انتقام کی آگ

Sublimegate Urdu Stories

Sublimegate Urdu Stories

 انتقام کی آگ - سبق آموز کہانی

قسط وار کہانیاں
یہ قانون قدرت ہے کہ وقت کے ساتھ دکھ سکھ میں بدلتے رہتے ہیں لیکن میرے ساتھ ایسا نہ ہوا ۔ ہوش سنبھالا ۔ تو ماں کا رویہ اور ماؤں سے مختلف پایا۔ اس بات سے دل بجا بجھارہتا تھا مگرکم سنی کے باعث اصل وجہ سمجھ نہ پاتی تھی۔ پڑوس میں چاچی جنت کا گھر تھا۔ جب ماں مجھے مارتی ، تو وہ میرے رونے کی آواز سن کر مشترکہ دیوار میں لگی کھڑکی سے ہمارے صحن میں آجاتی اور مجھے ماں کی مار سے بچاتی ، چپ کراتی اور کہتی کہ بیٹی صبر کر، دکھی مت ہو۔ یہ دن بھی گزر جائیں گے ۔ تیری شادی ہوگی ، تو تو سکھی ہو جائے گی۔ یہ سن کر میرے ذہن میں یہ خیال ایسا پکا ہو گیا کہ شادی کے بعد تمام دکھ ختم ہو جاتے ہیں۔ اب میں اس انتظار میں جینے لگی کہ بڑی ہو جاؤں گی تو شادی کے بعد میرے دکھ ختم ہو جائیں گے۔ بس یہی سوچ مجھے حوصلہ دیتی رہی اور میں صبر کے ساتھ ماں کے ستم سہتی رہی۔

بابا جان کی کافی زمینیں تھی ، خوشحالی تھی ، کھیت کھلیان ہری بھری فصل کی صورت سونا اگلتے تھے، جس کی وجہ سے میرے بھائی افسر میں غرور آ گیا تھا۔ وہ سفید براق ، کلف دار کپڑے پہنتا، تلے والا کھسہ پیروں میں چرمرا تا ہوا، اکڑ کر چلتا تھا۔ اس کا اترانا والد کی وجہ سے تھا، جن سے گاؤں کے لوگ ڈرتے تھے۔ بھیا کا ایک لفنگا سا دوست تھا، جس کا نام صاحب داد تھا۔ وہ ہمارے گاؤں کی ایک لڑکی شبو سے عشق میں مصروف تھا اور اپنی ملاقاتوں کا سارا حال بھائی کو بتاتا ، اس سے اس بارے میں مشورے بھی لیتا رہتا تھا۔ بھائی ایسے کاموں میں اس کا دست راست تھا۔ صاحب داد کو اگر شبو سے رات میں کھیت میں ملنا ہوتا ، تو بھائی پہرے داری کا فرض سنبھال لیتا تا کہ کسی کو آتا دیکھے تو انہیں خبر دار کر دے۔ صاحب داد کا باپ اللہ داد بھی زمیندار تھا لیکن وہ ایک لالچی آدمی تھا۔ بیٹے کے عشق کا اسے پتا تھا، مگر لڑ کی غریب تھی لہذا باپ نے اس سے شادی کی اجازت نہ دی بلکہ تنبیہ کی کہ اگر تم نے اس چھوکری سے شادی کی تو میں تم کو گھر سے نکال دوں گا، تاہم شبو اور صاحب داد کی کھیتوں میں ملاقاتیں جاری رہیں ۔ اڑتی اڑتی خبریں اللہ داد کے کانوں میں پڑیں تو وہ پریشان رہنے لگا۔ سوچا کیوں نہ بیٹے کی شادی کسی اچھے گھرانے کی لڑکی سے کر دوں۔ وہ اپنے دوست عادل خان کے پاس گیا اور بیٹے کے لئے اس کی لڑکی کا رشتہ مانگا۔ 
 
عادل خان خوشحال زمیندار تھا اور اللہ داد سے اس کی پرانی دوستی تھی ، اس نے فورا ہاں کر دی ۔ گرچہ صاحب داد کے بارے میں ایسی ویسی باتیں اس کے کانوں تک بھی پہنچتی رہتی تھیں لیکن اس نے یہ سوچ کر دوستی کا پاس رکھا کہ لڑکے جوانی میں اس طرح کے معاملات میں ایک ادھ بار ضرور الجھتے ہیں۔ زمینداروں کے لئے ایسی باتیں کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتیں۔ یوں اس کی بیٹی عالیہ سے صاحب داد کا رشتہ طے ہو گیا۔ باپ کا رعب اتنا تھا کہ بیٹا کچھ نہ کر سکا۔ باپ نے دھمکایا اور ماں نے رو رو کر واسطے دیئے تو صاحب داد کو عالیہ سے بیاہ کرنا پڑا۔ وہ اچھی لڑکی تھی۔ اسے صاحب داد کے معاملات کا علم نہیں تھا۔ وہ اسے اپنا مجازی خدا مان کر چاہنے لگی۔ اس کی خدمت کرتی اور چاہتی تھی کہ شوہر اس سے خوش رہے۔ وہ شوہر کے ساتھ ساتھ، ساس سسر کا بھی خیال رکھتی تھی تا کہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے ۔ کچھ دن تو صاحب داد پر سکون رہا ۔ سب یہی سمجھے کہ عشق کا معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا ہے لیکن یہ ایک دبی ہوئی آگ تھی، جس پر وقتی طور پر چھینٹا پڑ گیا تھا، مگر چنگاریاں اندر سلگ رہی تھیں ۔ وہ شبو کو نہ بھلا سکا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں ہوک اٹھنے لگی۔ اب جب وہ شبو سے مل کر آتا ، بیوی کو اپنی خوشی کی راہ کا کانٹا سمجھتا ۔ وہ جس قدر اس کا خیال کرتی ، وہ اس سے اس قدر ہی چڑتا اور نفرت محسوس کرتا۔ رفتہ رفتہ یہ نفرت شدید ہوتی گئی ۔
 
 ایک دن کسی نے عالیہ کو بتا یا تمہارا شوہر گاؤں کی فلاں لڑکی سے محبت کرتا ہے اور وہ راتوں کو چھپ چھپ کر ملتے ہیں ۔ اس نے شوہر سے باز پرس کی اور کہا کہ اگر یہ بات چ ہوئی تو وہ نہ صرف میکے چلی جائے گی بلکہ اپنے باپ کو آگاہ کردے گی ۔ اس طرح جھگڑا بڑھے گا۔ صاحب داد ان دھمکیوں میں آنے والا نہیں تھا، اس کے قدم نہ رکے اور وہ کار زار عشق میں آگے ہی بڑھتا گیا۔ عالیہ کی گرے پڑے خاندان سے نہ تھی۔ وہ بھی ایک زمیندار گھرانے کی بیٹی تھی۔ اس نے شوہر کو صاف کہہ دیا کہ اگر تم راتوں کو اسی طرح کہ غائب رہے اور آدھی رات کے بعد دیوار پھاند کر گھر آئے تو ، میں تمہارے والد کو آگاہ کر دوں گی ۔ صاحب داد اپنے باپ سے بہت ڈرتا تھا۔ وہ بیٹے اپنے کو کچھ نہ بھی کہتا، مگر شبو کے خاندان کی شامت آجاتی، یا ان کا سامان لدوا کر گاؤں بدر کر دیا جاتا یا اس گھرانے کا کوئی بڑا نقصان کرا دیتا۔
اب میاں بیوی میں جھگڑا بڑھتا ہی گیا۔ صاحب داد شبو سے ملنے سے باز نہ رہ سکا ، نہ عالیہ چپ رہ سکی ۔ اس کا واویلا بھی بڑھتا گیا۔ گاؤں کی ایک عورت ، اس کو ساری رپورٹ دیا کرتی تھی۔ جب صاحب داد، عالیہ کی چیخ چیخ سے تنگ آ گیا تو اس نے سوچا کہ اس عورت نے تو میری زندگی اجیرن کر ڈالی ہے۔ میں بیوی کو طلاق بھی نہیں دے سکتا کہ باپ آڑے آئے گا، تو پھر کیا کروں؟ سوچ سوچ کر اس کی ہمت جواب دے گئی ، ذہنی تناؤ نے اسے پاگل کر دیا۔ راتوں کی نیند اڑ گئی ۔ باپ نے صاحب داد کو خبر دار کر دیا تھا کہ اگر اب بہو نے شکایت کی تو میں تمہاری خبر لوں گا تم یاد رکھو گے۔
 
 بالآخر اس نے مسئلہ کا عجب حل سوچ لیا۔ ایک دن وہ میرے بھائی کو اپنے ساتھ لے گیا۔ انہوں نے اپنے نوکر شہیر کو بھی ساتھ ملا لیا۔ گھر والے دوسرے گاؤں کسی رشتہ دار کی فوتگی میں گئے ہوئے تھے ، ان تینوں نے مل کر عالیہ کو کمرے میں بند کر کے ٹھکانے لگا دیا۔ اگلے روز اللہ داد اپنی بیوی کے ہمراہ گھر لوٹا ، تو صاحب داد نے بتایا کہ عالیہ کل سے غائب ہے ۔ وہ بغیر بتائے کہیں چلی ہے۔ کیا اس کے میکے سے پتا کیا ہے؟ ہاں مگر وہاں نہیں گئی ۔ شاید کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ باپ نے سمجھ لیا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اس نے کہا۔ تم کو شرم نہیں آتی بیوی پر تہمت دھرتے ہوئے؟ وہ شریف گھرانے سے ہے، تمہارے جیسی نہیں ہے، پھر اللہ داد نے حویلی میں کام کرنے والے ملازمین کو بلایا اور سختی سے باز پرس کی۔ 
 
اس کی جہاں دیدہ نظروں نے شبیر کے چہرے سے بھانپ لیا کہ ہو نہ ہو اسی سے کچھ معلومات مل سکتی ہیں۔ اس نے تمام نوکروں کو واپس ان کے کاموں پر بھیج دیا مگر شبیر کو روک لیا اور اس کو کافی رقم کا لالچ دے کر کہا کہ سچ بتاؤ گے تو انعام کے حق دار غلام شبیر نے سوچا کہ زمیندار جو کہتا ہے ، کر کے رہتا ہے۔ کیوں نہ رقم کھری کر لوں ۔ پیسہ بھی مل جائے گا اور اپنی بے گناہی بھی ثابت کر پاؤں گا ۔ اس سے پہلے کہ بات کھلے اور میری گردن چھری تلے آجائے ۔ وہ گویا ہوا۔ زمیندار صاحب ! میں نوکر آدمی ہوں آپ کا اور آپ کے بیٹے کا بھی۔ مجھے جان سے مار دینے کی دھمکی دے کر صاحب داد نے ایک بوری دی تھی کہ اس کو دریا پر لے جا کر ، جو کچھ اس میں ہے وہ لہروں کے سپرد کر دوں ۔ 
 باقی عالیہ بی بی کو قتل ہوتے میں نے نہیں دیکھا اور نہ ان کو اسے مارتے دیکھا۔ افسر خان اور آپ کا بیٹا ، آدھی رات کے بعد میرے کوارٹر میں آئے تھے اور مجھے جگا کر صاحب نے بوری میرے کندھے پر رکھ دی – دریا پہنچا تو میری قمیض پر خون لگ چکا تھا، میں نے اپنی قمیض اتار کر دریا میں پھینک دی اور بوری کو بھی لہروں کے سپرد کر کے نہا کر گھر لوٹ آیا تھا۔ جان کے خوف سے کسی کو نہیں بتایا، لیکن آپ نے میری حفاظت کا ذمہ لیا ہے تو بتا رہا ہوں ۔ مجھ کو اس عمل میں شامل نہ سمجھیے۔ میں تو نوکر ہوں ، آپ اور آپ کے بھی گھر والے میرے مالک ہیں۔ صاحب داد بھی میرے مالک ہیں۔ میں مجبور اور کیا کر سکتا تھا۔ نہ مانتا تو وہ جو میرا حشر کرتے ، آپ جانتے ہی ہیں۔ اللہ داد کو یقین نہ آ رہا تھا کہ اسکا بیٹا اتنا بے رحم اور سفاک بھی ہو سکتا ہے ۔ وہ غم و غصے سے کانپ رہا تھا۔ افسر پر بھی حیرت تھی ۔ وہ جوش میں بندوق لے کر گھر سے نکلا، مگر اس کے چچا دروازے میں مل گئے اور اس کے تیور دیکھ کر اسے اپنے گھر لے گئے اور تمام احوال سن کر سمجھایا کہ یہ حل نہیں ۔ ہے کہ تم بیٹے کو مارنے چلے ہو۔ اس کا دوسرا حل سوچتے ہیں ۔ چچا نے پنچایت کا حل بہتر جانا۔ پنچایت بیٹھی تو یہ فیصلہ ہوا کہ عالیہ کے بدلے میں عادل خان کو قاتل کے گھر سے کوئی لڑکی خوں بہا میں دے دی جائے ۔ چونکہ واردات میں میرا بھائی افسر بھی برابر کا شریک تھا اور صاحب داد کی کوئی بہن نہیں تھی جس کو خون بہا میں دیا جاتا تو قرعہ فال میرے نام نکلا، یوں مجھے عالیہ کے ورثا کو دے دیا گیا۔

عادل خان مجھے گھر لے آیا اور میرا نکاح اپنے بیٹے سے ارجمند خان سے کر دیا۔ اس گھر میں میری ظاہری حیثیت بہو کی تو ہو گئی لیکن اپنے گھر والوں سے میرا رشتہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا گیا، تاہم میں ایک خوشحال زمین دار کی بیٹی تھی، لہذا مجھے باندی بنا کر رکھنا یا فروخت کرنا عادل خان کے لئے بھی اس کی حیثیت سے کم تر معاملہ تھا۔ یوں مجھے بہو کا منصب تو دے دیا گیا تھا لیکن میری حیثیت باندی کی ہی تھی کیونکہ خون بہا میں آئی لڑکی ہمہ وقت مقتولہ کی یاد دلاتی تھی۔ صاحب داد کو اس کے باپ نے روپیہ پانی کی طرح بہا کر قانون کے شکنجے میں جکڑنے سے بچا لیا۔

وہ سزا سے تو بچ گیا مگر قدرت نے اس کے لئے ایک اور سزا تجویز کر رکھی تھی ۔ جس شبو کی خاطر یہ سب کچھ ہوا، صاحب داد کی قسمت کے میں وہ لڑکی نہیں تھی۔ ذرا امن ہوا، حالات شانت ہو گئے تو یہ وہی چنگاری ، جو حالات کی راکھ میں دب گئی تھی، پھر سے سلگنے لگی۔ اس نے شبو سے بیاہ کی سوچی ۔ اب کوئی رکاوٹ نہ رہی تھی۔ وہ شبو کے لئے زیور اور کپڑوں کی خریداری کے لئے شہر چلا گیا۔ بد قسمتی سے واپسی میں اس کی کار ایک در خت سے ٹکرا گئی اور وہ اس بری طرح زخمی ہوا کہ صورت پہچانی نہ جاتی تھی ۔ سچ ہے خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ ارجمند خان کو اپنی بہن عالیہ سے بہت پیار تھا۔ جب اس کی یاد آتی وہ مجھ پر قہر برسا دیتا۔ 
 
اس نے مجھے بیوی تسلیم نہ کیا تھا، جبکہ میں اس کے نکاح میں تھی۔ اس کا جی چاہتا کہ بہن کے بدلے میں مجھے قتل کر دے لیکن اس کے باپ نے اسے روکے رکھا تھا، کیونکہ افسر بھائی نے کافی زمین میرے نام کر دی تھی اور عادل خان سے لکھوا لیا تھا اگر میری بہن کو مار دیا گیا تو یہ زمین واپس میرے بھائی کو مل جائے گی۔ چنانچہ ارجمند کو مجبوراً مجھے برداشت کرنا ہی تھا۔ جب میں نے پہلے بچے کو جنم دیا ۔ تو بھائی افسر نے مجھے کہا کہ تم اب طلاق لینے کی کرو ۔ جتنا وہ کہیں گے، ہم اتنا تاوان ادا کر دیں گے۔ یہ بیٹا بھی اس کو دے دیں گے اور تمہاری شادی کسی اور سے کر دیں گے۔ تم کم از کم اپنی باقی زندگی ذلت سے تو نہ گزارو گی۔ میں بھی اس ذلت بھری زندگی سے چھٹکارا چاہتی تھی ، لیکن جانتی تھی کہ وہ میرا بیٹا ہر حال میں چھین لیں گے اور میں اپنے لخت جگر کو کسی حال میں چھوڑ نہیں سکتی تھی۔ بس اپنے بیٹے کی خاطر میری ممتا نے تمام عمر ظلم سہنے کو تر جیح دی۔
میں ارجمند کے بچوں کی ماں بن گئی مگر اس کو پھر بھی رحم نہ آیا۔ اسے بس یہ بات یاد رہتی کہ میرا بھائی، اس کی بہن کے قتل میں شامل تھا اور میں اس کی بہن کے خون بہا میں آئی ہوں۔ وہ ہر طرح سے مجھے ذہنی اذیت دیتا تھا تا کہ اس کے انتقام کی آگ دھیمی رہے۔ آخر وہ وقت بھی آ گیا ، جب میرا بیٹا جوان ہو گیا۔ اب میں ایک بیٹے اور تین بیٹیوں کی ماں تھی ۔ لیکن خاوند پھر بھی مجھ سے نفرت ہی کرتا تھا، جبکہ اپنی اولاد بعد سے محبت کرتا تھا۔ وہ بچوں سے ہمیشہ یہی کہتا کہ تمہاری ماں ہماری باندی ہے۔ یہ اچھی عورت نہیں ہے۔ میرے بیٹے نے اس کی باتوں کا زیادہ اثر قبول کیا۔ 
 
وہ بھی مجھ سے نفرت کرتا تھا جبکہ چھوٹی بیٹی مجھ سے پیار کرتی ، میرا خیال کرتی تھی لیکن جس بیٹے کی خاطر میں نے زندگی قربان کی ، اس نے مجھ سے پیار نہ کیا۔ میری بڑی بیٹیاں بھی مجھ کو اچھا نہ سمجھتی تھیں کہ میں تاوان میں آئی عورت تھی ۔ خدا جانے یہ غلط رسمیں کب ختم ہوں گی؟ میرا تو کوئی قصور نہ تھا۔ میں تو کسی کے کئے کے بدلے سزا دار ہوئی ۔ بچپن ، اچھے دنوں کی آس میں زخمی ہوا کہ ماں سوتیلی تھی۔ جوانی میں خون بہا، کے طور پر مقتولہ کے وارثوں کو دے دی گئی ۔ اولاد اگر پیار کرتی تو شاید بڑھاپے میں سارے زخم مندمل ہو جاتے لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ اکثر اولا د بھی وفا نہیں کرتی ۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے