تاش کاکھیل

Sublimegate Urdu Stories


میں وہ بدنصیب بچی ہوں جس نے اپنی ماں کو اپنی آنکھوں سے دلہن بنتے دیکھا تھا۔ ماں کے سرخ آنچل کو میں نے اپنی کمزور مٹھی میں مضبوطی سے تھام رکھا تھا، مگر ظالموں نے بے دردی سے وہ آنچل مجھ سے چھین لیا۔ آج تک اُس کی ٹھنڈک میرے ہاتھوں میں محسوس ہوتی ہے۔ وہ دن بڑا خاص تھا، کیونکہ اُس دن میری پیاری ماں کی دوسری شادی ہو رہی تھی۔ مجھے ان دنوں کا ایک ایک لمحہ یاد ہے۔ ہمارا ایک پیارا سا گھر تھا، جس میں ہم بہن بھائی اپنے والدین کے سائے میں تتلیوں کی طرح اِدھر اُدھر بھاگا کرتے تھے۔ پھر نہ جانے کس کی نظر ہمارے باغ پر لگ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سرسبز درخت خشک اور بےجان ہو گئے، پھول مرجھا گئے، اور تتلیوں کے رنگ وقت چُرا کر لے گیا۔ 

ابو ایک اعلیٰ سرکاری افسر تھے۔ ہمارے گھر کا ماحول خاصا آزاد تھا۔ والد کے دوست بےتکلفی سے آ جایا کرتے، ڈرائنگ روم میں تاش کی بازی جمتی، چائے کا دور چلتا، اور سگریٹ کے دھوئیں سے کمرہ خواب ناک منظر پیش کرتا۔ ابو کی عادت تھی کہ جب وہ دوستوں کے ساتھ بیٹھ جاتے تو چاہے رات گزر جائے، انہیں وقت کا احساس نہ ہوتا۔ ہم بچے اُن کا انتظار کرتے کرتے سو جاتے۔ امی کو ابو کی یہ عادت سخت ناپسند تھی اور بات جھگڑے تک جا پہنچتی۔ اس جھگڑے کا بس ایک ہی حل نظر آتا کہ ابو اپنی ازدواجی زندگی بچانے کی خاطر دوستوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیں، مگر اُن کی خوشی تو دوستوں کی محفل، تاش کے کھیل اور چائے کے دور میں تھی۔ چنانچہ وہ دوستوں کو گھر بلانے کے بجائے، امی کے ساتھ تاش کھیلنے لگے۔ شروع میں امی نے بےزاری ظاہر کی، مگر پھر ساتھ دینے لگیں۔ اب اگر کسی دن ابو گھر نہ آتے تو امی شکوہ کرتیں، کہاں رہ گئے تھے؟ ابو جواب دیتے: ہفتے کے چار دن تمہارے ساتھ ہوتا ہوں، تین دن تو دوستوں کے ساتھ رہنے کا مجھے حق ہے۔ تمہیں اُن کا گھر پر آنا پسند نہیں، اس لیے اب میں اُن کے ہاں جا کر محفل جما لیتا ہوں۔

اُن کی بیویاں بھی خوش رہتی ہیں اور تم بھی۔امی نے سوچا، شوہر کا ایک رات بھی گھر سے باہر رہنا مجھے گوارا نہیں، تین دن کیسے برداشت کروں؟ پھر انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اگر خوشی اسی میں ہے تو بہتر ہے کہ وہ دوستوں کے ساتھ گھر ہی میں تاش کھیلیں۔ چنانچہ امی نے کہہ دیا: آپ آج سے رات کو باہر جا کر تاش نہیں کھیلیں گے۔ بے شک آپ کے دوست ہمارے گھر آئیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ کم از کم مجھے یہ اطمینان تو رہے گا کہ آپ گھر پر ہیں۔ابو خوش ہو گئے: بہت خوب، یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ شکر ہے تمہیں بات سمجھ میں آ گئی۔ پھر انہوں نے اپنے چاروں دوستوں کو فون کیا: تمہاری بھابھی نے اجازت دے دی ہے، اب تم سب ہمارے گھر آ سکتے ہو۔اس کے بعد پھر وہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ 

رات دس بجے کے بعد ابو کے دوست آ جاتے، تاش کی بازی جمتی، کبھی شطرنج کھیلا جاتا۔ ملازم کی ڈیوٹی ہوتی کہ وقفے وقفے سے چائے یا کافی بنا کر پیش کرے۔ یوں یہ محفل رات تین بجے تک جاری رہتی۔کچھ دن تو امی چپ رہیں، پھر اُنہیں بوریت ہونے لگی۔ نیند بھی نہیں آتی تھی۔ابو سے کہتیں کہ کیا کروں؟ جاگنے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔والد نے کہا کہ نیند کی گولی لے لیا کرو اور بےفکر ہو کر سو جایا کرو۔نہیں، نہیں۔ امی بولیں، کیا تم مجھے نشے کی عادی بنانا چاہتے ہو؟ ایسا میں ہرگز نہیں کروں گی۔تو پھر تم بھی ہمارے ساتھ تاش کے کھیل میں شریک ہو جایا کرو۔آپ کے ساتھ؟ آپ اکیلے کہاں ہوتے ہیں؟ آپ کے دوست بھی تو ہوتے ہیں۔تو کیا ہوا، تم بھی تو وہیں موجود رہو گی نا! ارے بھئی، وہ تمہیں بھابی کہتے ہیں اور تم ہو بھی ان کی بھابی۔ میرے سبھی پرانے دوست ہیں، تمہیں جانتے ہیں اور تمہارا احترام کرتے ہیں۔

ایک روز رات کے بارہ بجے کا وقت تھا۔ امی بہت بور ہو رہی تھیں۔ابو خواب گاہ میں آئے تو انہیں جاگتے پایا۔ بولے: میرے ساتھ آجاؤ، آج ہمارا ایک پارٹنر کم ہے۔ تم میری پارٹنر بن جانا۔امی ہچکچائیں، تو والد نے اُنہیں بازو سے پکڑ کر اپنے ساتھ ڈرائنگ روم میں لے گئے۔اب امی بھی ان کے ساتھ تاش کی بازی میں شامل ہو گئیں۔ یوں وہ روزانہ اس محفل میں شریک ہونے لگیں، کیونکہ جھجھک صرف پہلے دن کی ہوتی ہے۔ ایک بار ختم ہو جائے تو پھر ایسی باتیں معمولی لگنے لگتی ہیں۔اس کے بعد تو اُنہیں ایسا مزہ آیا کہ رات کی بے چینی سے نجات مل گئی۔ابو سے جھگڑنا اور کڑھنا چھوڑ دیا۔ اچھے اچھے لباس پہننے لگیں۔ گھر میں بھی وہ ہر وقت بنی سنوری رہتی تھیں۔ہمیں جلدی سُلا کر ابو کے ہمراہ ڈرائنگ روم میں جا بیٹھتیں اور تاش کھیلنے لگتیں۔اس چکر میں وہ مجھے بھی بھول گئیں، جو آدھی رات تک اُن کے انتظار میں جاگتی رہتی تھی،کیونکہ جب تک امی نہ آ جاتیں، مجھے نیند نہیں آتی تھی۔

جب سے امی محفل کی شمع بنی تھیں، گویا ہم بچوں پر اُن کی توجہ کم ہو گئی تھی۔ابو کے دوستوں میں ایک اظہر صاحب بھی تھے، جو ہمیں بہت پیار کرتے تھے۔امی ان کی ہماری طرف توجہ سے خوش ہوتیں اور اُن کا خاص خیال رکھتیں۔وہ ابو کے افسر بھی تھے، لہٰذا والد صاحب ان سے دب کر رہتے تھے۔اب یہ ہونے لگا کہ جب والد آفس میں ہوتے، وہ صاحب آ جاتے اور کہتے:بھابی، ادھر سے گزر رہا تھا تو سوچا بچوں کو یہ کلر باکس اور رنگ دیتا جاؤں۔ کبھی وہ ہمارے لیے فروٹ لے آتے، اور کہتے:بیٹھنا نہیں ہے، بس چائے کا ایک کپ پلا دیں۔ آپ کے ہاں کی چائے کا ذائقہ منہ کو لگ گیا ہے، ایسا مزہ کہیں اور نہیں ملتا۔جب سے انکل اظہر کی بیوی فوت ہوئی تھیں، وہ اپنے گھر میں اکیلے رہتے تھے۔اب تک انہوں نے دوسری شادی نہیں کی تھی۔وہ بچوں کے شوقین تھے، مگر قدرت کی ستم ظریفی کہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔گھر میں صرف ایک خانساماں تھا۔وہ کہتے تھے: خانساماں کے ہاتھ کا کھانا کھا کھا کر تنگ آ گیا ہوں۔امی کہتیں: ابھی کھانے کا وقت ہے، آپ ہمارے گھر سے کھانا کھا کر جائیے۔شروع میں تو وہ انکار کرتے، مگر پھر ہر دوسرے تیسرے دن دوپہر کو آ جاتے، اور امی اصرار سے کھانا میز پر لگا دیتیں۔اس طرح انکل اظہر کا آنا جانا معمول بن گیا۔ہم بچے ان کے آنے سے خوش ہو جاتے، کیونکہ وہ کبھی خالی ہاتھ نہ آتے تھے۔مجھے چاکلیٹ پسند تھیں، اور وہ غیر ملکی چاکلیٹ کے ڈبے لے کر آتے،جنہیں دیکھ کر میری باچھیں کھِل جاتیں۔

عجیب بات یہ تھی کہ ابو کو اُن کے، یعنی انکل اظہر کے، آنے کی خبر ہوتی نہ امی کبھی ان کا ذکر کرتیں۔ ایک دن نجانے کس بات پر میرا چھوٹا بھائی ابو کے سامنے پھٹ پڑا کہ آپ سے تو انکل اظہر اچھے ہیں، وہ ہمارے لیے کتنی ساری چیزیں لے کر آتے ہیں۔ ایک آپ ہیں کہ نہ کچھ لے کر آتے ہیں، نہ کبھی کہیں گھمانے لے جاتے ہیں۔ انکل تو کئی بار مجھے اور سبینہ کو باہر گھمانے لے گئے ہیں۔ابو نے پوچھا، کب آتے ہیں وہ؟بھائی نے معصومیت سے جواب دیا، جب آپ دفتر میں ہوتے ہیں۔ابو نے چونک کر پوچھا، میں دفتر میں ہوتا ہوں، تو تب کیوں آتے ہیں؟وہ کھانے پر آتے ہیں۔ ان کا خانساماں بیمار تھا، چھٹی پر چلا گیا تھا۔ میرے معصوم بھائی نے انکل اظہر کی کہی ہوئی ساری باتیں ابو کو بتا دیں۔ ابو کا چہرہ متغیر ہو گیا۔ابو نے پوچھا، کیا تمہاری امی بھی ان کے ساتھ گھومنے جاتی ہیں؟ہاں، ایک بار گئی تھیں۔ بازار سے چیزیں خریدنی تھیں۔ یہ سن کر ابو کا پارہ چڑھ گیا۔ فوراً امی سے پوچھنے لگے کہ یہ میں کیا سن رہا ہوں، شبینہ؟ یہ کیا کہہ رہا ہے بچہ؟ یہ کیا معاملہ چل رہا ہے؟ تم نے مجھے یہ سب کیوں نہیں بتایا؟امی نے بے نیازی سے جواب دیا کہ یہ کوئی ایسی اہم بات نہیں تھی کہ آپ کو بتاتی۔ وہ دن کی روشنی میں، بچوں کے سامنے آئے تھے۔ پاس ہی ان کا کوئی کام تھا، تو ادھر آ گئے۔ اس میں شک کی کیا بات ہے؟ آپ بھی عجیب شکی مزاج رکھتے ہیں، جو اپنی بیوی سے اس لہجے میں تفتیش کر رہے ہیں۔

ابو غصے سے بولے کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے؟ میں تمہاری یہ بے راہ روی اور آوارگی برداشت نہیں کر سکتا۔ اپنے دوست کو سمجھاؤ، وہ میری غیر موجودگی میں کیوں آتا ہے؟امی نے کہا، آپ خود کیوں نہیں منع کرتے؟میں کیسے منع کروں؟ روز رات کو تاش کھیلنے آ بیٹھتا ہے، دن کو آئے تو منع کر دوں؟ کیا یہ اس کی بے عزتی نہیں ہو گی؟ وہ آپ کا باس ہے۔ابو دھاڑ اٹھے کہ بکواس بند کرو اور مجھے بیوقوف مت بناؤ۔ باس ہے تو کیا اس کو یہ حق مل گیا کہ میری بیوی سے بے تکلف ہو؟ جب کوئی غیر مرد شوہر کی غیر موجودگی میں بار بار آئے اور عورت اسے منع نہ کرے، تو اس کا کوئی مقصد ہوتا ہے۔ کسی غیر مرد کی اتنی جرأت نہیں ہو سکتی جب تک عورت خود اجازت نہ دے۔ اور تم اس کے لیے کھانے بھی تیار کر کے پیش کرتی ہو؟اب اپنے گناہ کو چھپانے کے لیے مزید بکواس نہ کرنا، ورنہ جان سے مار دوں گا۔
امی بھی بپھر گئیں، بکواس تو تم کر رہے ہو! مجھ پر اتنا بڑا الزام لگا رہے ہو؟ تم خود گھر میں تاش کی محفلیں سجاتے ہو اور بیوی کو ساتھ بٹھاتے ہو، تب تمہیں غیرت نہیں آتی؟ میں بھی کہہ سکتی ہوں کہ تم ترقی کے لیے ایسا کرتے ہو!یہ سن کر ابو طیش میں آگئے اور امی پر ہاتھ اٹھا دیا۔ہم بچوں کے چھوٹے ذہن یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ غلطی کس کی ہے – ابو کی یا امی کی؟ ایسا جھگڑا ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ابو دھاڑ رہے تھے کہ آوارہ عورت! نکل جا میرے گھر سے!امی کو جیسے یہی موقع چاہیے تھا۔ انہوں نے ہمارا ہاتھ پکڑا اور نانا کے گھر چلی آئیں۔ وہاں جا کر خوب روئیں، ابو کو برا بھلا کہا، الزام لگایا کہ انہوں نے مجھے بدچلن کہہ کر گھر سے نکال دیا، اب میں کبھی واپس نہیں جاؤں گی۔نانا پریشان ہو گئے۔ ابو کو فون کیا، مگر انہوں نے کال نہیں اٹھائی۔جب انکل اظہر کو معلوم ہوا، تو وہ ابو کے پاس گئے اور سمجھاتے ہوئے کہنے لگے کہ تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ تمہاری بیوی میری بھابی نہیں، بہن جیسی ہے۔ تمہارے گھر کے قریب میری بیوہ بہن رہتی ہے، میں کبھی کبھار اسے دیکھنے آتا ہوں۔ اس کی ایک بچی ہے، بالکل تمہاری بیٹی جیسی۔ جب اس کے لیے کھلونے یا چاکلیٹ لاتا ہوں، تو تمہارے بچوں کو بھی دے دیتا ہوں۔ اس میں شک کی کیا بات ہے؟ مجھے بچے اچھے لگتے ہیں۔ اگر تمہیں اب بھی شک ہے، تو میں آئندہ تمہارے گھر نہیں آؤں گا۔

ابو نے وقتی طور پر ان کی بات مان لی۔ اگلے دن نانا کے گھر آئے، امی سے معافی مانگی اور انہیں مناکر گھر لے آئے۔ مگر امی کا دل صاف نہیں ہوا تھا۔ وہ اکثر چھوٹے چھوٹے بہانوں پر لڑتیں اور ابو کو انکل اظہر کا طعنہ دیتیں۔ ابو خاموش رہتے، انکل ان کے افسر تھے، کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے۔ لیکن شک کی آگ اندر ہی اندر ابو کو کھا رہی تھی۔آخر ایک دن ایک زبردست جھگڑے کے بعد امی دوبارہ نانا کے گھر چلی گئیں۔ وہاں سے انہوں نے انکل اظہر کو فون کیا کہ تمہارے سامنے تو طارق (ابو) ٹھیک رہتا ہے، مگر گھر میں مجھ پر ظلم کرتا ہے۔ وہ روز میرے کردار پر شک کرتا ہے۔ مجھے اب مزید یہ سب برداشت نہیں، مجھے طلاق چاہیے۔انکل اظہر نے امی کو بہت سمجھایا کہ صبر سے کام لو، تمہارے دو بچے ہیں۔ طارق میرا دوست ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ اس کا گھر برباد ہو۔ بہتر یہ ہے کہ تم واپس چلی جاؤ۔ میں طارق کا تبادلہ کروا دیتا ہوں تاکہ وہ اس شہر سے دور ہو جائے، مگر علیحدگی کی بات نہ کرو۔انہوں نے ابو کا تبادلہ کروا دیا۔ابو جب ہم بچوں کے اُداس چہروں کو دیکھتے، تو ان کا دل بھر آتا۔ آخرکار انہوں نے ہمیں پھر سے گلے لگا لیا۔فیصلہ ہوا کہ ابو پنڈی جا کر گھر لیں گے، اسے سجائیں گے، پھر ہمیں لے جائیں گے۔ تب تک ہم نانا کے گھر رہیں گے۔
مگر شاید زندگی کو یہ سمجھوتہ پسند نہ آیا۔والد صاحب گھر کو آراستہ کر کے ہمیں لینے لاہور آ رہے تھے کہ ایک موڑ پر ان کی گاڑی کا حادثہ ہو گیا اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔انسان جب شک کے شکنجے میں جکڑ جائے، تو پھر دلوں کی فتح کے لیے ایک بڑی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ میرے ابو یہ جنگ نہ جیت سکے۔ اجل ان کا راستہ روکے کھڑی تھی۔آخرکار روز کی یہ لڑائی تباہی لے آئی، اور ایک سہاگن بیوہ، جبکہ بچے باپ کے سایے سے محروم ہو گئے۔امی اب روتی تھیں کہ نانا بوڑھے ہیں اور ماموں اپنے بچوں میں مصروف، ہمارے بچوں کو کون دیکھے گا؟ اظہر انکل تعزیت کے لیے آئے۔ وہ بھی بہت افسردہ تھے۔بہر حال، ان کے دل کے کسی گوشے میں امی کے لیے پسندیدگی کے جذبات موجود تھے.مگر ہمارے لیے نہیں۔ وہ ہم سے دکھاوے کا پیار کرتے تھے، بس اتنا کہ تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے۔ایک روز انہوں نے نانا سے امی کا ہاتھ مانگ لیا، اور نانا انکار نہ کر سکے کیونکہ وہ بیٹی کو دوبارہ آباد دیکھنا چاہتے تھے۔

جس روز امی کی شادی تھی، ہم دونوں بہن بھائی بھی خوش تھے۔ بچے ہم سے پوچھ رہے تھے، تم نے یہ نئے اور خوبصورت کپڑے کیوں پہنے ہیں؟ ہم نے فخر سے بتایا،ہماری امی کی شادی ہے!امی نے بہت خوبصورت جوڑا پہنا تھا، جو اظہر انکل لائے تھے۔ ہمارے لیے بھی وہی کپڑے لائے گئے تھے۔ امی دلہن بن کر بہت پیاری لگ رہی تھیں۔میں منے سے کہہ رہی تھی، دیکھو، ابھی کچھ دیر میں بارات آئے گی، تو کتنا مزہ آئے گا!ہم نادان، اس لمحے اپنے باپ کی یاد بھی بھول گئے تھے۔ ہنگامہ ہی اتنا تھا۔میں خوش ہو کر اپنی سہیلیوں کو ساری تفصیل بتا رہی تھی، جیسے ماں کی نہیں، گڑیا کی شادی ہو رہی ہو۔ایک دم جانے کیا ہوا؟ بارات آتے ہی نانا ہمارے پاس آئے، ہمیں بازوؤں سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے اس گاڑی میں بٹھا دیا جس میں نانی اور پھپھو بیٹھی ہوئی تھیں۔میں اور منا چیختے رہ گئے، ہم امی کے ساتھ جائیں گے، ہمیں جانے دیں!میری سسکیاں گھٹ کر رہ گئیں، مگر نانا کو ترس نہ آیا۔نانا ہمیں وکیل صاحب کے پاس لے آئے، جو پھپھو کے شوہر تھے۔ وہ بگڑ رہے تھے کہ بچوں کو ماں کے ساتھ جانے دیں، مگر نانا نے ایک نہ سنی۔بس یہی کہتے رہے، فی الحال ان کا وہاں جانا میری بیٹی کی آئندہ زندگی اور خوشیوں پر اثر ڈالے گا۔
نانا واپس چلے گئے، اور وکیل پھپھا ہمیں اپنے بازوؤں میں بھر کر اپنی گاڑی میں لے آئے۔ اس کے بعد ہم پھپھو کے پاس رہے۔امی کبھی کبھی ہم سے ملنے آتی تھیں۔ سرسری سا پوچھتیں، میرے ساتھ چلو گے؟اب میں سیانی ہو چکی تھی، جواب دیتی، نہیں، آپ جائیں۔ ہم پھپھو کے پاس ہی رہیں گے۔اتنی مدت گزر گئی، مگر آنسو آج تک نہیں تھمے۔ اب وہ گالوں پر نظر نہیں آتے، مگر میرے دل میں قطرہ قطرہ گرتے رہتے ہیں۔اب میں بڑی ہو چکی ہوں، مگر جانے مجھے کیا ہو گیا ہے کہ لوگ کہتے ہیں،یہ خود سے باتیں کرتی ہے، اس پر جن بھوتوں کا سایہ ہے۔جہاں کہیں شہنائی کی آواز سنتی ہوں، شامیانے دیکھتی ہوں، یا کوئی بھی دلہن نظر آ جائے — میرا رنگ زرد پڑ جاتا ہے، ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے ہیں،میرے منہ سے چیخ نکل جاتی ہے، اور میں بے ہوش ہو جاتی ہوں۔بے ہوشی میں دبی دبی سسکیاں لیتی ہوں۔ماں کا دل تو اپنے بچوں کے لیے پیار سے بھرا ہوتا ہے۔میں اب تک یہی سوچتی ہوں کہ ہماری ماں کیسی تھی، جس نے اپنے جسم پر سرخ جوڑا سجانے کے لیے ہمارے دلوں کا لہو کر دیا — اور اس کو یہ لہو راس بھی آ گیا۔اس کے دو اور بچے ہو گئے، مگر ہماری طرف سے اس کے کان بہرے اور آنکھیں اندھی ہو گئیں۔وہ ہماری سسکیاں نہ سن سکیں، نہ ہمارے پیار کے لیے تڑپتے وجود کا کرب دیکھ سکیں۔اب تک اس کے کان ہمارے لیے بہرے اور آنکھیں بے دید ہی ہیں۔

 (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ