باجی کا صبر

Sublimegate Urdu Stories

پہلے تو امی کو کوئی رشتہ پسند نہ آتا تھا۔ باجی چھبیس برس کی ہو گئیں، ہر کسی نے احساس دلایا کہ تم کسی من پسند رشتے کے انتظار میں ہو۔ اگر طیبہ کی عمر اور زیادہ ہو گئی تو مناسب رشتہ ڈھونڈتی رہ جاؤ گی، اور ہاتھ ملتی رہ جاؤ گی۔اب جو رشتہ ان کو پسند آیا، وہ ہر لحاظ سے بہتر تھا۔ لڑکا پڑھا لکھا، خوبرو، باجی سے ایک سال بڑا، اور خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ لیکن ایک خدشہ تھا کہ چھے بن بیاہی نندوں اور سات دیوروں کے ہمراہ رہنے سے کہیں ایسے مسائل نہ پیدا ہو جائیں کہ باجی کا جینا دوبھر ہو جائے۔ خیر، اللہ کا نام لے کر میری والدہ نے لڑکے والوں کو ہاں کر دی، اور باجی کی شادی نعمان بھائی سے ہو گئی۔ 

باجی کے شوہر اگرچہ اچھے انسان تھے، میری بہن کو چاہتے تھے، ان کا خیال رکھنے کی کوشش بھی کرتے تھے، لیکن سسرال میں اتنے بہت سے لوگوں میں سے دو تین ایسے بھی تھے جو وجہ بے سکونی بنتے تھے۔ چنانچہ باجی صرف پانچ سال شوہر کے گھر رہ سکیں، اور تین بچے لے کر میکے آ گئیں۔ یہ نہیں کہ وہ خود اپنا گھر چھوڑ کر میکے آئی تھیں، بلکہ نعمان بھائی نے ہی روز روز نندوں کی چخ چخ سے بیوی کی جان چھڑوانے کے لیے انہیں ہمارے یہاں چھوڑ دیا تھا۔ کہا: علیحدہ گھر کا انتظام کر لوں تو لے جاؤں گا۔ میرے گھر کے تو سارے ہی لوگ طیبہ کی جان کا آزار بنے ہوئے ہیں۔ یہاں میرے بچے کچھ دن سکون سے رہ لیں گے۔ باجی کو میکے پہنچانے کے بعد ہمارے بہنوئی کا دل بھی نہ لگا اور وہ گھر چھوڑ کر ایک دوست کے مکان میں منتقل ہو گئے۔ یہ مکان اکثر خالی رہتا۔ وہ دوست اپنی ملازمت کی وجہ سے کبھی کہیں، کبھی کہیں ہوتا۔ کبھی کبھار مکان کی دیکھ بھال کے لیے آتا تھا۔ اس مکان کے پڑوس میں ایک بیوہ عورت اور اس کی مطلقہ بیٹی رہائش پذیر تھیں۔ بوڑھی خاتون سے نعمان بھائی نے اپنے لیے کھانا بنانے کی درخواست کی۔ یوں یہ ماں بیٹیاں میرے بہنوئی صاحب کو کھانا بنا کر دینے لگیں۔

بعض اوقات جو گمان میں نہیں ہوتا، وہی ہو جاتا ہے۔ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ سب ہو جائے گا۔ حتیٰ کہ خود نعمان بھائی نے بھی نہیں سوچا تھا، لیکن قدرت عجب کھیل کھیلتی ہے۔ نجانے کس لمحے نعمان کو بیوہ کی مطلقہ بیٹی صفیہ پسند آ گئی۔ وہ کھانا بہت عمدہ اور لذیذ بناتی تھی۔ دونوں میں پسندیدگی استوار ہو گئی اور انہوں نے صفیہ سے نکاح کر لیا۔ پھر اپنی نئی زندگی میں ایسے گم ہوئے کہ پہلی بیوی اور بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے والدین اور بہن بھائیوں تک کو بھول گئے۔ انہوں نے پلٹ کر کسی کی خبر نہ لی۔ شاید وہ عورت کوئی جادوگرنی تھی، یا پھر نعمان بھائی اپنے ہی گھر والوں کو اپنی بربادی کی وجہ اور خوشیوں کا قاتل سمجھنے لگے تھے۔میرے والد صاحب بوڑھے تھے۔ وہ کمانے کے قابل نہ رہے تھے۔ بڑے بھائی ملازمت کرتے تھے اور وہی گھر کے اخراجات برداشت کرتے تھے۔ تینوں بھائی شادی شدہ اور بچوں والے تھے۔ ہماری ماں بیٹوں کی محتاج تھیں۔ میری ابھی شادی نہیں ہوئی تھی، اور ان کو میری فکر بھی کھائے جاتی تھی۔

باجی تین سال ہمارے گھر رہیں۔ بھائیوں نے ان کا اور ان کے بچوں کا خرچ برداشت کیا۔ اس اثنا میں میری بھی شادی ہو گئی۔ میں بیاہ کر پہلے اسلام آباد، پھر سویڈن چلی گئی۔ وہاں سیٹل ہونے کے چکر میں ہم اپنے مسائل میں الجھ گئے۔ سویڈن میں میرے میاں پڑھ بھی رہے تھے اور ہم دونوں نوکری بھی کرتے تھے۔ ہمیں فرصت نہ تھی کہ میکے کے حالات کی خبر لیں۔بھابھیوں نے پہلے صبر سے کام لیا، پھر جب ان کو یقین ہو گیا کہ اب یہ شادی شدہ نند طیبہ اور اس کے تینوں بچے ہم پر مستقل بوجھ ہیں، تو ان کے رویّے روز بہ روز بدلنے لگے۔ وہ باجی کو ملازمہ کا درجہ دینے لگیں، بات بے بات باجی اور امی کو تنگ کرنے لگیں، اور ان کے بچوں کی معمولی شرارتوں پر بھی انہیں پیٹنے لگیں۔ اماں کچھ کہتیں تو انہیں بھی بے نقط سنا دیتیں۔ شوہروں کے الگ کان بھرتیں، جس کی وجہ سے میرے بھائی بھی ماں اور بہن کے خلاف ہو گئے، اور امی کو باجی کی طرفداری پر قصور وار سمجھنے لگے۔اس صورتِ حال نے امی اور باجی کو بوکھلا دیا، حالانکہ باجی ملازمہ کے ساتھ مل کر برابر سے بھابھیوں کے سارے کام کرتیں، کچن سنبھالتیں، کھانا پکاتیں، حتیٰ کہ بھائیوں کے کپڑے اور بھابھیوں کے بچوں کے یونیفارم تک استری کر کے رکھتیں، لیکن وہ پھر بھی ان سے خوش نہ ہوتیں، بلکہ ان کو اور ان کے بچوں کو اپنے در پر پڑا کوڑا سمجھ کر منہ پھیر لیتیں۔

باجی کے میکے میں قیام ان کا قصور نہ تھا۔ جب تک والد زندہ رہے، بھائی اور بھابھیاں اندر ہی اندر گھٹتے رہے۔ منہ سے کچھ ان کے سامنے نہ کہہ سکتے تھے۔ والد کے فوت ہونے کے بعد تو بھائیوں نے امی جان کو گھر کا خرچ دینا بھی بند کر دیا، کیونکہ وہ اپنی بیٹی اور اس کے بچوں کو پال رہی تھیں۔ہماری ملازمہ سلیمہ، کافی پرانی اور نیک دل عورت تھی۔ وہ غریب ضرور تھی، لیکن دل کی غریب نہ تھی۔ وہ باجی کے ساتھ بھابھیوں کا برا سلوک دیکھ کر کڑھتی رہتی تھی۔ ایک دن بڑی بھابھی نے صاف صاف میری بہن سے کہہ دیا کہ ہم تمہارا خرچ نہیں اٹھا سکتے۔ یا تو بچوں کو ان کی دادی کے حوالے کر دو، خلع لے کر دوسری شادی کر لو، یا پھر جہاں چاہو، چلی جاؤ۔ لیکن ہمارے گھر سے نکل جاؤ۔دوسری بھابھی بولیں، اگر اماں تمہاری حمایتی بنیں تو انہیں بھی اپنے ساتھ لے جاؤ۔یہ سب باتیں ملازمہ سلیمہ سن رہی تھی۔ 

باجی اور امی رو رہی تھیں۔ سلیمہ کو بہت دکھ ہوا۔ اس نے باجی کو چپ کرایا اور تسلی دی۔ باجی نے سلیمہ سے کہا، خالہ! تم ہی بتاؤ، میں کہاں جاؤں؟ تین بچوں کا ساتھ ہے۔ سسرال والے مجھے رکھنے کو تیار نہیں، اور شوہر کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ تم کسی گھر میں مجھے کام دلوا دو۔ اگر وہ لوگ رہائش بھی دے دیں اور میرے تینوں بچوں کو بھی ساتھ رکھنے دیں تو میں ملازمت کرنے کو تیار ہوں۔سلیمہ نے آہ بھر کر کہا، بی بی، آج کل ویسے لوگ کہاں رہے جو آپ کو بچوں سمیت اپنے گھر میں رکھ لیں؟باجی بولیں، تو پھر تم مجھے اپنے گھر لے چلو۔ بچے وہاں رہیں گے، میں کہیں ملازمت کر لوں گی۔سلیمہ ہچکچاتے ہوئے بولی، میں رکھ تو لوں بی بی طیبہ، لیکن آپ کے گھر والے کیا گوارا کریں گے؟باجی نے دکھ سے کہا، ان کو اس بات کی کیا پروا ہے کہ میں کہاں رہوں؟ بھائی بھی اتنے روکھے ہو گئے ہیں کہ مجھ سے بات تک نہیں کرتے، اور امی کا خرچ بند کر دیا ہے۔ وہ مجھ سے صاف بیزاری کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان سب کا یہی مطالبہ ہے کہ میں اپنے بچوں کو سنگدل نندوں اور ساس کے پاس چھوڑ آؤں۔ تم جانتی ہو، وہاں ان بچوں کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ جب باپ نے ہی چھوڑ دیا، تو وہ کیوں رکھیں گے؟ میں مر جاؤں گی، مگر عدالت میں نعمان پر خلع کا دعویٰ نہیں کروں گی، نہ دوسری شادی کروں گی۔ اس سے بہتر ہے کہ کہیں چلی جاؤں اور نوکری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال لوں۔ 

خالہ! تم کچھ دن کے لیے مجھے اپنے گھر رکھ لو۔سلیمہ بولی، بی بی، میں تو رکھ لوں، لیکن میں تو جھگی میں رہتی ہوں۔باجی بولیں، میں بھی تمہارے ساتھ جھگی میں رہ لوں گی۔سلیمہ نے سمجھایا، میری جھگی اتنی چھوٹی ہے کہ اس میں دو تین لوگ آڑھے ترچھے سوتے ہیں۔ آپ کیسے رہ لیں گی؟باجی بولیں، اچھا، تو یہ بتاؤ، جھگی بنانے میں کتنا خرچ آتا ہے؟ میں تمہاری جھگی کے قریب اپنی جھگی بنا لوں گی۔سلیمہ حیرت سے پوچھنے لگی، آپ جوان جہان عورت ہیں، بچوں کے ساتھ اکیلی کیسے رہیں گی؟باجی نے پُراعتماد انداز میں کہا، رہ لوں گی۔ تمہارا گھرانہ تو ساتھ ہوگا۔ تمہارا بیٹا اور بہو ہیں، وہی میرا خیال رکھ لیں گے۔جب باجی کو زار و زار روتے دیکھا، تو سلیمہ خالہ نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ ٹھیک ہے، آپ آ جائیں میرے گھر۔ لیکن آپ کے بھائیوں کو خبر نہ ہو، ورنہ وہ مجھ ہی کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے۔اس نے رہنے کی جگہ کا پتہ سمجھا دیا اور کہا کہ آپ خود آ جانا۔ اگر میرے ساتھ چلیں گی تو آپ کے گھر والے میری گردن پکڑ لیں گے۔سلیمہ سمجھ رہی تھی کہ یہ محض وقتی فیصلہ ہے۔ کہاں طیبہ بی بی گھر چھوڑ کر چلی جائیں گی؟ مگر باجی نے بھی ٹھان لی تھی۔

شام کو، بغیر کسی کو بتائے، چپکے سے بچوں کو لے کر گھر سے نکل گئیں۔ سڑک سے رکشا لیا اور سلیمہ کے دیے ہوئے پتے پر روانہ ہو گئیں۔رکشا والا غالباً اسی علاقے کا رہائشی تھا، وہ انہیں صحیح جگہ لے گیا۔ یوں باجی اپنی ملازمہ کی جھگی میں جا ٹھہریں۔ سلیمہ خالہ نے سچ کہا تھا۔ اس کی جھگی میں صرف تین چار پائیاں سما سکتی تھیں۔ ایک چارپائی کی جگہ خالی تھی جہاں اس کی بہو کھانا پکاتی تھی۔ اس رات ساس اور بہو ایک ہی چارپائی پر سوئیں، سلیمہ کا بیٹا باہر کہیں سویا۔ باقی دو چارپائیوں پر باجی اور ان کے تین بچوں نے گزر بسر کی۔ ساری رات انہیں مچھروں نے سونے نہ دیا۔ اب باجی کو احساس ہوا کہ واقعی، خالہ سلیمہ نے درست کہا تھا۔

اگلی صبح جب وہ کام پر آئی تو امی رو رو کر نڈھال ہو چکی تھیں۔ بھابھیاں کہہ رہی تھیں کہ تمہاری بیٹی گھر سے بھاگ گئی ہے۔ کم از کم تمہیں بتا کر تو جاتی کہ کہاں جا رہی ہے۔ سلیمہ خالہ سے امی کی حالت دیکھی نہ گئی۔ چپکے سے ان کو باخبر کر دیا کہ آپ کی بیٹی میرے پاس ہے، فکر نہ کریں۔ میرے ساتھ چل کر اسے سمجھا بجھا کر لے آئیں۔ وہ نازوں پلی، بھلا کہاں ایک غریب کی جھگی میں رہ سکتی ہے؟ اور وہ بھی کتنے دن؟یہ سن کر امی کی جان میں جان آئی اور وہ شام کو خالہ سلیمہ کے ساتھ اس کے گھر چلی گئیں۔ باجی ماں سے لپٹ کر خوب روئیں۔ اماں نے کہا کہ تمہارے بھائی اور بھابھیاں جیسا بھی سلوک کریں، اپنے ہی ہیں۔ تم میرے ساتھ واپس گھر چلو۔ لیکن باجی جانے پر راضی نہ ہوئیں۔ انہوں نے ماں سے کہا کہ تم بھی میرے ساتھ رہو، ہم یہاں جھگی ڈال لیتے ہیں۔ تم بچوں کو سنبھالنا، میں کہیں ملازمت کر لوں گی۔

چنانچہ باجی نے امی کو گھر واپس جانے نہ دیا اور اپنی سونے کی بالیاں خالہ سلیمہ کے بیٹے کو دے کر کہا کہ سامان لے آؤ، میں نے اسی میدان میں آپ لوگوں کے قریب جھگی ڈالنی ہے۔ وہ بیچارہ باجی کے اصرار پر ہکا بکا سا بانس، چٹائیاں وغیرہ لے آیا۔لیکن وہاں کے لوگوں نے باجی کو جھگی ڈالنے نہ دی کیونکہ باجی اور بچوں کے لباس سے انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ ہمارے طبقے کے لوگ نہیں ہیں، کسی خوشحال گھرانے سے ہیں۔ نجانے کیا معاملہ ہے جو یہاں رہنا چاہتے ہیں۔میدان میں ساری جھگیوں کے مرد اکٹھے ہو گئے اور باجی و امی پریشان حال سامان پر بیٹھی تھیں کہ ایک واقف کار شخص نے بچوں کو پہچان لیا۔ 

یہ ایک وین ڈرائیور تھا جو بھائی کے بچوں کو اسکول لے جاتا تھا۔ اس کا نام منظور تھا۔ منظور بھاگتا ہوا میرے بھائی کے پاس آیا اور کہا کہ حمید صاحب، آپ کے بھانجے بھانجی، ہمشیرہ اور والدہ فلاں جگہ بیٹھی ہیں اور بڑی مشکل میں ہیں۔بڑے بھائی فوراً منظور کے ساتھ میدان پہنچے۔ اپنی ماں، بہن اور ان کے بچوں کو وہاں دیکھ کر ان کا سر شرم سے جھک گیا۔ انہیں غیرت آئی۔ انہوں نے جھگی کے سامان، بانسوں اور چٹائیوں کو آگ لگا دی۔ امی، باجی اور بچوں کو گاڑی میں بٹھایا اور گھر لے آئے۔راستے بھر بہت غصہ کیا، بولے کہ تم نے تو میری ناک ہی کٹوا دی۔ اگر غصہ تھا تو مجھ سے جھگڑتیں، گھر کے برتن توڑ دیتیں، مگر یہ تم نے کیا کیا؟ جھگی ڈالنے چلی گئیں؟باجی کیا جواب دیتیں۔ اماں نے کہا کہ ہاں میاں، بولو، جو جی میں آئے بولو۔ تم نے تو مجھے خرچہ دینا بھی بند کر دیا تھا، اسی بیٹی کے کارن کہ دو نوالے اس کو کھلا رہے تھے۔ میری بیٹی تمہاری بیوی اور بھابھیوں کی چاکری کرتی ہے، تو ہی تمہاری کمائی سے دو نوالے کھاتی تھی۔ اب کیا غیرت جاگی ہے تمہیں؟ اور ان دونوں بھائیوں سے بھی پوچھو، ان کی بیویاں سارا دن طیبہ اور اس کے بچوں سے کیسا سلوک کرتی ہیں؟ اس سے تو اچھا ہے کہ ان بچوں کو تم یتیم خانے میں جمع کرا دو۔ماں کے صبر کا بند آج ٹوٹ گیا تھا۔

بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ تینوں بھائی مل کر بہن اور اس کے بچوں کا خرچ اٹھائیں گے اور مکان کی چھت پر طیبہ کے لیے دو کمرے بنوا دیں گے۔ آخر اس جائیداد میں ان کا بھی حصہ تھا کیونکہ مکان باپ دادا کی وراثت سے ملا تھا۔یوں باجی کو عافیت نصیب ہوئی۔ تاہم اسکول سے آ کر ممانیاں ان بچوں کو چین سے بیٹھنے نہ دیتیں، خاص طور پر باجی کے بڑے بیٹے احسن کو، جو ان دنوں ابھی صرف بارہ برس کا تھا۔ایک روز وہ بڑی بھابی کے کمرے کے جالے اتار رہا تھا کہ ان کا ایک قیمتی گلدان ٹوٹ گیا جو وہ جہیز میں لائی تھیں۔ بس پھر کیا تھا، انہوں نے وہی چھڑی اٹھا لی جس سے وہ جالے اتار رہا تھا اور خوب احسن کو پیٹا۔ پھر بولیں کہ نکل جا یہاں سے، اور دوبارہ مجھے اپنی یہ منحوس صورت مت دکھانا۔احسن سہم گیا۔ بھابھی نے غصے میں جو کہا تھا، اس نے سچ سچ یہی سمجھا کہ اب وہ انہیں اپنی شکل نہیں دکھائے گا۔ اس نے ماں کا بٹوہ اٹھا لیا اور گھر سے چلا گیا۔ رات تک نہ لوٹا، تو امی اور باجی بے حد پریشان ہو گئیں۔ بھائی آئے، احوال پوچھا۔ وہ بھی تلاش میں نکلے، لیکن لڑکا اس طرح غائب ہو گیا کہ پھر نہ ملا۔

 باجی رو رو کر نیم جان ہو گئیں۔احسن اتنا جانتا تھا کہ اس کا باپ لاہور میں رہتا ہے، مگر کہاں، یہ معلوم نہ تھا۔ وہ بس میں سوار ہو کر لاہور چلا گیا۔ ماں نے سن رکھا تھا کہ لاہور کے علاقے اچھرہ میں گھر لیا ہے، لیکن اچھرہ بہت بڑا علاقہ تھا اور اتنے سارے مکانات تھے کہ معلوم نہ ہو سکا وہ کس مکان میں رہتا ہے۔احسن وہاں ادھر اُدھر گھوم رہا تھا کہ اسے بھوک لگ گئی۔ وہ ایک نان بائی کی دکان پر پہنچا، روٹی خریدنے کو بٹوہ نکالا، جس میں اس کے باپ اور ماں کی شادی کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ وہ تصویر نان بائی سے چھپا لی، روٹی لے کر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ شام ہو رہی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد وہ ادھر اُدھر دیکھنے لگا کہ کہاں ٹھکانہ کرے، رات ہو جائے گی تو کہاں سوئے گا۔ تبھی اس کی نظر سامنے سڑک پار مسجد پر پڑی۔ وہ وہاں چلا گیا۔مغرب کی نماز کا وقت ہو رہا تھا۔ وہ آخری صف میں جا کھڑا ہوا۔ نماز ختم ہوئی، نمازی مسجد سے نکلے مگر وہ مسجد کے صحن میں ایک طرف بیٹھ گیا کیونکہ بہت تھک گیا تھا۔ دیوار سے ٹیک لگائی تو نیند آ گئی، اور وہ وہاں ہی سو گیا۔عشاء کی نماز کے وقت امام مسجد ادھر سے گزرے، انہوں نے احسن کو جگایا اور پوچھا کہ بیٹا تم کون ہو اور یہاں کیوں سو رہے ہو؟ احسن نے کہا کہ وہ ساہیوال سے آیا ہے، والد یہاں رہتے ہیں، ان کا گھر ڈھونڈنا چاہ رہا تھا۔

تھکان کے سبب مسجد آگیا، نیند آ گئی تھی۔ امام صاحب نے کہا کہ عشاء کی نماز ہو جائے، تم یہاں ٹھہرو، میں بعد میں تم سے بات کروں گا۔جب عشاء کی نماز ختم ہوئی اور لوگ چلے گئے، امام صاحب احسن کے پاس آئے اور پوچھا کہ کیا کھانا کھایا ہے؟ احسن نے کہا سہ پہر نان بائی سے کھایا تھا۔ امام صاحب بولے کہ اب کہاں جا کر سو گے؟ سونے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ پھر بولے کہ میرے ساتھ میرے گھر چلو، رات وہاں سوجاؤ، صبح ہم تمہارے والد کو تلاش کرنے کی کوئی راہ نکالیں گےاحسن ان کے ساتھ ہو گیا۔ امام صاحب کا گھر مسجد کے پاس ہی تھا۔ وہاں ان کی بیوی اور بچے بھی تھے۔ احسن کو ان کی بیوی نے کھانا دیا اور بستر بچھا دیا، کہا کہ آرام سے سو جاؤ۔ 
معمول یہ ہو گیا کہ وہ صبح نماز کے لیے امام صاحب کے ساتھ مسجد جاتا، اور نماز کے بعد نمازیوں کے نکلنے پر دروازے کے پاس کھڑا رہتا کہ شاید کوئی ایسا شخص آجائے جس کی شکل اس تصویر سے ملتی ہو جو اس کے بٹوے میں لگی تھی ۔  شاید وہ اس کا باپ ہو۔احسن ایک معصوم بچہ تھا اور ایسی امیدیں دل میں لے کر بیٹھ گیا تھا۔ ایک روز امام صاحب کی بیوی نے کہا کہ بیٹا، احسن! یا تو مدرسے میں داخلہ لو اور کچھ علم حاصل کرو، یا پھر خود کمانے کی کوشش کرو۔ ایسے در در بھٹکنے سے زندگی گزر نہیں پائے گی اور تمہارا باپ تمہیں یوں بھی نہیں ملے گا۔احسن نے اس بات کو دل سے لگا لیا۔ اس کے پاس ماں کے بٹوے میں کچھ روپے تھے۔ اس نے سوچا کہ کام شروع کرے۔ وہ نان بائی کے پاس گیا اور پوچھا کیا مجھے یہاں کام مل سکتا ہے؟ نان بائی نے کہا کہ پہلے سے دو لڑکے کام کرتے ہیں، تیسرے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر کھوکھے والا، جو اسکول کے قریب تھا، اس نے کہا کہ کل ہی اس نے کہا تھا کہ اسے ایک لڑکے کی ضرورت ہے۔احسن وہاں گیا، اپنا حوالہ نان بائی کا دیا، بتایا کہ وہ امام صاحب کے پاس رہتا ہے۔ 

کھوکھے والے نے پوچھا کہ تم رہتے کہاں ہو، اور سوال کیا کہ تم مدرسے میں داخلہ کیوں نہیں لیتے؟ اس سے وہ اپنے والد کو ڈھونڈ نہیں پائے گا۔ احسن نے اپنی روداد مختصر سنائی اور بٹوے میں لگی تصویر دکھائی۔ کھوکھے والے نے کہا کہ مجھے شک ہے کہ اس تصویر سے ملتی جلتی شکل والا آدمی کبھی بچے کو اسکول چھوڑنے آتا ہے۔ وہ مشورہ دیا کہ تم کچھ ٹافیاں، بسکٹ اور مونگ پھلی کے پیکٹ لے لو اور اسکول کی دیوار کے پاس بیٹھ جاؤ، بچے ادھر سے گزرتے وقت تم سے یہ چیزیں خرید لیں گے، رقم دوگنی ہو جائے گی، اور ممکن ہے تمہارا باپ تمہیں پہچان لے۔احسن نے اس پر عمل کیا۔ کھوکھے والے نے بیلیٹ والی ٹرے میں وہ سب چیزیں سجا کر دی، اور احسن نے وہ ٹرے گلے میں لٹکا کر اسکول کی دیوار کے پاس ایک اسٹول پر بیٹھ گیا۔ وہ اسٹول بھی وہی کھوکھے والا تھا جو اسے دے چکا تھا۔

ایک دن ایک والد اپنے بچے کو اسکول سے لینے آیا۔ جب وہ احسن کے پاس سے گزرا، احسن نے اس سے ٹافیاں لینے کی پیشکش کی۔ والد نے ٹافیاں خرید لیں۔ احسن نے بٹوہ نکالا اور احتیاط سے دس کا نوٹ دیا، تب والد نے بٹوے میں لگی تصویر دیکھی اور پوچھا کہ یہ تصویر کس کی ہے؟ احسن نے کہا کیوں دکھاؤں، مگر والد نے زور دیا کہ اس تصویر والے آدمی کو میں نے کہیں دیکھا ہے۔ احسن تھوڑا گھبرا گیا، کیونکہ اس تصویر میں باپ کے ساتھ ماں کی تصویر بھی تھی۔ والد نے کہا کہ وہ لاہور میں رہتا ہے اور اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔ احسن نے بٹوہ کھولا اور تصویر سامنے رکھ دی۔ والد نے غور سے دیکھا اور پوچھا کہ کیا تم احسن ہو؟ اور کیا میں تمہارا باپ ہوں؟ احسن نے اثبات کیا۔ والد نے فوراً اسے سینے سے لگا لیا۔ سات برس بعد بیٹے کی شکل دیکھی، اور جب اس کو گلے لگایا تو باپ کا خون جوش مارا۔ وہ دونوں نعمان کے گھر آئے، والد نے صفیہ سے کہا کہ بیوی اسے کھانا وغیرہ کھلائے، اور وہ بازار سے نئے کپڑے لے کر واپس آئے۔ خبردار! جو تم نے اس بارے میں کوتاہی کی۔ یہی میرِالختِ جگر تمہارے باعث اس حال کو پہنچا ہے۔ نجانے دوسروں کا حال اس سے بہتر ہے یا بدتر؟
احسن نے اپنے والد کو وہ تمام مصیبتیں سنائیں جو اس کی ماں اور بہن بھائیوں پر بیتیں۔ یہ سن کر وہ رو پڑے اور بولے:سچ ہے، جنہیں باپ چھوڑ دیتے ہیں، ان بچوں کی حالت ایسی ہی ہو جاتی ہے۔دو دن بعد وہ احسن کو لے کر اپنے بھائی کے گھر پہنچے۔ بھائی تو اسے دیکھنے کا بھی روادار نہ تھا، لیکن میری باجی جیسے زندہ ہو گئیں، جیسے ان میں کسی نے نئی جان ڈال دی ہو۔ صلح کے لیے کوئی بھی تیار نہ تھا، لیکن باجی نے کہا:اتنی مدت کے بعد میرا سہاگ لوٹ آیا ہے، میں اس موقع کو ہاتھ سے کیوں جانے دوں؟ نعمان مجھے لینے آئے ہیں، میں ضرور ان کے ساتھ جاؤں گی۔ میرے بچوں کو ان کا کھویا ہوا باپ واپس مل گیا ہے۔ وہ جھٹ پٹ اپنے شوہر کے ساتھ جانے پر آمادہ ہو گئیں، یہاں تک کہ سوتن کے ساتھ گزارا کرنا بھی گوارا کر لیا۔ لیکن صفیہ ، جس نے سات سال بعد اچانک اپنی سوتن کو دیکھا، صدمے سے دیوار سے جا لگی۔ باجی نے اس عورت کو سنبھالا، دلاسا دیا، مگر صفیہ سوتن کا دکھ سہنے والی نہ تھی۔اس نے یہ دکھ دل پر لے لیا اور اندر ہی اندر گھلنے لگی، یہاں تک کہ بیمار ہو کر چارپائی سے لگ گئی-

باجی نے اس کی بیماری میں بہت خدمت کی۔ وہ تین سال تک بستر پر پڑی رہی۔ آخرکار اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔اس کے بیٹے کو بھی باجی نے اپنے بچوں کی طرح پالا، یہاں تک کہ وہ اپنے سوتیلے بہن بھائیوں میں ایسا گھل مل گیا کہ اب خود بھی یہی سمجھتا ہے کہ وہ باجی ہی کے بطن سے پیدا ہوا ہے۔ جب لوگ یہ قصہ سنتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔سچ ہے، صبر کرنے اور امید کا دامن نہ چھوڑنے والوں کے دن اسی طرح بدلتے ہیں کہ کسی کو یقین ہی نہیں آتا۔آج باجی کے بچے جوان ہیں اور وہ خود آرام و سکون کی زندگی گزار رہی ہیں۔

 (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ