انتظار میں پاگل

Sublimegate Urdu Stories

بیٹی جوان ہو جائے تو ماں باپ کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ ایک روز خالو اور ابا جان دونوں باتوں میں مصروف تھے کہ حسنہ کا ذکر چل نکلا۔ خالو نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا کہ کیا بتاؤں بھائی سلیم، جب تک حسنہ کی شادی نہیں ہو جاتی، مجھے سکون کی نیند نہیں آئے گی۔ابا جان نے کہا کہ ارے، یہ کون سی پریشانی کی بات ہے؟ میرے دونوں بیٹے موجود ہیں، جو تمہیں مناسب لگے، اُس پر ہاتھ رکھ دینا۔یہ سن کر خالو خوشی سے پھولے نہیں سمائے، فوراً ابا کا ہاتھ پکڑ کر چوم لیا اور کہا کہ بہت مہربانی آپ کی، جو آپ نے مجھے اس مشکل سے نکال دیا۔ابا جان نے مسکرا کر کہا کہ اس میں شکریے کی کیا بات ہے؟ حسنہ جیسے تمہاری بیٹی ہے، ویسے ہی میری بھی۔پھر ابا نے وضاحت کی کہ دیکھو بھائی، ولید کو ابھی تعلیم حاصل کرنی ہے۔ ہم اُسے اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر بھیجنے والے ہیں۔ رشید، حسنہ سے چھوٹا ہے۔ جب ولید تعلیم مکمل کر کے واپس آئے گا، تب ہم دھوم دھام سے اپنے بچوں کی شادی کریں گے۔

یہ سن کر خالو پہلے تو پریشان ہو گئے، لیکن کچھ سوچ کر رضا مندی ظاہر کر دی۔ابا جان اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولے کہ بھائی سلیم، ہم دونوں بچوں کی منگنی کر دیتے ہیں، اور باقی پروگرام ولید کی واپسی پر رکھیں گے۔ولید بھائی کے باہر جانے کا پورا انتظام ہو گیا۔ ایک روز منگنی کی رسم تھی اور اگلے ہی روز وہ بیرونِ ملک روانہ ہو گئے۔ خالہ اور خالو پشاور میں رہتے تھے۔ حسنہ کو ولید بھائی نے دیکھا نہیں تھا اور نہ ہی انہیں معلوم تھا کہ جانے سے صرف ایک روز قبل اُن کی اس کے ساتھ منگنی طے کر دی گئی ہے۔چونکہ وہ بیرونِ ملک جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے، اس لیے نہ کسی کی بات توجہ سے سُن رہے تھے اور نہ کسی بات پر غور کر رہے تھے۔ انہیں علم تک نہ ہوا کہ شام کو قریبی رشتہ دار اکٹھے ہو رہے ہیں اور حسنہ کو جس لڑکے کے نام کی انگوٹھی پہنائی جا رہی ہے، وہ خود ولید صاحب ہی ہیں۔منگنی بہت سادگی سے انجام پائی۔ دونوں کی ماؤں نے انگوٹھیاں پہنائیں، اور ولید اس رسم کو ایک کھیل کی طرح سمجھ کر روانہ ہو گئے۔

 اسی وقت انگوٹھی ماں کو دے کر کہا کہ یہ آپ رکھ لیجیے، میں کہاں سنبھالوں گا؟دوسری طرف حسنہ، ولید بھائی کے تصور کے ساتھ سہانے خواب بُننے لگی، جبکہ بھائی باہر جا کر پیچھے کی یادیں فراموش کر بیٹھے۔جوں جوں وقت گزرتا گیا، حسنہ کا انتظار بڑھتا گیا۔ وہ ایک ایک پل ولید کی یاد میں گزارتی، اور ہر جھونکے سے اُس کی آمد کی خبر پاتی۔ یوں ہی پانچ طویل سال بیت گئے۔خالہ جان کا انتقال ہو گیا تو حسنہ مستقل ہمارے گھر رہنے لگی، مگر ولید کی کوئی خبر نہ آئی۔ نہ کوئی فون، نہ خط۔ اُدھر خالو جان کو دل کا دورہ پڑا اور وہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ماں تو پہلے ہی جا چکی تھیں، باپ بھی نہ رہا۔ حسنہ کے لیے حالات بہت نازک ہو گئے تھے۔ایک طرف والدین کا غم، دوسری طرف منگیتر کا انتظار، وہ ہر لمحہ اُداس رہنے لگی۔ زیادہ وقت کمرے میں بند رہتی تھی۔ایک روز میں گھر آئی تو فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ جلدی سے ریسیور اٹھایا، دوسری طرف ولید بھائی کی آواز سنائی دی۔ انہوں نے کہا کہ میں ولید بول رہا ہوں، رشید سے بات کروا دو۔میں نے فوراً رشید بھائی کو فون دے دیا۔ ولید بھائی نے ان سے کہا کہ میری بات غور سے سنو، میں آج کراچی پہنچا ہوں اور چند گھنٹوں میں گھر آ رہا ہوں۔ گھر والوں کو اطلاع دے دینا اور گھر کی صفائی ستھرائی کا بندوبست کر لینا۔ میرے ساتھ ایک خاص مہمان ہے۔فون بند ہو گیا۔ہمیں اس خبر سے بے حد خوشی ہوئی۔ میں دوڑتی ہوئی حسنہ کے کمرے میں گئی اور ایک ہی سانس میں ساری بات بتا دی۔

وہ تو خوشی سے ایسے اچھلی جیسے زندگی کے سارے غم ختم ہو گئے ہوں اور کھوئی ہوئی خوشیاں واپس آ گئی ہوں۔گھر میں سبھی خوش تھے، خاص طور پر امی اور ابا جان تو نہال تھے۔جب ولید بھائی گھر میں داخل ہوئے تو گھر دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔ ہم دونوں بہنوں کے ساتھ گھر سجانے والی تیسری شخصیت حسنہ تھی۔شام چھ بجے بیل ہوئی۔ میں دروازہ کھولنے دوڑی۔ سامنے ولید بھائی کھڑے تھے۔ انہوں نے میرے سر پر پیار کیا، پھر رشید سے گلے ملے۔اچانک اُن کی پشت پر ایک خاتون نظر آئیں۔ انہیں دیکھ کر سب کی نگاہیں سوالیہ نشان بن گئیں۔ اماں نے پوچھا کہ بیٹا، یہ کون ہیں؟ولید بھائی نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ یہ میری بیوی ہیں۔ میں نے برطانیہ میں شادی کر لی تھی۔ یہ برٹش ہیں، لیکن ان کے والدین پاکستانی نژاد تھے، جو ان کے بچپن میں ایک حادثے میں وفات پا گئے۔ یہ دنیا میں اکیلی تھیں۔ مجھے اپنی کہانی سنائی تو میں نے ان سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔بھابھی ماریا کی کہانی سُن کر سب کی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔ وہ سب کو اچھی لگیں، حتیٰ کہ ایک لمحے کو میرے والدین بھی حسنہ کو بھول گئے۔ پورا گھر خوشی منا رہا تھا، مگر حسنہ، وہ ماتم کر رہی تھی اپنی اُس زندگی کا جس نے اُسے کچھ دیا ہی نہیں۔ہم سب ڈرائنگ روم میں جمع ہو گئے، نوکر چاکر ولید بھائی اور بھابھی کی خاطر تواضع میں لگے ہوئے تھے، اور ہم اپنے مدت بعد آئے بھائی سے باتیں کر رہے تھے۔امی، ابا سے گفتگو جاری تھی کہ میں نے حسنہ کا ذکر چھیڑ دیا کہ ارے، حسنہ تو نظر ہی نہیں آ رہی۔بھائی نے کہا کہ میں سمجھا کہ خالہ لوگ واپس پشاور چلے گئے ہیں۔

 اگر وہ ہمارے گھر میں ہیں تو مجھ سے کیوں نہیں ملیں؟ابا جان نے بتایا کہ تمہاری خالہ اور خالو دونوں فوت ہو چکے ہیں، اور جب سے حسنہ مستقل ہمارے گھر میں رہتی ہے۔ اوپر چھت والا کمرہ ہم نے اُسے دے دیا ہے۔ولید نے کہا کہ خالہ کے بارے میں تو آپ نے بتایا تھا، مگر خالو کے انتقال کا مجھے علم نہیں تھا۔ اور حسنہ کو کیا ہوا ہے؟اُن کی اس قدر لاپروائی پر میرا دل جل اٹھا۔ میں نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ وہ پاگل ہو گئی ہے، بھیا، تمہارے انتظار میں۔میرے انتظار میں، وہ جیسے کچھ سمجھ نہ پائے ہوں۔میں بولی کہ اتنی جلدی بھول گئے اپنی منگیتر کو؟ اور وہ انگوٹھی، جو خالہ نے پہنائی تھی؟انہوں نے کہا کہ ہاں، ایک انگوٹھی تو خالہ نے دی تھی، مگر میں نے تو اُسے تحفہ سمجھ کر امی کے پاس رکھ دیا تھا۔ تو وہ منگنی کی انگوٹھی تھی؟مجھے غصہ آنے لگا۔ کیا ان کی یادداشت کمزور ہو گئی ہے یا وہ جان بوجھ کر بھول رہے ہیں؟بھیا، وہ تو بےچینی سے آپ کا انتظار کرتی رہی، مگر جب آپ کی شادی کی خبر سنی، اور نئی بھابھی کو دیکھا، تو کانچ کے ٹکڑوں کی طرح بکھر گئی۔ کیا آپ کو یاد نہیں؟ آپ کے جانے سے صرف ایک دن پہلے آپ اور حسنہ کی منگنی ہوئی تھی۔آپ اپنی زندگی کی ساتھی ڈھونڈ لائے، اور وہ، جو آپ کے انتظار کے سہارے جیتی رہی، اب بالکل اکیلی رہ گئی ہے۔اکیلی کیوں، آپ سب اتنے سارے لوگ تو رہتے ہیں اس کے پاس؟ ولید بھائی کے بھول پن پر مر جانے کو جی چاہنے لگا۔ اچھا وہ ہے کہاں؟! اپنے کمرے میں، جب آپ سب سے مل رہے تھے ، وہ آپ کے سامنے کھڑی رہی۔ آپ نے سب سے بات کی، مگر اس کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ اب پوچھ رہے ہو کہ وہ ہے کہاں ؟ اچھا، تو اب مل لیتا ہوں۔ آپ سب سے ملنے کی خوشی میں دھیان نہیں رہا۔ اب وہ بلانے سے نہیں آئے گی۔ اس کا دکھ بانٹنے والا سا تھی کوئی نظر نہیں آیا، تو اپنے کمرے میں اکیلی بیٹھی رو رہی ہے۔ میرے جذباتی ہونے پر ولید بھائی اٹھے اور اس کے کمرے میں چلے گئے۔ میں نے بتا دیا تھا کہ اوپر کی منزل میں اس کا کمرہ ہے۔

وہ اوپر پہنچے۔ حسنہ اکیلی بیٹھی رو رہی تھی۔ ولید بھائی بولے، ارے حسنہ! یہ کیا، تم رو رہی ہو؟ سب تو میرے آنے پر خوش ہیں۔ کیا تمہیں میرے آنے کی خوشی نہیں؟ چلو، آؤ، اٹھو، نیچے چلو۔ سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔حسنہ کچھ نہ بولی، بس روتی رہی۔ ولید بھائی نے بہت کوشش کی کہ وہ کچھ بولے، مگر وہ ناکام رہے اور نیچے لوٹ آئے۔ مجھ سے کہنے لگے، تم ہی اسے چپ کراؤ، وہ تو سنجیدگی سے رو رہی ہے۔بھائی کی بات پر میں حیرت سے انہیں تکنے لگی۔ میں نے کہا، کسی کی امیدیں ٹوٹ جائیں، تو وہ سنجیدگی سے ہی روتا ہے، بھائی جان۔امی بھی کہنے لگیں، حسنہ کے ساتھ بہت برا ہوا ہے۔ یہاں تم منگنی کر کے گئے اور وہاں شادی کر لی، ہمیں بتایا تک نہیں۔ اگر ہمیں پہلے بتا دیتے، تو ہم اسے دھوکے میں نہ رکھتے۔ یہ اچانک کا صدمہ بہت جان لیوا ہوتا ہے، بیٹا۔ولید بولے، کچھ مجبوریاں تھیں ماں۔ اگر آپ لوگ میری منگنی کے بارے میں مجھے برطانیہ میں بتاتے، تو شاید میں اس بات کو سنجیدگی سے لیتا۔ 

یہاں سے تو میں اتنی جلدی میں گیا تھا کہ کسی سے کوئی بات بھی نہ ہو سکی۔ وقت بہت کم تھا میرے پاس۔ بعد میں بھی آپ نے مجھے واضح طور پر کچھ بتایا نہیں۔ غلطی میری ہے تو آپ لوگوں کی بھی ہے۔ اب میں وہاں شادی کر چکا ہوں۔ وہاں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، اب آپ کو کیا بتاؤں۔ البتہ حسنہ کے مسئلے کا حل کل بتاؤں گا۔ اس بیچاری یتیم لڑکی کو ناحق سزا ملی ہے میری وجہ سے، مجھے دکھ ہو رہا ہے۔مدت بعد بھائی کو دیکھا، مگر دل میں دو باتوں کا غصہ تھا: ایک تو یہ کہ انہوں نے دو سال ہم سے کوئی رابطہ نہ رکھا، دوسرا یہ کہ انہوں نے حسنہ کے بارے میں بے حسی دکھائی۔ ان سے منہ موڑ لینے کو جی چاہنے لگا۔ کیا واقعی بیرونِ ملک جا کر لوگ اپنے بھی اس قدر بدل جاتے ہیں؟ اس سوال نے میرا دل زخمی کر دیا۔ولید بھائی تھکے ہوئے تھے۔ ان کے لیے جو کمرہ میں نے حسنہ کے ساتھ مل کر سجایا تھا، وہ اسی میں اپنی بیوی کے ساتھ آرام کرنے چلے گئے۔وہ رات حسنہ پر بہت بھاری گزری۔ اس نے بھی اپنے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر لیا اور میرے لاکھ آواز دینے پر بھی دروازہ نہ کھولا۔ ہم سب تھک چکے تھے، آخر کار میں بھی سو گئی۔

صبح ناشتے کے وقت بھائی اور بھابھی کو ناشتہ دیا۔ وہ پاکستانی والدین کی بیٹی تھیں، مگر ان کی وفات کے بعد ایک انگریز میاں بیوی نے انہیں گود لے لیا تھا۔ وہ اردو نہیں جانتی تھیں، البتہ انگریزی بولتی اور سمجھتی تھیں۔مہمان نوازی سے فارغ ہو کر میں اور ولید بھائی اوپر گئے اور حسنہ سے کہا، دروازہ کھولو۔ جب ہم نے بہت زیادہ دستک دی تو اس نے دروازہ کھول دیا۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، لگتا تھا رات بھر اس نے آنسوؤں اور آہوں کے درمیان گزاری ہے اور ایک پل بھی سو نہیں سکی۔میں نے اسے پیار کیا، سمجھایا۔ اب ولید بھائی کو بھی اس کی حالت دیکھ کر دکھ ہو رہا تھا۔ میں نے بہت کوشش کر کے اسے ناشتہ کروایا۔ دوپہر کے وقت بھی وہ کھانے کی میز پر نہ آئی۔ اب ولید بھائی پریشان دکھائی دینے لگے۔ وہ دل سے اپنی خالہ زاد کا دکھ محسوس کر رہے تھے۔بالآخر انہوں نے ابا جان سے بات کی۔ بولے، ابا جی! میرے خیال میں حسنہ اسی گھر کا فرد ہے اور اسے اسی گھر میں رہنا چاہیے۔ 
میں شادی کر چکا ہوں، اب آپ کچھ ایسا کریں کہ اس کی شادی رشید سے ہو جائے تاکہ وہ اس گھر کی بہو بن جائے۔ اس گھر کے سوا وہ کہاں جا سکتی ہے؟رشید بھائی کے ذہن میں کبھی ایسی بات نہیں آئی تھی۔ وہ یہ سن کر چونک گئے۔ میں نے کہا، رشید بھیا! اس میں چونکنے کی کیا بات ہے؟ ہم حسنہ کو راضی کر لیں گے، اگر آپ راضی ہو جائیں۔ وہ آپ سے دو چار سال بڑی ہے تو کیا ہوا؟ مرد تو اس سے بھی بڑی عمر کی عورتوں سے شادی کر لیتے ہیں۔رشید نے کہا، میں اس احسان کے طور پر شادی نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے کچھ سوچنے کا وقت دیجئے۔ اور ویسے بھی، مجھے نہیں لگتا کہ حسنہ راضی ہو گی۔میں نے کہا، اس کا ہمارے سوا کوئی نہیں۔ اگر وہ راضی نہ ہوئی تو کہاں جائے گی؟ ویسے بھی، ولید بھائی سے اس کی صرف منگنی ہوئی تھی، کوئی افیئر تو نہیں رہا۔ ہم اسے راضی کر لیں گے۔رشید کو سمجھانے کے بعد میں اور امی حسنہ کے پاس گئے اور اسے منانے لگے۔ پہلے وہ نہیں مانی۔ تب امی رونے لگیں، میں نے بھی رو کر کہا، حسنہ! تم کو میری بھابھی ہی بننا تھا، اور تم میری بھابھی ہی بنو گی۔ایک ہفتے کی محنت کے بعد بالآخر ہم نے اسے منا لیا۔ ولید بھائی بھی گئے اس کے پاس اور بولے، تم میری خاطر نہ سہی، میری ماں کی خاطر یہ رشتہ قبول کر لو، جو تم سے بہت پیار کرتی ہیں اور تمہیں اپنی بیٹی سمجھتی ہیں۔ میرے والد، بہنیں سب تم سے محبت کرتے ہیں۔ مجھ سے تمہیں دکھ ملا، مگر میری ماں کی خوشی کے بدلے میں، ان کو خوشی دے دو۔ 

رشید سے شادی کر کے اس گھر کی بہو بن جاؤ۔ اسی میں ہمارے گھر کی بھلائی ہے۔اگر تم نے ہمیں قبول نہ کیا، تو میں بھی اپنے والدین کو چھوڑ دوں گا اور دوبارہ کبھی ان کی صورت نہ دیکھوں گا۔یوں انہوں نے حسنہ کو رضامند کر لیا اور اس کی شادی چھوٹے بھائی رشید سے کر دی گئی۔حسنہ کا دکھ جانتے ہوئے رشید بھائی نے اسے ایک نازک پھول کی طرح سنبھالا، اسے خوشیاں دیں۔ وہ آہستہ آہستہ ولید بھائی کے دیے ہوئے دکھوں کو بھولنے لگی۔ ولید بھائی اپنی بیوی کے ساتھ واپس لندن چلے گئے۔ فیکٹری رشید نے سنبھال لی۔ ابا جان تو اب بوڑھے ہو چکے تھے۔ایک دن رشید کو فیکٹری کا کچھ سامان لینے لاہور جانا تھا۔ انہوں نے ہوائی جہاز کا ٹکٹ لیا اور روانہ ہو گئے۔ واپسی میں تاخیر کی وجہ سے وہ ہوائی جہاز کی بجائے کوچ پر روانہ ہو گئے۔ اُدھر خدا کی مرضی کہ اُس جہاز کو حادثہ پیش آنا تھا۔
جب یہ خبر گھر پہنچی تو سب کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ حسنہ یہ خبر سنتے ہی زرد پڑ گئی۔ سب لوگ فون کر رہے تھے۔ ابا جان ایک دوست کے ہمراہ ایئرپورٹ دوڑ گئے، ولید بھائی فون پر لگے تھے، امی رو رہی تھیں اور میں قرآن پاک پڑھتے ہوئے دعائیں کر رہی تھی کہ اے خدا! رشید سلامت ہوں، وہ اُس جہاز سے روانہ نہ ہوا ہو۔حسنہ اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور بستر پر لیٹ گئی۔ ہم سب اپنے غم میں ڈوبے تھے، کسی نے یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ کس حال میں ہے۔رشید کا ایک دن کا کام تھا۔ سامان بک کروا کر وہ واپس لوٹے، تو ہم سب خوشی سے ساکت رہ گئے۔ سب نے سجدۂ شکر ادا کیا۔ مگر اوپر کی منزل پر سناٹا چھایا ہوا تھا، جہاں حسنہ بستر پر پڑی تھی۔جب کسی نے اُوپر جا کر اسے دیکھا، تو اس کی آنکھیں بند تھیں، رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔ وہ بے حس و حرکت لیٹی تھی۔ اسے ٹھنڈا پا کر ہماری جان نکل گئی۔ سب گھر والے اس کے اردگرد جمع ہو گئے۔رشید نے اس کا ہاتھ تھاما، تو حواس باختہ ہو گئے۔ حسنہ، جس سے ملنے کو وہ بے تاب تھے، اب سرد ہو چکی تھی۔ یوں وہ اپنا غم دل میں لے کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئی۔ہم سب آج تک اس کی موت کا غم نہیں بھلا سکے۔ نہ جانے اسے ماں باپ کی جدائی کا صدمہ تھا، ولید بھائی کی بے وفائی کا دکھ یا رشید کے جہاز گرنے کی خبر نے اسے اندر سے توڑ دیا تھا۔ شاید اُسی خبر نے اسے موت کا یقین دلایا اور وہ صدمے کی تاب نہ لا کر دنیا سے رخصت ہو گئی۔

خدا اُس کی مغفرت فرمائے اور ہر یتیم بچی کی قسمت اچھی کرے، تاکہ وہ رشتہ داروں کے رحم و کرم پر اپنی زندگی نہ گزاریں۔ آج بھی جب حسنہ یاد آتی ہے، وہ حسنہ جس سے ہم نے خود غرضی اور بے حسی کا سلوک روا رکھا، تو آنکھیں بے اختیار نم ہو جاتی ہیں

 (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ