سلیم ہمارے پڑوسی کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ میرے بھائی، حاصل خان، کا بچپن کا دوست تھا۔ دونوں نے پانچویں جماعت تک ایک ساتھ تعلیم حاصل کی، پھر حالات نے انہیں جدا کر دیا۔ ہم گاؤں ہی میں رہ گئے، جبکہ سلیم کے والد نے کاروبار کے سلسلے میں کراچی کا رخ کیا۔ یوں سلیم نے بڑے شہر جا کر میرے بھائی کی دوستی کو فراموش کر دیا۔ان دنوں میری عمر تیرہ برس تھی اور میری بہن گل مینہ صرف چار سال کی۔ ہمارے علاقے میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کا رواج تھا، سو میری شادی والد کے ایک رشتہ دار، حیات اللہ، سے طے پا گئی۔ میں چودہ سال کی عمر میں بلوچستان بیاہ دی گئی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ملک کے حالات اس قدر بگڑ گئے کہ میں میکے نہ لوٹ سکی، نہ ہی والدین یا بہن بھائی کی کوئی خبر مل سکی کہ وہ کہاں ہیں اور کیسے ہیں۔وقت تیزی سے گزرتا رہا، اور پلک جھپکتے پانچ سال گزر گئے۔
ایک بار ہمارے وطن آنے والے ایک شخص کے ذریعے میرے بھائی حاصل خان نے بدخشاں پیغام بھیجا کہ کسی بھی صورت پشاور آنے کی کوشش کرو، کیونکہ والدہ شدید بیمار ہیں اور تم سے ملنا چاہتی ہیں۔ میں نے شوہر سے اصرار کیا کہ مجھے پشاور لے چلو، ماں سے ملنا ضروری ہے، زندگی کا کچھ بھروسا نہیں۔حالات سازگار نہ تھے، مگر ہم بڑی مشکل سے کوئٹہ آئے اور وہاں سے پشاور کا سفر کیا۔ والدہ واقعی بہت بیمار تھیں۔ پانچ برس بعد جب میں اُن سے ملی تو وہ محض ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی ہوئی تھیں۔ میرے آنسو تھم نہیں پا رہے تھے۔مجھے یاد ہے، جب ماں کا انتقال ہوا تو حاصل خان قریب ہی میدان میں اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ فٹبال کھیل رہا تھا۔ اُس وقت وہ تقریباً سولہ برس کا تھا۔ ایک بچے نے آ کر اُسے بتایا کہ تمہاری اماں فوت ہو گئی ہیں۔ اس نے بات سنی ان سنی کر دی اور کھیل میں مشغول رہا۔ اُسے بس یہ فکر تھی کہ مخالف ٹیم پر گول کرنا ہے۔ تھوڑی دیر بعد گھر کی طرف سے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ سب بچے کھیل چھوڑ کر ادھر بھاگے، تب حاصل بھی گھر کی طرف آیا۔جب گھر پہنچا، تو مجھے صحن میں روتے دیکھا۔ پڑوس کی عورتیں بھی میرے ساتھ سوگ منا رہی تھیں۔ یہ ماحول دیکھ کر وہ رنجیدہ ہو گیا، مگر وہ ابھی لڑکپن کی عمر میں تھا۔
ماں کے مرنے کا دکھ اتنی شدت سے محسوس نہ کر سکا، کیونکہ وہ طویل عرصے سے بیمار تھیں اور اکثر اسپتال میں رہتی تھیں۔ حاصل کو ہی اُن کے ساتھ اسپتالوں کے چکر لگانے پڑتے تھے۔امی کے انتقال کے بعد میں کچھ عرصہ پاکستان میں رہی، پھر ہم واپس بدخشاں آگئے۔ مگر یہاں جنگ چھڑ چکی تھی، اور حالات بدترین ہو چکے تھے۔ بابا جان بھی اس جنگ کا حصہ بن گئے۔ وہ دراصل مجھے چھوڑنے بدخشاں آئے تھے، مگر اُن کی قسمت میں واپسی نہیں تھی۔ وہ شورش کی نذر ہو گئے۔روانگی سے پہلے وہ پڑوسیوں سے کہہ گئے تھے کہ میرے بچوں کا خیال رکھنا، کیونکہ یہاں میرا کوئی رشتہ دار نہیں۔ چند روز تو لوگوں نے حال احوال لیا، پھر سب اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ وقت گزرتا گیا، اور حاصل خان اور گل مینہ بابا کی واپسی کی راہ تکتے رہے۔ مگر وہ نہ لوٹے، نہ ہی کوئی خط یا اطلاع ملی۔گزر بسر مشکل ہو گئی۔ ایک دن گل مینہ نے بھائی سے کہا کہ لالہ حاصل، تم گھر کے باہر ایک چھوٹا سا کھوکھا لگا لو۔ اگر بچوں کے لیے میٹھی گولیاں یا انڈے بیچو گے تو کچھ نہ کچھ منافع ضرور ہوگا۔ کم از کم ایک وقت کا کھانا تو مل جائے گا۔
حاصل نے ایسا ہی کیا۔ ایک پڑوسی کی مدد سے گھر کے باہر کھوکھا لگا لیا۔ وہ اسکول سے واپس آکر کھوکھے پر بیٹھتا اور رات تک کام کرتا۔ اس طرح اتنا کما لیتا کہ دال روٹی کا گزر ہو جاتا۔ یوں زندگی کی گاڑی دھیرے دھیرے کھچتی رہی۔ان دونوں بہن بھائی کو تقدیر سے شکوہ تھا۔ ماں باپ تو چلے گئے، رشتہ دار بھی کوئی نہ تھا۔ شاید افغانستان میں کہیں رہ گئے ہوں۔ ہمارے والد اخروٹ کے کاروبار کے لیے پشاور آئے تھے، تبھی سے یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یہ انگریزوں کا زمانہ تھا، پاکستان ابھی بنا نہ تھا۔ دادا جان کے ساتھ یہاں مستقل سکونت اختیار کی، ان کی شادی بھی پشاور میں ہوئی، اور ہم سب یہاں پیدا ہوئے۔ اب تو پاکستان ہی ہمارا وطن تھا۔ ہمیں افغانستان کے کسی رشتہ دار کا علم نہ تھا۔اب گل مینہ کی شادی کا مسئلہ درپیش تھا۔ مجھ سے رابطہ ممکن نہ تھا، اور بھائی اس معاملے میں سخت پریشان تھا۔ بابا جان نے گل مینہ کے رشتے کے لیے ایک شخص، زیب جہان، سے بات طے کی تھی۔ زیب جہان کابل سے آ کر تین نسلوں سے پشاور کے ایک گاؤں میں مقیم تھے۔ایک دن زیب جہان ہمارے گھر آیا۔ حاصل خان نے اس کی خوب خاطر کی، کیونکہ اسے اسی دن کا انتظار تھا کہ زیب جہان کا خاندان رشتے کی بات کرے۔ زیب جہان کے بڑے بھائی نے بات چھیڑی اور کہا کہ آپ کے والد صاحب نے میرے والد سے آپ کی بہن کا رشتہ زیب جہان کے لیے طے کیا تھا، اور بات دعائے خیر کے ساتھ طے پائی تھی۔ اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟حاصل نے جواب دیا کہ میرے والد نے جو وعدہ کیا، میں اس پر قائم ہوں، اور اسے نبھاؤں گا۔والد صاحب زیب جہان کو اپنا قریبی عزیز مانتے تھے، اور گل مینہ کے رشتے کی بات ان سے خود کی تھی۔ لہٰذا حاصل خان نے بہن کا رشتہ قبول کیا، کیونکہ یہی لوگ وہ تھے جو کبھی کبھار بھائی بہن کی خیریت پوچھنے آتے تھے، اور اب شادی کا مطالبہ کر رہے تھے۔چونکہ بابا جان کی شہادت کی اطلاع کسی کو نہ تھی، حاصل نے کہا کہ تھوڑا صبر کریں، شاید والد آ جائیں اور اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھ سے رخصت کریں۔دو مرتبہ وہ واپس چلے گئے، مگر اب انتظار ختم ہو چکا تھا۔ انہیں یقین ہو گیا کہ بابا جان اب کبھی نہ آئیں گے۔ افغانستان کے بگڑتے حالات میں وہ کسی محاذ پر شہید ہو چکے تھے، ورنہ کوئی اطلاع ضرور آتی۔
میں تینوں بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ اس کے بعد حاصل خان اور پھر گل مینہ تھی، جس کی عمر پندرہ برس تھی۔ حالات کی سختی کے باعث بھائی نے چھوٹی بہن کی شادی طے کر دی۔ میرے لیے تو سفر کرنا ناممکن تھا اور بہن کی شادی میں شریک ہونا بھی ایک خواب بن کر رہ گیا تھا۔ بھائی کی آمدنی بھی بس اتنی تھی کہ دو وقت کا کھانا نصیب ہو جائے۔ اُسے بڑا قلق تھا کہ بہن کو رخصت کرتے وقت وہ اُسے نہ تو ایک پانی پینے کا گلاس دے سکا، نہ ہی ایک مشکیزہ۔ مگر شکر تھا کہ زیب جہان اور اس کے گھر والوں نے کسی قسم کا مطالبہ نہ کیا۔ یوں گل مینہ ایک جوڑے میں ہی بیاہ کر رخصت کر دی گئی۔اس فرض سے سبکدوش ہونے کے بعد حاصل خان نے سکھ کا سانس لیا، کیونکہ جوان بہن کو اکیلے چھوڑ کر وہ کسی نوکری یا کام پر بھی نہیں جا سکتا تھا۔ جب گل مینہ سسرال چلی گئی تو بھائی کو ذرا آزادی ملی۔ اُس نے پرانا مکان چھوڑ دیا، تعلیم کو خیر باد کہا اور منگھو پیر روڈ پر ایک کارپوریشن میں نوکری اختیار کر لی۔ اسی کارپوریشن میں زیب جہان کا چھوٹا بھائی، محب خان بھی کام کرتا تھا۔ دونوں میں دعا سلام رہتی اور حاصل، اُسی کے ذریعے اپنی بہن کی خیریت معلوم کر لیا کرتا۔ محب خان کے ذریعے وہ کبھی کبھار گل مینہ کو خط بھی بھجوا دیتا۔
کچھ دنوں بعد جب محب خان گاؤں جانے لگا تو حاصل نے اُس کے ہاتھ گل مینہ کے لیے کپڑوں کا ایک جوڑا، سونے کی انگوٹھی اور کچھ روپے بھی بھیجے۔مگر محب خان جب ایک بار گیا، تو پھر لوٹ کر نہ آیا۔ حاصل نے اُس کے دیے ہوئے پتے پر بہن اور بہنوئی کو کئی خط لکھے، مگر کسی خط کا جواب نہ آیا۔ اب وہ پریشان رہنے لگا۔ وقت گزرتا گیا، مگر کوئی خیر خبر نہ ملی۔ فکر نے جب زیادہ ستایا تو حاصل نے چھٹی لی اور پشاور روانہ ہوا۔ اُس پتے پر درج گاؤں پہنچا تو پتا چلا کہ وہ پتہ غلط ہے، یہ لوگ وہاں رہتے ہی نہیں۔خوش قسمتی سے ایک شخص کی زبانی اصل گاؤں کا پتا ملا، اور وہ وہاں پہنچا۔ قصبہ چھوٹا سا تھا، مگر وہ لوگ وہاں بھی نہ ملے۔ البتہ زیب جہان کی خالہ سے ملاقات ہو گئی۔ اُس نے پوچھا: تم کون ہو، جو گل مینہ کا پوچھتے ہو؟میں اس کا بھائی ہوں۔تو بہ تو بہ، ایسی لڑکی کو بہن نہ کہو۔ وہ اگر ٹھیک ہوتی تو گھر سے کیوں نکلتی؟گھر سے چلی گئی؟ مگر کہاں؟ اس کا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ کیا پتا، گھر سے نکلی عورت کہاں جاتی ہے؟آخر ہوا کیا کہ وہ گھر سے نکلی؟بس ایک روز کھانا ٹھیک نہ بنایا، شوہر برہم ہو گیا، غصے میں ہاتھ اٹھا دیا۔ یہ ڈر کے مارے بھاگ کر محلے میں زیب جہان کے ایک رشتے دار کے گھر جا بیٹھی۔ سمجھی کہ شوہر لینے آئے گا، مگر وہ بھی مرد ذات، غصے میں آ کر پیچھے نہ گیا۔ دن گزرتے گئے، گل مینہ خود بھی گھر نہ لوٹی۔
جس کے گھر پناہ لی تھی، وہ رشتے دار زیب جہان کو سمجھانے گئے کہ غصہ ختم کرو، تمہاری بیوی ہے، آ کر لے جاؤ۔کب تک ہم اسے اپنے گھر رکھیں گے؟ مگر زیب جہان کا کہنا تھا کہ وہ دوپہر کو گھر سے نکلی، اگر شام تک لوٹ آتی تو میں معاف کر دیتا۔ مگر وہ تو رات بھر اور کئی دن باہر رہی، اب وہ اس گھر میں واپس رکھنے کے قابل نہیں رہی۔ اگر آئی تو بیچ دوں گا اور اُس رقم سے نیک چلن عورت بیاہ لاؤں گا۔سمجھانے والے ناکام لوٹے۔ سسرال والوں نے بھی کہا کہ ہم اسے زیادہ دیر نہیں رکھ سکتے، اپنے میکے چلی جائے۔ یہ تو تنازعہ ہے، شوہر بدچلن کہہ کر چھوڑ گیا ہے۔ دراصل وہی تمہارے اپنے لوگ ہیں، ہم تو نہیں کہ ان سے دشمنی مول لیں۔یہ تلخ باتیں سن کر گل مینہ وہاں سے بھی چلی گئی۔ کہاں گئی؟ کسی کو علم نہ تھا۔ بستی والوں کے لیے بھی وہ گمشدہ ہو چکی تھی۔بڑھیا کی زبانی یہ سب سن کر حاصل خان دل بوجھل کیے واپس لوٹ آیا۔ نہ گل مینہ ملی، نہ زیب جہان کا کوئی سرا ملا۔ چھٹی ختم ہو گئی، اور وہ بے مراد، بے چین، خالی ہاتھ نوکری پر واپس چلا گیا۔وہ خود کو بدقسمت سمجھنے لگا۔ نہ باپ کی خبر ملی، نہ ماں زندہ رہی۔ ایک بہن شورش میں پھنسی ہوئی تھی، آنے سے قاصر، اور دوسری کھو گئی تھی۔ وہ خود کمزور اور عمر میں چھوٹا تھا، کچھ نہ کر سکتا تھا۔ زندگی کی کشتی مصیبتوں کے بھنور میں ڈول رہی تھی۔ وہ دن رات اندر سے گھلتا گیا۔ گمشدہ بہن کا غم اُس کے سینے کو دیمک کی طرح چاٹنے لگا۔اس نے دل میں ٹھان لیا کہ وہ زیب جہان سے اپنی بہن کا بدلہ ضرور لے گا۔ مگر پہلے اُسے بہن کو تلاش کرنا تھا، یہ جاننا تھا کہ جو کچھ کہا گیا وہ سچ تھا یا جھوٹ؟ یا کوئی اور حادثہ پیش آیا؟
اس کے دل میں ایک ہی سوال تھا: آخر گل مینہ نے، میری بہن ہو کر، شوہر کے گھر سے باہر قدم رکھا ہی کیوں؟ چاہے وہ اسے مار ہی دیتا، اُسے گھر سے نکل کر محلے داروں کے در پر نہیں جانا چاہیے تھا۔ بظاہر زیب جہان ایسا بے رحم انسان نہ لگتا، وہ تو بڑی چاہ سے بیاہ کر لایا تھا۔ مگر گل مینہ بھی ایسی نہ تھی… آخر وہ اس کی بہن تھی۔ تو پھر غلط کون تھا؟دن گزرتے گئے۔ وہ روزی روٹی میں لگا رہا، مگر دل کا غم اندر ہی اندر اسے کھاتا رہا، جیسے ٹی بی کا مرض ہو۔پھر ایک دن کارخانے میں اچانک اُس کی ملاقات اپنے بچپن کے دوست سلیم سے ہو گئی۔ دونوں مل کر بہت خوش ہوئے۔ پرانے دوست کا ملنا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا۔ سلیم وہی پرانا سلیم تھا، بس ایک بات بدلی تھی: شام ڈھلے وہ کہیں چلا جاتا تھا۔ اچھی خاصی تنخواہ لیتا، مگر پندرہ دن میں بٹوہ خالی ہو جاتا۔ ابھی شادی بھی نہ ہوئی تھی، مگر کمائی جانے کہاں جاتی تھی؟کچھ اُسے کریدا تو پتا چلا کہ وہ کسی کی محبت میں گرفتار ہے اور جو کماتا ہے، اسی پر لٹا دیتا ہے۔
حاصل خان کو دوست کے حال پر بہت دکھ ہوا۔ وہ اُسے بار بار سمجھاتا، کہتا کہ راہ راست پر آجاؤ، لیکن وہ نہ مانتا۔ کہتا کہ اگر تم میری معشوقہ کو دیکھو گے تو منع نہیں کرو گے۔ وہ بہت معصوم لڑکی ہے، مگر قدرت کے کھیل بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ اتنی معصوم لڑکی کو کسی نے برائی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ وہ بن پانی مچھلی کی طرح تڑپتی ہے، مگر اس جہنم سے فرار کا کوئی راستہ نہیں۔جب میں اس کے پاس جاتا ہوں تو وہ منتیں کرتی ہے کہ کسی طرح مجھے یہاں سے نکال دو، مجھے رہائی دلاؤ۔ لیکن رہائی کیسے ہو؟ میرے پاس لاکھوں روپے تو ہیں نہیں، اور وہ لوگ اُسے اس طرح رکھتے ہیں جیسے سونے کی چڑیا ہو۔ میں بس اس کے درد میں شریک ہونے جاتا ہوں۔ اپنی تھوڑی سی تنخواہ میں سے چند روپے اپنے لیے رکھتا ہوں، باقی اس کی نگرانی کرنے والی عورت کو دے کر دو چار گھڑی اس سے بات کر لیتا ہوں۔ میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ میرے آنے سے اس کے دل کو کچھ سکون ملتا ہے۔یوں تو وہ بکاؤ مال ہے، کیونکہ اسے خریدا گیا ہے۔ لیکن میرے لیے وہ کسی قیمت کی نہیں۔ میں صرف ملاقات کی رقم دیتا ہوں، اس سے کوئی اور غرض نہیں۔
میری پوری تنخواہ تو ان لوگوں کے ایک دن کے خرچ کے برابر بھی نہیں۔حاصل بھائی سمجھ گیا کہ اس کے دوست کو اس لڑکی کا ایسا روگ لگ چکا ہے کہ وہ دین و دنیا سے بیگانہ ہو چکا ہے۔ بمشکل ڈیوٹی دیتا، پھر جا کر چارپائی پر گر پڑتا۔ دونوں اب اکٹھے رہتے تھے۔ سلیم نے حاصل کو اپنے ساتھ رکھ لیا کہ ایک سے دو بھلے۔ لیکن حاصل کا چین و سکون غارت ہو گیا تھا۔ سلیم کو اس لڑکی کے سوا کسی بات کا ہوش نہ تھا۔ ہر وقت اُس ہی کا ذکر، اُس ہی کے گیت، اُس ہی کے قصے۔آخر ایک دن حاصل نے تنگ آ کر کہا کہ اب تو تم مجھے وہ لڑکی دکھا ہی دو جس نے تمہیں ماں باپ تک بھلا دیے ہیں۔ آخر کون ہے وہ؟ ایسا کون سا خزانہ ہے جس نے تمہیں اس قدر پاگل کر رکھا ہے؟سلیم بولا، تم دیکھو گے تو تمہیں بھی ہمدردی ہو جائے گی۔ مجھے یقین ہے وہ کسی شریف گھرانے سے ہے، بس بدقسمتی نے اُسے اس گندگی میں دھکیل دیا ہے۔حاصل نے جواب دیا، لاکھ شریف ہوگی، مگر اب اس پر بکاؤ مال کا ٹھپہ لگ چکا ہے۔ اب وہ کسی شریف کی بیوی بننے کے لائق نہیں رہی۔پہلی تاریخ کو سلیم کی تنخواہ ملی تو دونوں شوقِ دیدار لیے اس بازار جا پہنچے جہاں وہ لڑکی رہتی تھی۔ کمرے میں انتظار کرتے رہے۔ دروازہ کھلا، اور جیسے ہی وہ لڑکی اندر آئی، حاصل کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ وہ تو گل مینہ تھی… اس کی کھوئی ہوئی بہن!وہ پتھر کا بت بن گیا۔
اس کے اندر جیسے آسمانی بجلی گر گئی ہو۔ آنکھوں میں خون اتر آیا۔ وہ بمشکل اپنی جگہ سے اٹھا اور اتنا زور دار تھپڑ گل مینہ کے غازے سے سجے گال پر جڑا کہ کمرہ لرز گیا۔ اگر سلیم درمیان میں نہ آتا تو شاید اسی وقت گل مینہ کا گلا گھونٹ دیتا۔گل مینہ کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ اُس کی نگرانی کرنے والی عورت دو تین تنومند غنڈوں کو لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔ حاصل کو گھیرا، اس کی خوب درگت بنائی اور دھکے دے کر باہر نکال دیا۔ جاتے جاتے کہا، اگر دوبارہ یہاں آئے تو جان سے مار ڈالیں گے۔مگر حاصل کب ہار ماننے والا تھا۔ گاؤں گیا، اپنا پرانا مکان بیچ ڈالا، رقم سلیم کو دے دی اور کہا، جا، جس نے گل کو خریدا ہے، اس سے معاملہ طے کر، گل کو واپس لا۔سلیم نے وہ رقم جا کر اُس عورت کے حوالے کی۔ وہ بولی، رقم تو کم ہے، لیکن لڑکی بھی میرے کام کی نہیں۔ ہر وقت روتی دھوتی رہتی ہے، گاہکوں کا دل اُچاٹ کر دیتی ہے۔ کسی کا دل خوش کرنا آتا ہی نہیں۔ مجھے سودا منظور ہے۔ اسے لے جاؤ اور چاہو تو نکاح کر لو۔ اچھا ہے، تم گناہ گار ہو کر بار بار یہاں نہیں آؤ گے۔سلیم نے رقم دی اور گل مینہ کو وہاں سے نکالا، مگر حاصل کے سامنے نہ لایا۔ وہ جانتا تھا کہ حاصل اسے گزند پہنچا سکتا ہے۔ سو اُس نے گل مینہ سے نکاح کیا اور اُسے ایک علیحدہ گھر میں رکھا۔
بعد میں حاصل سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے تمہیں نکاح میں شریک اس لیے نہیں کیا کہ کہیں تم غصے میں آ کر اسے کچھ کر نہ دو۔ اب وہ میری بیوی ہے، اگر تم نے اسے نقصان پہنچایا تو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ تمہیں سچائی سے آگاہ کر دوں کہ وہ یہاں تک کیسے پہنچی۔حاصل نے کہا، سچ بتاؤ، کیا ہوا تھا۔سلیم نے بتایا کہ جب زیب جہان کے رشتے داروں نے دیکھا کہ معاملہ بگڑ گیا ہے تو انہوں نے گل مینہ کو اپنے گھر سے نکال دیا۔ وہ روتی ہوئی لاری اڈے پہنچی، جہاں ایک اجنبی عورت اور مرد نے اُسے باتوں میں لگا کر احوال پوچھا۔ سادہ دل لڑکی نے سب کہہ سنایا۔ اُنہوں نے کہا، ہم تمہیں گھر پہنچا دیں گے۔ ٹکٹ دلوایا، مگر اسے کراچی لے آئے۔ اور وہاں پرانا گھر چھوڑا جا چکا تھا۔ نئی رہائش کا اسے علم نہ تھا۔یہ لوگ پہلے ہی اسے اپنے جال میں پھنسانے کا منصوبہ بنا چکے تھے۔ اسے ایک اڈے پر لے گئے، جہاں اُسے ایک اور عورت کو بیچ دیا۔ وہی عورت بعد میں سلیم کی بیوی بنی۔
حاصل خان نے دل کو سمجھایا۔ سوچا، شکر کرو کہ بہن کو نجات مل گئی۔ وہ تین سال تک سلگتا رہا، مگر غصہ، نفرت اور غیرت کی آگ کبھی بجھی نہیں۔ وہ زیب جہان کا سراغ لگانا چاہتا تھا، مگر ناکام رہا۔ وہ بس دعا کرتا، اے خدا، ایک بار اسے میرے سامنے لا، تاکہ میں اس کا گریبان پکڑ کر پوچھ سکوں، کہ میری بہن کا قصور کیا تھا؟ ہم نے تیرا کیا بگاڑا تھا؟ایک دن اس کی دعا قبول ہو گئی۔ زیب جہان اُس ہی فیکٹری میں آیا، جہاں حاصل خان اور سلیم کام کرتے تھے۔ وہ ایک واقف کار کو نوکری دلوانے آیا تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ یہاں حاصل بھی کام کرتا ہے۔ جیسے ہی حاصل نے زیب جہان کو دیکھا، اُس کے صبر کا بند ٹوٹ گیا۔ ایک بھاری لوہے کی راڈ اٹھا کر اُس کے سر پر دے ماری۔ وہ موقع پر ہی ڈھیر ہو گیا۔ حاصل وہیں ایک کرسی پر جا کر بیٹھ گیا۔ پولیس آئی، اور اس نے از خود گرفتاری دے دی۔یوں میرا پیارا بھائی، تفتیش اور قانون کی بھینٹ چڑھ گیا۔ وہ قتل کے الزام میں قید ہو گیا۔دیکھا جائے تو گل مینہ بے قصور تھی۔ اُس نے دل سے عزت کی زندگی مانگی، اور اللہ نے اُس کی دعا قبول کی۔ سلیم نے اُس سے محبت کی، نکاح کیا، وفا نبھائی، اور اُسے زندگی دی۔لیکن افسوس، حاصل خان پر ہے۔ وہ غیرت، غم، بے بسی اور انتقام کی آگ میں بھری جوانی میں جل گیا… اور جان سے گیا۔