پُراسرار بیوی - دوسرا حصہ

Sublimegate Urdu Stories

میں ذاتی طور پر یہی خطرہ محسوس کر رہا تھا کہ قاتل زمین میں اتر چکا ہوگا اور اگر وہ مل بھی گیا تو اسے قاتل ثابت کرنے کے لیے شہادت نہیں ملے گی۔ میں نے انسپکٹر جوزف سے کہا کہ ہمیں ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ وہ وہی کچھ سوچ رہا تھا جو میں سوچ رہا تھا۔

"مسٹر ملک۔" جوزف نے پوچھا، "تمہارا کیا خیال ہے مقتول کو بیوی نے قتل کروایا ہے؟"

"ہو سکتا ہے۔" میں نے جواب دیا، "اگر یہ لڑکی خاوند سے آزاد ہونے کی کوشش میں تھی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی پسند کا آدمی موجود ہے اور یہ آدمی قاتل ہے۔ اور میں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ یہ آدمی مسلمان ہوگا۔ وہ ہندو اس لیے نہیں ہو سکتا کہ کوئی ہندو کسی بیوہ کے ساتھ شادی نہیں کرتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہندو قتل کرنے والی قوم نہیں۔ ہندو قتل کیا کرتے ہیں لیکن صرف مسلمانوں کو۔ وہ اس طرح کہ چند ایک مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے سینکڑوں ہندو ان مسلمانوں پر اپنے مذہب کی توہین کا الزام لگا کر ان پر حملہ کر دیں گے۔ ہندو ایک مسلمان کو قتل کرنے کے لیے بلوائیوں کے ایک ہجوم کی صورت میں حملہ کیا کرتے ہیں اور اسے وہ فرقہ وارانہ فساد کہتے ہیں۔"

"میرا خیال بھی یہی ہے۔" جوزف نے کہا، "قاتل مسلمان ہو سکتا ہے لیکن میں سوچتا ہوں کہ لڑکی اب تک غائب کیوں نہیں ہوئی۔"

"وہ عقل والی معلوم ہوتی ہے۔" میں نے کہا، "بیوقوف ہوتی تو اپنے دوست کے ساتھ اُسی رات غائب ہو جاتی اور اب تک پکڑی بھی جاچکی ہوتی۔ اگر تین چار مہینوں بعد غائب ہوئی اور اسلام قبول کر کے اس نے قاتل آشنا کے ساتھ شادی کر لی تو پکڑے جانے کی صورت میں کہے گی کہ اس شخص سے وہ کچھ دن پہلے ملی تھی اور وہ بالغ ہے اس لیے وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتی ہے۔ پولیس کے لیے یہ ثابت کرنا ناممکن ہوگا کہ اس کا یہ مسلمان خاوند اس کے ہندو خاوند کے قتل سے پہلے سے اس کا دوست ہے۔"

وہ فلیٹ بڑی مشہور جگہ تھا جس میں مقتول کی نوجوان بیوہ رہتی تھی اس لیے ہمیں آسانی سے مل گیا۔ بیوہ اوپر کی منزل میں رہتی تھی۔ ہم نے دروازے پر دستک دی تو تقریباً تیس سال عمر کے ایک آدمی نے دروازہ کھولا۔ لباس، چہرے اور انداز سے وہ اپر کلاس کا آدمی معلوم ہوتا تھا۔ اس فلیٹ میں سب اپر کلاس کے ہی لوگ رہتے تھے۔ یہ اس وقت کے جدید فلیٹ تھے۔ کرایہ اتنا زیادہ کہ مڈل کلاس فیملی یہاں نہیں رہ سکتی تھی۔

میں نے اپنا اور انسپکٹر جوزف کا تعارف کرایا تو "یہ کیس کرائمز برانچ میں چلا گیا ہے۔" اس نے کہا، "یہ تو بہت اچھا ہوا۔ تھانے والے تو کچھ بھی نہیں کر سکے۔ آیئے۔ یہ میری بہن کا گھر ہے جو مہندر پال کی بیوی تھی۔ وہ یہیں ہے۔"

اندر لے جا کر اس نے ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ یہ فلیٹ نہیں بلکہ جدید کوٹھی لگتی تھی۔ ڈرائنگ روم کے فرنیچر وغیرہ سے ان لوگوں کے سوشل سٹینڈرڈ کا اندازہ ہوتا تھا۔ ہمارے میزبان نے اپنا نام سدھیر بتایا۔ "کنول کو بلاؤں؟" سدھیر نے پوچھا، "اپنی بہن کو؟"

"ابھی نہیں۔" انسپکٹر جوزف نے کہا، "آپ بیٹھیں۔ کچھ باتیں آپ سے پوچھنی ہیں۔" وہ بیٹھ گیا تو جوزف نے کہا، "عجیب بات ہے ہمیں کوئی گائیڈ لائن نہیں دی جا رہی۔ آپ نے یقیناً سوچا ہوگا کہ قاتل کون ہو سکتا ہے۔"

"بہت سوچا ہے۔" اس نے کہا، "کچھ سمجھ نہیں آتی۔ ظاہری طور پر قتل کی کوئی وجہ نہیں تھی۔"

"مقتول کے ساتھ آپ کے تعلقات کیسے تھے؟" میں نے پوچھا۔

"وہ تھا تو میرا بہنوئی۔" اس نے کہا، "لیکن تعلقات دوستوں جیسے تھے۔"

"کیا وہ خوش طبع اور زندہ دل تھا؟"

"نہ خوش طبع تھا نہ زندہ دل۔" اس نے جواب دیا، "لیکن آدمی ٹھیک ٹھاک تھا۔"

ہم مقتول کے باپ اور اس کی ماں سے مل آئے تھے۔ ان کے ساتھ جو باتیں ہوئی تھیں وہ سنا چکا ہوں۔ اس شخص سدھیر پر ہم یہ ظاہر کر رہے تھے کہ ہم ابھی اس کی بہن کے سسرال نہیں گئے۔

"آپ کی بہن کے سسرالی لوگ کیسے ہیں؟" میں نے پوچھا۔

"اچھے لوگ ہیں۔" اس نے جواب دیا، "پہلے پولیس سٹیشن کا تھانیدار تفتیش کرتا رہا تھا۔ ہمیں ڈر تھا کہ مہندر کا باپ یا اس کی ماں یہ نہ کہہ دے کہ ان کے بیٹے کو بیوی نے قتل کروایا ہے لیکن انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ میں تھانیدار سے ملا تھا۔ اس نے بھی میری بہن کے سسرال کی تعریف کی تھی۔ اب آپ ان سے ملیں گے تو دیکھیں گے کہ۔" وہ اسی قسم کی باتیں کرتا رہا۔ ہم اس کوشش میں تھے کہ اس سے کوئی اشارہ ملے۔ ہم دونوں نے باتوں اور سوالوں کے ذریعے بہت کوشش کی کہ اس کے منہ سے کوئی مطلب کی کوئی بات نکل آئے لیکن ہمیں کامیابی نہ ہوئی۔ ہمارے سوالوں کے جواب دینے میں وہ کئی ہیر پھیر کر رہا تھا۔ شانتی اور سادگی سے جواب دیتا تھا۔

"بہن کو یہاں کیا کیوں رکھا ہوا ہے؟" میں نے پوچھا، "اسے اپنے گھر نہیں لے جائیں گے؟"

"آپ مسلمان ہیں۔" اس نے کہا، "آپ بیوہ کی دوسری شادی کر دیتے ہیں۔ ہم نہیں کرتے۔ صرف اتنا ہی ہو کہ بیوہ کو کوئی دوسرا آدمی قبول نہ کرے تو قابلِ برداشت ہے لیکن ہمارے ہاں بیوہ کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کیا جاتا ہے جیسے اپنے خاوند کی اس نے خود جان کی ہو۔ اسے دھتکار دیا جاتا ہے۔ اپنی ماں اور اپنی سگی بہنیں بھی اسے حقارت کی نظروں سے دیکھتی ہیں۔"

"آپ تو روشن دماغ ہیں۔" انسپکٹر جوزف نے کہا، "آپ ان فرسودہ رسموں کی پابندی کیوں کرتے ہیں؟"

"آپ اسے رسم کہتے ہیں؟" سدھیر نے کہا، "ہمارے مذہبی پیشواؤں نے بیوہ کو نجس اور منحوس قرار دینا ہی حکم بنا رکھا ہے۔ بیوہ کو مندر میں بھی داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ میں جب سوچتا ہوں کہ میری بہن کی جس زندگی کا آغاز ہو چکا ہے یہ کس قدر اذیت ناک ہے تو مجھے یوں پتہ چلتا ہے کہ ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے اور میں کچھ دیر بعد مر جاؤں گا۔ آپ غور کریں کہ بہن کی شادی کو ابھی چار مہینے ہی ہوئے تھے کہ بیوہ ہو گئی ہے۔ یہ بھی سوچیں کہ لڑکی روشن خیال اور سوشل ہے۔ میں اس کے لیے بہت پریشان ہوں۔ اس بہن کے ساتھ مجھے روحانی محبت ہے۔"

اس نے رونا شروع کر دیا تھا۔ اس کی بہن کے ساتھ ہمیں کوئی ہمدردی نہیں تھی نہ ہم ان کے مذہب کی اچھائیاں اور برائیاں سننے آئے تھے۔

"میں اپنی بہن کے لیے جو کچھ کر سکتا ہوں کر رہا ہوں۔" وہ کہے جا رہا تھا، "میں نے اسے کہا کہ یہیں رہو، کرایہ میں دوں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ ذہنی اور جذباتی لحاظ سے سنبھل جائے تو سوچوں گا کہ اسے زندگی کے کسی راستے پر ڈالوں کہ یہ ذرا سکون سے رہے۔ اسے نوکرانی رکھ دی ہے۔ میں سارا دن اپنے کام اور کاروبار کے لیے باہر رہتا ہوں۔ شام کو اس کے پاس آجاتا ہوں اور رات کو اپنے گھر چلا جاتا ہوں۔"

"اپنی بہن کو بلائیں۔" میں نے کہا۔

وہ ساتھ والے کمرے میں گیا اور واپس آگیا۔

"وہ سوئی ہوئی ہے۔" اس نے کہا، "آپ کہیں تو جگا لیتا ہوں لیکن ڈاکٹر نے سختی سے کہہ رکھا ہے کہ یہ سوئی ہو تو اسے جگانا نہیں۔"

"ڈاکٹر کیوں؟" جوزف نے پوچھا، "کیا آپ کی بہن بیمار ہے؟"

"اسی عمر میں بیوہ ہو جانے کا صدمہ۔" سدھیر نے کہا، "ڈپریشن بھی ہے اور نروس بریک ڈاؤن بھی ہے۔ ڈاکٹر اسے گھر دیکھنے آجاتا ہے۔ یہ تکلیف چار پانچ دنوں سے ہے۔ پہلے اس نے بیوگی کا صدمہ برداشت کر لیا تھا لیکن چار پانچ دن پہلے اسے اچانک کچھ ہو گیا۔ اتنی زیادہ روئی کہ اسے غشی آنے لگی۔"

"نہ جگاؤ۔" جوزف نے کہا، "ہم پھر کسی وقت آئیں گے۔" میں نے احتیاطاً ڈاکٹر کا نام اور ایڈریس معلوم کر لیا اور ہم وہاں سے آگئے۔ میں نے جوزف سے پوچھا کہ اس شخص سدھیر کے متعلق اس کی کیا رائے ہے۔

"اگر یہ شخص بیوقوف نہیں تو بہت ہی عیار اور لومڑی جیسا چالاک ہے۔"جوزف نے کہا، "کوئی ہندو اتنا سیدھا سادہ نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ شخص سیدھا یا بدھو ہوتا تو ہم سے ڈرتا اور اس کے بولنے کا انداز کچھ اور ہوتا۔ اسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ تمہارا کیا خیال ہے؟"

"مجھے اس کی بہن کی بیماری مشکوک نظر آتی ہے۔" میں نے کہا۔

اگلے روز ہم دہلی سے پندرہ میل دور اس جگہ چلے گئے جہاں مقتول کے باپ کے ٹھیکے کا کام ہو رہا تھا۔ کافی بڑا تعمیراتی پروجیکٹ تھا۔ بے شمار مزدور کام کر رہے تھے۔ ٹھیکیدار کے گھر کا کوئی آدمی نہیں تھا۔ معزز قسم کا ایک آدمی ہمیں دیکھ کر آیا۔ ہم پولیس کی وردی میں نہیں تھے۔ سی آئی اے کے افسر اور دیگر عملہ عام کپڑوں میں رہتا تھا۔ میرے ساتھ چونکہ ایک انگریز تھا اس لیے یہ آدمی دوڑتا آگیا تھا۔

میں نے اپنا اور انسپکٹر جوزف کا تعارف کرایا تو اس نے بتایا کہ وہ مینیجر ہے۔ پہلے مقتول صبح ہی یہاں آجاتا کرتا تھا۔ وہ قتل ہو گیا تو اس کا بڑا بھائی یا باپ دن کو کسی وقت یہاں آتے اور دو تین گھنٹے وہیں رہتے تھے۔ اس مینیجر کا تو سارا دن یہیں گزرتا تھا۔ وہ ادھیڑ عمر ہندو تھا اور روایتی ہندوؤں جیسا تھا۔ ہاتھ جوڑ کر بات کرتا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ ہم مہندر پال کے قتل کی تفتیش کے لیے آئے ہیں۔

وہ ہمیں دفتر میں لے گیا۔ یہ دو کمرے تھے جو عارضی طور پر بنائے گئے تھے۔ ان میں ایک کمرہ تو اندر سے بہت ہی خوبصورت تھا۔ نہایت اچھی میز اور کرسیوں کے علاوہ ایک دیوان بھی پڑا تھا جس پر پلنگ پوش بچھا ہوا تھا۔ یہ مقتول کا کمرہ تھا۔

میں نے جوزف سے کہا کہ پہلے ذرا گھوم پھر کر مزدوروں وغیرہ کو دیکھ لیں۔ چنانچہ ہم دونوں اس تعمیراتی کام میں لگے ہوئے مزدوروں کے درمیان گھومنے پھرنے لگے۔ میں جو چیز دیکھنا چاہتا تھا وہ مجھے نظر آنے لگی۔ یہ عورتیں تھیں جو مزدوری کر رہی تھیں۔ ان میں ادھیڑ عمر عورتیں بھی تھیں اور نوجوان لڑکیاں بھی۔

بھارت میں اس نسل کی عورتیں آج بھی موجود ہیں اور مزدوری کرتی ہیں۔ یہ ٹخنوں سے ذرا اونچے گھنگرے اور بلاؤز پہنتی ہیں۔ بلاؤز اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ ان کے پیٹ کچھ کچھ ننگے رہتے ہیں۔ سروں پر دوپٹے لیتی ہیں۔ ان کے رنگ سانولے نہیں بلکہ سیاہ ہوتے ہیں۔ کچھ تو ان کا رنگ قدرتی طور پر ایسا ہی ہوتا ہے اور زیادہ تر دھوپ میں محنت مزدوری کرنے سے رنگ بالکل سیاہ ہو جاتا ہے۔ ان میں نوجوان لڑکیاں بھی ہوتی ہیں جن میں سے بعض کے رنگ گندمی اور نقش و نگار بڑے اچھے ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی بھی لڑکی اکیلی نہیں ہوتی۔ یہ پورا پورا کنبہ ہوتا ہے۔ یہ لڑکیاں مالکوں کی ہوس کاری کے کام آتی ہیں۔

مجھے اب یہ معلوم کرنا تھا کہ مقتول کی بھی ان لڑکیوں کے ساتھ دلچسپی تھی یا نہیں۔ میں اس شک کا پہلے اظہار کر چکا ہوں۔ آپ کہیں گے کہ اپر کلاس کے اتنے امیر آدمی کے لیے یہی کالی پیلی، میلے کچیلے کپڑوں والی بدبودار رہ گئی تھیں؟

یہ ایک نفسیاتی معالمہ ہے۔ مقتول کی شخصیت جو ہمارے سامنے آئی تھی وہ گھٹی ہوئی اور اپنی ذات کے خول میں بند شخصیت تھی۔ مقتول بھدے اور پھولے ہوئے جسم کا آدمی تھا۔ ایسی شخصیت احساسِ کمتری میں مبتلا ہوتی ہے۔ ذہنِ لاشعور انہیں سوسائٹی میں مقبولیت والا مقام حاصل کرنے ہی نہیں دیتا۔ اس قسم کے لوگ جنہیں سیدھا سادہ کہا جاتا ہے، ذہنی لذت پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان کے لیے اس قسم کی لڑکیاں قابلِ قبول ہوتی ہیں جو ان کی زر خرید لونڈیاں ہوں، غریب ہوں اور پیٹ کی خاطر انہیں اپنا دیوتا سمجھیں۔ اس احساسِ کمتری کا دوسرا پہلو دیکھیں۔ مقتول کو بڑی خوبصورت، زندہ دل، نئے فیشن کی دلدادہ اور مالدار خاندان کی لڑکی مل گئی تھی جو اس کی بیوی تھی۔ 

میں نے انسپکٹر جوزف کو یہ تجزیہ سنایا۔ وہ انگریز تھا، انسپکٹر تھا اور سکاٹ لینڈ یارڈ کا تربیت یافتہ تھا۔ وہ مجھ سے زیادہ عالم تھا۔ اس نے میرا تجزیہ قبول کر لیا۔ وہاں ایک تو مینیجر تھا۔ اس نے بتایا کہ مزدوروں پر دو میٹ بھی ہیں۔ اس نے یہ دو آدمی اور بھی رکھے ہوئے ہیں جو شہر کے غنڈے اور جرائم پیشہ ہیں۔ یہ نظر رکھتے ہیں کہ کوئی یہاں بدمعاشی نہ کرے۔ مینیجر نے بتایا کہ انہیں مقتول کے باپ جوگندر پال نے اپنی اور اپنے کاروبار کی حفاظت کے لیے رکھا ہوا ہے

"وہ کون ہیں؟" میں نے پوچھا، "کہاں ہیں؟"
"آنے ہی والے ہیں۔" مینیجر نے جواب دیا، "اپنی مرضی سے آتے اور اپنی مرضی سے چلے جاتے ہیں۔"

یہ دونوں غنڈے اور جرائم پیشہ آدمی ہمارے لیے عجوبہ نہیں تھے۔ جوگندر پال جیسے بڑے کاروباری لوگ کرائے کے غنڈوں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ ٹھیکیداریوں میں دشمنی اور رقابت لگی رہتی ہے۔ اس مقصد کے لیے غنڈے رکھے جاتے تھے۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں غنڈے موجود ہوتے ہیں۔ سیاسی لیڈر بلکہ اکثر اسمبلیوں کے ممبر بھی اپنے ساتھ دو تین غنڈے بطورِ محافظ رکھتے ہیں۔ بڑے زمینداروں نے باقاعدہ غنڈے پالے ہوئے ہوتے ہیں۔ کارخانہ دار فیکٹریوں میں دو تین غنڈے رکھتے ہیں۔ کل اور آج میں فرق یہ ہے کہ آج کے غنڈوں کے پاس کلاشنکوفیں اور ریوالور ہوتے ہیں اور ہمارے زمانوں میں چاقو اور خنجر ہوتے تھے یا کسی کسی کے پاس ریوالور بھی ہوتا۔

ہم مینیجر کو اس کمرے میں لے آئے جو مقتول کا دفتر تھا۔
"میری بات غور سے سن لو لالہ جی۔" میں نے مینیجر سے کہا، "تمہارا چھوٹا سیٹھ قتل ہو گیا ہے۔ یہ دیکھ لو کہ ایک انگریز افسر تفتیش کر رہا ہے۔ تم جو کچھ جانتے ہو وہ ٹھیک ٹھیک بتا دینا۔ کوئی بات چھپانے کی کوشش نہ کرنا۔"

میں نے پہلے بتایا ہے کہ مینیجر روایتی ہندو تھا۔ اپنے سے کم درجہ ملازموں کے لیے شیر اور اپنے سے اوپر والوں یا ذرا طاقت والوں کے آگے بھیگی بلی، یعنی کمزوروں کے لیے بادشاہ اور طاقتوروں کے لیے غلام۔ اس نے میری اتنی سی بات پر ہی ہاتھ جوڑ دیے۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ "ہم تو نوکر چاکر ہیں سرکار۔" اس نے کہا، "یہ بڑے سیٹھوں کے معاملات اور رگڑے ہم جھیلتے ہیں۔ آپ جو پوچھیں گے وہ میں سولہ آنے سچ بتاؤں گا۔"

"لیکن سرکار ہم غریبوں کا خیال رکھنا۔ سیٹھ کو یہ پتہ نہ چلے کہ میں نے کوئی بات بتائی ہے۔"
میں نے اسے جھوٹی سچی تسلیاں دیں اور سوال جواب کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس نے مقتول کی شخصیت کی بالکل وہی تصویر پیش کی جو اس کا باپ ہمیں دکھا چکا تھا، یعنی صرف کاروبار میں دلچسپی رکھنے والا بدھو ٹائپ، دنیا کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں۔ اس مینیجر سے میں نے جو باتیں کیں اور جو اس نے بتائیں وہ ساری کی ساری سنانے کی ضرورت نہیں۔ میں اصل بات پر آنا چاہتا ہوں۔ میں مقتول کی دوستی اور دشمنی معلوم کرنے کی کوشش میں تھا۔ کہیں بھی اس کی دشمنی کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ مقتول نے کسی راج مزدور یا کسی کاریگر کو کام سے نہیں ہٹایا تھا۔ "اب لالہ جی سولہ آنے سچ بولنا؟" میں نے کہا، "میں نے مزدور عورتوں میں تین نوجوان لڑکیاں دیکھی ہیں۔"

"سرکار!" مینیجر نے میری پوری بات سنے بغیر حسبِ عادت ہاتھ جوڑ کر بھکاریوں کے لہجے میں کہا، "میں حضور کا مطلب سمجھ گیا ہوں۔ یہ بات بار بار میری زبان پر آتی تھی لیکن میں بولتا نہیں تھا۔ اگر مجھے پردے میں رکھیں تو یہ بات بھی بتا دیتا ہوں۔ یہ تینوں لڑکیاں آج کام کر رہی ہیں۔ چھوٹے سیٹھ بھی مارے گئے تو انہوں نے کام شروع کیا ہے۔ ان کی زندگی میں یہ کام پر صرف آتی تھیں۔ ذرا سا ہاتھ پاؤں ہلا دیتی تھیں اور سارا دن مزدور عورتوں میں گھومتی پھرتی رہتی تھیں۔ ان میں سے ایک لڑکی نہا دھو کر آتی اور دو پہر کو چھوٹے سیٹھ (مقتول) کے پاس اس کمرے میں آجاتی تھی۔ کم از کم تین گھنٹے کمرے میں گزارتی تھی۔ چھوٹے سیٹھ کی ٹانگیں دباتی اور سارا جسم سہلاتی اور پھر دستِ حال کام ہوتا تھا۔ لڑکیوں کی باریاں لگی ہوئی تھیں۔ ہر روز ایک لڑکی۔ یہ لڑکیاں اسی کام کی دیہاڑی لیتی تھیں۔ مہندر سیٹھ انہیں الگ پیسے بھی دیتا تھا۔"

میرا نفسیاتی تجزیہ بالکل صحیح نکلا۔ انسپکٹر جوزف بالکل خاموش بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ مان گیا تھا کہ میں صحیح لائن پر چل رہا ہوں۔ اس نے مینیجر کے ساتھ صرف ایک بات کی۔
"خیال کرو مینیجر۔" اس نے کہا، "تم ٹھیک بولے گا تو ہم تمہارے ساتھ ٹھیک رہیں گے۔ سچ بولو۔ کسی کو مطلع نہیں ہونے دیں گے۔"
"ان لڑکیوں کے ساتھ ان کے مرد بھی یہاں کام کرتے ہوں گے؟" میں نے مینیجر سے پوچھا۔
"ہاں سرکار!" اس نے جواب دیا، "ان کے بھائی یہاں کام کرتے ہیں۔ ایک کا باپ بھی ہے۔"
"وہ اپنی لڑکیوں کو روکتے نہیں؟" میں نے پوچھا، "یا انہیں معلوم ہی نہیں کہ ان کی لڑکیوں سے کیا کام لیا جا رہا ہے؟"

"آپ انہیں کیا سمجھتے ہیں سرکار؟" مینیجر نے کہا، "ان لوگوں نے پیسہ کمانا ہے۔ یہ ہر کام کر لیتے ہیں۔ ان کے باپ اور بھائی مقتول سیٹھ کو جھک کر سلام کرتے ہیں کہ وہ ان کی لڑکیوں کو بہت پیسے دیتا ہے۔"
وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ میں اس کلاس کو اچھی طرح جانتا تھا۔ یہ لوگ چھوٹے موٹے جرائم بھی کر لیتے تھے۔ میں نے یہ سوچا تھا کہ دشمنی کا ایک باعث یہ بھی ہو سکتا ہے۔ میں نے مینیجر سے کہا کہ باہر جا کے دیکھے کہ سیٹھوں کے وہ غنڈے آگئے ہوں تو انہیں ہمارے پاس لے آئے۔

"مسٹر ملک۔" مینیجر کے جانے کے بعد انسپکٹر جوزف نے مجھے کہا، "میرا خیال ہے ہم یہاں وقت ضائع کر رہے ہیں۔"

"نہیں۔" میں نے کہا، "اس مینیجر سے ہمیں کچھ کام کی باتیں معلوم ہوئی ہیں۔ یہ پتہ چل گیا ہے کہ مقتول کا کردار کیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ مقتول کسی اور عورت کے چکر میں آکر قتل ہوا ہے۔ یہ جو دو غنڈے آ رہے ہیں، ان سے بھی کچھ نہ کچھ معلوم ہو جائے گا۔"
"وہ آگئے ہیں سرکار۔" مینیجر نے اندر آکر اطلاع دی۔
"انہیں اندر بھیج دو۔" میں نے کہا، "آپ باہر بیٹھیں۔"

دو آدمی اندر آئے۔ ایک کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ اور دوسرا تیس سال۔ دونوں نے صاف ستھرے اور قیمتی کپڑے پہن رکھے تھے۔ دونوں کے چہروں پر رونق اور خود اعتمادی تھی۔ دونوں نے ہمیں جھک کر سلام کیا۔ بڑے کے چہرے کا تاثر بدل گیا۔ وہ مجھے دیکھ کر گھبرا گیا تھا اور حیران بھی ہو رہا تھا۔ میں نے اسے غور سے دیکھا تو اس کا چہرہ مانوس لگا۔

"کیا میں تمہیں جانتا ہوں؟" میں نے اس سے پوچھا۔
"ہاں صاحب۔" اس نے مسکرا کر جواب دیا، "آگرہ میں ملاقات ہوئی تھی۔ تین سال سے کچھ اوپر عرصہ ہو گیا ہے۔" اس نے مجھے ڈکیتی کی ایک واردات سنائی۔ یہ اس علاقے کا وارداتیا تھا اور کرائے کی غنڈہ گردی کا ماہر تھا۔ اس نے بڑی اچھی مخبری اور پھر نشاندہی کی تھی۔ میں نے اس کی راہنمائی سے ملزموں کو پکڑا تھا۔ دو ملزموں کو سزا ہوئی تھی۔ اس گینگ کے ایک آدمی نے اس سے انتقام لینا چاہا تھا۔ دونوں کی چاقوؤں سے لڑائی ہوئی تھی اور دونوں بری طرح زخمی ہوئے تھے۔ دونوں چاقو زنی کے مجرم تھے۔ دونوں نے تیز دھار ہتھیار سے ایک دوسرے کو زخمی کیا تھا لیکن میں نے اسے اس طرح بچا لیا تھا کہ دوسرے کو قاتلانہ حملے کا مجرم قرار دے دیا تھا اور اس کے متعلق میں نے موقف اختیار کیا تھا کہ اس نے اپنے دفاع (حفاظتِ خود اختیاری) میں حملہ آور کو زخمی کیا ہے۔ میں نے کیس ایسا ہی تیار کیا تھا۔ اسے بچایا اور اس کے دشمن کو چار سال سزائے قید دلا دی تھی۔ نام ابراہیم تھا اور ابرا کے نام سے مشہور تھا۔

"میں تمہارا نام بھول گیا ہوں؟" میں نے کہا۔
"نام ابرا ہے صاحب!" اس نے جواب دیا، "ابراہیم۔ دو اڑھائی سال سے دہلی میں ہوں۔ یہ دارا ہے۔ پورا نام دلدار سنگھ ہے۔ موٹا سکھ ہے۔"
"کیا کرتے ہو یہاں؟"
"کوئی اچھا کام تو نہیں کرتا صاحب۔" اس نے جواب دیا، "بھاڑے (کرائے) پر چلتا ہوں۔ اچھی گزر بسر ہو رہی ہے۔ اللہ آپ کو ترقی دے۔ آپ کا احسان یاد ہے۔"
میں نے اس کے ساتھی سے کہا، "تم باہر آگے بیٹھ جاؤ۔"
میں سگریٹ نہیں پیتا تھا۔ انسپکٹر جوزف کے پیکٹ سے ایک سگریٹ نکال کر ابرے کو دیا۔
"یار تمہارے چھوٹے سیٹھ کو کون مار گیا ہے؟" میں نے کہا، "اس کے گھر والے کہتے ہیں کسی سے دشمنی تھی ہی نہیں۔"

"ذرا ہمارا خیال رکھنا صاحب!" ابرے نے کہا، "ہماری گواہی نہ ڈال دینا۔ اعتبار قائم رہے تو اچھا ہوتا ہے۔ سیٹھ جوگندر پال ہمارا بہت خیال کرتا ہے۔ ہم نے اس کا رعب دبدبہ ایسا رکھا ہوا ہے کہ کسی کی جرات نہیں جو اس خاندان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے۔ یہ بالکل صحیح ہے ملک صاحب کہ ان کا کوئی دشمن نہیں لیکن قتل گھر سے کروایا گیا ہے۔"

"بیوی نے؟"

"آپ سمجھ گئے۔" اس نے کہا، "معلوم نہیں آپ نے اس کی بیوی کو دیکھا ہے یا نہیں۔ مہندر کو تو آپ نے دیکھا ہی نہیں ہوگا۔ یہ کوئی جوڑ نہیں تھا۔ جسم کے لحاظ سے بھی اور مزاج کے لحاظ سے بھی۔ یہ کوئی جوڑ نہیں تھا۔ دارا ان کے گھر کی باتیں مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ میں اسے بلا لیتا ہوں۔ سب کچھ بتائے گا۔" وہ باہر گیا اور اپنے ساتھی کو ساتھ لے آیا۔ اسے آگرہ کی واردات سنائی اور کہا کہ وہ میرا احسان مند ہے۔

"ملک صاحب جو پوچھتے ہیں وہ بتا دینا۔" ابرے نے دارے سے کہا، "یہ ہمیں پردے میں رکھیں گے۔ یہ ملک صاحب میرے بڑے پرانے مہربان ہیں۔ یہ کرائم برانچ میں ہیں۔ مہندر کے قتل کی تفتیش کے لیے آئے ہیں۔"

"پردے میں نہیں رکھیں گے تو کیا ہو جائے گا؟" دارے نے کہا، "ان سیٹھوں نے ہمارا کیا بگاڑ لینا ہے۔ ملک صاحب بھی آپ کی بات تو ہم رد نہیں کر سکتے۔ مہندر کی بیوی کو میں نے دو بار ایک مسلمان کے ساتھ کہیں جاتے دیکھا بڑا خوبصورت جوان ہے۔ ایک بار وہ فوجی وردی میں تھا۔ میں یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ لیفٹیننٹ ہے، کپتان ہے یا میجر ہے۔ وہ ہے افسر۔"

"یہ تم کیسے جان سکتے ہو کہ وہ مسلمان ہے؟" میں نے کہا، "فوجی افسر ہندو ہو یا مسلمان، وردی ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔"

"یہ اسے میں نے بتایا تھا۔" ابرے نے کہا، "ایک بار میں نے مہندر کی بیوی کو اس فوجی افسر کے ساتھ کناٹ پلیس میں دیکھا تھا۔ میں ان کے پیچھے تھا۔ آپ جانتے ہیں کناٹ پلیس میں ذرا رش ہوتا ہے۔ اس روز یہ جوان فوجی وردی میں تھا۔ آگے سے اس جیسے دو فوجی افسر آ رہے تھے۔ مہندر کی بیوی والا افسر انہیں دیکھ کر رک گیا۔ مہندر کی بیوی آگے نکل گئی۔ اس افسر نے ان دونوں افسروں کو بڑی زور سے السلام علیکم کہا اور ہاتھ ملایا۔ میں آگے نکل گیا۔"

"یہ مہندر کی شادی سے دس بارہ دن پہلے کی بات ہے۔ لڑکی اتنی خوبصورت تھی کہ میں نے اسے بہت ہی اچھی طرح دیکھا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے ان دونوں کو پھر دیکھا۔ وہ ایک ٹیکسی کے قریب کھڑے تھے۔ میں انہیں نئے بیاہے ہوئے میاں بیوی سمجھ رہا تھا اور میں نے دل میں کہا کہ کتنا خوبصورت جوڑا ہے۔ دس بارہ دنوں بعد مہندر کی شادی ہوئی تو وہ اپنی دلہن کو یہاں لایا اور اسے گھمایا پھرایا یہ کام دکھایا جو چل رہا ہے۔"

"ملک صاحب! میں نے لڑکی کو دیکھا تو مجھے اس پر یقین نہیں آ رہا تھا جو میں دیکھ رہا تھا۔ یہ وہی لڑکی تھی جسے میں نے اس فوجی افسر کے ساتھ دیکھا تھا۔ پھر میں نے کہا کہ بعض انسانوں کی شکلیں آپس میں اتنی زیادہ ملتی ہیں کہ آدمی دھوکے میں آجاتا ہے لیکن میرا دل کہتا تھا کہ یہ وہی لڑکی ہے، پھر جب ہم نے شادی کے بعد اس لڑکی کو آزادی سے باہر نکلتے اور گھومتے پھرتے دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ وہی ہے۔ شادی کے بعد دارے نے دوبارہ مجھے بتایا کہ اس نے مہندر کی بیوی کو ایک بڑے خوبصورت اور جوان فوجی افسر کے ساتھ دیکھا تو میں نے اسے کہا کہ وہ مسلمان ہے کہنے لگا کہ سیٹھ کو بتا دیتے ہیں کہ یہ لڑکی ٹھیک نہیں۔ میں نے اسے کہا کہ یہ بڑے لوگ ہیں، یہ الٹا ہم پر الزام دھر دیں گے کہ ہم ان کی لڑکی کو بدنام کر رہے ہیں۔ یہ ہماری بات نہیں مانیں گے۔"

"تم یہ تو نہیں بتا سکتے کہ یہ میاں بیوی آپس میں کس طرح رہتے تھے؟" میں نے پوچھا۔
"میں بتا سکتا ہوں۔" دارے نے کہا، "میں مسلمان نہیں، سکھ ہوں۔ چونکہ میں نے داڑھی نہیں رکھی اور کیس (سر کے بال بھی نہیں) اس لیے یہ لوگ مجھے ہندو سمجھتے ہیں۔ میرا ان کے گھر آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ان کے دو نوکر میرے یار ہیں۔ کچھ تو میں نے خود دیکھا ہے اور زیادہ باتیں نوکروں نے بتائی ہیں۔ مہندر اپنی بیوی کا غلام بنا ہوا تھا۔ بیوی اس پر اپنا حکم چلاتی تھی۔ کچھ دن ہی گزرے تھے وہ مہندر کو ماں باپ سے الگ کر کے لے گئی۔ اتنی ہوشیار لڑکی ہے کہ اس نے مہندر کے ماں باپ اور اس گھر کے ہر فرد کے ساتھ تعلق اتنا پیارا رکھا کہ ہر کوئی اس کی تعریف کرتا تھا۔"

میں نے انسپکٹر جوزف سے کہا کہ مقتول کی بیوی اسے اس فلیٹ میں صرف اس مقصد کے لیے لے آئی تھی کہ اس فوجی افسر سے ملنے میں سہولت رہے۔ مقتول تو صبح کا گیا ہوا شام کے بعد واپس آتا تھا۔ اس کے سوا اس کا اور کوئی مقصد ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

جوزف نے کہا، "نہ اس فلیٹ میں رہنے والے ان کے پڑوسیوں سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اس کی نوکرانی بھی ہے۔ اس سے ڈرا دھمکا کر پوچھیں گے۔"

"اب اس لڑکی نے غائب ہونا ہے۔" میں نے کہا، "اور اس آرمی آفیسر کے ساتھ شادی کرنی ہے۔" ہم نے یہ بات انگریزی میں کی تھی تاکہ ابرا اور دارا نہ سمجھ سکیں۔ ان دونوں نے ہمیں راستے پر ڈال دیا تھا۔ ان سے میں نے چند اور ضروری باتیں پوچھیں۔

"سیٹھ بھی کوئی آدمی تھا ملک صاحب؟" ابرے بولا، "خدا نے اتنی خوبصورت بیوی دی اور یہ سیٹھ صاحب اس کمرے میں مزدور لڑکیوں کے ساتھ جھک مار رہے ہیں۔"

میں نے ان دونوں سے کہا کہ وہ چاہیں تو سی آئی اے میں انفارمر (مخبر) بن جائیں، انہیں بہت معاوضہ دلاؤں گا۔ سیٹھ کا کام بھی جاری رکھیں۔ انسپکٹر جوزف نے انہیں کہا کہ اس کیس میں انہوں نے ہماری جو مدد کی ہے اس کا انہیں انعام ملے گا اور دو تین دنوں میں مل جائے گا۔

اب ہمیں وہاں مزید رکنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مینیجر کو بھی میں نے اندر بلا لیا اور ان تینوں سے کہا کہ جوگندر پال یہاں آئے تو اسے یہ بتا دیں کہ ہم یہاں آئے تھے اور گھوم پھر کر یہ کمرہ دیکھ کر چلے گئے تھے۔ یہ نہ بتائیں کہ ان کے ساتھ کیا باتیں ہوئی تھیں۔ ہم واپس آگئے۔ اب ہمارے ذہن سے بوجھ کم ہو گیا تھا۔ ہم نے تین افراد کو اپنے ہیڈ کوارٹر میں بلانے کا پروگرام بنا لیا۔ ان میں سے سب سے زیادہ اہم مقتول کی بیوی کی نوکرانی تھی جو اس کے ساتھ فلیٹ میں رہتی تھی۔ ہم جب وہاں گئے تھے تو چائے کی ٹرے وہی لائی اور ہمارے آگے رکھی تھی۔ میں نے اسے پولیس کی نظروں سے دیکھا تھا۔ اس کی عمر کم و بیش چالیس سال تھی۔ اس کا رنگ گندمی اور نقش تیز تھے۔ اس کی آنکھوں میں کوئی خاص بات تھی۔ صاف محسوس ہوتا تھا کہ یہ آنکھیں اپنے اندر کوئی ایسا تاثر یا اثر رکھتی ہیں کہ کوئی عام سا آدمی ان آنکھوں کا سامنا نہیں کر سکتا۔ مختصر یہ کہ یہ عورت عام گھریلو نوکرانیوں سے بالکل مختلف تھی اور یہ قابلِ تعریف کردار کی عورت نہیں تھی۔

میں نے باہر آکر انسپکٹر جوزف سے کہا تھا کہ یہ نوکرانی شاید کسی وقت ہمارے کام آئے۔ اس کی آنکھوں میں کچھ راز ہیں۔ باقی جن دو افراد کو بلانا تھا وہ مقتول کی بیوی کے پڑوسی تھے۔ ایک دائیں طرف کے گھر والا اور ایک بائیں طرف رہنے والا۔ "تینوں کو ایک ہی بار نہیں بلائیں گے۔" انسپکٹر جوزف نے کہا، "پہلے نوکرانی کو بلائیں گے۔ اگر اس نے راز اگل دیا تو پڑوسیوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔" ہم نے اُسی دن کے پچھلے پہر اپنی برانچ کے ایک اے ایس آئی کو تحریری سمن دے کر بھیج دیا کہ اس نوکرانی کو ساتھ لے آئے۔

جہاں تک مجھے یاد ہے، یہ نوکرانی چار بجے سے کچھ پہلے آگئی۔ اے ایس آئی نے بتایا کہ مقتول کی بیوہ کو بتایا کہ اس کی نوکرانی کو اپنے ساتھ تفتیش کے لیے لے جاتا ہے تو یکلخت اس کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ گیا اور آنکھیں سفید ہو گئیں۔

"آپ اتنی زیادہ نروس کیوں ہو گئی ہیں؟" اے ایس آئی نے اسے کہا، "اس سے کچھ باتیں پوچھنی ہیں پھر میں اسے خود یہاں چھوڑ جاؤں گا۔ آپ کو ذرا سا بھی پریشان نہیں ہونا چاہیے۔" ہمیں اس کی پریشانی کا کوئی خیال نہیں تھا۔ یہ تو ڈپلومیسی تھی کہ اے ایس آئی اسے تسلیاں دے رہا تھا۔ پولیس جس کسی کو بھی شاملِ تفتیش کرتی ہے اس کے گھر والے پریشان ہوتے ہیں۔ منتیں کرتے ہیں، رشوت بھی پیش کرتے ہیں کہ ان کے آدمی کو تھانے نہ بلایا جائے۔ نوکرانی آئی۔ انسپکٹر جوزف نے مجھے کہا کہ میں اکیلا اس سے پوچھ گچھ کروں کیونکہ انگریز افسر کی موجودگی میں یہ عورت گھبرائے گی۔ یہ اللہ کا کرم تھا کہ میری ساکھ ایسی بن گئی تھی کہ انگریز افسر مجھ پر بھروسہ کرتے اور میری رائے اور میرے فیصلوں کو مانتے تھے۔

میں نوکرانی کو تفتیش کے کمرے میں لے گیا اور کرسی پر بٹھا دیا۔
اس نے اپنا نام رانی بتایا اور میرے اس سوال کے جواب میں کہ وہ کب سے ان لوگوں کے ہاں ملازمہ ہے، بڑی اہم بات بتائی کہ وہ مقتول کے گھر کی نوکرانی نہیں بلکہ وہ کنول (مقتول کی بیوہ) کے میکے گھر میں اُس وقت سے نوکری کر رہی ہے جب کنول چودہ پندرہ سال کی تھی۔ کنول کی شادی ہوئی تو کنول اپنے خاوند کے ساتھ فلیٹ میں آگئی۔ یہاں آتے ہی اس نے اپنے میکے گھر سے اس نوکرانی کو بلالیا۔ "کیوں؟" میں نے پوچھا، "تمہارے ساتھ کنول کو بہت پیار تھا؟"

"یہ چھوٹی سی تھی جب میں اس گھر میں آئی تھی۔" اس نے جواب دیا، "یہ میرے دل کو بڑی اچھی لگتی تھی۔ اس کے دل میں میرا پیار پیدا ہو گیا۔"

"دیکھو رانی۔" میں نے کہا، "گھبرانا نہیں اور یہاں اپنے آپ کو نوکرانی نہ سمجھنا۔ ہم تمہاری عزت کریں گے لیکن شرط یہ ہے کہ تم نے جھوٹ نہیں بولنا۔ اگر جھوٹ بولو گی یا کوئی بات چھپا لو گی تو یہ بات ہمیں دوسرے ذرائع سے معلوم ہو جائے گی۔ ہم کل تمہارے مالکوں کے گھر گئے تھے۔ کنول کے بھائی نے ہمیں بہت سی باتیں بتائی ہیں۔ کچھ باتیں تمہارے پڑوسیوں سے معلوم ہوئی ہیں۔ اگر تم کوئی بات چھپا کر رکھو گی تو پھر تمہیں یہاں سے ہم جانے نہیں دیں گے۔ پولیس کے آگے جھوٹ بولنا جرم ہے جس کی سزا ملتی ہے۔ تم نوکرانی ہو، غریب عورت ہو۔ ان امیر لوگوں کے معاملات میں نہ پڑو۔ میں تمہارے مالکوں کو پتہ نہیں چلنے دوں گا کہ تم نے ہمیں کیا بتایا ہے۔"

اس طرح میں نے اسے بڑے پیارے انداز میں ڈرایا اور چند اور ایسی باتیں کیں جن سے اسے پھونک ملی اور اس کے چہرے کا کھچاؤ کم ہو گیا۔ میں نے اپنے شک کے مطابق ہوا میں تیر چلایا۔ "ہمیں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ تمہاری مالکہ کنول کی دوستی ایک مسلمان کے ساتھ ہے۔" میں نے کہا، "وہ فوجی افسر ہے اور کبھی کبھی وہ فلیٹ میں بھی کنول کے پاس آیا کرتا ہے۔ اب اگر تم اپنی مالکن پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹ بولو گی کہ نہیں یہ غلط ہے تو اس میں تمہارا ہی نقصان ہے۔ ہم جانتے ہیں یہ بات سچ ہے۔ پھر یہ ہوگا کہ ہم تمہیں جھوٹ بولنے کے جرم میں گرفتار کرلیں گے۔"