غرور کی راکھ

Sublimegate Urdu Stories

عامر مجھے چاہتا تھا۔ ہم بچپن سے ایک گھر میں ساتھ پلے بڑھے اور کھیلے۔ میں دل سے اس کو پیار کرتی تھی اور اپنے دکھ سکھ دل کی ساری باتیں اسے بتاتی تھی، مگر لبوں سے کبھی اقرار نہ کیا۔ وہ بھی جانتا تھا کہ اس کی کتنی چاہت میرے دل میں ہے ، مگر وہ گھنا تھا، اپنی محبت کا اقرار نہیں کرتا تھا۔ شرارتیں ضرور کرتا اور میں جواب میں صرف مسکرا دیا کرتی تھی۔ ہمارے رشتے میں چچا، چچی، پھوپھیاں، خالائیں بھی رکاوٹ کا پہاڑ بنے ہوئے تھے۔ سب کو اپنے اپنے بیٹوں کے لئے میرا ہی رشتہ درکار تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ مجھ میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں۔ بس میں ہنس مکھ تھی۔ سب سے اپنائیت سے ملتی ، ہر کسی کی عزت کرتی تھی۔ میں خوبصورت تھی اور بھی کہتے تھے کہ یہ لڑکی بڑی صابر ہے۔ کبھی کسی کا گلہ شکوہ شکایت نہیں کرتی۔ کسی کی برائی نہیں کرتی، چپ رہتی ہے۔ شاید یہ باتیں ان کو سب کو پسند ہوں، مگر عامر نے بھی ہمت دکھائی اور آخر اپنے والدین کو منا ہی لیا، جو رشتہ داروں کے دباؤ میں آئے ہوئے تھے۔ مجھے کہلوایا کہ روبینہ ! جو نہی میری والدہ رشتہ طلب کرنے آئیں، اپنی امی سے کہنا کہ شرطوں وغیرہ کی کوئی بات نہ کریں، فوراً منگنی کی تاریخ مانگ لیں۔

 اس پیغام کے ایک روز بعد تائی جی رشتہ طلب کرنے آ گئیں۔ وہ مٹھائی، انگوٹھی ساتھ لائی تھیں۔ انہوں نے پوچھا۔ کوئی شرط ہے ؟ امی نے جواب دیا۔ کوئی شرط نہیں، اپنوں سے کیسی شرطیں ؟ اسی وقت تائی نے میری انگلی میں انگوٹھی ڈال دی، جس پر میرے اور عامر کے نام کے پہلے حروف کنندہ تھے۔ تائی چلی گئیں تو امی نے پوچھا۔ تم راضی ہونا اس رشتے پر ؟ میں نے ہاں کہہ دی۔ ماں کو میری مرضی کا علم تو تھا ، پھر بھی عندیہ پوچھنا ایک شرعی مسئلہ تھا وہ انہوں نے پورا کیا۔ ان دنوں گرمی کی چھٹیاں تمام ہونے کو تھیں۔ ہفتے بعد اسکول کھل گیا۔ ہم اسکول گئے تو یہ بری خبر سنے کو ملی کہ ہماری پیاری سائنس ٹیچر کا انتقال ہو گیا ہے۔ وہ مجھے بہت پیاری تھیں، ہم سے شفقت سے پیش آتی تھیں۔ پڑھائی میں کوئی مسئلہ ہو تا بار بار سمجھاتیں۔ اس خبرے میں بہت ہرٹ ہوئی۔ میں حساس لڑکی تھی۔ جس سے لگاؤ ہوتا، صدق دل سے اسے چاہنے لگتی تھی۔ میڈم عارفہ کی موت کا غم ایسا لگا کہ اسکول جانے کو دل نہ کرتا، تبھی میں نے اسکول جانا چھوڑ دیا۔ پرنسپل صاحب نے امی کو بلوایا۔ میں بھی ان کے ساتھ گئی۔ ظاہر پرنسپل نے بلوایا تھا ، جانا ہی تھا۔ انہوں نے پوچھا۔ اسکول کیوں نہیں آرہی روبینہ ؟ اس سے پوچھئے۔ میری ماں نے جواب دیا۔ میں نے بتایا کہ میڈم عارفہ کے دکھ کی وجہ سے اب پڑھائی سے میری دلچسپی ختم ہو گئی ہے۔ تب انہوں نے سمجھایا کہ کچھ دن بعد تمہارے میٹرک کے پیپرز ہیں، تم غافل مت بنو۔ انسان کی جان اللہ کی امانت ہوتی ہے، اس کی مرضی جب واپس لے لے۔

 ہمیں حق نہیں کہ اس پر اتنا واویلا کریں، یا زندگی کے اہم کاموں سے منہ موڑ لیں ۔ تم کل سے اسکول آنا ہو گا۔ میری ہم جماعت لڑکیوں نے بھی مجھے خط لکھا کہ پلیز رو ببینہ اسکول آجاؤ، دل نہیں لگتا تمہارے بغیر۔ کلاس میں کوئی شرارت کرنے والا بھی نہیں رہا ہے۔ اچھا، اگر نہیں آنا تو مت آؤ، مگر اپنے لمبے بال کٹوا کر بھیج دو اور تم ٹنڈ کروا لو۔ قسم سے بڑی پیاری گڑیا سی لگو گی۔وہ ایسے خط بھیجتیں کہ میں اسکول چلی گئی۔ میٹرک کے امتحان شروع ہو گئے ، جس روز آخری پرچہ تھا، اس سے اگلے دن میری بہن کا نکاح تھا۔ وہ شادی کے بعد اپنے دولہا کے ساتھ لندن چلی گئی۔ میں اپنی بہن کے بغیر اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئی۔ کزنز کہتیں ، روبی اداس پھرتی ہے۔ پھول سے خوشبو جدا ہو گئی، اب یہ کیسے جیئے گی ؟ ایسی باتیں مجھ رلا دیتی تھیں۔ بہن کی شادی کے بعد میں ہر وقت اپنے کمرے میں رہتی۔ کسی سے ملتی اور نہ بات کرتی۔ مجھے چپ سی لگ گئی تھی۔ میری بہن جانے سے پہلے میری ڈائری پر یہ تحریر لکھ کر گئی تھی کہ ہم دونوں جڑواں ہیں۔ ہم نے ایک ساتھ جنم لیا اور اب جدا ہو گئیں ۔ 

تم صرف میرے ساتھ زیادہ ہنستی بولتی تھیں ، مذاق کرتی تھیں۔ سب ہم کو ہنسوں کی جوڑی کہہ کر بلاتے تھے۔ دیکھو ! اب میں تم سے ہزاروں میل دور دوسرے ملک جارہی ہوں، شاید اسے تقدیر کہتے ہیں۔ میں تم کو کہا کرتی تھی ناں، کہ زندگی میں ایک ایسا موڑ آئے گا کہ تم بالکل سنجیدہ ہو جاؤ گی۔ مذاق اور ہر وقت دانت نکالنا بھول جاؤ گی۔ ایسا موڑ کبھی نہیں آئے گا ثانیہ ! یہ میں نے آگے لکھ کر ڈائری اس کے سامان میں ڈال دی تھی۔ اب، لیکن میں سمجھ گئی تھی کہ یہی وہ موڑ ہے شاید میں واقعی سنجیدہ ہو گئی تھی۔ اماں اور بہنوں نے بہت سمجھایا کہ روبی ثانی ملک چھوڑ کر گئی ہے ، دنیا تو نہیں۔ خود کو سنبھا لو۔ اس قدر حساس ہونا اچھا نہیں ہوتا۔ یہ خود کو سزا دینا ہوتا ہے، ناحق سزا، مگر اپنی فطرت اپنا مزاج بدلنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ سال بعد بھائی بھی ملک چھوڑ کر چلا گیا۔ وہاں اس نے شادی کر لی۔ گھر میں امی ابا رہ گئے تھے۔ میں ہر وقت امی کو تنگ کرتی رہتی۔ میں نے ثانی کے بعد خود کو سنبھالا اور اپنی ماں کو دوست بنالیا۔ ثانیہ کے بعد میں نے گھر کا کام کرنا چھوڑ دیا بلکہ امی پر رعب جماتی۔ امی جی ! میرا یہ کام کر دیں، جلدی سے کر دیں اور وہ بیچاری دوڑ دوڑ کر کام کرتیں۔

پہلے عامر بھی بھی فون پر بات کر لیتا تھا، پھر میرے ناصر بھائی نے اس کے ساتھ لڑائی کروا دی۔ وہ مجھے کچھ کہتے اور اسے کچھ ، یوں غلط فہمیاں بڑھتی گئیں۔ عامر اب میری باتوں کا مذاق اڑاتا اور ہنستا کیونکہ میں کم سن تھی نادان تھی اور حساس بھی۔ ہم اس طرح لڑ پڑتے تھے۔ فون پر ہی بات ہوتی۔ وہ مجھے کبھی نہیں کہتا کہ مجھ سے ملو، حالانکہ میرا منگیتر تھا، مگر اچھا لڑکا تھا۔ بزرگوں کی نظروں میں میری عزت قائم رکھنے کی خاطر احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ عامر کے کچھ رشتہ دار بھی ہماری منگنی سے جلتے تھے۔ پس انہوں نے ہم دونوں کے در میان غلط فہمیاں بڑھا کر یہ رشتہ ختم کر دیا، مگر میرا نادان دل پھر بھی اس حقیقت کو نہیں مانتا تھا کہ ہماری منگنی ختم ہو گئی ہے۔ میرا دل یہی کہتا تھا کہ ایک دن عامر ضرور میری طرف پلٹ کر آئے گا۔ میں انتظار کرتی رہی، مگر وہ نہ پلٹا، تو میں نے ایک دن خود اس کو فون کیا، معافی مانگی۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کی منگنی ہو گئی ہے، پھپھو کی بیٹی کے ساتھ 

۔ یہ سن کر بہت حیرت ہوئی۔ میں اس کے بعد عجیب سی کیفیت میں رہنے لگی۔ ایک انجانا سا خوف ہر وقت مجھ پر طاری رہنے لگا۔ یوں لگتا، جیسے کوئی مجھ سے میری زندگی چھین لے گا۔ میں نفسیاتی مریض بن گئی۔ اپنی جڑواں بہن سے پیار کیا، وہ چلی گئی۔ میڈم عارف سے پیار کیا ، وہ چلی گئیں، پھر عامر کا سہارا لیا، جو میری زندگی بن چکا تھا، وہ بھی ساتھ چھوڑ کر کسی اور کا ہو گیا۔ لوگ کہتے یے کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ منگنیاں ٹوٹ جاتی ہیں ، اس پر کوئی مر تو نہیں جاتا، مگر میں بہت پاگل تھی۔ بیٹھے بیٹھے رونے لگتی اور کبھی بیٹھے بیٹھے ہنس پڑتی۔ سب کہتے۔ اس پر سایہ ہو گیا ہے۔ ماں کبھی دم کرانے بھی د لے جاتیں اور کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاتیں۔ کہتیں ۔ تم خود کو سنبھالو۔ ایسا سوچو کہ عامر کی منگنی کسی اور سے ہوئی ہے، مگر اس لڑکی سے اس کی شادی تو نہیں ہو گئی۔ میں تمہارے تایا سے بات کروں گی۔ وعدہ کرتی ہوں، میں تمہاری شادی عامر سے ہی کرا دوں گی۔…لیکن ماں کی باتیں دل کو نہ لگتیں۔ جانے مجھے کیا ہو گیا تھا؟ جب دل میں زیادہ خوف اور بے چینی محسوس ہوتی، تو خود ہی تایا کو فون ملا دیتی اور اُن سے بے تُکی باتیں کرنے لگتی۔

 کبھی عامر کے بھائی، اور کبھی اُس کے دوستوں کو فون کرتی۔ اس طرح میں نے خود اپنی ذات کو رسوا کیا، ذلت سمیٹی۔مگر عامر پھر بھی مجھے نہ ملا۔ میری ان حرکتوں کی وجہ سے وہ اور بھی مجھ سے دور ہو گیا۔ وہ یہ نہ سمجھ سکا کہ میں اُس کی جدائی میں خود کو کھو چکی تھی، نارمل نہیں رہی تھی۔ اُس سے منگنی ٹوٹنے کے صدمے نے مجھے ایک ابنارمل اور نفسیاتی مریض بنا دیا تھا۔میری حالت دیکھ کر امی خود بیمار پڑ گئیں۔ جب اُن کی طبیعت بگڑنے لگی، تو مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔ احساس ہوا کہ مجھے خود کو سنبھالنا ہوگا۔ ایک ہی ہستی تھی جس نے ہمیشہ مجھے سینے سے لگایا، میری تکلیف میں میرے ساتھ رہی اور میں اُسے بھی اپنے دکھوں سے بوجھل کر رہی تھی۔ماں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا۔ میں ہی اُن کی خدمت کر رہی تھی۔ مجبوری میں خود کو سنبھالا، اُن کے سامنے خوش نظر آنے لگی۔

 ہنستی، مسکراتی، اُن سے اچھی اچھی باتیں کرتی حالانکہ دل اندر سے ٹوٹا ہوا تھا۔یہ باتیں میرے ذہن میں خود بخود آنے لگی تھیں، جیسے میری اصلاح کے لیے ماں کا بیمار ہونا ضروری تھا۔ پھر ایک دن امی نے مجھ سے کہا:اگر مجھ سے پیار کرتی ہو، تو میرا کہا مانو اور خدا سے سچا پیار کرو۔ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، وہی دکھوں کو دور کرنے والا ہے۔بس پھر میں نے خدا کی طرف رجوع کر لیا۔ پانچ وقت نماز پڑھنے لگی، اور کافی دیر تک مصلّے پر بیٹھ کر دُعائیں کرتی۔ماں شوگر کی مریضہ تھیں۔ جب اُن کی حالت بگڑنے لگتی، تو میں دوبارہ اُن کے سامنے مسکرانے لگتی، تاکہ وہ پریشان نہ ہوں۔ وہ سمجھتیں کہ میں اپنے سب صدمے بھلا چکی ہوں، اور مجھے خوش دیکھ کر خود بھی ہشاش بشاش نظر آنے لگتیں۔
میرے رشتے کی باتیں دوبارہ ہونے لگیں۔ مجھے تو اب شادی کے نام سے نفرت ہو چکی تھی۔ میں ہمیشہ کے لیے اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتی تھی۔ میں نے ہر رشتے سے انکار کر دیا اور ماں سے قسم لی کہ تم میری شادی کی بات کبھی نہیں کرو گی۔ ماں مجھے بےحس و بےحال دیکھ کر مجبور ہو کر کہتیں کہ نہیں کروں گی تمہیں مجبور۔ ماں کی نظر میں، میں سنبھل گئی تھی، مگر میرا دماغ ہر وقت عامر کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ میں نے اُسے فون کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ یوں ایک سال گزر گیا۔ اُس کا کچھ پتا نہ تھا کہ وہ کہاں ہے۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے ہم ایک دوسرے کے حال سے ناواقف تھے۔ایک دن امی کی شوگر بہت زیادہ ہو گئی، حالت بگڑ گئی۔ انہیں لاہور لے جانا پڑا کیونکہ ماموں وہیں تھے۔ ماموں زاد نے امی کو اسپتال میں داخل کرا دیا۔ میں ان کے ساتھ رہتی تھی۔ وہ کہتیں کہ روبینہ، اب ضد چھوڑ، ابو اور بہنوں کو تنگ نہ کر، خود کو سنبھال کر رکھ۔ تایا، تائی، عامر اور اُس کے دوستوں کو ہرگز ہرگز فون مت کرنا۔ اس سے تمہاری اپنی سبکی ہو گی۔ اگر تم شادی کر لیتیں تو مجھے مرتے وقت سکون ہوتا۔ اب یہی ڈر ہے کہ تم میرے بعد بکھر جاؤ گی۔میں جواب دیتی کہ آپ ٹھیک ہو جائیں گی تو میں شادی کر لوں گی۔ آپ مرنے کی باتیں نہ کریں۔کتنا کٹھن وقت تھا! بیٹوں کے ہوتے ہوئے میں دیوانوں کی طرح اکیلی اسپتالوں میں پھر رہی تھی۔ بس ایک ماموں زاد، شیراز، میرے ساتھ تھا۔ وہ کہتا تھا کہ روبینہ، خدا را کچھ کھا لو، ورنہ ابھی کھڑے کھڑے گر جاؤ گی۔

ماں اب مجھے کچھ نہیں کہتی تھیں۔ مجھے دیکھ کر بس ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے تھے۔ تب میں کہتی کہ ماں! میرے لیے تمہیں ٹھیک ہونا ہے۔ میں تمہارے بغیر اس دنیا میں اکیلی نہیں رہ سکتی۔ مجھے اکیلا مت چھوڑ جانا۔بھائی باہر کے ملکوں میں تھے۔ میں اکیلی رات کو بھی میڈیکل اسٹور پر انجیکشن لینے جاتی، دوائیں لاتی۔ نہ کھانے کا ہوش تھا، نہ کپڑے بدلنے کا، منہ ہاتھ تک نہ دھو پاتی تھی۔ پاگل لگنے لگی تھی۔ لاہور کی گرمیاں، اتنی دھوپ کہ اپنا سایہ بھی جلنے لگتا تھا۔ میرے پیروں میں چھالے پڑ گئے تھے۔ایک دن ڈاکٹر نے ماموں کو بلا کر کچھ کہا۔ ماموں نے مجھے کچھ نہیں بتایا اور ہم امی کو اسپتال سے گھر لے آئے۔ مجھ سے نہ سویا جاتا تھا اور نہ چلا جاتا تھا۔ میری باقی بہنیں اپنے گھروں میں بچوں کے ساتھ مصروف تھیں۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ ماں کس حال میں اور کتنی تکلیف میں ہے۔ 
ماں کی تکلیف سے میرا حال مرغِ بسمل کی طرح تھا، دل دن رات تڑپتا رہتا تھا۔آخرکار ماں نے ہمت ہار دی۔ مجھے پاس بلا کر کہا کہ اپنا خیال رکھنا، اب مجھے کلمہ پڑھاؤ۔میں نے انہیں کلمہ پڑھایا۔ انہوں نے آخری سانس لی۔ میں نے کہا کہ ماں! مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ۔مگر وہ مجھے چھوڑ کر اپنے خالق کے پاس چلی گئیں۔لندن سے ثانیہ کا فون آ گیا۔ بولی کہ روبینہ! مجھے ماں دو۔بھائی نے امریکہ سے فون کیا کہ روبی! مجھے ماں چاہیئے، ماں کو مٹی کے نیچے مت دفناؤ، ہمارا انتظار کرنا۔میرا دل چیخ رہا تھا۔ قیامت کا منظر لگ رہا تھا، مگر آنسو نہیں نکل رہے تھے۔ میں کہہ رہی تھی کہ ثانیہ، بھیا! اب کیا فائدہ؟ ماں جا چکی ہے، منوں مٹی تلے چھپنے۔ اب مت آؤ، تم نے ماں کو کھو دیا ہے۔مجھے نیند کے انجیکشن لگائے جا رہے تھے۔ میں سو رہی تھی، مگر پھر بھی پل پل کی خبر تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔ اب ماں کو نہلا رہے ہیں، اب کفن پہنا دیا گیا ہے، اب لے جا رہے ہیں۔ عنودگی میں بھی میرے حواس جاگ رہے تھے، اور میں سوتے ہوئے بھی سب کچھ دیکھ اور سن رہی تھی۔ کچھ دنوں میں عزیز، رشتہ دار سب اپنے گھروں کو چلے گئے۔ 

میں، ابو، ماموں، ممانی اور شیراز گھر میں رہ گئے۔ میری حالت دیکھ کر ماموں اور ابو نے میری منگنی شیراز سے کر دی۔ ایک ماہ بعد امی کی مجھ سے تعزیت کرنے کے لیے عامر کا فون آیا۔ اس کی آواز سن کر میں چیخ اٹھی اور رونے لگی، جیسے مجھے اس آواز کو سننے کا انتظار تھا۔ اس ایک فون کے بعد جانے مجھے کیا ہوا کہ میں نے اپنی منگنی توڑ دی۔ شیراز سے کہہ دیا کہ زبردستی شادی کر کے مجھے اور خود کو برباد مت کرنا۔ حالانکہ میری شادی کی تاریخ رکھی جا چکی تھی۔ ابو جان تو سخت ناراض ہوئے، ماموں اور ممانی بھی صدمے میں تھے۔ کوئی مجھ سے بات نہیں کرتا تھا۔ میں بالکل تنہا ہو گئی، میرا اعتماد ختم ہو گیا۔ کسی رشتے پر یقین نہیں رہا۔ سبھی نے میری خوشیوں کو جلایا اور میرے اعتماد کی دھجی دھجی کر ڈالی تھی۔ میرے غرور کی راکھ اُڑائی، میرے یقین کو الاؤ میں بھسم کیا۔مجھے پھر چپ لگ گئی۔ کسی سے بات نہ کرتی، ابو سے بھی نہیں۔ بہن بھائی کے فون آتے، میں فون بند کر دیتی۔ امی کے بعد ہر رشتہ میرے لیے بے معنی ہو گیا تھا۔ امی نے کہا تھا کہ میرے بعد تو رل جاؤ گی، اور واقعی میں رل گئی۔
ایک دن عامر نے فون کیا اور کہا روبی! میری شادی ہے، پلیز مجھے معاف کر دینا، میں مجبور ہوں۔ تم سے پیار ضرور کرتا ہوں، مگر ماں بیمار ہے اور میں نہیں چاہتا کہ ان کو کچھ ہو جائے۔ ان کی خوشی میری خوشی ہے، تم خود کو سنبھالنا۔میں مزید سن نہ سکی کہ مجھ میں تاب نہ تھی۔ میری ماں بھی تو اسی عمر میں مر گئی تھی۔ میں نے اتنے زخم کھائے تھے، اور زخم کھانے کی تاب نہ تھی، اور پرانے زخموں کو پھر جھیلنے کی تکلیف تو اور زیادہ ہوتی ہے۔ ماں کے بعد اگر کسی کو اپنا سمجھا، تو وہ عامر تھا۔ اس نے فون کیا تو کس موڑ پر؟ ہر موڑ ہی جدائی کا تھا۔ میں نے آٹھ سال اس کے انتظار کا صبر کیا اور بہت کچھ کھو دیا۔ مجھے خوشی تھی تو بس یہی کہ میں نے کبھی عامر کی کوئی خوشی نہیں چھینی تھی۔ابو کی وفات کے بعد میں نے ایک فلاحی ادارے میں ملازمت کر لی۔ بوڑھی عورتوں کی دیکھ بھال کر کے مجھے سکون ملتا تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ یہ بھی تو کسی کی مائیں ہیں، ان کی بھی اولادیں ہوں گی۔ نجانے وہ کہاں ہیں جو یہ اتنے اکیلے ہو گئے ہیں؟ دعا کرتی ہوں کہ خدا کسی کے دل میں کسی کے لیے سچا پیار نہ ڈالے، ورنہ اتنی بڑی دنیا میں اکیلے رہ کر جینا پڑتا ہے۔

 (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ