پراسرار بیوی

Sublimegate Urdu Stories

جرم و سزا کا یہ کیس بھی انہی دنوں کا ہے جب میں دہلی میں سی آئی اے میں تھا۔ میری بدبختی یہ تھی کہ میں انگریزی بولتا اور سمجھتا تھا۔ دوسری بدبختی یہ کہ مجھے دل و دماغ سے کام کرنے کا خبط تھا اور مجھ میں ایک یہ دماغی خرابی بھی تھی کہ میں رشوت اور سفارش کو قبول نہیں کرتا تھا۔ ۔ میرے ساتھ ایک انگریز انسپکٹر جوزف تھا۔ ہم دونوں کو قتل کا ایک کیس دیا گیا۔ چودہ پندرہ دن پہلے ایک جوان ہندو ریوالور کی گولیوں سے قتل ہو گیا تھا۔ اس خاندان میں کالجوں کی تعلیم بھی تھی اور ٹھیکیداری کی دولت بھی۔ یہ اس سطح کا خاندان تھا جس کے ہاں سول اور فوج کے افسروں کی ٹی پارٹیاں اور ڈنر وغیرہ ہوتے تھے اور اس خاندان کی جوان عورتیں انگریز افسروں کے ساتھ فری ہوتی تھیں اور فری ہونے والی عورتوں کو مدعو بھی کیا جاتا تھا۔ ہندو کا عام طور پر تصور یہ ہے کہ یہ تجارت پیشہ قوم ہے۔ پیسہ اس کا دیوتا اور دھرم ہے۔ ہندو تنگ نظر اور فریب کار ہے، فطری طور پر بنیا اور کنجوس ہے۔ ہندو کا صحیح تصور یہی ہے لیکن جنگِ عظیم میں مختلف ٹھیکیداریاں عام ہو گئیں تو روپے پیسے کی فراوانی ہو گئی۔ ہندوؤں کی ایک کلاس ابھری جس نے فوجی ہیڈ کوارٹروں سے ٹھیکے لینے کے لیے مخصوص ہند و آنہ گھٹن اور تنگ نظری ترک کر دی اور اپنے آپ کو ماڈرن بنا لیا۔ یہ لوگ گوشت بھی کھاتے اور شراب بھی پیتے تھے۔

وہ ہندو جو قتل ہو گیا تھا وہ اسی ماڈرن ہندو کلاس کے ایک ٹھیکیدار کا بیٹا تھا۔ اس قتل کی تفتیش اسی وجہ سے سی آئی اے کو دی گئی تھی کہ مقتول کا میل جول بڑے افسروں سے تھا۔ اس نے کہا تھا کہ علاقہ تھانیدار دو ہفتے گزر جانے کے باوجود قتل کا سراغ نہیں لگا سکا۔ سی آئی اے کے اختیارات لامحدود ہوتے تھے اور اس برانچ میں انگریز افسر بھی تھے جن سے کوتاہی اور بد دیانتی کی توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی۔ میں اور انسپکٹر جوزف متعلقہ تھانے میں گئے اور فائل دیکھی۔ قتل کی اور مقتول کی جو تفصیلات مجھے یاد ہیں، وہ اس طرح تھیں کہ دو ہفتے پہلے رات گیارہ بجے کے لگ بھگ مقتول واپس گھر آیا۔ وہ ٹیکسی پر آیا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور سکھ تھا جس کا بیان یہ تھا کہ مقتول ریلوے سٹیشن سے اس کی ٹیکسی میں بیٹھا۔ اپنی کوٹھی کے سامنے اس نے ٹیکسی روکائی اور ٹیکسی سے اتر کر اس نے پیسے دیے، پھر کوٹھی کے گیٹ کی طرف گیا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے ٹیکسی چلائی اور وہ ٹیکسی ادھر ہی موڑنے لگا جہڑ سے آیا تھا کہ پیچھے سے ایک موٹر سائیکل آیا۔ سکھ نے گاڑی روک لی کہ موٹر سائیکل گزر جائے لیکن موٹر سائیکل سامنے سے گزرنے کی بجائے گاڑی کے پیچھے سے گزرنے لگی۔ سکھ اسے دیکھ رہا تھا۔ موٹر سائیکل آہستہ ہو گئی۔ مقتول ابھی گیٹ تک پہنچا ہی تھا کہ موٹر سوار والے نے ریوالور سے دو فائر کیے اور یکلخت موٹر سائیکل تیز کر دی۔ سکھ تیزی سے گاڑی سے نکلا۔ مقتول گر پڑا تھا اور موٹر سائیکل بہت ہی تیز رفتاری سے غائب ہو گئی تھی۔ سکھ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ موٹر سائیکل والا رک کر مقتول پر چھری چاقو سے حملہ کرتا اور موٹر سائیکل پر سوار ہو کر بھاگتا تو وہ ٹیکسی میں اس کا تعاقب کرتا لیکن قاتل کے پاس ریوالور تھا اس لیے اس نے تعاقب کی جرات نہ کی۔ اس نے گیٹ کے اندر جا کر آوازیں دیں تو گھر والے باہر آئے۔ سکھ نے انہیں بتایا کہ یہ واردات ہو گئی ہے۔ تھانے رپورٹ ہوئی۔ سکھ وہیں موجود رہا۔ علاقہ تھانیدار آیا تو اس نے پہلا شبہ سکھ پر ہی کیا جو اس بنا پر غلط ثابت ہوا کہ سکھ نے ہی کوٹھی میں جا کر واردات کی اطلاع دی تھی۔ دوسری بات یہ کہ مقتول کی جیب میں اس کا بٹوہ موجود تھا جس میں بہت سی رقم تھی۔ اس کی کلائی میں گھڑی اور انگلیوں میں سونے کی دو انگوٹھیں تھیں۔ سکھ اسے قتل کرتا تو اس کا مقصد مقتول کو لوٹنا ہی ہو سکتا تھا۔ سکھ نے اسے لوٹا نہیں تھا اور اس کے پاس ریوالور بھی نہیں تھا۔ سکھ تو موقعہ کا گواہ تھا۔

قتل کی واردات جس کوٹھی میں ہوئی وہاں آبادی گنجان نہیں تھی۔ شہر سے پالام ایئرپورٹ کی طرف سڑک جاتی تھی۔ اس وقت ایئرپورٹ پر آج والی ہوائی جہازوں کی آمد و رفت نہیں تھی اس لیے یہ سڑک شام کے بعد ویران اور سنسان ہو جاتی تھی۔ زیادہ تر علاقہ خالی پڑا تھا۔ آج تو وہاں ایک انچ جگہ بھی خالی نہیں ہوگی۔ رات کو سڑک کے ویران ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پرائیویٹ کاروں میں بہت ہی کم تھیں۔ موٹر سائیکل نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس وقت ٹھیکیداریوں کی دولت سے چند ایک ہندوؤں نے پرانی دہلی کے قدیم مکانوں سے نکل کر اس علاقے میں کوٹھییں بنالی تھیں۔ ان کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ سکھ ٹیکسی ڈرائیور نے موٹر سائیکل سوار کا چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ موٹر سائیکل فوجی تھی۔ اس وقت پرائیویٹ موٹر سائیکل بھی خاصے بڑے ہوا کرتے تھے اور انجن کی طاقت آج کی طرح سی سی کے حساب سے نہیں بلکہ ہارس پاور کے حساب سے ہوتی تھی۔ عام طور پر پانچ ہارس پاور کا موٹر سائیکل ہوتا تھا لیکن فوجی موٹر سائیکل بھی بڑے ہوتے تھے۔

موٹر سائیکل سوار نے پتلون پہن رکھی تھی۔ قمیض پر جیکٹ تھی یا کوٹ۔ وہ پالام ایئرپورٹ کی طرف سے آیا اور شہر کی طرف چلا گیا تھا۔

گولیاں اتنی قریب سے فائر ہوئی تھیں کہ جسم سے پار ہو گئیں اور گیٹ سے لگ گئی تھیں جو لوہے کا تھا۔ تھانیدار نے رات کو گولیوں کے نشان برآمد کر لیے تھے۔ ایکسپرٹ کی رپورٹ تھی کہ یہ بور کے ریوالور سے فائر ہوئی ہیں۔ گولیوں کے خول وہاں نہیں تھے جو وہاں ہو بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ ریوالور کے سلنڈر میں ہی چلے گئے تھے۔

ہم نے پوسٹ مارٹم رپورٹ دیکھی۔ ایک گولی دل کے قریب لگی اور کلیجے میں سے گزر گئی تھی اور دوسری ریڑھ کی ہڈی کو کاٹتی دونوں گردوں کے درمیان سے گزری اور جسم کے پار ہو گئی۔ مقتول موقعہ پر ہی ہلاک ہو گیا تھا۔

دو پہلو ہمارے سامنے آئے۔ ایک یہ کہ رائفل اور بندوق کی گولیاں نشانے پر مارنا مشکل نہیں ہوتا کیونکہ ان کے بٹ کندھے کے ساتھ دبا کر انہیں دونوں ہاتھوں کی گرفت میں رکھا جاتا ہے لیکن ریوالور صرف ایک ہاتھ میں پکڑ کر فائر کیا جاتا ہے۔ کوئی اناڑی اس کا ٹریگر دباتا ہے تو اس کی نالی نیچے ہو جاتی ہے لہٰذا گولی نشانے پر لگنے کی بجائے نیچے لگتی ہے۔ مقتول پر چلتی موٹر سائیکل سے فائر کیا گیا تھا اور گولیاں نشانے پر لگیں۔ اس سے یہ پہلو سامنے آیا کہ قاتل ریوالور کے فائر کا ماہر تھا۔ ماہر وہی ہو سکتا تھا جس کے پاس اپنا ریوالور تھا اور ریوالور فائر کرتا رہتا تھا۔ یہ کوئی اناڑی نہیں تھا۔

دوسرا پہلو اس واردات کا یہ تھا کہ ہندوؤں میں قتل کی وارداتیں اس طرح نہیں ہوا کرتی تھیں جس طرح مسلمانوں کے ہاں ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ دیہات اور قصبوں میں دیرینہ عداوت کی بنیاد پر مسلمان قتل سے کم کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ آج کل پاکستان کے شہروں میں اسلحہ اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ سر پھرے نوجوان شوقیہ قتل کرتے پھرتے ہیں۔ ہندوؤں میں یہ بات نہیں تھی۔ شہر کا ہر ہندو قتل کے نام سے ہی لرزتا تھا پھر بھی کبھی برسوں میں ایک ہندو کسی ہندو کے ہاتھوں قتل ہو جاتا تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ قاتل انتقام کے جذبے سے پاگل ہو گیا تھا۔

اس واردات کی تفتیش میں مجھے پہلا خیال آیا کہ یہ انتقامی کارروائی ہوئی۔ میرے اس خیال کو تقویت یوں ملی کہ مقتول لوٹا نہیں گیا تھا۔ لہٰذا سب سے پہلے تو یہ دیکھنا تھا کہ قتل کا باعث کیا تھا۔

ابھی تو ہم تھانے میں بیٹھے فائل دیکھ رہے تھے اور تھانیدار سے معلومات لیتے جا رہے تھے۔ تھانیدار ہندو تھا۔ سب انسپکٹر رتن کمار۔ اس نے پندرہ دنوں کی تفتیش میں کوتاہی نہیں کی بلکہ بہت محنت کی تھی لیکن قتل کا باعث معلوم نہیں کر سکا تھا۔ اس نے مصدقہ طور پر معلوم کر لیا تھا کہ مقتول کی کسی کے ساتھ ذاتی یا خاندانی دشمنی نہیں تھی۔

تھانیدار سے ضروری معلومات یہ ملیں کہ مقتول کی شادی کو ابھی چار ہی مہینے ہوئے تھے۔

"آپ نے اس کی بیوی سے پوچھ گچھ کی ہوگی۔" میں نے سب انسپکٹر رتن کمار سے پوچھا، "یہ تو بہت ہی ضروری تھا۔"

رتن کمار نے کہا، "مقتول کے باپ سے ملنے کے بعد میں اس کی بیوی سے ملا تھا۔ بہت خوبصورت لڑکی ہے۔ وہ صرف اس لیے مظلوم نہیں کہ بیوہ ہو گئی ہے بلکہ اسے یہ غم کھا رہا ہے کہ اب اس کی دوسری شادی نہیں ہوگی۔"

قارئین شاید جانتے ہوں گے کہ ہندو لڑکی خواہ نوجوانی میں ہی بیوہ ہو جائے اس کی دوسری شادی نہیں ہو سکتی۔ اسے منحوس سمجھا جاتا ہے۔ شادی کی پہلی رات ہی خاوند اچانک بیمار ہو کر مر جائے، اچانک حرکت قلب بند ہو جائے یا کسی اور وجہ سے مر جائے اور اس نے دلہن کے جسم کو ابھی ہاتھ بھی نہ لگایا ہو تو بھی کوئی اور خاندان اسے قبول نہیں کرتا۔ وہ اپنے والدین کے گھر چلی جاتی ہے۔ اسے زیورات سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ اسے چوڑیاں پہننے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس کے سر پر میلا اور پھٹا ہوا دوپٹہ ڈال دیا جاتا ہے۔ اس کی سہیلیوں کو اس سے ملنے سے روک دیا جاتا ہے کیونکہ اس کے سائے کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔ ہندوؤں میں تو ستی کی رسم ہوا کرتی تھی۔ بیوی کو اس کے خاوند کی لاش کے ساتھ چتا پر بٹھا کر زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ مغلیہ خاندان کے دورِ حکومت میں اس رسم پر پابندی عائد ہوئی لیکن دیہاتی علاقوں میں یہ ظالمانہ رسم جاری رہی۔ انگریزوں نے آکر اس رسم پر بڑی سختی سے پابندی عائد کی اور ستی کا کوئی واقعہ ہو جاتا تو لڑکی کو زندہ جلانے والے لواحقین کو قتل کے جرم میں سزا دی جاتی۔

بھارت کی موجودہ حکومت نے ستی کو قتل کا جرم قرار دے رکھا ہے پھر بھی چند برس گزرے آپ نے ستی کے ایک واقعہ کی خبر اخباروں میں پڑھی ہوگی۔ ایک جوان عورت کو اس کے خاوند کی لاش کے ساتھ زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اس کا فوٹو پاکستان کے بڑے اخباروں میں شائع ہوا تھا۔ جلانے والوں کو قتل کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ آپ کی دلچسپی کے لیے لکھتا ہوں کہ ایک طرف قتل کے جرم میں گرفتاریاں ہوئیں اور دوسری طرف ہندوؤں کی توہم پرستی اور باطل پرستی کا یہ عالم کہ دور دور سے ہندو جوق در جوق اس جگہ آکر ماتھے ٹیکنے لگے جہاں اس عورت کو جلایا گیا تھا۔ وہ اس مظلوم عورت کو دیوی سمجھتے ہیں جس نے اپنے مرے ہوئے خاوند کے ساتھ اپنے آپ کو زندہ جلا دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ہندو جن میں عورتیں زیادہ ہوتی ہیں، وہاں جا کر پھول چڑھاتے اور کھانے پینے کی مختلف اشیاء رکھتے اور وہاں سجدہ کرتے ہیں۔ ہندو ماڈرن تو ہو گئے ہیں لیکن بیوہ کو وہ منحوس سمجھتے ہیں اور اس کی دوسری شادی نہیں کرتے۔ اگر بیوہ کے والدین اس کی شادی کرنا چاہیں تو بھی اسے کوئی قبول نہیں کرتا۔ ایسی جوان ہندو بیوہ عورتوں کی زندگی جس طرح گزرتی ہے، وہ ذرا لمبی بات ہے۔ یہ ایک باطل مذہب کی بدی کی داستان ہے جس کا شکار یہ جوان بیوہان ہوتی ہیں اور آشرموں میں پنڈتوں کی ہوس کاری کے جال میں بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ اب ایک نوجوان ہندو بیوہ میرے سامنے آ رہی تھی۔ میں نے کہا ہے کہ قتل کی اس واردات سے تعلق رکھنے والے ہندو خاندان ماڈرن تھے۔ گوشت بھی کھاتے اور شراب بھی پیتے تھے لیکن اپنی بیوہ بہو بیٹیوں کے لیے وہ قدامت پسند اور دقیانوسی تھے۔ میں اپنے قارئین سے بھائی صابر حسین راجپوت کی طرح معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ بڑھاپے میں سب سے بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ بوڑھا آدمی بات سے بات نکالتا چلا جاتا اور اصل بات سے دور چلا جاتا ہے۔ واردات قتل کی سناتے لگا تھا اور قصہ چھیڑ بیٹھا جو ان ہندو بیوہوں کا۔ مشکل یہ ہے کہ زندگی میں اتنے واقعات، باتیں اور ایسے رنگا رنگ تماشے دیکھے ہیں کہ ایک کی بات کرو تو بیسیوں یاد آ جاتی ہیں۔ ہندو بیوہوں کی تو بہت سی کہانیاں میری ڈائریوں میں اور میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ زندگی نے وفا کی تو سناؤں گا۔

میں سناتا رہا کہ میں اور انسپکٹر جوزف علاقہ تھانیدار کی فائل پڑھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ اس سے تفصیلات بھی پوچھتے جا رہے تھے۔ بجائے اس کے کہ پہلے اس کی بتائی ہوئی تفصیلات سناؤں پھر اپنی تفتیش کی بات کروں، میں سیدھے طریقے سے آپ کو کہانی سنا دیتا ہوں۔

تفتیش تو ہم نے اپنے انداز سے کرنی تھی۔ سب انسپکٹر رتن کمار سے ہم نے راہنمائی لے لی اور اسے کہا تھا کہ اپنے مخبروں کو ہمارے حوالے کر دے۔

یہ تو بتا چکا ہوں کہ مقتول کا باپ ٹھیکیدار تھا۔ مقتول باپ کے ساتھ کام کرتا تھا۔ ان کی ٹھیکیداری وسیع پیمانے کی تھی۔ زیادہ تر میکے تعمیراتی ہوتے تھے۔ ان دنوں دہلی سے پندرہ سولہ میل دور ان کے پاس ایک فوجی تعمیر کا کافی بڑا ٹھیکہ تھا۔ مقتول جس کا نام مہندر پال تھا اس جگہ چلا جاتا تھا اور رات کی ریل گاڑی سے واپس آتا تھا۔ ہفتے میں دو راتیں ایسی آتی تھیں جو اسے باہر ہی گزارنی پڑتی تھیں۔

قتل کے وقت اس کی عمر چھبیس سال اور کچھ مہینے تھی۔ وہ حسب معمول قتل کی رات ریل گاڑی سے آیا تھا اور اپنی کوٹھی کے گیٹ پر قتل ہو گیا۔ وہ اس کوٹھی میں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا۔ شادی ہوئی تو پندرہ دنوں بعد ماں باپ سے الگ ہو گیا اور اپنی بیوی کے ساتھ ایک فلیٹ میں کرائے پر رہنے لگا۔ یہ دو منزلہ فلیٹ تھے۔ میں نے مقتول کی رہائش تفتیش کے دوران دیکھی تھی۔ اس فلیٹ میں اپر کلاس کے لوگ رہتے تھے۔ یہ عمارت نئی نئی بنی تھی۔ اس روز وہ اپنے ٹھیکے پر جانے لگا تو بیوی نے اسے کہا کہ آج دن کو ٹھیکے میں گزارنا چاہتی ہے اور رات کو وہ ادھر ہی آجائے اور اسے اپنے گھر لے جائے۔ یہ وجہ کہ وہ رات اپنے ماں باپ کے گھر گیا تھا۔

ہمیں یہ باتیں مقتول کا باپ بتا رہا تھا۔ میں اور انسپکٹر جوزف اس کی کوٹھی میں جا بیٹھے۔ ہم نے تفتیش کا آغاز اسی سے کیا تھا۔ اس نے سامنے وہ جگہ دکھائی تھی جہاں اس کے بیٹے کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ ہم نے اس سے دشمنی کے متعلق پوچھا۔ اس نے وثوق سے کہا کہ نہ اس کی کسی کے ساتھ دشمنی ہے نہ اس کے بیٹے کا کوئی دشمن تھا۔ "کاروباری دشمنی بھی ہوتی ہے۔" میں نے کہا، "اس ٹھیکے کا ٹینڈر کسی اور کا منظور ہونا چاہیے تھا لیکن آپ نے اثر و رسوخ سے یا دے دلا کر اپنا ٹینڈر منظور کرا لیا۔"

"ایسی بھی کوئی دشمنی نہیں۔" مقتول کے باپ نے جواب دیا، "آپ اس طرف دھیان نہ دیں۔ میں غور کر چکا ہوں۔ میں آپ کو بتاتا ہوں۔ ہم کاروباری لوگ ہیں۔ کاروبار میں رقابتیں ہوتی ہیں۔ کمپیٹیشن ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو قتل نہیں کیا جاتا۔ میرے بیٹے کے قتل کی وجہ کوئی اور ہے۔ یہ میں جانتا ہوں کہ میرے بیٹے کے قتل کے جرم میں اگر ایک درجن آدمیوں کو پھانسی دے دی گئی تو میرا بیٹا زندہ نہیں ہو جائے گا۔ مجھے ڈر یہ ہے کہ قتل کی وجہ معلوم نہ ہوئی اور قاتل نہ پکڑا گیا تو میرا بڑا بیٹا بھی ہے، میں ہوں، ہم بھی قتل ہو سکتے ہیں۔"

"ہو سکتا ہے یہ وجہ آپ کے گھر میں ہو۔" میں نے کہا، "مثلاً آپ کی بہو ہے۔ کیا آپ نے اس پر بھی غور کیا ہے؟"

"کیا ہے۔" اس نے جواب دیا، "کوئی ہندو لڑکی اپنے خاوند کو قتل نہیں کراتی کیونکہ ہندو لڑکی بیوہ ہو جائے تو اسے ساری عمر بیوگی میں گزارنی پڑتی ہے۔"

"میں ایک بات واضح طور پر آپ سے کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔" میں نے کہا، "ہم قاتل کا سراغ لگا رہے ہیں۔ ہمیں آپ سے کچھ ایسی باتیں پوچھنی پڑیں گی کہ آپ اپنی بے عزتی محسوس کریں گے۔ ہم آپ کی بے عزتی نہیں کرنا چاہتے۔ یہ ہماری ضرورت ہے۔"

"بلکہ یہ آپ کی ضرورت ہے۔" انسپکٹر جوزف نے کہا، "کسی بات پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہ کرنا۔"

"آپ مجھے پسماندہ آدمی نہ سمجھیں۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا، "میں انگریز اور اینگلو انڈین افسروں کی سوسائٹی میں اٹھنے بیٹھنے والا آدمی ہوں۔ میرے گھر کی کسی بھی لڑکی کے متعلق کچھ پوچھتا ہے تو بے تکلفی سے پوچھیں۔"

"آپ نے کہا ہے کہ کوئی ہندو لڑکی اپنے خاوند کو قتل نہیں کرائے گی۔" میں نے کہا، "کیونکہ اسے ساری عمر بیوہ رہنا پڑے گا۔ میں آپ کو ایسی تین وارداتیں سنا سکتا ہوں کہ ہندو لڑکی نے اپنے خاوند کو قتل کروایا اور مسلمان آشنا کے ساتھ بھاگ کر مسلمان ہو گئی اور اس کے ساتھ شادی کر لی۔ ایک نے اپنے خاوند کو زہر دیا تھا اور دو نے اپنے خاوندوں کو دوسرے طریقوں سے مروایا تھا۔"

"آپ میری بہو کے متعلق جاننا چاہتے ہیں۔" اس نے کہا، "اسے بھی ذہن سے اتار دیں۔ یہ لڑکی زندہ دل ہے۔ بڑی کھلی طبیعت والی ہے۔ میرے بیٹے کے ساتھ اسے دلی محبت تھی جو بیویوں کو اپنے خاوندوں سے ہوتی ہے۔"

"یہ بھی ذہن سے اتار دیں۔" انسپکٹر جوزف بول پڑا، "وہ بھی ذہن سے اتار دیں۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ بھی ذہن سے اتار دیں کہ آپ کا بیٹا اخلاقی لحاظ سے ٹھیک نہیں تھا۔ آپ کہیں گے کہ وہ تو بڑا ہی شریف لڑکا تھا۔ تارک الدنیا تھا۔ دیکھو مسٹر! آپ کہیں تو ہم آپ کے بیٹے کے قتل کو بھی ذہن سے اتار دیں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ کیس آپ کے اثر و رسوخ سے ہمارے پاس آیا ہے۔ آپ ہمیں کوئی گائیڈ لائن دیں گے تو ہم آگے بڑھیں گے۔ آپ کا بیٹا کیریکٹر کے لحاظ سے کیسا تھا؟"

"میں آپ کو بالکل صحیح بات بتاتا ہوں۔" مقتول کے باپ نے، جس کا نام جوگندر پال تھا، کہا، "وہ صرف کاروباری معاملات میں تیز اور بیدار تھا۔ سوشل طور طریقوں میں وہ ٹھیک نہیں تھا۔ یوں کہیں کہ اس میں زندہ دلی نہیں تھی۔ اس کی کمی اس کا بڑا بھائی پوری کرتا تھا۔ مہندر (مقتول) کو ہم کاروباری کاموں میں ہی لگائے رکھتے تھے اور وہ خوش رہتا تھا۔ اس کی حالت یہ تھی کہ راج مزدور کام کر رہے ہیں تو یہ ان کے سر پر سوار ہے۔ لکڑی کے کام کے لیے کیل منگواتا تو ایک ایک کیل گن کر کام کرنے والوں کو دیتا اور پورا حساب رکھتا تھا۔ بچت تو اسی طرح ہوتی ہے۔"

"اپنی بیوی کے ساتھ بھی ایسا ہی کاروباری رویہ رکھتا ہوگا۔" انسپکٹر جوزف نے پوچھا۔

"میاں بیوی شادی کے فوراً بعد ہم سے الگ ہو گئے تھے۔" جوگندر پال نے کہا، "میں ان کی پرائیویٹ لائف کے متعلق صحیح رائے نہیں دے سکتا۔"

"بیوی زندہ دل اور سمارٹ۔" میں نے کہا، "خاوند گھٹی ہوئی طبیعت کا کاروباری آدمی۔"

میں نے یہ بات ایسے کی جیسے کوئی اپنے آپ سے باتیں کرتا ہے۔ ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ میں انگیٹھی پر رکھی ہوئی دو تصویروں کو بار بار دیکھتا تھا۔ ایک انگیٹھی کے ایک سرے پر اور دوسری دوسرے سرے پر رکھی ہوئی تھی۔ دونوں فریم میں تھیں اور دونوں نئے شادی شدہ جوڑوں کی تھیں۔ جوگندر پال کے دو ہی بیٹے تھے۔ ان میں سے ایک مقتول کی تھی۔ تصویریں بڑے خوبصورت سنہری فریموں میں لگی ہوئی تھیں۔ "ان میں مہندر پال کا فوٹو کون سا ہے؟" میں نے پوچھا۔ مقتول کا باپ اٹھا اور ایک فوٹو اٹھا کر مجھے دے دیا۔ لڑکی کی شکل و صورت تو بہت ہی اچھی تھی لیکن اس کا قد کاٹھ ایسی موزوں حد تک لمبوٹرا تھا کہ میں نے دل ہی دل میں اس کی تعریف کی۔ کمر پتلی اور گردن لمبوتیری تھی۔ تصویر میں دل موہ لینے والی ایک اور چیز تھی۔ یہ اس کے ہونٹوں کا تبسم تھا۔ اس کی تو آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں۔ یہ پورے جسم کی تصویر تھی جو شادی سے اگلے روز سٹوڈیو میں اتروائی گئی تھی، یعنی دلہا دلہن کھڑے تھے۔ میں نے دلہن کا جسمانی حسن بیان کیا ہے۔ اس کے ساتھ دلہا کھڑا تھا۔ دلہا کے کپڑے اچھے تھے۔ باقی جو کچھ تھا وہ یوں تھا کہ جتنا حسین جسم دلہن کا تھا اس سے زیادہ بھدا جسم دلہا کا تھا۔ اسی عمر میں اس کا پیٹ لٹک آیا تھا۔ اس کا قد دلہن سے چار پانچ انچ کم تھا۔ گردن تو اس شخص کی تھی ہی نہیں۔ جہاں گردن ہونی چاہیے تھی وہاں گوشت اور چربی کی افراط تھی۔ یوں کہہ لیں کہ ایک روایتی دکاندار نے بڑا قیمتی سوٹ پہن رکھا تھا۔

میں نے فوٹو انسپکٹر جوزف کو دے دی اور میں اس کے چہرے کو دیکھنے لگا۔ جوزف کے ہونٹوں پر طنزیہ سا تبسم آگیا۔ معلوم نہیں یہ میری چھٹی جس تھی یا مجھ میں پولیس والی ایک رگ فالتو تھی کہ میرے ذہن میں یہی ایک شبہ جم کے رہ گیا کہ اس شخص کے قتل کا باعث یہ لڑکی ہے۔ قتل اس نے کروایا ہے یا قتل کے ساتھ اس کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے لیکن ہم نے اور امکانات بھی دیکھنے تھے۔

علاقہ تھانیدار سب انسپکٹر رتن کمار نے اس خاندان کے متعلق وہ تمام معلومات پہلے ہی اکٹھی کر لی تھیں جو تفتیش کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ اس نے بتایا تھا کہ ان دو بھائیوں کی بیویاں اور ان بھائیوں کی دو بہنیں بھی ہیں۔ ایک کی عمر پندرہ سولہ سال اور دوسری کی انیس بیس سال ہے۔ خاص طور پر خوبصورت تو نہیں لیکن ان کے رنگ گورے ہیں اور نقش برے بھی نہیں۔ ان کی خوشیاں مشہور ہیں۔ دونوں چلبلی ہیں۔ چھوٹی سکول میں پڑھتی ہے اور بڑی فورٹھ ایئر میں ہے۔ میں نے رتن کمار سے ان کے چال چلن کے متعلق پوچھا تھا۔ اس نے اپنے مخبروں کے حوالے سے بتایا تھا کہ یہ دونوں بہنیں کالج کے لڑکوں کو اپنے پیچھے لگانے کے فن کی ماہر ہیں۔ شیطان اتنی ہیں کہ ان سے لڑکے بھی گھبراتے ہیں۔ "کیا ایسا کبھی ہوا ہے کہ ان کی ایسی کوئی حرکت یا بات ان کے گھر تک پہنچی ہو؟" میں نے رتن کمار سے پوچھا تھا۔

"نہیں۔" رتن کمار نے جواب دیا تھا، "یہ تو میں نے گہرائی میں جا کر معلوم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس خاندان کی لڑکیوں کا کردار کچھ ایسا ویسا ہی ہے۔"

میں نے اور انسپکٹر جوزف نے مقتول کے باپ کو باہر بھیج کر آپس میں تبادلہ خیالات کیا اور مقتول کی بیوی سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ جوگندر پال کو اندر بلا کر کہا کہ اپنی بہو کو ہمارے پاس بھیج دے۔

"وہ یہاں تو نہیں۔" اس نے جواب دیا، "مہندر کے قتل کے پانچویں روز یہاں سے چلی گئی تھی۔"

"اپنے ماں باپ کے گھر چلی گئی؟"

"نہیں!" اس نے جواب دیا، "اسی فلیٹ میں رہتی ہے جس میں خاوند کے ساتھ رہتی تھی۔"

"کب تک وہاں رہے گی؟"

"وہ جانے اور فلیٹ والے جانیں۔" اس نے کہا، "وہاں رہے گی تو کرایہ خود ہی دے گی یا اس کے ماں باپ دیں گے۔ ہمارے ساتھ تو اس کا کوئی تعلق نہیں۔ لڑکی تو ٹھیک تھی لیکن منحوس نکلی۔ میری بیوی نے اسے خود ہی کہہ دیا تھا کہ وہ یہاں سے چلی جائے۔"

"ایک بات بتائیں۔" میں نے پوچھا، "ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس لڑکی کی بات کہیں اور پکی ہو گئی تھی اور آپ نے یا آپ کے بیٹے مہندر نے لات ماری اور ادھر سے طے شدہ رشتہ منسوخ کرا کے آپ لڑکی کو بیاہ لائے۔"

"اس لڑکی کے تین امیدوار تھے۔" اس نے کہا، "یہ کوئی لڑائی جھگڑے والا معاملہ نہیں تھا۔ لڑکی کے ماں باپ نے دیکھا تھا کہ زیادہ امیر کون ہے۔ یہ دیکھ کر انہوں نے رشتہ ہمیں دے دیا۔" ذرا سوچ کر اس نے کہا، "ہم ہندوؤں میں ایسے نہیں ہوتا کہ رشتے سے جواب مل گیا تو اس کے دشمن ہو گئے جسے یہ رشتہ ملا ہے۔ ہندو کاروباری قوم ہے جناب! ہم لوگ پیسے سے پیسہ کماتے ہیں۔ ہم اپنے قریبی رشتہ داروں کو پیسہ دیتے ہیں تو بھی اس کا سود لیتے ہیں۔ ہم مقدمہ بازی میں روپیہ پیسہ برباد کرنے والی قوم نہیں۔"

اس کے بعد ہم نے مقتول کی ماں کو بلایا۔ وہ خاصی دیر لگا کر آئی۔ اس کی عمر پچاس برس سے اوپر ہی ہوگی، کم نہیں تھی۔ اس کے بیٹے کو قتل ہوئے ابھی دو ہفتے ہی ہوئے تھے لیکن وہ پورا میک اپ کر کے اور نوجوان لڑکیوں جیسے کپڑے پہن کر آئی۔ وہ آخر ماں تھی۔ اپنے بیٹے کا نام سنتے ہی اس نے رونا شروع کر دیا۔ اس زمانے میں ٹشو پیپر نہیں ہوا کرتے تھے۔ اس عورت نے تین چار بار دوپٹے سے ناک اور آنسو پونچھے تو آنکھوں سے کاجل اور چہرے سے میک اپ بھی صاف ہو گیا۔ ہمیں توقع تھی کہ کاجل اور سرخی پاؤڈر کی تہہ میں سے جو عورت برآمد ہوئی ہے یہ اپنی بہو کے خلاف بولے گی اور اس بات پر تو اسے ضرور کصُو دے گی کہ وہ اس کے بیٹے کو چھین کر لے گئی اور الگ جا آباد ہوئی تھی لیکن اس عورت نے بہو پر کوئی الزام عائد نہ کیا سوائے اس کے کہ وہ منحوس تھی، میرے بیٹے کو کھا گئی ہے۔ میں نے اور انسپکٹر جوزف نے اسے بہت کریدا اور اسے بہو کے خلاف مشتعل بھی کیا لیکن اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکلی جو مقتول کی بیوی کے خلاف شبہ پیدا کرتی۔ مقتول کے ماں باپ نے ہمیں ذرا سا بھی اشارہ نہ دیا جس سے ظاہر ہوتا کہ قتل کا باعث یہ ہو سکتا یا فلاں شخص پر قتل کا شبہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ذہن میں جو ممکن باعث آسکتے تھے وہ جوگندر پال کے آگے رکھے لیکن اس نے قابل قبول دلائل دے کر ہمارے ہر شک کو صاف کر دیا۔

اس نے اتنی طویل گفتگو میں ہمیں بتایا تھا کہ مقتول جس کام پر جایا کرتا تھا وہ بہت بڑا تعمیراتی ٹھیکہ تھا۔ اس نے اپنے مقتول بیٹے کی تعریف کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس کام پر ایک سو سے زیادہ مزدور کام کرتے ہیں۔ راج اور ترکھان الگ ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان مزدوروں میں عورتیں بھی ہیں۔

"میرا بیٹا اس فوج کو بڑی عظمت سے کنٹرول میں رکھتا تھا۔" جوگندر پال نے کہا تھا اور اس کے آنسو نکل آئے تھے۔

ہم جب مقتول کی ماں اور اس کے باپ سے مایوس ہو گئے تو اس کے باپ کی مجھے یہ بات یاد آئی کہ مقتول ایک سو سے زیادہ مزدوروں کو اپنے کنٹرول میں رکھتا تھا۔ میرے ذہن میں دو شکوک آئے۔ ایک یہ کہ مقتول نے کسی مزدور راج یا ترکھان کو کام سے ہٹا دیا ہوگا اور اس نے یہ انتقامی کارروائی کی ہوگی کہ اسے گولی مار دی یا مروا دی۔ مجھے یہ خیال بھی آیا کہ مزدور ایسی کارروائی نہیں کر سکتا۔ اگر وہ کرتا تو پیدل آتا اور چھری یا چاقو سے قتل کرتا۔ غریب آدمی موٹر سائیکل کہاں سے لا سکتا تھا۔ یہ انتظام کوئی راج یا لکڑی کا کام کرنے والا کاریگر کر سکتا تھا۔ یہ لوگ اچھا خاصا پیسہ کما لیتے تھے۔ دوسرا شک ان عورتوں کے متعلق تھا جو مزدوری کرتی تھیں۔ پاکستان میں مکان یا کسی عمارت کی تعمیر میں عورتیں مزدوری نہیں کرتیں جس طرح مرد کرتے ہیں۔ یہ رواج ہندوستان میں نہ جانے کس صدی سے چلا آ رہا ہے کہ مردوں کے ساتھ عورتیں بھی اینٹ گارا اٹھانے کی مزدوری کرتی ہیں۔ یہ دیہات میں یا شہروں کے مضافات میں خانہ بدوشوں کی نسل جیسی ایک قوم خیموں میں رہتی ہے۔ یہ لوگ شہروں میں مزدوری کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ کام مل جائے تو یہ لوگ اپنی عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کو بھی اپنے ساتھ کام میں لگا دیتے ہیں۔ ان میں بعض لڑکیاں بڑی اچھی شکل و صورت والی بھی ہوتی ہیں۔

 میں نے جب سنا کہ مقتول ایک سو سے زیادہ مزدوروں کو کنٹرول میں رکھتا تھا تو میرا دماغ کسی اور طرف چلا گیا۔ میں نے جوگندر پال سے اس کی بہو کے فلیٹ کا ایڈریس نوٹ کیا اور ہم وہاں سے آگئے۔ مجھے یاد ہے کہ شام کے چار بج رہے تھے۔ گاڑی میں انسپکٹر جوزف کو میں نے اپنا شک بتایا۔ ایک شک تو یہ تھا کہ مقتول نے کسی کو نوکری یا مزدوری سے محروم کر دیا ہوگا۔

لیکن میں نےجوزف کے ساتھ دوسرے شک پر زیادہ بات کی۔ میرا خیال یہ تھا کہ مقتول نے کسی مزدور لڑکی کے ساتھ دوست درازی کی ہوگی اور لڑکی کے آدمیوں نے اس سے انتقام لیا۔ "نہیں مسٹر ملک۔" انسپکٹر جوزف نے کہا، "جن لوگوں کی عورتیں بھی روٹی کی خاطر مزدوری کرتی ہیں وہ لوگ موٹر سائیکل اور ریوالور کہاں سے لے آئے ہوں گے؟ اس کے علاوہ یہ بھی ذہن میں رکھو کہ مقتول اس کے باپ کے کہنے کے مطابق صرف کاروباری معاملات میں دلچسپی رکھتا تھا۔ ایسے آدمی بزدل اور تنگ نظر ہوا کرتے ہیں، عورتوں میں دلچسپی نہیں لیا کرتے۔"

"انسپکٹر جوزف!" میں نے کہا، "اگر تم ناراض نہ ہو جاؤ تو کہوں۔ تمہارے پادری ہمارے مولوی اور ہندوؤں کے مندروں کے پنڈت بھی عورتوں میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ کیا خیال ہے تمہارا؟ ہم وہاں چلیں گے۔ اپنے ملک کے مقتول جیسے سیدھے سادے آدمیوں کو میں بڑی اچھی طرح جانتا ہوں۔"

"مقتول کی بیوی سے ملنا زیادہ ضروری ہے۔" جوزف نے کہا اور کچھ سوچ کر بولا، "مسٹر ملک میں کچھ ایسا محسوس کر رہا ہوں کہ ہم قاتل کو جلدی پکڑ لیں گے حالانکہ ہمیں ابھی ذرا سا بھی کوئی اشارہ نہیں ملا۔ تمہارا کیا خیال ہے؟"

"میں تو اپنے خدا سے راہنمائی لیا کرتا ہوں۔" میں نے کہا، "خدا نے میری ہمیشہ مدد کی ہے۔"

"تم مسلمان تو ہر بات میں خدا ہی خدا اور اللہ ہی اللہ کرتے رہتے ہو۔" جوزف نے کہا، "اور مجرم زمین کے نیچے چلے جاتے ہیں۔ میں اپنے دماغ سے راہنمائی لیا کرتا ہوں۔"

"لیکن انسپکٹر جوزف۔" میں نے کہا، "خدا صرف ان کی راہنمائی کرتا ہے جن کے دلوں میں بھی خدا ہوتا ہے۔"

اور اس نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا، "تم تو کبھی کبھی مولوی بن جاتے ہو۔"

قتل کے اس کیس کے تھوڑا ہی عرصہ بعد ہم دونوں کو ایک عیسائی عورت کے قتل کا کیس دیا گیا تھا۔ اس میں جوزف کے دماغ نے اس کی ایسی راہنمائی کی تھی کہ سزا کے طور پر اس کی چار سال کے لیے ترقی رک گئی اور اسے واپس انگلینڈ بھیج دیا گیا تھا۔ مجھ پر اللہ نے یہ کرم کیا کہ مجھے ترقی دے کر سب انسپکٹر سے انسپکٹر بنا دیا گیا تھا۔ میں اس کہانی میں اس کیس کا پہلے بھی حوالہ دے چکا ہوں۔ اس کا عنوان "ملل، ڈیزی اور ڈسپنسر" ہے۔

ہم جب جوگندر پال کے گھر سے نکلے تھے اس وقت شام کے ساڑھے چار بج چکے تھے۔ انسپکٹر جوزف نے کہا کہ مقتول کی بیوی کے پاس ابھی چلتے ہیں۔ میں تو چاہتا ہی یہی تھا کہ کام ساتھ ساتھ ہوتا چلا جائے تو اچھا ہے۔ قتل کو پہلے ہی پندرہ سولہ دن گزر گئے تھے۔ اتنے عرصے میں شہادت کے بیشتر اور اہم حصوں پر پردے پڑ جاتے ہیں۔ قاتل اگر واردات کے فوراً بعد یا دو تین دنوں میں پکڑا جائے تو اس سے اقبالِ جرم آسانی سے کر دیا جا سکتا ہے۔