خود غرض چچا

Sublimegate Urdu Stories

جب میں چھوٹی سی تھی، تب ہمارے گھر میں سکون تھا، خوشیاں تھیں۔ ہمارا گھر شہر کے ایک پوش علاقے میں واقع تھا۔ یہ ایک شاندار کوٹھی تھی، جس کا وسیع لان سبزہ زار سے ہرا بھرا رہتا اور رنگ برنگے پھولوں کی وجہ سے جنت کا ٹکڑا معلوم ہوتا تھا۔ بچپن تو ویسے بھی بھلائے جانے والا زمانہ نہیں ہوتا، خواہ جیسا بھی گزرے۔امی کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا، جبکہ والد صاحب ایک امیر خاندان کے فرد تھے۔ ان کا اپنا کاروبار تھا۔ اللہ نے برکت دی تو وہ کروڑ پتی ہو گئے۔ اب دولت ہمارے گھر کی باندی تھی، اور سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی۔ والد صاحب کا نام یوسف تھا۔ ان کے بھائی نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو برادرانِ یوسف نے حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا، اور اس کی وجہ دولت تھی۔ چچا بھی کاروبار کرتے تھے، لیکن ان کا کاروبار روز بروز تنزلی کا شکار ہوتا گیا، جبکہ والد صاحب کا کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا گیا۔ آخرکار وہ شہر کے چند گنے چنے امیروں میں شمار ہونے لگے۔

پاپا اپنے خاندان سے بے حد محبت کرتے تھے۔ ان کا کنبہ مختصر تھا۔ دو بھائی اور ایک بہن، جو کافی عرصہ پہلے شادی کے بعد امریکہ چلی گئی تھیں۔ چچا اکثر پاپا سے ملنے آتے، اور جب آتے تو اپنے کاروبار کی تباہ حالی کا رونا روتے۔ ان کی مالی حالت ابتر ہو چکی تھی۔ چچا کی خواہش تھی کہ میرے والد انہیں اپنے کاروبار میں شریک کر لیں۔ پاپا رحم دل انسان تھے۔ انہوں نے اپنے بھائی کی پریشانی دیکھ کر انہیں کاروبار میں شریک کر لیا۔ یوں چچا ہمارے کاروبار میں پارٹنر بن گئے، گو ان کی سرمایہ کاری برائے نام تھی؛ ساری دولت تو پاپا کی ہی تھی۔احسن چچا کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا، عامر، تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ میری شادی عامر سے کروا دیں، تو کاروبار خود بخود عامر کے پاس آ جائے گا اور وہ اس کے سرپرست بن جائیں گے۔ وقت گزرتا گیا۔ پاپا اور چچا کے درمیان محبت بڑھتی گئی۔

کاروبار کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی ان کی سوچ مشترک ہونے لگی۔ لیکن مجھے اپنے بزرگوں کے ان عزائم کا کچھ علم نہ تھا۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اجل نے پاپا کو جلد آ لیا، اور میں اور امی اس دنیا میں تنہا رہ گئے۔ بچپن میں ہمارا گھر سنبھالا ہوا تھا۔ ان دنوں میں میٹرک میں تھی۔ اس وقت عامر نے میرا بہت ساتھ دیا، ورنہ شاید میں امتحان بھی نہ دے پاتی۔ ملازمہ اماں زبیدہ میرا بہت خیال رکھتی تھیں۔ وہ پچھلے پندرہ سال سے ہمارے ساتھ تھیں، اور ہمیں گھر کے فرد کی طرح عزیز تھیں۔ انہوں نے مجھے بچپن سے سنبھالا اور ماں جیسی محبت دی۔پہلے ایک سال تک چچا اور چچی ہم سے اچھا برتاؤ کرتے رہے، لیکن پھر ان کی نیت میں فتور آنے لگا۔ میں آگے تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی، لیکن چچا نہیں چاہتے تھے کہ میں مزید پڑھوں، چنانچہ انہوں نے مجھے کالج میں داخلہ لینے سے روک دیا، جب کہ عامر کو اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ بھجوا دیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ جو نوجوان بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں، وہ اکثر وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ان کے سامنے ایک نئی دنیا ہوتی ہے، اور اگر وہاں ان کے مقاصد پورے ہو جائیں تو وہ واپس پلٹ کر آنے کا نام نہیں لیتے۔

 کم از کم ہمارا تو یہی تجربہ رہا۔امی میری فکر میں دن بہ دن بیمار ہوتی گئیں۔ انہیں ہر وقت یہ خیال ستاتا کہ اگر وہ نہ رہیں، تو میرا کیا بنے گا؟ بے شک، میں اکلوتی وارث ہونے کے ناتے پاپا کی تمام جائیداد کی مالک تھی، لیکن اس وقت کاروبار اور جائیداد کی نگرانی چچا کے ہاتھ میں تھی۔ رفتہ رفتہ چچا اور چچی کا رویہ ہم سے بدلنے لگا۔ چچی میری ماں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہیں تھیں، ان کا باقاعدہ علاج نہیں کروایا جا رہا تھا اور جان بوجھ کر غفلت برتی جا رہی تھی۔ امی جان چکی تھیں کہ چچا اور چچی ان کے مرحوم شوہر کی دولت اور جائیداد پر قبضہ جمانے کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔امی کے میکے والے غریب تھے، جن سے والد صاحب کا تعلق بہت کم تھا۔ اس لیے ان سے کسی قسم کی توقع رکھنا بھی بے کار تھا۔ میں کم سن تھی، اپنوں کے ارادوں سے بے خبر تھی، لیکن جب ہماری ملازمہ زبیدہ اماں کو بھی یہ احساس ہو گیا کہ چچا چچی کے ارادے نیک نہیں ہیں، تو وہ اور زیادہ ہمارا خیال رکھنے لگیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ جو دوائیں چچی امی کو کھلاتی تھیں، وہ اماں زبیدہ خود اپنے ہاتھ سے دیں، مگر چچی انہیں دواؤں کے قریب بھی نہیں آنے دیتی تھیں۔ ان دواؤں کے استعمال سے میری ماں کی حالت روز بہ روز خراب ہوتی جا رہی تھی۔

زبیدہ اماں چچی سے کہتیں، بیگم صاحبہ! دوائیں بدلوا لیں، کسی اور ڈاکٹر کو دکھا لیں۔ اس علاج سے تو بیگم صاحبہ کی صحت اور بھی بگڑتی جا رہی ہے۔مگر وہ غصے سے کہتیں، تم چپ رہو۔ جس بات کا پتہ نہ ہو، اس میں بولنے کی ضرورت نہیں۔یوں وہ انہیں ڈانٹ کر خاموش کروا دیتیں۔چچی رات کو بھی امی کے پاس سوتیں، خود اپنے ہاتھوں سے دوا کھلاتیں، لیکن کسی ماہر ڈاکٹر کو دکھانے کا کبھی نہ سوچتیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میری ماں دو ماہ کے اندر اندر تیزی سے گھل کر دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ان دنوں مجھے انہوں نے امی کی بہن کے گھر بھیج دیا، یہ کہہ کر کہ ماں کی حالت دیکھ کر روتی ہے، تو ماں بھی رونے لگتی ہے۔ میں وہاں جانا نہیں چاہتی تھی، لیکن چچا کی وجہ سے ان کا حکم ماننے پر مجبور تھی، کیونکہ ہم ان کے رحم و کرم پر تھے۔مرنے سے پہلے میری ماں نے اماں زبیدہ سے کہا، مجھے شک ہے کہ دیورانی مجھے غلط دوا دے رہی ہے۔ جب دوا اندر جاتی ہے، تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یہ مجھے کوئی ایسی چیز دے رہی ہے، جس کا زہر آہستہ آہستہ اثر کر رہا ہے۔

خدا جانے امی کو یہ احساس کیسے ہوا؟ بہرحال، یہ شک درست تھا یا نہیں، میں کچھ کہہ نہیں سکتی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ میری ماں، جو پہلے اچھی بھلی، صحت مند تھیں، اچانک دنیا سے رخصت ہو گئیں۔جتنا قہر میرے دل پر ٹوٹا، خدا کسی پر نہ لائے۔ ایک بنتی ہوئی جنت جیسے گھر میں پلنے والی گڑیا جیسی بچی، حالات کے بے رحم تھپیڑوں سے ٹوٹ پھوٹ گئی۔ابھی میری عمر صرف سولہ برس تھی کہ میں یکدم ایک سمجھ دار لڑکی میں بدل گئی، جس کے اپنے ہی اُس کے جانی دشمن بن چکے تھے، اور اُسے انہی کے بیچ رہنا بھی تھا۔ میں، جو کبھی ایک چنچل اور لاڈلی لڑکی تھی، تنہائی پسند اور بوڑھوں جیسی سنجیدہ ہو گئی تھی۔ خاموشی کے سمندر میں ڈوب گئی تھی۔جب کالج میں داخلے کا وقت آیا، تو چچا نے کہہ دیا، ماں باپ کا سایہ اس کے سر پر نہیں، زمانہ خراب ہے، اور مجھ پر بڑی ذمہ داری ہے۔

ملیحہ اب آگے نہیں پڑھے گی، بلکہ میں جلد اس کی شادی کر کے ایک بڑی ذمہ داری سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں۔مجھے پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ میرے ماں باپ نے جانے میرے لیے کیا خواب دیکھے تھے۔ سوچا بھی نہ تھا کہ میٹرک کے بعد کالج کی شکل بھی دیکھنے کو نہ ملے گی۔ اس ظلم پر صبر آتا ہی نہیں تھا۔ روتے روتے ہلکان ہو جاتی تھی، پھر اماں زبیدہ کے کوارٹر میں جا بیٹھتی اور جی بھر کے روتی۔چچی بھی یہی چاہتی تھیں کہ میں ان کی آنکھوں سے دور رہوں۔ انہیں میرے ملازموں کے کوارٹر میں بیٹھنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ جب بھی ان کی بیٹیوں کے لیے اچھے رشتے آتے، تو رشتہ لانے والے مجھے پسند کر لیتے، اور یہ بات چچی کو سخت ناگوار گزرتی۔ وہ چاہتی تھیں کہ جب بھی کوئی ان کی بیٹیوں کو دیکھنے آئے، تو میں سامنے نہ آؤں۔

ایک دن میں نے چچی کو چچا سے کہتے سنا کہاحسن! اپنی بھتیجی کا کچھ بندوبست کرو۔ اسی کی وجہ سے میری بچیوں کے رشتے نہیں ہو رہے۔ یہ سامنے آ جاتی ہے تو دیکھنے والوں کی نظریں اسی کے چہرے پر ٹھہر جاتی ہیں۔ عثمان میرا دوست ہے، اس کی بیوی فوت ہو چکی ہے۔ وہ ایک اعلیٰ عہدے پر رہا ہے۔ عمر کچھ زیادہ ہے، مگر مال دار ہے۔ اسے دوسری شادی کی ضرورت ہے۔ اگر نو عمر لڑکی مل جائے تو خوش ہو گا، کیونکہ اس کی کوئی اولاد نہیں اور وہ اولاد کا خواہش مند ہے۔ اگر یہ رشتہ ہو جائے تو میرے سر سے ایک بڑا بوجھ اتر جائے گا۔چچی کی باتیں سن کر میں گویا سوچ کے سمندر میں ڈوب گئی۔یا اللہ! اب میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟ کیا چچا واقعی مجھے اپنے سے دوگنی عمر کے شخص سے بیاہ دیں گے؟یہ سوچ سوچ کر میں ادھ موئی سی ہو گئی۔میں نے یہ بات اماں زبیدہ کو بتائی تو وہ بھی فکر مند ہو گئیں۔

 بولیں کہ ایک ہی راستہ ہے، اگر تمہاری پھپھو سے رابطہ ہو جائے تو شاید وہی احسن میاں کو روک سکیں۔میں نے کہا، میں کیسے ان سے رابطہ کروں؟ وہ تو امی اور پاپا کی وفات پر بھی نہیں آئیں۔ میرے پاس نہ ان کا پتا ہے اور نہ فون نمبر۔ اور چچا تو ہمیں ان کا نمبر کبھی نہیں دیں گے۔عامر نے بھی امریکہ جا کر شادی کر لی تھی۔ اب اس کا آسرا بھی نہیں رہا تھا۔ہم انہی سوچوں میں گم تھے کہ ایک دن چچا نے عثمان صاحب کو دعوت پر بلا لیا۔ بہت پرتکلف کھانے تیار کیے گئے۔ چچی نے مجھے بھی خوب سجا سنوار کر کھانے کی میز پر بٹھا دیا۔مجھے دیکھ کر عثمان صاحب حیران رہ گئے۔ ان کے چہرے پر ایک لمحے کو حیرت، پھر افسوس کے آثار نمودار ہوئے۔انہوں نے دل میں سوچا کہ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ اس معصوم بچی پر بھی رحم نہیں آتا؟ کیا واقعی میں پچپن سال کی عمر میں اس ننھی سی بچی سے شادی کروں گا؟وہ سمجھے تھے کہ احسن کی بھتیجی ان سے دس، پندرہ سال چھوٹی ہو گی، مگر اتنا زیادہ فرق؟ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔مجھے دیکھ کر ان کا چہرہ مغموم ہو گیا۔ چچا نے بھی ان کے چہرے کے تاثرات کو بھانپ لیا۔ دراصل عثمان صاحب نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بیرون ملک گزارا تھا۔انہوں نے کہا کہ میں ملیحہ سے علیحدگی میں بات کرنا چاہوں گا، اگر آپ برا نہ مانیں، کیونکہ میں لڑکی کی رضامندی جاننا چاہتا ہوں۔ میں شادی میں زبردستی کا قائل نہیں ہوں۔
احسن چچا اور چچی کو ان کی بات کی اہمیت تسلیم کرنا پڑی۔ وہ بولے، ہاں ہاں، کیوں نہیں۔ ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ لڑکی کی رضا مندی ضروری ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں شادی بیاہ کے معاملات بڑے بزرگ طے کرتے ہیں۔ بچیاں تو ناسمجھ ہوتی ہیں، وہ اپنا بھلا برا نہیں جانتیں۔عثمان صاحب نے کہا، ٹھیک ہے، بزرگ ہی معاملات طے کریں گے، لیکن اگر لڑکی خود کہے کہ مجھے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں، تو میرے لیے یہ بہت بڑی خوش نصیبی ہو گی۔چچا اور چچی مجبور ہو گئے۔ وہ ہمیں کھانے کی میز پر چھوڑ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ میں نے اماں زبیدہ کو آواز دی اور انہیں اپنے پاس بٹھا لیا۔ عثمان صاحب سے کہا کہ یہ میری ماں جیسی ہیں، آپ جو بھی پوچھنا چاہیں، ان کے سامنے پوچھ سکتے ہیں۔عثمان صاحب نے کہا، کیا تمہارے چچا اور چچی میرے ساتھ تمہاری شادی تم سے پوچھے بغیر زبردستی کرنا چاہتے ہیں؟میں خاموش رہی۔تب انہوں نے کہا، دیکھو ملیحہ، تم مجھ سے عمر میں بہت چھوٹی ہو، اور شادی جیسے رشتے میں زبردستی نہیں ہونی چاہیے۔ تمہاری مرضی کے بغیر میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا۔تم ابھی سترہ برس کی لگتی ہو، جبکہ اٹھارہ برس سے کم عمر لڑکی کی شادی قانونی طور پر ممکن نہیں، عدالت بھی اجازت نہیں دیتی۔

 خیر، وہ تو بعد کی بات ہے۔ فی الحال تم صرف اتنا بتا دو، کیا تم مجھ کو شوہر کے طور پر قبول کر سکتی ہو؟ کیا تم اس کم عمری میں شادی کرنا چاہتی ہو؟اماں زبیدہ نے مجھے ہمت دلائی اور بولیں، بیٹی، جواب دو۔ صاحب جو پوچھ رہے ہیں، ان کو سچ بتاؤ۔میں نے دل کو مضبوط کیا، لیکن زبان سے الفاظ نکلنے کے بجائے میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ میں بولیانکل، یہ ممکن نہیں۔ میں آپ کو بطور شوہر قبول نہیں کر سکتی۔خدا جانے چچا مجھے زبردستی آپ سے کیوں بیاہنا چاہتے ہیں۔میں تو صرف کالج میں داخلہ لینا چاہتی تھی، مگر میرے سر سے والد کا سایہ اٹھ چکا ہے اور اب میں مجبور ہوں۔ چچا ہی میرے سرپرست ہیں۔عثمان صاحب نے نرمی سے کہاتم فکر نہ کرو ملیحہ، اگر احسن تمہارے چچا ہیں، تو تم نے مجھے انکل کہا ہے، اب تمہیں آگے پڑھانا میرا فرض ہے۔پھر انہوں نے اجازت دی کہاب تم جا سکتی ہو۔میں اماں زبیدہ کے ساتھ اپنے کمرے میں واپس آ گئی۔ چچا نے ان کے پاس جاتے ہی پوچھاعثمان! کیا ہوا؟ بچی نے ہماری لاج رکھی؟عثمان صاحب نے جواب دیاہاں، مگر ایک شرط پر۔ اسے آگے پڑھنے کا شوق ہے، اور میں اُسے اسی صورت قبول کروں گا کہ وہ پہلے اپنی تعلیم مکمل کرے۔چچا بولےہمیں منظور ہے، لیکن آپ نکاح کی رسم کر لیں، رخصتی شادی کے بعد ہو جائے گی۔
عثمان صاحب نے کہانکاح تو کچھ عرصے بعد کر لیں گے، پہلے اس کا کالج میں داخلہ تو کروائیے۔ وہ آرٹس پڑھنا چاہتی ہے، جو اس شہر کے کسی کالج میں دستیاب نہیں۔ اس کے لیے لاہور کے آرٹس کالج میں داخلہ لینا پڑے گا۔چچا بولےاس میں کوئی حرج نہیں، آپ ملیحہ کو لاہور کالج آف آرٹس میں داخل کروا دیں، وہ کسی گرلز ہاسٹل میں رہ لے گی۔ یہ مراحل پورے ہو جائیں، تو نکاح بھی کر لیں گے۔لیکن چچا کو میرا دوسرے شہر کے کالج میں داخلہ لینا منظور نہ تھا۔ انہوں نے مجھے لاہور بھیجنے سے انکار کر دیا اور کہنے لگےاگر یہاں کے کسی کالج میں داخلہ لینا چاہے تو میں کروادوں گا، لیکن لڑکی کو ہاسٹل بھیجنے کا قائل نہیں۔ ہاں، اگر آپ آج کل میں نکاح کر لیں، تو اپنی صوابدید پر جہاں چاہیں داخل کروا دیں۔عثمان صاحب نے کہاٹھیک ہے، پھر مجھے کچھ وقت دیجیے۔ میں سوچ کر جواب دوں گا۔انہوں نے ایک ماہ کی مہلت لی۔ اس دوران عامر اور پھپھو کا فون نمبر میرے والد کے ایک رشتہ دار سے حاصل کیا، اور پھپھو کے پاس امریکہ چلے گئے۔ 

وہاں جا کر انہوں نے پھپھو کو تمام حالات سے آگاہ کیا اور انہیں مجبور کیا کہ وہ پاکستان آئیں اور اپنی بھتیجی کی خبر لیں۔عثمان صاحب نے کہا احسن اپنے بھائی کا بزنس، دولت اور جائیداد ہتھیانے کے چکر میں اپنی کم عمر بھتیجی کی شادی مجھ جیسے بڑی عمر کے آدمی سے کرانا چاہتے ہیں۔ میرے نزدیک تو ملیحہ میری اپنی بھتیجی کی طرح ہے، مگر اس کی حفاظت کرنا آپ کا فرض بنتا ہے۔پھپھو میرے والد سے بہت محبت کرتی تھیں، وہ فوراً پاکستان آئیں اور مجھے اپنی تحویل میں لے لیا۔ ان کے ساتھ ان کا بیٹا صفدر بھی آیا تھا۔ پھپھو نے میرا نکاح صفدر سے پڑھوا دیا اور مجھے اپنی نند کے گھر چھوڑ دیا۔صفدر تین ماہ کے لیے پاکستان میں رکے۔ انہوں نے ایک وکیل کیا اور چچا پر کیس کر دیا۔ کیس کے لیے مختارِ عام عثمان صاحب کو بنایا گیا، ساتھ ہی صفدر کے چچا، جو خود بھی وکیل تھے، انہوں نے بھی کیس کی پیروی سنبھالی۔
میں کچھ عرصہ پاکستان میں ہی رہی۔ جب تمام قانونی کاغذات مکمل ہو گئے تو صفدر دوبارہ پاکستان آ کر مجھے اپنے ساتھ امریکہ لے گئے۔کیس کی پیروی میرے پھپھو کے دیور کرتے رہے۔ جب کبھی ضرورت ہوتی، وہ ہمیں بلوا لیتے۔ کافی عرصہ کیس چلا۔ بالآخر میرا اور پھپھو کا حق ہمیں مل گیا، اور چچا احسن کو صرف وہی حصہ ملا جو ان کا حق بنتا تھا۔ میرے والد کی کوٹھی بھی ہمیں واپس مل گئی، یوں چچا کو وہ گھر خالی کرنا پڑا۔میں عثمان انکل کی بے حد شکر گزار ہوں، کہ اگر وہ فرشتہ صفت انسان میری مدد نہ کرتے، تو میرا کوئی پرسانِ حال نہ ہوتا۔ آج میں امریکہ میں خوش و خرم زندگی گزار رہی ہوں۔اپنی کہانی کے ذریعے میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ جب کسی کے والدین فوت ہو جاتے ہیں، تو یتیم بچوں کو لوٹنے والے اکثر وہی ہوتے ہیں جو ان کے سب سے قریبی رشتہ دار کہلاتے ہیں۔

(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ