وہ صبح بہت ٹھنڈی، ٹھار اور دھند میں لپٹی ہوئی تھی۔ میں حسب معمول تیار ہو کر تھانے پہنچا تو مجھے پتہ چلا کہ میرے تھانے کی حدود میں واقع ایک گاؤں میں قتل کی واردات ہو گئی ہے۔ میں نے اطلاع دینے والے کانسٹیبل سے پوچھا، "یوسف، کون قتل ہوا ہے؟" یوسف نے کہا، "مقتول کا نام پیر لوٹے شاہ ہے۔"
"پیر لوٹے شاہ؟" میں نے حیرت سے دہرایا، "یہ کس قسم کا نام ہے؟" یوسف نے کہا، "پیر لوٹے شاہ اپنے گاؤں کی بہت مشہور شخصیت ہے۔ لوگ بڑے ادب و احترام سے اس کا نام لیتے ہیں۔ سنا ہے پیر صاحب کے قبضے میں کئی جن ہیں۔ کچھ لوگ ان کو شاہ جنات بھی کہتے ہیں۔" میں نے پوچھا، "اور یہ لوٹے کا کیا چکر ہے؟" یوسف نے بتایا، "پیر لوٹے شاہ لوٹے کی مدد سے عملیات وغیرہ کرتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ لوٹے شاہ کے نام سے مشہور ہے۔" "واہ واہ!" میں نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا، "کیا پبلیسٹی ہے!" میں نے یوسف سے کہا، "تمہیں پیر لوٹے شاہ کے بارے میں بہت معلومات ہیں۔" وہ جلدی سے بولا، "میں لوٹے شاہ کے بارے میں پہلے بہت کم جانتا تھا۔ باقی باتیں تو مجھے ابھی تھوڑی دیر پہلے جیدا نے بتائی ہیں۔" میں نے یوسف سے دریافت کیا کہ یہ جیدا کون ہے اور لوٹے شاہ سے اس کا کیا تعلق ہے؟ یوسف بولا، "جناب، جیدا ہی تو لوٹے شاہ کے قتل کی اطلاع لے کر آیا ہے۔ وہ اس وقت باہر برآمدے میں بیٹھا ہے۔" میں نے قدرے غصے سے کہا، "وہ باہر بیٹھا کیا انڈے دے رہا ہے؟ اس جیدا کو فوراً اندر لے کر آؤ۔" یوسف "یس سر" کہتے ہوئے میرے کمرے سے نکل گیا۔ یوسف جیدا کو میرے کمرے میں پہنچا کر واپس چلا گیا۔
میں نے جیدا کو بیٹھنے کے لیے کہا۔ وہ میری میز کے آگے بچھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ میں نے ٹٹولتی ہوئی نظر سے اسے دیکھا اور پوچھا، "پیر لوٹے شاہ کے قتل کا کیا قصہ ہے؟" وہ ڈرے ہوئے لہجے میں بولا، "قصہ تو مجھے پتہ نہیں سرکار۔ میں تو آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ پیر صاحب کو کسی نے قتل کر دیا ہے۔" میں نے اس سے پوچھا، "کیا تم بھی اسی گاؤں میں رہتے ہو؟" اس نے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا۔ میں نے کہا، "تمہارا پیر لوٹے شاہ سے کیا تعلق ہے؟" وہ بولا، "میں ان کا عقیدت مند ہوں۔" میں نے پوچھا، "تمہیں کب اور کیسے پتہ چلا کہ تمہارے پیر کو کسی نے قتل کر دیا ہے؟" وہ بولا، "ابھی کچھ دیر پہلے تھانے آنے سے پہلے میں پیر صاحب کے آستانے پر گیا تھا۔ وہاں پہنچ کر مجھے پتہ چلا کہ پیر صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ کسی نے ان کے سینے میں خنجر گھونپ دیا ہے۔ ان کی لاش آستانے پر پڑی ہے۔" میں نے کہا، "کیا پیر کا آستانہ گاؤں میں ہی ہے؟" جیدا نے بتایا کہ پیر کا آستانہ گاؤں سے تھوڑا باہر قبرستان کے نزدیک ہے۔ میں نے کہا، "تم صبح صبح آستانے پر کیا لینے گئے تھے؟" یہ سوال میں نے اس لیے کیا کیونکہ جیدا کی ذات مجھے شک میں لپٹی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ جیدا نے کہا، "جناب، میں وہاں اپنی مرضی سے نہیں گیا تھا بلکہ پیر صاحب نے مجھے وہاں بلایا تھا۔" میں نے پوچھا، "یہ بتاؤ، تمہارے پیر کے آستانے پر اور کون رہتا ہے؟" اس نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا، "پیر صاحب کا خدمت گار جوری مگر اس وقت جوری وہاں موجود نہیں ہے۔" میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پوچھا، "وہ کہاں چلا گیا؟" جیدا بولا، "پتہ نہیں صاحب۔ میں جب آستانے پر پہنچا تو یہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ جوری وہاں نظر کیوں نہیں آ رہا۔ اس کا کمرہ تو گیٹ کے پاس ہی ہے۔ میں نے اس کمرے کو بند دیکھا تو پیر صاحب کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ پھر میں نے وہاں پیر صاحب کی لاش دیکھی۔" میں نے اس سے پوچھا، "جب تم نے پیر کی لاش دیکھی تو اس کے بعد کیا کیا؟" وہ خوف زدہ نظر سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا، "میں آستانے سے نکل کر سیدھا آپ کے پاس آ گیا۔"
میں نے کہا، "تم گاؤں کی طرف کیوں نہیں گئے؟ سب سے پہلے تو تمہیں گاؤں والوں کو اس واقعے سے آگاہ کرنا چاہیے تھا۔" اس نے کہا، "آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ مجھے آستانے سے سیدھا گاؤں کی طرف ہی جانا چاہیے تھا لیکن پتہ نہیں کیوں میرا دل کہہ رہا تھا کہ مجھے تھانے جا کر اس واقعے کی اطلاع دینی چاہیے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی میرے اندر بول رہا ہو۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں، پیر صاحب کی روح ہی مجھے حکم دے رہی تھی۔ میرے اندر پیدا ہونے والی آواز پیر صاحب کی جانب سے کوئی اشارہ تھا۔ ان کی خواہش ہو گی کہ میں گاؤں کی بجائے تھانے جاؤں اور آپ کو بتاؤں۔" اس نے جو کچھ بھی محسوس کیا، وہ اس کی اندھی عقیدت تھی۔ وہ دل و جان سے پیر لوٹے شاہ کو کوئی بہت ہی اونچی اور پہنچی ہوئی شے سمجھ رہا تھا۔ میں اس کی طرح نہیں سوچ سکتا تھا۔ میں نے قدرے غصے سے اس کو کہا، "ایک بات تم اپنے دماغ میں بٹھا لو: اگر تم نے کسی قسم کی غلط بیانی کی ہے تو بتا دو۔ بعد میں اگر تمہارا کوئی جھوٹ میری پکڑ میں آیا تو تمہارا وہ حشر کروں گا جسے بیان کرتے ہوئے لوگ شرمائیں گے۔" وہ سہمی ہوئی نظر سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا، "تھانیدار صاحب، میں نے آپ سے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔ آپ چاہے مجھ سے کوئی بھی قسم لے لیں۔" میں نے کہا، "قسم کی کوئی ضرورت نہیں۔" میں نے دو کانسٹیبل تیار کیے اور ہم جیدے کے ساتھ پیر کے آستانے پر پہنچے۔ پیر لوٹے شاہ کا آستانہ لگ بھگ بیس مرلے اراضی پر مشتمل تھا۔ آستانے کے احاطے میں صرف تین کمرے بنے ہوئے تھے۔ ایک چھوٹا کمرہ جو داخلی گیٹ کے ساتھ ہی تھا۔ جیدا کے مطابق پیر کا خادم جوری اس کمرے میں رہتا تھا۔ دیگر دو کمرے احاطے کے پیچھلے حصے میں تھے جن میں ایک کمرہ حال نما تھا۔ اس کمرے میں پیر اپنے عقیدت مندوں سے ملاقات کرتا تھا جب کہ دوسرا کمرہ پیر کا بیڈ روم تھا۔ ہم آستانے کا وسیع صحن عبور کر کے پیر کے بیڈ روم میں پہنچ گئے۔
پیر لوٹے شاہ چاروں شانوں چت کمرے کے وسط میں پڑا تھا۔ میں نے پہلی نظر میں اندازہ لگا لیا کہ خود کو شاہ جنات کہلانے والا اب اس دنیا میں باقی نہیں رہا۔ اس کے سینے میں عین دل کے مقام پر ایک خنجر پوسٹ تھا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ شاہ جنات اس وقت فطری لباس میں تھا۔ لاش کے معائنہ کے لیے ننگ دھڑنگ پیر لوٹے شاہ کے جسد خاکی کے قریب آ گیا۔ اس وقت مجھے پتہ چلا کہ وہ لاش ایک دائرے کے اندر پڑی تھی۔ کمرے کے کچے فرش پر لگ بھگ دس فٹ قطر کا ایک دائرہ کھنچا ہوا نظر آ رہا تھا جیسے کسی شے کو کیلنے کے لیے حصار کھینچا گیا ہو۔ میں پیر لوٹے شاہ کا بغور جایزہ لینے لگا۔ اس کی عمر پچاس کے قریب ہو گی۔ وہ ایک صحت مند شخص رہا تھا۔ ہاتھوں میں دھاتی کڑے، کانوں میں بالیاں اور گلے میں مالائیں موجود تھیں۔ اس کی گردن کسی گینڈے کی مانند موٹی تھی۔ کمرے کی ایک دیوار کے ساتھ پیر لوٹے شاہ کا بستر بچھا ہوا تھا۔ میں نے بستر کی چادر کھینچ لی اور پیر کی برہنہ لاش کو اس چادر سے ڈھانپ دیا۔ اسی وقت گاؤں کا چوہدری بھی آ گیا۔ چوہدری فیروز دین کو کسی نے ہماری آمد کے بارے میں بتایا تھا۔ وہ فوراً اس طرف چلا آیا تھا۔ پیر کے قتل کے بارے میں اسے آستانے پر آنے کے بعد پتہ چلا تھا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا، "تھانیدار صاحب، شاہ جی کو کس نے قتل کیا؟" چوہدری کے لب و لہجے میں میں نے پیر لوٹے شاہ کے لیے خاصی عقیدت محسوس کی۔ وہ بھی شاہ جنات کے خاص مریدوں میں سے لگتا تھا۔ میں نے کہا، "ابھی تو مجھے صرف اتنا پتہ چلا ہے کہ پیر صاحب کو کسی نے قتل کر دیا ہے۔ کس نے قتل کیا، یہ سراغ لگانا ابھی باقی ہے۔" چوہدری نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا، "زرا شاہ کا دیدار تو کروائیں۔"
میری ہدایت پر اے ایس آئی نے مقتول کے چہرے سے چادر ہٹا دی۔ اس جزوی دیدار سے چوہدری کی تسلی نہ ہوئی۔ اس نے کہا، "پورے جسم سے چادر ہٹا دیں۔" میں نے سنجیدگی سے کہا، "چوہدری صاحب، اس وقت آپ کے شاہ معاشرتی لباس سے بے نیاز ہیں اس لیے میں نے ان کے اوپر چادر ڈال رکھی ہے۔" وہ ایک لمحے کو چونکا اور کمرے کے فرش کو بغور دیکھنے لگا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ خاص بات سوچنے یا کوئی اہم پوائنٹ نوٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی ہوشیار نگاہ نے حصار والی لائن پر دو تین چکر کاٹے اور پھر میرے چہرے پر آ کر رک گئی۔ اس کی حالت دیکھتے ہوئے میں نے سوال کیا، "چوہدری صاحب، آپ خاصے پریشان لگ رہے ہیں۔ کیا کوئی خاص بات ہو گئی ہے؟" اس نے جواب دینے کی بجائے ایک مرتبہ پھر چادر سے ڈھکی لاش کو ایک نظر دیکھا۔ پھر حصار والی لائن پر اس کی نگاہ چکرا نے لگی۔ اس کے رویے نے مجھے الجھن میں ڈال دیا۔ کوئی ایسی بات ضرور تھی جو وہ مجھ سے چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں ایک ہی نتیجے پر پہنچا کہ وہ اس قتل یا قاتل کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور جانتا ہے۔ جب اس نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا تو میں نے کہا، "اگر آپ اپنے شاہ جی کو پورا دیکھنا چاہتے ہیں تو میں چادر ہٹا دیتا ہوں۔ ویسے حقیقت وہی ہے جو میں آپ کو بتا چکا ہوں۔" چوہدری نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا، "میں ایک نظر شاہ جی کو مکمل طور پر دیکھنا چاہتا ہوں۔ آپ چادر ہٹا دیں تو اچھا ہے۔" اس کے لہجے نے مجھے بتا دیا کہ وہ اپنے خیالات کو حتمی اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے پیر لوٹے شاہ کا مکمل دیدار کرنا چاہتا تھا۔ چوہدری کی عمر ساٹھ کے قریب تھی۔ چہرے سے خاصا سمجھ دار اور بردبار نظر آتا تھا۔ میں نے اے ایس آئی کو اشارہ کیا۔ اس نے لاش کے اوپر سے چادر کھینچ لی۔
شاہ جنات کے برہنہ جسم کو دیکھ کر چوہدری کی آنکھوں میں وحشت بھر گئی۔ میں نے محسوس کیا اس کا جسم ہلکے ہلکے لرز رہا تھا۔ چہرے پر بھی خوف زدگی کے آثار تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے اس نے کسی انتہائی ڈراونے مخلوق کو دیکھ لیا ہو۔ میں نے پوچھا، "چوہدری صاحب، کس چیز نے آپ کی یہ حالت بنا دی ہے؟ مجھے بتائیں، یہ کیا معاملہ ہے؟" وہ نفی میں گردن ہلاتے ہوئے بولا، "میں سمجھ گیا ہوں شاہ جی کا قاتل کون ہے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ وہی خبیث ہے۔ فاطیل! شاہ جی نے مجھے خود بتایا تھا، یہ فاطیل کا ہی کارنامہ ہے۔" میں نے اپنی حیرت کو دور کرنے کی غرض سے پوچھا، "چوہدری صاحب، یہ فاطیل کون ہے؟" اس نے ڈرے ہوئے لہجے میں کہا، "فاطیل ایک خبیث جن ہے۔ تھانیدار صاحب، ہو سکتا ہے آپ کو میری بات کا یقین نہ آئے مگر مجھے ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ شاہ جی کی جان اس مکار جن فاطیل نے لی ہے۔ وہ شاہ جی کو کئی بار دھمکی دے چکا تھا۔ میں اس بات سے واقف ہوں۔" پھر حصار کی طرف اشارہ کر کے بولا، "آپ یہ دائرہ دیکھ رہے ہیں۔" میں نے کہا، "ہاں، کئی بار دیکھ چکا ہوں، اب بھی دیکھ رہا ہوں۔" چوہدری نے کہا، "خنجر بھی آپ نے دیکھا ہے جو شاہ صاحب کے سینے میں پیوست ہے۔" میں نے کہا، "بالکل دیکھا ہے مگر آپ اس خنجر اور حصار کے حوالے سے مجھے کیا بتانا چاہتے ہیں؟ زرا کھل کر وضاحت کریں۔" چوہدری نے کہا، "شاہ جنات اس شیطان جن فاطیل کو اپنے قبضے میں کرنا چاہتے تھے۔ یہ منہوس جن کسی زمانے میں شاہ جی کے قبضے میں تھا۔ پھر اس کی بہت منت سماجت کے بعد شاہ جی نے اس کو آزاد کر دیا تھا۔ اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی قسم کھا کر وعدہ کیا تھا کہ وہ کسی کو تنگ نہیں کرے گا۔"
اس خبیث فاطیل نے اپنا وعدہ توڑ دیا۔ اس مرتبہ وہ دوسرے انسانوں کو تنگ کرنے کی بجائے شاہ جی کو ہی تنگ کرنے لگا اور اپنے شاہ جی اس شیطان جن کو دوبارہ قابو کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ یہ حصار اسی کے لیے کھینچا گیا تھا اور خنجر بھی اسی کے استقبال کے لیے تھا۔ چوہدری نے بات ختم کر کے عجیب سے نظروں سے مجھے دیکھا اور بولا، "آپ میری باتوں کو مذاق سمجھ رہے ہیں نا؟ لیکن دیکھ لینا، ایک دن آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ قتل فاطیل نے ہی کیا ہے۔ وہ مردود شاہ جنات کے قابو میں نہ آیا اور اپنے کسی داؤ سے شاہ جی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ چال الٹ گئی، بازی پلٹ گئی۔" اس کے خاموش ہوتے ہی میں نے کہا، "اور شاہ جنات پیر لوٹے شاہ کی زندگی کا لوٹا گھوم گیا۔ وہ لوٹا گھما کر اپنے پاس آنے والوں کو ان کے مسائل کا حل بتاتا تھا۔ آج اسی لوٹے نے شاہ جی کی زندگی کے مسائل حل کر دیے۔" میری باتیں سن کر چوہدری تھوڑی برہمی سے بولا، "شاید آپ کو پتہ نہیں، شاہ جی کتنی پہنچی ہوئی ہستی تھے۔" میں نے کہا، "آپ ٹھیک کہتے ہیں، واقعی مجھے نہیں پتہ کہ وہ کہاں تک پہنچے ہوئے تھے۔" چوہدری ناراضگی سے بولا، "اس لیے آپ ان کی بے ادبی کر رہے ہیں۔" میں نے کہا، "چوہدری صاحب، ناراض نہ ہوں۔ اگر آپ کو میری کسی بات سے تکلیف پہنچی ہو تو میں معافی چاہتا ہوں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ آپ شاہ جی یا شاہ جی آپ کے کتنے قریب تھے۔" وہ فخریہ انداز میں بولا، "میں روح کی گہرائیوں سے شاہ جی کا مرید تھا۔ ان کی موت کا جتنا دکھ مجھے ہے، اور کسی کو ہو نہیں سکتا۔ اب شاہ جی کے کفن دفن کا بندوبست میں شاندار طریقے سے کروں گا۔" میں نے کہا، "آپ کو شاہ جی کی تدفین کا پورا موقع فراہم کیا جائے گا لیکن مناسب قانونی کارروائی کے بعد۔"
اس نے کہا، "کون سی قانونی کارروائی؟ آپ کس قسم کی کارروائی کرنا چاہتے ہیں؟" میں نے کہا، "ابھی تو موقع کی کارروائی جاری ہے۔ آپ ماشاءاللہ خاصے سیانے بندے ہیں، آپ کو اچھی طرح معلوم ہو گا کہ اس کارروائی کا اگلا مرحلہ پوسٹ مارٹم ہے۔" چوہدری نے کہا، "تو کیا آپ شاہ جی کی چیر پھاڑ کروائیں گے؟" میں نے کہا، "پوسٹ مارٹم رپورٹ تو ضروری ہے جناب۔" چوہدری بولا، "اس سے شاہ جی کی لاش کی بے حرمتی ہو گی۔" میں نے کہا، "لیکن اس پوسٹ مارٹم سے قاتل تک پہنچنے میں بھی آسانی تو ہو گی اور یہ بھی معلوم ہو گا کہ قتل کب ہوا۔" چوہدری بھڑکے ہوئے لہجے میں بولا، "قاتل کا نام اور وجہ قتل میں آپ کو بتا چکا ہوں۔" میں نے کہا، "آپ کہتے ہیں فاطیل نامی ایک جن نے آپ کے پیر و مرشد کو مارا ہے۔ لیکن میں معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ میں ایسی کسی کہانی پر ایک فیصد بھی یقین نہیں کر سکتا۔" میرے الفاظ سے چوہدری کو آگ لگ گئی۔ وہ سلگ اٹھا اور بولا، "تو کیا میں جھوٹ رہا ہوں؟" میں نے بے پروائی سے کہا، "آپ کے جھوٹ اور سچ کو میں نہیں جانتا البتہ قاتل جن والی کہانی میرے دماغ کو قابل قبول نہیں۔ میں تو اپنے طریقے سے قانونی کارروائی کروں گا۔ اگر ہم لوگ جرائم کو جنات اور دیگر ہوائی مخلوقات کے کھاتے میں ڈالنے لگے تو ہو گی تھانیداری!" چوہدری بولا، "لگتا ہے آپ کا پہلے کبھی ناری مخلوق سے واسطہ نہیں پڑا۔ یہ بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ آپ شاہ جی کا حشر ہی دیکھ لیں۔ اگر آپ نے فاطیل کے سلسلے میں کوئی کارروائی کی تو وہ آپ کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔" میں نے کہا، "چوہدری صاحب، آپ مجھے ڈرانے دھمکانے کی کوشش نہ کریں۔ میں نے قانون کی جو کتابیں پڑھی ہیں ان میں ناری، خاکی، آبی اور ہوائی مخلوق سے نمٹنے کے گر بتائے گئے ہیں۔ آپ میری فکر نہ کریں۔ آپ کو پہلی فرصت میں اپنے بارے میں سوچنا چاہیے۔"
وہ بوکھلائے ہوئے لہجے میں بولا، "اپنے بارے میں کیا سوچوں؟ کیا مطلب ہے آپ کا؟" میں نے اپنے لہجے میں سنجیدگی پیدا کرتے ہوئے کہا، "چوہدری صاحب، آپ شاہ جی بہت قریب تھے۔ شاہ جی آپ کو اپنے دشمن فاطیل کی کہانیاں سناتے رہتے تھے۔ میں نے سنا ہے کہ اس قسم کے خبیث جن پہلے اپنے دشمن سے بدلہ لیتے ہیں پھر دشمن کے نزدیکی تعلق داروں کا رخ کرتے ہیں۔ کہیں شاہ جی کے بعد آپ کے پیچھے نہ پڑ جائے وہ خبیث فاطیل!" میں نے یہ بات محض چوہدری سے مذاق کے موڈ میں کہی تھی ورنہ حقیقت سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ اچانک چوہدری کے چہرے پر زردی پھیلنے لگی۔ اس کی خوف زدگی میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ ایسے لوگوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اس نے مرجھائی سی آواز میں کہا، "کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں؟" میں نے کہا، "بالکل، میں آپ سے جھوٹ کیوں کہوں گا؟" چوہدری بے چارہ حد درجہ الجھ گیا اور بولا، "لیکن شاہ جی نے تو کبھی ایسی کوئی بات نہیں بتائی!" میں نے کہا، "میں تو بتا رہا ہوں نا۔ اگر آپ کے شاہ جی کا فرمایا ہوا درست مان لیا جائے تو پھر فاطیل جن اس وقت بھی آستانے کے آس پاس چکرا رہا ہو گا تاکہ یہ اندازہ لگا سکے کہ کس شخص کو شاہ جی کی موت کا سب سے زیادہ دکھ ہوا ہے۔ میرا مشورہ تو یہی ہے کہ آپ شاہ جی بھول کر فوراً اپنی حویلی میں چلے جائیں اور اللہ اللہ کریں اس شریر مخلوق سے بچنے کی کوشش کریں۔" میں نے اس قسم کی بوندھی باتیں اس لیے کی تھیں کہ چوہدری خواہ مخواہ پوسٹ مارٹم سے متعلق کارروائی میں روڑے نہ اٹکائے کیونکہ وہ شاہ کی لاش کی چیر پھاڑ کو بے حرمتی سمجھتا تھا۔ چوہدری نے میری باتوں کا اتنا اثر لیا کہ واپس حویلی جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ وہ کمزور سی آواز میں بولا، "تھانیدار صاحب، آپ ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں۔ اس مخلوق کا واقعی کوئی بھروسہ نہیں۔ میں حویلی جا رہا ہوں۔ میں آرام کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں۔" میں نے چوہدری سے کہا، "آپ نے بروقت درست فیصلہ کیا ہے۔ آپ فکر نہ کریں، میں موقع کی کارروائی سے فارغ ہوتے ہی سیدھا آپ کی حویلی آؤں گا۔ آپ شاہ جی کے بہت قریب تھے۔ آپ کا بیان بہت ضروری ہے۔" چوہدری "اچھا اچھا ٹھیک ٹھیک" کہتا ہوا وہاں سے رخصت ہو گیا۔