میری ماں نے اپنی بیوگی کو شرافت کی چادر میں چھپا کر ہماری پرورش کی۔ جن مشکلات سے ہمیں پالا، وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ ہم نے ایک وقت کی روٹی کھائی، مگر پڑھائی کبھی نہیں چھوڑی۔ ہمیں یقین تھا کہ تعلیم ہی وہ واحد زینہ ہے جس کی مدد سے ہم افلاس کے جہنم کو عبور کر سکتے ہیں۔ ماں کی انتھک محنت رنگ لائی اور بھائی مجاہد اعلیٰ نمبروں سے کامیاب ہو گئے۔ جب ان کے ہاتھ میں ڈگری آئی، تو انہوں نے اس قیمتی کاغذ کو آنکھوں سے لگا لیا۔ انہیں پورا یقین تھا کہ یہ ڈگری ان کی کامیابی کا اصل پروانہ ہے۔
کئی دن تک وہ اسی خوشی میں سرشار رہے کہ نوکری خود انہیں ڈھونڈتی ہوئی آ جائے گی۔ بھائی نے پوزیشن لی تھی، گولڈ میڈل حاصل کیا تھا، جس پر انہیں فخر بھی تھا، مگر کافی دن گزر گئے، نہ ملازمت ملی، نہ روزگار۔ کوئی عہدہ ان کو ڈھونڈتا ہوا نہ آیا، نہ ہی کسی نے ہمارے غریب خانے پر دستک دی۔ یہاں تک کہ مسلسل محنت کرتے کرتے ماں بستر سے جا لگی۔آج بھی حسبِ معمول ہمیں کل کی روٹی کی فکر تھی۔ گھر میں مٹھی بھر چاول بچے تھے۔ امی کی کراہوں نے بھائی کو ایک گہرے خواب سے جگا دیا۔ انہوں نے سوچا ملازمت کے انتظار میں بوڑھا ہو جاؤں گا، اور ماں بغیر دوا کے مر جائے گی۔
اسی لمحے وہ بغل میں ڈگریوں کا لفافہ دبائے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ اب روز ہی کسی نہ کسی آسامی کا اشتہار پڑھ کر، وہ بسوں میں دھکے کھاتے صبح سویرے نئے عزم کے ساتھ نکلتے، اور شام کو ہارے ہوئے جواری کی طرح تھکے ماندے گھر لوٹتے۔ چہرے پر شرمندگی ہوتی۔ میں انہیں تسلی دیتی بھائی! مایوسی گناہ ہے۔ آج نا امیدی سہی، کل کی صبح ہمارے لیے نئی امید لے کر آئے گی۔ ایک روز وہ صبح سویرے حسبِ معمول لفافہ ہاتھ میں لیے نکلے۔ اس دن وہ اپنے شہر سے لاہور گئے تھے۔ ان دنوں اُس روٹ پر جو بسیں چلا کرتی تھیں، ان میں سے اکثر کی حالت خستہ تھی۔ بس میں رش کی وجہ سے اکثر مسافروں کو کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑتا۔ جنہیں سیٹ مل جاتی، لوگ اپنا سامان ان کی گود میں رکھ دیتے۔اس روز بھائی کو قسمت سے سیٹ مل گئی۔ ان کی گود میں کئی لوگوں کا سامان رکھ دیا گیا۔
جب ان کا اسٹاپ آیا، تو تمام مسافروں نے اپنا سامان واپس لینا شروع کر دیا، لیکن ایک تھیلا ایسا تھا جس کا کوئی دعوے دار نہ تھا۔ بھائی نے کئی بار پکارا یہ تھیلا کس کا ہے؟مگر کوئی جواب نہ ملا۔آخرکار بھائی وہ تھیلا ساتھ لے آئے۔ گھر آ کر انہوں نے تھیلا مجھے پکڑا دیا اور خود منہ ہاتھ دھونے چلے گئے۔ میں نے تھیلا کھولا تو اس میں دو جوڑے کپڑے اور ایک پرس تھا، جس میں پانچ ہزار روپے اور ایک شناختی کارڈ موجود تھا۔ کارڈ سے تھیلے کے مالک کا پتا چل گیا۔ بھائی نے فوراً ان کے پتے پر ایک خط لکھایہ تھیلا میرے پاس بحفاظت موجود ہے۔ آپ یہ خط ملتے ہی درج ذیل پتے پر آ جائیں۔ اگر میں نہ ملوں تو نام بتا کر میری والدہ سے اپنا سامان وصول کر سکتے ہیں۔ کچھ دن بعد تھیلے والے صاحب آ گئے۔ بھائی گھر میں موجود تھے۔ انہوں نے امانت ان کے حوالے کر دی۔
جو شخص تھیلا لینے آیا تھا، وہ ایک زمیندار کا صاحبزادہ تھا، نام تھا احمد۔ ہماری حالتِ زار دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ اس نے بتایایہ تھیلا دراصل میرے ایک واقف کار کا ہے، شناختی کارڈ انہی کا ہے۔ میں امانت لینے آیا ہوں۔اس نے مجاہد بھائی سے کہا آپ تو نام کے ہی نہیں، عمل کے بھی مجاہد ہیں۔ بیٹھے بٹھائے آپ کو پانچ ہزار روپے مل سکتے تھے، پھر بھی آپ نے اتنی زحمت کیوں کی؟پھر اس نے مزید بتایا یہ تھیلا ایک خاتون کا تھا، وہ خود نہیں آ سکیں، اس لیے مجھے بھیجا گیا۔بھائی نے جواب دیااحمد صاحب، سارے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ یہاں ہر قسم کے انسان موجود ہیں۔ پیسہ آنی جانی چیز ہے، اصل چیز انسان کا ضمیر ہے۔ چند روپوں کی خاطر باضمیر انسان اپنا ایمان نہیں بیچتا۔ حرام کی کمائی کبھی راس نہیں آتی، اس لیے میں نے پانچ ہزار کی خاطر اپنا ایمان خراب نہیں کیا۔
یہ پہلی ملاقات ہی احمد پر گہرا اثر ڈال گئی۔ وہ بھائی کے کردار سے بے حد متاثر ہوا۔ جاتے ہوئے اس نے بھائی کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ جب بھائی احمد کے گھر گئے تو حیران رہ گئے۔ وہ ایک بڑے زمیندار کا بیٹا تھا۔ اسے کسی نعمت کی کمی نہ تھی۔ احمد اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا، اور اس کے والد کے تعلقات بااثر شخصیات سے تھے۔ دونوں کی دوستی اس قدر مضبوط ہو گئی کہ برسوں کی دوریاں لمحوں میں سمٹ گئیں۔احمد، بھائی مجاہد کا بے حد احترام کرتا تھا، لیکن وہ ایک بگڑا ہوا نوابزادہ تھا۔ مجاہد نے دوست ہونے کے ناطے اسے نیکی اور بھلائی کا راستہ دکھانا چاہا، مگر وہ اپنی مرضی کا مالک تھا۔ جب بھائی اُسے سمجھانے کی کوشش کرتے تو وہ کہتا کہ تم کو میری عادتوں سے کیا غرض؟ بس دوستی سے غرض ہونی چاہیے۔ میرے بھائی کے پاس قابلیت اور لیاقت تھی، لیکن نوکری کے لیے سفارش نہیں تھی۔ اُن کی ایمانداری اور نیک نیتی کی بدولت آخرکار انہیں ایک مؤثر سفارش حاصل ہو گئی۔
احمد کی دوستی اور اثرورسوخ سے بھائی کو ایک اچھی ملازمت مل گئی۔ اس احسان پر میرے بھائی کا دل احمد کا بے حد شکر گزار تھا، تبھی وہ ہر وقت اُس کی بھلائی کے بارے میں سوچتے رہتے تھے۔ یہ چھٹی کا دن تھا۔ بھائی اپنے دوست سے ملنے گئے تو اُسے ڈیرے پر ایک تصویر سے باتیں کرتے ہوئے پایا۔اچھا ہوا مجاہد، تم آ گئے۔ میں تمہاری طرف ہی آنے والا تھا۔یہ کہہ کر احمد نے تصویر بھائی کو دکھائی۔ بھائی کو یوں لگا جیسے یہ کسی عام لڑکی کی نہیں بلکہ کسی حور کی تصویر ہو، جو ستاروں بھرا لباس پہنے، آسمان سے اُتر کر اس تصویر میں سمٹ گئی ہو۔ لڑکی نے وہی جوڑا پہنا ہوا تھا جو تھیلے میں موجود تھا، جو کبھی احمد کے توسط سے ان کے گھر پہنچا تھا۔ یہ کس کی تصویر ہے؟ مجاہد نے حیرت سے پوچھا۔ احمد نے جواب دیا کہ مجاہد بھائی، یہ فریحہ ہے… میری زندگی کا حاصل۔ میں اُسے اپنی شریکِ حیات بنانا چاہتا ہوں۔ وہ ایک نایاب پھول ہے اور میں اُس کی خوشبو۔ خوشبو، پھول سے کچھ دیر بعد جدا بھی ہو جاتی ہے، لیکن اگر یہ مجھے نہ ملی، تو میری زندگی ویران ہو جائے گی… جیسے جنگل میں سوکھے ہوئے درخت۔
تب مجاہد نے اُسے سمجھایا کہ ہمیشہ شادی کسی شریف اور اچھے خاندان میں ہونی چاہیے۔ جہاں تک محبت کا تعلق ہے، اکثر اس راہ میں دکھ ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ تمہاری محبت تمہیں حاصل ہو۔ اور تمہیں راس بھی آئے۔ احمد نے قدرے خفگی سے کہا مجاہد، یہ کیسی مایوس کن باتیں کر رہے ہو؟ دراصل، تم حالات سے اتنے لڑے ہو کہ تمہارے اندر جذبات باقی ہی نہیں رہے۔ مجاہد جانتے تھے کہ احمد کے والد اس رشتے پر ہرگز راضی نہ ہوں گے، کیونکہ وہ پرانی وضع کے، روایت پسند زمیندار تھے، اور محبت کی شادی کے سخت خلاف تھے۔ پھر بھی احمد، مجاہد بھائی کو فریحہ کے گھر لے گیا اور اُن سے ملاقات کروائی۔ وہ واقعی غیر معمولی خوبصورتی کی مالک تھی۔ اُن دونوں کی محبت دیکھ کر مجاہد نے دل سے دعا دی کہ خدا کرے، تم دونوں اپنی منزل پا لو۔احمد کے گھر کی خواتین ہمیشہ سات پردوں میں رہا کرتی تھیں، لیکن اُس روز محبت نے سب رسم و رواج کے دروازے کھول دیے تھے۔
ایک ماہ بعد احمد ہمارے گھر آیا اور مجاہد کو بتایا کہ اُس کے والدین اُس کی فریحہ سے شادی کے حق میں نہیں ہیں۔ ماں شاید مان جائیں، مگر والد نے صاف کہہ دیا ہے کہ اگر احمد نے فریحہ سے شادی کی، تو وہ اُس سے تمام رشتے ختم کر دیں گے۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وقتی طور پر والدین کا گھر چھوڑ کر فریحہ سے کورٹ میرج کر لوں گا۔ بعد میں والدین کو منا لوں گا۔ مجھے فریحہ کی والدہ کو نقد پانچ لاکھ روپے دینے ہیں تاکہ وہ شادی کا انتظام کر سکیں، اگرچہ کورٹ میرج میں زیادہ اخراجات نہیں ہوتے۔ مجاہد نے سمجھایا کہ احمد تم اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہو۔ وہ تمہارے سر پر سہرا دیکھنے کے شدت سے خواہش مند ہیں۔ میں ان کو بعد میں منالوں گا، احمد نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا۔ اُس کی نگاہوں میں صرف فریحہ ہی بستی تھی۔ یوں احمد نے فریحہ سے کورٹ میرج کر لی۔ شادی کے بعد کچھ عرصہ وہ فریحہ کے ساتھ علیحدہ مکان میں رہا۔ کبھی اُس کے پاس، کبھی والدین کے پاس چلا جاتا۔ ابھی تک والدین کو اُس کی خفیہ شادی کا علم نہ تھا۔ مجاہد بھائی نے احمد کو اپنے محلے میں کرائے پر ایک مکان دلوا دیا تھا تاکہ جب وہ والدین کے گھر جائے، تو ہم فریحہ کا خیال رکھ سکیں اور وہ خود کو تنہا محسوس نہ کرے۔
فریحہ اُن عورتوں میں سے تھی جو اپنے شوہر سے سچی محبت کرتی ہیں۔ روکھی سوکھی کھا کر بھی خوش رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے احمد نے اپنی تمام بری عادتیں ترک کر دی تھیں۔ وہ ایک اچھا شوہر ثابت ہوا تھا۔ اگر فریحہ کو معمولی سی تکلیف بھی ہوتی، تو وہ تڑپ اٹھتا۔ کہتا تھا کہ یہ لڑکی بہت نازک ہے۔ اِسے اگر پھول کی پتی بھی چھو جائے، تو بھی دکھ ہوتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مجاہد بھائی کو ملک سے باہر جانا پڑا۔ احمد نے کہا کہ یار، باہر کیا رکھا ہے؟ مت جاؤ۔ اپنے ملک میں، اپنے لوگوں کے ساتھ رہو۔مگر میرے بھائی ہر حال میں جانا چاہتے تھے۔ کہنے لگے یوں سمجھ لو، میں اپنے ادھورے خوابوں میں رنگ بھرنے جا رہا ہوں۔ دعا کرنا، ان شاء اللہ جلد ملاقات ہو گی۔ کچھ عرصے بعد بھائی نے مجھے اور امی کو بھی بلا لیا اور ہم چار سال دیارِ غیر میں رہے۔ شروع میں احمد کے خطوط آتے رہے، بعد میں رابطہ ختم ہو گیا۔جب ہم پاکستان واپس آئے، تو بھائی نے آتے ہی احمد کو تلاش کیا، مگر اُس کا کچھ پتا نہ چلا۔ تبھی مجاہد بھائی کا تبادلہ پشاور ہو گیا اور ہم وہاں چلے گئے۔
ایک دن ہم صدر بازار سے گزر رہے تھے کہ احمد آتا دکھائی دیا۔ بھائی نے آواز دی اور دونوں بغل گیر ہو گئے۔ وہ ہمارے ساتھ گھر آیا۔وہ بہت کمزور اور غم زدہ لگ رہا تھا۔ زمانے بھر کے دکھ اُس کے چہرے پر چھائے ہوئے تھے۔ بھابی کیسی ہیں؟فریحہ اب میری زندگی میں نہیں رہی، احمد نے جواب دیا۔میں شہر میں رہ رہا تھا۔ ایک دن اماں جی اور بابا جان، کسی عزیز کے انتقال پر لاہور سے کراچی بذریعہ کار جا رہے تھے کہ راستے میں حادثہ ہو گیا اور دونوں جاں بحق ہو گئے۔ مجھے ایک دوست نے اطلاع دی۔ میں فوراً گاؤں پہنچا۔ والدین کی وفات کا مجھے بے حد دکھ تھا۔ مگر گاؤں میں اب میرا دل نہیں لگتا تھا اور نہ میں زمینداری سنبھال سکتا تھا۔چنانچہ میں نے ساری زمین، جائیداد فروخت کر دی اور شہر آ گیا۔ یہاں اپنا کاروبار شروع کیا۔ اللہ نے برکت دی، کاروبار چل پڑا اور شہر میں عزت بھی ملنے لگی۔ سبھی لوگ مجھے جاننے لگے۔ میں ایک بچی کا باپ بھی بن چکا تھا۔ مجھے سکون تھا، مگر دل میں ایک فکر ہمیشہ رہتی تھی فریحہ کی۔ وہ اکیلی تھی۔ اُسے کبھی خاندان کا ساتھ نہ ملا۔ ایک ملازمہ اُس کے ساتھ دن رات رہتی تھی۔
وہ میری آیا تھی، جس نے مجھے بچپن میں پالا تھا۔ سب اُسے دائی اماں کہتے تھے۔ وہ میرے اعتماد کی خاتون تھی، مگر میری بیوی کو اس کا علم نہ تھا۔ اسی لیے کبھی کبھار اُس سے ایسا سلوک کرتی جیسے وہ کوئی نوکرانی ہو۔ دائی اماں سب کچھ برداشت کر لیتی تھیں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ میرے پیچھے فریحہ کیا کرتی ہے، کہاں جاتی ہے؟ میں اُس پر اندھا اعتماد کرتا تھا۔ایک دن مجھے اسلام آباد ایک ضروری کام سے چار دن کے لیے جانا پڑا، مگر کام اگلے دن ہی ہو گیا، تو میں فوری واپس آ گیا۔ فریحہ کو اندازہ بھی نہ تھا کہ میں اگلے دن آ جاؤں گا۔ جب گھر آیا، تو وہ موجود نہیں تھی۔ شام کا وقت تھا۔ سوچا بازار گئی ہو گی۔ رات تک اُس کا انتظار کرتا رہا، مگر وہ واپس نہ آئی، تو پریشانی ہونے لگی۔اماں رحمہ سے پوچھا تو وہ گھبرا گئیں۔ اُن کی حالت دیکھ کر میں نے مزید کچھ نہ پوچھا۔ دل میں سوچا، یہ بیچاری کیا جانے؟ فریحہ خود آئے گی، تو سب پوچھ لوں گا۔میں گھر کی چھت پر جا کر ٹہلنے لگا۔ بار بار اوپر سے جھانک بھی لیتا تھا کیونکہ فکر بڑھ رہی تھی۔
رات کے دس بج چکے تھے اور وہ نہیں آئی تھی۔ صحن میں جھانک کر دیکھا، ہمارے گیٹ پر ایک گاڑی رکی اور فریحہ اس میں سے اتری۔ ایک نوجوان نے اتر کر اسے خدا حافظ کہا اور اس کا بوسہ لیا، پھر گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔ تبھی فریحہ نے بیل بجائی۔ رحمہ اماں نے دروازہ کھولا۔ میں تب تک سیڑھیاں اتر کر صحن میں آ چکا تھا۔ مجھے سامنے دیکھ کر فریحہ حیرت زدہ رہ گئی۔ اس کے لبوں سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے: آپ کو تو چار دن بعد آنا تھا؟میں نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا: تمہارے ساتھ کون تھا؟وہ بولی: میرا منہ بولا بھائی تھا۔میں نے سختی سے کہا: جھوٹ مت بولو۔ آج تک تم نے کسی منہ بولے بھائی کا ذکر تک نہیں کیا۔ مجھے رحمہ اماں نے سب بتا دیا ہے کہ جب میں گھر میں نہیں ہوتا، تم اس کے ساتھ جاتی ہو۔ کیا یہ سچ ہے یا جھوٹ؟اس پر وہ گھبرا گئی، حالانکہ رحمہ اماں نے ابھی تک ایک لفظ بھی میری بیوی کے خلاف نہیں کہا تھا۔
فریحہ سے کوئی جواب نہیں بن پایا، مگر چہرہ فق تھا۔میں نے کہا: بتاؤ! کیا منہ بولے بھائی اس طرح شوہر کی غیر موجودگی میں ملتے ہیں؟ کچھ شرم کرو۔ تمہاری وفا کا بھرم کھل چکا ہے۔ یہ تمہاری نہیں میری خطا ہے کہ میں نے تمہارے خاندان کا اتا پتا معلوم نہ کیا اور تم سے شادی کر لی۔ وہ مجھ سے معافی مانگنے لگی مگر معافی کی بجائے میں نے اسے طلاق دے دی۔ احمد جب یہ الفاظ کہہ رہا تھا، تو وہ راکھ کے ڈھیر کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ شاید اسے اپنے والدین سے دھوکہ کرنے کی سزا ملی تھی۔ جس عورت کی خاطر اس نے بڑھاپے میں والدین کو چھوڑا، اُس کے سہرے کی خوشیاں دیکھنے کی آرزو لیے وہ دنیا سے رخصت ہو گئے، پھر فریحہ بھی اس کی زندگی میں نہ رہ سکی۔اس کی چھوٹی سی بچی ماں کے پیار سے محروم ہو گئی، مگر رحمہ اماں کی شفقت میں پروان چڑھ رہی تھی۔ مجاہد بھائی لوگ سمجھتے ہیں کہ دولت سے سکون ملتا ہے کیونکہ دولت سے ہر شے خریدی جا سکتی ہے، لیکن میں کہتا ہوں کہ دولت سے سکون نہیں خریدا جا سکتا۔میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر کوئی مجھے سکون کے بدلے میری ساری دولت مانگ لے، تو میں دے دوں گا۔
مجاہد بھائی نے اسے تسلی دی اور سمجھایا کہ خدا کی ذات سے ناامید ہونا گناہ ہے۔ اس ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے، کیونکہ وہی ہے جو بے قرار دلوں کو سکون دے سکتا ہے۔مجاہد بھائی نے کہا: تم تنہا رہو، میرے گھر کا دوسرا پورشن خالی ہے، تم ہمارے یہاں آجاؤ۔احمد کافی دن ہمارے ساتھ رہا۔ اس کی چار سالہ بچی مجھ سے بہت مانوس ہو گئی تھی۔ اماں رحمہ بھی تنہائی سے گھبرا گئی تھیں۔ وہ امی کے ساتھ کام کرتی تھیں اور خوش رہتی تھیں کہ شکر ہے کوئی مجھ سے بات کرنے والا تو ملا۔ ایک مردہ دل شخص کو زندگی کی طرف واپس لانا آسان کام نہیں تھا، یہ جان جوکھم کا کام امی نے کیا۔ وہ احمد کا ایک ماں کی طرح خیال رکھنے لگیں۔ احمد بھی اب ہمارے گھر کو اپنا گھر سمجھنے لگا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مجاہد بھائی سے دور نہ ہو، اکیلے رہنے سے اُسے تنہائی ستاتی تھی۔
احمد اور مجاہد بھائی کا ایک مشترکہ دوست اطہر تھا، جو کبھی کبھار ہمارے گھر آتا تھا۔ امی نے اس کی والدہ اور بیوی سے کہہ رکھا تھا کہ اگر کوئی مناسب رشتہ ہو تو میری بیٹی کے لیے کوشش کریں۔ایک دن اطہر نے امی سے کہا: آنٹی! اگر دوستی رشتہ داری میں بدل جائے تو کیسا رہے گا؟ احمد آپ لوگوں کے پاس خوش رہتا ہے۔ شاید اطہر اس کے دل کی بات امی تک پہنچانا چاہ رہا تھا۔ امی اور مجاہد بھائی اس بات کا مطلب سمجھ گئے اور میری تقدیر میں جو لکھا تھا، پورا ہو گیا۔میری احمد سے شادی ہو گئی اور وہ ہمارے گھر کا ہی ایک فرد بن گیا۔بھائی مجاہد ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر پہنچ گئے تھے۔ یہ سب احمد کے باعث ہوا تھا۔ میرے بھائی نے اسے اپنا بہنوئی قبول کر کے احسان کا اچھا صلہ دے دیا۔احمد کھلے دل، سادہ لوح اور پیار کرنے والا شخص تھا۔ فریحہ کی قسمت اچھی نہ تھی، لیکن میں اپنی قسمت پر ناز کرتی ہوں۔