اعظم میر ا چچازاد تھا، ہماری محبت کی شادی تھی لیکن یہ محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔ ہم بچپن میں ایک گھر میں رہتے تھے جو کہ والد اور چچا جان کو دادا کی جانب سے ورثے میں ملا تھا۔ بچپن ساتھ گزرا، اعظم اور میں اکٹھے کھیل کود کر بڑے ہوئے۔ جب ہوش آیا تو احساس ہوا کہ ہم ایک دوسرے کے بغیر خوش نہیں رہ سکتے۔ والد صاحب نے نیا گھر بنوایا اور ہم وہاں شفٹ ہو گئے لیکن میں نئے مکان میں خوش نہ رہتی تھی۔ سب ہی جانتے تھے کہ چچا کے بچوں سے جدائی نے مجھے پریشان کر دیا ہے، خاص طور پر اعظم بہت یاد آتا تھا۔ اعظم بھی اب بجھا بجھا رہنے لگا۔ اس کا دل پڑھائی میں نہ لگتا اور میرے بھائی سے ملنے کے بہانے وہ روز ہمارے گھر آجاتا۔ اسے دیکھتے ہی میں کھل اٹھتی، دوڑ کر چائے بنالاتی، کبھی سموسے، کبھی پکوڑے تل لاتی۔ ہماری محبت عیاں تھی، ابو اور چچانے اسی باعث شادی کے بندھن میں باندھ دیا۔
شادی کے بعد میں پھر اسی گھر میں آگئی جہاں بچپن گزرا تھا۔ بہت خوش تھی، یہ گھر میرے لئے اجنبی نہ تھا، سسرال والے وہی اپنے اور پیار کرنے والے لوگ تھے۔ میں اپنی قسمت پر ناز کرتی تھی کہ جو آرزو تھی، پوری ہو گئی ۔ اب کسی شے کی آرزو نہ رہی تھی۔ جلد ہی اللہ تعالیٰ نے اولاد بھی دے دی اور میں ماں کے مقدس رتبے پر فائز ہو گئی۔ بچوں کی پرورش میں کھو گئی۔ چچی ہاتھ بٹاتی تھیں۔ وہ ساتھ نہ دیتیں تو ننھے منے بچوں کو پالنا اور سنبھالنا کوئی آسان بات نہ تھی۔ جن دنوں چچی بیمار تھیں، ہماری پرانی ملازمہ زبیدہ خاتون اپنے گائوں لوٹ گئی۔ ان دنوں ملازمہ کی اشد ضرورت تھی، بچوں کی پرورش، گھر کی ذمہ داری، اوپر سے بیمار چچی کی دیکھ بھال۔ میں تھکن سے نڈھال اور نیم جان رہنے لگی۔ بتاتی چلوں کہ میرے ایک جیٹھ تھے جو اپنی فیملی کے ساتھ علیحدہ گھر میں قیام پذیر تھے۔
نند کوئی نہ تھی البتہ دو دیور ، غیر شادی شدہ ہمارے ساتھ ہی رہا کرتے تھے۔ چچا جان کا انتقال دو برس قبل ہو چکا تھا اور اب ساس کو بھی مرض الموت لاحق تھا، انہیں جگر کا کینسر بتایا گیا تھا۔ ان دنوں جو بھی ہماری ساس کی تیمار داری کو آتے ، ان سے ملازمہ نہ ملنے کا دکھ بتاتی اور التجا کرتی، اگر کوئی عورت ضرورت مند ہو تو میرے پاس بھجوادیں، میں اچھی تنخواہ دوں گی۔ کافی بار پڑوسن سے بھی ذکر کیا تھا۔ ایک روز اس کے توسط سے ایک نوجوان عورت ہمارے گھر آئی، خاصی خوبصورت اور تنومند تھی۔ اس نے بتایا کہ آمنہ بی بی نے بھیجا ہے۔ پہلے ان کے یہاں کام کرتی تھی، اب ان کے پاس دوسری عورت کام کر رہی ہے۔ ان کو ضرورت نہیں ہے، تبھی آپ کی طرف بھیجا ہے۔ عورت نے اپنا نام رضیہ بتایا۔ میں تو ملازمہ کو ترس رہی تھی لہٰذا اس کے بارے میں زیادہ چھان بین نہ کی اور فور اً ر کھ لیا۔
رضیہ جیسی نظر آرہی تھی ویسی ہی ثابت ہوئی۔ ہر کام سلیقے اور سگھڑاپے سے کرتی تھی۔ صبح آتی اور رات کو آٹھ بجے چلی جاتی۔ وہ ایک صاف ستھری اور تمیز دار تھی عورت تھی۔ زیادہ باتیں نہیں کرتی تھی، بس اپنے کام سے کام رکھتی، عمر یہی کوئی چو بیس سال تھی۔ کہتی تھی بھائی اور بھابی کے ساتھ رہتی ہوں، شوہر کی موت ایک ایکسیڈنٹ میں ہوئی تھی جو رکشہ چلاتا تھا۔ رضیہ کے کوئی اولاد نہ تھی، شادی کے تین برس بعد بیوہ ہو گئی تھی، تب سے بھائی کے زیر کفالت تھی جو خود بھی ایک بس ڈرائیور تھا۔ اس کے چھ بچے تھے اور مکان کرائے کا تھا۔ گزر اوقات بمشکل ہوتی تھی، تبھی رضیہ اپنی بھابی کی نگاہوں میں کھٹکنے لگی، وہ اس پر ایک بوجھ تھی۔ جب تک بھابی کے بچے چھوٹے تھے ، ان کی پرورش میں مدد گار ہونے کے باعث اس کا وجود بھائی اور بھاوج کو گوارا تھا لیکن اب مہنگائی اور کثیر العیالی کارونا تھا۔ اسی سبب رضیہ نے گھر سے قدم نکالا تھا اور بطور گھریلو ملازمہ وہ اپنے اخراجات پوری کرتی تھی۔
وہ پریشانی سے لبریز دن تھے۔ چچی جان کی بیماری آخری مراحل میں تھی اور یہ ایک لاعلاج مرض تھا، پھر بھی انہیں اسپتال میں داخل کرانا پڑا تا کہ ضروری طبی امداد ملتی ہے۔ میرے بڑے بچے اسکول جاتے اور تین چھوٹے گھر پر ہوتے تھے۔ شوہر اور دیور اپنے اپنے دفتر چلے جاتے۔ مجھے بچوں کے ساتھ گھر اور بیمار ساس کو بھی دیکھنا ہوتا تھا۔ایسے مشکل وقت میں رضیہ میرے لئے فرشتہ رحمت بن کر آئی تھی اور اس نے آتے ہی میری آدھی سے زیادہ پریشانیوں کو سمیٹ لیا تھا۔ وہ اتنی فرض شناس اور حلیم الطبع تھی کہ ایک دن بھی مجھے شکایت کا موقع نہ دیا۔ درد مند دل کی مالک تھی، میری ساس کے ساتھ بہترین سلوک کیا جبکہ وہ بستر مرگ پر تھیں۔ ایک نرس کی طرح دیکھ بھال کرتی، حتیٰ کہ رات کو بھی رہ جاتی اور راتوں کو ان کے ساتھ جاگتی۔ یہ اسی کا کام تھا کہ رات کو جاگ کر ایک مرئضہ کی آہ وزاری کو سمیٹنے کا اب مجھ میں تو یارا نہ رہ گیا تھا۔
اپنی زندگی کے آخری دنوں میں جبکہ چچی بہت زیادہ تکلیف میں تھیں، میرے شوہر ان کو اسپتال سے گھر لے آئے۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا۔اعظم نے کہا، وہاں ان کی بہتر دیکھ بھال نہیں ہو سکتی۔ اپنے گھر میں ہم زیادہ خیال رکھ سکتے تھے۔ یہ چند روز کی مہمان ہیں تو تو پھر کیوں دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔ اپنے گھر میں ہم زیادہ دیکھ بھال کر سکتے ہیں۔ چچی کو گھر کا سکون ملا۔ میں دن کو ان کے قریب رہتی اور رضیہ کھانا بناتی ۔ گھر سنبھالتی، بچوں کو دیکھتی۔ رات کو میں بچوں کے پاس ہوتی اور وہ میری ساس کے کمرے میں ہوتی ۔ اس نے اب گھر جانا اسی وجہ سے متروک کر رکھا تھا کیونکہ ہم کو اس کی دن رات ضرورت تھی۔ شروع رات کو میرا کوئی نہ کوئی دیور یا پھر اعظم، چچی جان کے کمرے میں ڈیوٹی دیتے تھے۔ بچے مجھ کو اتنا تھکا دیتے کہ میں رات کو ہر گز اپنی بیمار ساس کی پٹی سے لگ کر شب بیداری کی تکلیف نہ اٹھا سکتی تھی۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے ، بالا خر وہ دن آگیا جب ہماری ساس دنیا کے تمام دکھوں سے نجات پاگئیں اور آدھی رات کو ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
کافی دن گھر میں سوگ کی فضار ہی۔ رضیہ نے ان نازک لمحات میں بھر پور ساتھ دیا اور اب وہ مستقل ہمارے گھر ہی رہنے لگی کیونکہ اس کی بھاوج نے اس کو اپنے گھر رکھنے سے انکار کر دیا تھا۔ میں تو رات کو بے ہوش ہو کر سوتی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کب ہمارے گھر میں کیا ہوا۔ ایک روز رضیہ نے کہا کہ ہمارے گھر کی ملازمت وہ اب مزید جاری نہیں رکھ سکتی کیونکہ اس کے بھائی نے اس کی دوسری شادی کی ٹھان لی ہے۔ مجھے کافی صدمہ ہوا، اس کے جانے سے جو پریشانیاں لاحق ہونے والی تھیں، ان کا خوف میرے لئے ایک بڑی الجھن تھی لیکن رضیہ کا جانالازمی امر تھا۔اس کو شادی سے روکنا کیونکر ممکن تھا۔ بالآخر وہ ایک روز خدا حافظ کہہ کر چلی گئی۔ میں نے وقت پر رخصت کیا، اسے کافی اچھے جوڑے اور کچھ رقم دی کیونکہ اس نے جیسی ہماری سیوا کی تھی، شاید فی زمانہ کوئی ایسی ملازمہ کسی کو میسر آئے۔ رضیہ کے جانے کے بعد بہت عرصہ تک بغیر گھریلو ملازمہ کے وقت گزار نا پڑا۔
آخر کار سابقہ ملازمہ گائوں سے لوٹ آئی تو مجھے سکون مل گیا۔ زبیدہ کے آتے ہی میرے شوہر کا تبادلہ نزدیکی شہر ہو گیا۔ وہ ڈیرہ غازی خان سے مظفر گڑھ چلے گئے۔ ان دنوں دونوں شہروں کا رستہ دو گھنٹے سے کم نہ تھا۔ روڈ خراب تھا جبکہ اب یہ رستہ صرف ایک گھنٹہ میں طے ہو جاتا ہے۔ اعظم کچھ عرصہ روزانہ مظفر گڑھ آتے جاتے رہے۔ پھر انہوں نے وہاں ایک مکان کرایہ پر لے لیا۔ روز کا سفر ان کو تھکا دیا کرتا تھا۔ وہ پیر کو جاتے، جمعہ کی شام کو گھر آتے۔ دو دن ہمارے پاس گزار کر دوبارہ پیر کے روز صبح سویرے مظفر گڑھ چلے جاتے تھے۔ زبیدہ بی بی کا گائوں مظفر گڑھ کے قریب تھا۔ ایک بار جبکہ اس کا بھائی بہت بیمار تھا، وہ چند دن کی چھٹی لے کر اپنے گائوں چلی گئی جب واپس آئی تو اس نے ایک عجیب خبر سنائی، اس نے بتایا۔ بی بی، میرا ایک رشتہ دار محکمہ سوشل ویلفیئر میں چپراسی لگا ہوا ہے۔
اعظم صاحب اس کو نہیں جانتے لیکن وہ ان کو جانتا ہے۔ میرے اسی رشتہ دار نے جس کا نام اسلم ہے، مجھے بتایا ہے کہ اعظم صاحب نے کرایہ کے مکان میں اپنے ساتھ ایک عورت کو رکھا ہوا ہے۔ خدا جانے ان کی بیوی ہے یا کہ ویسے ہی کام کاج کے لئے رہتی ہے ، خاصی خوبصورت ہے اور امید سے بھی ہے۔ اعظم صاحب نے دراصل اسلم سے کہا تھا کہ ان کو گھریلو کام اور کھانا پکانے کے لئے کسی گھریلو ملازمہ کی ضرورت ہے جو صبح سے دوپہر تک خدمات انجام دے سکے۔ تب وہ سمجھ گیا کہ صاحب کے ساتھ جو عورت قیام پذیر ہے ، وہ ملازمہ نہیں۔ میرے تو ہوش اڑ گئے۔ زبیدہ نے قسم دی تھی کہ صاحب کو یہ ہر گز نہ بتاناور نہ میری خیر نہ ہو گی۔ کچھ دن شدید اضطراب میں گزرے۔ بالا خرز بیدہ خاتون کی ہی منت سماجت کی کہ تم مظفر گڑھ جا کر اس بارے میں مزید معلومات لو اور اپنی کسی رشتہ دار عورت کو میرے شوہر کے پاس گھریلو ملازمہ کے طور پر بھیجوتا کہ مجھے اس ذریعہ سے اس عورت کی اصل حقیقت کا علم ہو سکے۔ یہ کام مشکل نہ تھا لیکن زبیدہ اس کام کو سر انجام دینے سے ڈرتی تھی کیونکہ اسے اعظم کا تو تھا۔
بہر حال اس نے کسی طرح اسلم کے ذریعہ اپنی ایک رشتہ دار عورت کا بطور ملازمہ انتظام کرادیا۔ تب مجھے معلوم ہو گیا کہ چچی جان کی راتوں کو تیمار داری کرنے کے دوران جبکہ میں تھکن سے چور گہری نیند سو جاتی تھی، رضیہ اور میرے شوہر میں قربت ہو گئی۔ معلوم نہیں کیونکر انہوں نے آپس میں رسم و راہ پیدا کر لی اور پھر رضیہ اسی باعث امید سے ہو گئی۔ تین ماہ اس نے یہ راز چھپائے رکھا، بالا خر اسے اعظم پر بات ظاہر کرنی پڑی۔ وہ بھی کافی پریشان ہوئے اور اپنا تبادلہ مظفر گڑھ کروا لیا تا کہ وہاں رضیہ کو ساتھ رکھ سکیں۔ اب اس مسئلے کا حل سوائے شادی کے اور کوئی نہ رہا کیونکہ دیر ہو چکی تھی اور کسی لیڈی ڈاکٹر نے اس سلسلے میں ان کی مدد کی ہامی نہ بھری۔
اعظم بہت پریشان تھے ، ہر صورت اس مسئلے سے چھٹکارا چاہتے تھے لیکن یہ عورت ان کے گلے پڑ گئی کہ مجھ سے نکاح کرنا ہو گاور نہ اس بات کو منظر عام پر لے آئوں گی اور آپ کے بچے کو جنم دوں گی۔ بدنامی سے کوئی ذریعہ فرار نہ پا کر انہوں نے رضیہ کی خاطر تبادلہ کرایا اور اسے وہاں اپنے ساتھ رکھ لیا۔ میں حقیقت جان کر تڑپنے لگی۔ زبان بھی نہ کھول سکتی تھی کہ زبیدہ نے قسم دی تھی صاحب کو میرا نہ بتانا۔ بالا خراس وقت میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا جب اعظم دو ہفتے تک گھر نہ لوٹے۔ میں نے اپنے جیٹھ اور دیوروں کو حالات معلوم کرنے کو کہا۔ ایک دیور نے ہامی بھر لی اور وہ مظفر گڑھ چلا گیا۔ گھر میں عورت موجود تھی جس نے میرے دیور کی آواز سن کر پردہ کر لیا۔ تب کلیم نے اعظم سے کہا، بھائی جان یہ کیا آپ نے ڈراما کر رکھا ہے۔ آپ کی اچھی بھلی بیوی ہے، چھ بچوں کے باپ ہیں۔ نکالیں اس عورت کو ورنہ ہم آپ سے کوئی واسطہ نہ رکھیں گے اور بھابی کو پتہ چل جائے گا تو میکے چلی جائیں گی۔ تب آپ چھ بچوں کا کیا کریں گے ؟ اعظم خوفزدہ ہو گئے۔ اپنے بھائی سے منت کی کہ کسی کو کچھ نہ بتانا، اب میں چند دنوں میں اس عورت کو نکال دوں گا۔ دیور نے آکر باقی بھائیوں کو بتایا لیکن مجھے نہیں بتایا بلکہ تسلی دی کہ خاطر جمع رکھو۔
وہاں کوئی عورت نہیں رہتی، ایک ملازمہ آتی تھی، وہ کام کر کے چلی جاتی تھی۔ اب اس کی جگہ ایک اور ملازمہ آتی ہے لیکن یہ دوسری ملازمہ کافی بوڑھی عورت ہے لہٰذا وہ ہم کو دل سے نکال دو۔ ایک روز کوئی مہمان ان سے ملنے آیا۔ یہ باہر گئے اور بیٹھک میں مہمان کو بٹھا کر اندر سے کنڈی لگالی اور کچھ دیر باتیں کرتے رہے۔ میری چھٹی حس نے اشارہ کیا کہ یہ کوئی خاص مہمان تھے، تبھی میں نے بیٹے کو بھیجا کہ جاکر بیٹھک میں دیکھو کون آیا ہے ؟ شہر یار کی عمران دنوں چھ سات برس تھی۔ وہ دوڑا گیا اور بیرونی دروازے سے باہر نکل کر بیٹھک میں جھانکا۔ وہاں ایک چھوٹی سی بچی اور ایک عورت جو برقع میں تھی، بیٹھی اعظم سے کچھ کہہ رہی تھی۔ جلد ہی مہمان چلے گئے۔ اب پھر میرے دل میں شکوک جاگے کہ یہ کون عورت ہو گی۔ اعظم سے استفسار کیا تو کہنے لگے۔ خواہ مخواہ شک کرتی ہو۔ کوئی بیوہ تھی، کسی واقف کار کے حوالے سے آگئی۔ شادی کے موقع پر غریب لوگ ویسے ہی امداد مانگنے آجاتے ہیں۔
میں نے تھوڑی سی رقم دے کر چلتا کر دیا۔ ضرورت مند عورت تھی تو گھر کے اندر لے آتے، باہر بیٹھک میں بٹھانے کی کیا تک تھی۔ میں نے کافی تکرار کی تو دیور جو مظفر گڑھ جا کر معلوم کر چکا تھا، اپنے کمرے سے باہر آ گیا اور کہنے لگا۔ بس کریں یہ ڈراما، بھائی آپ نے وعدہ کیا تھا کہ کوئی عورت نہ رہے گی تو اب وہ کیسے آگئی؟ وہاں کے سب لوگ کہہ رہے ہیں آپ نے خفیہ شادی کی ہے اور بچی بھی ہے۔ بھائی جان اگر واقعی خفیہ شادی کر لی ہے اور بچی بھی ہے تو اب شادی کو چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اعظم کو اقرار کرتے بنی۔ یہ سن کر میں حیران رہ گئی کہ یہ عورت جو ان کی بچی کی ماں بن چکی تھی، رضیہ تھی۔ نجانے کسی کمزور لمحے مجھ سے یہ خطا ہو گئی اور اپنے گناہ کو نبھانے کی خاطر رضیہ کو پناہ دینی پڑی۔ پھر بچی کی وجہ سے چھوڑ نہ سکا لیکن اب چھوڑ رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ اسے چھوڑنا ہی ہو گا۔ بچی بھی چھوٹی ہے، اسے ماں سے چھین کر ایک اور ظلم نہ کرو لیکن رضیہ نہیں رہے گی ورنہ میں نہ رہوں گی۔ ظاہر ہے وہ چھ بچوں کی ماں کو نہ چھوڑ سکتے تھے۔ انہوں نے رضیہ کو اس کے میکے بھجوا دیا اور خود مظفر گڑھ سے اپنے شہر تبادلہ کرالیا۔ مجھے دکھ تو بہت پہنچا لیکن پھر شکر کیا کہ صبح کا بھولا شام کو گھر آگیا تھا ورنہ میرا اور میرے بچوں کا تو خدا ہی حافظ تھا۔ رضیہ کو نکلوا کر بھی مجھے چین نہ تھا حالانکہ وہ اب اس سے نہ ملتے تھے اور کوئی ناتا بھی نہ رکھا تھا، یہاں تک کہ بچی کا خرچہ بھی نہ دیتے تھے ورنہ رضیہ دوبارہ گھریلو ملازمہ کیوں بنتی۔
ایک روز کا ذکر ہے میں وسیم کے سسرال ملنے گئی تو وہاں پڑوس میں ایک عورت اور چھوٹی سی بچی کو جاتے دیکھا۔ وسیم کی ساس نے بتایا کہ رضیہ نام ہے، کسی عیاش نے پہلے تو خفیہ شادی کئے رکھی۔ بچی ہو گئی تو اب نکال دیا ہے۔ بیچاری اپنا اور بچی کا پیٹ بھرنے کی خاطر در در جھاڑو پوچا کرنے پر مجبور ہے۔ یہ سن کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ انسان کتنا مجبور ہے۔ خوف خدا سے میری روح لرز گئی کہ میرے بچے تو عیش کر رہے تھے اور اعظم کی یہ بچی ایک گھریلو ملازمہ کے ساتھ ماری ماری پھر رہی تھی۔ میں شدید بیمار پڑ گئی اور مجھے اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔
خواب میں چچا اور چچی دکھائی دیئے جو کہتے وہ بھی ہماری پوتی ہے ، ہمارا خون ہے ، ذرا سوچو تو! مت پوچھئے کس دل سے وسیم کے سسرال کے پڑوس میں گئی جہاں رضیہ فرش پر پوچالگار ہی تھی اور اس کی بچی قریب صحن میں بیٹھی جھاڑو سے کھیل رہی تھی۔ میرے ضمیر نے مجھے روشنی دکھائی اور میں نے بچی کا ہاتھ پکڑ لیا جو ہو بہو ا عظم کی تصویر تھی۔ تم میرے ساتھ گھر چلو، تمہارے پاپا تم کو بلا رہے ہیں۔ اس نے ماں کی طرف دیکھا۔ یہ ابھی ہمارے ساتھ آجائے گی، میں نے رضیہ کو سنایا۔ وہ ایسے اٹھ کھڑی ہو گئی، جیسے کسی نے اسے کرنٹ لگادیا ہو۔ تڑپ کر بولی۔ بی بی یہ آپ کے ساتھ نہ جائے گی۔ اسے مجھ سے جدامت کیجئے، ہم محنت مزدوری کر کے کھالیں گے۔ کسی سے کچھ نہیں مانگتے۔ میں اسے لے جارہی ہوں رضیہ، کیونکہ اس کے باپ نے مجھے اسے لینے کو ہی بھیجا ہے۔
اب تمہاری مرضی کہ تم ہمارے ساتھ رہو یا الگ رہنا پسند کرو لیکن میں اپنے خاندان کی عزت کو یوں در در بھٹکتے نہیں دیکھ سکتی۔ میں اس کے ہاتھ میں جھاڑو نہیں دیکھ سکتی۔ رضیہ کی سمجھ میں میری بات آگئی۔ اس نے اپنی بچی کو لے جانے دیا اور دوروز بعد وہ بھی آگئی۔ میں نے اسے قبول کر لیا۔ گرچہ میرے سامنے اعظم اس سے بات نہ کرتے تھے لیکن وہ میرے اس عمل سے بے حد مشکور تھے۔ میرے بے دام غلام ہو گئے اور میں نے بھی اپنے دل پر پتھر رکھ لیا، صرف اعظم کی اس بچی کی خاطر جو میری کچھ نہ سہی، میرے بچوں کی تو بہن تو تھی۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
1 تبصرے
Apki kahniyan bht achi hen
جواب دیںحذف کریں