شانتی دیوی اور جنگلی ہاتھی
ہندوستان کے ایک قدیم گاؤں میں تین نوجوان لڑکوں نے ایک خوبصورت بچی کو اغوا کر لیا، اس کی عمر صرف بارہ سال تھی، جب اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کرنے والے تینوں نوجوانوں کو ایک جنگلی ہاتھی نے کچل کر مار ڈ ا لا، بچی نے دس سال اس جنگل میں اس ہاتھی کیساتھ گزار دئیے، ایک دن کچھ شکاری ہاتھی کا شکار کرنے جنگل میں پہنچے تو انہوں نے جھیل میں ہاتھیوں کیساتھ ایک برہنہ لڑکی کو نہاتے دیکھا توحیرت کے مارے ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہانی ایک ایسی دوشیزہ کی ہے جس کی جوانی ایک ہاتھی کیساتھ گزر گئی جو اس کی عزت کا رکھوالا بن گیا تھا۔اس گاؤں کے نام کے بارے میں زیادہ معلومات تو نہیں لیکن وہاں پچاس ساٹھ چھونپڑیوں اور دو سو سے زیادہ ہندو آباد تھے۔ یہ علاقہ جنگل کے بیچ و بیچ کافی اونچائی پر تھا ، اس لیے اکثر ہونے والی برسات کے
باوجود ابھی تک سیلابی ریلوں سے بچا ہوا تھا۔
لال دیو جو اس قبیلے کا سردار جانا جاتا تھا کےہاں شادی کے بیس سال بعد ایک بچی نے جنم لیا، جو انتہائی خوبصورت اور سرخ و سفید رنگت کی وجہ سے کسی شہزادی سے کم نہیں تھی۔ گاؤں کے لوگ پھل اور سبزیاں اگایا کرتے تھے، اور ضروریات زندگی کے بیشتر اشیاء جنگل سے با آسانی حاصل کی جاتی تھیں۔
لال دیو نے اپنی بیٹی کا نام شانتی دیوی رکھا، جب اس کی عمر بارہ سال ہوئی تو وہ اپنی عمر کے حساب سے بڑی لگتی تھی، اوربھرپور جوانی کے جھلک نے اس کے حسن کو چار چاند لگا دئیے۔یہ سردیوں کی ایک تاریک رات تھی، جب ایک ہندو نے لال دیو کی چھونپڑی کے باہر فریاد کے انداز میں واویلہ شروع کر دیا، تھوڑی ہی دیر میں وہاں بیس پچیس افراد جمع ہو گئے، اس ہندو فریادی سے جب معاملہ دریافت کیا گیا تو اس نے ایک دل دہلا دینے والی کہانی سنا ڈ الی۔
اس ہندو کی نوجوان لڑکی کو گاؤں کا ایک لڑکا بہلا پھسلا کر جنگل میں لے گیا۔ جہاں اس کے کچھ اوباش دوست پہلے سے چھپے ہوئے تھے، ان تینوں نے اس نوجوان لڑکی کیساتھ باری باری ہم بستری کی اور جب لڑکی بے ہوش ہوگئی تو اس ہندو کی چھونپڑی کے سامنے ڈ ال کر بھاگ گئے۔
لڑکی بے ہوش تھی اور سردی کی شدت کی وجہ سے اس کا جسم اکڑ چکا تھا، جب اسے ہوش آیا تو لڑکی نے چیخ و پکار شروع کر دی، گھر والوں اور کچھ لوگوں نے اس لڑکی کو برہنہ حالت میں اٹھایا اور ایک چھونپڑی میں آگ جلا کر اس لڑکی کی جان بچائی۔
لال دیو کا چہرہ غصے سے سرخ ہو چکا تھا اس کی آنکھیں انگارے برسا رہی تھیں۔اس نے فوراً اپنے کچھ خاص لوگوں کو حکم دیا کہ ذمہ داروں کو کل پنڈال میں گرفتار کر کے حاضر کریں، کل ہی اس بات کا فیصلہ سنایا جائے گا اور سب کے سامنے مجرموں کو سزا بھی سنائی جائے گی۔
صبح کے وقت پورا گاؤں پنڈال میں جمع تھا، رات ہی ان اوباشوں کر پکڑ لیا گیا تھا اور اب ایک درخت کے ساتھ باندھ کے رکھا ہوا تھا۔ان تینوں کو کوڑے مارے جارہے تھے اور وہ چلا رہے تھے اور رحم کی بھیک مانگ رہے تھے، لیکن لال دیو ان کو عبرت کا نشان بنانا چاہتا تھا۔آخر اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا اور ان تینوں کو گاؤں سےنکال دیا گیا۔
دل میں نفرت کی آگ لیے وہ تینوں جنگل میں غائب ہو گئے، ان کی ساری زندگی اسی جنگل میں گزری تھی اس لیے وہ ایک محفوظ مقام پر چلے گئے، اور ایک خفیہ سرنگ میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا، اس جنگل میں ہاتھیوں کے چند گروہ بھی تھے، جنگل بہت گھنا اور میلوں پر پھیلا ہوا تھا۔
لال دیو کی بیٹی اکثر اپنی سہیلوں ساتھ کھیل کود میں مصروف رہتی تھی، گاؤں کے لڑکے اس کو دیکھ کر نظر جھکا کر گزر جاتے تھے۔ایک دن شام کو ہی ہر طرف تاریکی چھا گئی، لال دیو کی بیٹی شانتی دیوی بھی کھیل میں مگن تھی کہ اسے احساس ہی نا ہوا کہ وہ کافی دور نکل آئی تھی اور ایک جھاڑی کی اونٹ میں چھپی بیٹھی تھی، اس کی ایک سہیلی کافی دیر اسے ڈھونڈتی رہی لیکن شانتی چھپی رہی۔
اچانک ایک آدمی نے شانتی کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور اسے اٹھا کرتیزی کے ساتھ ایک جانب دوڑ لگا دی، کچھ دور اس کے باقی ساتھی بھی چھپے ہوئے تھے، یہ وہی تینوں لڑکے تھے جن کو لال دیو نے سزا کے طور پر گاؤں سے نکال دیا تھا اور انہوں نے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے گاؤں کے سردار لال دیو کی بارہ سالہ بیٹی کو اٹھا لیا اور اس کے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا کہ وہ چلا نہ سکے۔
وہ تینوں ساری رات چلتے رہے وہ اس گاؤں سے کئی میل دور نکل گئے، صبح کی روشنی پھیل رہی تھی لیکن جنگل میں ابھی تک تاریکی تھی، وہ تینوں سارا دن چلتے رہے، بس کھانے کے لیے یا کچھ دیر آرام کے لیے رکتے تھے، شانتی دیوی کو بھی کچھ کھلا دیا تھا لیکن وہ پریشان تھی کہ یہ کون لوگ ہیں۔وہ نوجوانی کے عمر سے پہلے ہی نوجوان لگتی تھی، ان تینوں کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں تھے، وہ حوس بھری نظروں سے اس کے طرف دیکھتے ، لیکن پہلے وہ بہت دور نکل جانا چاہتے تھے۔
تینوں بڑی بے صبری کیساتھ اس پل کا انتظار کر رہے تھے جب وہ اپنے دل میں لگی انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرتے۔اچانک بارش شروع ہو گئی اور سب کے لباس پوری طرح گیلے ہو گئے، شانتی دیوی کے جسم پر لباس بارش میں گیلا ہو کر جسم سے چپک رہا تھا اور اس کا جسم برہنہ ہو رہا تھا۔وہ ایک گھنے درخت کے تنے کی آڑ میں بیٹھ گئے، انہوں نے لڑکی کے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔
لیکن پاؤں اس لیے کھول دیئے تھے کہ وہ خود بھی اسے اٹھا اٹھا کر تھک چکے تھے، اب شانتی دیوی مجبوراً ان کیساتھ چلتی آئی تھی، ان میں سے ایک پھلوں کی تلاش میں ایک طرف چلا گیا، اور دوسرا بھی رفع حاجت کے لیے کچھ دور ایک جھاڑی میں گھس گیا۔تیسرا نوجوان شانتی دیوی کے پاس آ گیا اور اس کی جسم کو حوس بھری نظروں سے دیکھنے لگا، اور اسے اپنی طرف کھنچ لیا، وہ اس لڑکی کیساتھ زبردستی کرنے لگا، وہ نوجوان کافی طاقتور تھا اس لیے شانتی دیوی جیسی نازک سی کلی اس کی باہوں میں پھڑ پھڑا کر رہ گئی۔
اس نوجوان نے اس کے کپڑے پھاڑ دئیے، اچانک شانتی دیوی کا پاؤں اس نوجوان کے زیری حصے پر پڑا اور وہ چیختا ہوا دور جا گرا، اس کے لیے اتنا موقع کافی تھا، وہ اٹھی اور ایک طرف دوڑ لگا دی۔اس کا جسم برہنہ ہو رہا تھا اور ہاتھ باندھے ہونے کی وجہ سے اسے دوڑنے میں مشکل پیش آ رہی تھی، لیکن اب وہ کافی دور آ گئی تھی، اس لیے ایک درخت کے نیچے رک کر لمبی لمبی سانس لینے لگی۔
اس کے دل کی دھڑکن اس قدر تیز تھی کہ اس کا جسم بھی کانپ رہا تھا، وہ سمجھ گئی کہ اگر وہ ان تین بدمعاشوں کے ہتھے چڑ ھ گئی تو وہ اس کیساتھ کیا سلوک کریں گے، اچانک اسے پاس ہی جھاڑیوں سے سرسراہٹ کی آواز سنائی دی، وہ ایک دم سے دبک کر بیٹھ گئی، وہ تینوں شکاری کتوں کی طرح اسے تلاش کر رہے تھے، اب اس کا سانس بحال ہو چکا تھا، اس نے جلدی سے ایک طرف دوڑ لگا دی اور ایک پتھر سے ٹکرا کر کر گئی، وہ تینوں اسے گرتا ہوا دیکھ چکے تھے۔
وہ مسلسل گہرائی میں گرتی چلی گئی، اس کے جسم پر جگہ جگہ خراشیں آ گئیں تھیں، اس کے پیروں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور وہ درد سے کراہنے لگی، وہ تینوں اس کے سر پر پہنچ گئے، ان میں سے ایک نے اسےاپنے کاندھوں پر اٹھا لیا اور ایک گھنے درخت کے نیچے لے گئے، ایک نے کہا: بس اب بہت ہو گیا، ہم گاؤں سے اتنا دور آ گئے ہیں کہ اب کوئی ہمیں ڈھونڈ نہیں پائے گا، ہمیں جلد از جلد اپنا کام پورا کر لینا چاہیے۔
باقی دو کی باچیں کھل گئی اور ان نے چہروں پر شیطانی مسکراہٹ دوڑ گئی، وہ باری باری اس لڑکی شانتی دیوی کیساتھ اپنی حوس کی پیاس بجھا نا چاہتے تھے، لیکن شانتی دیوی زخمی ہو چکی تھی اور بے سدھ ایک طرف پڑی تھی، وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔ایک آدمی آگے بڑھا اور اسے للچائی نظروں سے دیکھنے لگا، اس کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں تھے، وہ اس کے قریب چلا گیا باقی دونوں ایک طرف چلے گئے، اس لڑکی کا لباس تار تار ہو چکا تھا، اس آدمی نے اسے مکمل برہنہ کر دیا۔
وہ حوس کا پجاری اس کی زندگی برباد کرنے والا تھا کہ اچانک ایک طاقت ور ہاتھی کی چنگاڑ سن کر بدحواس ہو گیا، جب اس آدمی نے ایک ہاتھی کو اپنے سامنے دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہوگئے، اس نے لڑکی کو چھوڑا اور ایک طرف سرکنے لگا، لیکن ہاتھی نے اپنی سونڈ کا ایک بھرپور وار کیا اور وہ چیختا ہوا ایک درخت کے تنے سے ٹکرایا اور وہیں ڈھیر ہو گیا، باقی دونوں بھی اس صورتحال سے بدحواس ہوچکے تھے، وہ اپنے ایک ساتھی کی عبرت ناک موت کا منظر دیکھ چکے تھے۔
ہاتھی نے ایک نظر برہنہ لڑکی کو دیکھا جو بے حس و حرکت لیٹی ہوئی تھی، ہاتھی فلگ شگاف آواز میں چنگاڑتا ہوا باقی دونوں آدمیوں کی جانب بڑھا ، وہ دونوں خوف سے کانپ رہے تھے ایک تو لڑکھڑا کر وہیں گر پڑا، ہاتھی خون خوار اندار میں اس کو کچلتا ہوا تیسرے آدمی کی جانب بڑھا، گرنے والے کے جسم کی ہڈیوں کی ٹوٹنے کی آوازیں سنائی دی اور اس کی چیخ بھی نہ نکل سکی اور وہ دم توڑ گیا، ہاتھی تیسرے آدمی کی جانب بڑھا، وہ آدمی جان بچانے کے لیے ایک درخت پر چڑھنا چاہتا تھا، لیکن ہاتھی نے اس کا پیر اپنی سونڈ میں لپیٹ لیا اور اسے کھنچ کر زمین پر دے مارا۔
اس کا حشر بھی دوسرے آدمی جیسا ہوا، ہاتھی نے منوں وزنی پیر اس کے سینے پر رکھ دیا، اس کا جسم پھٹ گیا اور اس کی آنکھیں باہر کو ابل آئیں، تینوں مردہ حالت میں اس سنسان جنگل میں نیست و نابود ہو چکے تھے، ہاتھی وہاں سے واپس لوٹا، اور شانتی دیوی کے پاس آ کر رک گیا، وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی، لیکن اس کا جسم لباس سے بے نیاز ہو چکا تھا۔ہاتھی نے کیلے کے ایک درخت کے کچھ پتے توڑے اور اس کا برہنہ جسم ڈھانپ دیا۔اچانک دو ہاتھی ایک درخت کو اونٹ سے نکل کر سامنے آگئے، ان کی چنگاڑ سے پورا جنگل لرز اٹھا۔
شام کا وقت تھا، اچانک شانتی دیوی کے جسم میں حرکت پیدا ہوئی اور اس نے آنکھیں کھول دیں، اس کا جسم جھول رہا تھا، اس نے جب دیکھا توخود کو ایک ہاتھی پر سوار پایا، اچانک اسے یاد آیا کہ وہ ان تینوں سے ڈر کر بھاگی تھی اور گر کر گہرائی میں چلی گئی تھی اس کے بعد کیا ہوا اسے کچھ معلوم نہ تھا اور اب ہا تھی کی پیٹھ پر سوار حیران بھی تھی کہ یہاں کیسے پہنچ گئی۔ابھی وہ اس کشمکش میں تھی کہ ہاتھی ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔وہ سمجھ رہی تھی کہ ہاتھی کا رویہ دوستانہ تھا، وہ نیچے اتر آئی اور ہاتھی کے پاس آ گئی اور شکریہ کے انداز میں اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔
اس کے جسم پر لباس نہیں تھا، اور جسم ڈھانپنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔وہ پریشان تھی کہ اب گھر کیسے جائے گی، اسے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس وقت جنگل میں کتنی دور آ چکی ہے، اسے بھوک بھی لگ رہی تھی، اس نے کچھ کھانے کے لیے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں، اچانک اس کی نظر کیلوں کی ایک ڈھیر پر پڑی، جو شاید ہاتھیوں نے اس کے لیے جمع کیے تھے۔اس نے کیلے کھا کر بھوک مٹائی، رات ہوئی تو اسے اس بات کا بھی خطرہ تھا کہ کہیں کوئی جنگلی جانور ادھر نکل آیا تو اس کی خیر نہیں۔
اچانک وہی ہاتھی اس کے سامنے جھک گیا، وہ سمجھ گئی اور ایک بار پھر ہاتھی پر سوار ہو گئی، اس نے رات اسی ہاتھی پر سو کر گزار دی، دور کہیں جنگلی بھیڑیوں اور کبھی کبھی کسی شیر کی گرج دار آواز بھی سنائی دیتی تھی، پہلی رات وہ بہت خوف زدہ تھی۔اگلے دن وہ یہ بات سمجھ چکی تھی کہ اگر زندہ رہنا تو اسے اپنے لیے خود سے کچھ کرنا ہو گا، اس نے سب سے پہلے اپنا جسم ڈھانپنے کے لیے بڑے پتے لیے اور اس سے اپنا جسم ڈھانپ لیا اور باریک لمبی شاخوں سے جسم پر بڑے پتوں کو باندھ لیا۔
دن ایسے ہی گزرتے گئے وہ ان ہاتھیوں کے ساتھ رہنے لگی، وہ بھی اس کیساتھ مانوس ہو چکے تھے، وہ اپنے لیے ایک جھونپڑی بنا چکی تھی اور اب کھانے کا بھی کوئی مسئلہ نہ تھا، اسے شکار کرنا بھی آ گیا تھا، نہانے کے لیے آبشار اور جھیل تھی، اسے اپنے ماں باپ اور سہیلیوں کی بہت یاد آتی لیکن صبر کے سوا کچھ بھی نہ کر سکتی تھی۔
بہت سال بیت گئے، اب وہ مکمل جوان لڑکی بن چکی تھی، پہلے سے کہیں زیادہ حسین اور صحت مند اور مضبوط جسم کی مالک بن گئی، ایک دن جب وہ ہاتھی کیساتھ پانی میں نہا رہی تھی تو اچانک گولی چلنے کی آواز پر چونک گئی اور ہاتھی پر سواہو کر پانی سے باہر نکل آئی، کچھ ہی دیر میں چار شکاری اس کے سامنے کھڑے تھے، اور ایک حسین دوشیزہ کو ہاتھی پر سوار دیکھ کر ایک دم سکتے میں آ گئے، وہ ان کے پاس آئی اور اپنی زبان میں ان سے مخاطب ہوئی، بارہ سال کے بعد آج اس نے انسانوں کو دیکھا تھا، اسے ایک طرف خوشی بھی تھی اور دوسری طرف خطرہ بھی تھا کہ کہیں وہ لوگ اس کے ساتھ کچھ ایسا ویسا نہ کریں۔
ان میں سے ایک شکاری آگے بڑھا وہ اس کے زبان سمجھ گیا اور اسے بتانے لگا کہ ہم شکاری نہیں ہیں، ہم ایک لڑکی کی تلاش میں ہیں، جو آج سے بارہ سال پہلے فلاح گاؤں سے اغوا کر لی گئی تھی، اور برسوں کی تلاش کے بعد انہیں آج یہ لڑکی نظر آئی تھی۔وہ حیران تھے کہ اس گھنے جنگل میں لڑکی کون ہے؟ کیا یہ وہی ہے جس کی انہیں تلاش ہے؟
شانتی دیوی اس آدمی کی بات سن کر فرط جذبات سے مسکرا اٹھی، اور اس پر جو بیتی سب بتا دی، وہ آدمی خوشی سے جھوم اٹھا اور بتانے لگا کہ پچھلے بارہ سالوں سے وہ اسے تلاش کر رہے ہیں اور اس تلاش میں بہت سے لوگ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔گاؤں کا سردارلال دیو اس آدمی کا گہرا دوست تھا اور اس آدمی نے وعدہ کیا تھا کہ لال دیو کی بیٹی کو تلاش کرے گا، کیونکہ یہ آدمی جنگل کی کونے کونے سے واقف تھا۔انہوں نے اس لڑکی کو ایک مردانہ لباس دیا، اور اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔
اس آدمی کیساتھ اس کا نوجوان بیٹا بھی تھا جو اس مہم میں شامل تھا، واپسی پر اس نے شانتی دیوی کا بہت خیال رکھا، شانتی دیوی کیساتھ وہ ہاتھی بھی تھا جو اس کی حفاظت کرتا رہا تھا، شانتی دیوی کو وہ نوجوان بہت اچھا لگا، خود شانتی دیوی بھی لمبےعرصے سے کسی نوجوان کی قربت کے خواب دیکھ رہی تھی، تیں دن کی مسافت کے بعد وہ لوگ گاؤں پہنچ گئے ، لوگ گھروں سے باہر نکل آئے، اور ایک لڑکی کو ان کیساتھ دیکھ کر سمجھ گئے کہ سردار کی بیٹی واپس آ گئی ہے، وہ رات اس گاؤں کیں خوشی اور جشن کی رات تھی۔شانتی دیوی کی شادی اس نوجوان سے کر دی گئی۔
امید ہے آپ کو آج کی یہ کہانی بہت پسند آئی ہو گئی، مزید اچھی اچھی کہانیوں کے لیے ہمارے اس چینل کو سبسکرائب کرنا مت بھولیں۔
-----------------------------
Urdu Stories, Urdu Kahani, Hindi Stories, Stories in Urdu
0 تبصرے