مریدنی کا کھیل - آخری حصہ

Sublimegate Urdu Stories

میں نے کہا، "تصدیق تو میں ضرور کروں گا۔ یہ نہ سمجھنا کہ میں آنکھیں بند کر کے تمہاری ان جناتی کہانیوں پر یقین کر لوں گا۔" وہ پر اعتماد لہجے میں بولا، "آپ ضرور تصدیق کریں۔ تجربہ کسی کسوٹی کا محتاج نہیں ہوتا۔ لگتا ہے شاید آپ کا کسی جن سے کبھی واسطہ نہیں پڑا اس لیے بد اعتقادی کی باتیں کر رہے ہیں۔" میں نے کہا، "میں نے جن سے پالا تو پڑ چکا ہے۔ اب آہستہ آہستہ تجربہ بھی ہو ہی جائے گا۔" جوری فوراً بولا، "جناب، آپ کا کون سے جن سے پالا پڑ گیا ہے؟" میں نے کہا، "اس خبیث جن کا نام فاطیل ہے اور یہ پالا میں مار کے رہوں گا۔" اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا، "یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں تھانیدار صاحب؟ فاطیل نے تو مرشد قبلہ لوٹے شاہ کی جان لی ہے۔ وہ بہت خطرناک جن ہے۔ آپ کہاں اس سے ٹکرانے کی کوشش کر رہے ہیں؟" میں نے کہا، "جوری، میں تو بس اتنا جانتا ہوں لوٹے شاہ کو بڑی بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔ مجھے اس کے قاتل کی تلاش ہے۔ میں اس کے قاتل کا نام نہیں جانتا اس لیے میں نے قاتل کا نام فاطیل فرض کر لیا ہے۔ میری ایک بات ذہن میں بٹھا لو جوری: میں اس قاتل کو انسانی قالب میں ہی گرفتار کروں گا چاہے وہ کسی بھی انسان کے روپ میں مل جائے اور وہ انسان تم بھی ہو سکتے ہو۔" پہلی بار اس کی آواز میں کپکپی در آئی۔ وہ بولا، "میں مرشد کو کیوں قتل کروں گا اور میں تو قتل کے وقت جائے وقوعہ سے کئی میل دور چیچہ وطنی میں تھا۔" میں نے کہا، "ہوشیار مجرم اس قسم کی واردات کرتے وقت جائے وقوعہ سے عدم موجودگی کا کامل بندوبست کر لیتے ہیں۔ اور ویسے بھی تمہارے پاس پیر لوٹے شاہ کو قتل کرنے کا بڑا منافع بخش جواز موجود ہے۔"

وہ بگڑے ہوئے لہجے میں بولا، "جناب، کون سا منافع بخش جواز ہے میرے پاس؟ یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟" میں نے کہا، "تم اس آستانے کو بڑے ٹھیک ٹھاک طریقے سے چلانے کی صلاحیت رکھتے ہو اور اس بات کا تم اقرار بھی کر چکے ہو۔ اب تو آستانے کے اندر پیر لوٹے شاہ کے مزار کا اضافہ بھی ہو جائے گا۔ گویا تمہاری تو پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔" وہ بولا، "تھانیدار صاحب، آپ بہت خطرناک باتیں کر رہے ہیں۔ میں تو شاہ جی کو قتل کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ وہ تو میرے باپ کی جگہ تھے۔" میں نے کہا، "یہ کوئی خاص بات نہیں۔ لوگ مال اور جائیداد کی خاطر سگے باپ کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ پیر لوٹے شاہ تمہارا سگا باپ نہیں تھا بلکہ سوتیلا بھی نہیں تھا۔ وہ تو تمہارا مخدوم تھا اور تم اس کے چیلے چانتے اور خدمت گار تھے۔ تم نے دیکھ لیا کہ لوٹے شاہ کے کیا مزے ہیں۔ تم نے سوچا کہ اگر اس کی گدی تمہارے قبضے میں آ جاتی ہے تو تم ساری زندگی عیش میں گزار سکتے ہو۔ تم اچانک خادم سے مخدوم ہو جاتے۔ فاطیل جن کی کہانی تم نے لوٹے شاہ سے سن رکھی تھی۔ اس کہانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تم نے اسے موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد سارا الزام فاطیل کے کھاتے میں لکھ ڈالا۔ جائے وقوعہ کو تم نے ایسی شکل دے دی کہ دیکھنے والے اس قتل کو کسی جن کی کارروائی سمجھیں اور ایسا ہی ہوا۔ لوٹے شاہ کے سب سے بڑے حامی چوہدری فیروز دین نے لاش دیکھتے ہی اعلان کر دیا کہ شاہ کو فاطیل جن نے قتل کیا ہے۔ جوری، تم یہ نہ سمجھنا کہ تمہاری پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں تو راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ دیکھ لینا، میں بہت جلد تمہارا سر کڑاہی میں دے دوں گا۔ ایسی کڑاہی جس کے نیچے جہنم کی آگ دہک رہی ہو گی۔" وہ ہکلاہٹ آمیز لہجے میں بولا، "میں نے کچھ نہیں کیا۔ آپ کو یقیناً کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ آپ چیچہ وطنی جا کر تصدیق کر لیں۔" میں نے دبک کر اسے مزید بولنے سے روک دیا۔ وہ منتظر انداز میں بولا، "میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ تصدیق کے بعد آپ کا شک رفع ہو جائے گا لیکن آپ سے ایک درخواست کروں گا۔"

میں نے کہا، "کیسی درخواست؟" وہ بولا، "آپ کو فاطیل کی کارروائی کا یقین نہیں ہے نا؟" میں نے کہا، "میں فاطیل جیسے تمام فراڈ جنوں اور ان کے عاملوں پر یقین نہیں رکھتا۔ تم بولو کیا کہنا چاہتے ہو؟" اس نے کہا، "جناب، جنوں کا ذکر تو قرآن میں بھی ہے۔" اس نے اپنی جہالت کا آخری ثبوت بھی پیش کر دیا تھا۔ میں نے برہمی سے کہا، "میں قرآن پاک کو دل و جان سے مانتا ہوں اور اس میں موجود تمام تذکیروں پر ایمان رکھتا ہوں۔ تم مجھے یہ بتاؤ تمہارے فاطیل کا ذکر قرآن کی کس آیت یا پارے میں درج ہے؟ اگر تم نے اللہ کی کتاب کا حوالہ دیا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ تم ان فرضی جنوں کو قرآن سے ثابت کرنا چاہتے ہو۔" وہ گھبرا گیا۔ مسکین سی صورت بنا کر بولا، "میرا یہ مطلب نہیں تھا کہ ان جنوں کا ذکر قرآن میں ہے بلکہ میں تو یہ کہنا چاہتا تھا کہ قرآن پاک میں نشانیاں بیان کی گئی ہیں سمجھنے والوں کے لیے۔" اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ لیکن میں اس کی جان چھوڑنے والا نہیں تھا۔ میں نے اس سے کہا، "پھر تمہارا مطلب کیا تھا؟ تم نے مجھ سے یہ کیوں پوچھا کہ مجھے فاطیل کی کارروائی پر یقین ہے یا نہیں؟" وہ بولا، "دراصل بات یہ ہے کہ یہ خبیث فاطیل جن کچھ عرصہ پہلے گاؤں کی ایک حسین و جمیل لڑکی پر عاشق ہو گیا تھا۔ پیر لوٹے شاہ اس لڑکی کا علاج کر رہے تھے۔ اس جن نے شاہ جی کو جان سے مارنے کی دھمکی دے ڈالی تھی۔ آپ کو اگر میری بات کا یقین نہ ہو تو آپ جیواں بی بی سے فاطیل کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔" میں نے کہا، "یعنی تمہارا مطلب ہے ایک اور عاشق جن کی کہانی؟ پہلے یہ بتاؤ تمہاری یہ جیواں بی بی کون ہے اور کہاں رہتی ہے؟" اس نے بتایا کہ جیواں فرزانہ کی بوڑھی ماں ہے اور وہ اسی گاؤں میں رہتی ہے۔ فرزانہ پر فاطیل جن عاشق ہو گیا تھا۔ "شاہ جی فرزانہ کا علاج کر رہے تھے۔ اگر فرزانہ کا علاج مکمل ہو جاتا تو شاہ جی اس مکار جن کو جلا کر راکھ کر دیتے۔"

میں نے پوچھا، "شاہ فرزانہ کا علاج مکمل کیوں نہیں کر سکا؟ اس میں ایسی کون سی رکاوٹ آ گئی تھی؟" وہ بولا، "یہ تو مجھے پتہ نہیں جناب۔ علاج کی آخری حاضری باقی تھی کہ میں چیچہ وطنی چلا گیا تھا۔" میں نے چونک کر پوچھا، "آخری حاضری سے تمہارا کیا مطلب ہے؟" اس نے کہا، "فرزانہ کا علاج چار نوچندہ جمعرات پر محیط تھا۔ چار نوچندہ جمعرات یعنی چار مہینوں میں اسے فاطیل سے نجات مل جانی تھی۔ میرے ہوتے ہوئے تین نوچندہ جمعرات تک تو فرزانہ باقاعدگی کے ساتھ آستانے پر آتی رہی تھی لیکن آخری اور چوتھی جمعرات وہی تھی جب میں شاداں کا جن اتارنے چیچہ وطنی چلا گیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم اس جمعرات کو فرزانہ آستانے پر آئی یا نہیں۔ شاہ صاحب کی موت جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب میں واقع ہوئی تھی۔ تو آپ حقیقت حال کو جاننے کے لیے فرزانہ سے رابطہ کیوں نہیں کرتے؟" اس کے آخری سوال نے مجھے اچھلنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے پوچھا، "کیا فرزانہ رات کے وقت آستانے پر اپنا علاج کروانے آتی تھی؟" جوری نے کہا، "تین نوچندہ جمعرات کو تو عصر اور مغرب کے درمیان وہ آستانے پر آتی تھی لیکن اس آخری حاضری پر اسے مغرب کے بعد آنا تھا۔ تین جمعرات کے عمل سے شاہ جی نے فاطیل کو فرزانہ پر سے اتار دیا تھا اور چوتھی جمعرات کو وہ اس باغی جن کو اپنے قبضے میں کرنے والے تھے تاکہ اس کے بعد وہ جن مخلوق خدا کو تنگ کرنے کے قابل نہ رہے۔ اس موقع پر فرزانہ کا وہاں موجود رہنا ضروری تھا اس لیے شاہ جی نے اسے مغرب کے بعد آستانے پر بلایا تھا۔ لیکن لوٹے شاہ کا قتل یہ ثابت کر رہا ہے کہ اس رات یقیناً کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے۔ شاہ جی فاطیل کو قابو کرنے میں ناکام رہے اور فاطیل اپنا کام یعنی شاہ جی کو مار کر فرار ہو گیا۔" میں نے غصے سے کہا، "پیر لوٹے شاہ اس جن کو اس لیے قابو نہ کر سکا کہ اس کے لوٹے میں کوئی سوراخ موجود ہو گا۔" جوری نے کہا، "اب میرے لیے کیا حکم ہے؟ اب تو آپ مجھے جانے کی اجازت دے دیں۔" میں نے کہا، "تھانے سے جانے کا نام بھی مت لینا جوری۔ میں جب تک تمہاری باتوں کو پرکھ نہ لوں تمہارے بارے میں کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اس وقت تک تم خود کو سرکاری مہمان سمجھو۔"

وہ شکایتی لہجے میں بولا، "اب تو آپ بھی زیادتی کرنے لگے ہیں تھانیدار صاحب جبکہ میں نے آپ کو ایک ایک بات بالکل ٹھیک ٹھیک بتا دی ہے۔ پھر بھی مجھے تھانے میں بند کر رہے ہیں۔ یہ تو انصاف نہ ہوا۔" میں نے اس کو گھورا اور کہا، "اے انصاف کے گھوڑے، تم جج بننے کی کوشش نہ کرو۔ چپ چاپ بیٹھو ورنہ اپنے عملے کے حوالے کر دوں گا۔" اگلی صبح میں جیواں نامی عورت سے ملنے گاؤں روانہ ہو گیا۔ اے ایس آئی کی ڈیوٹی میں نے چیچہ وطنی والے معاملے پر لگا دی۔ میرے لیے اس بات کی تصدیق بہت ضروری تھی کہ وقوعہ کی رات جوری واقعی چیچہ وطنی میں ہی تھا اس لیے اے ایس آئی کو چیچہ وطنی روانہ کر دیا۔ میں نے ایک سینئر کانسٹیبل کو ساتھ لیا اور جیواں کے گھر پہنچ گئے۔ دروازے پر دستک دی۔ دستک کے جواب میں ایک پچاس پچپن سالہ عورت نے دروازہ کھول کر باہر جھانکا اور پوچھا، "کون؟" پھر ہم پر نظر پڑتے ہی وہ چونکی کیونکہ اس وقت ہم باقاعدہ وردی میں تھے۔ میں نے اس کے کون کے جواب میں کہا، "میں اس علاقے کے تھانے کا انچارج ہوں۔" اس نے مرغوب ہوتی ہوئی کہا، "اچھا جی اچھا، خیریت تو ہے آپ یہاں میرے دروازے پر؟" میں نے کہا، "خیریت نہیں ہے۔ میں تم سے کچھ ضروری باتیں کرنے آیا ہوں۔" وہ سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی، "اللہ خیر کرے۔" پھر گلی میں دائیں بائیں نظر دوڑاتے ہوئے اس نے کہا، "آپ اندر آ جائیں۔ دروازے پر کھڑے ہو کر باتیں کرنا مناسب نہیں ہے۔" ہم دونوں جیواں کی پیشکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گھر کے اندر داخل ہو گئے۔ وہ ایک عام سا گھر تھا۔ جیواں نے ہمیں ایک بیٹھک نما کمرے میں بٹھایا اور خاطر مداری کے حوالے سے سرگرمی دکھانے کی کوشش کرنے لگی۔ میں نے اسے سختی سے منع کرتے ہوئے کہا، "کسی تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں تم سے چند باتیں کروں گا اور واپس چلا جاؤں گا۔ مجھے امید ہے کہ تم میرے سوالات کے ٹھیک ٹھیک جواب دو گی۔"

میں نے کہا، "تمہاری بیٹی فرزانہ نظر نہیں آ رہی۔ کیا وہ کہیں گئی ہوئی ہے؟" جیواں نے کہا، "ہاں، وہ اپنے چاچے کے گھر گئی ہے۔" میں نے پوچھا، "کیا اس کے چاچے کا گھر اسی گاؤں میں ہے؟" جیواں نے کہا، "نہیں، میرا دیور سردار علی چک چونتی (چونتیس) میں رہتا ہے۔" چک چونتیس اس گاؤں سے کافی فاصلے پر تھا۔ میں نے جیواں سے پوچھا، "فرزانہ کو اپنے چاچے کے گھر گئے ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا ہے؟" جیواں نے بتایا، "فرزانہ اسی جمعے والے دن گئی ہے۔ سردار علی ہمارے گھر آیا ہوا تھا۔ فرزانہ کچھ دن اپنے چاچے کے گھر رہنے کے لیے اپنے چاچے کے ساتھ چلی گئی ہے۔" فرزانہ کی روانگی نے مجھے چونکنے پر مجبور کر دیا۔ جمعہ وہی دن تھا جب لوٹے شاہ کے قتل کی اطلاع پر اس کے آستانے پر پہنچا تھا۔ جوری کے بیان کے مطابق فرزانہ کو جمعرات کی رات اپنے علاج کے سلسلے میں آخری حاضری بھرنے آستانے پر آنا تھا۔ اب تک کی حاصل شدہ معلومات کے مطابق فرزانہ ہی وہ ہستی تھی جو لوٹے شاہ کی زندگی میں آخری مرتبہ اس سے ملی تھی۔ اس حوالے سے فرزانہ میرے لیے بہت اہمیت رکھتی تھی۔ مجھے سوچ میں ڈوبے دیکھ کر جیواں نے پوچھا، "آپ بار بار فرزانہ کا ذکر کیوں کر رہے ہیں؟ آخر بات کیا ہے؟" میں نے کہا، "بات بہت خطرناک ہے۔ تم مجھے یہ بتاؤ فرزانہ واپس کب آئے گی؟" جیواں نے کہا، "واپس بھی آ جائے گی۔ ابھی تو وہ گئی ہے۔ چند دن رہنے کے بعد ہی واپس آئے گی۔ سردار علی کے گھر اس کا بہت دل لگتا ہے مگر آپ کس قسم کی تفتیش کر رہے ہیں؟" میں نے کہا، "میں پیر لوٹے شاہ کے قتل کی تفتیش کر رہا ہوں۔ اسی سلسلے میں تم سے ملنے آیا ہوں۔" وہ ہراساں نظر آنے لگی۔

اس نے پوچھا، "لیکن میرا یا فرزانہ کا شاہ جی کے قتل سے کیا واسطہ؟" میں نے کہا، "بہت گہرا تعلق اور واسطہ ہے خاص طور پر تمہاری جوان بیٹی فرزانہ تو اس قتل کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وقوعہ کی رات وہ آستانے پر گئی تھی۔" جیواں نے سخت لہجے میں کہا، "یہ جھوٹ ہے۔ کسی نے آپ کو غلط بتایا ہے۔ فرزانہ کا شاہ جی کے قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔" میں نے کہا، "یہ تو نہ کہو جیواں بی بی۔ قتل سے نہ سہی لیکن قاتل سے تمہاری بیٹی کا بہت گہرا تعلق ہے۔" وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولی، "شاہ جی کو تو ایک جن نے قتل کیا ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ سارا گاؤں جانتا ہے۔" میں نے کہا، "تم فاطیل نامی جن کی بات کر رہی ہو۔" جیواں نے کہا، "ہاں ہاں، اسی خبیث نے شاہ جی کو قتل کیا ہے۔" میں نے کہا، "اسی لیے تو میں کہہ رہا ہوں کہ فرزانہ کا قاتل سے بہت گہرا تعلق ہے وہ اس طرح کہ کچھ عرصہ پہلے یہی فاطیل نامی جن تمہاری بیٹی فرزانہ پر عاشق نہیں ہو گیا تھا؟ شاہ کے علاج نے فرزانہ کو ٹھیک کر دیا تو یہ نامراد جن لوٹے شاہ کے پیچھے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟" جیواں نے کہا، "یہ بات تو آپ سولہ آنے ٹھیک کہہ رہے ہیں۔" میں نے کہا، "اگر یہ بات درست ہے تو پھر یہ بات بھی سچ ہے کہ وقوعہ کی رات فرزانہ آستانے پر گئی تھی۔" جیواں نے گردن جھٹکتے ہوئے کہا، "میں یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ فرزانہ وہاں نہیں گئی۔ آخر اسے وہاں جانے کی ضرورت کیا تھی؟" میں نے کہا، "ضرورت تھی علاج کی تکمیل۔" وہ حیرت سے بولی، "لیکن اس کا علاج تو پورا ہو چکا تھا۔" میں نے کہا، "نہیں! ابھی ایک نوچندہ جمعرات کی حاضری باقی تھی۔ یہ وہی جمعرات تھی جب لوٹے شاہ قتل ہوا۔ تم میری اس بات سے انکار نہیں کر سکتی۔"

وہ شدت سے بولی، "میں تو انکار کروں گی کیونکہ فرزانہ علاج تین نوچندہ جمعرات کی حاضری سے مکمل ہو گیا تھا۔ چوتھی جمعرات کو آستانے پر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔" ایک لمحے کے لیے مجھے محسوس ہوا کہ کہیں جوری نے مجھے غلط راہ پر ڈالنے کے لیے تو چوتھی جمعرات کی کہانی نہیں سنائی تھی۔ عین ممکن تھا کہ وہ اپنی طرف سے میری توجہ ہٹانا چاہتا ہو۔ میں نے جیواں سے کہا، "تین نوچندہ جمعرات کے عمل سے شاہ نے تمہاری بیٹی کا جن اتار دیا تھا اور چوتھی جمعرات کو شاہ فاطیل نامی جن کو قابو کرنے کا کوئی عمل کرنا چاہتا تھا اور اس نے شرط لگا دی تھی کہ اس موقع پر فرزانہ کو آستانے پر موجود ہونا چاہیے۔" جیواں روتے ہوئے کہنے لگی، "آپ کو کسی نے غلط بتایا ہے۔ تین نوچندہ جمعرات کے بعد شاہ جی نے فرزانہ کو بالکل تندرست قرار دے دیا تھا۔ چوتھی جمعرات کو انہیں فاطیل کے ساتھ جو کچھ بھی کرنا تھا اس کے لیے فرزانہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔" میں نہیں جانتا تھا کہ اس وقت کسے سچا اور کسے جھوٹا سمجھوں۔ سچی بات تو یہ تھی کہ میں جن کی اس کہانی کو سرے سے ہضم ہی نہیں کر پایا تھا۔ اس قتل کے پیچھے کوئی گہرا راز تھا اور اس راز تک پہنچے بغیر میں قاتل کو بے نقاب نہیں کر سکتا تھا۔ اس راز تک جوری یا فرزانہ ہی میری راہبر کر سکتے تھے۔ جوری تو میرے چنگل میں آ چکا تھا۔ فرزانہ پر ہاتھ ڈالنا باقی تھا۔ میں نے جیواں سے پوچھا، "چک چونتیس میں فرزانہ کا چاچا کیا کام کرتا ہے؟" اس نے کہا، "وہ زمیندار ہے تو زمینداری ہی کرے گا لیکن آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟" میں نے کہا، "میں فرزانہ سے ملنے وہاں جانا چاہتا ہوں تاکہ حقیقت حال سے پردہ اٹھ سکے۔" وہ بولی، "حقیقت وہی ہے جو میں نے آپ کو بتا چکی ہوں۔ فرزانہ وقوعہ کی رات آستانے پر گئی تھی اور نہ ہی شاہ جی کے قتل سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ آپ خامخواہ میری بیٹی کو پریشان نہ کریں۔" پھر ڈرتے ہوئے مجھ سے پوچھا، "ایک بات تو بتائیں تھانیدار صاحب، آپ کو یہ بات کس نے بتائی ہے کہ میری بیٹی وقوعہ کی رات کو شاہ جی کے آستانے پر گئی تھی؟" اس کا سوال نہایت ہی معقول تھا۔ میں نے جواب دینے میں کوئی عار محسوس نہ کیا اور کہا، "مجھے یہ بات پیر لوٹے شاہ کے خاص خادم اور مستقبل کے لوٹا نواز جوری نے بتائی ہے۔"

جیواں نے کہا، "یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جوری ایسی بات کیوں کرے گا؟ وہ تو شاہ جی کے بہت قریب تھا۔ اسے بھی یہ بات معلوم تھی کہ فرزانہ کا علاج ختم ہو چکا تھا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا۔ میں خود جوری سے جا کر پوچھوں گی کہ اس نے ایسا کیوں کہا۔" میں نے کہا، "ضرور پوچھنا جوری سے لیکن اس کے لیے تمہیں میرے تھانے کی حوالات تک جانا پڑے گا۔ جنات کو قبضے میں کرنے والا لوٹے شاہ کا چیلا اس وقت قانون کے قبضے میں ہے۔" جیواں نے پوچھا، "تھانیدار صاحب، آپ نے اسے کس جرم میں پکڑا ہے؟" میں نے کہا، "اس پر قاتل ہونے کا شبہ ہے اور اس نے تفتیش کے دوران انکشاف کیا ہے کہ چوتھی جمعرات کو مغرب کے بعد فرزانہ کی آخری حاضری تھی۔ فرزانہ کی موجودگی میں لوٹے شاہ نے فاطیل کو کسی عمل کے ذریعے اپنے قبضے میں کرنا تھا۔" جیواں نے کہا، "تین جمعرات تک میں خود فرزانہ کے ساتھ آستانے پر جاتی رہی ہوں۔ اگر شاہ جی نے چوتھی جمعرات کو بلایا ہوتا تو یہ بات مجھ سے چھپی نہیں رہ سکتی تھی۔ فرزانہ اکیلی مجھے بتائے بغیر تو آستانے پر نہیں جا سکتی تھی۔" میں نے کڑی جاری رکھتے ہوئے پوچھا، "تم تین نوچندہ جمعرات تک فرزانہ کے ساتھ آستانے پر جاتی رہی ہو؟ مجھے یہ بتاؤ لوٹے شاہ تمہاری بیٹی کا جن اتارنے کے لیے کس قسم کا عمل کیا کرتا تھا؟" وہ بولی، "مجھے عمل دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ شاہ جی کا حکم تھا کہ میں فرزانہ کو عصر کے وقت آستانے پر پہنچا دوں پھر وہ فرزانہ کو اپنے ساتھ خاص حجرے میں لے جاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ فاطیل کو اگر کسی کی موجودگی میں کیلا گیا تو وہ آس پاس نظر آنے والے لوگوں کی جان بھی لے سکتا ہے۔" پیر لوٹے شاہ کی عیاریاں ایک ایک کر کے کھل رہی تھیں۔ میں نے جیواں سے پوچھا، "تم اس عمل کے دوران یقیناً آستانے کے حال نما کمرے میں بیٹھی رہتی ہو گی جہاں وہ دن بھر اپنے پاس آنے والوں سے ملاقات کرتا تھا؟"

جیواں نے کہا، "مجھے آستانے پر رکنے کی اجازت نہیں تھی۔ شاہ جی کے حکم کے مطابق میں فرزانہ کو عصر کے وقت آستانے پر چھوڑ کر گھر واپس آ جاتی تھی اور مغرب کے بعد اسے لینے جاتی تھی۔ عصر سے مغرب تک فرزانہ شاہ جی کے حجرے میں ہوتی تھی۔" میں نے پوچھا، "یہ بتاؤ تمہارے خیال میں لوٹے شاہ کے عمل سے تمہاری بیٹی صحت یاب ہو رہی تھی؟" جیواں نے اثبات میں گردن ہلائی اور کہا، "پہلے ہی عمل سے نمایاں فرق نظر آنے لگا تھا۔ پھر دوسری نوچندہ جمعرات کو وہ بالکل ٹھیک ہو گئی تھی۔ اسی روز جب مغرب کے بعد میں فرزانہ کو لینے گئی تو شاہ جی نے کہا، 'ہم نے تمہاری بیٹی کا جن اتار دیا ہے اور اسے ضروری ہدایت بھی دی ہے۔ اگر یہ ہمارے مشوروں پر عمل کرتی رہی تو یہ خبیث جن اس کی طرف دوبارہ رخ نہیں کرے گا۔ ویسے اگلی نوچندہ جمعرات کو ہم فاطیل کو اپنے قبضے میں لے لیں گے پھر نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری!'" لوٹے شاہ کے داؤ پھیر مجھ پر عیاں ہونے لگے تھے۔ میں نے جیواں سے پوچھا، "لوٹے شاہ نے تمہاری بیٹی کو کس قسم کی ہدایات دی تھیں؟" وہ بے چارگی سے بولی، "یہ تو میں نے ان سے نہیں پوچھا تھا لیکن ظاہر ہے کچھ پڑھنے کو ہی بتایا ہو گا۔ میں نے دیکھا تھا اس دن کے بعد فرزانہ زیر لب کوئی وظیفہ پڑھتی رہتی تھی۔ میں تو یہی سمجھی کہ شاہ جی کی ہدایات پر عمل کر رہی ہے۔" اس گفتگو کے دوران میں نے بخوبی اندازہ لگا لیا تھا کہ جیواں چوتھی نوچندہ جمعرات کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ اگر جوری کا بیان درست تھا تو پھر اس معمے پر فرزانہ ہی روشنی ڈال سکتی تھی۔ میں نے پہلی فرصت میں فرزانہ کے پاس جانے کا ارادہ کیا۔ میں نے جیواں کو تھوڑا مزید کڑنے کا سوچا تاکہ اس گتھی کو سلجھانے کے لیے کوئی مناسب سراغ ہاتھ آ سکے۔ میں نے پوچھا، "جیواں، تم نے فرزانہ کے علاج کی جو کہانی سنائی ہے اس سے تو لگتا ہے لوٹے شاہ کوئی بہت ہی اونچی چیز تھا ورنہ جنات سے ٹکر لینا کوئی خالہ جی کا واڑہ نہیں۔" جیواں نے کہا، "واقعی وہ بہت کرنی والے تھے۔"

میں نے پوچھا، "آخر تمہاری بیٹی کو بیماری کیا تھی؟" جیواں نے وہی رٹا رٹایا جواب دیا، "فرزانہ پر ایک جن عاشق ہو گیا تھا۔" میں نے جیواں کو گھسنے کا سلسلہ جاری رکھا اور کہا، "میں نے تو سنا ہے کہ یہ جن جب کسی پر عاشق ہو جاتے ہیں تو اس کا بہت خیال رکھتے ہیں۔" پھر میں نے جیواں کو اک خود ساختہ قصہ سناتے ہوئے کہا، "اللہ بخشے، میری دادی بہت خوبصورت ہوا کرتی تھیں۔ میری دادی پر ایک جن عاشق ہو گیا تھا۔ اس جن کا نام شاید کاشو تھا۔ کاشو دادی جان کے بہت مزے کروایا کرتا تھا۔ دادی جان کو کھانے پینے کا بہت شوق تھا چنانچہ دادی کے شوق کو پورا کرنے کے لیے کاشو پتہ نہیں کہاں کہاں سے کھانے پینے کی چیزیں اٹھا اٹھا کر ہمارے گھر لاتا رہتا تھا۔ ہمارا گھر مختلف مٹھائیوں اور پھلوں سے بھرا رہتا تھا۔ ابا جان بتایا کرتے تھے کہ بعض تحفے تو ایسے ہوتے تھے جو کسی اور ہی دنیا کے ہوتے تھے اور پھل ایسے لذیذ ہوتے کہ پہلے نہ کسی نے دیکھے اور نہ ہی چکھے تھے۔" جیواں نے ہاتھ نچواتے ہوئے کہا، "یہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ فاطیل تو میری بیٹی کو بہت تنگ کرتا تھا۔ آپ کی دادی پر عاشق ہونے والا جن کوئی شریف النفس ہو گا۔ یہ فاطیل تو خبیثوں کا سردار تھا۔" میں نے پوچھا، "یہ فاطیل تمہاری بیٹی کو کس طرح تنگ کرتا تھا؟" جیواں نے کہا، "فاطیل جب فرزانہ کے پاس آتا تھا تو فرزانہ کو دورہ پڑ جاتا تھا۔ اسے اپنا ہوش نہ رہتا، گردن اکڑ جاتی، ہاتھوں اور پاؤں کی حالت بگڑ جاتی اور منہ سے جھاگ جھری ہو جاتی!" یہ ساری علامتیں مرگی کے مرض کی ہیں۔ جیواں نے مزید بتایا کہ اس کیفیت میں فرزانہ بہت جنونی ہو جاتی، چیزیں اٹھا اٹھا کر پھنکنا شروع کر دیتی۔ جو بھی اسے روکنے کی کوشش کرتا وہ اسے بے دریغ کوٹ کر رکھ دیتی۔ حتیٰ کہ وہ اپنے آپ کو بھی نوچنے کھسوٹنے لگتی۔ اب یہ کیس ہسٹیریا کے دائرے میں داخل ہو رہا تھا۔ جیواں نے کہا، "ایک مرتبہ تو فرزانہ نے میری بھابھی کو اتنی زور سے دھکا دیا کہ وہ بیچاری دیوار سے جا ٹکرائی اور اس کا سر پھٹ گیا۔ اس روز کے بعد وہ ہمارے گھر نہیں آئی حالانکہ اسے بڑا ارمان تھا کہ اپنے بیٹے طفیل کی شادی فرزانہ سے کرے گی۔ فرزانہ کے دوروں نے طفیل کو اس قدر خوفزدہ کیا کہ اس نے فرزانہ سے شادی کا خیال دل سے نکال دیا۔ ایسی آسیب زدہ لڑکی سے بھلا کون شادی کی ہمت کر سکتا ہے وہ بھی کسی خبیث جن کی محبوبہ سے!" فرزانہ کے رشتے کے حوالے سے جیواں نے روتے روتے بہت اہم باتیں اگل دی تھیں۔

میں بڑی سنجیدگی سے جیواں کی بھابھی اور اس کے بیٹے کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس وقت میرے دماغ میں بہت سے سوالات چکرا رہے تھے اور میں فوری طور پر کسی بھی نتیجے پر پہنچنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ چنانچہ میں دوبارہ جیواں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ میں نے پوچھا، "فرزانہ کے اس دورے کو کس طرح کنٹرول کیا جاتا تھا؟" جیواں نے کہا، "شاہ جی نے ایسے موقعے کے لیے ایک خاص قسم کا شربت دے رکھا تھا۔ ہم کسی طرح کوشش کر کے وہ شربت تھوڑا سا اس کے حلق میں انڈیل دیتے۔ شربت پینے کے تھوڑی دیر بعد وہ ٹھیک ہو جاتی تھی۔" میں نے پوچھا، "یہ دورہ اسے کتنے عرصہ بعد پڑتا تھا؟" جیواں نے کہا، "ہفتے دس دن میں ایک مرتبہ۔ پھر شاہ جی کے علاج سے اسے فائدہ ہونے لگا اور یہ وقفہ بڑھتے بڑھتے ایک ماہ تک پہنچ گیا۔ تیسری نوچندہ جمعرات کے بعد فرزانہ کو دورہ نہیں پڑا!" شاہ جی نے کہا تھا، "اب یہ لڑکی اس خبیث جن کے اثرات سے پاک ہو گئی ہے۔ آج میں نے جو عمل کیا ہے اس کا نتیجہ صبح ہونے سے پہلے ظاہر ہو گا۔ تم اپنی آنکھوں سے ثبوت دیکھ سکو گی کہ فاطیل چلا گیا ہے۔" میں نے پوچھا، "تو کیا تم نے دوسری صبح وہ ثبوت دیکھا تھا؟ یقیناً جن تو تم کو نظر نہیں آیا ہو گا۔ پھر وہ کس قسم کا ثبوت تھا؟" جیواں نے کہا، "شاہ جی نے فاطیل کے جانے کی ایک مخصوص نشانی بتائی تھی۔ تیسری نوچندہ جمعرات کے بعد جمعہ کی صبح جب میں سو کر اٹھی تو میرے گھر کے صحن میں شاہ جی کی بتائی ہوئی نشانی موجود تھی۔" میں نے اس سادہ لوح عورت کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے پوچھا، "اور وہ نشانی کیا تھی؟" جیواں نے انکشاف انگیز لہجے میں کہا، "فاطیل کے قدموں کے نشان صحن میں موجود تھے۔ ہمارے کمرے سے لے کر بیرونی دروازے تک بڑے بڑے قدموں کے نشان بنے ہوئے تھے جو یقیناً فاطیل جن کے ہی پاؤں ہو سکتے تھے۔ میں نے سن رکھا ہے اور شاہ جی نے بھی بتایا تھا کہ جن کسی قسم کا لباس نہیں پہنتے۔ صرف ایک لنگوٹ میں رہتے ہیں تاکہ ستر پوشی ہو سکے۔ وہ اپنے جسم پر پہلوانوں کی طرح ہر وقت تیل مل کر رکھتے ہیں۔ فاطیل کے قدموں کے نشان بھی اسی طرف اشارہ کرتے تھے۔ وہ بہت چکنے نشان تھے۔" اس احمقانہ انکشاف کے بعد میرا دھیان خود بخود جوری کی طرف چلا گیا۔ وہ ڈیل ڈول میں کسی جن کی طرح ہی تھا۔ لوٹے شاہ نے جیواں جیسی سادہ لوح عورت کو الو بنانے کے لیے جوری سے یہ کام لے سکتا تھا۔ اگر وہ اپنے پاؤں پر گھی یا تیل مل کر جیواں کے گھر کے صحن میں سے گزر جاتا تو لوٹے شاہ کے ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ اب میں اس کھیل کو بڑی وضاحت کے ساتھ سمجھ گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں جیواں کے گھر سے اٹھ کر تھانے آ گیا۔

اسی شام اے ایس آئی چیچہ وطنی سے واپس آ گیا اور اس نے مجھے جو رپورٹ دی اس کے مطابق جوری اپنے بیان میں سچا نظر آنے لگا۔ یہ بات صاف ہو گئی کہ جوری نے اپنے پیر و مرشد لوٹے شاہ کو قتل نہیں کیا۔ اس روز اول و آخر شب وہ چیچہ وطنی میں شاداں کے گھر پر موجود رہا تھا۔ شاداں کے والدین نے شاداں کے جن اور جوری کے عملیات کی تصدیق کی تھی۔ میں نے جوری کو اپنے کمرے میں بلایا۔ اسے یہ بات پتہ چل چکی تھی کہ اے ایس آئی چیچہ وطنی سے کیا رپورٹ لایا ہے اس وجہ سے وہ خاصا بااعتماد اور مطمئن نظر آتا تھا۔ میں نے لوٹے شاہ کے قتل کے متعلق اس سے کوئی بات نہ کی۔ میں نے اپنے سامنے کھڑے مستقبل کے عامل کامل پیر خالص شاہ کو مخاطب کیا، "جوری، تم نے لوٹے شاہ کے فاطیلی کھیل میں بڑا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ زرا یہ تو بتاؤ تم نے اپنے پاؤں پر تیل ملا تھا یا گھی؟" وہ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بولا، "یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں جناب! شاید آپ کا اشارہ قدموں کے ان نشانات کی طرف ہے جو فاطیل نے جیواں کے صحن میں ڈالے تھے۔" "شاید یا غالباً نہیں!" میں نے اس کو گھور کر کہا، "میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ لوٹے شاہ کے جناتی ڈرامے کا آخری سین تمہارے کردار کا حصہ ہے۔ وہ نشانات تمہارے قدموں کے سوا کسی اور کے نہیں ہو سکتے۔" وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ میں نے اس کی زبان کھولنے کے لیے اسے ایک جلاد صفت کانسٹیبل کے حوالے کر دیا۔ پانچ منٹ بعد اس کی زبان کھل گئی۔ اس نے اس بات کا اقرار کر لیا کہ لوٹے شاہ المعروف شاہ جنات کے کہنے پر اس نے فاطیل کے قدموں والا ڈرامہ رچایا تھا۔ سخت سردیوں کی رات میں لوگ اپنے لحافوں میں دبکے پڑے تھے۔ فرزانہ اور اس کی ماں بھی کمرے سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ چنانچہ آدھی رات کے بعد جوری نے اپنے پاؤں پر گھی کی اچھی خاصی مقدار مل کر وہ اداکاری دکھائی تھی۔ جیواں کے گھر کے کچے صحن میں اس کے جناتی پاؤں کے چکنے نشانات ثبت ہو گئے جنہیں بعد میں جیواں نے فاطیل نامی جن کے قدموں کے نشانات تسلیم کر لیا۔ جیواں پیر لوٹے شاہ کی عقیدت میں اندھی ہو چکی تھی اس لیے اس نے اپنے پیر و مرشد کی پیشن گوئی کو دل و جان سے تسلیم کر لیا تھا۔ میں نے جوری کو دوبارہ حوالات کی طرف روانہ کر دیا۔ ابھی اس سے بہت سے حساب کرنا باقی تھے۔

اگلے روز میں پھر کانسٹیبل کو لے کر اس مہم پر روانہ ہو گیا۔ ہم جیواں کے گاؤں پہنچے۔ ارادہ یہی تھا کہ معلوم کیا جائے کہ اس کی بیٹی فرزانہ چک چونتیس سے لوٹی ہے یا نہیں! پیر لوٹے شاہ کے قتل کے معاملات کو فرزانہ کی مدد اور تعاون کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چک چونتیس جانے سے پہلے فرزانہ کے گھر جھانک لینا ضروری تھا۔ جیواں کے گھر سے پتہ چلا کہ فرزانہ ابھی تک اپنے چاچے سردار علی کے گھر ہی ہے۔ ابھی ہم گاؤں سے باہر نکلے ہی تھے کہ سامنے سے چوہدری فیروز دین آتا نظر آیا۔ اس کے ساتھ اس کے دو خدمت گار بھی تھے۔ آمنا سامنا ہونے پر ہماری علیک سلیک ہوئی۔ رسمی باتوں کے بعد چوہدری نے پوچھا، "تھانیدار صاحب، کیا آپ شاہ جی کے قاتل کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئے؟" میں نے کہا، "اگر میں نے یہ کارنامہ سر انجام دے لیا ہوتا تو یقیناً آپ اس سے بے خبر نہ رہتے۔" چوہدری نے کہا، "آپ خامخواہ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ شاہ جی کو فاطیل نے قتل کیا ہے۔ آپ اسے تو گرفتار نہیں کر سکتے نا! البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اسی کوشش میں آپ کسی بے گناہ کو قربانی کا بکرا بنا دیں کیونکہ کوئی نہ کوئی کارروائی ڈالنا بھی تو ضروری ہے۔" چوہدری کے اس طنز پر میں سلگ اٹھا۔ میں تپے ہوئے لہجے میں کہا، "چوہدری صاحب، دیکھ لینا میں بہت جلد لوٹے شاہ کے قاتل کو منظر عام پر لے آؤں گا اور اس سلسلے میں میں کامیابی کے بہت قریب ہوں انشاءاللہ۔ چند دن میں آپ کو خوشخبری سن لیں گے۔" چوہدری نے کہا، "مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ نے شاہ جی کے خادم جوری کو تھانے میں بند کر رکھا ہے۔ کچھ خدا کا خوف کریں۔ ایسی بابرکت ہستیوں کے ساتھ یہ سلوک آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔" میں نے کہا، "میں اپنا نفع نقصان بخوبی سمجھتا ہوں۔ جوری کتنا بابرکت اور پہنچا ہوا ہے یہ راز بھی کھل چکا ہے۔ میں نے اسے خواہ مخواہ ہی بند نہیں کر رکھا۔" پھر ہم چوہدری کو چھوڑ کر چک چونتیس کی طرف روانہ ہو گئے۔

چک چونتیس پہنچ کر زمیندار سردار علی کا گھر تلاش کرنے میں ہمیں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سردار علی چک چونتیس کا ایک معروف شخص تھا۔ سردار علی سے سلام دعا کے بعد میں نے فرزانہ کو طلب کر لیا۔ سردار علی ہماری آمد سے کافی الجھ گیا تھا لیکن ظاہر ہے قانون کی مخالفت اس کے بس کی بات نہیں تھی اس لیے تعاون پر مجبور ہو گیا۔ فرزانہ کی عمر اٹھارہ اور بیس کے درمیان رہی ہو گی۔ وہ ایک صحت مند اور جوانی سے بھرپور لڑکی تھی۔ میں نے گھما پھرا کر اس سے درجنوں سوالات کیے جن میں فاطیل، چوتھی نوچندہ جمعرات، مغرب کے بعد آستانے پر جانا، فاطیل کے قدموں کے نشانات اور پیر لوٹے شاہ کا قتل سب کچھ شامل تھا۔ وہ بہت آئیں بائیں شائیں کرتی رہی مگر میری تھانیدار انہ تفتیش کے سامنے وہ زیادہ دیر ٹھہر نہ سکی اور اس نے چوتھی نوچندہ جمعرات کو لوٹے شاہ کے آستانے پر جانے کا اقرار کر لیا۔ یہ اقرار گویا اس کا اقبال جرم تھا۔ لوٹے شاہ کو فرزانہ نے ہی قتل کیا تھا۔ جرم کے اقرار کے بعد فرزانہ نے جو کہانی سنائی، میں یہاں اس کا خلاصہ پیش کر رہا ہوں۔ جیواں اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھائی کے بیٹے طفیل سے کرنا چاہتی تھی مگر طفیل اپنے کرتوتوں کے طفیل فرزانہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ فرزانہ اپنے چاچے کے بیٹے کو پسند کرتی تھی۔ اس نے طفیل کے رشتے کے خلاف کمزور سا احتجاج کیا مگر بات نہ بن سکی۔ مایوسی اور دل شکستگی اسے پیر لوٹے شاہ کے آستانے پر لے گئی۔ اس نے سن رکھا تھا کہ لوٹے شاہ بہت پہنچا ہوا عامل ہے۔ پہلی مرتبہ وہ اکیلی ہی شاہ جنات کے پاس گئی تھی۔ لوٹے شاہ نے اس کا مسئلہ سنا اور کہا، "تم بے فکر ہو جاؤ۔ ہمارے عمل سے تمہاری بگڑی بن جائے گی لیکن اس کے لیے تمہیں ہمارے مشوروں پر عمل کرنا ہو گا۔" فرزانہ نے لوٹے شاہ کی بات ماننے کا وعدہ کیا اور پوچھا کہ اس عمل سے وہ اپنے من کی مراد پا لے گی؟ لوٹے شاہ نے اسے یقین دلایا کہ طفیل اس سے شادی کرنے سے خود ہی منع کر دے گا اور بعد میں اس کی شادی اس کی من پسند جگہ پر ہو جائے گی۔ سب سے پہلے لوٹے شاہ نے فرزانہ کو ایک ناٹک کھیلنے کی ہدایت کی۔ لوٹے شاہ کی ہدایت کے مطابق اس نے گھر پہنچ کر ایک ہنگامہ کر دیا۔ وہ اس طرح ظاہر کر رہی تھی جیسے اسے دورہ پڑ گیا ہو۔

گاؤں میں ایک ہی سیانا تھا۔ جیواں اسی سیانے یعنی لوٹے شاہ کے پاس پہنچی اور اسے فرزانہ کی حالت کے بارے میں بتایا۔ قبلہ لوٹے شاہ نے حساب کتاب جوڑ کر اعلان کیا لڑکی پر ایک خبیث جن عاشق ہو گیا ہے۔ پھر لوٹے شاہ علاج کے نام پر فرزانہ کو ایک نشہ آور محلول پلانے لگا۔ رفتہ رفتہ فرزانہ اس محلول کی عادی ہو گئی۔ اسی جنونی کیفیت کے دوران فرزانہ نے طفیل کی ماں کو بھی دھکا دے کر دیوار سے ٹکرا دیا جس کے نتیجے میں وہ لوگ اس رشتے سے دستبردار ہو گئے۔ فرزانہ بہت خوش تھی کہ لوٹے شاہ کی چال کامیاب ہو گئی تھی۔ یہاں پر لوٹے شاہ نے ایک اور چال چلی۔ اس نے فرزانہ سے کہا اس جن کا ڈرامہ کرتے کرتے فاطیل نامی ایک جن واقعی میں فرزانہ پر عاشق ہو چکا ہے۔ اب اگر فرزانہ نے کسی سے شادی کرنے کی کوشش کی تو وہ خبیث جن اس کے ہونے والے شوہر کو ختم کر دے گا۔ نشہ آور محلول پی پی کر دیوانگی کا ناٹک کر کر کے فرزانہ ذہنی طور پر خاصی کمزور ہو چکی تھی اور پھر وہ لوٹے شاہ کو ایک طاقتور عامل بھی تسلیم کر چکی تھی اس لیے اس کی بات پر یقین کرنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا، "اب اس فاطیل نامی جن سے کس طرح نجات ملے گی؟" لوٹے شاہ نے کہا، "ہم دلائیں گے نجات! لیکن اس کے لیے اس کو چار نوچندہ جمعرات کو ایک خاص کام کے لیے اس کے آستانے پر آنا ہو گا مگر وہ چوتھی جمعرات کے بارے میں اپنی ماں یا کسی بھی اور شخص کو کچھ نہیں بتائے گی۔ لوٹے شاہ بھی اس کی ماں سے صرف تین نوچندہ جمعرات کا ذکر کرے گا۔" فرزانہ نے پوچھا، "چوتھی جمعرات کو کیا ہو گا؟" لوٹے شاہ نے اپنی مکاری کو انتہا پر پہنچتے ہوئے کہا، "چوتھی جمعرات وہ فاطیل کو اپنے قبضے میں لے لے گا۔ اس موقع پر فرزانہ کا وہاں موجود ہونا ضروری ہے۔" فرزانہ لوٹے شاہ سے ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہو گئی۔ تین جمعرات اسے اپنی ماں کے ساتھ آستانے پر آنا تھا اور چوتھی جمعرات کو کسی کے علم میں لائے بغیر چپ چپ آستانے پر پہنچنا تھا۔

پہلی دو جمعرات تک عام سا عمل ہوتا رہا مگر تیسری جمعرات کو فرزانہ کے ساتھ کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ بعد میں وہ ان کے بارے میں سوچ کر بکھر گئی۔ اس روز لوٹے شاہ نے عمل سے پہلے اسے اچھی خاصی مقدار میں نشہ آور محلول پلا دیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ہوش و حواس سے بے گانہ ہو گئی۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے فرش پر بنائے گئے حصار میں خود کو برہنہ پڑے ہوئے پایا۔ اس کے نزدیک ہی لوٹے شاہ اپنی آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔ ہوش میں آنے کے بعد فرزانہ کو یہ اندازہ لگانے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہ لگی کہ دوران غفلت اپنی کون سی متاع عزیز لٹا بیٹھی ہے۔ اس نے لوٹے شاہ سے اس سلسلے میں پوچھا تو اس نے مختلف سمجھ میں نہ آنے والی باتوں سے اسے یقین دلا دیا کہ یہ جو کچھ بھی ہوا ہے اس میں لوٹے شاہ کا کوئی دوش نہیں۔ یہ سب کچھ بہت ضروری تھا اس کے بغیر فاطیل جن کو قابو کرنا ممکن نہ تھا۔ اس رات وہ اپنی ماں کے ساتھ گھر واپس آ تو گئی تھی لیکن ساری رات وہ اس شرمناک واقعے کے بارے میں سوچتی رہی۔ اس وقت اس کا ذہن ہر قسم کے آسیبی اثرات سے آزاد ہو چکا تھا۔ شاید وہ اپنی زندگی کا قیمتی سرمایہ لٹنے کے بعد ہوش میں آ گئی تھی۔ ایک حتمی فیصلہ کرنے کے بعد اس نے ہونٹوں کو سی لیا۔ اپنی ماں سمیت کسی سے بھی اس سانحے کے بارے میں کچھ نہ کہا۔ اس نے نہایت ہی صبر و تحمل کے ساتھ اگلی نوچندہ جمعرات کا انتظار کیا اور خاموشی کے ساتھ لوٹے شاہ کے آستانے پر پہنچ گئی۔ لوٹے شاہ کافی خوش تھا۔ اس نے اسی خوشی میں بہت ساری شراب اپنے حلق میں انڈیل لی۔ وہ کافی ترنگ میں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی گزشتہ نوچندہ جمعرات والے واقعے کے بعد بھی اگر وہ اس کے بلانے پر تن تنہا اس کی خلوت گاہ تک چلی آئی تھی تو لوٹے شاہ کے نزدیک اس کا ایک ہی مطلب ہو سکتا تھا کہ فرزانہ کو اس کھیل پر کوئی اعتراض نہیں تھا مگر فرزانہ تو اس رات اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے وہاں پہنچی تھی۔ جن کو کیلنے کے لیے حصار باندھا گیا۔ 
جب پیر لوٹے شاہ نے عمل شروع کیا تو فرزانہ نے لوٹے شاہ پر قابو حاصل کرنے کے لیے اس کی چھوٹی موٹی اور ابتدائی فرماںوں کو مانتی چلی گئی۔ انہی فرماںوں میں بے لباس ہونا بھی شامل تھا۔ لوٹے شاہ اپنی کامیابی پر اتنا خوش تھا کہ ترنگ میں آ کر بہت زیادہ نشہ چڑھا گیا۔ اس سلسلے میں فرزانہ نے بھی اس کی مدد کی البتہ خود اس نے ایک بوند بھی حلق سے نہ اتاری اور جب اس نے دیکھا کہ لوٹے شاہ اعصابی اور مدافعاتی طور پر کمزور ہو چکا ہے تو اس نے اچانک اس پر قابو پا کر حصار کے کنارے پڑا ہوا خنجر اٹھا کر اس کے سینے میں اتار دیا۔