ماموں کی پہلی بیوی وفات پا چکی تھی، لیکن ایک بیٹا اپنی نشانی چھوڑ گئی تھی، جو اب پاگل تھا اور گھر بھر کے لیے ایک مسئلہ بنا ہوا تھا۔ وہ سب کو تنگ کرتا تھا، اسی لیے اسے الگ تھلگ ایک کمرے میں بند رکھا جاتا تھا، مگر قید سے بھی کچھ فرق نہیں پڑتا تھا۔ ایک پاگل کے کام کاج اور اس کی خدمت کرنا مزید دشوار اور تکلیف دہ مسئلہ تھا۔ انور میں نہ تو کسی کو دلچسپی تھی، نہ ہی گھر کا کوئی فرد حتیٰ کہ نوکر بھی اس سے کتراتے تھے۔ جب میں ماموں کے گھر آئی تو یہ دشوار اور خطرناک کام میرے سپرد کر دیے گئے۔ بچپن سے ماں کی محرومی کے سبب مجھے انور سے ہمدردی ہو گئی تھی۔ اس کی ماں نہ تھی اور ماں کے پیار کی پیاس نے شاید اسے پاگل کر دیا تھا۔ میرے تو ماں اور باپ دونوں ہی نہیں تھے۔
انور آدھا یتیم تھا، اور میں پوری! اللہ تعالیٰ نے پھر بھی مجھ پر کرم کیا۔ ابتدا میں نانی کے پیار نے مجھے متوازن رکھا، ورنہ ممتا کی پیاس نہ جانے میرے ساتھ کیا سلوک کرتی۔ شاید انور کی طرح میری شخصیت بھی بکھر جاتی۔ تبھی میں انور کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھی۔ ممانی تو خوف کے مارے اس کے قریب بھی نہ پھٹکتیں۔ معلوم نہیں ابتدا میں ان کا سلوک کیسا تھا، کیونکہ ان دنوں میں نانی کے پاس رہتی تھی اور نا سمجھ تھی۔جب میں ماموں کے گھر آئی، تو دیکھا کہ انور اور ممانی کے درمیان نفرت کی ایک واضح دیوار حائل ہے۔ انور بھی ایک وحشی بن چکا تھا۔ میں اس کا بہت خیال رکھتی، اس کے باوجود وہ مجھے مار دیتا، میرے بال نوچتا، کبھی برتن دے مارتا۔ میں روتی، بلبلا اٹھتی، مگر ایک پاگل کو کیا خبر کہ اس کے عمل سے کسی کو کتنی تکلیف پہنچتی ہے۔ میں روتی تھی، لیکن اس بھرے گھر میں میرے دکھ بانٹنے والا کوئی نہ تھا۔ اس کی بے معنی حرکتوں کو برداشت کرنا میرے بس کی بات نہ تھی، مگر میں یہ سوچ کر اس کے کام کیے جاتی تھی کہ اگر نہ کیے تو شاید یہ لوگ مجھے یہاں رہنے بھی نہ دیں گے۔
ممانی نے مخالفت شروع کر دی تو میرا کوئی ٹھکانہ نہ ہوگا۔ پہلے تو گھر والے انور کے پاگل پن سے بہت پریشان رہتے تھے، مگر جب میں آگئی تو جیسے ان پر سے ایک بوجھ ہٹ گیا۔ اب ان کو ایک پاگل کی دیکھ بھال کی فکر نہیں رہی۔ ممانی تو سکون میں آ گئیں۔ کسی نے میری تعلیم کی طرف توجہ نہ دی، مگر میں نے خود کوشش کر کے گھر میں سات جماعتیں پڑھ لیں۔ اس کے بعد بغیر استاد کے پڑھنا مشکل تھا، سو تعلیم کی آرزو دل میں دفن کر دی۔اب میں باشعور ہو چکی تھی۔ انور کی بے بسی اور تنہائی کا احساس شدت سے ہوتا تھا۔ سچ کہوں تو مجھے اس پاگل سے انسیت ہو گئی تھی۔ لگتا تھا کہ وہ پاگل نہیں، حالات کی ستم ظریفی نے اسے اس حال تک پہنچا دیا ہے۔ ماموں بھی اس سے لاپروا ہو چکے تھے، اور صرف میں ہی تھی جو اس کا خیال رکھتی تھی۔اب اس کی دیکھ بھال میرے لیے گراں نہ رہی۔ اگر وہ کچھ بھی کر دیتا، تو بھی میں کسی سے شکایت نہ کرتی۔ بلکہ اب میں سنجیدگی سے سوچنے لگی تھی کہ اس کا کیا بنے گا۔
دن رات اس کی فکر میں رہنے سے میری صحت بھی متاثر ہونے لگی۔ آخر ایک دن ماموں جان کے پوچھنے پر میں رودی اور کہا:کچھ بھی ہو، انور آپ کا بیٹا ہے۔ آپ نے کبھی اس کا باقاعدہ علاج کیوں نہیں کروایا؟ اسے کسی دماغی اسپتال میں کیوں داخل نہیں کرایا؟ ہو سکتا ہے وہ ٹھیک ہو جائے۔ میرے کہنے کا ماموں پر کافی اثر ہوا۔ انہوں نے انور کو اسپتال میں داخل کرا دیا۔ کئی سال مسلسل علاج ہوا، جس سے اس پر اچھا اثر پڑا۔ اب اسے دورے کبھی کبھار پڑتے تھے، زیادہ تر نارمل رہتا تھا۔ وہ زیادہ بات نہیں کرتا، خاموش رہتا، لیکن مجھ سے باتیں کر لیتا تھا۔ اپنی تکلیفیں اور پریشانیاں بھی صرف مجھے بتاتا تھا۔ سارے گھر میں وہ صرف مجھے ہی اپنا ہمدرد سمجھتا تھا۔ اب اس نے مجھ پر چیزیں پھینکنا اور مارنا چھوڑ دیا تھا۔ خود کہتا کہ نہانا چاہتا ہوں، صاف کپڑے چاہییں، استری کر کے دو۔ اپنی صفائی کا خیال رکھنے لگا تھا۔ گھر والوں کو تنگ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ یہ معمولی تبدیلی میرے لیے بہت بڑی خوشی تھی۔ میں اب بھی اس کی خدمت کرتی تھی بلکہ پہلے سے زیادہ۔ وہ اکثر کہتا، تم ہی ہو جو میرا خیال رکھتی ہو، تم تھک جاتی ہو گی۔ آؤ میرے پاس بیٹھو، باتیں کرو، کوئی کھیل کھیلتے ہیں۔ میں ہر بات پر آمنا و صدقنا کہتی، وہ خوش ہو جاتا۔
اس کو مجھ پر مکمل اعتماد ہو گیا تھا۔اکثر کہتا، مجھے اکیلے کمرے میں نہ چھوڑا کرو، ڈر لگتا ہے۔ وہ اب ایسی باتیں کرتا جن میں مفہوم ہوتا، باتیں سلجھی ہوئی ہوتیں۔ کبھی تو ایسا لگتا جیسے وہ معصوم بچہ ہے۔ مجھے اس پر پیار آتا۔ اس کے لیے دل میں صرف ہمدردی نہیں، محبت بھی پیدا ہونے لگی تھی۔ میری محنت رنگ لائی۔ وہ بہتر ہونے لگا۔ سب خوش تھے، حتیٰ کہ ممانی بھی۔ میری خوشی کی تو انتہا نہ رہی۔ میرے کہنے پر ماموں نے اسے تصویروں والی آسان کتابیں لا دیں۔ وہ دلچسپی سے انہیں دیکھتا، میں اسے تھوڑا بہت پڑھانے لگی۔ ایک سال میں وہ اخبار پڑھنے لگا۔ ماموں بہت خوش تھے۔ مجھے اپنے گھر کے لیے باعثِ رحمت سمجھتے تھے۔ایک دن میں کپڑے استری کر رہی تھی، انور بولا: حمیرہ! تم میرا اتنا خیال رکھتی ہو، وعدہ کرو کبھی مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گی؟اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ مجھے خود نہیں معلوم تھا کہ کب تک یہاں رہنا ہے۔ ایک لڑکی کی شادی ہو کر گھر سے جانا ہی ہوتی ہے۔ یہ تو ماموں جان ہی جانتے تھے کہ انہوں نے میرے لیے کیا سوچ رکھا ہے۔
ان ہی دنوں میرے لیے ایک بہت اچھا رشتہ آیا۔ پڑوسن نے جب میرے صبر اور ایثار کو دیکھا، تو اپنے بیٹے کے لیے میرا رشتہ مانگ لیا۔ لڑکا پڑھا لکھا، خوبصورت، صاحبِ جائیداد اور اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ ایسا رشتہ تو ہر ماں باپ کی خواہش ہوتا ہے۔ ماموں چاہتے تھے کہ یہ رشتہ قبول کر لیا جائے، مگر ممانی چاہتی تھیں کہ میری شادی انور سے ہو جائے تاکہ انور کی ذمہ داری کا مستقل حل نکل آئے۔ وہ سمجھتی تھیں اگر میں چلی گئی تو انور کی خدمت انہیں کرنی پڑے گی، جو انہیں کسی صورت قبول نہ تھا۔انہوں نے ماموں سے کہا: حمیرہ اچھی لڑکی ہے، ہماری بہو بننے کے لائق ہے، انور بھی اس سے مانوس ہے۔ یہ رشتہ ٹھکرا دو۔ اگر حمیرہ چلی گئی، تو انور پھر بیمار ہو جائے گا۔بماموں شش و پنج میں تھے۔ ان کے دل میں میرے لیے وہی محبت تھی جو ایک باپ کو بیٹی سے ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپنے بیٹے کی خاطر بھانجی کی زندگی قربان کرنا خود غرضی ہو گی۔ اگر انور دوبارہ بیمار ہو گیا، تو حمیرہ کی زندگی برباد ہو جائے گی۔ اتفاق سے میں نے ان کی باتیں سن لیں۔ مجھے ماموں پر بے حد پیار آیا۔ میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ اگر قربانی دینی پڑی، تو دوں گی۔ کم از کم ماموں نے مجھے اپنی بیٹی سمجھا تو ہے۔
ادھر ممانی کھلم کھلا کہنے لگیں کہ حمیرہ کی شادی انور سے ہونی چاہیے، کیونکہ وہ اس سے مانوس ہے۔ میرے جانے سے انور کو صدمہ ہو سکتا ہے۔ یہ ایک انسانی زندگی کا سوال تھا۔ ممکن تھا کہ میرے بغیر انور واقعی پھر پاگل پن میں مبتلا ہو جاتا۔ میں اسے دکھ دینا نہیں چاہتی تھی۔اب سبھی شش و پنج میں مبتلا تھے۔ بالآخر ماموں نے فیصلہ کیا کہ مجھ سے رائے لی جائے - یہ بات انور نے کچھ اتنے دکھ سے کہی کہ میں اپنے اندر لرز کر رہ گئی۔ وہ تو بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا اور مجھے کہہ رہا تھا کہ حمیرہ، دیکھو تم کو خدا کا واسطہ، مجھ کو یہاں اکیلا چھوڑ کر کہیں مت چلی جانا۔ اس کی باتوں سے میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ میں نے کہا کہ انور، تم ہی بتاؤ، کیا میں ماموں کو انکار کر دوں؟ وہ مجھے کتنی بری لڑکی سمجھیں گے۔ میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ وہ کہنے لگا کہ کیا تم مجھے اب بھی پاگل سمجھتی ہو؟ میں بالکل بھی پاگل نہیں ہوں، میں اب پوری طرح ٹھیک ہوں اور میں تمہاری وجہ سے ٹھیک ہوا ہوں۔ تم نے ہی محبت کا احساس دلا کر مجھے اندھیروں سے نکالا ہے۔ کیا پھر سے تم مجھے اندھیروں میں دھکیل کر چلی جاؤ گی؟ میری ماں کے مرنے کے بعد سب نے مجھ سے بہت برا سلوک کیا، کسی نے مجھ کو پیار نہیں دیا۔ تم نے مجھ کو ایسا پیار دیا کہ میں ماں کے دکھ اور دنیا کے ستم کو بھول گیا۔ تم ہی میری زندگی کی روشنی ہو۔ سوتیلی ماں نے تو مجھے اسکول سے نکال دیا تھا۔
اسے بچوں کی طرح روتا دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ اس وقت وہ کتنا کمزور اور اعتماد سے تہی دامن لگ رہا تھا۔ وہ خود اعتمادی جس سے انور بچپن میں محروم ہو گیا تھا، کتنی محنت سے میں نے اس میں پیدا کی تھی، وہ اب پھر اس سے محروم ہو رہا تھا۔ تبھی میں نے اپنی زندگی کا ایک بہت بڑا فیصلہ کر لیا، یہ کہ میں انور کو چھوڑ کر کبھی بھی کہیں نہیں جاؤں گی۔ کئی لوگ کہتے تھے کہ میرا یہ فیصلہ غلط ہے، حتی کہ ماموں جان بھی۔ مگر میں نے صحیح سمجھ کر انور سے شادی کرنے کی ہامی بھر لی۔ انور اس فیصلے سے بہت خوش تھا۔ جب اسے دولہا بنایا جا رہا تھا، وہ بچوں کی طرح کھلکھلا رہا تھا اور لڑکیوں کی طرح شرما رہا تھا۔ لوگ حیران تھے کہ میں نے ایک ایسے شخص سے شادی کرنا قبول کیا تھا جو عرصہ تک پاگل کہلاتا رہا تھا، مگر مجھ کو کسی کی پروا نہ تھی۔ نہ میں نے مستقبل کے بارے میں سوچا، اور نہ اولاد کے بارے میں۔ میں نے بس انور کے بارے میں سوچا۔ یہی سوچا کہ وہ خوش رہے اور جتنا نارمل ہو گیا ہے، ویسا ہی رہے۔ میں جانتی تھی کہ وہ پیدائشی پاگل نہیں تھا۔ اس کو حالات نے پاگل بنا دیا تھا کیونکہ وہ بہت زیادہ حساس تھا۔ اس کو گھر والوں نے ہر قدم پر نظر انداز کیا تو وہ تنہائی کا شکار ہو گیا۔
بہت بچپن سے سوتیلی ماں کے ہاتھوں میں چلا گیا، جس نے اس کی معصوم شخصیت کو کچل کر رکھ دیا۔مجھے یقین تھا میرا پیار پا کر وہ بالکل نارمل اور ٹھیک ہو جائے گا۔ میرا خیال درست نکلا۔ ہم نے پانچ سال شادی کے بعد اکٹھے گزارے اور سکھ و چین کی زندگی جیتے رہے۔ کسی دن بھی اس نے اپنے کسی عمل سے ظاہر نہ کیا کہ وہ پاگل ہے یا پاگل رہا تھا۔ میرے ساتھ اس کا دوستانہ اور پیار بھرا سلوک رہتا تھا۔ میں بھی خوش تھی کہ خدا نے میری قربانی کو رائیگاں جانے نہیں دیا تھا۔ لوگوں کو ہم پر انگلی اٹھانے کا موقع بھی نہیں ملا۔اگر قلق تھا تو بس یہ کہ میں ماں نہ بن سکی، مگر اس میں کسی کا قصور نہ تھا کیونکہ اس دنیا میں بہت سے شادی شدہ جوڑے تندرست ہونے کے باوجود اولاد کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے، جس کو چاہے یہ نعمت عطا کرے۔ بعض چیزوں پر انسان کا بس نہیں ہوتا۔ پانچ برس ہم نے چین و سکون سے بسر کیے۔ اچانک ایک روز میری زندگی میں بھونچال آ گیا۔
سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ مدت بعد میرے خالہ زاد شہزاد کا ہمارے گھر میں گھڑی بھر کو آ جانا میری ازدواجی زندگی میں طوفان برپا کر دے گا۔ شہزاد میرے لیے سگے بھائیوں جیسا تھا۔ وہ مدت بعد بیرون ملک سے ماموں ممانی سے ملنے چلا آیا۔ وہ بہت خوش مزاج تھا۔ اس کی عادت بننے ہنسانے کی تھی۔ باتوں باتوں میں نہ جانے کیا کہہ گیا کہ مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ بس میرا ہنس دینا ہی غضب ہو گیا۔ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ایسا ہو جائے گا۔ مدت بعد انور کو پھر سے پاگل پن کا دورہ پڑ گیا۔ اس نے توڑ پھوڑ شروع کر دی، چیزوں کو اٹھا کر ہر کسی کو مارنا شروع کر دیا، چلانے اور دھاڑنے لگا۔ حتی کہ ماموں ممانی نے بڑی مشکل سے اس کو قابو کر کے ایک کمرے میں بند کر دیا۔ مجھے تو گمان بھی نہ تھا کہ پانچ برس پر سکون رہنے کے بعد اچانک ایک روز اس کا پرانا مرض اس طرح عود کر آئے گا کہ قابو کرنا مشکل ہو جائے گا۔
انور کو دماغی امراض کے اسپتال لے گئے۔ وہاں اس کو داخل کرا دیا گیا، علاج ہونے لگا، مگر وہ ٹھیک نہ ہوا۔ مرض روز بروز شدت پکڑتا گیا۔ مجھے تو وہ دیکھنا بھی برداشت نہ کرتا تھا۔ اگر پر سکون ہوتا اور میں سامنے آ جاتی یا وہ میری ایک جھلک دیکھ لیتا تو آپے سے باہر ہو جاتا، اس پر شدید دورہ پڑ جاتا۔ تب ڈاکٹروں نے کہا کہ حمیرہ اس کے سامنے نہ آئے، ورنہ یہ اس کو شدید نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ تین سال تک وہ اسپتال میں ہی رہا، کیونکہ گھر میں میں تھی اور مجھ کو دیکھ کر دیواروں سے سر ٹکرانے لگتا، خود کو زخمی کر لیتا۔ ماموں جان نے قانونی کارروائی کے ذریعے طلاق کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد بالآخر میری شادی کرا دی تاکہ میری زندگی مزید برباد نہ ہو۔ میں گھر سے اس لیے بھی رخصت کی گئی کہ وہ اپنے بیٹے کو گھر لانا چاہتے تھے۔قسمت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں۔ میری شادی ہوئی تو کس سے؟ شہزاد سے، جس کا کسی کے تصور میں بھی نہ تھا کہ میری دوسری شادی اس کے ساتھ ہو گی۔
خود میں نے کبھی یہ نہ سوچا تھا، لیکن خدا نے یہی فیصلہ تقدیر کے اوراق پر لکھ رکھا تھا۔ شہزاد سے شادی کے بعد دو بچوں کی ماں بن گئی۔ شہزاد مجھے اپنے ساتھ کینیڈا لے آیا تھا۔ میں تو مکمل طور پر انور کی زندگی سے نکل گئی، لیکن اس کے ذہن سے میری یاد محو نہ ہو سکی۔ انور جب تک زندہ رہا، مجھ کو پکارتا رہا اور یاد کر کے روتا رہا۔ وہ ہر ایک سے یہی کہتا کہ حمیرہ بے وفا تھی، اس نے مجھ سے دغا کی ہے۔ حالانکہ نہ تو میں بے وفا تھی، اور نہ میں نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا۔ یہ تو بس تقدیر کے کھیل ہیں، اور تقدیر جو اٹل ہے، اس کو کون جھٹلا سکتا ہے؟ لوح محفوظ پر خالق کائنات جو لکھ دیتا ہے، اس کو پورا ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا۔