وقت ایئرپورٹ اتنا وسیع نہ تھا۔ اس کے آس پاس کچھ ٹھیلے والے بھی ہوتے تھے جو سامان فروخت کرتے تھے۔ ان میں سے ایک نان کباب والا رحم دل انسان تھا، جو رضیہ کو روز نان کباب یا کھانا دے دیا کرتا تھا۔آس پاس کے ٹھیلے والوں کو بھی معلوم ہو گیا تھا کہ یہ بیچاری کسی کا انتظار کر رہی ہے، جو ابھی تک نہیں آیا۔ وہ یہ جگہ چھوڑنا نہیں چاہتی، کہیں وہ واپس آ جائے اور اسے یہاں نہ پائے۔ کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ اس کا ذہنی توازن درست نہیں۔ ایئرپورٹ سکیورٹی والے اسے اندر آنے نہیں دیتے تھے۔ رضیہ کو یقین تھا کہ سرفراز کو ضرور کوئی حادثہ پیش آیا ہوگا، اسی لیے وہ نہ آ سکا۔ اسے خبر نہ تھی کہ اس کے بطن میں ایک نیا وجود پرورش پا رہا ہے۔ اب وہ واپس گاؤں بھی نہیں جا سکتی تھی۔
ایک روز مجھے ایئرپورٹ جانا پڑا۔ میری بھابی بیرونِ ملک جا رہی تھیں، میں انہیں سی آف کرنے گئی۔ واپسی پر میری نظر فٹ پاتھ پر لیٹی رضیہ پر پڑی۔ وہ درخت کے سائے تلے چادر بچھا کر لیٹی تھی۔ اس کا وجود، اس کے جسم سے کہیں زیادہ بوجھل نظر آ رہا تھا۔ میں نے حیرت سے اسے دیکھا کہ یہ بے آسرا عورت یہاں اس حال میں کیسے پڑی ہے؟ شاید اسے چھوڑ جانے والا جیل میں ہو۔ بھابی کی فلائٹ جانے والی تھی، میں انہیں خدا حافظ کہہ کر واپس لوٹی تو رضیہ وہاں نہیں تھی۔دکھ بھی ہوتا، لیکن میں کیا کر سکتی تھی؟ اپنے گھر آ گئی، مگر دماغ میں ایک الجھن سی کیفیت ضرور رہ گئی تھی۔چند ماہ بعد اپنے ایک مضمون کے سلسلے میں کاشانہ اطفال جانا ہوا، جہاں میری سہیلی ملازمت کرتی تھی۔ مجھے اس سے ملنا تھا۔
سردیوں کی ایک صبح تھی۔ میں نوزائیدہ بچوں کو دیکھنے اوپر کی منزل پر گئی۔ یہ معصوم بچے دنیا کے آلام سے بے خبر اپنے پنگھوڑوں میں لیٹے تھے۔ اچانک میری نظر ایک بہت پیاری بچی پر پڑی۔ وہ سیدھی لیٹی ہوئی تھی، منہ میں شہادت کی انگلی دبائے، اپنی ہری ہری کنچوں جیسی آنکھوں سے ہر آنے جانے والے کو دیکھ رہی تھی۔میں بے اختیار اس کی طرف کھنچتی چلی گئی۔ پہلے اس نے مجھے غور سے دیکھا، پھر مسکرا دی۔ میں نے سہیلی سے اجازت لی کہ اس کا فوٹو لینا چاہتی ہوں۔ اس نے دوستی کے ناتے فوٹوگرافر سے کہا کہ تصویر لے لو۔میں نے اس بچی کی ایک تصویر اپنے البم میں رکھ لی۔ پھر اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی کیونکہ یہ بچی سبز آنکھوں والی اور انگریز سی لگتی تھی۔ کاشانہ اطفال کی سپروائزر نے بتایا کہ یہ بچی اسپتال سے پولیس کی معرفت یہاں بھیجی گئی تھی، کیونکہ یہ ایک پاگل عورت کے بطن سے پیدا ہوئی تھی۔ عورت تو بچی کو جنم دیتے ہی چل بسی تھی۔ یہ سن کر مجھے بہت افسوس ہوا۔ میرا دل اس بچی کی صورت پر اٹک کر رہ گیا۔
امریکہ جانے سے پہلے میں دو بار اور کاشانہ اطفال گئی، تب بھی وہ بچی وہیں تھی۔ میں نے اس کی دو تین تصویریں اور لیں، ایک وہ جس میں وہ پلنگ پکڑے کھڑی تھی۔ وقت گزرتا رہا، دنیا میں بہت سی تبدیلیاں آئیں۔ پھر میرا امریکہ جانے کا وسیلہ بن گیا اور یہاں رہتے ہوئے کئی برس گزر گئے۔ان دنوں میری دوست فرخندہ اپنے بیٹے کے لیے لڑکی ڈھونڈ رہی تھی۔ کسی نے اسے ایک ڈاکٹر لڑکی کی تصویر دکھائی اور بتایا کہ یہ اکلوتی بچی ہے، اس کے ماں باپ بھی ڈاکٹر ہیں۔ لڑکی بہت خوبصورت ہے۔ فرخندہ کو تصویر دیکھ کر وہ بہت پسند آئی، لیکن رشتہ ڈالنے سے پہلے وہ چاہتی تھی کہ کوئی لندن جا کر اس لڑکی کو دیکھ آئے۔ مگر کوئی ایسا نہ ملا جو لندن جا رہا ہو۔ فرخندہ خود شوہر کی مصروفیت اور بچوں کے امتحانات کی وجہ سے نہیں جا سکتی تھی۔ جن لوگوں نے رشتہ لگانے کی کوشش کی تھی، انہوں نے لندن سے فون کر کے کہا کہ وہ جلد فیصلہ چاہتے ہیں کیونکہ اس لڑکی سارہ کے اور بھی بہت سے رشتے ہیں۔ سارہ بے حد حسین تھی، اسی لیے فرخندہ بھی یہ رشتہ ہاتھ سے جانے کے حق میں نہ تھی۔ ایک وجہ اس کا بیٹا عرفان بھی تھا، جسے وہ لڑکی پسند آ گئی تھی۔
عرفان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ایک ذمہ دار امریکی گورنمنٹ ادارے میں کام کرتا تھا۔ اس کے آگے پیچھے بہت سی لڑکیاں تھیں۔ کچھ والدین بھی اپنی بیٹیوں کے لیے عرفان کے طلب گار تھے، مگر جب فرخندہ کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو انہوں نے عرفان کے خلاف باتیں بنانا شروع کر دیں۔ تبھی فرخندہ اور بھی پریشان ہو گئی۔اسی زمانے میں مجھے لندن جانے کا موقع ملا، تو فرخندہ بھاگی بھاگی میرے پاس آئی کہ میں اس کی مدد کروں اور سارہ کے گھر جا کر لڑکی اور اس کے طور طریقے دیکھ آؤں۔ اس نے اپنی لندن والی سہیلی کا فون نمبر مجھے دے دیا۔ لندن جا کر میں نے فرخندہ کی سہیلی کو فون کیا۔ وہ میری منتظر تھی۔ اسی شام وہ مجھے سارہ کے گھر لے گئی۔ سارہ گھر پر موجود نہیں تھی۔ اس کی ماں نے مجھے خوش دلی سے اپنے گھر کا دورہ کروایا اور سلیقے سے سجے ہوئے ایک کمرے میں لے گئیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ سارہ کا کمرہ ہے۔ کمرے کی ایک دیوار پر لگے فوٹو پر میری نظر جم کر رہ گئی۔ یہ وہی فوٹو تھا جو میں نے کاشانہ اطفال کی سپر وائزر کی اجازت سے اپنے فوٹوگرافر سے کھنچوایا تھا۔ اس فوٹو کی ایک کاپی ادارے والوں نے بھی اپنے پاس رکھی تھی۔ دیوار پر وہ دوسری تصویر بھی فریم میں لگی ہوئی تھی، جو کاشانہ اطفال کی سپرنٹنڈنٹ نے مجھے دکھائی تھی۔
جس میں وہ بچی پلنگ پکڑے کھڑی تھی۔ مجھے محویت سے تصویریں دیکھتا پا کر سارہ کی ماں نے کہا کہ یہ ان کی بچی کی بچپن کی تصویریں ہیں۔ اللہ نے انہیں صرف یہی ایک اولاد دی ہے، سو وہ ہر سالگرہ پر اس کی تصویر کھنچوا کر فریم کروا لیتے ہیں۔ میں نے ان کا فون نمبر لے لیا اور فرخندہ کی سہیلی نجمہ کے ساتھ ان کے گھر سے واپس آ گئی۔ نجمہ سارا راستہ اس خاندان کی تعریفیں کرتی رہی۔ حقیقت میں ان کا رہن سہن، بات چیت کا انداز اور اندازِ میزبانی ظاہر کرتا تھا کہ وہ واقعی شریف اور عزت دار لوگ ہیں۔تاہم، ساری رات میرے دل میں ایک ہی سوال گردش کرتا رہا۔ کیا میں فرخندہ کو حقیقت بتاؤں یا نہیں؟ کیا وہ خود سارہ کی ماں سے سچائی معلوم کرے گی؟ آخرکار میں نے خود فیصلہ کیا کہ سارہ کی ماں سے جا کر بات کروں۔
میں نے ان خاتون کو فون کیا کہ میں ان سے ملنا چاہتی ہوں۔ وہ بہت خوش ہوئیں اور مجھے لینے آ گئیں۔اس رات کھانے پر سارہ کے والد سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ سرجن تھے اور نہایت معقول، شائستہ انسان۔ سارہ بھی موجود تھی، وہ سلیقے سے مجھے سلام کر کے کھانے کی میز پر بیٹھ گئی۔ کھانے کے بعد میں نے سارہ کی ماں سے کہا کہ میں اکیلے میں ان سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔ وہ مجھے بیٹی کے کمرے میں لے گئیں۔ وہاں میں نے ان سے کہا کہ وہ تصویر جو دیوار پر لگی ہے، میرے فوٹوگرافر نے کاشانہ اطفال میں کھینچی تھی، جب ہم وہاں گئے تھے۔ وہ تصویر میرے پاس بھی موجود ہے۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اس بچی کو وہیں سے گود لیا تھا۔ بہرحال، یہ بڑی بات ہے کہ انہوں نے اسے لا کر پالا، پڑھایا، لکھایا، ڈاکٹر بنایا اور بہترین تربیت دی۔ یقیناً وہ ایک مثالی بیٹی ہے اور اچھی بیوی بھی ثابت ہو گی۔
میں نے صرف اتنا کہا کہ وہ تصویر کمرے میں نہ لگائیں، کیونکہ وہ تصویر ایک رسالے میں چھپ چکی ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی اور بھی اسے پہچان لے، اور ان کی بیٹی کے لیے کوئی مشکل کھڑی ہو جائے۔یہ سن کر سارہ کی ماں کا رنگ اُڑ گیا۔ انہوں نے آہستگی سے بتایا کہ انہیں اولاد نہیں ہو سکتی تھی، اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ کسی لاوارث بچی کو گود لیں۔ کیونکہ وارثوں والے بچے کوئی کسی کو دیتا نہیں، اور اگر رشتہ داروں کا بچہ لیا بھی جائے تو بڑے ہو کر وہ اپنے اصل والدین کے پاس چلا جاتا ہے۔ پالنے والوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ تبھی انہوں نے کاشانہ اطفال سے یہ بچی ایڈاپٹ کی۔ مگر اس حقیقت کو ہمیشہ رشتہ داروں اور جاننے والوں سے چھپا کر رکھا۔ سب یہی سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی حقیقی اولاد ہے۔انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں اس بات کو کسی سے نہ کہوں گی۔ میں نے وعدہ کر لیا، کیونکہ میں خود بھی چاہتی تھی کہ یہ راز، راز ہی رہے۔ فرخندہ کے گھر والے سارہ کو بہت چاہت سے بیاہ کر لے گئے۔ میں نے دل سے سارہ کو دعائیں دیں، کیونکہ ایسی بچیاں اکثر کربناک زندگی گزارتی ہیں۔ مگر سارہ کی قسمت اچھی تھی۔ وہ خوبصورت تھی، اور اسے ویسی ہی خوبصورت زندگی نصیب ہوئی۔
