حاسد سہیلی

Sublimegate Urdu Stories

ان دنوں جب میں میٹرک میں پڑھتی تھی، میری واحد دوست نوشین تھی۔ ہم دونوں کے گھر ایک ہی محلے میں واقع تھے، اس لیے ہم اکٹھے اسکول جایا کرتے تھے۔ ہمارے اسکول کے سامنے ہی کچھ بیرکس بنی ہوئی تھیں، جن میں کیڈٹس ٹریننگ لیا کرتے تھے۔ اسکول جاتے ہوئے نوشین اکثر ان بیرکس کی طرف دیکھتی تھی، جہاں سے چاق و چوبند، خوبرو کیڈٹس کبھی ویسے ہی، اور کبھی پریڈ کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔

میرا تعلق ایک خوشحال گھرانے سے تھا، جب کہ میری سہیلی کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے تھا۔ وہ ایک کمرے کے کوارٹر میں اپنے ماں باپ اور چھ بہن بھائیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کے والد بیرکس کے خانساماں تھے، لہٰذا انہیں رہائش، کھانے اور طبی سہولیات میسر تھیں، یوں ان کا گزر بسر بہتر ہو رہا تھا۔

ایک دن جب ہم اسکول جا رہے تھے تو کیڈٹس کی پریڈ ختم ہو چکی تھی، اور وہ اپنے رہائشی یونٹس کی طرف جا رہے تھے۔ انہی میں گلریز خان بھی تھا، جو نہایت خوبرو، لمبے قد اور سرخ و سفید رنگت والا نوجوان تھا۔ نوشین کے والد کی ملازمت کے باعث وہ نوشین کو جانتا تھا، کیونکہ اس کا کھانا انہی کے والد پکاتے تھے۔ میری سہیلی کو یہ کیڈٹ بہت پسند تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ گلریز سے بات کرے، مگر وہ ہمیشہ بے نیازی سے ہمارے پاس سے گزر جاتا تھا۔

ایک دن وہ اچانک ہمارے راستے میں آ گیا، تو نوشین کے کہنے پر میں نے اسے سلام کیا۔ وہ چونک کر میری طرف دیکھنے لگا، تو میں نے فوراً کہا، “معاف کیجیے گا، جان پہچان کے لیے یہ بہت ضروری تھا۔ ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ نوشین نے ایک رقعہ آگے بڑھا دیا، جو وہ پہلے سے لکھ کر لائی تھی۔ اگلے روز پھر وہی نوجوان ہمیں راستے میں ملا۔ اس بار اس نے بھی ایک رقعہ آگے بڑھایا۔ نوشین نے اسے لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا، مگر اس نے وہ پرچہ مجھے تھما دیا اور آگے بڑھ گیا۔ میں نہیں جانتی کہ اس حرکت پر نوشین کے دل پر کیا گزری، مگر راستے بھر وہ خاموش رہی۔ کلاس میں آتے ہی اس کا موڈ بگڑ گیا اور اس کا رویہ میرے ساتھ نہایت درشت ہو گیا۔ میں سمجھ گئی کہ وہ گلریز کو پسند کرتی ہے۔ چھٹی کے وقت جب ہم نے وہ رقعہ کھولا تو اس میں لکھا تھا: میں آپ کا نام نہیں جانتا، مگر نام جاننے اور دوستی کے لیے یہ بہت ضروری تھا، تبھی رقعہ لکھنا مناسب سمجھا۔ اور ہاں، میرا نام گلریز خان ہے۔ ساتھ ہی اس نے اپنا فون نمبر بھی لکھا تھا۔

چھٹی کے بعد جب ہم اسی راستے سے واپس آئے تو وہ پھر ہمیں نظر آ گیا۔ میں نے اس کی طرف دیکھے بغیر آگے بڑھنا چاہا، مگر وہ ہمارے راستے میں آ گیا اور کہنے لگا: آپ نے جواب نہیں دیا۔ بوکھلاہٹ میں میں صرف اتنا کہہ پائی، فون پر جواب دوں گی۔ اس نے پوچھا، کس وقت؟ گھبراہٹ میں، اسے ٹالنے کے لیے کہہ دیا، شام کے وقت۔ میں نے یہ تو کہہ دیا، مگر نوشین میرے پیچھے پڑ گئی کہ فون کرو۔ جب اس نے بہت مجبور کیا تو خود ہی نمبر ملا کر فون میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ فون گلریز خان نے ہی اٹھایا۔ کہنے لگا: آپ ضرور فون کریں گی، مجھے یقین تھا۔

پھر اس نے کہا کہ نوشین کے بغیر مجھ سے ملے۔ بیرکس کے قریب ہی ایک چلڈرن پارک تھا، جہاں ہم روز شام کو ملنے لگے۔ نوشین بھی اکثر ساتھ ہوتی، اور کبھی میں بہانہ بنا کر تنہا کسی اور وقت پارک چلی جاتی، تاکہ وہ ساتھ نہ ہو۔ یوں ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ اس کی ٹریننگ مکمل ہو گئی۔ گلریز کا خیال تھا کہ کسی دوسرے شہر میں پوسٹنگ سے پہلے وہ میرے والدین سے رشتے کی بات کرے گا۔ ادھر میرے والدین میری شادی کی فکر میں مبتلا ہو گئے۔ کچھ رشتے آئے، مگر وہ مناسب نہ تھے۔ گلریز کا مستقبل روشن اور شاندار تھا۔ میرے والدین چاہتے تھے کہ میری جلد از جلد شادی ہو جائے، کیونکہ ابو جان ہائی بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ ایک دن اچانک انہیں دل کا دورہ پڑا، اور انہیں علاج کے لیے ایک دوسرے شہر لے جانا پڑا۔ ہم سب اس قدر جلدی میں نکلے کہ میں گلریز کو اطلاع بھی نہ دے سکی۔ ایک ماہ تک ابو اسپتال میں زیر علاج رہے، اور مکمل صحت یابی کے بعد ہم واپس اپنے شہر آ گئے۔ واپسی پر میں نے فوراً گلریز کو فون کیا، مگر وہ وہاں موجود نہ تھا۔ جس شخص نے فون اٹھایا، اس نے بتایا کہ گلریز کی پوسٹنگ واہ کینٹ ہو گئی ہے۔ میں نے بہت انتظار کیا، مگر نہ اس نے فون کیا اور نہ ہی کوئی خط لکھا۔ انہی دنوں نوشین کی شادی ہو گئی، اور وہ کھاریاں سے راولپنڈی چلی گئی۔ میں اکیلی رہ گئی۔
اب دل کا حال کس سے کہتی؟ اس کے سوا میری اور کوئی دوست نہ تھی۔ ابو نے میری شادی کرنا چاہی، مگر میں نے انکار کر دیا، کیونکہ مجھے گلریز کا انتظار تھا۔ یوں ہی اس کی یادوں میں دو سال بیت گئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے لیکچررشپ اختیار کر لی، بھائی اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ والد صاحب کا انتقال ہوا، تو والدہ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکیں اور ایک سال بعد وہ بھی خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ پھر یکے بعد دیگرے بھائیوں کی شادیاں ہو گئیں اور میری ٹرانسفر مری ہو گئی، جہاں میں ہوسٹل میں رہنے لگی۔ ماہ و سال جیسے پروں پر سوار ہو کر اڑتے چلے گئے۔ میں جب بھی بیتے دنوں کو یاد کرتی، آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے۔ میں وقت کو مٹھی میں قید کرنا چاہتی، مگر لمحے تو ریت کی طرح سرک کر زندگی کے دامن سے پھسلتے چلے جا رہے تھے۔ یوں دس بارہ سال بیت گئے۔ انہی دنوں ہمارے اسکول نے آرمی کے ایک فنکشن میں شرکت کی۔ وہاں اچانک مجھے گلریز خان نظر آئے۔ اب وہ پہلے جیسے نہ رہے تھے۔ نہ وہ شوخی باقی تھی، نہ ہی کیڈٹوں جیسا کھلنڈرا پن۔ وہ اب ایک سنجیدہ افسر لگ رہے تھے۔ کنپٹیوں پر چاندی چمک رہی تھی۔ جب ان کی نظر مجھ پر پڑی، وہ فوراً ہال سے نکل گئے۔ میں بھی ان کے پیچھے ہو لی، اور راستے میں انہیں جا لیا۔ گلریز خان، تم کہاں چلے گئے تھے؟ میں نے تمہارا بہت انتظار کیا۔ میری بات سن کر وہ ٹھہر گئے، اور بجائے جواب دینے کے، الٹا سوال کیا۔ تمہارا شوہر کیسا ہے؟ میں گنگ ہو کر ان کی طرف دیکھتی رہ گئی۔ میرا شوہر؟ ہاں، تمہارا شوہر۔ مگر آپ سے کس نے کہا کہ میری شادی ہو چکی ہے؟ کہنے لگے، مجھے تمہیں پہلے ہی بتا دینا چاہیے تھا۔ نوشین، تمہاری دوست، وہ مجھ سے ملی تھی۔ اس نے کہا کہ تمہاری شادی ہو چکی ہے، اور تم سوات چلی گئی ہو۔ میں دو ہفتے تک تمہارے گھر آتا رہا، مگر ہمیشہ تالا لگا ہوتا تھا۔ فون کرتا تو کوئی جواب نہیں ملتا تھا۔ تب میں نے یہی سمجھا کہ تمہارے گھر والے گاؤں جا چکے ہیں اور تمہاری شادی کر دی گئی ہے۔
یہ سن کر میں نے سر تھام لیا، اور کہا کہ نوشین نے غلط بیانی کی۔ ہم شدید پریشانی میں مبتلا تھے، ابو کے علاج کے سلسلے میں ایک ماہ کے لیے کراچی چلے گئے تھے، کیونکہ وہاں میرے تایا ڈاکٹر تھے۔ یہ جان کر گلریز حیران رہ گئے کہ میں نے ان کے انتظار میں اب تک شادی نہیں کی۔ انہوں نے بھی بتایا کہ انہوں نے بھی شادی نہیں کی۔ یوں خدا نے ہم دونوں کو ایک بار پھر ملا دیا شاید اسی لیے کہ ہماری محبت سچی تھی۔ آج میں مسز گلریز ہوں اور اپنے گھر میں بہت خوش ہوں۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ خدا نے ہمیں مدتوں بعد ایک کر دیا، لیکن نوشین نے میرے ساتھ کیا خوب سلوک کیا پیٹھ پیچھے چھرا گھونپ دیا، حالانکہ وہ میری گہری سہیلی تھی۔ تقریباً ایک سال قبل اطلاع ملی کہ نوشین سرطان کے مرض میں مبتلا ہو کر چل بسی ہے۔ میں نے اس کے لیے برا کبھی نہیں چاہا، نہ بددعا دی۔ مگر سچ یہی ہے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔

(ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ