گناہ کا راز

Sublimegate Urdu Stories

ماں نے بڑی مشکل سے عرفان بھائی کو پڑھایا تھا۔ ہماری ساری اُمیدیں اُسی سے وابستہ تھیں۔ وہی ہمارے گھر کی کشتی کا کھیون ہار تھا۔ خدا خدا کر کے وہ دن آیا جب میرے بھائی نے اچھے نمبروں سے گریجویشن مکمل کر لی۔ اب اگلا مرحلہ ملازمت کی تلاش کا تھا۔ دفتر دفتر خاک چھان ماری، مگر کوئی روزگار نہ ملا۔ بالآخر ایک دوست کے ذریعے اُمید کی کرن نظر آئی۔ بلال، عدنان بھائی کا دیرینہ دوست تھا۔ وہ ایک ہوٹل میں استقبالیہ کلرک کے طور پر کام کرتا تھا۔ خوش قسمتی سے اُسے بیرونِ ملک جانے کا موقع مل گیا۔ اُس نے عدنان بھائی سے کہا کہ تم روزگار کی تلاش میں ہو اور میں ملازمت چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ میری جگہ خالی ہو رہی ہے۔ اگر کہو تو ہوٹل کے منیجر سے تمہارے لیے بات کر لوں۔

اندھے کو کیا چاہیے، دو آنکھیں۔ فی الحال یہی بہت تھا کہ کہیں سے روزگار کی سبیل نکل رہی تھی۔ بھائی نے فوراً ہامی بھر لی۔ بلال نے اُنہیں اپنی جگہ ہوٹل میں ریسپشنسٹ رکھوا دیا۔ تنخواہ معقول تھی، یعنی گھر کے چار افراد کا گزارا ہو رہا تھا۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد عدنان بھائی اپنی ملازمت سے کچھ غیر مطمئن نظر آنے لگے۔قصہ یہ تھا کہ جس ہوٹل میں وہ ریسپشنسٹ تھے، وہ صرف نام کا ہوٹل تھا۔ درحقیقت وہ ایک نائٹ کلب کی حیثیت رکھتا تھا۔ بہرحال، مجبوری انسان سے ہر کام کرواتی ہے۔ بھائی کو دوسری کوئی ملازمت نہ ملی تو وہ اسی کام کو جاری رکھے رہے۔ 

یوں دو سال گزر گئے۔ان دو برسوں میں کئی رقاصائیں آئیں اور اپنی ادائیں دکھا کر دوسرے ہوٹلوں سے وابستہ ہو گئیں، لیکن عروسہ وہ واحد ڈانسر تھی جو اب تک اسی ہوٹل بہارِ نو سے وابستہ تھی۔عروسہ واقعی اپنے نام کی طرح خوبصورت تھی۔ جب ذرا سا بناؤ سنگھار کر لیتی، تو ہر بار نئی نویلی دلہن جیسی لگتی۔ میک اپ زدہ چہرے کے باوجود اُس کے چہرے پر ایک معصومیت جھلکتی تھی۔ خدا جانے کون سے حالات تھے جنہوں نے اُسے اس پیشے سے منسلک ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ جب بھی وہ عدنان بھائی کو دیکھتی، اُس کے لبوں پر ایک دلکش مسکراہٹ بکھر جاتی۔عدنان بھائی کا کہنا تھا کہ ایک دن جب وہ ڈیوٹی ختم کر کے گھر جانے کی تیاری کر رہے تھے تو ویٹر ندیم ان کے پاس آیا اور ایک لفافہ تھما کر چلا گیا۔انہوں نے وہ لفافہ کوٹ کی جیب میں ڈال دیا اور ہاتھ منہ دھونے واش روم چلے گئے۔

واش روم جانے کے لیے میک اپ روم کے سامنے سے گزرنا پڑتا تھا۔ جیسے ہی وہ وہاں سے گزرے، دیکھا کہ عروسہ آئینے کے سامنے میک اپ کرنے میں مصروف تھی۔آئینے میں بھائی کی شبیہ دیکھ کر اُس کے ہاتھ سے لپ اسٹک چھوٹ کر فرش پر لڑھک گئی۔ اُس نے پلٹ کر دروازے کی طرف دیکھا اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی، بولی کہ دروازہ بند رکھا کریں، یہاں سے کئی لوگ گزرتے ہیں۔ بھائی بولے کہ ہاں، میں بھول گیا تھا۔وہ گھبرا کر خاموش ہو گئی۔ بھائی آگے بڑھ گئے۔ واش روم سے ہاتھ منہ دھو کر نکلے تو وہ جا چکی تھی۔ بھائی تھکے ہارے گھر پہنچے، لباس تبدیل کیا اور بستر پر دراز ہو گئے۔ تبھی لفافے کا خیال آیا جو ویٹر ندیم نے دیا تھا۔اُٹھ کر کوٹ کی جیب سے لفافہ نکالا، کھولا اور اُس میں لکھی تحریر پڑھنے لگے۔ خط پڑھتے ہی وہ سکتے میں آ گئے۔ 

یہ خط عروسہ کی طرف سے تھا۔ اُس نے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تھا کہ وہ سخت مشکل میں ہے اور چند ماہ میں ایک بچے کو جنم دینے والی ہے۔عدنان بھائی کے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیونکہ جہاں تک اُن کو علم تھا، عروسہ غیر شادی شدہ تھی۔  یا پھر اُس نے خود کو جان بوجھ کر غیر شادی شدہ ظاہر کر رکھا تھا۔اگلے دن وہ بھائی سے ملی اور بولی کہ ذرا سا وقت دو عدنان، تم سے بات کرنی ہے۔ بھائی نے کہا کہ بولو، اس وقت یہاں کوئی موجود نہیں، تم بات کر سکتی ہو۔ وہ کہنے لگی، کیا تم نے خط پڑھا؟ بھائی نے جواب دیا کہ ہاں، پڑھ لیا ہے۔عروسہ بولی کہ در اصل تم ہی مجھے یہاں واحد ایسے مرد لگے جس پر بھروسا کیا جا سکتا ہے۔ تبھی تمہیں اپنے راز میں شریک کیا ہے۔ اب میری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ مجھ کو معاف کر دینا۔  یہ میری زندگی کا سوال ہے۔ میں نے اسپتال میں نام لکھوانا تھا۔ ظاہر ہے، شوہر کا نام بھی دینا لازم تھا۔ سو میں نے وہاں تمہارا نام لکھوا دیا ہے۔ خدا کے لیے مجھے انکار نہ کرنا۔ میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ بھائی تو جیسے پتھر کا بت بن گئے۔ ابھی کچھ کہہ نہ پائے تھے کہ وہاں چند گاہک آ گئے اور عروسہ چلتی بنی۔ ان کا یہ دن بڑی مشکل اور پریشانی میں گزرا۔ عروسہ اس روز ہوٹل سے جلد چلی گئی اور بھائی گھر آ کر اپنے وجود کو بستر پر گرا دیا۔ ساری رات پریشانی میں گزری۔ امی نے لاکھ پوچھا کہ کیا بات ہے مگر وہ کچھ نہ بتا سکے۔

دوسرے روز جب ہوٹل پہنچے تو معلوم ہوا کہ عروسہ تین ماہ کی رخصت پر چلی گئی ہے۔ عدنان بھائی ہمیشہ عروسہ سے احترام سے پیش آتے تھے۔ وہ اس کو محض ایک مغنیہ سمجھتے تھے۔ جہاں لوگ اسے آرٹسٹ کہتے تھے، وہاں وہ بھی اسے آرٹسٹ کے طور پر عزت دیتے تھے۔ تاہم اس لڑکی نے میرے بھائی کے شریفانہ برتاؤ سے ناجائز فائدہ اٹھایا تھا۔ اس شرافت کو اس نے بلیک میل کیا اور نقد کرنے کی کوشش کی تھی۔ بھائی نے سوچا کہ جا کر منیجر کو سب کچھ بتا دیں لیکن پھر یہ خیال آیا کہ ایسا کرنے سے خود کہیں بدنامی کی دلدل میں نہ پھنس جائیں۔ وہ سوچ کے خاردار تاروں میں الجھ گئے اور یہی بہتر سمجھا کہ فی الحال چپ رہنے میں ہی عافیت ہے، کیونکہ کسی قسم کے فارم پر تو انہوں نے دستخط نہیں کیے تھے۔ اگر اپنی طرف سے کوئی ان کا نام درج کراتا پھرے تو ثبوت تو کوئی نہیں تھا کہ عروسہ سے ان کا کوئی واسطہ یا بندھن ہے۔

 لہٰذا دل کو یہ کہہ کر تھام لیا کہ جو ہوگا، دیکھا جائے گا۔ایک روز عدنان بھائی ہوٹل کے کاؤنٹر پر کھڑے تھے کہ یکایک ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ انہوں نے ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف سے آواز آئی: عدنان صاحب؟ جی، میں بول رہا ہوں۔ میں لیڈی ڈاکٹر تہمینہ ہوں۔ آپ کی بیوی کا مردہ بچہ ہوا ہے، فوراً اسپتال آ جائیں۔ آپ کی وائف نے کہا ہے کہ آپ کو اطلاع دے دوں۔ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔عدنان بھائی گنگ رہ گئے۔ سر سے پیر تک پسینے میں نہا گئے۔ ان کا جی چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں۔ ان کا دل چاہا کہ جا کر ابھی اور اسی وقت عروسہ کا گلا گھونٹ دیں۔ اب سمجھ میں آیا کہ قتل کیوں ہوتے ہیں۔غصے کے عالم میں ہوٹل سے باہر نکلے، ٹیکسی لی اور اسپتال پہنچ گئے۔ وہاں استقبالیہ سے معلوم ہوا کہ ان کی نام نہاد بیوی روم نمبر 9 میں ایڈمٹ ہے۔ روم نمبر 9 میں مکمل سکوت طاری تھا۔ عروسہ زرد ہلدی کی گانٹھ کی مانند بستر پر پڑی تھی۔ ابھی یہ کچھ کہنے ہی والے تھے کہ نرس کمرے میں داخل ہوئی، عروسہ کو انجکشن دیا اور کہا کہ ان کی جان خطرے میں ہے، ان کو خون لگے گا۔ آپ مردہ بچے کی تدفین کا انتظام کر لیں، ہم خون کا انتظام کر رہے ہیں۔ پھر بولی: عدنان صاحب، آپ نے آنے میں دیر کیوں کی؟ آیئے میرے ساتھ۔ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکلی اور کسی غیر مرئی قوت نے عدنان بھائی کو بھی اس کے پیچھے چلنے پر مجبور کر دیا۔
عروسہ کے چہرے پر اذیت اور کرب کا ایک خاموش سمندر تھا۔ اس کی حالت قابلِ رحم تھی۔ اس کے پاس خدا کے سوا کوئی نہ تھا۔ اب مزید سوچنے کا وقت نہیں تھا۔عدنان نے سوچا کہ اب انسانیت کا یہی تقاضا ہے کہ راز کو اسپتال میں طشت از بام کرنے سے پہلے اس مردہ بچے کو تو حوالۂ گور کر دیا جائے جسے قبر میں دفنانے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ عروسہ بے ہوش تھی اور اس کی زندگی خطرے سے باہر نہیں تھی۔ کیا خبر کیا ہو؟ کیا خبر یہ قصہ یہیں ختم ہو جائے۔ کیا معلوم قدرت ان سے ایسا کام کیوں لینا چاہتی ہے جس کے لیے وہ خود آمادہ نہ تھے، مگر سب کچھ خودبخود ہوتا گیا۔عدنان بھائی غصے میں عروسہ کو لعنت ملامت کرنے نکلے تھے لیکن اس کی بری حالت دیکھ کر ان کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ انسانیت کے جذبات غالب آ گئے۔ اب ایک انسان ہونے کے ناتے حالات کا یہی تقاضا تھا۔بچے کو دفنانے کے بعد وہ واپس اسپتال آئے۔ عروسہ کو ہوش آ چکا تھا۔ وہ نحیف و نزار ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔اس نے کہا: اگر تم نہ آتے تو جانے کیا ہوتا۔ سچ پوچھو تو تم بے قصور ہو مگر میں بھی بے قصور ہوں۔ میرے ساتھ بھی دھوکا ہوا ہے اور دھوکا دینے والا غائب ہو چکا ہے۔ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے، اسی لیے تمہیں ایک شریف انسان سمجھ کر بھروسا کر لیا ہے۔
وہ کتنی بھیانک رات تھی جب اُس ہوٹل میں مجھے دھوکے سے نشہ پلا کر داغدار کیا گیا۔ اور پھر نباہ کا وعدہ کر کے دلاسا دیا گیا۔ کس نے ایسا کیا؟ نام نہیں لے سکتی۔ روزی کمانا میری مجبوری ہے۔ میں ڈانسر ضرور ہوں، مگر بکاؤ مال نہیں۔بیوہ ماں تھی، وہ بھی چل بسی۔ ہوٹل کے مالک نے رہنے کا ٹھکانہ دیا ہے اور اُسی کی نوکری سے سانسوں کی ڈور بندھی ہوئی ہے۔اگر اُن پر یہ راز کھل گیا تو میں کہاں جاؤں گی؟تم سے التجا ہے کہ اس راز کو راز ہی رہنے دینا۔ ایک مجبور لڑکی پر احسان کرنا۔اللہ تعالیٰ تمہیں اس نیکی کا اجر ضرور دے گا، کیونکہ اللہ پاک کسی کی نیکی کو رائیگاں جانے نہیں دیتا۔عدنان نے پوچھا:تو اب تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟اس نے بہت بےبسی سے کہا:آپ اسپتال کا بل ادا کر دیں۔ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ جب دوبارہ ملازمت پر لگی تو آپ کا قرض واپس کر دوں گی۔

عدنان بھائی کو وہی کچھ کرنا پڑا جو اُس نے کہا۔عروسہ، میں نے تمہاری ہر بات مان لی۔ تم نے مجھے ایک شریف انسان سمجھ کر مجھ پر بھروسا کیا، ٹھیک ہے۔ میں بل بھی ادا کر دیتا ہوں، لیکن یاد رکھنا، آج کے بعد تم مجھ سے کوئی واسطہ نہ رکھنا۔وہ ٹکٹکی باندھے خاموشی سے بھائی کو دیکھتی رہی، مگر منہ سے ایک لفظ نہ بولی۔ بل ادا کرنے کے بعد بھائی دوبارہ اُس کی عیادت کے لیے بھی گئے اور اُس کی درخواست پر اسپتال سے اُسے ٹیکسی میں اُس کے گھر تک چھوڑ دیا۔وہ بہت غریب تھی۔ گھر میں چند جوڑے کپڑوں اور ایک فرشی بستر کے سوا کچھ نہ تھا۔ حالتِ زار خود گواہی دے رہی تھی کہ عروسہ نے اپنے بارے میں جو کچھ بتایا تھا، وہ سچ تھا۔ جب عدنان بھائی نے والدہ کو عروسہ کے بارے میں سب کچھ بتایا تو وہ دُکھی ہو گئیں۔ان کی ممتا نے سوچا، کیوں نہ جا کر اُس لڑکی کے اصل حالات معلوم کیے جائیں۔
وہ عدنان کے ساتھ عروسہ کے گھر گئیں۔ وہ تنہا پڑی تھی، شدید بخار میں مبتلا،اور اُسے پانی پلانے والا بھی کوئی نہ تھا۔ واقعی، وہ ایک بے آسرا، یتیم لڑکی تھی۔ بہت پہلے اپنے والدین کو کھو چکی تھی۔ترس کھا کر ایک پڑوسن نے اسے پالا۔ وہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئی، تو یہ پھر تنہا رہ گئی۔ایک سہیلی کے ذریعے ہوٹل تک پہنچی۔ آواز اچھی تھی، گانا سیکھ لیا۔سہیلی نے سمجھایا کہ صرف گانے سے کام نہیں چلے گا۔ ہوٹل میں ہو،تو تھوڑی بہت ڈانسنگ کی تربیت بھی لے لو، گزارا بہتر ہو جائے گا۔یوں، عروسہ ڈانسر بن گئی۔والدہ کو یقین ہو گیا کہ دراصل یہ ایک شریف لڑکی ہے،جسے حالات نے اس راستے پر ڈال دیا۔ قسمت نے اس کا ساتھ نہ دیا۔جب اس نے اپنی زندگی کے اوراق پلٹے،تو عدنان کے اندر کا انسان جاگ اٹھا۔ضمیر کے سارے سپاہی یکجا ہو گئے۔اچانک دل کے اندر شور مچا کہاسے بچا لو! اگر یہ عزت کی زندگی چاہتی ہے تو تم ہی اسے وہ دے سکتے ہو۔یوں ہم سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ عروسہ کو اپنے گھر لے آئیں گے۔ہم اُسے اسٹیج کی “عروسہ” نہیں، اپنی “عروسہ” بنائیں گے۔اور اُس نے بھی اپنے نام کی لاج رکھ لی۔عروسہ بنی تو عمر بھر اُس پاکیزہ رشتے کو نبھایا۔اب وہ میرے بھائی کی بیوی ہے، ہم سب سے پیار کرنے والی۔میرے بھائی کے بچوں کی ماں ہے۔اس کا ماضی ضرور داغ دار تھا، مگر اُس کا من اجلا ہے۔

 (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ