Urdu Font Stories
قسمت کے انوکھے فیصلے - اردو کہانی
قسط وار کہانیاں |
سچ کہتی ہوں شگو آپا ! زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے میری ساس نے۔ ایسی پتھر دل عورت نہ دیکھی نہ سنی۔ بھنڈی بناتی شکو آپا جن کا نام شگفتہ تھا مگر ساجی نے اپنے دل کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے انہیں اپنی شگو آپا بنا لیا تھا۔ شگو آیا صبح سویرے روٹی ناشتے سے فارغ ہو کے جیسے ہی گرم پانی سے برتن مانجھ کر چمکانے لتیں، فورا ساچی بھی آجاتی۔ آٹھ جماعت پاس ساجی خود کو پڑھے لکھے اور فلاسفروں سے کسی طرح بھی کم نہ سمجھتی تھی۔ کل جب میں نے پیاز کاٹتے ہوئے اپنی ساس کا غرور بھرالہجہ اور اللہ سے نہ ڈرنا دیکھا تو میں نے ذرا بھی پتا نہیں لگنے دیا تھا کہ میں رو رہی ہوں۔
میرے تو دشمن روئیں، میں کیوں روؤں۔ سارے آنسو پیاز کی پرتوں تلے چھپا لیے، پر دل ہے ناں شگو آپا ! کڑھتا تو ہے ہی۔ اس میں شکوے شکایتوں کے بھی انبار لگے رہتے ہیں، جو اگر ہم تم نہ ہوں ناں ایک دوسرے کی سننے کے لیے تو سچی بندہ ان بو جھل سخت پہاڑوں تلے دب کر دوسری سا نس نہ لے پائے۔ لے اب میری اولاد نہیں تو اس میں میرا کیا قصور ، پورا ایک سال، اس ایک سال کی ایک ایک سانس میں نے دعائیں کی ہیں۔ پیروں فقیروں کے پیر پکڑے ہیں۔ ۔ ارشد کی مار کھائی ہے۔ جیٹھ جیٹھانی کی باتیں سنی ہیں ۔ شگو آپا نے اس کی طویل سانس جو سینے میں کہیں گم ہو چکی تھی ، ایک ایسی ہی سانس انہوں نے بھی لی تھی۔ بچوں کی فیس ، نمک مرچ ، آٹا ، دالیں کتنی مصیبتیں ان کی جان کو بھی چمٹی تھیں۔ ایک روز صبح ہی صبح جانے کیسے گھر کے کام کاج نبٹا وہ ان کی طرف چلی آئی اور پھر یہ معمول ہی بنا لیا۔ ان کے پاس بہت وقت ہوا کرتا تھا جسے ایسے ہی استعمال میں لایا جاتا تھا۔
سجواری بوا! تمہارے ٹوٹکے نے تو خوب کام دکھایا۔ بھئی جیسے ہی ارشد کے لیے دودھ گرم کیا ، اس میں دم کی ہوئی چھوٹی پیاز کاٹ کے ڈالی ، الایچیاں بھی ڈھیر ساری ڈالیں مگر وہ بندہ پیاز کی بو بھانپ گیا اور پھر جو میرے ساتھ اس نے سلوک کیا سارے گھر نے سنا ہے۔ بوا! یہ کیسا مشورہ اٹھائے پھرتی ہو ۔ ساجی کو سجواری بوا پر بھی بہت بھروسہ تھا۔ گائے کا دودھ گائے بھی وہ جس نے بچھڑا دیا ہوا کسیر نسخہ ہے۔ سو رد پے دے مجھے، میں ڈھونڈ ڈھانڈ لا دوں تجھے تو میری پوتیوں، بیٹیوں جیسی ہے، تیرے لیے اتنا بھی نہ ہو سکے گا کیا۔ صبح صبح کا وقت تھا، دودھ والا آیا نہیں تھا۔ وہ گیٹ کے ساتھ اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔ سجواری ہوا جو مشوروں کی پٹاری ساتھ ساتھ لیے گھوما کرتی تھیں۔ رات ہی اس نے بڑی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ارشد کی جیب سے دو سو روپے نکال کر اپنے تکیے تلے چھپا رکھے تھے۔ اتنے سارے نوٹوں میں سے دو سو کی کیا گنتی ، وہی کڑکڑاتے دو نوٹ کجواری بوا کو منتقل ہوئے اور وہ چلتی نہیں۔
مزید پڑھیں |
پتا نہیں اس چھوٹی کالونی کے سرسبز سایوں کے کس کونے میں وہ گائے بندھی ہوئی ہو گی جس نے پچھڑا دیا ہے۔ جب تک ساچی کی ساس باتھ روم سے نکلیں ، وہ دکھ سکھ بانٹنے کے بعد ایک نئی تجویز کے ساتھ دودھ چولہے پر رکھ چکی تھی۔ دودھ میں دودھ کم پانی زیادہ تھا مگر دل کڑا کر کے پی گئی تھی۔ اس کے لیے کیا اکیسر ہے، اسے کیا معلوم مگر پینے سے تو نہ رہ جائے۔ جیٹھانی کی دو بیٹیاں تھیں ۔ ایک پیر صاحب نے اسے ایک نیلی پڑیا بھی دی تھی کہ اگر وہ کسی طرح جیٹھانی کے بچے کو کھلا دے اور وہ مر جائے تو اس کی گود ہری ہو جائے گی مگر وہ ڈر گئی تھی اگر پولیس نے پکڑ لیا تو ۔ پولیس کے ڈر اور کچھ اپنی بزدلی نے اسے یہ قدم اٹھانے سے روک دیا اور وہ راستے میں ہی پڑیا گھول کر پھینک آئی۔ ارشد کے پاؤں کے تلوے پر سرخ مار کر سے ایک لفظ لکھنا تھا مگر وہاں تو بات کرنا ہی مصیبت ہو گیا تھا۔ وہ اولاد شاید چاہتا ہی نہیں تو تھا صرف بات بی بات ساجی کو کوستا رہتا۔ وہ زندگی سے ہار جاتی پھر ہار نہ مانتے ہوئے دوبار ہ سرپٹ دوڑ نے لگتی۔ ماں باپ کا سایہ سر پر تھا نہیں۔ چچا نے جیسے تیسے کھلا پلا کر سنبھال کرسگی پھوپھی کے بیٹے سے نکاح پڑھوا دیا اور پھر بیس سال کی ساجی کے اولاد ہی نہ ہو سکی۔ فرح کے بچے بہت پیارے تھے۔ پیاری پیاری باتیں کرتے تھے۔ وہ ان کے فیڈر بنایا کرتی ، کبھی کبھار چھپ کر چوم بھی لیتی۔ فرح شوہر کی لاڈلی تھی اور اس کا شوہر اس پر صرف شک کیا کرتا تھا۔ ہر شے چھان پھٹک کر اس کے ہاتھ سے لیتا۔
گھر کے کام میں وہ بہت اچھی تھی ۔ جلدی کام سے فارغ ہو کر لوگوں کے دکھ سکھ بانٹنے بھی نکل جایا کرتی۔ آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے ارشد ،نہ میں بہت حسین ہوں ، نہ بھرے پرے، کھاتے پیتے میکے والی ہوں اور سب سے بڑھے میری تو کوئی اولاد بھی نہ ہو سکی ۔ اس کے آنسو گالوں پر بھر چکے تھے۔ ایسا بالکل نہیں ہے سا جو! ایسے نہ سوچا کرو ۔ محبت تو تھی ۔ یہ آپ جناب والے الفاظ اسے ارشد نے ہی سکھائے تھے۔ شاید شروع شروع میں تو وہ تم ہی کہا کرتی تھی۔ اسے تم سے اپنائیت کا زیادہ اظہار محسوس ہوا کرتا تھا مگر ارشد نے بری طرح ٹوک دیا ایسے نہیں کہتے ،میں بچی تو نہیں ہوں ۔ تم ابھی بچی ہی ہو ساجدہ اختر ! تمہارا معصوم ساذہن ابھی ان نزاکتوں کو سمجھ نہیں پا رہا۔ آہستہ آہستہ وہ بہت سیکھ گئی تھی۔ گھر کے کاموں سے اپنے لیے وقت چرانا، پیسے اڑن چھو کرنا اور طرح طرح کے ٹو ٹکے مشورے آزمانا ۔ اس کا دل ہر وقت آنسوؤں سے بھرارہتا تھا۔ ساس روایتی ساسوں سے بھی بڑھ کر تھیں۔ ہر وقت کڑی نگاہ رکھتیں۔ اسے بہت ساری ہمدردی کی ضرورت تھی جو باہرسے ہی جھوٹی سچی حاصل ہو جایا کرتی ۔ فرح برتن دھونے کے بعد چکن اچھی طرح صاف کر کے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی ، وہ اسے مغرور لگا کرتی تھی۔ کاش میں بھی ایسا غرور کر سکوں ۔
برآمدے کے ٹھنڈے ستون سے لگی ساجی کی سیاہ آنکھوں میں انتظار بھرا رہتا تھا۔ شگو آپا کے ہاں بھی وہ کم کم جانے لگی۔ پتا نہیں ان کا میاں اس کا اتنا ایکسرے کس خوشی میں کیا کرتا تھا۔ سر سے لے کر پاؤں تک اس کی گدلی آنکھیں چپک جاتی تھیں۔ شگو آپا کی حالت بھی اس وقت عجیب ہو جاتی تھی۔ارشد نے اسے کئی بار کہا تھا کہ وہ گھر سے کم نکلا کرے لوگوں کو اپنے اس مسئلے سے آگاہ رکھنا، ہر خبر بتانا غیر ضروری ہے۔ ساس نےکئی دفعہ ارشد کو شکایت لگائی تھی ، ایک آدھ مرتبہ بند کمرے میں اسے خوب لتاڑا بھی گیا تھا مگر سا جی اپنے دل کا کیا کرتی جو نگہت خاله، معصومہ آیا، شگو آیا اور سنجواری بوا وغیرہ کی سنتا تھا۔ اتنی خاموش کیوں بیٹھی ہو ساجدہ ! بس ایسےہی – فرح جو کبھی کبھار ہی اس سے بات کرتی تھی۔ پوچھ رہی تھی – ساس اپنے کمرے میں غروب ہوگئی تھیں۔ فرح اب کوئی چینل دیکھنے میں مصروف تھی کہ سنجواری بوا چلی آئی تھیں۔
مزید پڑھیں |
ساس صاحبہ کو ان بی جمالو قسم کی بڑھیا سے شدید چڑتھی، ان کا تو کام ہی ہے لگائی بجھائی کرنا بلکہ بجھانا تو انہوں نے کیا ہی سے جلانا ہی جلانا ہے۔ کوئی نہ کوئی گل کھلا کر رہے گی۔ یہ عمر ہوگئی مگر سازشوں سے باز نہیں آئی یہ عورت۔ ساس کی بات کو سخت اہمیت حاصل تھی مگر سنجواری بوا اس کی مہمان تھیں تو وہی جلدی سے چائے بنا کر لے آئی تھی۔ سب کا حال احوال دریافت کرتے سنجواری بوا ان کے اس وقت کے اندرونی حال سے بخوبی واقف تھیں۔ ایک پیر صاحب ہیں، تکیے والے۔ نسرین کے ہاں بیٹا ان ہی کی دعا سے ہوا ہے۔ یہ ساتھ والی آبادی میں رہتی ہے۔ اتنی دکھی تھی اب اس سے زیادہ سخی ہے۔ بس اسے آزما کر دیکھو تم۔ بس ایک چکر لگ جائے پھر دیکھنا ۔ اللہ کا کرم کیسا ہو جائے گا۔ جلدی جلدی کہہ کر وہ اٹھ گئی تھیں۔
اپنوں کے لیے بہترین گفٹس
پیر صاحب کا آستانہ تو کافی دور تھا اور اتنی دور کیسے جا سکے گی۔ ارشد سے اسے کسی قسم کی امید کوئی نہیں تھی۔ ختم قرآن کا بہانہ کام کر ہی گیا ہے ۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ میں واپسی ہوئی جاتی ۔ وہ اور سنجواری بوا تیز تیز قدموں سے تقریباً بھاگتے ہوئے ایک گندی سی تنگ گلی سے گزر رہی تھیں۔ وسروں کو آسانیاں بانٹنے والے خود کس مشکل سے جیتے ہوں گے، اس کھولی میں اتنی گندگی اور بو – دنیا کب سے ترک کر رکھی ہے۔
سنجواری بوا بات سنبھال کر بولی تھیں۔ پیر صاحب نے دو ہزار کی ڈیمانڈ کی تھی۔ بوا اس سے تین ہزار وصول کر کے اسے یہاں لے آئی تھیں۔ پیر صاحب کی آنکھیں فی الحال بند تھیں، جب کھلیں اور بڑی مشکل سے کھلی تھیں کیونکہ وہ آنکھیں پانی نام سے بھی نا واقف لگتی تھیں اور ان میں ویسی ہی بات تھی جیسی شگو آیا کے میاں کی آنکھوں میں معصومہ آپا کے بھولے بھائی کی نظر میں تھی۔ مریضہ کو اندر کمرے میں چلنا پڑے گا۔ اکیلے میں معائنے کی ضرورت ہے ۔ اولاد کے لیے وہ تو سب کچھ کرنے کو تیار تھی مگر اس طرح اکیلے میں ؟ وہ کسی کی بیوی تھی، چھوٹی سی بچی نہ تھی -سنجواری بوا تھوکے ٹہوکے دے دے کر جلدی سے جانے کا کہہ رہی تھیں ۔ ایسے ہی نسرین گئی تھی۔ پیٹ پر تعویذ لکھنا تھا اس کے اور پیر صاحب اندر جاکر اس کا انتظار بھی کرنے لگے تھے۔ چند منٹ کی تو بات ہے ساجی ! وہ برابر اسے سمجھانے ، راضی کرنے میں لگی تھیں۔ بوا اٹھو، یہاں ہے۔ اگر تم نہیں اٹھ رہیں تو میں جارہی ہوں ۔ آٹھ جماعتیں، وہ اسکول کے آٹھ سال کام آگئے تھے۔ وہ سمجھ گئی تھی، سنجواری بوا کی چالاکی ۔ ان کا رنگ اڑ چکا تھا اور قدم انتہائی تیز ہو چکے تھے۔
جلدی جلدی کام نبٹا لولڑکیو ! چھت کی صفائی بھی کرنی ہے اور سن چھوٹی ! اگر جو وہ آئے ہاں سبز قدم تو کہہ دینا کہ میں گھر پر نہیں ہوں۔ دماغ چاٹ لیا ہے منحوس نے ۔ پتانہیں اس کا شوہر اسے روکتا بھی نہیں۔ خبردار جو آج دروازہ کھولا تو۔ شگو آپا ! میں آئی ہوں۔ بیٹھ جاؤں ۔ چھوٹی اس کی نقل اتار رہی تھی۔ گیٹ کے ساتھ کھڑی وہ ساری گفتگو سن چکی تھی لوگ ۔۔۔۔۔ اس کے آنسو اس کے گالوں پر بکھر کر اپنے تکیے پر گر رہے تھے بے مول ۔ اصل مسئلہ ہی یہی ہے ہمارا ۔ مخلوق سے کہتے پھرتے ہیں، دوسروں کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں مگر اس خالق سے اپنا مسئلہ بیان نہیں کرتے۔ مخلوق سے کہنے والا ذلت پاتا ہے اور خالق سے کہنے والا عزت – مولانا صاحب کی آواز اس کے کانوں میں اکثر گونجا کرتی تھی۔ دعا منظور نہ ہو پھر بھی سنبھال کر رکھ لی جاتی ہیں اور انہیں بڑے اجر کے ساتھ لوٹایا جاتا ہے۔ اس وقت تو اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ مگر اب بات اچھی طرح سے دماغ میں بیٹھ چکی تھی ۔ اختیار تو سارے اس کے پاس ہیں اور پیر کامل تو صرف ایک ہی ہے تو کیوں ناں ثابت قدمی سے ان ہی کی طرف چلا جائے۔
سلیقے سے سر پر دوپٹہ اوڑھے، وہ نماز پڑھنے میں مشغول تھی ۔ جب ارشد نے کمرے میں قدم رکھا تھا۔ ساجدہ ! تم تو بدل گئی ہو ۔وہ حیران ہوا۔ جو آپ کو اچھا لگے، وہی تو کروں گی ،وہ بھی مسکرادی۔ وہ سنجواری بوا آئی ہیں، تمہیں پتا ہے ہاں امی ان سے کتنا چڑتی ہیں۔ پھر بھی باہر بٹھا آیا ہوں ۔ باہرنہیں نکلتی ہو کیا ؟، اب چھوڑ دیا ہے۔بوا ! آپ کی جائے ۔ وہ سنجیدہ تھی۔ سن سا جی ! وہ سر گوشی کرنے لگی تھیں۔ دفع مار اس پیر کو ۔ انہوں نے نئے جال سے پرانا شکار کرنا چاہا مگر وہ ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ میں نے ارشد کے لیے کھانا گرم کرتا ہے ۔ وہ چاپ چاپ چلی گئی تھیں۔ شگو آپا کی چھوٹی بیٹی اس کے سامنے کھڑی تھی۔ بدتمیزی کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا۔ ساجدہ انٹی ! امی کہتی ہیں تھوڑی مرچیں ہوں تو دے دیں۔ عزت وہی پاتے ہیں جو اپنے گھر میں رہیں اور سارے معاملات اللہ کے سپرد کر دیں۔ ساجی اب ساجدہ ارشد بن چکی تھی۔ وہی جو اسے بہت پہلے بن جانا چاہیے تھا۔
قسط وار کہانیاں |
0 تبصرے