مریدنی کا کھیل - دوسرا حصہ

Sublimegate Urdu Stories

میں نے پہلی فرصت میں شاہ جنات کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال بھیجوانے کا بندوبست کیا۔ پھر دیگر کارروائی میں مصروف ہو گیا۔ میں کبھی شاہ جی، کبھی شاہ صاحب، کبھی پیر لوٹے شاہ، کبھی بابا لوٹے شاہ، کبھی شاہ جنات تو کبھی مرشد کہہ رہا ہوں۔ یہ مقتول کو اپنے عقیدت مندوں کی طرف سے ملنے والے ٹائٹل ہیں۔ میرا ان سے کوئی اتفاق نہیں۔ میری نظر میں وہ ایک مقتول تھا جس کے قاتل کا مجھے سراغ لگانا تھا۔ جنات اللہ کی پیدا کردہ مخلوق ہے۔ ان کے وجود سے انکار ممکن نہیں لیکن لوٹے شاہ جیسے فراڈ پیروں اور عاملوں کا جنات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ یہ معاشرتی ناسور اپنے ہتھکنڈوں اور بلند بانگ باتوں سے کمزور ذہین کے لوگوں کو تسخیر کر لیتے ہیں جو ان کی اندھی عقیدت میں بعض اوقات نعوذ باللہ انہیں خدا سے بھی برتر سمجھنے لگتے ہیں۔ میں نے جائے وقوعہ پر موجود جتنے بھی افراد سے پوچھ گچھ کی۔ اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا۔ ان افراد میں سب ہی پیر لوٹے شاہ کے عقیدت مند تھے اور مشترکہ طور پر سب حیرت زدہ تھے کہ مرشد کو کس نے قتل کیا۔ فاطیل جن والی کہانی ابھی عام نہیں ہوئی تھی۔ مجھے فی الحال جس شخص کی فوری تلاش تھی اس کا نام جوری تھا۔ پیر لوٹے شاہ کا یہ خدمت گار اچانک منظر سے غائب ہو گیا تھا اور حیرت کی بات یہ تھی کہ کوئی بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں گیا اور کب آئے گا۔ اس حوالے سے جوری مشکوک افراد کی لسٹ میں سب سے اوپر تصور کیا جا سکتا تھا۔ میں نے وہاں پر موجود لوگوں سے کڑی کڑی کرکے جوری کے متعلق دریافت کیا لیکن اس کے خلاف کسی نے زبان نہیں کھولی۔ پیر لوٹے شاہ کے قاتل کی حیثیت سے کوئی بھی جوری پر شک ظاہر نہیں کر رہا تھا۔

میں نے جیدا کو اپنے ساتھ لیا اور واپس تھانے کی طرف چلنے لگے تو اے ایس آئی نے کہا، "جناب، آپ نے چوہدری سے اس کی حویلی جانے کا وعدہ کیا تھا۔ کیا اس سے ملے بغیر ہی واپس چلے جائیں گے؟" میں نے کہا، "چوہدری اس وقت اپنے حواس میں نہیں ہے۔ عجیب بہکی بہکی باتیں کر رہا تھا۔ وہ لوٹے شاہ کے قتل میں کسی جن کو ملوث کر رہا تھا۔ اس وقت اس سے ملنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہو گا۔ اسے بعد میں دیکھ لیں گے۔" ہم تھانے کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب گاؤں کے بیچ سے گزرنے لگے تو جیدا نے کہا، "جناب، آپ نے باقی لوگوں سے تو موقع پر ہی پوچھ تاچھ کر لی ہے لیکن مجھے اپنے ساتھ تھانے لے جا رہے ہیں۔ اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟" میں نے اسے کہا، "ہاں، اس کی بہت ہی خاص وجہ ہے۔ تم بہت ہی خاص آدمی ہو۔ میں کچھ عرصے کے لیے تمہیں اپنا مہمان بنا کر رکھنا چاہتا ہوں۔" وہ خوف زدہ نظروں سے مجھے تکتے ہوئے بولا، "جناب، میں نے ایسا کون سا جرم کیا ہے جو آپ مجھے حوالات میں بند کرنا چاہتے ہیں؟" میں نے کہا، "تمہارے جرم کا فیصلہ تھانے چل کر ہو گا۔" تھانے پہنچ کر میں جیدا کو سیدھا ٹرائل روم میں لے گیا۔ اس کی زبان کھلوانے کے لیے وہاں لے جانا ضروری نہیں تھا۔ ایسا میں نے ایک خاص مقصد سے کیا تھا۔ میں اسے وہاں رکھے سامان اور اس کی کارکردگی کی ایک جھلک دکھانا چاہتا تھا تاکہ وہ اس سبق آموز جھلک کو دیکھ کر عبرت پکڑ سکے اور مجھے اس پر زیادہ محنت نہ کرنی پڑے اور اس کی زبان رواں ہو سکے۔ اس کارروائی نے جیدا پر خاصے گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ جب میں جیدا کو اپنے دفتر لے کر آیا تو وہ کافی خوف زدہ تھا۔ اس بار میں نے اسے بیٹھنے کے لیے کرسی پیش نہیں کی۔ جیدا کی صورت سے یوں دکھائی دیتا تھا جیسے وہ اب تک رو دے گا۔ میں نے اپنی کرسی پر بیٹھنے کے بعد اس کو گھور کر دیکھا اور کہا، "جیدا، تم نے دیکھا میں غلط بیانی کرنے والوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک کر سکتا ہوں۔" وہ لکنت زدہ آواز میں بولا، "جی، دیکھا ہے۔"

میں نے کہا، "پھر تمہارا کیا ارادہ ہے؟ جھوٹ بولو گے یا سچ؟" وہ رونے والے انداز میں بولا، "سرکار، نہ میں نے پہلے آپ سے کوئی جھوٹ بولا ہے اور نہ اب بولوں گا۔" میں نے جیدا کو نفسیاتی طور پر اس قدر تیار کر لیا تھا کہ مجھے امید تھی وہ کسی چکر بازی کا خیال بھی دل میں نہیں لائے گا۔ میں نے اس سے پوچھا، "تم آج صبح پیر لوٹے شاہ کے آستانے پر کیا لینے گئے تھے؟" وہ تھوک نگلتے ہوئے بولا، "شاہ جی نے مجھے بلایا تھا۔" میں نے کڑے لہجے میں پوچھا، "کیوں بلایا تھا؟ تمہارا کوئی کام اس کے پاس پہنچا ہوا تھا یا اس نے اپنے کسی کام سے بلایا تھا؟" وہ مسکین سی صورت بنا کر بولا، "کام تو میرا ہی تھا جناب۔" میں نے کہا، "ایسا کیا کام تھا جو تمہیں ٹھنڈی ٹھار صبح وہاں جانا پڑا؟" وہ بولا، "مجھے ایک خاص تعویز لینا تھا۔ شاہ جی نے کہا تھا میرا مطلوبہ تعویز جمعہ کی صبح مجھے تیار ملے گا۔ میں وہ تعویز حاصل کرنے آستانے گیا تھا۔" میں نے پوچھا، "تم وہ تعویز کس مقصد کی خاطر لینا چاہتے تھے؟" جواب دینے سے پہلے وہ تھوڑا ہچکچایا۔ میں نے جلدی سے کہا، "کوئی گڑ بڑ نہیں جیدا ورنہ میرا ہاتھ اٹھ جائے گا۔" وہ سہم گیا اور تامل کرتے ہوئے بولا، "میں کسی گڑ بڑ کا ارادہ نہیں رکھتا جناب۔ دراصل بات ایسی ہے..." زبان کھولنے سے پہلے سوچ بچار میں پڑ گیا تھا۔ میں نے کہا، "کسی عورت کا معاملہ ہے؟" وہ حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا، "کسی عورت کا نہیں بلکہ میری اپنی عورت یعنی میری بیوی کا معاملہ ہے۔" میں نے پوچھا، "کیا ہوا ہے تمہاری بیوی کو جو تم کوئی خاص تعویز لینے شاہ جی کے آستانے پر اتنی صبح جا پہنچے؟" وہ بولا، "میری بیوی کو کچھ نہیں ہوا۔ میں تو اپنے لیے تعویز لینے گیا تھا لیکن پیر لوٹے شاہ نے لوٹا گھمانے کے بعد مجھے بتایا کہ تعویز کی ضرورت مجھے نہیں بلکہ میری بیوی کو ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ان کا دیا ہوا تعویز کسی طرح اپنی بیوی کو پانی یا دودھ وغیرہ میں گھول کر پلا دوں تو وہ بالکل سیدھی ہو جائے گی۔" میں نے کہا، "کیا تمہاری بیوی الٹی ہے جو لوٹے شاہ کے تعویز سے سیدھی ہو جاتی؟" وہ زرا غصے سے بولا، "اس کی مت الٹی ہے جناب۔ مجھے وہ کہیں سے سیدھی نظر نہیں آتی۔ یہ زندگی میرے لیے عذاب بن کے رہ گئی ہے۔"

یہ تو کوئی اور ہی معاملہ نکل آیا تھا۔ بعض ان پڑھ عقل مند اور اکثر پڑھے لکھے جاہل اپنی بیویوں کو سدھارنے کے لیے حکمت عملی کی بجائے پیروں عاملوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ میں نے جیدا کے دل کا غبار خارج کرنے کی خاطر کہا، "آخر تمہاری بیوی ایسا کیا کرتی تھی؟" وہ اچانک پھٹ پڑا۔ "وہ مجھے مارتی ہے! میری بیوی مجھ پر لات جوتا چلاتی ہے۔ وہ بھی بچوں کے سامنے! میں اس زبان دراز اور ہاتھ چھٹ عورت کی شرپسندیوں سے محفوظ رہنے کے لیے شاہ جی کے پاس تعویز لینے گیا۔ اب پوری بات آپ کی سمجھ میں آ گئی ہو گی۔" میں نے کہا، "پوری تو نہیں، آدھی سمجھ آئی ہے۔ تم مرد ہو کر اپنی بیوی سے مار کھاتے ہو؟ کیا تمہارے اندر جان نہیں ہے؟" اس نے کہا، "تھانیدار صاحب، آپ نے صرف مجھے دیکھا ہے، میری بیوی کو نہیں دیکھا۔" میں نے کہا، "یہ تو تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن اگر تمہاری بیوی کو دیکھ لوں تو کیا ہو گا؟" وہ بولا، "اس کے سامنے میں ایسے ہوں جیسے کسی شیرنی کے سامنے بلی۔ وہ پوری تین من کی لاش ہے اور اس کے وجود میں پہلوانوں جیسی طاقت ہے۔ میں نے کئی بار سوچا اسے طلاق دے دوں لیکن معصوم بچوں کا خیال آ جاتا ہے۔ سوچتا ہوں ان کا کیا بنے گا۔" میں نے کہا، "تمہارے شاہ جی تو قتل ہو گئے۔ تم وہ خاص تعویز حاصل نہیں کر سکو گے۔ میں تعویز تو نہیں دے سکتا، تمہارے حق میں دعائے خیر ہی کر سکتا ہوں۔ میرا مشورہ تو یہ ہے کہ تم اپنی بیوی کو ٹھنڈے دل اور دماغ سے سمجھاؤ کیونکہ بیویاں کسی معصوم بچے کی طرح ہوتی ہیں۔ یہ زور زبردستی سے قابو نہیں آتیں۔ بہلانا پھسلانا پڑتا ہے، ٹھگی لگا کر ہموار کرنا پڑتا ہے۔ انہیں رام کرنے کے لیے بعض اوقات جھوٹ کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے۔ ایسا جھوٹ جو بے ضرر بھی ہو اور حوصلہ افزا بھی۔" جیدا فرمانبرداری سے بولا، "میں آپ کی بات سمجھ رہا ہوں جناب۔ میں آپ کے مشورے پر ضرور عمل کروں گا لیکن مجھے زیادہ امید نہیں ہے۔ آپ میری بیوی کو نہیں جانتے۔ اس کی مار دھاڑ اور زبان درازی آپ نے نہیں دیکھی۔"

میں اس کے بعد اس سے شاہ کے متعلق دوسرے سوالات کرنے لگا۔ ان سوال جواب سے جو نتیجہ اخذ کیا وہ یہ تھا کہ پیر لوٹے شاہ کے قتل میں جیدا کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ تھانے سے رخصت کرنے سے پہلے میں نے جیدا کو چند ہدایات دیں۔ پہلی بات تو یہ کہ تم مجھے اطلاع کیے بغیر گاؤں سے باہر کہیں نہیں جاؤ گے۔ دوسری بات یہ کہ گاؤں میں رہتے ہوئے لوٹے شاہ کے آستانے کی خبر گیری کرنا ہو گی۔ تیسری اور اہم بات یہ کہ شاہ کا خدمت گار جوری کہیں نظر آئے تو فوراً تھانے آ کر اطلاع دو گے۔ جیدا نے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا، "آپ بالکل فکر نہ کریں جناب، یہ کام میں کر لوں گا۔" پھر وہ مجھے ایک بھرپور سلام کر کے تھانے سے رخصت ہو گیا۔ دو روز بعد پوسٹ مارٹم رپورٹ آ گئی۔ رپورٹ کے مطابق پیر لوٹے شاہ کی موت جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب گیارہ اور بارہ بجے کے بیچ واقع ہوئی۔ موت کا سبب وہی خنجر تھا۔ جس روز پوسٹ مارٹم کی رپورٹ موصول ہوئی وہ دن بڑا ہنگامہ خیز تھا۔ ہسپتال سے پیر لوٹے شاہ کی کاٹی پھٹی لاش بھی آئی تھی جسے چوہدری فیروز دین نے وصول کیا۔ اسی روز نماز عصر کے بعد لوٹے شاہ کو آستانے کے احاطے میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ جنازے میں گاؤں کے سبھی مردوں نے شرکت کی۔ پتہ نہیں یہ کس کا آئیڈیا تھا کہ قبرستان کی بجائے لوٹے شاہ کو آستانے میں دفن کیا جائے۔ اس عمل نے میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ میں دیکھ رہا تھا پیر لوٹے شاہ کسی ہاتھی کی مانند مرنے کے بعد سوا لاکھ کا ہو گیا تھا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد قبر مزار کی شکل اختیار کر لے گی اور پھر چڑھاوے چڑھانے والوں کا تانتا باندھ جاتا۔ ممکن ہے آستانے پر ہر سال پیر لوٹے شاہ کا عرس بھی منعقد ہونے لگے اور لوگ لوٹے بھر بھر کر نذرانے پیش کرنے لگیں۔ ایسے واقعات میں افسوس ناک بات یہ ہوتی ہے کہ لوگ بھیڑ چال کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ کسی تحقیق تفتیش میں پڑے بغیر اپنے من کی مرادیں حاصل کرنے کے لیے ایسی نقلی مزاروں کی رونق بڑھانے میں کسی کنجوسی سے کام نہیں لیتے۔

میری نظر میں ایسے تمام اڈے نوٹ چھاپنے کی فیکٹریاں ہیں جو وہاں پر مسلط افراد کی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ ایسے ظالم اور سفاک افراد کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ سینکڑوں ہزاروں سادہ لوح اور معصوم افراد کو گمراہی کے اندھیروں میں دھکیلنے کا موجب بن رہے ہیں۔ آپ کا ذہن یقیناً الجھ رہا ہو گا کہ پیر لوٹے شاہ کا ذکر کرتے کرتے نہایت ہی تلخ اور سخت الفاظ استعمال کر رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ اس وقت کہانی کے وسط میں ہیں جبکہ میں اس کہانی کے آغاز اور انجام سے واقف ہوں۔ کہانی کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے آپ بھی میرے ہم خیال ہو جائیں گے۔ آپ لوگ ایک بات ذہن نشین کر لیں کہ بزرگان دین اور روحانی ہستیوں کا احترام ہم پر واجب ہے اس کے ساتھ نقلی اور ڈرامہ باز ڈبے پیروں سے نہ صرف ہوشیار رہنا چاہیے بلکہ ان کی مذمت بھی کرنی چاہیے۔ صرف ہماری لا پرواہی ان لوگوں کے حوصلوں کو بڑھا دیتی ہے۔ اصلی اور نقلی میں فرق کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ جس دن پیر لوٹے شاہ کی تدفین ہوئی اسی دن کی رات کو جوری واپس آستانے پہنچ گیا۔ اس وقت پیر لوٹے شاہ کو دفن کرنے والے آستانے سے جا چکے تھے۔ فاطیل جن والی کہانی پورے گاؤں میں گردش کر رہی تھی اس لیے شام کے بعد کسی بھی شخص نے آستانے پر رکنے کی جرات نہ کی۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ جوری آستانے پر پہنچ جائے اور زیادہ دیر تک مجھ سے دور رہے؟ میرے عملے کے چاق و چوبند افراد جو سادہ لباس میں آستانے کی نگرانی پر مامور تھے، رات نو بجے اسے گرفتار کر کے حوالات میں پہنچا دیا۔ سردیوں کا موسم تھا۔ پانچ بجے سورج غروب ہو جاتا تھا۔ آٹھ بجے تک لوگ کھا پی کر سو جاتے تھے۔ میں بھی اس وقت تھانے کے اٹھ بنے اپنے کوارٹر میں سونے کی تیاری کر رہا تھا کہ کانسٹیبل نے اطلاع دی کہ جوری کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور وہ اس وقت تھانے کی حوالات میں موجود ہے۔

میں نے اے ایس آئی کو بلا کر اس سے کہا، "تم زرا جوری کی خاطر مدارت کر لو۔ تب تک میں تھوڑا آرام کر لوں۔ جب مال تیار ہو جائے تو میرے سامنے پیش کرو۔" اے ایس آئی میرا مطلب سمجھ گیا۔ اس نے کہا، "آپ آرام سے دو تین گھنٹے نیند پوری کریں۔ میں مال کی تیاری کے بعد آپ کو بتاتا ہوں۔" رات تقریباً بارہ بجے مجھے جگایا گیا اور بتایا کہ مال تیار ہے، آپ چیک کر سکتے ہیں۔ میں اٹھ کر اپنے دفتر آیا تو جوری کو میرے سامنے پیش کیا گیا۔ وہ میرے سامنے آیا تو تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس کے ننگے بدن کو دیکھ کر میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اے ایس آئی نے خاصے خطرناک فارمولے اس پر آزمائے تھے۔ عام مجرم اس قسم کی کیفیات میں سے گزر کر اقبال جرم کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتے۔ اے ایس آئی نے اس کی زبان کھلوانے کے لیے خاصی سختی کی تھی۔ میں نے نرمی کا برتاؤ کرنے کا فیصلہ کیا اور کانسٹیبل سے کہا، "کوئی گرم چادر یا کمبل لا کر اس پر ڈال دو۔" وہ خاموشی سے گیا۔ دو منٹ بعد واپس آ کر میرے حکم کی تعمیل کر دی۔ میں نے جوری کو اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ شاید اسے یقین نہیں آیا تھا کہ میں نے اسے بیٹھنے کو کہا ہے۔ میں نے دوبارہ اپنی بات کو دہرایا۔ وہ جھجکتے ہوئے ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں نے نرمی سے کہا، "سیدھے ہو کر بیٹھ جاؤ اور جو میں پوچھوں اس کا ٹھیک ٹھیک جواب دینا۔" اس نے کہا، "آپ کے عملے کے لوگوں نے میرے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے لیکن آپ کا رویہ ان سے بالکل مختلف ہے۔" میں نے کہا، "ہاں، میں ان سے واقعی مختلف ہوں۔ میں کوشش کرتا ہوں گھی سیدھی انگلی سے نکل آؤں۔ اگر بات نہ بنے تو میں اپنی انگلی کو کسی طرف بھی گھما سکتا ہوں۔ تم میری بات سمجھ رہے ہو نا؟ اگر تم نے میرے ساتھ تعاون نہ کیا تو میرے عملے کے برے سلوک کو بھول جاؤ گے، صرف میرے سلوک کو یاد رکھو گے۔" وہ جلدی سے بولا، "آپ جو کچھ بھی پوچھیں گے، میں اس کا صحیح جواب دوں گا۔ ویسے جھوٹ تو میں نے پہلے بھی کوئی نہیں بولا۔ میں آپ کے اے ایس آئی کو سب کچھ سنا چکا ہوں۔"

میں نے کہا، "پہلے کی سنی سنائی باتوں کو ذہن سے نکال دو۔ جو میں پوچھوں صرف اس کا جواب دو۔ تم مجھے یہ بتاؤ: تم جمعرات کی دوپہر سے لے کر اب تک کہاں غائب تھے؟" اس نے بتانا شروع کیا، "جناب، میں چیچہ وطنی گیا ہوا تھا۔ شاہ جی نے مجھے چیچہ وطنی بھیجا تھا ایک مریضہ کا علاج کرنے کے لیے۔ اس لڑکی کا نام شاداں ہے۔" میں نے کہا، "شاداں نامی اس لڑکی کو کون سا مرض لاحق تھا؟" جوری نے کہا، "شاداں ایک خوبصورت لڑکی ہے۔ اس بیچاری پر ایک خبیث جن عاشق ہو گیا تھا۔ میں نے شاداں کو اس ظالم جن سے نجات دلا دی ہے۔ میں نے پورے تین دن عمل کیا اور مرشد کی دعا سے مجھے کامیابی حاصل ہوئی۔ اب وہ بھلی چنگی ہے۔" میں نے پوچھا، "مرشد سے تمہاری مراد پیر لوٹے شاہ ہے؟" اس نے سینہ پھیلاتے ہوئے کہا، "بالکل جناب، شاہ جی بہت پہنچے ہوئے عامل تھے۔" میں نے کہا، "اب وہ کہیں اور پہنچ گئے ہیں بلکہ پہنچا دیے گئے ہیں۔" جوری نے افسوس ناک انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا، "میں شاہ جی کی کمی بڑی شدت سے محسوس کر رہا ہوں۔ وہ مجھے اپنے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میں نے کبھی ان کی خدمت میں کمی نہیں آنے دی تھی اور انہوں نے بھی کچھ عطا کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا تھا۔ ایسی عظیم ہستیاں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔" میں نے کہا، "جوری، پیر لوٹے شاہ کی شاگردی میں تم نے اتنا علم تو حاصل کر لیا ہو گا کہ اب ان کے چھوڑے ہوئے آستانے کو آسانی سے چلا سکو۔" اس نے سنبھلتے ہوئے لہجے میں کہا، "پیر صاحب نے مجھے علم اور عمل دونوں کا درس دیا ہے۔ مرشد کی دعا سے میں اس آستانے کو اچھی طرح چلا سکتا ہوں۔ یہ آستانہ ان کا مزار بھی ہو گا اور میری گدی بھی۔ اس گدی پر صرف اور صرف میرا حق ہے کیونکہ شاہ جی کا کوئی عزیز رشتہ دار نہیں اور نہ کوئی شاگرد میرے سوا۔ شاہ جی مجھ پر بہت بھروسہ کرتے تھے اس لیے تو شاداں کے علاج کے لیے انہوں نے مجھے چیچہ وطنی بھیجا تھا ورنہ لڑکی کے والدین کی تو خواہش تھی کہ شاہ جی خود ان کے گھر جائیں مگر مرشد نے صاف انکار کر دیا تھا۔"

انہوں نے فرمایا یا تو لڑکی کو ان کے آستانے پر لے آؤ یا پھر جوری یعنی مجھ سے علاج کروا لو۔ لڑکی کے والدین کو مجبوراً شاہ جی کی بات ماننا پڑی۔ شاہ جی نے مجھے لڑکی کے والدین کے ساتھ چیچہ وطنی روانہ کر دیا۔ میں نے شاہ جی کی لاڈ رکھ لی۔ شاداں بالکل ٹھیک ہو چکی ہے۔ میں نے اس پر عاشق جن کو جلا کر بھسم کر دیا ہے۔ پھر اس نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا، "توبہ توبہ! اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ یہ تو سب شاہ جی کے سکھائے ہوئے علم کا کمال تھا ورنہ جنوں سے ٹکر لینا بہت ہی خطرناک کام ہے۔ یہ خبیث مخلوق کسی سے رعایت نہیں کرتی۔" میں نے کہا، "مجھے پتہ چلا ہے کہ پیر لوٹے شاہ کی موت بھی ایک خبیث جن کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ بڑا عجیب و غریب نام ہے اس کا۔" میں نے سوچنے کی اداکاری کی۔ تو جوری فوراً بولا، "اس خبیث جن کا نام فاطیل ہے۔" میں نے کہا، "اس کا مطلب ہے فاطیل کی کہانی تمہیں بھی معلوم ہے۔" اس نے کہا، "یہ کہانی شاہ جی نے مجھے سنائی تھی۔ ان کا کہنا تھا فاطیل جن ایک قبیلے کا سردار ہے اور بہت ہی ظالم جن ہے۔ اگر شاہ جی اسے قابو کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں یا اس نے حصار میں آنے سے پہلے ہی کوئی انوکھا داؤ مار دیا تو مرشد کی جان بھی جا سکتی ہے اور میرا خیال ہے کہ کوئی ایسا ہی واقعہ پیش آیا ہو گا۔" میں نے کڑی جاری رکھتے ہوئے کہا، "تم نے بتایا ہے کہ جمعرات کی دوپہر کو تم شاداں کے والدین کے ساتھ ہی آستانے سے روانہ ہوئے تھے۔ تم لوگ سیدھے چیچہ وطنی گئے تھے یا کہیں اور سے ہوتے ہوئے وہاں پہنچے تھے؟" جوری نے کہا، "ہم سیدھے چیچہ وطنی ہی گئے تھے۔" میں نے کہا، "میں تمہارے بیان کی تصدیق کے لیے شاداں کے والدین کو تھانے میں بلا سکتا ہوں اس لیے کوئی گڑ بڑ کرنے کی کوشش نہ کرنا۔"

اس نے کہا، "جناب، میں نے آپ سے سچ بولنے کا وعدہ کیا ہے اس لیے کسی گڑ بڑ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا اس سلسلے میں۔ میں بڑی سے بڑی قسم کھانے کو تیار ہوں۔ اگر آپ سے کوئی غلط بیانی کروں یا آپ کو چکر دینے کی کوشش کروں تو فاطیل میری گردن توڑ دے۔ تھانیدار صاحب، آپ جس طرح چاہیں اپنی تسلی کریں۔ شاداں بیچاری تو اپنے ہوش و حواس نہیں تھی البتہ اس کے ماں باپ سے آپ پوچھ سکتے ہیں۔ میں ان دونوں کے ساتھ چیچہ وطنی ان کے گھر گیا تھا۔ پھر تین دن میں نے ان گھر قیام کیا اور مسلسل عمل پڑھتا رہا ہوں۔ اگر میرا دھیان بٹ جاتا یا شاداں سے خیال ہٹ جاتا تو اس پر عاشق جن میری زندگی کا چراغ گل کر دیتا۔ جب تک میں نے اس خبیث جن کو جلا نہیں دیا اس گھر سے قدم بھی باہر نہیں نکالا۔" میں نے پوچھا، "کیا واقعی تم نے کسی جن کو جلایا ہے؟" وہ بولا، "اگر آپ کو یقین نہیں آ رہا تو شاداں کے والدین سے پوچھ لیں۔ میں نے ان کے سامنے ہی اس خبیث جن کو جلایا تھا۔" میں نے کہا، "بات یقین کرنے یا نہ کرنے کی نہیں۔ جنات ایسی مخلوق ہے جس کو اللہ نے آگ سے پیدا فرمایا تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آگ کو آگ سے جلایا؟" اس نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے میری عقل پر ماتم کر رہا ہو۔ وہ مدبرانہ لہجے میں بولا، "بے شک جنات ناری مخلوق ہے۔ اللہ نے ان کو آگ سے تخلیق کیا لیکن خاک کو ناری پر فوقیت بھی دی ہے۔ انسان کو خاک سے بنایا گیا۔ یہ اپنی عقل اور علم کو استعمال کر کے ناری مخلوق کو زیر کر سکتا ہے۔ جس طرح بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے، بالکل اسی طرح بڑی آگ چھوٹی آگ کو فنا کر دیتی ہے۔ یہ کھیل بہت مشکل ہے۔ برسوں کی ریاضت کے بعد اس میں مہارت حاصل ہوتی ہے۔ مرشد کے فضل و کرم سے میں نے عملیات کے شعبے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ ویسے عام لوگوں کے سامنے اس قسم کے کھیل پیش نہیں کیے جاتے کیونکہ عام انسان کی آنکھیں ایسے مناظر کی محمل نہیں ہو سکتیں اس لیے ہمیں پردے سے کام لینا پڑتا ہے۔" جوری نے مجھے متاثر کرنے کے لیے جنات اور عملیات پر ایک الٹی سیدھی تقریر کر ڈالی تھی اور میں یہی ظاہر کر رہا تھا کہ جیسے اس کے بیان سے قائل ہو گیا ہوں۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ میں اس سے حقیقت حال اگلوانا چاہتا تھا۔

میں نے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا، "تم عامل لوگ پردے سے کس طرح کام لیتے ہو؟" وہ بولا، "مجھے یقین تھا کہ آپ یہ سوال ضرور پوچھیں گے۔ پردے سے میری مراد یہ ہے کہ ہم جنات کو عوام کی نظروں سے اوجھل رکھتے ہیں۔ اب شاداں والے کیس کو ہی لے لیں۔ شاداں ایک روز نیم کے درخت تلے بیٹھی اپنے لمبے بال سکھا رہی تھی۔ وہ دوپہر کا وقت تھا اور نیم کے درخت کے اوپر ایک عاشق مزاج جن موجود تھا۔ جب اس جن نے شاداں کو دیکھا تو وہ شاداں کے جوبن اور خوبصورتی پر مر مٹا اور پلک جھپکتے میں اس پر عاشق ہو گیا۔ جب اس جن نے شاداں کو تنگ کرنا شروع کیا تو والدین کو اس کے علاج کی فکر ہوئی اور وہ لوگ ہمارے آستانے پر پہنچ گئے۔ شاہ جنات مرحوم قبلہ لوٹے شاہ کی شہرت بہت دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔" میں نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا، "ایک منٹ ٹہرو۔ یہ بتاؤ، جن تو شاداں کے حسن و جوانی پر عاشق ہو گیا تھا پھر شاداں کو تنگ کیوں کرتا تھا؟ عاشق تو اپنے محبوب کو ایک ذرا تکلیف میں دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں۔ وہ جن کس قسم کا بے غیرت عاشق تھا جو اپنی ہی محبوبہ کو تباہ کر کے خوش ہوتا تھا؟" جوری نے خفگی آمیز نظر سے مجھے دیکھا اور بولا، "آپ انسان عاشقوں کی بات کر رہے ہیں۔ جن عاشقوں کے بارے میں شاید آپ کو کچھ پتہ نہیں۔ یہ عاشق بہت حاسد اور کینہ پرور ہوتے ہیں۔ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ جس پر یہ عاشق ہیں وہ کسی دوسرے انسان سے تعلق رکھے۔ یہ اپنی محبوبہ سے ملنے والوں سے بہت جلتے ہیں۔" میں نے کہا، "پھر تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنی محبوبہ کی بجائے لوگوں کو تنگ کریں جو اس کے تعلق دار ہوتے ہیں۔ اس بیچاری محبوبہ کا کیا قصور؟ وہ مظلوم کیوں پستی ہے؟" جوری نے کہا، "یہ ایسا بھی کرتے ہیں جناب۔ اب دیکھ لیں، شاداں کی وجہ سے اس کے والدین بھی کتنی مصیبت میں گرفتار ہو گئے تھے۔ شاداں کے سب سے قریب اس کے ماں باپ تھے۔ ان بیچاروں نے بڑی پریشانی اٹھائی ہے۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ شاداں شادی شدہ نہیں تھی ورنہ یہ خبیث جن اس کے شوہر کی ایسی کی تسی کر دیتا۔"

میں نے کہا، "اس پردے کا کیا قصہ ہے جو تم عوام کی نگاہوں کے سامنے تان دیتے ہو؟" جوری بولا، "میں اسی طرف آ رہا ہوں۔ آپ کو ساری بات بتاؤں گا۔ میں نے جب شاداں پر عمل کیا اور اس پر عاشق جن کو حاضر کرنے میں کامیاب ہو گیا پردے کی بات یہ ہے کہ وہ جن صرف مجھے نظر آ رہا تھا۔ شاداں کے ماں باپ اسے دیکھنے سے قاصر تھے۔" میں نے کہا، "گویا تم نے ان دونوں کی عقل پر پردہ ڈال دیا تھا۔" اس نے بڑی ہمت سے میرے سخت الفاظ کو برداشت کیا اور وضاحت کرتے ہوئے بولا، "میں نے جن کو حاضر کرنے کے لیے اپنے سامنے ایک تکیہ رکھ لیا تھا۔ جب میرا مخصوص عمل پورا ہوا تو شاداں پر عاشق جن اس تکیے پر آ کر بیٹھ گیا۔ شاداں کے والدین بھی اسی کمرے میں موجود تھے لیکن جن میرے سوا کسی کو بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھر میں نے جن سے سوال جواب کا سلسلہ شروع کیا۔ میں نے اس سے کہا، 'تو شاداں کا پیچھا چھوڑ دے ورنہ میں تجھے جلا کر بھسم کر دوں گا۔' وہ بولا، 'میں اس لڑکی کو پسند کرتا ہوں۔ اسے کسی بھی قیمت پر نہیں چھوڑوں گا۔ اگر تم نے مجھے جلانے کی کوشش کی تو میں تمہاری گردن توڑ دوں گا۔' میں اس جن کی دھمکی میں آنے والا نہیں تھا۔ پھر میرے سخت عمل نے اس کو تکیے پر آ کر بیٹھنے کے لیے مجبور کر دیا۔ میں جانتا تھا کہ وہ میری اجازت کے بغیر وہاں سے ہل بھی نہیں سکتا تھا۔ میں نے زرا سخت انداز میں اس سے کہا، 'میں تم سے آخری مرتبہ کہہ رہا ہوں، اپنی حرکتوں سے باز آ جاؤ اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی قسم کھا کر کہو اب کبھی شاداں کو تنگ نہیں کرو گے۔ تمہارے لیے جان بچانے کا یہ آخری موقع ہے۔' لیکن وہ بہت ہی ڈھیٹ اور سرکش جن ثابت ہو رہا تھا۔ شاید اسے اپنی طاقت پر غرور تھا۔ وہ میری طرف دیکھ کر مسلسل مسکرا رہا تھا۔ مجبوراً مجھے اپنی دھمکی پر عمل کرنا پڑا۔ میں نے اس عاشق نامراد جن کو جلا کر خاکستر کر دیا۔" میں نے پوچھا، "وہ کیسے؟" اس نے بتایا، "میں نے اپنے سامنے رکھے تکیے جس پر وہ جن بیٹھا ہوا تھا اس تکیے کو ماچس دکھا دی۔ اس طرح وہ تکیہ جل کر راکھ ہو گیا اور ساتھ ہی تکیے پر بیٹھا جن بھی فنا ہو گیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ شاداں بھلی چنگی ہو چکی ہے۔ آپ چیچہ وطنی جا کر یا شاداں کے والدین کو یہاں بلا کر میری باتوں کی تصدیق کر سکتے ہیں۔"