بیوی کی بے وفائی

Sublimegate Urdu Stories

ان دنوں امی ابو، بھائی آفتاب کے لیے ایک اچھی لڑکی کی تلاش میں تھے۔ بھائی کو معقول ملازمت مل چکی تھی، اور اب ان کے لیے دلہن لانے کا ارمان اپنے عروج پر تھا۔ والدہ نے کئی گھر دیکھے، لیکن اپنے مطلب کی لڑکی نہ مل سکی۔ پتہ چلا کہ بہو تلاش کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔امی کے کوئی اونچے آدرش نہ تھے۔ وہ چاہتی تھیں کہ بہو خواہ غریب گھر کی ہو، لیکن شریف اور نباہ کرنے والی ہو۔ تاہم بھائی آفتاب کا کہنا تھا کہ میری بیوی خوبصورت ہونی چاہیے۔والدین نے لڑکی کی تلاش میں ایک سال گنوا دیا۔ بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ پسند کی لڑکی ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، جس میں وہ تمام خوبیاں ہوں جن کی ہم تمنا رکھتے ہیں۔

ایک روز والد صاحب کسی کام سے خانیوال اپنے دوست نصیر الدین کے گھر گئے۔ باتوں باتوں میں اس نے ذکر کیا کہ اس کی ایک کزن ہے، جن کے دو بیٹیاں ہیں۔ خاوند سے علیحدگی ہو چکی ہے، اور اب ان بچیوں کی شادی کا مسئلہ درپیش ہے۔ بچیاں نیک، شریف اور خوبصورت ہیں، لیکن خاتون بہت غریب ہیں۔ بڑی بیٹی ایف اے کر چکی ہے، جبکہ چھوٹی ابھی میٹرک میں زیر تعلیم ہے۔ نصیر الدین کی کزن کا نام کوثر بی بی تھا۔والد صاحب نے کہا کہ مجھے لڑکی دکھاؤ، میں اپنے بیٹے کے لیے ایک اچھے گھرانے کی لڑکی کی تلاش میں ہوں۔ نصیر الدین انہیں کوثر بی بی کے گھر لے گئے۔ والد کو پہلی ہی نظر میں ان کی بڑی بیٹی، فرح ناز، پسند آ گئی۔ انہوں نے اپنے دوست سے کہا کہ اپنی کزن سے بات کرو۔نصیر الدین نے بات کی تو کوثر بی بی مان گئیں، اور یہ رشتہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ 

والدہ اور بھائی کو بھی فرح ناز اور اس کا گھرانہ پسند آیا۔ والدہ نے کہا کہ لڑکی بہت غریب گھر سے ہے۔ اگر وہ ہمارے ساتھ اچھا نباہ کرے گی تو اس کے بھائی کو کاروبار کرا دیں گے تاکہ ان کے گھر سے غربت دور ہو۔فرح ناز ہماری بھابھی بن کر آ گئیں۔ جتنی خوبصورت تھیں، اتنی ہی خوب سیرت بھی تھیں۔ بھابھی کی والدہ اور بھائی بھی اس رشتے پر خوش تھے۔ زندگی کسی سہانے خواب کی مانند گزر رہی تھی۔بھائی نے اپنے بڑے برادر نسبتی کو ایک دوست کے توسط سے بیرون ملک بھجوا دیا، جہاں اسے اچھی ملازمت مل گئی، اور وہ خوب کمانے لگا۔ وہ ہر ماہ اپنی ماں کو رقم بھیجتا، اور وہ سلیقہ مند خاتون اسے سنبھال کر خرچ کرتیں۔ کچھ پیسہ پس انداز ہوا تو ایک مکان بھی بنوا لیا۔

ہمارے بھائی کی شادی کو چوتھا سال تھا کہ ایک دن کسی نے دروازے پر دستک دی۔ ابو نے دروازہ کھولا۔ ایک باریش شخص سامنے کھڑا تھا۔ اس نے کہا کہ میں آپ کی بہو کا باپ، عبداللہ ہوں۔ اپنی بیٹی سے ملنا چاہتا ہوں۔ براہ کرم اسے میرا پیغام دیں۔ اگر وہ مجھ سے ملنا چاہے تو میری زندگی کی ایک بڑی خواہش پوری ہو جائے گی۔ میں کافی عرصے سے اپنی بچیوں کی جدائی میں تڑپ رہا ہوں۔ زندگی کا بھروسہ نہیں، یہ میری آخری خواہش سمجھ لیں۔ والد صاحب اندر آئے اور بہو سے کہا کہ بیٹی، تمہارے والد آئے ہیں، تم سے ملنے۔ کیا تم ان سے ملنا چاہو گی؟ بھابھی نے کچھ سوچ کر اثبات میں سر ہلا دیا تو والد صاحب، عبداللہ کو گھر میں لے آئے اور عزت سے مہمان خانے میں بٹھایا۔ چائے وغیرہ کا کہا اور خود ان کے پاس جا بیٹھے۔ بہو سے کہا کہ تم بچوں کو لے کر ڈرائنگ روم میں آ جاؤ، تاکہ وہ اپنے نواسے نواسی سے بھی مل لیں۔ 

ذرا دیر میں بھابھی ہاتھ منہ دھو کر، کپڑے بدل کر، اپنے والد سے ملنے آئیں۔ وہ انہیں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئیں۔ دس سال بعد باپ بیٹی کی ملاقات ہوئی تھی۔ والد اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور وفور جذبات سے رونے لگے۔ اس پر بھابھی کا دل پسیجا اور وہ اپنے والد سے لپٹ گئیں۔ بڑا دل گداز منظر تھا۔ سبھی آبدیدہ ہو گئے۔ ماں ہو یا باپ، اولاد کی محبت سبھی کو ہوتی ہے۔ اولاد ایک ایسی شے ہے کہ جس کا درد جدائی سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ مگر میاں بیوی کی علیحدگی میں ہمیشہ نقصان بچوں کا ہی ہوتا ہے۔اس کے بعد عبداللہ کبھی کبھار بھائی اور ان کے بچوں سے ملنے آنے لگے۔ میرے والدین انہیں بہو سے ملنے سے نہیں روکتے تھے کیونکہ بھابھی خود اپنے والد سے ملنا چاہتی تھیں۔ وہ ان سے محبت کرتی تھیں۔

 اس ضمن میں انہوں نے اپنی ماں کی ناراضی کو بھی نظر انداز کر دیا تھا، تو ہم لوگ بھلا انہیں کیسے ملنے سے روک سکتے تھے؟ایک دن عبداللہ اپنے بھائی کو بھی ساتھ لے آئے۔ یہ وہی بھائی تھے جو اپنے بیٹے کے لیے شدت سے فرح ناز کے رشتے کے طالب تھے۔ بہرحال، اب تو وہ شادی شدہ تھیں اور دو بچوں کی ماں بن چکی تھیں۔ ہم چونکہ ان کے والد کا احترام کرتے تھے، تو ان کے چچا کا بھی احترام کیا اور مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔عبداللہ بہت خوش ہوئے۔ والد صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کے بھائی کو بھی عزت دی۔ اس واقعے کو ایک مہینہ گزر گیا کہ ایک دن عبداللہ آئے اور اپنی بیٹی کو لے جانے کی فرمائش کی۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنی بیٹی کو دو چار دن کے لیے اپنے گھر لے جانا چاہتا ہوں تاکہ یہ میری دوسری بیوی اور اپنے بہن بھائیوں سے مل سکے۔ دوسری ماں کے بچوں سے ملنے کے اشتیاق میں بھابھی فرح ناز بھی اپنے والد کے ساتھ ان کے گھر جانے کو تیار ہو گئیں۔
 والد سے اجازت مانگی، انہوں نے دے دی۔ ان کے خیال میں باپ بھی وہی حق رکھتا ہے جو ماں کو حاصل ہوتا ہے۔ وہ ہر حال میں اپنی اچھی اور پیاری بہو کی خوشی اور رضا چاہتے تھے۔پہلی بار بھابھی اپنے والد کے گھر گئیں۔ بھائی نے بہت سے تحفے تحائف دے کر رخصت کیا۔ فرح ناز نے وہاں اپنی سوتیلی ماں اور ان کی اولاد سے ملاقات کی۔ چار روز بعد وہ خوش خوش واپس لوٹ آئیں۔ دو ماہ بعد انہوں نے دوبارہ والد کے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی۔ بھائی نے اجازت دے دی۔ ڈرائیور انہیں چھوڑ آیا۔ اس بار وہ دو دن بعد واپس آئیں، مگر کچھ پریشان سی لگ رہی تھیں۔ پوچھا گیا: کیا بات ہے؟ کیوں پریشان ہو؟ وہاں خیریت تو ہے؟ لیکن انہوں نے چپ سادھ لی، کچھ نہ بتایا۔ کچھ دن بعد بھابھی کے چچا آئے اور بتایا کہ عبداللہ بھائی بہت بیمار ہیں، وہ آ نہیں سکتے اور اپنی بیٹی کو یاد کر رہے ہیں۔ بیٹی سے ملنا چاہتے ہیں۔ 

یہ سنتے ہی بھابھی جلدی سے تیار ہو گئیں کہ مجھے اپنے والد کی عیادت کے لیے جانا ہے، جلدی واپس آ جاؤں گی۔ بھائی نے چچا کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ایک ہفتہ گزر گیا، وہ واپس نہ آئیں۔ ادھر دونوں بچے بہت پریشان تھے۔ وہ تو ایک دو دن کا کہہ کر گئی تھیں۔ جب سات دن بعد بھی نہ لوٹیں تو بھائی خود بیوی کو لینے عبداللہ کے گھر گئے۔ وہاں بیوی نے آنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میرے والد کی بیماری کی وجہ میری جدائی ہے، اس لیے ابھی کچھ دن مجھے یہیں رہنے دیں۔ جب تک والد مکمل طور پر صحت یاب نہ ہو جائیں، بچوں کو آپ لوگ سنبھال لیں۔ ایک اور ہفتہ گزر گیا، مگر فرح ناز واپس نہ آئیں۔ اس بار والد صاحب خود انہیں لینے گئے۔ لیکن بھابھی گھر پر موجود نہ تھیں۔ بتایا گیا کہ بازار گئی ہیں، کچھ ضرورت کی چیزیں لینی تھیں۔ جب وہ واپس آئیں تو بناؤ سنگھار میں تھیں، جیسے کسی تقریب سے آ رہی ہوں۔ ان کے ساتھ ان کے چچا زاد بھائی بھی تھے، جو انہیں بازار لے کر گئے تھے۔ والد صاحب بہت پریشان ہوئے۔ یہ کیا ماجرا ہے؟ دو معصوم بچے ماں کے لیے تڑپ رہے ہیں، باپ بیمار ہے اور فرح ناز بازاروں میں کزن کے ساتھ گھوم رہی ہیں۔ انہوں نے کہا: بہو، اگر ہمارا نہیں تو اپنے بچوں کا ہی خیال کر لو، وہ بہت اداس ہیں، کہیں بیمار نہ ہو جائیں۔فرح ناز نے کہا: آپ جائیں، میں خود ایک دو دن میں آ جاؤں گی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ نہ آئیں، لیکن چند دن بعد عدالت سے کچھ قانونی کاغذات موصول ہوئے۔ معلوم ہوا کہ بھابھی فرح ناز نے اپنے والد کی سرپرستی میں آفتاب بھائی سے خلع کے لیے دعویٰ دائر کر دیا ہے۔ یہ عدالت کی طرف سے نوٹس تھے۔ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ وہ کبھی ایسا قدم اٹھائیں گی۔ خدا جانے ان پر کیا بیت گئی تھی، یا والد اور چچا نے ان پر کوئی ذہنی جادو کر دیا تھا کہ وہ اپنے معصوم بچوں کو بھی بھول گئیں۔ ہم سب تڑپ کر رہ گئے، اور بھائی کی حالت تو ناقابلِ بیان تھی۔ صلح کی بہت کوششیں ہوئیں۔ امی ابو کئی بار سمجھانے گئے، لیکن ان لوگوں نے ہمارے لیے اپنے دروازے بند کر دیے۔ عدالت جانے کی ہمت کس میں تھی، پھر بھی آفتاب بھائی مقدمے کی پیشیوں پر جاتے رہے، لیکن فرح ناز وہاں بھی ان سے منہ موڑتی رہیں۔ بالآخر عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ خلع کی صورت میں انہوں نے بچے آفتاب بھائی کو دے دیے۔

بھائی دو معصوم بچوں کے ساتھ آبدیدہ حالت میں گھر لوٹے۔ والدہ سے لپٹ کر بہت روئے، لیکن اب ان کے درد کا کوئی مداوا نہ تھا۔ وہ رو رہے تھے، اور بچے بھی رورہے تھے، یہ سمجھے بغیر کہ ہمارے ابو کیوں رو رہے ہیں۔ ہر شخص حیران و ششدر تھا کہ کیا کوئی ماں ایسی بھی ہو سکتی ہے جو اپنے والد اور چچا کی رضا کی خاطر اپنا بسایا ہوا گھر، پیار کرنے والا شوہر اور معصوم بچے چھوڑ دے؟ یہ ایسی انوکھی بات تھی کہ کسی کو یقین نہ آتا تھا۔ یا تو بھائی کی عقل ماری گئی تھی، یا شاید فرح ناز کو اپنے چچا زاد سے پہلے سے محبت تھی، جسے انہوں نے حالات کے تحت چھپائے رکھا۔ یہ راز آج تک نہ کھلا۔ نہ ہی ان کی والدہ نے اس بارے میں کچھ بتایا، بلکہ مکمل خاموشی اختیار کر لی۔ انہیں اپنی بیٹی کی بے وفائی کا گہرا صدمہ تھا۔انہوں نے والد صاحب سے کہا کہ فرح نے جو کچھ کیا، وہ واقعی غلط تھا، لیکن یہ بات میرے اختیار میں نہ تھی۔ البتہ میں اپنی چھوٹی بیٹی کا رشتہ آپ کے بیٹے سے کرنے کے لیے تیار ہوں تاکہ آپ کے نواسے اور نواسی کو ماں کی جگہ خالہ کا پیار مل جائے۔والدین نے ہمت نہ کی۔ سوچا، جب ایک بیٹی نے ایسا کیا ہے تو دوسری جانے کیسی ہو۔ کیا پتہ اس کا دل بھی کہیں اور لگا ہو، اور وہ صرف مجبوری میں ہمارے بچوں کی ماں بنے، لیکن انہیں ماں کا پیار نہ دے سکے۔ لہٰذا انہوں نے معذرت کر لی۔
چار سال بعد بھائی اس صدمے سے کسی حد تک سنبھل سکے، اور اپنی خالہ زاد سے شادی کر لی۔ اس خاتون نے نہ صرف دونوں بچوں کو ماں کا پیار دیا، بلکہ بھائی کے ٹوٹے ہوئے دل کو سہارا دیا اور ان کا بکھرا ہوا گھر دوبارہ آباد کر دیا۔اب بھائی کے چار بچے ہیں اور وہ ایک معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔آج بھی جب میں یہ سوچتی ہوں کہ بھابھی فرح ناز نے ایسا کیوں کیا، تو دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ اکثر مائیں بچوں کے لیے قربانی دیتی ہیں، لیکن اس عورت نے محض ایک محبوب پانے کی خاطر اپنی اولاد کو چھوڑ دیا۔

 (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ