بیٹی کی قربانی

Sublimegate Urdu Stories

میرے والدین ایک ہندو گھرانے سے تھے اور سندھ میں رہتے تھے۔ جب برصغیر کو آزادی ملی اور انگریز جانے لگے، اور بٹوارہ ہوا، تو ہمیں سندھ سے بھارت نقل مکانی کرنے کو کہا گیا کیونکہ یہاں فسادات کی آگ پھیلنے کا خطرہ تھا۔ مشرقی پنجاب میں فسادات شروع ہو گئے تھے، جن کی ہولناک خبریں سن کر میری ماں نے ضروری سامان باندھ لیا۔ جب ہم نقل مکانی کرنے لگے، تو ایک بنیئے نے ہمیں روک لیا۔ دراصل پتا جی نے اس سے قرض لیا تھا، تب ہی اس نے والد کو بھارت جانے سے روکا اور مطالبہ کیا کہ پہلے میرا قرض ادا کرو، تبھی جا نےدوں گا۔ پتا جی کے پاس قرض ادا کرنے کے لیے رقم نہیں تھی۔ ہمارا سامان بندھا ہوا تھا۔

 جب وہ رام لال ہمارے گھر آیا، تو اس کی نظر مجھ پر پڑی۔ ان دنوں میں سات برس کی تھی۔ ہم ذات کے تھے۔ رام لال کی رال مجھے دیکھ کر ٹپک پڑی۔ وہ کہنے لگا کہ اگر میرا قرض نہیں دے سکتے، تو اپنی بیٹی مجھے دے دو۔ میں بھی ہندو ذات کا ہوں۔ تمہاری لڑکی کی حفاظت رکھوں گا۔اس وقت حالات خراب تھے، فسادات آگ کی طرح بڑھ رہے تھے۔ مجبوراً میرے والد نے اس بنیئے کے ساتھ میری شادی کے پھیرے لگا دیے۔ یوں تقدیر نے مجھے ساٹھ سالہ بڑھے کی بیوی بنا دیا۔ درحقیقت رام لال کی دو بیویاں مر چکی تھیں اور اب اس کو اپنے لیے کوئی مناسب رشتہ نہیں مل رہا تھا۔ یوں والد کی مجبوری سے فائدہ اُٹھایا اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیے، پھر اس نے ہمارے خاندان کو بھارت کی طرف کوچ کرنے کی اجازت دے دی۔

جب میرا پریوار بھارت جا رہا تھا، میں ان کو جاتے دیکھ کر سسک رہی تھی۔ یہ لمحات میرے لیے بہت بھاری تھے۔ ماں باپ، بہن بھائی بھی مجھے ناچار روتا چھوڑ کر چلے گئے۔ پتا جی نے عافیت اسی میں جانی کہ ایک بیٹی کی قربانی دے کر باقی کنبے کو بچا لیا جائے۔ میں اتنی سمجھدار نہ تھی کہ بٹوارے کی باتوں کو سمجھ پاتی۔ میرا چھوٹا سادہ دماغ یہی سوچتا تھا کہ آخر کیوں یہ لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر کسی اور جگہ جا رہے ہیں۔ میں بچی تھی، اس لیے رام لال نے مجھے اپنی بھاوجوں کے سپرد کر دیا اور میرے جوان ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ اس کی بھابھیاں مجھ پر بہت ظلم کرتی تھیں۔ گھر کا سارا کام مجھ سے کرواتیں، اور ذرا سی بات پر مارنے لگتیں۔ہمارے گھر کے قریب تین افراد پر مشتمل ایک گھرانہ آباد تھا، جس میں ایک بڑھیا، اس کا بیٹا موہن اور بہو شامل تھے۔ موہن نے کسی مسلمان کی مخبری کی تھی، جس نے اُن کو کافی نقصان پہنچایا تھا، تبھی مسلمان گھرانے کے لوگ اس کے گھر پوچھ گچھ کو آئے۔ وہ سمجھا کہ یہ اسے قتل کرنے آئے ہیں، تب ہی اس نے ان پر حملہ کر دیا۔ اس دنگے میں موہن اور اس کے گھر والے مارے گئے۔

 وہ لوگ عورتوں کو نہیں مارنا چاہتے تھے، مگر موہن کی ماں اور بیوی بار بار لڑائی کے بیچ آ جاتی تھیں، یوں ان کو بھی ہتھیار لگ گئے۔ بیچ بچاؤ کے لیے ایک اور شخص بھی آیا، تو اسے بھی ہتھیار لگے اور اس کا بازو کٹ گیا۔ میں اپنے دروازے پر کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ زخمی آدمی بھاگا ہوا آیا، مجھے اندر کی طرف دھکا دے کر خود بھی اندر آ کر دروازہ بند کر دیا اور مجھ سے بولا، تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ مرنے کا ارادہ ہے کیا؟ میں اس شخص کو منہ پھاڑے دیکھ رہی تھی۔ اتنی نادان تھی کہ حالات کی سنگینی کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر مسلمانوں کا ایک گھرانہ آباد تھا۔ ان کے گھر پر کبھی کبھی شمس نامی ایک شخص آیا کرتا تھا۔ میں اکثر اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی رہتی اور وہ مجھے دیکھا کرتا۔ جب میں مسلمانوں کو دیکھتی، دل چاہتا کہ کاش میں مسلمان ہوتی۔ جب اس شخص کو پتا چلا کہ میں ایک ہندو لڑکی ہوں اور میرا باپ مجھے مرض کے عوض بوڑھے بیٹے کو بیچ کر چلا گیا ہے، تو اسے بہت افسوس ہوا۔ ایک دن اس نے مجھے گھر بلایا اور میرے حالات پوچھے، تو میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ 

شمس نے مجھے تسلی دی اور پوچھا: کیا تم اسلام قبول کرنا پسند کرو گی؟ مجھے مسلم گھرانے اچھے لگتے تھے کیونکہ جس گھر جاتی، وہ مجھے پیار سے ملتے تھے۔ ان کی بہادری دیکھ کر مجھے ان پر رشک آتا تھا۔ شمس کے حسن سلوک نے میرا دل جیت لیا۔ مجھے اس شخص کے پر خلوص ہونے کا یقین آگیا اور میں مسلمان ہونے پر تیار ہو گئی۔ شاید میں رام لال کی بھابھیوں سے تنگ تھی اور مجھے رام لال کا بھی خوف تھا۔ شمس نے کہا کہ جب رات کا اندھیرا پھیلنے لگے، تو تم گھر سے نکل کر کنویں کے پاس آجانا، میں تمہیں اپنے گاؤں لے جاؤں گا۔ میں مسلمان ہونے کی خوشی میں گھر آ پہنچی۔ رام لال کی بھاوج چابیاں الماری کے اوپر رکھا کرتی تھیں۔ میں نے کبھی ان کی الماری نہیں کھولی تھی، لیکن مجھے اس بات کا پتا تھا کہ وہ پیسے کہاں رکھتی ہے۔ وہ نہاری ہی تھی، گھر میں اور کوئی نہ تھا۔ 

موقع دیکھ کر کرسی پر چڑھ کر الماری سے چابیاں اُٹھائیں اور دو ہزار کی رقم نکالی۔ تب دو ہزار ایک خطیر رقم ہوتی تھی۔ رات کا اندھیرا پھیلتے ہی میں گھر سے نکل گئی۔ ان دنوں آمد و رفت کے لیے اونٹ، بیل گاڑی اور گھوڑوں کا استعمال ہوتا تھا۔ شمس اپنی گھوڑی لیے میرا منتظر تھا۔ اس نے جلدی سے مجھے اپنے ساتھ بٹھایا اور گھوڑی کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے گاؤں لے آیا۔ اگلے روز اس نے مجھے مسلمان کیا اور میرا اسلامی نام زینب رکھا۔ میں شمس کے گھر رہنے لگی۔ ابھی کم سن تھی اور نکاح کے لیے وہ میرے بالغ ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ میں ان کے گھر بہت سے کام کرتی تھی تاکہ شمس کے گھر والے مجھ سے خوش رہیں اور اچھا سلوک کریں۔ وہ پڑھے لکھے نہ تھے اور زیادہ مذہبی باتیں نہیں کرتے تھے۔ شمس اکثر گھر سے باہر رہتا تھا اور کبھی کبھار ہی گھر آتا تھا۔ وہ تحریک کا سرگرم کارکن تھا۔ اس باعث اس کے کچھ دشمن بھی تھے، جو اس کی جان لینے کی کوشش میں تھے۔

اچانک شمس بیمار پڑ گیا، جو میرا محسن تھا اور میرا خیال رکھتا تھا، جس کی وجہ سے گھر والے بھی میرا خیال رکھتے تھے۔ میں نے راتوں کو رو رو کر خدا سے دعا مانگی کہ وہ شمس کو صحت یاب کر دے۔ وہ ٹھیک ہو گیا، لیکن ایک رات گھر سے نکلا تو واپس نہ آیا۔ اس کے دشمنوں نے گولیاں مار کر اسے ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے مرتے ہی میری ساری امیدیں بھی مر گئیں۔ میرا خیال رکھنے والا، میرے دکھ سکھ سننے والا اب کوئی نہ رہا تھا۔ شمس کے والدین ان پڑھ تھے۔ وہ مجھے منحوس سمجھنے لگے کہ میرے ان کے گھر پر آنے سے ان کا بیٹا ان سے بچھڑ گیا۔ میں مسلمان ہو چکی تھی، مگر لوگ مجھے مسلمان نہیں سمجھتے تھے کیونکہ میرے ماں باپ مسلمان نہیں تھے۔ جو رقم میں رام لال کے گھر سے لائی تھی، وہ بھی ان لوگوں نے مجھ سے لے لی۔ کہتے کہ یہ ہندو بنئے کا مال ہے، یہ سود کی رقم ہے، جو ہم پر حرام ہے۔ تاہم شمس کی ماں نے میری امانت سمجھ کر یہ رقم سنبھال کر رکھ لی۔ ان کے ایک رشتہ دار مجید کو علم تھا کہ میری رفتم امانت اماں کے پاس رکھی ہوئی ہے۔ اس نے اماں سے کہا، پھر بھی تم یہ رقم مجھے قرض دے دو۔ میں اس رقم کو کاروبار میں لگاؤں گا اور جب منافع ہوگا تو اصل رقم کے ساتھ منافع بھی تم کو دوں گا۔ تم اس لڑکی کے بیاہ کے وقت جہیز بنا لینا۔ 

ماں اس پر راضی نہ ہوئیں اور کہا، بیٹا یہ رقم میں تم کو نہیں دے سکتی۔ یہ اس لڑکی کی امانت ہے۔ جب یہ بڑی ہو جائے گی، تب اس کو دوں گی۔ پھر یہ اپنے ہاتھ سے چاہے جس کو دے دے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اور اگر رضائے الہی سے یہ لڑکی اس دنیا میں نہ رہی، تو پھر ہم اس رقم کو استعمال کر لیں گے۔ مجید نے یہ بات دل میں رکھ لی اور ایک دن مجھے گھوڑی پر بٹھا کر جنگل میں لے گیا۔ ایک ویرانے میں سواری سے اُتار کر مجھے زمین پر کھڑا کر دیا اور کمر سے خنجر نکال کر میری طرف بڑھنے لگا۔ میں ڈر کے مارے کانپنے لگی اور اس قدر خوفزدہ ہوئی کہ رونا بھی بھول گئی۔ کچھ دیر وہ مجھے خونخوار نظروں سے دیکھتا رہا۔ میں بھی معصومیت سے اس کی بے رحم نگاہوں کو تکتی رہی۔ مگر اچانک میرے گلے کے قریب لے جا کر جانے کیوں اس نے خنجر پھینک دیا اور مجھے مارنے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ پھر گھوڑی پر بٹھا کر واپس گھر لوٹ آیا۔ میری آنکھوں سے بے تحاشا آنسو رواں تھے اور منہ سے مسلسل سسکیاں نکل رہی تھیں۔ اس نے کہا، میں تم کو قتل کرنے کے لیے لایا تھا، پھر جانے کیوں نہیں مارے گا؟ اس نے مجھے شمس کے والدین کے گھر پر اتار دیا اور چلا گیا۔ اگلے دن پنچایت کے کچھ لوگ آئے۔ 

وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ تم لوگوں نے کیوں کسی کی بچی کو رکھا ہوا ہے۔ بہتر ہے کہ اسے اس کے ہم مذہب لوگوں کو دے دیا جائے، جہاں سے شمس اُسے اٹھا لایا تھا۔ میں ہرگز رام لال کے گھر جانا نہیں چاہتی تھی، لہٰذا خوب روئی کہ مجھے وہاں نہیں جانا۔ وہاں سب ہندو ہیں اور میں مسلمان ہو چکی ہوں۔ میں پھر سے ان کے درمیان نہیں رہ سکتی، مگر وہ لوگ میری بات نہیں مانتے تھے۔آخر کار یہ فیصلہ ہوا کہ مجھے پنجاب کے سیدوں کے پاس چھوڑا جائے، جو فیصلہ کریں۔ یوں سندھ کے ایک چھوٹے سے دیہات سے یہ لوگ مجھے پنجاب لے آئے اور جس گھرانے کے حوالے کیا، وہ معزز نیک مسلمان تھے اور مذہب کو اچھی طرح جانتے تھے۔ انہوں نے مجھے اپنے پاس رکھنے کی ہامی بھر لی۔ جس گھرانے نے مجھے پناہ دی، انہوں نے مجھے ساجدہ بی بی کے سپرد کر دیا۔ یہ سید زادی کافی عمر رسیدہ مگر غیر شادی شدہ تھیں۔ خاندان میں ان کے ہم پلہ رشتہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے ان کی شادی نہ ہو پائی تھی۔ اس بی بی نے مجھے پیار سے رکھا۔ وہ ایسی نیک اور خداترس خاتون تھیں، جن کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے ہی مجھے صحیح معنوں میں بتایا اور سمجھایا کہ اسلام کیا ہے۔ مجھ کو قرآن پاک پڑھایا اور اس کے معنی سمجھاتی تھیں۔ نماز بھی سکھائی۔ 

چند سال میں ان کے پاس رہی۔ میں ان کی خدمت دل سے کرتی تھی۔ایک دن اچانک شمس الدین کے والدین مجھے لینے آگئے۔ میں ان کے ساتھ جانا نہیں چاہتی تھی، مگر ساجدہ بی بی نے سمجھایا کہ تمہارے لیے ان کے پاس کوئی اچھا رشتہ آیا ہے، تم ان کے ساتھ چلی جاؤ تاکہ تمہاری حقیقی زندگی شروع ہو سکے اور تم محفوظ ہو جاؤ۔ شادی کے بعد تمہیں اپنا گھر مل جائے گا۔اپنے گھر کی آس دل میں لے کر میں ان لوگوں کے ساتھ آگئی۔ ان کا رشتہ دار عبد الرحمن ایک اچھا انسان تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کے لیے میرا رشتہ مانگا تھا۔ وہ شمس کی والدہ کا رشتہ دار تھا، یوں میری شادی قاسم الرحمن سے ہو گئی۔ اس گھر میں میرے سسر، قاسم اور اس کا چھوٹا بھائی عاصم رہتے تھے، جبکہ ان لڑکوں کی والدہ کا انتقال ہو چکا تھا۔واقعی یہ گھر میرا اپنا سا بن گیا۔ یہ سب بہت اچھے لوگ تھے اور مجھ سے پیار، محبت اور عزت سے پیش آتے تھے۔ میں بچپن سے گھر کا کام کاج کرتی آئی تھی، لہٰذا میں نے اس گھر کو خوب اچھی طرح سنبھال لیا، جہاں میرے سوا کوئی دوسری عورت نہیں تھی۔ ان تینوں کو سکھ مل گیا کہ میں ان کو گرم روٹیاں بنا کر دیتی اور میرا شوہر میرے ہر دکھ سکھ کا خیال رکھتا۔ میں اس گھر کے لیے نعمت اور رحمت بن گئی تھی۔

پانچ سال سکون سے گزر گئے۔ میں اب ایک سمجھ دار عورت اور دو بچیوں کی ماں تھی۔ سسر میری بچیوں کا بہت خیال رکھتے۔ دیور زیادہ تر گھر سے باہر رہتا اور شوہر بھی ہمارے لیے چار پیسے کمانے کی خاطر دن بھر محنت کرتے۔ وہ مجھ پر جان نچھاور کرتے۔ اگر کبھی گھر کا خرچ پورا نہ ہوتا، تو بھی مجھے محنت کرنے نہ دیتے۔ایک زمیندارنی نے گھر کے کام کے لیے بلایا اور اچھی تنخواہ کی پیشکش کی، مگر قاسم نے منع کر دیا اور کہا کہ تم گھر بیٹھو۔ عورت اپنے گھر میں رانی ہوتی ہے۔ میں دوہری مزدوری کر لوں گا، مگر تم کو کسی دوسرے کے گھر کی نوکرانی نہ بننے دوں گا۔ایک روز اینٹوں کے بھٹے پر قاسم کا کسی سے جھگڑا ہو گیا۔ تھوڑی سی تو تو میں میں کے بعد وہ گھر آگئے۔ اگلے دن وہ شخص قتل ہو گیا۔ قتل میرے شوہر نے نہیں کیا تھا، لیکن گزشتہ روز کے جھگڑے کی وجہ سے ان پر شک کیا گیا کہ قتل انہوں نے کیا ہے۔ یوں پولیس قاسم کو گرفتار کر کے لے گئی۔ کیس چلا اور میرے سرتاج کو چوبیس سال کی سزا ہو گئی۔
سسر بیٹے کے غم سے نڈھال ہو کر چارپائی پر گر گئے۔ دیور تھوڑا بہت کماتے، کچھ خود رکھتے اور کچھ ہمیں دے دیتے۔ بچیوں کو کھانا بھی پورا نہ ملتا، مجبوراً میں نے زمیندارنی کے گھر کام سنبھال لیا۔ وہاں سے گندم، چاول، کھانا سبھی کچھ مل جاتا تھا۔ اس طرح وقت کاٹنا آسان ہو گیا۔ایک دن سسر بولے، تم کب تک کسی کے در کی نوکرانی رہو گی؟ اگر قاسم واپس نہ آ سکا، جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی اس کی زندگی تمام ہو جائے، تو اس انتظار سے کیا یہ بہتر نہیں کہ تم اپنے والدین کے پاس لوٹ جاؤ؟ اگر ہم کوشش کریں اور ان کا پتا معلوم ہو جائے، تو میں تمہیں انڈیا بھیجنے کو تیار ہوں۔ بے شک تم بچیوں کو بھی ساتھ لے جاؤ۔ یہ ابھی بہت چھوٹی ہیں، تم ہی ان کو پال سکتی ہو۔میں نے سسر کے پاؤں پکڑ لیے اور کہا، بابا جان، مجھ پر یہ ظلم نہ کریں۔ میں مسلمان ہو چکی ہوں اور میری دو بیٹیاں ہیں، جن کا باپ بھی مسلمان ہے۔ وہ بولے، بیٹی، تیرا اور ان بچیوں کا تحفظ میری زندگی تک ہے۔ میرے بعد تم یہاں نہ رہ سکو گی۔ ہو سکتا ہے کچھ دیہاتی تم کو مسلمان تسلیم نہ کریں اور مسئلہ کھڑا کریں۔کچھ دن ہم سوچتے رہے، آخر میں نے کہا، بابا جان، میری بچیاں ایک مسلمان باپ کی اولاد ہیں۔ میں اسی گھر میں جیوں گی اور اسی میں مروں گی۔ مجھے یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن قاسم جیل سے رہا ہو کر زندہ سلامت لوٹ آئے گا۔ آپ مجھے اپنے قدموں میں رہنے دیجئے۔ اگر کسی نے مسئلہ پیدا کیا تو دوسرے ایسے مسلمان لوگ بھی ہیں جو میرا ساتھ دیں گے۔

تب میرے سسر نے ایک اور تجویز دی۔ کہا، تم ابھی کم عمر ہو۔ اگر کہو تو کسی نیک انسان سے تمہارا نکاح کروا دیتا ہوں تاکہ میرے بعد تم دربدر نہ ہو جاؤ۔ پچیس سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا، مجھے لگتا ہے قاسم اب جیل سے باہر نہیں آ سکے گا ۔میں نے کہا، مجھے اپنے رب پر بھروسہ ہے۔ میں بچیوں کی خاطر ایسے ہی جیون گزار لوں گی۔ میں عمر بھر محنت مزدوری کر لوں گی۔اب میں دن رات اپنے سسر کی سلامتی کی دعا کرتی۔ یہ بزرگ زندہ تھے تو میرا بھی اس گھر میں ٹھکانہ تھا اور گاؤں میں عزت بھی۔ سات سال گزر گئے، سسر صاحب کو اللہ نے زندہ اور صحت مند رکھا تھا۔ ایک دن اچانک میرے شوہر جیل سے چھوٹ کر گھر آگئے۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں اور میری بچیاں بہت خوش تھیں۔ دیور اور سسر کی خوشی کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ دراصل اصل مجرم پکڑا گیا تھا، یوں قاسم کو رہائی نصیب ہو گئی۔
ایک بار پھر سکون کی زندگی نصیب ہو گئی، لیکن تقدیر کو میرا سکون سے رہنا منظور نہ تھا۔اتنے سالوں بعد نجانے میرے والدین اور بھائیوں کو کیا سوجھی کہ وہ مجھے ڈھونڈنے نکل پڑے۔ انہوں نے مجھے تلاش کر لیا اور واپس لے جانے کے لیے آگئے، جبکہ اب واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میرے والدین پہلے رام لال کے گھر گئے۔ وہ مر چکا تھا۔ تب اس کے گھر والوں نے شمس کے گھر کا بتایا۔ یہ وہاں گئےاور ان سے پتا پوچھتے ہوئے میرے سسر کے دروازے پر آ پہنچے۔ جب وہ لوگ پہنچے، میری بیٹی کے سسرال والے بھی آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ لڑکی کے نانا اور ماموں ہندو ہیں، تبھی گاؤں میں شور مچ گیا۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرنے لگے۔ میری بیٹی کے سسرالی بھی گھبرا گئے اور زرینہ کو چھوڑ کر چلے گئے۔ نانا اور ماموں کی وجہ سے میری بیٹی اُجڑ کر گھر بیٹھ گئی۔ان لوگوں کو یہ احساس تک نہ ہوا کہ زرینہ تو میری اولاد ہے۔ والدین مجھ پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ تم ہندو ہو، ہمارے ساتھ چلو اور اپنی بچیوں کو ان کے مسلمان باپ کے پاس چھوڑ دو۔میرے سسر اور شوہر نے میرے والدین کی کافی منت سماجت کی، لیکن وہ نہ مانے۔ ان کو صرف مجھ سے غرض تھی، میری اولاد سے نہیں۔

آخر کار میں نے جھگڑا شروع کر دیا کہ جب میں چھوٹی سی بچی تھی، اس وقت آپ لوگوں کو رحم نہ آیا اور مجھے قرض کی ادائیگی کے طور پر ایک ستر سالہ بوڑھے کے حوالے کر دیا۔ تب میں آپ کو پیاری نہ لگی تھی۔ اب اتنے سالوں بعد میری محبت آپ کے دلوں میں کیسے جاگ اٹھی کہ مجھے میری اولاد سے جدا کرنے آ گئے ہو؟ انہوں نے بہت زور لگایا، مگر میں نہ گئی، اور وہ چلے گئے۔ لیکن ان کے آنے سے مجھے بہت نقصان ہوا۔ یہاں جن کو خبر نہ تھی کہ میں ہندو تھی، انہیں بھی سب معلوم ہو گیا۔ اس بات کا میری بچیوں کے مستقبل پر منفی اثر پڑنا لازم تھا، کیونکہ لوگ رشتہ کرتے وقت دادا دادی، نانا نانی کا ضرور پوچھتے ہیں۔ کافی جھگڑے کے بعد وہ لوگ چلے گئے، لیکن میری زندگی میں مزید مشکلات داخل ہو گئیں۔ انہی دنوں میرے بیٹے کی شادی ہونا تھی۔ لڑکی والے اچھے لوگ تھے۔ انہوں نے میرے بیٹے کو اپنی بیٹی دے دی۔
 بہو ایک سمجھدار لڑکی تھی۔ اس نے آتے ہی مجھے سہارا دیا۔ اس کے آنے سے مجھے سکون نصیب ہوا۔ اس کے خاندان نے ہمارا تحفظ کیا، میرے شوہر اور بیٹے کو کاروبار سے لگایا۔ اس طرح ایک بار پھر میں نے خوشحالی کے دن دیکھے۔آج میں بوڑھی ہو چکی ہوں۔ جیسے میرے والدین میری صورت سے محروم ہوئے تھے، ایسے ہی میں اپنی بیٹی کی صورت دیکھنے سے محروم ہوں۔ زرینہ کے سسرال والے بعد میں اُسے منا کر تو لے گئے، مگر میکے نہیں آنے دیتے تھے۔ شاید مجھے ماں باپ کی بددعا لگ گئی ہو۔ لیکن میں اپنے بس میں کہاں تھی؟ میں تو حالات کے بس میں تھی، کیونکہ جب ملک تقسیم ہوتے ہیں تو انسان بھی تقسیم ہو جاتے ہیں، کنبے ٹوٹ جاتے ہیں، اور اپنے اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں۔درمیان میں وقت آتا ہے، جو تقدیروں کو بدل ڈالتا ہے۔ وہ بھی تقسیم ہو جاتی ہیں۔ اپنے بیگانے ہو جاتے ہیں، اور غیروں کو اپنانا پڑ جاتا ہے۔اب تو یہی دعا ہے کہ ایمان کی سلامتی کے ساتھ موت آئے۔ شکر ہے اللہ تعالیٰ کا کہ قاسم کی بے گناہی ثابت ہو گئی۔ ان کی رہائی کے ایک سال بعد اللہ نے میری جھولی میں بیٹے جیسی نعمت ڈال دی، ورنہ میں کہاں جاتی؟ سسر نہ رہے، نہ قاسم ہیں، بیٹیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں۔ یہ میرا بیٹا ہی ہے جو میرے بڑھاپے کا سہارا ہے۔

 (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ