پُراسرار بیوی - آخری حصہ

Sublimegate Urdu Stories

"میں اتنے بڑے افسروں کے آگے جھوٹ کیوں بولوں کی مہاراج!" اس نے مرعوب آواز میں کہا، "ایک عرض کروں گی۔ میں بچوں والی ہوں۔ خاوند کو بڑا بخار (ٹائی فائیڈ) ہوا تھا۔ اس سے اس کا دایاں بازو اکڑ گیا تھا۔ وہ گھر میں بچوں کی دیکھ بھال کے سوا کوئی اور کام نہیں کر سکتا۔ کنول دیوی کی مہربانی ہے کہ میں معذور خاوند اور تین بچوں کا پیٹ پال رہی ہوں۔ اگر کنول کو پتہ چل جائے کہ میں نے اس کا بھید کھول دیا ہے تو میرے بچوں کا کیا بنے گا؟ نہ آپ کا حکم ٹال سکتی ہوں نہ اپنی مالکن کا۔ اس کا حکم ہے کہ اس کی کوئی بات کسی کو نہیں بتائی جائے۔"

نوکروں اور مزارعوں کی یہ بہت بڑی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اپنے آقاؤں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے لیکن یہ بد قسمت لوگ جب پولیس کے ہاتھوں میں آجاتے ہیں تو ان پر نزع جیسی حالت طاری ہو جاتی ہے۔ انہیں موت نظر آتی ہے پر کچھ کر نہیں سکتے۔ تفتیش کرنے والے افسر کو ایک انسان کی حیثیت سے ان کی رحم آتی ہے لیکن اس کی ذمہ داری ایسی ہوتی ہے جسے وہ انسانی ہمدردی پر قربان نہیں کر سکتا۔

میں ایسے نوکروں چاکروں کو تسلیاں دینا جانتا تھا۔ میری کوشش یہ بھی ہوتی تھی کہ ان نوکروں اور مزارعوں کو پردے میں ہی رکھوں کیونکہ ان کے آقا ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرتے تھے جو انتہائی ظالمانہ ہوتی تھیں۔ یہ کارروائیاں آج بھی ہوتی ہیں۔ راز فاش کرنے والے مزارعے کی جوان بیٹی اغوا ہو جائے گی۔ گاؤں میں اس کا حقہ پانی بند کر دیا جائے گا۔ اس کے بچوں کو بھوکا مار دیا جائے گا۔ یہ نوکرانی جو میرے سامنے بیٹھی تھی، کوئی سادہ طبیعت کی بدھو عورت نہیں تھی۔ اس کا چہرہ، آنکھیں اور اس کا انداز بتا رہا تھا کہ ذہنی طور پر زندہ و بیدار اور حاضر دماغ ہے اور اگر اسے اپنے اثر میں لے لیا جائے تو سمجھو قارون کا خزانہ ہاتھ آگیا۔ میں نے اسے اپنے مخصوص پر اثر انداز سے یقین دلایا کہ اس کی مالکن کو پتہ نہیں چلے گا۔ "آپ کو ٹھیک بتایا گیا ہے۔" اس نے کہا، "میں آپ کو ساری بات بتا دیتی ہوں۔ میں تو کنول کی نوکرانی ہوں لیکن اس کی رازدار ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے مجھے اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے۔ یہ جب کالج پڑھتی تھی تو بھی میں اس کی رازدار تھی۔ میں آپ کو یہ بتادوں کہ راز صرف اتنا سا ہے کہ اس کی دوستی ایک مسلمان فوجی افسر کے ساتھ ہے جو شادی سے پہلے کی ہے۔ یہ بھی بتا دیتی ہوں کہ ان کی دوستی ناجائز تعلقات والی ہے۔ میں یہ نہیں بتا سکتی کہ شادی سے پہلے بھی ان کے تعلقات جسمانی تھے یا نہیں۔ یہ یقین سے کہتی ہوں کہ شادی کے بعد ان کے تعلقات میاں بیوی والے ہو گئے تھے۔"

میں نے اس سے کچھ باتیں پوچھیں جو اس نے صاف صاف بتا دیں۔ اس نے ایک عجیب بات سنائی۔ شادی کے بعد کنول اپنے خاوند کو اس کے گھر والوں سے الگ کر کے لے آئی تھی۔ یہ فلیٹ کنول کے بھائی نے اسے کرائے پر لے دیا تھا۔ کنول نے فلیٹ میں آتے ہی اس نوکرانی کو اپنے والدین کے گھر سے بلا کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ کنول کا خاوند صبح گھر سے نکلتا اور رات کو واپس آتا تھا۔ فلیٹ میں آنے کے ایک ہفتے بعد مقتول کو کاروبار کے سلسلے میں لاہور جانا پڑا۔ وہ دوپہر کی ریل گاڑی سے گیا۔ کنول نوکرانی کو بتا کر کہیں چلی گئی۔ ڈیڑھ دو گھنٹے بعد واپس آئی اور نوکرانی کو بتایا کہ آج ہوٹل میں ظفر کے ساتھ جائے گی اور ظفر رات یہیں رہے گا۔ ظفر اس کے آشنا فوجی افسر کا نام تھا۔ کنول نے نوکرانی سے کہا کہ وہ بیڈ روم کو بہت اچھی طرح صاف کرے اور شام کو کناٹ پلیس سے گلاب اور موتی کے پھولوں کے چھ ہار لا کر بیڈ روم میں رکھ دے۔ سورج غروب ہونے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد کنول نے خاص طور پر بناؤ سنگار کیا اور وہ کپڑے پہنے جن میں وہ دلہن بن کر اپنے سسرال آئی تھی۔ "تم کھانا کھا لینا رانی۔" اس نے نوکرانی سے کہا، "ادھر سے (یعنی سسرال سے) کوئی آجائے تو کہنا کہ کنول کی دو پرانی کلاس فیلو آگئی تھیں اور وہ اسے زبردستی پکچر دیکھنے کے لیے لے گئی ہیں۔ انہیں چلتا کرنا۔ واپسی پر ظفر میرے ساتھ ہوگا۔ اگر گھر میں کوئی ہوا تو تم باہر برآمدے میں رہنا۔" کنول نے اسے اپنی واپسی کا اندازِ وقت بتایا۔

کنول ڈیڑھ دو گھنٹوں بعد واپس آگئی۔ ظفر اس کے ساتھ تھا۔ دونوں بیڈ روم میں چلے گئے اور سحر کے وقت باہر نکلے۔ ظفر ناشتہ کیے بغیر چلا گیا۔ کنول عروسی لباس میں تھی۔ اس نے نوکرانی کو پچیس روپے انعام دیا۔ اسے آج کا پانچ سو روپیہ کہہ لیں۔ نوکرانی نے بتایا کہ اگلی رات ظفر پھر آیا اور رات بارہ بجے کے بعد گیا تھا۔ پھر مہندر پال (مقتول خاوند) آگیا۔ اس کے بعد ظفر دن کے وقت ہفتے میں ایک بار آتا اور جلد ہی چلا جاتا تھا۔ وہ نوکرانی کو ہر بار دس روپے دے جاتا تھا۔

"کنول بڑی ہوشیار لڑکی ہے۔" نوکرانی نے بتایا، "اس نے اپنے سسرال کے بچے سے لے کر بوڑھے تک کو اتنا خوش رکھا ہوا تھا کہ وہ تو اس پر جان چھڑکتے تھے۔ ہسنے اور ہسانے والی لڑکی ہے۔ تیسرے چوتھے دن سسرال والوں کے گھر چلی جاتی تھی۔"
"خاوند کے ساتھ کس طرح رہتی تھی؟" میں نے پوچھا۔

"کچی کچی رہتی نہیں مہاراج۔" نوکرانی نے جواب دیا، "گھر کی نوکرانی تو میں ہوں۔ مہندر جی کی جو خدمت مجھے کرنی چاہیے تھی وہ کنول کرتی تھی۔ وہ شام کو آتے تو کنول ان کے جوتوں کے تسمے کھولنے بیٹھ جاتی تھی۔ مہندر جی اسے ہر روز منع کرتے تھے لیکن کنول زبردستی ان کے تسمے کھولتی تھی۔ وہ رات کو جتنی بھی دیر سے آتے کنول ان کے ساتھ کھانا کھاتی تھی۔ ان کے ساتھ ہوکر ان کے کپڑے تبدیل کراتی تھی۔ وہ صبح تیار ہو کر نکلتے تو کنول ان سے بغلگیر ہوکر انہیں رخصت کرتی تھی۔"

"لیکن رانی؟" میں نے کہا، "میں نے سنا ہے کنول کا خاوند تو مٹی کا مدھو تھا۔"
"مہاراج جی!" رانی نے جواب دیا، "مٹی کا مدھو اگر کسی نے بنایا تھا تو اچھا ہی بنایا ہوگا لیکن مہندر جی کا کیا بتاؤں۔ جس طرح اس کے جسم میں غبارے کی طرح ہوا بھری ہوئی تھی اسی طرح اس کے دماغ میں بھی ہوا ہی بھری ہوئی تھی۔ ایک شام وہ ذرا جلدی گھر آگیا۔ کنول کو اطلاع ملی تھی کہ اس کی ماں کو تیز بخار ہے۔ وہ مجھے یہ بتا کر چلی گئی کہ شام کو آجائے گی۔ اس کے آنے سے پہلے مہندر آگیا۔ میں نے اسے بتایا کہ کنول کچھ دیر تک آجائے گی۔ مہندر نے مجھے ہی کنول سمجھ لیا اور اپنے بازوؤں میں مجھے لے کر گود میں بٹھایا۔ پھر مجھے پانچ روپے دیے۔"

"میرا تو خیال ہے کہ کنول اس سے نفرت کرتی ہوگی۔" میں نے کہا۔

"یہ گول گپا نفرت کے قابل ہی تھا۔" نوکرانی نے کہا، "لیکن اس کے ساتھ کنول کا جو سلوک اور رویہ تھا وہ آپ کو بتایا ہے۔ اس کے جواب میں مہندر جی کا یہ حال تھا کہ کنول کی پوجا کرتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ تنہائی میں کنول کے پاؤں بھی چاٹتے ہوں گے۔ کنول کے منہ سے بات نکلی اور مہندر جی نے پوری کی۔ وہ تو کنول کا غلام تھا۔ شادی کے کچھ ہی دنوں بعد کنول نے کہا کہ وہ علیحدہ رہنا چاہتی ہے تو مہندر جی نے اسے ایک بار بھی نہ کہا کہ ماں باپ سے الگ ہو جانا ٹھیک نہیں ہوتا۔ انہوں نے اگلے ہی روز کرائے کی رہائش کا بندوبست کر لیا اور اس فلیٹ میں آگئے۔" اس طرح کچھ اور واقعات اور باتیں سنا کر رانی نے بڑی اچھی طرح واضح کر دیا کہ کنول اپنے خاوند کے ساتھ غلامانہ حرکات کر کے اسے الو بناتی رہتی تھی اور خاوند صحیح میں اس کا غلام بن کر اسے خوش رکھنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔ یہ تو نوکرانی نے ثابت کرہی دیا تھا کہ کنول اپنے خاوند کے ساتھ بے وفائی کر رہی تھی۔

"اب ایک اور ضروری بات بتاؤ رانی۔" میں نے پوچھا، "مہندر رات کو قتل ہوا تھا۔ اس دن کنول کہیں باہر گئی تھی؟"

"نہیں۔" اس نے جواب دیا، "اس سے ایک روز پہلے ظفر آیا تھا اور ایک گھنٹہ کنول کے ساتھ گزار گیا تھا۔ دوسرے دن مہندر جی صبح اپنے کام پر جانے کے لیے تیار ہو گئے تو کنول نے مجھے بتایا کہ وہ ان کے ساتھ جا رہی ہے اور آج دن وہ سسرال میں گزارے گی اور رات ہم دیر سے واپس آئیں گے۔ مہندر جی اسے اپنے گھر چھوڑ گئے۔ مجھے دوسرے دن خبر ملی تھی کہ مہندر جی کو کسی دشمن نے گولی مار دی ہے۔ میں نے گھر کو تالا لگایا اور وہاں چلی گئی۔"

"کنول کس حالت میں تھی؟" میں نے پوچھا۔
"دکھاوے کے آنسو بہاتی ہوگی۔"

"نہیں مہاراج!" اس نے جواب دیا، "اس کا رونا دکھاوے کا نہیں تھا۔ ایک دن میں وہ دو بار بے ہوش ہوئی۔ اس کے دانت بڑی مشکل سے اکھاڑے گئے تھے۔ دانتوں کے درمیان دو چھوٹے چمچ پھنسا دیے گئے تھے۔ اسے ہوش آتی تھی تو اپنے بال نوچتی اور اپنے منہ پر زور زور سے دوہتر مارتی تھی۔ اس کا چہرہ گہرا لال ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر کو بلا کر انجکشن دیا گیا تو اس کی حالت ذرا سی سنبھل گئی۔"

اس نے تفصیل سے سنایا کہ کنول کی حالت اتنی زیادہ بگڑ گئی کہ ڈاکٹر ایک دن اور ایک رات ان کے گھر میں رہا۔ میں نے سوچا کہ یہ نوکرانی اگر مبالغہ نہیں کر رہی تو یہ ایکٹنگ نہیں تھی۔ ایکٹنگ کی ایک حد ہوتی ہے۔

"وہ ابھی تک سنبھلی نہیں۔" رانی نے کہا، "پہلے والی حالت ہے۔ اس نے تو رو رو کر بے ہوش ہونا ہی ہے مہاراج۔ اس کا یہ خاوند اچھا تھا، بڑا تھا، چاہے بہت ہی برا تھا۔ کنول کو اب ساری عمر دوسرا خاوند نہیں مل سکتا۔ اس کی زندگی اس طرح اندھیر ہو گئی ہے کہ وہ دھتکاری گئی ہے۔ عورتیں اس سے دور ہٹ گئی ہیں۔ اس نے تمام زیور اتار پھینکے ہیں اور اب نہایت معمولی قسم کے کپڑے پہنتی ہے۔ اسے تو اپنے گھر تک نہیں مل سکتا۔ یہ خوش قسمت ہے کہ اس کے بھائی سدھیر جی کے دل میں زیادہ پیار ہے کہ انہوں نے اسے کہا کہ اسی فلیٹ میں رہو اور وہ کرایہ دیتا رہے گا۔"

"ظفر آیا ہوگا؟" میں نے کہا۔

"کنول مہندر جی کے مرنے کے تیسرے روز فلیٹ میں آگئی تھی۔" رانی نے کہا، "اس کے دو تین دن بعد ظفر آیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ سدھیر جی صبح اپنے کاروبار پر چلے جاتے ہیں اور شام کو آتے ہیں۔ اس کے بعد ظفر دو بار آیا تھا۔"

"ان کی آپس کی باتیں تم نے نہیں سنیں؟"

"نہیں مہاراج جی۔" رانی نے جواب دیا، "وہ دونوں بیڈ روم میں بیٹھتے ہیں اور دروازہ اندر سے بند کر لیتے ہیں۔ میری ڈیوٹی یہ ہوتی ہے کہ پہرہ دوں۔ کوئی آجائے تو انہیں اطلاع دوں۔ فلیٹ کے پیچھے لوہے کی گول سیڑھی ہے۔ ظفر ادھر سے آسانی سے بھاگ سکتا ہے لیکن ابھی تک ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی آگیا ہو۔ آنا بھی کس نے ہے؟ کنول کی بڑی گہری سیلیاں بھی نہیں آتیں۔"

"اب ایک ایسی بات پوچھوں گا جو تم نہیں بتاؤ گی۔" میں نے کہا، "جہاں تم نے کوئی راز چھپا نہیں رہنے دیا وہاں یہ راز بھی دے دو۔ تم عقل والی عورت ہو۔ کیا تم نے یہ نہیں سوچا کہ کنول نے اپنے خاوند کو ظفر کے ہاتھوں مروایا ہوگا اور کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ ظفر کے ساتھ غائب ہو کر مسلمان ہو جائے گی اور اس کے ساتھ شادی کرلے گی؟ تم کنول کی رازدار ہو۔ میرا خیال ہے اس نے تمہیں یہ راز بھی دے دیا ہوگا۔"

"نہیں مہاراج!" اس نے جواب دیا، "کنول نے مجھے ایسا کوئی راز نہیں دیا۔ میں نے خود بہت سوچا ہے کہ کنول کو کس نے ہلاک کیا ہے۔ گھوم پھر کر خیال یہیں پر آکر رک جاتا ہے کہ کنول نے قتل کروایا ہے اور ظفر نے قتل کیا ہے۔ پھر میں نے یہ بھی سوچا کہ کنول نے اگر ظفر کے ساتھ ہی شادی کرنی تھی تو شادی سے پہلے اس کے ساتھ بھاگ جاتی۔ شادی کر کے خاوند کو قتل کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ ویلکن مہاراج ہی کبھی یہ شک بھی ہوتا ہے کہ ظفر قاتل نہیں اور کنول اپنے خاوند کو قتل نہیں کروانا چاہتی تھی۔ مجھے اس کا رونا بے ہوش ہو جانا اپنے بال اور چہرہ نوچنا یاد آتا ہے تو میں کہتی ہوں کہ کنول اپنے خاوند کو زندہ رکھنا چاہتی تھی۔ ایک اور بات مہاراج میں نے بھی دنیا کو آنکھیں کھول کر دیکھا ہے لیکن آپ زیادہ تجربے والے ہیں۔ آپ خود غور کریں۔ مہندر جی کے مرنے کے بعد ظفر کنول کے پاس آتا رہا اور وہ بیڈ روم میں بیٹھے رہتے تھے۔ ہر بار دو گھنٹے تو ضرور بیٹھتے تھے پھر کنول دروازے تک اس کے ساتھ جاتی تھی۔ تین چار دن پہلے یعنی جس دن آپ ہمارے گھر آئے اس سے دو دن پہلے ظفر دن کے وقت آیا اور پہلے کی طرح کنول کے ساتھ بیڈ روم میں چلا گیا۔ کنول کی ذہنی حالت بہتر ہو گئی تھی۔"

میں ڈرائنگ روم میں قالین پر صفائی والی مشین پھیر رہی تھی۔ کنول اور ظفر کو بیڈ روم میں گئے ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس کمرے سے کنول کی بڑی اونچی اونچی آوازیں آنے لگیں۔ وہ غصے میں بول رہی تھی۔ بیڈ روم کا دروازہ کھلا تو کنول غصے کی حالت میں کہہ رہی تھی، "نکل جا یہاں سے۔ میں پھر کبھی تمہاری صورت نہ دیکھوں۔" ظفر کہہ رہا تھا، "ذرا ہوش میں آؤ کنول!" لیکن کنول اس کی سن ہی نہیں رہی تھی۔ اس نے کہا، "اگر تو یہاں سے نہ نکلا تو میں پولیس کو بلالوں گی۔ تجھے کس نے کہا تھا کہ مجھے بیوہ کر دے۔" اس نے ظفر کو دھکے دے کر گھر سے نکال دیا اور دروازہ بند کر کے اتنی روئی کہ اس کی ہچکی بندھ گئی۔ بیڈ روم میں پلنگ پر اوندھے منہ لیٹی اور بچوں کی طرح روتی چلی گئی۔ میں نے اسے بہلانے کی کوشش کی۔ وہ اور زیادہ رونے لگی۔ وجہ پوچھی لیکن اس نے جیسے میری بات سنی ہی نہ ہو۔

"اس کی حالت بگڑتی ہی گئی۔ شام کو اس کے بھائی سدھیر جی آئے تو اس کی یہ حالت دیکھ کر ڈاکٹر کو لے آئے۔ ڈاکٹر نے انجکشن تو نہیں دیا دوائیاں دی تھیں۔ اب کنول یہ دوائیاں لیتی ہے اور زیادہ وقت سوئی رہتی ہے۔ کل بھی ڈاکٹر آیا تھا۔ کنول کے ساتھ بند کمرے میں بہت دیر بیٹھا رہا تھا۔ اس کے جانے کے بعد میں نے دیکھا کہ کنول کی حالت بہتر ہو گئی تھی۔" رانی نے ہمارا کام کر دیا تھا۔ انسپکٹر جوزف دوسرے کمرے میں بیٹھا تھا۔ میں نے اسے جا کر تفصیل سے سنایا کہ اس نوکرانی نے کیا بیان دیا ہے اور میں نے اس سے اور کیا کچھ اگلوایا ہے۔ جوزف اتنا خوش ہوا کہ اس نے جیب سے دس روپے نکالے اور کہا، "اسے دے دو، ہم محکمے سے وصول کرلیں گے۔" میں نے رانی کے پاس آکر اسے دس روپے دیے اور اچھی طرح سمجھا دیا کہ وہ کنول اور اس کے بھائی کو نہ بتائے کہ اس نے ہمیں کیا کیا بتایا ہے، بلکہ یہ کہے کہ دو گھنٹے تو انتظار میں باہر بٹھائے رکھا پھر اندر بلا کر صرف دس منٹ گھر کی دو تین باتیں پوچھیں اور دس روپے خرچہ دے کر واپس بھیج دیا۔

اس کے جانے کے بعد میں نے جوزف کے ساتھ صلاح مشورہ کیا۔ اب کنول کے پڑوسیوں کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اب اس ڈاکٹر سے ملنا ضروری ہو گیا تھا جو کنول کا علاج کر رہا تھا۔ رانی نے بتایا تھا کہ خاوند کے قتل پر کنول کی ذہنی حالت بہت بری ہوئی تھی پھر سنبھل گئی تھی پھر ظفر کے ساتھ اس کی کوئی گڑ بڑ ہوئی تو اس کی ذہنی حالت پھر اتنی بگڑ گئی کہ ڈاکٹر کو بلانا پڑا۔ ہم جب کنول کے گھر گئے تھے تو میں نے اس کے بھائی سے اس ڈاکٹر کا ایڈریس لے لیا تھا۔ میں اور جوزف اسی روز اس کے کلینک کے وقت کلینک میں جا پہنچے اور اپنا تعارف کرایا۔ وہ تقریباً پچاس برس عمر کا آدمی تھا۔ دماغی امراض کا ڈاکٹر تھا۔ ایک سرکاری ہسپتال میں ملازمت بھی کرتا تھا۔ وہ ہندو تھا۔ اس وقت کے ڈاکٹروں کے متعلق کچھ بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ آج کے ڈاکٹر علاج معالجہ نہیں کاروبار کرتے ہیں۔ اس وقت کے ڈاکٹر صحیح معنوں میں مسیحا تھے۔ ان کے دلوں میں انسانوں کی ہمدردی تھی اور اپنے پیشے کے تقدس کا خیال رکھتے تھے۔ آج کل دماغی امراض کے ڈاکٹر مریض سے صرف اتنا سنتے ہیں کہ اسے کوئی ذہنی تکلیف ہے۔ یہ نہیں پوچھتے کہ اس تکلیف کا باعث کیا ہے۔ ذرا سی بھی تحقیقات نہیں کرتے اور ذہنی سکون کی گولیاں (ٹرانکولائزر) دے دیتے ہیں۔ ہمارے زمانوں کے ذہنی امراض کے ڈاکٹروں کا انداز کچھ اور ہوتا تھا۔ پولیس کی طرح بیماری کی بڑی محنت سے تفتیش کرتے تھے۔ ذہنی سکون کی گولیاں تو وہ کسی ایسے ذہنی مریض کو دیتے تھے جو واقعی ضروری ہوتا تھا۔ بات یہ ہے کہ اس دور میں ذہنی مریض بہت ہی کم ہوتے تھے۔ ڈپریشن سے بھی کوئی واقف نہیں تھا۔ آج کل تو ہر تیسرا آدمی ڈپریشن کا مریض ہے۔ عورتوں میں یہ مرض زیادہ ہے۔ ڈاکٹروں کی چاندی ہے۔

ہم اس ہندو ڈاکٹر کے پاس گئے اور مقتول کی بیوہ کا حوالہ دیا۔ یہ تو اسے معلوم تھا کہ کنول کا خاوند قتل ہو گیا ہے۔ پہلے دن کنول بے ہوش ہوئی تو اسی ڈاکٹر نے وہاں جا کر اسے انجکشن دیا تھا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ کنول پر صدمے کا اثر تھا۔ "اتنا تو ہم بھی سمجھتے ہیں کہ یہ صدمے کا اثر ہے۔" انسپکٹر جوزف نے کہا، "ہم قاتل کی تلاش میں ہیں۔ ہمیں شک ہے کہ آپ کی مریضہ کو معلوم ہے کہ قاتل کون ہے۔"

ہم نے دیکھا کہ ڈاکٹر کے ہونٹوں پر تعجب کا تاثر آیا اور وہ سوچ میں پڑ گیا۔

"کل پر سوں کنول کے ساتھ آپ کی بڑی لمبی گفتگو ہوئی ہے۔" میں نے کہا، "اس کے بعد وہ خاصی بہتر ہو گئی تھی۔" میں نے اسے ہندو سمجھتے ہوئے کہا، "ہمیں یہ بھی شک ہے کہ قاتل مسلمان ہے۔ اس قاتل کو زیادہ دیر آزاد نہیں رہنا چاہیے۔" مجھے معلوم تھا کہ مسلمان کا لفظ سن کر ہی یہ ہندو بچھو کی طرح ڈنک کھڑا کر لے گا۔

"مریضہ کے ضمیر پر جرم کا بوجھ ہے۔" ڈاکٹر نے کہا، "میں نے خود اس سے پوچھا تھا۔ خاوند کی موت کا غم تو ہے ہی۔ ہندو عورت کے لیے یہ صدمہ دوہرا ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اسے ساری عمر بیوہ رہنا ہوتا ہے لیکن اس مریضہ کو میں نے کریدا تو پتہ چلا کہ یہ کوئی ایسا کام کر بیٹھی ہے جو اسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔"

"کیا آپ نے محسوس نہیں کیا کہ اس نے اپنے خاوند کو قتل کروایا ہے؟" انسپکٹر جوزف نے کہا، "آپ تجربہ کار سائیکاٹرسٹ ہیں اور ایک ذمہ دار ڈاکٹر ہیں۔ مجھے آپ سے صرف یہ توقع ہے کہ آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں گے۔"

"میں تعاون سے انکار نہیں کر رہا۔" اس نے کہا، "میں سوچ رہا ہوں کہ آپ کو کس طرح سمجھاؤں کہ مریضہ کی ذہنی کیفیت کیا ہے۔ یہ انسانی فطرت کا عجیب سا کیس رہا ہے جو بہت کم دیکھنے میں آتا ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ بہت کم لوگ اپنی اس قسم کی ذہنی حالت کا اظہار کرتے ہیں۔"

اس نے ڈاکٹری زبان میں بڑی لمبی بات کی۔ میں یہ سارا تجزیہ یا تشخیص پیش نہیں کر سکتا۔ اس نے کہا کہ یہ مریضہ اپنے خاوند کی موت اور اپنے آشنا کے درمیان اس طرح پس رہی ہے جیسے چکی کے دو پتھروں میں دانہ آجاتا ہے۔ وہ دونوں کو زندہ دیکھنا چاہتی تھی لیکن اس کے آشنا نے اس کے خاوند کو درمیان سے اٹھا دیا۔ اس سے اس کی ذہنی حالت پاگل پن تک جا پہنچی۔

"کیا اس نے بتایا ہے کہ اس کا آشنا کون ہے؟"
"نہیں۔" ڈاکٹر نے جواب دیا، "میں نے پوچھا بھی نہیں۔ یہ بھی خیال رکھیں کہ کوئی انسان اس طرح اقبالِ جرم نہیں کیا کرتا۔ یہ اس دوائی کا اثر تھا جو میں نے اسے دی تھی۔"
"کیا آپ ہماری مدد کریں گے؟" میں نے کہا، "یہ دوائی اسے پھر دیں۔"

"میرا خیال ہے اس دوائی کی ضرورت نہیں ہوگی۔" ڈاکٹر نے کہا، "آپ اس کے پاس چلے جائیں۔" اس نے مجھے کہا، "آپ اکیلے جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ برٹش آفیسر کے ساتھ شاید بے تکلف نہ ہو۔ اگر آپ کے ساتھ بات نہ کرے تو میں آپ کی مشکل آسان کر دوں گا۔" ڈاکٹر کے ساتھ بڑی لمبی گفتگو ہوئی تھی جس سے رانی کے بیان کی تصدیق ہو گئی۔ میرے لیے یہ بڑا عجیب کیس تھا۔

میں اگلے روز صبح دس بجے کے قریب کنول کے گھر چلا گیا۔ اس کا بھائی گھر میں نہیں تھا۔ رانی مجھے اندر لے گئی اور ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ میں نے پہلی بار کنول کو دیکھا۔ ہر لحاظ سے خوبصورت لڑکی تھی۔ اس کے چہرے پر اداسی کا گہرا تاثر تھا اور اس کی چال جیسی تھی۔ وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو میں اٹھ کھڑا ہوا۔

"آپ پولیس انسپکٹر ہیں۔" اس نے کہا، "آپ یہاں آئے تھے۔ بھائی نے مجھے جگایا نہیں۔"

"میں نے ہی آپ کے بھائی کو روک دیا تھا۔" میں نے کہا، "ایک تو آپ اتنے بڑے صدمے میں ہیں دوسرے میں آپ کو پریشان کرنا شروع کر دوں۔" یہ تو رسمی باتیں تھیں۔ میں بچ بچ کر آہستہ آہستہ اپنے کام کی باتوں کی طرف آنے لگا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں اس کے ڈاکٹر سے مل آیا ہوں اور ڈاکٹر نے مجھے خاص طور پر اس کے پاس بھیجا ہے۔ وہ خاموشی سے سنتی رہی۔ میں نے پولیس سروس میں بعض ایسے پیشہ ور مجرموں سے اقبالیِ بیان صرف زبان کا جادو چلا کر لے لیے تھے جن کے متعلق مشہور تھا کہ ان کی ہڈیاں توڑ دو تو بھی نہیں بولتے۔ میں نے ان کے جسموں کو ہاتھ نہیں لگایا تھا لیکن اس لڑکی سے راز کی بات اگلوانا مجھے ناممکن نظر آ رہا تھا۔ میں وہ ساری باتیں نہیں لکھ سکتا جو میں نے اس کے ساتھ کی تھیں۔ بہت لمبی گفتگو تھی۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ میرے انداز میں، اپنائیت اور بے تکلفی تھی۔ بہر حال یہ میرے لیے بڑا ہی سخت امتحان تھا۔

اس کی ذہنی حالت بہت ہی کمزور ہو چکی تھی۔ میں نے جب اس کی اس کمزوری کو بھانپ لیا تو میں نے پیار پیار میں سیدھی باتیں شروع کر دیں۔ مثلاً میں نے ایک بات یہ کہی، "اس میں ذرا سا بھی شبہ نہیں رہا کہ آپ قاتل کو جانتی ہیں۔ قاتل کو جانتا اور پولیس سے چھپائے رکھنا جرم ہے۔ آپ کو اس جرم میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔"
"مجھے مشورہ دینے والا کوئی نہیں۔" اس نے کہا، "میرا دماغ اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔"

"مجھے بتاؤ کنول۔" میں نے کہا، "بھول جاؤ کہ میں پولیس آفیسر ہوں۔ مجھے اپنا ہمدرد ہندوستانی سمجھو۔ اپنے آپ کو نہ جلاؤ۔ بتا دو۔ ایک بات یاد رکھو کنول! یہ مشہور ہوتا چلا جا رہا ہے کہ کنول نے اپنے خاوند کو خود مروایا ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ مسلمان ہے اور وہ آرمی آفیسر ہے۔"

اس نے چونک کر میرے منہ پر نظریں گاڑ دیں۔
"یہ بھی مشہور ہو گیا ہے۔" میں نے کہا، "کہ تم اس سے شادی کر لوگی۔ تم نے اپنے خاوند کو اس کے ہاتھوں مروایا ہے۔"
"میں نہیں وہ میرے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے۔" اس نے کہا، "میں اس کے ساتھ شادی نہیں کروں گی۔"
"اس کا نام ظفر ہے نا!" میں نے کہا۔
"ہاں!" اس نے جواب دیا، "ظفر۔ وہ کیپٹن ہے۔ میں اسے گرفتار کرانا چاہتی ہوں۔"

اس کے یہ الفاظ سن کر میں اس کے سوا اور کوئی رائے نہیں دے سکتا تھا کہ یہ لڑکی دماغی توازن کھو بیٹھی ہے۔ میں آج بھی یہی کہتا ہوں کہ یہ ان دوائیوں کے اثرات تھے جو ڈاکٹر اسے دے رہا تھا۔ شعوری طور پر وہ بیدار نہیں تھی۔ اس کا ذہنِ لاشعور بیدار تھا۔ گناہ اور گناہوں کے اعتراف ذہنِ لاشعور میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ کوئی نشہ جب شعور کو سلا دیتا ہے تو انسان کا ذہنِ لاشعور اپنے دروازے کھول دیتا ہے۔ وہ جب ہوش میں آتا ہے یعنی جب اس کا شعوری ذہن بیدار ہوتا ہے تو اسے بالکل یاد نہیں رہتا کہ وہ نشے میں کیا باتیں کرتا رہا ہے۔

کنول نے اپنی اور ظفر کی محبت کا قصہ شروع کر دیا۔ اس وقت وہ کالج میں تھرڈ ائیر میں پڑھتی تھی۔ ظفر فورٹھ ائیر میں تھا۔ کالج ایک ہی تھا۔ وہیں ان کی محبت شروع ہوئی تھی اور یہ محبت پاک نہیں تھی۔ ظفر نے بی اے پاس کیا تو اسے فوج میں کمیشن مل گئی۔ یہاں میں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جنگِ عظیم میں انگریزوں کو روپے پیسے کی ضرورت تھی۔ انہوں نے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے "وار فنڈ" کا اجرا کیا تھا۔ ہندوستان کے جاگیرداروں، ہندو سیٹھوں اور بڑے ٹھیکیداروں نے اتنا زیادہ چندہ دیا تھا کہ انگریز حیران رہ گئے تھے۔ پھر یوں ہونے لگا کہ کسی سیٹھ وغیرہ نے اس درخواست کے ساتھ چالیس ہزار روپیہ چندہ دیا کہ اس کے بیٹے کو فوج میں کمیشن دیا جائے۔ اس طرح انڈین آرمی میں افسروں کی یہ نسل شامل ہو گئی جسے عام زبان میں "وار فنڈ لیفٹیننٹ" کہتے تھے۔ انہیں چند مہینوں کی ٹریننگ دے کر یونٹوں میں بھیج دیا جاتا تھا۔ بعض باپ مزید چندہ دے کر بیٹے کو کسی ہیڈ کوارٹر میں بھیجوا دیتے تھے جہاں محاذ پر جانے کا امکان نہیں ہوتا تھا۔ ظفر اسی نسل کا کیپٹن تھا۔ اس کا باپ دلی کے نواح کا رہنے والا جاگیردار تھا۔ اس نے کور کے ہیڈ کوارٹر میں ظفر کی پوسٹنگ کروائی تھی۔ اس طرح ظفر اور کنول کی ملاقاتیں میں پھر سے شروع ہو گئیں۔ کنول کو وہ کہتا رہتا تھا کہ وہ اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے اور وہ مسلمان ہو جائے۔ کنول اسے وعدے پر ٹالتی رہتی تھی۔ پھر کنول کی شادی ہو گئی۔ پڑھنے والے شاید یقین نہ کریں لیکن یہ کنول کا اپنا بیان تھا کہ شادی کے بعد کنول نے اپنے خاوند کو صرف اس لیے اس کے ماں باپ سے الگ کر لیا تھا کہ ظفر کے ساتھ ملنے ملانے کا سلسلہ جاری رہے۔ کنول کی نوکرانی نے مجھے سنایا تھا کہ فلیٹ میں آتے ہی کنول نے ظفر کو رات کو بلایا تھا۔ کنول کا خاوند دو تین دنوں کے لیے چلا گیا تھا۔ کنول نے گلاب اور موتی کے ہار منگوائے تھے جو اس نے بیڈ روم میں سجائے تھے۔ اس نے ظفر کے ساتھ اس کمرے میں ہنی مون منایا تھا اور ظفر سے کہا تھا کہ میرے اصلی خاوند تم ہو۔ ظفر نے کنول سے ضد شروع کر دی کہ وہ اس کے ساتھ بھاگ چلے اور مسلمان ہو کر اس کے ساتھ شادی کر لے۔ کنول نے اسے کہا کہ وہ مہندر کے ساتھ شادی کر کے پچھتا رہی ہے لیکن جب تک یہ زندہ ہے وہ اس سے آزاد نہیں ہو سکتی۔ کنول نے مجھے بتایا کہ اس نے ظفر سے کہا تھا کہ وہ بیوی جس کسی کی بھی بنادی گئی وہ کچھ نہیں کہے گی لیکن دلی طور پر دوستی ظفر کے ساتھ رکھے گی۔

میرا خیال ہے کنول کی خوبصورتی اور اس کا زندہ دلانہ انداز ایسا طلسماتی تھا کہ ظفر کا اس کے پیچھے پاگل ہو جانا قدرتی امر تھا۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ظفر بہت امیر باپ کا بگڑا ہوا بیٹا تھا اور بیوقوف بھی تھا۔ مہندر قتل ہو گیا تو کنول کو ذرا سا بھی شبہ نہ تھا کہ قاتل ظفر ہے۔ قتل کے بعد ظفر اس سے تین چار بار ملا اور اسے اپنے ساتھ بھاگ چلنے کو اکساتا رہا لیکن کنول اسے کہتی رہی کہ ابھی غائب ہو گئے تو ہم پر قتل کا الزام لگ جائے گا۔ آخری ملاقات میں ظفر اسے بتا بیٹھا کہ اس نے اس کے خاوند کو قتل کیا ہے۔ یہ سننا تھا کہ کنول بگڑ گئی۔ اس نے ایک بار بھی ظفر سے نہیں کہا تھا کہ وہ مہندر کو قتل کر دے۔

"میں اپنے خاوند کے ساتھ خوش تھی۔" کنول نے مجھے بیان دیتے ہوئے کہا، "وہ میرا غلام بنا ہوا تھا۔ میرے اشاروں پر ناچتا تھا مگر ظفر نے مجھے بیوہ کر دیا۔ مجھے میرے گھر سے نکال دیا۔ آپ کہیں گے کہ تمہارے سامنے بڑا اچھا راستہ تھا۔ مسلمان ہو جاتی اور ظفر کے ساتھ شادی کر لیتی۔ لیکن میرے دل کی آواز کچھ اور تھی۔ میں نے اس پر عمل کیا۔"

"یہ تمہارا ذاتی معاملہ ہے کنول!" میں نے کہا، "میں ویسے پوچھ رہا ہوں۔ کیا ظفر کو سزائے موت یا عمر قید دلوا کر تمہیں خوشی ہوگی؟"
"نہیں۔" اس نے کہا، "یہ میرے لیے اتنا ہی بڑا صدمہ ہے جتنا اپنے خاوند کی موت کا ہے۔"
"کیا تم کورٹ میں یہ بیان دوگی؟" میں نے پوچھا۔
"اگر میں نے کورٹ میں بیان نہ دینا ہوتا تو آپ کو یہ راز کیوں دیتی؟" اس نے جواب دیا، "میں کورٹ میں یہی بیان دوں گی۔"

اُسی روز ہم ظفر کے ہیڈ کوارٹر میں جاپہنچے اور کمانڈنٹ سے ملے۔ وہ انگریز کرنل تھا۔ اسے یہ واردات سنائی تو اس نے بھی کہا کہ عجیب لڑکی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ یہ لڑکی دماغی طور پر صحیح معلوم نہیں ہوتی۔
کرنل نے کیپٹن ظفر کو اپنے دفتر میں بلا لیا اور ہمارے حوالے کر دیا۔ ہم اسے اپنے ساتھ لے آئے۔

"کیپٹن ظفر۔" میں نے اسے کہا، "تمہارے لیے صرف ایک راستہ رہ گیا ہے۔ اقبالِ جرم کر لو۔ ہمارے پاس شہادت مکمل ہے۔" پہلے تو اس نے پس و پیش کی پھر جب ہم نے اس کے آگے شہادت رکھ دی اور یہ بھی بتایا کہ ایک ٹیکسی ڈرائیور نے اسے دیکھا تھا اور یہ سکھ اسے پہچانتا ہے تو وہ کچھ ڈھیلا پڑ گیا۔ ہم نے ٹیکسی ڈرائیور کو بلا کر ظفر کا چہرہ دکھا دیا تاکہ عدالت میں وہ کہہ سکے کہ اس نے ظفر کو سرکاری موٹر سائیکل پر آتے دیکھا، مقتول پر گولیاں چلاتے بھی دیکھا۔ ظفر چونکہ امیر باپ کا بیٹا تھا اس لیے وہ سمجھتا تھا کہ دولت سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے۔ اس کی کپتانی بھی خریدا ہوا عہدہ تھا۔ اس کے باپ نے وار فنڈ کو ادا کیا تھا۔ اب ہم نے اس کے آگے قتل کا الزام اور شہادت رکھ دی تو عقل سے اپنی وکالت کرنے کی بجائے اس نے رشوت پیش کی۔ اس نے کہا کہ میں بلینک چیک دستخط کر کے دے دوں گا، جتنی مرضی رقم لکھ لینا۔

حقیقت یہ تھی کہ اس کے خلاف شہادت کمزور تھی لیکن وہ نہ سمجھ سکا کہ رشوت پیش کرنے کا مطلب ہوتا ہے اقبالِ جرم۔ ہم نے اسے حوالات میں بند کر دیا اور شہادت اکٹھی کرنے لگے۔ اس کے ہیڈ کوارٹر سے شہادت مل گئی کہ وہ واردات کی رات سرکاری فوجی موٹر سائیکل لے گیا تھا۔ رجسٹر پر اس کے دستخط موجود تھے۔ رجسٹر میں موٹر سائیکل کی واپسی کا وقت بھی درج تھا۔

بور کا ریوالور اس کا اپنا تھا۔ اس کا لائسنس تھا۔ فوج میں ذاتی ہتھیار مثلاً ریوالور یا شکاری بندوق، اپنے پاس نہیں رکھے جاتے یہ الماری میں رکھے جاتے ہیں اور ریکارڈ پر ہوتے ہیں۔ مالک اپنا اسلحہ لے جائے تو رجسٹر پر دستخط کر کے لے جاتا ہے۔ واپسی پر یہ پھر رجسٹر پر لکھا جاتا ہے۔ ہم نے ریکارڈ دیکھا تو واردات والے دن ظفر اپنا ریوالور لے گیا تھا اور اگلے روز رجسٹر میں واپسی لکھی ہوئی تھی۔ ریکارڈ میں پہلے چوبیس گولیاں تھیں۔ واپس بائیں گولیاں کی گئیں۔ ہم نے موٹر سائیکل، ریوالور، گولیاں اور ریکارڈ کی کاپیاں قبضے میں لے لیں۔ ہمارے پاس دو بڑے مضبوط اور قیمتی گواہ تھے۔ ایک تھی کنول اور دوسری اس کی نوکرانی۔ گواہوں کا ہمیں کوئی غم نہیں تھا، اس کا انتظام ہم کر سکتے تھے۔ میں اور انسپکٹر جوزف نے ان دونوں عورتوں کو گواہی کے لیے تیار کر لیا اور ہم مقدمہ تیار کرنے میں مصروف ہو گئے۔ کیپٹن ظفر ایک عام ملزم کی حیثیت سے ہماری حوالات میں بند تھا۔ اس کے باپ نے اوپر تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ ہم تک بھی پہنچا۔ اس کے پاس دولت تھی جو وہ ہر کسی کو پیش کرتا پھرتا تھا لیکن سوائے دھتکار کے اسے کچھ بھی حاصل نہ تھا۔ ایک مہینے بعد مقدمہ عدالت میں چلا گیا۔ علاقہ تھانیدار سب انسپکٹر رتن کمار پھر میری اور انسپکٹر جوزف کی گواہی ہوئی۔ اس کے بعد اس کیس کی سب سے زیادہ اہم گواہ کنول گواہی دینے کے لیے عدالت میں آئی۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ اب کیس مجسٹریٹ کی کورٹ سے سیشن کورٹ میں آگیا تھا جہاں اس کا فیصلہ ہونا تھا۔ پبلک پراسیکیوٹر کنول سے گواہی دلوانے لگا تو کنول نے کچھ اور ہی حرکتیں اور باتیں شروع کر دیں۔ جج نے اسے وارننگ دی کہ وہ سیشن کورٹ میں کھڑی ہے اور قتل کے کیس کی گواہ ہے لیکن کنول نے ہنسنا شروع کر دیا۔ اس نے جو حرکتیں اور باتیں کیں وہ بہت ہی لمبی ہیں۔ میں ضرورت نہیں سمجھتا کہ یہ سب کی سب لکھی جائیں۔ مثال کے طور پر ایک بات سناتا ہوں۔ پبلک پراسیکیوٹر نے اسے کہا کہ آپ کا خاوند قتل ہو گیا تھا۔ کنول نے جواب دیا کہ میرے دو خاوند تھے۔ ایک قتل ہو گیا ہے اور دوسرا یہ کھڑا ہے۔ مختصر یہ کہ اپیل دائر ہوئی۔ ہائی کورٹ نے صرف اتنی مہربانی کی کہ سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی۔

تقریباً اڑھائی سال بعد پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔ ظفر کا خاندان چونکہ انگریز نواز تھا بلکہ میں انہیں ہندو نواز بھی کہوں گا، اس خاندان میں سے کوئی ایک بھی فرد پاکستان نہیں آیا تھا۔ کنول کے متعلق کیس ختم ہونے کے ڈیڑھ دو مہینے بعد ہی پتہ چل گیا تھا کہ اسے آگرہ کے پاگل خانے میں بھیج دیا گیا تھا۔