مکارعورت

Sublimegate Urdu Stories

میں جس عورت کو ماں پکارتی تھی، وہ میری ماں نہیں تھی۔ کسی نے مجھے بہاولپور کے قریبی ایک گاؤں سے اغوا کیا تھا۔ میں اپنے ماں باپ کے ساتھ چولستان سے میلہ دیکھنے اس گاؤں آئی تھی۔ میری ماں کی آواز بہت اچھی تھی۔ جب وہ صحرائی گیت گاتی تو خشک سالی میں بھی بادل گھر آ جاتے تھے۔ مجھے بھی سریلی آواز ملی تھی۔ لوگ کہتے، یہ لڑکی تو اپنی ماں سے بھی زیادہ اچھا گاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سروں کی ملکہ بنا کر اس دنیا میں بھیجا ہے، اور یہ بات سچ تھی۔ شاید قدرت کی طرف سے سروں کا خزانہ مجھے اسی سبب عطا ہوا تھا کہ اس کی بدولت آگے جا کر میری زندگی بدلنے والی تھی۔

ایک روز میں اپنے والدین کے ساتھ میلے میں گئی۔ وہاں میری ماں جب صحرائی گیت گاتی تو لوگ اکٹھے ہو جاتے، میرے والد ساز بجاتے، اور یوں ان گیتوں کو سننے والا مجمع روپے دیتا، جس سے کافی رقم اکٹھی ہو جاتی۔ اتنے روپے مل جاتے کہ جن سے ہم ضرورت کی اشیاء خریدتے اور یوں سال بھر کا گزارہ ہو جاتا۔ اس وقت میری عمر پانچ سال ہو گی۔جب میلے میں میری ماں گیت گا رہی تھی، تو ہجوم اکٹھا ہو گیا اور میں اس ہجوم میں کھو گئی۔ گیت ختم ہوا تو میں نے ماں باپ کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ تبھی ایک عورت اور مرد قریب آئے اور مجھ سے کہا کہ تمہارے ماں باپ وہاں سامنے درخت کی چھاؤں میں کھڑے تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں۔ میں ان کے پیچھے ہولی اور وہ مجھے دور لے گئے۔

 جب چلتے چلتے تھک گئی تو میں نے پوچھا، کہاں ہیں میرے ماں باپ؟ انہوں نے کہا، وہ شاید کھانا کھانے ہوٹل پر چلے گئے ہیں، آؤ اُدھر دیکھتے ہیں۔ اچانک ایک لاری آئی اور انہوں نے مجھے اس میں سوار کر دیا۔ مجھے علم نہیں تھا کہ بچے اغوا بھی ہوتے ہیں اور انہیں انسان ہی اٹھا لے جاتے ہیں۔ وہ کہنے لگے، بچی تم اپنے گاؤں کا نام بتا دو، یہ لاری ہمیں وہاں لے جائے گی۔ میں نے گاؤں کا نام بتا دیا کیونکہ ہمارے گاؤں کے پاس ایک سڑک تھی جہاں سے کبھی کبھی لاریاں گزرتی تھیں۔ یوں وہ مجھے ملتان لے گئے اور ایک عورت کو بیچ دیا۔ تب سے وہی میری ماں ہے۔ اس کے پاس مجھ جیسی تین اور بھی لڑکیاں تھیں جن کو ناچ گانے کی تربیت دی جاتی تھی۔اللہ نے مجھے اچھی آواز دی تھی۔ میری منہ بولی ماں نے میرے گلے کے سروں کو پہچان لیا اور گائیکی سکھانے والے ماہر استاد کے سپرد کر دیا۔

 کچھ دن تو میں اپنے ماں باپ اور گاؤں کو یاد کر کے روتی رہی، پھر اس ماحول میں ڈھل گئی کیونکہ مجھے یہاں اور تو کوئی تکلیف نہ تھی، سوائے والدین سے جدائی کے۔ یہ ماں مجھ سے بہت پیار کرتی تھی، میرا ہر طرح سے خیال رکھتی، اچھا کھانا دیتی، اچھا پہناوا دیتی، اور گھر پر ہی چار جماعتیں بھی پڑھواتی۔ باقاعدہ ایک ماسٹر صاحب ہمیں پڑھانے آتے تھے تاکہ ہم لکھی ہوئی گیت اور غزلیں پڑھ کر یاد کر سکیں۔جب کسی کے اپنے کھو جائیں اور ان سے ملنے کی امید بھی باقی نہ رہے، تو غیر ہی اپنے بن جاتے ہیں۔ میں بھی گلاں ماں کو اپنی ماں ہی سمجھنے لگی، جن کا اصل نام گل صنوبر تھا۔ سب انہیں گلاں ماں بلاتے تھے۔ایک روز اماں گلاں نے بتایا کہ بہاول نگر کے زمیندار ارشد خان کا بلاوا آیا ہے، ہمیں ان کے ڈیرے پر جانا ہے۔ تب میں بیس سال کی ہو چکی تھی۔ ماں نے بتایا کہ محفل غزل کا جگارا ہے۔ 

ساری رات یہ محفل موسیقی چلے گی کیونکہ گانے کی محفل ہے، اس لیے تمہارا انتخاب کیا ہے۔ وقت مقررہ پر ہم جانے کو تیار بیٹھے تھے کہ اماں کی طبیعت خراب ہو گئی۔ ہمیشہ وہ میرے ساتھ جاتی تھیں، لیکن اچانک طبیعت بگڑ جانے کی وجہ سے وہ لیٹ ہو گئیں۔ مجھ سے کہا کہ میں خان صاحب سے وعدہ کر چکی ہوں، اس لیے تمہیں جانا ہی ہوگا۔ عین وقت پر انکار نہیں کر سکتی۔ ان کے مہمان آنے والے ہیں، لہٰذا تم سازندوں کے ساتھ چلی جاؤ۔ یہ سازندے بھی اماں گلاں کے لوگ تھے، اس لیے مجھے ان کے ہمراہ روانہ کر دیا گیا۔جب گاڑی ملتان سے بہاول نگر پہنچی تو شام ڈھل رہی تھی۔ ہمیں کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ کمرے کی سجاوٹ اور آرائش دیکھ کر میں نے ارشد خان کے ذوق کا اندازہ لگا لیا تھا۔ اماں گلاں نے بتا دیا تھا کہ خان صاحب اچھی موسیقی کے رسیا ہیں، گاہے بگاہے موسیقی کی محافل کا اہتمام کرتے رہتے ہیں اور سامعین بھی ان کے خاص لوگ ہوتے ہیں جو خاندانی رکھ رکھاؤ جانتے ہیں۔ وہ اچھے فنکاروں کی قدر کرتے ہیں مگر بازار حسن جانے سے کتراتے ہیں۔ البتہ عمدہ گانے والوں کو گھر پر بلوالیا کرتے ہیں۔ 

تمہاری گائیکی کی کہیں تعریف سنی تو بلوایا ہے۔وہاں بیٹھے بمشکل پانچ منٹ گزرے تھے کہ نوکر آیا اور پوچھا، بی بی صاحب پوچھ رہی ہیں کہ کھانا ڈیرے پر بھجوادیں یا مہمان خانے میں کھائیں گے؟ میں یہ سن کر چکر آ گئی کہ ارشد خان صاحب کی بیگم بھی ہیں۔ ان کی حویلی ڈیرے کے متصل ہی تھی۔ مجھے تو بتایا گیا تھا کہ جان اور ان کے خاص دوست محفل موسیقی میں ہوں گے۔ ڈرتے ڈرتے پوچھا، کیا بیگم صاحب سے مل سکتی ہوں؟ ذرا دیر بعد نوکر واپس آیا اور بولا، آئیے، بیگم صاحب نے بلایا ہے۔

اس مثبت جواب کی امید نہ تھی، اس لیے مجھے پسینہ آ گیا۔ ڈری سہمی ملازم کے پیچھے ہولی ہولی چلتی ہوئی مردانہ خانہ سے چند قدم دور بیگم صاحب کی اقامت گاہ پہنچی، جو ان کی حویلی کہلاتی تھی۔ بلند و بالا چہار دیواری اور وسیع صحن والا مکان تھا۔ وہاں دو خادمائیں موجود تھیں، جنہوں نے مجھے بی بی کی خواب گاہ میں لے جایا۔ وہ پلنگ پر دراز تھیں، مجھے دیکھ کر اٹھ بیٹھیں اور سامنے پڑے صوفے کی جانب اشارہ کیا کہ وہاں بیٹھ جاؤ۔بیگم صاحب کوئی ادھیڑ عمر عورت نہ تھیں بلکہ نازک سی چو بیس سالہ خاتون تھیں۔ خندہ پیشانی سے ملی۔ میں ان کے حسن اور رکھ رکھاؤ کو دیکھ کر ششدر رہ گئی۔ 

نزاکت میں تمکنت اور حسن میں وقار تھا۔اس نازک، کی چوبیس سالہ خاتون ہو گی۔ خندہ پیشانی سے ملی۔ میں اُس کے حسن اور رکھ رکھاؤ کو دیکھ کر ششدر رہ گئی۔ نزاکت میں تمکنت اور حسن میں وقار تھا۔ اس حور شمائل نے بڑے پیارے انداز میں میرا نام پوچھا تھا۔ میرا اصل نام تو سجائی تھا، مگر اب کنول تھا۔ میں نے نام بتایا۔تم نے رقص کی تعلیم کہاں سے حاصل کی ہے؟ اس سوال پر میں سٹپٹا گئی۔ بے اختیار منہ سے نکلا، جی، میں یہاں صرف گانے کے لیے آئی ہوں۔ یہ میں نے تب ہی کہہ دیا تھا تاکہ وہ مجھے پیشہ ور جان کر گھر سے باہر نہ کر دیں، لیکن وہ سکون میں رہیں۔ہاں ہاں، وہ تو میں جانتی ہوں۔ ارشد خان صاحب گانے کی محفل میری اجازت سے ہی رکھتے ہیں۔ ان کو خدا نے موسیقی کا اچھا ذوق دیا ہے اور خوبصورت لوگوں سے تو اور بھی شوق سے سنتے ہیں۔ پھر جیسے مجھے سمجھا رہی ہو، کہا، جانتی ہو، اگر مرد کو شوق ہو اور بیوی رکاوٹ ڈالے، تو یہ مرد وہ کام چوری چھپے ضرور کرتے ہیں۔

میں نے ان کو کہا کہ آپ حویلی میں ہی ڈیرے پر اپنا یہ شوق پورا کیا کریں۔ کوٹھے پر نہ جایا کریں کیونکہ وہاں جانے سے عزت کو بٹہ لگ جاتا ہے۔ شکر ہے وہ میری بات مان گئے۔ جی بی بی! میں نے مرعوب ہو کر سر ہلا دیا۔ اس خاتون کے سامنے اس وقت میں خود کو بہت کم تر خیال کر رہی تھی۔کیا تم اکیلی آئی ہو؟جی نہیں، سازندے ساتھ آئے ہیں۔ وہ ڈیرے پر بیٹھے ہیں۔ اماں تو بیمار ہو گئی ہیں، ورنہ وہ ہمیشہ ساتھ ہوتی ہیں۔تم لوگ کتنی لڑکیاں ہو اماں کے پاس؟ تین لڑکیاں میرے علاوہ اور ہیں۔ وہ رقص کے کام میں ماہر ہیں اور میں گائیکی سنبھالتی ہوں۔اس بیان میں بھی میرے اندر خوف کا عنصر شامل تھا۔ٹھیک ہے، میں سمجھ گئی۔ یہاں تمہیں کچھ خوف نہ ہونا چاہیے۔ خان صاحب اور ان کے دوستوں کو صرف گانا سننے کا شوق ہے۔ کیا تم غزل گاتی ہو؟ ان کو غزلیں پسند ہیں یا پھر گیت؟میں دونوں گا لیتی ہوں۔ٹھیک ہے، تم اکیلی نہیں ہو۔ ڈرو نہیں، میرے ہوتے تمہارے ساتھ کوئی بیہودگی نہیں ہو سکتی۔اب ذرا میں آسودگی محسوس کرنے لگی تو ان سے سوال کیا،آپ کے کتنے بچے ہیں؟ان کے چار لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں، ماں ہیں، لیکن پہلی بیوی ہے۔ میری اپنی کوئی اولاد نہیں ہے۔ خیر، ان کی اولادیں بھی میری ہی ہیں۔ پھر خود ہی بتایا کہ خان صاحب ان سے چھبیس برس بڑے ہیں اور ان کی پہلی بیوی ان سے سات برس بڑی ہیں۔ وہ اب بوڑھی ہو گئی ہیں۔

آپ سے کیسے شادی ہوئی؟میں ذرا کھلنے لگی۔ ان کے جواب دینے سے پہلے ایک ملازمہ چائے کی ٹرالی لے کر آگئی۔ وہ لوٹ گئی، تو بی بی بولیں۔ خان صاحب نے مجھے اپنی ایک عزیز کی شادی میں دیکھا اور پسند کر لیا۔ میرے والد کو پیغام بھجوادیا، پھر ہماری شادی ہو گئی۔ان کے بچے تو آپ کے پاس آتے ہوں گے؟نہیں، وہ لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ خان صاحب میرے پاس رہتے ہیں، اس لیے وہ یہاں نہیں آتےحالانکہ یہ ان کے دادا مرحوم کا گھر ہے۔آپ پھر بھی خوش قسمت ہیں۔ اولاد نہیں ہے، مگر عزت تو ہے۔ آپ عزت والے گھر میں پیدا ہوئیں اور آپ کے شوہر بھی عزت دار ہیں۔انہوں نے مجھے غور سے دیکھا، جیسے میرا مطلب سمجھ گئی ہوں۔کیا تم شادی کرنا چاہتی ہو؟میں نے آنکھیں جھکا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔یہ اچھی بات ہو گی۔ عورت کے لیے یہ فخر کی بات ہے۔ اپنے گھر اور بچوں میں زندگی گزارنا، اپنے شوہر سے وفاداری کے ساتھ۔ ان کا اتنا کہنا تھا کہ میں سسک پڑی۔ شاید ان کے پر خلوص لب و لہجے کا اثر تھا کہ میں اس عورت کے قدموں میں جا بیٹھی۔مدت سے بھولی بسری بات یاد آ گئی۔ اپنا گھر، اپنی ماں اور باپ کے ساتھ ساتھ خوشی سے گزرتی زندگی کے وہ دن، جب میں ان کے درمیان چہکتی اور چہچہاتی تھی۔ روم، میرا دل بہت کمزور ہے۔ تم حسین ہو، جوان ہو۔ ٹھیک سے نباہ کر سکو تو شادی کرانا میری ذمہ داری ہے۔

اس نے یوں مجھ سے محبت سے کلام کیا تھا کہ رو رو کر میرا برا حال تھا۔ سارا میک اپ ڈھل گیا۔ گھنٹہ بھر ان کے ساتھ بیٹھی اور وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ڈیرے پر خان صاحب کے مہمان آ چکے تھے۔ خدمت گار نے دروازے پر اطلاع دی تو بیگم نے کہا،جاؤ، منہ دھو کر میک اپ درست کر لو۔ان کے واش روم میں جا کر میں نے میک اپ درست کیا اور خادم کے ہمراہ مردان خانے میں چلی گئی، جہاں کھانے کا انتظام علیحدہ کمرے میں تھا۔ بہت سی گاڑیاں باہر کھڑی تھیں۔ دو اور بھی لڑکیاں گانے کے لیے بلائی گئی تھیں۔ پہلے انہوں نے گایا، تب تک میں نے کھانا کھا لیا اور کچھ آرام بھی کر لیا۔ پھر مجھے بلانے خود صاحب خان تشریف لائے۔بولے،میری بیگم سے ملی ہو۔ وہ پڑھی لکھی اور خدا ترس ہے، تم نے ٹھیک طرح کھانا کھایا؟ کچھ ضرورت ہو تو بتاؤ۔ محفل شروع ہے، وہاں اچھے لوگ ہیں۔میں نے یہی مناسب جانا کہ ان کے پیچھے ہولوں۔ یہ جہاں لے جا کر بٹھائیں، بیٹھ جاؤں۔ ان لڑکیوں سے چند گیت سنے گئے، پھر مجھ سے فرمائش ہوئی۔ میں نے صرف غزلیں سنائیں۔ محفل رات تین بجے برخاست ہوئی۔میں تھک گئی تھی، نیند بھی آ رہی تھی اور ہم نے صبح سویرے ملتان روانہ ہونا تھا۔
سازندوں کو ڈیرے پر سونے کے لیے جگہ دے دی گئی اور مجھے خادمہ اپنے ساتھ حویلی لے آئی، جہاں ایک کمرہ مجھے دے دیا گیا۔ ڈیرے پر تو نیند آ رہی تھی، یہاں لیٹتے ہی نیند غائب ہو گئی۔ آج میں بہت خوش تھی۔ ایک تو بیگم بی بی سے ملاقات کی وجہ سے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ آج مجھ پر نوٹوں کی برسات ہو گئی تھی۔ یقیناً اماں گلاں میری بلائیں لینے والی تھیں۔ چند دن بعد خان صاحب کا ڈرائیور آیا اور کہا کہ بیگم صاحبہ نے یاد کیا ہے۔ اس بار اماں گلاں بھی ساتھ تھیں۔ ہم پہنچے، وہ انتظار کر رہی تھیں۔ میں خوشی سے پھولے نہیں سمائی تھی کہ اس بار خود بیگم نے مدعو کیا تھا، اور یہ بات میرے لیے عزت کا باعث تھی۔مجھے اکیلے میں بیگم سے بات کرنے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے کہا، کنول! آج میں نے تمہیں اس شخص سے ملوانے کے لیے بلایا ہے جو تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ تمہیں اس کے ساتھ وفاداری سے زندگی بسر کرنی ہوگی۔ اگر تم شادی کر کے عزت کی زندگی گزارنا چاہتی ہو۔ تبھی انہوں نے ایک شخص کو اندر بلایا، جس کا نام وہاب خان تھا، جو ارشد خان صاحب کا عزیز اور بیگم بی بی کا منہ بولہ بھائی تھا۔ 

وہ پکے سن کا تھا، مگر اچھا معلوم ہوتا تھا۔ بیگم صاحبہ نے ذمہ داری لی تھی، لہٰذا میں نے ہاں کہہ دی۔ اب مسئلہ اماں کو راضی کرنا تھا۔ وہ کسی طور راضی نہ تھیں، لیکن بیگم بی بی نے منہ مانگے دام دینے کی پیشکش کی اور انہیں راضی کر لیا۔اس کے بعد انہوں نے مجھے اپنے پاس رکھ لیا۔ وہاب خان کو کہا، اب یہ میری ذمہ داری ہے۔ میں اس لڑکی کا اعتبار تم سے چاہوں گی۔ تم اس کے نام کیا لکھ کر دو گے؟ وہ بولے، سب کچھ آپ کا ہے، جو چاہیں لکھوا لیں۔ بس ایک یقین مجھے چاہیے۔ یہ ہمیشہ میری بن کر رہیں گی، کبھی ماضی کی طرف لوٹ کر نہیں جائیں گی۔ ماضی تو ان کا چولستان میں رہ گیا تھا۔ درمیانی عرصہ اس بیچاری نے حادثاتی گزارا ہے۔ اب اچھے کی امید رکھو اور آگے کی سوچو، باقی خدا پر چھوڑ دو۔ ان شاء اللہ، یہ تم کو ویسی ہی بن کر دکھائے گی، حبیبی تم چاہو گے۔بیگم بی بی کو میں سعادت بی بی صاحبہ کہتی تھی۔ انہوں نے مجھے شادی کی شاپنگ کرائی اور قیمتی ملبوسات اور زیورات کا سیٹ لے کر دیا۔ وہاب کو ہیرے کی انگوٹھی دی، میرا ان سے نکاح پڑھوا کر مجھے ان کے ساتھ عزت سے رخصت کیا۔
 شادی کے بعد وہاب نے بتایا کہ جب تم غزل گارہی تھیں، تو مجھے اتنی اچھی لگیں کہ دل چاہا تم سے شادی کر لوں۔ میری نیت سچی تھی، اللہ نے دعا قبول کی اور ہماری شادی ہو گئی۔ میرے والد بچپن میں فوت ہو گئے تھے۔ ارشد خان صاحب کی والدہ نے مجھے پالا پوسا، پڑھایا لکھایا۔ میرے والد کی بہت سی زمین تھی، جس کی نگہداشت بھی ارشد خان صاحب کے والد صاحب نے کی۔ والدین کی دولت میرے پاس نہیں ہے، مگر میں روپے پیسے سے غریب نہیں ہوں۔وہ مجھ سے شادی کر کے خوش تھے۔ کچھ عرصہ وطن میں رہنے کے بعد ہم کینیڈا آ گئے۔ کینیڈا آنے سے پہلے انہوں نے میرے والدین کو تلاش کیا، مگر وہ اپنے گاؤں میں نہ ملے۔ والدہ وفات پا چکی تھیں اور والد اپنے بڑے بھائی کے پاس دوسرے گاؤں چلے گئے تھے۔ وہاں بھی پتہ کیا، مگر ان کے بارے میں معلوم نہ ہو سکا۔بیس برس کینیڈا رہنے کے بعد جب ہم واپس آئے، تو کچھ عرصہ مصروف رہے اور آپا سعادت کے پاس نہ جا سکے۔ ایک دن ان سے ملنے حویلی گئے، تو وہ وہاں نہیں تھیں۔ خادم نے بتایا کہ وہ مخدوم پور چلی گئی ہیں۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ حویلی اجاڑ پڑی تھی، ڈیرہ ویران تھا، گیٹ پر تالا لگا ہوا تھا۔ باہر ایک دربان ملا۔ اس سے سعادت آپا کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے والد کے گاؤں چلی گئی ہیں۔ 

گاؤں کا پتہ لے کر ہم وہاں گئے ایک کچے مکان میں ایک بوڑھی عورت چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی۔ پہلی نظر میں میں اسے پہچان نہ سکی، اور جب پہچان لیا تو سعادت آیا! آپ یہاں، اس حال میں؟ ایک ہی سانس میں کئی سوال لبوں پر آ گئے۔ انہوں نے بتایا، ارشد فوت ہو گئے۔ ان کی اولاد نے ہر شے پر قبضہ کر لیا۔ جو اُن کا تھا اور جو میرے پاس تھا، وہ سب بھی لے لیا۔ میں اکیلی عورت، کمزور، ناتواں، کیا مقدمہ لڑ سکتی تھی؟ انہوں نے مجھ سے حویلی خالی کروا لی اور کچھ رقم کی پیشکش کی، جو میں نے نہیں لی کیونکہ بغیر عزت کے میرے دل نے وہاں رہنا گوارہ نہ کیا اور میں اپنے والد کے گھر لوٹ آئی۔ اب یہی میرا ٹھکانہ ہے۔ سبھی گاؤں والے مجھے جانتے ہیں اور عزت کرتے ہیں۔ مر جاؤں تو عزت سے دفنائیں گے، اسی لیے یہاں آ گئی ہوں۔ سعادت آپا ! آخر ان لوگوں نے آپ سے ایسا سلوک کیوں کیا؟ آپ تو ان کے والد کے نکاح میں تھیں۔انہوں نے کہا، ان لوگوں نے مجھے اس لیے قبول نہ کیا کہ میں بھی تمہاری طرح صحرا کا پھول تھی۔ مگر آپ تو فرشتہ صفت تھیں؟ زمانہ کبھی کبھی فرشتہ صفت لوگوں سے بھی ایسا ہی سلوک کرتا ہے، کیونکہ میں ایک غریب گھرانے سے تھی اور صحرا میں گیت گایا کرتی تھی۔ ارشد خان نے ایک بار وہاں میرا گیت سنا اور پسند کیا تھا۔ میری قسمت میں ان کی بیوی بننا لکھا تھا۔ مجھ سے نکاح کے بعد انہوں نے مجھے پڑھایا، لکھایا، تعلیم دلوائی۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے، مگر ان کی اولاد نے میرا حق تسلیم نہ کیا اور نہ ان کے خاندان نے، کیونکہ میری کوئی اولاد نہ ہو سکی۔
قصہ مختصر، کبھی دوسری بیوی کو سب کچھ مل جاتا ہے اور کبھی سب کچھ پہلی والی کی اولاد لے جاتی ہے۔ بس دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب میں گاؤں کی بچیوں کو پڑھاتی ہوں اور وقت ٹھیک گزر جاتا ہے۔تم بتاؤ، تم خوش ہو؟میں نے کہا، میں بہت خوش ہوں، سعادت آپا میں نے انہیں شکایت کا موقع نہ دیا اور نہ انہوں نے مجھے۔ یورپ جا کر تو ہماری زندگی اور سوچیں ہی بدل گئیں۔ اب وہاب کے ماں اور رشتہ دار چاہتے تھے کہ ہم وطن آئیں، سو ہم آگئے۔ آپ سے ملنے کو بھی جی چاہتا تھا۔ آپ کے گاؤں میں فون کا انتظام نہ تھا، اس لیے رابطے نہ رہے۔ اب آپ ہمارے ساتھ چلیے اور ہمارے ساتھ رہیے۔ بہت اصرار کے باوجود وہ ہمارے ساتھ نہیں آئیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کوئی اسکول نہیں ہے۔ میں بچیوں کو پڑھاتی ہوں، میری خوشی اس میں ہے۔کچھ عرصے بعد اطلاع آئی کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ وہ آج بھی مجھے یاد آتی ہیں۔ وہ بھی صحرا کا ایک پھول تھیں۔ انہوں نے میری زندگی تو بنا دی، مگر قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے چار پھول سے بچوں سے نوازا، مگر ان کی جھولی میں ایک پھول بھی نہ ڈالا۔ میں انہیں انسانی عظمت کے بلند درجات میں پاتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے۔یہ کوئی صحرائی کہانی نہیں، سچائی کا ایک باب ہے۔

 (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ