نادان لڑکی کی خوفناک داستان - پہلا حصہ

 
 

نادان لڑکی کی خوفناک داستان - پہلا حصہ
تحریر: دیمی ولف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



یہ واقع ہے مسلم آباد علاقے کا جہاں ایک اعجاز عرف ججی نامی شخص رہا کرتا تھا جو کہ کسی وقت پر بہت نامور غنڈا تھا پر وہ اپنا زیادہ تر وقت درباروں مزاروں پر ہی گزرا کرتا تھا کیونکہ وہ فقیروں اور درویشوں کا بہت ماننے والا تھا ایک دن کسی اللّٰہ کے ولی نے اس کو سمجھایا اور وہ راہ راست پر آگیا اور اس کے بعد ججی بہت ہی محنتی دیانتدار پرہیز گار شخص بن گیا تھا اور کسی کپڑے والے کی دوکان پر کام کیا کرتا تھا پھر ججی کی شادی ہو گئی اور پھر بچے ہو گئے بس یہ سمجھ لو کہ اس کی زندگی بہت ہی خوشگوار گزر رہی تھی اور وقت ایسے ہی گزرتا گیا۔ ججی کی دو اولادیں تھیں ایک اس کا پندرہ سالہ بیٹا قمر جو کہ آٹھویں کلاس میں تھا اور دوسری اس کی بیٹی شازیہ تھی جو کہ بارویں کلاس کی طالبہ تھی ۔ قمر روزانہ شازیہ کے ساتھ سکول جاتا اور کچھ دور ہی جا کر شازیہ سے الگ ہو جاتا کیونکہ قمر کا سکول شازیہ کے کالج سے کافی پیچھے تھا تو اس وجہ سے آگے سے شازیہ اکیلے ہی کالج چلی جاتی تھی۔

ایک دن ججی کام سے گھر واپس آیا تو ججی کی بیوی (حاجرہ) نے ججی کو پانی کا گلاس پکڑاتے ہوئے سے کہا ۔ شازیہ کے ابو مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے ججی نے پانی کے دو گھونٹ لیئے اور گلاس ہاتھ پکڑ کر حاجرہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ہاں بولو حاجرہ کیا بات ہے ؟؟ حاجرہ نے کہا مجھے شازیہ کی فکر ہو رہی ہے کیونکہ اب وہ جوان ہو گئ ہے اور مجھے اب اس کا ایسے اکیلے باہر جانا کچھ ٹھیک نہیں لگتا ۔ ججی نے باقی کا پانی پیا اور مسکراتے ہوئے حاجرہ کی طرف دیکھ کر بولا ارے تم کیوں اتنا پریشان ہو رہی ہو ہماری بیٹی گھر سے باہر پڑھنے کے لیئے جاتی تو اس میں کیا برائی ہے سب لوگوں کی بچیاں پڑھنے جاتیں ہیں اور ویسے بھی وہ اکیلی کب جاتی ہے قمر بھی تو کچھ دور تک اس کے ساتھ جاتا ہے نا ؟؟ حاجرہ نے ججی سے آنکھیں چراتے ہوئے انداز کہا لیکن میں چاہتی ہوں کہ بس بہت ہو گئی پڑھائی اب ہمیں شازیہ کی شادی کے بارے میں سوچنا چاہیے ججی نے حیرت سے حاجرہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یار یہ تم کیا کہہ رہی ہو تمہیں پتا ہے نا ہماری بیٹی ابھی آگے پڑھنا چاہتی ہے اور میں نے اپنی بیٹی کو بولا ہے وہ جتنا پڑھنا چاہتی ہے میں اسے پڑھاؤں گا تو تم اب اچانک ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو ؟؟ حاجرہ نے پھر سے ججی سے نظریں چراتے ہوئے کہا وہ آج مجھے کسی نے بتایا کہ کوئی لڑکا شازیہ کا پیچھا کرتے ہوئے ہمارے گھر تک آیا تھا اور میں نے جب شازیہ سے پوچھا تو اس نے کہا کہ امی میں نہیں جانتی وہ کون ہے اور میرے پیچھے کیوں آیا تھا میں تو کالج سے سیدھا نظریں جھکائے اپنے گھر آتی ہوں اس دوران میرے پیچھے کون آتا جاتا ہے مجھے اس کا کوئی پتا نہیں ہے ۔

ججی حاجرہ کی بات سن کر تھوڑا غصے میں آگیا اور بولا یہ کس وقت کی بات ہے ؟؟ حاجرہ نے کہا یہ دو دن سے ہو رہا ہے اسی وجہ سے میں چاہتی ہوں کہیں کچھ غلط نا ہو جائے ۔ ججی نے کہا ارے کسی دوسرے کی غلطی کی سزا تم اپنی بیٹی کو دینا چاہتی ہو وہ بھی اس کی پڑھائی چھڑوا کر ؟ یہ کہاں کی عقلمندی ہے ؟؟ حاجرہ نے کہا دیکھیں میں جانتی آپ کو اس وقت میری باتیں بری لگ رہی ہیں لیکن یہ بھی تو سوچیں محلے دار کیا سوچیں گے ہماری اس محلے میں بہت عزت ہے اور میں نہیں چاہتی کہ کسی بھی وجہ سے ہماری عزت پر کوئی حرف آئے ۔ ججی نے کہا لیکن اس بات کا ایک یہی حل تو نہیں ہے کہ ہم کسی ایرے غیرے کی وجہ سے اپنی بیٹی سے اس کے پڑھنے کا حق چھین لیں ۔ حاجرہ نے کہا پر ۔۔ ججی نے حاجرہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا پر ور کچھ نہیں میں نے کہہ دیا میری بیٹی آگے پڑھے گی تو بس پڑھے گی اور یہ جو کوئی بھی ہے جو شازیہ کا پیچھا کرتا ہے اس کو تو میں خود دیکھ لوں گا ۔ ابھی حاجرہ اور ججی یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ کمرے سے شازیہ ان دونوں کے پاس آگئ اور شازیہ نے ججی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ابو اسلام وعلیکم ۔ ججی نے سلام کا جواب دیتے ہوئے شازیہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ارے ماشاءاللہ بیٹی کیا حال ہے اور پڑھائی کیسی چل رہی ہے ؟ شازیہ نے کہا ابو بہت اچھی جا رہی ہے اور آپ دیکھنا اس بار بھی میں کلاس میں ٹاپ کروں گی ججی نے کہا انشاء اللّٰہ بیٹی انشاء اللّٰہ کیوں نہیں ۔ یہ کہتے ہوئے ججی نے حاجرہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کیوں۔۔۔۔۔ دیکھ رہی ہو نا ہماری بیٹی کتنی محنت سے پڑھ رہی ہے اور تم ہو کہ اس کی پڑھائی بند کروانا چاہتی ہو ۔

شازیہ نے جب ججی کی یہ بات سنی تو ماتھے بل ڈالتے ہوئے حاجرہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی کیا؟؟؟؟؟ امی آپ میری پڑھائی چھڑوانا چاہتی ہیں ؟؟ پر کیوں امی ؟ ؟ حاجرہ نے کہا ہاں میں چاہتی ہوں اور اس کی وجہ تمہارے ابو کو بتا چکی ہوں ۔ شازیہ نے افسردہ سا ہو کر ججی کی طرف دیکھا اور بولی ابو یہ سب کیا ہے ؟؟ ججی نے کہا ارے میری بیٹی تم پریشان کیوں ہوتی ہو میں نے تو نہیں کہا نا کہ تم پڑھائی چھوڑو بلکہ میں نے تمہاری امی سے کہہ دیا ہے کہ میری بیٹی جہاں تک چاہے گی میں اسے پڑھاؤں گا اور اسے پوری طرح سے سپورٹ کروں گا کیونکہ میری بیٹی پڑھے گی تو اس کو دنیا داری معاشرے میں عزت سے سر اٹھا کر جینے کے طور طریقوں کا پتا چلے گا اور پھر اس کے بعد میں اپنی بیٹی کی شادی کرواؤں گا تاکہ میری بیٹی شادی کے بعد جس گھر میں بھی جائے گی تو اس گھر والوں کا بھی سر فخر سے بلند ہو جائے گا کہ ان کی بہو پڑھی لکھی ہونہار اور قابلِ عزت ہے۔ اور یہی بات میں تمہاری امی کو سمجھانا چاہتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے ججی حاجرہ کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرانے لگا۔ ججی کی یہ بات سن کر حاجرہ نے اپنی گردن نہ میں ہلاتے ہوئے کہا جو مجھے سہی لگا میں نے کہہ دیا اب آپ جانے اور آپ کی بیٹی جانے ۔ یہ کہہ کر حاجرہ کمرے میں چلی گئی اور پھر شازیہ نے ججی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا شکریہ ابو میں بہت خوش قسمت ہوں جو میں آپ کی بیٹی ہوں اور میں نے ہمیشہ آپ کا سر فخر سے بلند کرنے کی کوشش کی ہے اسی لیئے میں پڑھائی میں بہت محنت کرتی ہوں ۔

شازیہ کی یہ بات سن کر ججی نے ایک بار پھر سے شازیہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا میں جانتا ہوں میری بچی ۔ پھر ججی نے کہا اچھا بیٹی تمہاری امی بتا رہی تھی کہ کوئی تمہارا پیچھا کرتا ہے ذرا مجھے اس بارے میں کچھ بتاؤ ؟؟ شازیہ نے کہا جی ابو پر میں نہیں جانتی وہ کون ہے اور میرے پیچھے کیوں آتا ہے لیکن میں نے تو اس کی شکل تک نہیں دیکھی کیونکہ میں صرف نگاہیں جھکائے سیدھا گھر آتی ہوں ۔ ججی شازیہ کی بات سن کر اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کچھ سوچنے لگا اور پھر اچانک سے دیکھتے ہوئے بولا کوئی بات نہیں بیٹی تم اب اس کی فکر نا کرنا بس تم اپنی پڑھائی پر توجہ دو باقی میں دیکھ لوں گا ۔ اتنے میں قمر آیا اور ججی کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا ابو آجائیں امی نے کھانا لگا دیا ہے ۔ ججی نے شازیہ کو کہا چلو آؤ بیٹی کھانا کھائیں ۔ یہ کہہ کر ججی قمر اور شازیہ کے ہمراہ کھانا کھانے چلا گیا ۔ اگلے دن صبح شازیہ پھر سے قمر کے ساتھ کالج گئی اور روز کی طرح پڑھائی کے بعد کالج سے واپس آرہی تھی کہ ایک لڑکا شازیہ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا آہستہ آہستہ سے شازیہ کو آوازیں دینے لگا لیکن شازیہ چپ چاپ چلتی جا رہی تھی اتنے میں وہ لڑکا تھوڑا تیز چل کر بلکل شازیہ کے قریب ہو گیا اور پھر سے کہنے لگا ہیلو رکو تو میری بات سن لو ؟؟ پر شازیہ بنا اس کی طرف دیکھے چپ چاپ چل رہی تھی اتنے میں اس لڑکے نے آگے بڑھ کر شازیہ کا ہاتھ پکڑ لیا تبھی شازیہ نے ایک زور دار تھپڑ اس لڑکے کے منہ پر دے مارا اور پھر سے تیز تیز چلنے لگی اس لڑکے نے اپنا ہاتھ اپنے گال پر رکھا اور غصے سے شازیہ کی طرف بڑھا ابھی وہ دوبارہ شازیہ کو چھونے ہی والا تھا کہ اس لڑکے کو کسی نے پکڑ لیا اور وہیں روک لیا ۔

لڑکے نے خود کو چھڑانے کی بہت کوشش کی لیکن کسی نے لڑکے کو بہت زبردست طریقے سے پکڑا ہوا تھا اور شازیہ لڑکے کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی تبھی لڑکے نے جب روکنے والے کی شکل کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا کون ہو تم مجھے کیوں پکڑا ہوا ہے اس لڑکی نے مجھے تھپڑ مارا ہے تو لڑکے کو روکنے والے نے کہا شکر کرو اس نے تمہیں تھپڑ مارا ہے ورنہ میں ہوتا تو تمہیں جان سے مار دیتا اور تمہاری لاش پاس کے کسی کوڑے دان میں پڑی ہوتی ۔ لڑکے نے خود کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تم ہو کون ؟؟ تبھی اس شخص نے کہا میرا نام اعجاز عرف ججی ہے اور میں اس لڑکی کا باپ ہوں جس کا تم پیچھا کرتے ہو ۔ ججی کی یہ بات سن کر ہی لڑکا تھر تھر کانپنے لگا اور بولا انکل مجھے معاف کر دیں میں آج کے بعد کبھی آپ کی بیٹی کا پیچھا نہیں کرونگا ججی نے کہا میں تمہیں ضرور چھوڑ دونگا پر پہلے تم یہ بتاؤ تمہارا نام کیا ہے ؟ لڑکے نے کہا میرا نام دلاور ہے ۔

ججی نے کہا اور تمہارے والد کا نام کیا ہے ؟ دلاور ہے کیا کیوں آپ ان کا نام کیوں جاننا چاہتے ہیں ججی نے کہا میں تمہارے ماں باپ سے ملنا چاہتا ہوں ۔ دلاور نے کہا انکل پلیز آپ کی مہربانی آپ مجھے چاہے جتنا مرضی مار لیں پر آپ یہ بات میرے ماں باپ تک مت لے کر جائیں اتنے میں کچھ لوگ پاس سے گزرتے ہوئے رک گئے اور ججی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے ارے بھائی آپ نے اس لڑکے کو کیوں پکڑا ہوا ہے ۔ججی نے کہا دیکھیں یہ ہمارا نجی معاملہ ہے برائے مہربانی آپ لوگ بیچ میں مت آئیں مجھے اس کے ماں باپ سے بات کرنی ہے ۔ اتنے میں انہیں لوگوں میں سے ایک نے دلاور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے یہ تو دلشاد بھائی کا بیٹا لگ رہا ہے ۔ ججی نے کہا کونسے دلشاد بھائی ؟ اس ادمی نے کہا 13 نمبر گلی میں ان کا گھر ہے اور گھر کے ساتھ ہی دلشاد بھائی کی دوکان ہے ۔ ججی نے کہا دلشاد بھائی وہ تو نہیں جو خراد کا کام کرتے ہیں ؟؟ اس آدمی نے کہا جی جی وہی ہیں پر بات کیا ہے ؟؟ ججی نے کہا کچھ نہیں مجھے ذرا ان سے ملنا ہے ۔ یہ کہہ کر ججی دلاور کو گھسیٹتے ہوئے دلشاد کی دوکان پر لے گیا ۔ اور جیسے ہی دلشاد کی نظر ججی پر پڑی اور اس کے بعد اپنے بیٹے کا گریبان ججی کے ہاتھ میں دیکھا تو وہ فوراً سے بھاگ کر ججی کے پاس آگیا اور بولا ججی بھائی خیر تو ہے یہ آپ نے میرے بیٹے کو ایسے کیوں پکڑا ہوا ہے ؟؟

ججی نے کہا دلشاد بھائی آپ مجھے کب سے جانتے ہو ؟ دلشاد نے کہا میں آپ کو بہت دیر سے جانتا ہوں پر آپ کو میں نے آج تک اتنے غصے میں نہیں دیکھا آخر بات کیا ہے ججی بھائی ؟؟ ججی نے کہا یہ آپ کا بیٹا روز میری بیٹی کا پیچھا کرتا ہے اور آج تو اس نے حد ہی پار کر دی اس نے میری بیٹی کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی اور اس کے بعد بھی یہ میری شرافت کی حد ہے جو میں اس کو آپ کے پاس زندہ لے کر آگیا ہوں ورنہ آج اس کی لاش پر آپ لوگ بین ڈال رہے ہوتے آپ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں شادی کے بعد پوری طرح سے بدل گیا ہوں اور تبھی سے ایک شریف آدمی کی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ اب میں ایک بیٹی کا باپ بھی ہوں اسی وجہ سے میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی میرے بچوں کو یہ طعنہ دے کہ ان کا باپ ایک غنڈا ہے اس وجہ سے آج پہلی اور آخری بار آپ سے اس کی شکایت کر رہا ہوں اس کے بعد اگر دوبارہ یہ میری بیٹی کے اس پاس بھی نظر آیا تو اس کو ایک بیٹی کا باپ نہیں بلکہ وہ ججی ملے گا جو میں شادی سے پہلے تھا اور پھر اس کے کفن دفن کا انتظام آپ کر کے رکھنا ۔

یہ کہہ ہوے ججی نے جھٹکے سے دلاور کو دلشاد کی طرف پھینکا اور وہاں سے چلا گیا ۔ تبھی دلشاد نے دلاور پر تھپڑوں کی بوچھاڑ کر دی اور بولا ارے تجھے معلوم نہیں تو کس بلا کے ہاتھ سے زندہ بچ گیا ہے ۔ وہ بہت سال پہلے نامور غنڈا تھا اور اچھے اچھے لوگ اس کے نام سے کانپتے تھے تو تم کیا چیز ہو جو اس کی بیٹی کو چھیڑنے نکلے تھے ؟؟ دلاور نے کانپتے ہوئے کہا ابو خدا کی قسم آج کے بعد میرے باپ کی توبہ جو میں اس لڑکی کے قریب جانے کا سوچوں بھی ۔ دلشاد نے دلاور کو پھر زور دار تھپڑ مارتے ہوئے کہا کمبخت میری توبہ کروا رہا ہے خود کی توبہ نا کری۔ دلاور نے کہا میری توبہ ابو میری توبہ۔۔ دلشاد نے کہا چل دفعہ ہو جا اندر تیری ماں سے بھی بات کرتا ہوں میں آکر ۔ یہ کہتے ہوئے دلشاد پھر سے اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا اپنی دوکان میں چلا گیا اور دلاور گھر میں چلا گیا ۔ اور ججی جب اپنے گھر پہنچا تو دیکھا کہ شازیہ بیٹھی رو رہی تھی اور حاجرہ اور قمر اس کو چپ کروا رہے تھے ۔

ججی نے کہا ارے کیا ہوا بیٹی تم رو کیوں رہی ہو ؟ شازیہ نے جب باپ کو دیکھا تو دوڑ کر ججی کے گلے لگ کر رونے لگی ججی نے شازیہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پھر اپنے سے دور کرتے ہوئے کہا ارے بیٹی بتاؤ تو ہوا کیا ہے ۔ تو شازیہ نے اپنے ہاتھوں سے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا ابو آج جب میں کالج سے واپس آرہی تھی تو راستے میں کسی لڑکے نے میرا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تھی تو میں نے اس کے منہ پر تھپڑ مار دیا تھا ۔ ججی نے انجان بنتے ہوئے کہا اچھا اس کی یہ مجال ؟ پھر کیا ہوا ؟؟ شازیہ نے کہا پتا نہیں ابو پر میں جلدی جلدی سے کر گھر آگئ تھی ۔ ججی نے کہا بیٹی تم پریشان مت ہو کل سے تمہیں کوئی تنگ نہیں کرے گا ۔

شازیہ نے حیرانی سے ججی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا پر ابو آپ کو کیسے پتا ہے کل وہ مجھے تنگ نہیں کرے گا وہ تو روز میرے پیچھے آتا ہے ۔ ججی نے مسکراتے ہوئے کہا کیونکہ بیٹی میں آج اس کو تنگ کر کے آگیا ہوں اور تم دیکھنا کہ اب وہ دوبارہ تمہارے پیچھے کبھی نہیں آئے گا ۔ ججی کی یہ بات سن کر سب گھر والے ججی کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے ۔حاجرہ نے کہا کیا کر کے آئے ہیں آپ ؟؟ ججی نے کہا ارے بھئی کچھ نہیں کر کے آیا میں تو بس اس کے باپ سے چند میٹھی میٹھی باتیں کر کے آیا ہوں ۔تو اس کے باپ نے اس کو سمجھا دیا اب وہ دوبارہ اس گلی سے بھی نہیں گزرے گا جہاں سے ہماری بیٹی گزرے گی ۔ حاجرہ نے کہا اچھا چلیں ٹھیک ہی ہے اب کم سے کم محلے میں کوئی بات نہیں کرے گا ورنہ دو دن سے تو میں بہت ہی پریشان تھی ججی نے کہا بس تمہیں تو محلے داروں کی فکر رہتی ہے ایسے ہی فضول سوچوں میں پڑی رہتی ہو ۔یہ کہنے کے بعد ججی نے کہا اچھا اب میں چلتا ہوں دوکان سے کچھ دیر کی چھٹی لے کر آیا تھا یہ کہہ کر ججی کام پر چلا گیا

اس کے بعد شازیہ روز حسبِ معمول کالج آیا جایا کرتی اور دوبارہ کسی لڑکے نے اس کا پیچھا نہیں کیا پھر کچھ عرصہ کے بعد شازیہ نے پڑھائی مکمل کر لی اور حاجرہ کے ساتھ گھر گھرستی بھی سیکھ گئی پھر ایک دن شازیہ نے ججی سے کہا ابو کیا میں جاب کر کے آپ کا ہاتھ بٹا سکتی ہوں ؟؟ ججی نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے شازیہ کی طرف دیکھا اور کہا بیٹی میں ابھی زندہ ہوں اور میں نے تمہیں اس وجہ سے نہیں پڑھایا کہ ایک دن میں تم سے جاب کروا سکوں بلکہ میں نے تمہیں اس وجہ سے پڑھایا ہے کہ تم زندگی میں کسی کی بھی محتاج نا ہو اور تمہاری اصل زندگی تمہاری شادی کے بعد ہی شروع ہو گی اور رہی بات تمہارے جاب کرنے کی تو شادی کے بعد تم اپنے شوہر کی اجازت لے کر کر لینا اگر وہ چاہے تو ۔ شازیہ نے کہا پر ابو میں چاہتی ہوں کہ میں آپ کا بوجھ کم کر سکوں کیونکہ آپ بہت دیر سے محنت کر رہے ہیں اب میں اس قابل ہو گئی ہوں کہ میں آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آپ کے ساتھ محنت کروں اور گھر کے اخراجات کے معاملات میں آپ کی مدد کر سکوں ۔ ججی نے افسردہ انداز میں کہا میری بیٹی کیا میں نے تمہیں کسی چیز سے محروم تو نہیں کر دیا ؟؟ یا کوئی ایسی خواہش ہو جو میں پوری نہیں کر سکا ؟؟ شازیہ نے کہا ارے نہیں نہیں ابو آپ نے تو ہمیں دنیا کی ہر چیز لا کر دی ہے اور ہماری ہر خوشی کو پورا کیا ہے ۔

ججی نے کہا تو میری بیٹی تم یہ کیوں سو رہی ہو کہ تمہارا باپ اب محنت کر کے تھک چکا ہے اور اس کے لیئے مجھے اب کسی سہارے کی ضرورت ہے؟؟ یہ کہتے ہوئے ججی کی آنکھوں میں آنسوں آگئے ۔ شازیہ نے جلدی سے باپ کے آنسوں پونچھتے ہوئے کہا ابو آئی ایم سوری پر میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا میں تو بس آپ کی مدد کرنا چاہتی تھی لیکن میں آپ کو دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی آپ مجھے معاف کر دیں ججی نے شازیہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا میری بیٹی میں جانتا ہوں تم میرے بھلے کے لیئے کہہ رہی تھی پر میں نہیں چاہتا کہ میرے جیتے جی میری بیٹی نوکری کرے ۔ میں پڑھا لکھا نہیں ہوں پر میں نے دنیا کی اونچ نیچ دیکھی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ کل کو کوئی مجھے دیکھ کر بولے کہ یہ بیٹی کی کمائی کھاتا ہے اور اگر کبھی کسی نے ایسا بول دیا تو میں جیتے جی مر جاؤں گا کیونکہ میں نے بہت مشکل سے آج چار لوگوں میں اپنی عزت بنائی ہے اور میں نہیں چاہوں گا کہ میری عزت پر کوئی حرف آئے تاکہ اس سے تمہارے رشتے میں کسی بھی قسم کی کوئی دشواری نا ہو کیونکہ آجکل ہمارے معاشرے میں ہماری یہ بہت بڑی خامی رہی ہے کہ ہم لوگوں نے بیٹیوں کے اچھے رشتے ان کے ماں باپ کی عزت سے مشروط کیئے ہوتے ہیں ۔ اگر کسی کے ماں باپ میں کوئی کمی ہو تو ہم لوگ وہاں رشتہ ہی نہیں کرتے جبکہ جس بیٹی کو ہم نے بہو بنا کر اپنے گھر لانا ہوتا ہے اس کی اچھائیوں کو نہیں دیکھتے اور بیٹی چاہے جتنی بھی اچھی ہو لیکن جب وہ اپنے سسرال میں ذرا سی بھی غلطی کرے تو اس کو پہلا طعنہ یہ ملتا ہے کہ اس کے ماں باپ ہی ایسے ہیں جنہوں نے اپنی بیٹی کی ایسے پرورش کی ہے ۔

تو اس وجہ سے میں اپنی عزت بنا کر رکھنا چاہتا ہوں اور اسی وجہ سے میں نے تمہیں پڑھایا لکھایا ہے تاکہ کوئی تمہیں اور ہمیں کسی قسم کی کوئی غیر ضروری بات نا کرے ۔ اور رہی بات میرا ہاتھ بٹانے کی تو اگر مجھے کسی سہارے کی ضرورت پڑھی بھی تو تمہارا بھائی ہے نا میرے کاندھے سے کاندھا ملانے کے لیئے اور میرے لیئے وہی ٹھیک رہے گا کیونکہ تم میری بیٹی ہو اور میں تمہیں جگہ جگہ نوکری نہیں کرنے دے سکتا ہاں جب تمہاری شادی ہو جائے گی تو تم اپنے شوہر کے کاندھے سے کاندھا ملانا اور اس کے ہر قدم پر اس کا ساتھ دینا اور کوئی بھی کام بنا اس کی مرضی کے مت کرنا ۔ شازیہ نے کہا جی ابو میں سمجھ گئی اور اب آپ کبھی اداس مت ہونا میں آپ کو ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتی ہوں ۔ ججی نے پھر سے شازیہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا میں خوش ہوں میری بچی اللّٰہ تمہارا نصیب اچھا کرے اور تمہیں زندگی میں ہمیشہ خوش رکھے آمین۔ اس کے بعد کچھ دن گزرے تو ایک دن حاجرہ نے ججی سے کہا شازیہ کے ابو اب تو شازیہ نے پڑھائی بھی مکمل کر لی ہے اب ہمیں اس کے ہاتھ پیلے کر دینے چاہئیں۔ ججی نے کہا ہاں میں بھی کچھ دنوں سے یہی سوچ رہا ہوں لیکن آج کل کے دور میں اچھے اور پڑھے لکھے لڑکوں کے رشتے ملنا بہت ہی زیادہ مشکل ہے کیونکہ ہماری بیٹی پڑھی لکھی ہے اس وجہ سے اس کا ہمسفر بھی پڑھا لکھا ہی ہونا چاہیئے تاکہ وہ ایک دوسرے کو اچھے سے سمجھ سکیں ۔

حاجرہ نے کہا اگر آپ کہیں تو میں کسی رشتے کرانے والی سے بات کروں ججی نے کہا ہاں کر لو پر لڑکا ہماری بیٹی شازیہ کی طرح ہی پڑھا لکھا اور ہونہار ہونا چاہیے ۔ حاجرہ نے کہا ہاں ہاں میں سمجھ گئی۔ یہ کہہ کر ججی کمرے میں چلا گیا اتنے میں قمر ہاتھ میں ایک پیپر لے کر گھر آیا اور ججی کو سلام کرنے کے بعد بولا ابو یہ دیکھو مجھے نوکری مل گئی ہے ججی نے اللّٰہ کا شکر ادا کرتے ہوئے پیپر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے بیٹا یہ کیا ہے میں تو پڑھا لکھا نہیں ہوں تم ہی بتا دو کیا لکھا ہے اس میں قمر نے کہا ابو میں نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کے لیئے اپلائی کیا تھا اور کچھ دن بعد انہوں نے مجھے بلایا تھا اور میں وہاں انڑویو دے کر آیا تھا اور آج انہوں نے مجھے پھر سے بلایا تھا اور جب میں وہاں گیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے مجھے جاب رکھ لیا ہے یہ اسی کا لیڑ ہے ۔ اب کل سے میں جاب پر جاؤں گا ۔ ابھی ججی اور قمر یہ باتیں کر رہے تھے کہ وہاں شازیہ بھی آگئ قمر نے فوراً شازیہ کی طرف دیکھتے ہوئے پیپر شازیہ کو دیا اور کہا آپی یہ دیکھو۔ شازیہ نے پیپر پڑھا اور وہ بہت خوش ہوئی اور ججی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ابو بھائی کو نوکری مل گئی ہے ججی کی آنکھوں میں آنسوں تھے اور ججی نے بنا بولے ہی ہاں میں سر ہلا دیا اور پھر بولا دیکھا بیٹی اب وہ کاندھا میرے تمہارا بھائی میرے ساتھ ملا چکا ہے اب تمہیں بلکل بھی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔


قمر نے ججی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ابو آپ رو کیوں رہے ہیں ۔ ججی نے کہا ارے پگلے یہ تو خوشی کے آنسوں ہیں یہ کہتے ہوئے ججی نے قمر اور شازیہ کو گلے سے لگا لیا اتنے میں حاجرہ بھی کمرے میں آئی اور ججی نے اپنی آنکھوں سے آنسوں صاف کرتے ہوئے جلدی میں قمر کی جاب کا لیڑ حاجرہ کو دیکھاتے ہوئے کہا حاجرہ یہ دیکھو ہمارے قمر کو اچھی جگہ نوکری مل گئی ہے حاجرہ نے بھی خوشی سے قمر کا ماتھا چومتے ہوئے اسے دعائیں دی اور پھر شازیہ کے سر پر بھی ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ماشاءاللہ اب میری بچی کی شادی بھی ہم دھوم دھام سے کریں گے ۔ حاجرہ کی یہ بات سن کر شازیہ حاجرہ کے گلے لگ کر رونے لگی ۔ حاجرہ نے کہا ارے نا بیٹی نا روتے نہیں ہیں اب تو ہماری خوشیوں کے دن آنے والے ہیں ۔ ججی نے کہا انشاء اللّٰہ انشاء اللّٰہ ضرور ۔


اور پھر کچھ مہینوں کے بعد ایک روز ججی نے حاجرہ سے کہا یار بہت سے رشتے دیکھے ہیں پر پتا نہیں کیوں کوئی رشتہ نہیں مل پا رہا حاجرہ نے کہا آپ بھی تو ہر بار دیکھ کر کہتے ہو لڑکے میں یہ نہیں ہے لڑکا ایسا ہے ویسا ہے اب تو رشتے والی نے بھی کہہ دیا ہے کہ اپنی بیٹی کے لیئے آپ خود ہی رشتہ ڈھونڈو میں نے تو جتنے رشتے دیکھانے تھے دیکھا چکی اب مجھے معاف کرو ۔ ججی نے کہا ہاں پر پتا نہیں کیوں ہمیں شازیہ کے مطابق رشتہ کیوں نہیں مل پا رہا ۔ حاجرہ نے کہا میں تو اب شازیہ کو لے کر بہت پریشان ہو رہی ہوں پتا نہیں کیا لکھا ہے اس کے نصیب میں ۔ ججی نے کہا دیکھو تم دل نہ چھوٹا کرو اللّٰہ بہتر کرے گا ۔ یہ کہہ کر ججی کام پر چلا گیا اور وہاں بیٹھ کر سوچ میں پڑ گیا ۔ جب ججی کے مالک نے ججی کو ایسے سوچ میں پڑے ہوئے دیکھا ۔۔
.............................
قسط نمبر 2 پڑھنے کے لیے کلک کریں
............................ 
............................  

Urdu Stories Keywords
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories for adults only, Urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے