والد ایک ہوائی کمپنی میں آفیسر تھے۔ میں اکثر ان کے ساتھ ایئرپورٹ جاتی تو ایئر ہوسٹسز مجھے بہت اہمیت دیتیں، محبت سے ملتیں اور میرا خاص خیال رکھتیں۔ ان کی وردی مجھے بے حد پسند تھی۔ میں نے بچپن ہی سے تصور میں خود کو ان ہی کی طرح ایک فضائی میزبان کے روپ میں دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ہم ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ والد کی آمدنی اچھی تھی، زندگی کی تمام آسائشیں میسر تھیں اور طرزِ زندگی قابلِ رشک تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وقت کے ساتھ معزز گھروں سے رشتے آنے لگے۔ مگر میں نے ہر رشتہ ٹھکرا دیا، کیونکہ میرا خواب ایئر ہوسٹس بننا تھا۔
وہ خواب جو بچپن سے میری آنکھوں میں بسا ہوا تھا۔ والدین چاہتے تھے کہ میں جلد از جلد شادی کر لوں اور ملازمت سے باز رہوں، مگر میں اپنے فیصلے پر ڈٹی رہی۔ والد صاحب نے بالآخر اجازت دے دی اور انہی کے ذریعے میری درخواست جمع ہوئی۔ انہی دنوں ایئر ہوسٹسز کی کچھ اسامیاں خالی تھیں۔ میری شکل و صورت اور خوداعتمادی کی وجہ سے بغیر کسی سفارش کے منتخب ہو گئی۔ خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میرا خواب حقیقت میں بدل چکا تھا۔ ٹریننگ مکمل ہوئی اور جلد ہی ڈیوٹی کا آغاز ہو گیا۔ دن ہو یا رات، جو بھی پرواز ملتی، میں نہ تھکتی، نہ اکتاتی۔ گھر واپس آتی تو ہشاش بشاش، خوش و خرم ہوتی، جبکہ دیگر لڑکیاں تھکن کی شکایت کرتی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ یہ پیشہ میری فطرت میں شامل ہے۔
چار سال میں نے بے حد اطمینان سے یہ ملازمت کی۔ انٹرنیشنل فلائٹس کا تجربہ حاصل کیا اور دنیا کے بیشتر ممالک کی سیر کر چکی تھی۔ والد صاحب اب بیمار رہنے لگے، دل کا عارضہ لاحق ہو گیا، تو انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی۔ اب انہیں اپنی بیٹیوں کی شادیاں کروانے کی فکر لاحق ہو گئی۔ وہ اصرار کرنے لگے کہ میں اپنی شادی کے بارے میں سنجیدہ ہو جاؤں۔مگر میں ابھی شادی کے لیے تیار نہ تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ پہلے میری دونوں چھوٹی بہنوں کی شادیاں کر دیں، پھر میں اپنے لیے خود فیصلہ کروں گی۔ میں کسی انجانے شخص سے، بنا جانے سمجھے، شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ایک لڑکی جو ملکوں ملکوں گھومتی ہو، جو دن رات کی ڈیوٹی کرتی ہو، اس میں اتنا اعتماد آ جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے بارے میں خود فیصلے کر سکے۔ اور میں سمجھتی تھی کہ یہ میرا حق ہے۔
والدین کو میں نے دلائل سے قائل کر لیا۔ وہ خاموش ہو گئے اور میری چھوٹی بہنوں کے رشتے طے کرنے میں مصروف ہو گئے۔ مزید دو سال گزر گئے۔ اب مجھے خود بھی فکر لاحق ہوئی کہ کہیں دیر نہ ہو جائے، اور پھر کوئی عمر رسیدہ یا پہلے سے شادی شدہ شخص ہی میرا مقدر نہ بنے۔ میری خواہش تھی کہ میرا شریکِ حیات وہ ہو جو مجھ پر بھروسا کرے، مجھے آزادی دے، میری ملازمت کو سراہنے والا ہو، نہ کہ روکنے والا۔ ایسے ہی ایک دن ایک بین الاقوامی پرواز کے دوران میری ملاقات فراز سے ہوئی۔ اس کی شخصیت نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ وہ بھی میری جانب مائل تھا۔ اس نے میرا فون نمبر اور پتہ مانگا، اور میں نے بلا جھجک دے دیا۔کچھ ملاقاتوں کے بعد ہم نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ پہلے فراز نے مجھے اپنی والدہ سے ملوایا، انہوں نے مجھے پسند کیا اور اپنی رضامندی دے دی۔ پھر ایک دن فراز کو میں نے والدین سے ملوایا۔ وہ ایک سلجھا ہوا، خوش شکل اور انجینئر تھا، والدین کو بھی پسند آ گیا۔ یوں ہمارے رشتے کی بات طے پا گئی۔شادی ہو گئی۔
میں نے ایک ماہ کی چھٹی لی، اور ہم نے یہ یادگار دن خوشی و مسرت کے ساتھ گزارے۔ ابتدائی ایک سال تک حالات نہایت خوشگوار رہے، مگر وقت کے ساتھ ساس صاحبہ نے شکایات شروع کر دیں۔ درحقیقت، میرا کوئی دیورانی یا جیٹھانی نہ تھی، صرف دو دیور تھے، اور ساس چاہتی تھیں کہ میں گھر پر رہوں، ان کی خدمت کروں۔ انہیں میری ملازمت کے اوقات پسند نہ آئے۔ میرے انٹرنیشنل فلائٹس کی وجہ سے کئی کئی دن گھر سے باہر رہنا پڑتا تھا۔ بعض اوقات سات سے دس دن بھی بیرونِ ملک قیام ہوتا۔ یہ بات ساس کو سخت ناگوار گزرتی۔وہ کہتیں کہ لوگ کیا کہیں گے، کیسی بہو ہے جو گھر میں رہتی ہی نہیں، اور ایسی بیوی کا کیا فائدہ جو شوہر کو راتوں کو بھی اکیلا چھوڑ دے- شروع میں ساس کی ان باتوں کو درگزر کیا۔ سوچا یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں، جب فراز کو میری ملازمت سے کوئی مسئلہ نہیں تھا تو جو کچھ وہ کہتی رہیں، کہتی رہیں۔
رفتہ رفتہ جب وہ فراز کے زیادہ ہی کان کھانے لگیں تو وہ بھی الجھن میں مبتلا ہونے لگے۔ ماں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ کہتی تھیں کہ بیوی سے نوکری چھڑوا دو، ہمیں اس کی کمائی کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔ اگر اتنی ہی نوکری کی شوقین ہے تو کسی اسکول میں ٹیچر بن جائے، صبح جائے اور دوپہر کو گھر آجائے۔ لیکن یہ دن رات گھر سے غائب رہنا مجھے گوارا نہیں۔ جو رشتے دار آتے ہیں، یہی کہتے ہیں کہ فراز کی بیوی گھر میں نہیں رہتی۔ یہ ہمارے لیے بڑی بے عزتی کی بات ہے۔ ایسی نوکری جائے بھاڑ میں، تم کماؤ، وہ گھر بار دیکھے اور آرام سے تمہاری کمائی کھائے۔ میں اب بوڑھی ہو چکی ہوں، مجھ سے گھر کی تمام ذمہ داریاں سنبھلتی نہیں ہیں۔فراز روز روز ماں کی چیخ پکار سے تنگ آ کر ایک دن مجھے کہنے لگے کہ تم اب ملازمت سے استعفیٰ دے دو، ورنہ اماں مجھے جینے نہیں دیں گی۔ وہ بہت بے سکون رہتی ہیں تمہاری دن رات غیر موجودگی کی وجہ سے۔ دراصل ان کا کہنا بھی درست ہے، وہ شوگر کی مریضہ ہیں، سارا انتظام نہیں سنبھال سکتیں، تھک جاتی ہیں۔ انہیں گھر میں تمہاری اشد ضرورت ہے، اس بات کو تم سمجھو یا نہ سمجھو۔میں نے کہا فراز، لیکن تم نے تو شادی سے پہلے اجازت دی تھی کہ میں ملازمت جاری رکھوں گی اور تم منع نہیں کرو گے۔
یہ معاملہ ہمارے درمیان طے پا چکا تھا۔ فراز بولے، ہوا تھا مگر عمر بھر کے لیے نہیں۔ اب مجبوری ہے۔ ماں پریشان رہتی ہیں۔ آخرکار ہمیں ہی ان کے بارے میں سوچنا ہے۔میں نے کہا وہ خواہ مخواہ پریشان رہتی ہیں، گھر میں نوکر ہیں، ملازمہ ہے، ان کو کام کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔ میری آپ سے یہ بات شادی سے پہلے طے ہو چکی ہے کہ ملازمت نہ چھوڑوں گی اور آپ نے منظور بھی کیا تھا۔ آپ یہ بھی جانتے تھے کہ اس ملازمت کی نوعیت ایسی ہے کہ مجھے کبھی رات دن گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے۔ اپنی والدہ کو سمجھاؤ کہ ہر وقت ملازمت کو ایشو نہ بنائیں ورنہ میرا اور آپ کا تعلق ختم ہو جائے گا۔ میں نے بھی حتمی بات کہہ دی ہے۔فراز نے والدہ کو سمجھایا، مگر وہ نہ سمجھ سکیں۔ بولیں کہ میرے بیٹے کی بیوی نہیں ہے، سوچا تھا کہ بہو بیٹی کی طرح رہے گی۔ اب تمہارے چھوٹے بھائیوں کی شادی کرنی ہے۔ شادی کی تیاری کے لیے بازار کے چکر لگانا، بری بنانا یہ سب مجھ اکیلی کے بس کی بات نہیں ہے۔ بتاؤ کس کا سہارا لوں؟ بس تم بیوی سے کہو کہ نوکری چھوڑ دے۔ ہمارے پاس روپے پیسے کی کمی نہیں، آخر اسے نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے؟یہ بات تو صحیح تھی کہ فراز اچھی پوسٹ پر تھے اور گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی، مگر میں ملازمت روپے پیسے کے لیے نہیں کر رہی تھی۔
مجھے تو بس شوق تھا اور انسان اپنے شوق کی تسکین کے لیے کیا نہیں کرتا۔ یہ بات بعد میں سمجھ میں آئی کہ مرد کی بھی گھر میں ایک حیثیت ہوتی ہے۔ اگر وہ شوہر ہوتا ہے تو بیٹا بھی ہوتا ہے۔ دونوں رشتوں میں توازن نہ رہا تو گھر کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔کسی طرح دو سال اور گزر گئے۔ میرے دیوروں کی بھی شادیاں ہو گئیں۔ وہ ملازمت کے سلسلے میں دوسرے شہروں چلے گئے اور اپنی بیویاں ساتھ لے گئے۔ میری ساس کی آرزو پھر ادھوری رہ گئی کہ کوئی بہو گھر میں ان کے ساتھ موجود ہو۔سال بعد دیورانی کے بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ ساس خوش ہونے کی بجائے رونے لگیں کہ مجھے تو بڑے صاحبزادے کی اولاد دیکھنے کی چاہ تھی، لیکن اس کی بیوی گھر بیٹھے تب نہیں۔ ان کی بات درست تھی، مگر میں پانچ سال اور سروس میں رہنا چاہتی تھی تاکہ ملازمت چھوڑنے کے بعد کے فوائد کی حق دار بن سکوں۔ اس لیے اولاد کے ہونے سے اجتناب برتی جا رہی تھی اور فیملی پلاننگ کے طریقوں پر عمل پیرا تھی۔ میں نے شادی کو اپنے دفتر والوں سے چھپایا ہوا تھا۔ ملازمت کے اوقات ایسے تھے کہ بچے کی پیدائش کے مراحل طے کرنا اور اس کی پرورش میرے لیے مشکل تھی۔ میں کیسے ماں بنتی؟آج میں مانتی ہوں کہ انسان کے بعض شوق اسے لے ڈوبتے ہیں۔ اگر مجبوری مالی ہو تو بات اور ہے، مگر میرے ساتھ ایسا نہیں تھا۔ اولاد بھی ایک نعمت ہوتی ہے اور وقت پر اولاد کا ہونا ہی بہتر ہوتا ہے۔ میں اس بات کو سمجھ نہ سکی اور ملازمت کے جنون نے مجھے لے ڈوبا۔رفتہ رفتہ ساس نے مجھ سے بحث و تکرار بند کر دی اور خاموش ہو گئیں۔ نہیں جانتی تھیں کہ ان کی یہ خاموشی کسی خطرناک صورتحال کا پیش خیمہ ہے۔ جب ان کی آرزو حسرت میں بدلنے لگی تو انہوں نے اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر کچھ ایسا منصوبہ بنا لیا کہ مجھے کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ اور وہ سازش تیار ہو گئی جس نے میرا گھر تباہ کر دیا۔
ان دنوں میری ساس بیمار تھیں۔ انہیں دیکھ بھال کے لیے کسی ہمدرد کی ضرورت تھی جو بیٹی کا کردار ادا کر سکے۔ انہوں نے اپنے گاؤں پیغام بھجوادیا۔ تو ان کے بھائی نے فوراً اپنی اٹھارہ سالہ بیٹی کو ان کی خدمت کے لیے ہمارے گھر بھیج دیا۔ نبیلہ نے آتے ہی اپنی پھپھو کی دیکھ بھال شروع کر دی۔ وقت پر کھانا بنانا، نہلانا دھلانا، کپڑے تبدیل کرانا، غرض تمام کام محبت اور دلجوئی سے کرتی۔ اس نے ہمارے گھر کا سارا انتظام سنبھال لیا اور اپنی پھپھو کو پلنگ پر بٹھا دیا۔ یہی نہیں، فراز کو بھی بہت آرام ملا۔ نبیلہ کے ہاتھ کا پکا کھانا نوکروں کے کھانے سے کہیں بہتر تھا۔ ان کے پکے کھانوں میں وہ لذت کہاں جو نبیلہ کے ہاتھ میں تھی۔ وہ تمام کام توجہ اور سلیقے سے کرتی تھی۔ اس کے والد نے اسے نصیحت کی تھی کہ میری بہن کا بہت خیال رکھنا، انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ دینا کیونکہ وہ بوڑھی ہیں۔
مجھے فراز پر بے حد اعتماد تھا۔ لگتا تھا کہ ہمارے درمیان اعتبار کا رشتہ کبھی ٹوٹے گا نہ وہ کسی اور عورت کی طرف مڑیں گے، نہ مجھ سے دھوکہ کریں گے۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ پیار کا سپنا صرف خواب ہوتا ہے، اور اصل حقیقت وہ چیز ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ میاں بیوی کے رشتے بھی ضرورت کے دھاگے سے بندھے ہوتے ہیں۔میں تو فلائٹ پر ہوتی، گھر پر فراز اور نبیلہ ہوتی۔ وہ گاؤں کی سیدھی سادی لڑکی تھی، جو صرف آٹھویں پاس تھی، مگر اس میں وہ گن تھے جو ساس بہو میں دیکھنا چاہتی تھیں۔ پس اس کی قسمت جاگ رہی تھی کیونکہ میری قسمت سونے والی تھی۔ ماں نے فراز سے قسم کھائی کہ تم میری بھتیجی سے شادی کر لو تاکہ میں تمہاری اولاد کی خوشی دیکھ کر مر سکوں۔ تمہاری بیوی ائیر ہوسٹس رہنا چاہتی ہے تو اسے ائیر ہوسٹس ہی رہنے دو۔ وہ نہ ماں بننا چاہتی ہے، نہ بہو، نہ بیوی۔ پھر وہ ہمارے کس کام کی ہے؟رو پیٹ کر انہوں نے فراز سے اپنی بات منوائی اور مجھ سے چھپ چھپا کر نبیلہ کا نکاح خاموشی سے فراز سے کروا دیا۔
لڑکی کے والدین نکاح میں بلوا لیے گئے، نہ کوئی برات، نہ دھوم دھڑکا۔ لڑکی تو پہلے ہی گھر میں رہ رہی تھی۔ فراز کی ماں کی خدمت کرتی ہوئی وہ میری سیج کی حصہ دار بن گئی۔ اس نے اپنی سہاگ رات میری ہی خواب گاہ میں بسر کی اور مجھے اتنے بڑے معاملے کی ہوا تک نہ ہونے دی۔ حتیٰ کہ نوکروں نے بھی لب سی لیے۔ میں گھر آتی، نبیلہ پہلے جیسی بے زبان، مسکین، خدمت گزار بن جاتی۔ مجھے کھانا ہاتھ میں دیتی اور میری بھی خدمت کرتی۔ میرے سامنے فراز یہ ظاہر نہ ہونے دیتے کہ ان کا نبیلہ سے کوئی تعلق ہے۔ وہ تبھی ان سے دور دور رہتی۔ غرض جس طرح اس کو میری ساس نے سمجھایا تھا وہ ویسے ہی کرتی۔
سال بعد یہ بھید تب کھلا جب وہ ایک بچے کی ماں بننے والی تھی۔ ظاہر ہے کہ اب اس راز کو کیسے پوشیدہ رکھا جا سکتا تھا۔ جب یہ خبر ساس نے مجھے سنائی تو میرے حواس جاتے رہے۔ پہلے تو جی چاہا کہ ہر کسی کو شوٹ کر دوں ، پھر دل چاہا کہ خود کشی کرلوں۔ یہ دونوں کام ہی نا ممکن تھے۔ رونے سے توہین کا احساس اور بڑھ گیا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا تو بیگ میں چند کپڑے ڈالے اور ایک سہیلی کے گھر چلی گئی۔ میرے بہت روچکنے کے بعد اس نے سمجھایا کہ اب میں اس صدمے کو حوصلہ سے برداشت کروں کیونکہ قصور میرا بھی تھا۔ روبینہ نے مجھے سمجھایا۔ عالیہ دیکھو۔ مرد شادی کرتا ہے تو گھر آباد کرنے کے لئے ، اپنے سکھ کے لئے اور نسل آگے بڑھانے کے لئے تم نے فراز کو کون سا سکھ دیا ہے ؟ تمہیں تو اپنی نوکری کی پڑی رہی۔ یہاں تک کہ فراز کو تمہاری ضرورت ہی نہ رہی اور اب تمہاری عمر پینتیس سال ہو چکی ہے۔ اولاد نہ ہونے کے لئے گولیاں کھا کھا کر اپنی صحت تباہ کر چکی ہو۔ میں نے حالات کا تجزیہ کیا، قصور اپنا ہی نکلا۔ میں فراز کو نبیلہ کے بغیر دیکھنا چاہتی تھی جب کہ اب وہ اس کے لئے اہم ہو چکی تھی کہ اس کے بیٹے کی ماں بن گئی تھی۔ سوچا کہ اب تو بر بادی ہو چکی۔ گھر کی مالکہ دوسری عورت بن گئی تو اب کس کے لئے ملازمت چھوڑوں ؟ بعد میں فراز اور اس کے والدین نے میرے والدین سے معافی مانگی۔
حالات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے مجھے فراز سے صلح کے لئے کہا، کیونکہ دوائوں کے مسلسل استعمال کی وجہ سے میں ماں نہیں بن سکتی تھی۔ ساس نے بھی مجھے منانے میں کوئی کسر نہ رکھی تب میں اپنے گھر چلی آئی کیونکہ اپنے گھر کے سوا مجھے کہیں سکون بھی تو نہ ملتا تھا۔ اولاد کے علاج کے لئے فراز مجھے لندن لے گئے لیکن ڈاکٹر ز نے بتادیا کہ میں اب ماں نہیں بن سکتی۔ نبیلہ کو خدا نے چھ بیٹوں سے نوازا۔ اس کا دل شاد اور گھر آباد ہے اور میں اس کے بچوں کی بڑی ماں ہوں۔ نبیلہ اور فراز نے بچوں کی یہی تربیت کی ہے کہ وہ مجھے بڑی ماں کہیں، سمجھیں اور میرا ادب کریں۔ وہ میرا ادب کرتے ہیں۔ میں سوتیلی سہی ، وہ مجھے ماں ہی کہتے ہیں اور فرمانبرداری کرتے ہیں۔ یہ خدا کی شان ہے کہ وہ کسی درخت کو پھل پھولوں سے لاد دیتا ہے اور کچھ عورتیں ببول کی چھاڑیوں جیسی کہ جن پر صرف ببول ہی اگتے ہیں۔ وہ عورتیں خوش نصیب ہوتی ہیں جو ماں کہلاتی ہیں اور ماں کے رتبے کو پہنچتی ہیں کیونکہ عورت کی عظمت اور شان اسی میں ہے کہ وہ ماں کہلائے۔ میں نے ملازمت چھوڑ دی ہے مگر اب پچھتاتی ہوں۔ مرد ہو یا عورت، انسان کو چاہیے کہ وہ حقیقی زندگی جئے اور تخیل پرست نہ بنے کیونکہ غیر قدرتی زندگی بسر کرنے والوں کو سچی خوشیاں نہیں ملتیں۔
.jpg)