شادی کا دھوکہ دیکھنے والوں کی تعداد - 3240

Sublimegate Urdu Stories

انیس پڑھا لکھا اور خوبصورت نوجوان تھا۔ ہمارے محلے میں کرایہ دار بن کر آیا۔ ابو سے علیک سلیک ہو گئی۔ والد صاحب کو اس نوجوان میں کافی گن نظر آئے۔ اسے گھر لائے اور والدہ سے ملوایا کہ دنیا میں اکیلا تھا اور اس کا کوئی رشتہ دار ملنے نہیں آتا تھا سوائے دوستوں کے … تبھی تنہائی محسوس کر محسوس کرتا تھا۔ دوستوں سے ملاقات اور بات ہے اور فیملی میں رہنے کا سکھ ایک دوسری بات ہے۔ میرے والدین نے اسے ماں ، باپ کا پیار دیا۔ 

ایک روزا بونے کہا کہ انہیں اچھا لڑکا ہے، کیوں نہ ہم صوفیہ کی شادی اس نوجوان سے کر دیں اور اس کو اپنا فیملی ممبر بنا لیں۔امی ابو نے اسے بیٹ بنالیا تھا اور اب رشتے کے بارے سوچ رہے تھے۔ ابرار بھائی اس بات سے متفق نہ ہوئے۔ کہنے لگے ۔ ابو ، بے شک انیس اچھا لڑکا ہے، اچھی پوسٹ پر ہے، مہذب اور شریف بھی ہے لیکن اس کے خاندان کا کچھ اتا پتا نہیں ہے۔ آپ نے اسے بیٹا تو بنالیا لیکن داماد بنانے سے پہلے ہزار بار سوچنے۔ کیا آپی کا انجام بھول گئے ہیں ؟ ہاں ! واقعی غیروں پر بھروسہ کرنا درست نہیں ہوتا۔ ایک بار چوٹ کھائی ہے ، اب تو احتیاط کرنی چاہئے۔ یہ کہتے ہوئے والدہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ دراصل راصل بھائی نے آپی کا ذکر کر کے بیتے دنوں کی یاد دلادی تھی۔ 

ربیعہ آپی ہماری خوبصورت اور پیاری بہن کو ہم سے بچھڑے کئی برس گزر چکے تھے۔ اپنے شوہر کے گھر سے ایسی غائب ہوئیں کہ پھر ان کا سراغ نہ ملا۔ جب بھی ان کا خیال آتا، روح زخمی ہو جاتی اور دل میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگتی تھیں۔ پندرہ برس قبل آپی ربیعه کارشتہ ایک واقف کار کے توسط سے آیا تھا۔ وہ لوگ ملتان اور ہم تونسہ شریف کی ایک بستی میں رہا کرتے تھے۔

 والدین نے چاچا علم دین پر بھروسہ کرتے ہوئے بیٹی کا رشتہ رحیم داد سے طے کر دیا۔ چاچا علم دین ہمارے گائوں کے رہنے والے تھے ۔ والد صاحب کے کلاس فیلو ر ہے تھے اور عرصے سے ملتان میں سکونت پذیر ہو گئے تھے۔ آپی کارشتہ طے کر دیا گیا اور وہ بیاہ کر تونسہ شریف ملتان چلی گئیں۔ چاچا علم دین نے صحیح کہا تھا وہ اچھے لوگ تھے اور امیر گھرانوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ آپی کو ساس، سسر کا پیار ملا اور شوہر کا بھی۔ وہ خوش اور مطمئن تھیں تو ہم بھی مطمئن ہو گئے۔ آپی کو شوہر کے گھر زندگی کی ہر آسائش میسر آگئی۔ جب ہم لوگ پہلی بار رحیم داد کے گھر ملتان گئے، انہوں نے بہت عزت اور خاطر تواضع کی والدین تو پھولے نہ سماتے تھے کہ اللہ تعالی نے بیٹی کا نصیب سنوار دیا ہے۔ ایسا مہذب اور خوشحال گھرانہ عطا کیا کہ بہت کم خوش نصیبوں کو ملتا ہے۔

کہتے ہیں کہ دن سدا ایک سے نہیں رہتے۔ کبھی خوشی کبھی غم، یہ تغیر و تبدل تو زمانے کا خاصہ ہے لیکن میری بہن کی زندگی میں خزاں کا پہلا جھونکا اس وقت آیا جب ہمارے دولہا بھائی رحیم دادرات کو دیر سے گھر آنے لگے ۔ آپی نے سوچا آفس میں کام زیادہ ہو گا لیکن یہ تو روز کا معمول ہو گیا۔ وہ شوہر سے دیر سے آنے کا سبب پوچھتیں تو خفا ہونے لگتے، حتی کہ مار پیٹ کرنے لگے۔ آپی ربیعہ صبر والی تھیں۔ امی ابو کو نہ بتاتیں کہ یہ سب کچھ تو ہمارے معاشرے میں آئے دن عورت کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ وہ ہر ظلم سہتی رہیں او ظلم سہتی رہیں اور اف تک نہ کی۔ سسر کا انتقال ہو گیا۔ 

ساس ضعیفی کے باعث بیٹی کے پاس چلی گئیں بلکہ بیٹی آکر لے گئی کہ اپنی والدہ کی خدمت میں خود کروں گی۔ یہ دونوں شفیق ہستیاں ایسی تھیں جو آپی کے سر پر سائبان کی طرح تھیں۔ جب سائبان نہ رہا، رحیم داد کی بن آئی۔ زمین، جائداد، روپیہ پیسہ سبھی کچھ اس کی دسترس میں تھا۔ بالآخر ایک روز وہ ایک طوائف کو گھر لے آیا تب ربیعہ آپی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ ایک بنی سنوری عورت آنکھوں کے سامنے آ بیٹھی تھی۔ ہمارے بہنوئی نے کہا۔ یہ میری دوسری بیوی ہے۔ اسے سلام کرو، اب یہ ہمارے ساتھ رہے گی۔ اگر یہ دوسری بیوی ہے تو اسے دوسرا گھر لے کر دو، یہ ہمارے ساتھ اس گھر میں نہیں رہے گی ورنہ میں چلی جاتی ہوں ۔ آپی سے برداشت نہ ہو سکا۔ یہ تو اسی گھر میں رہے گی اگر تم نے نہیں رہنا تو مت رہو، جہاں چاہے چلی جائو۔ شوہر نے جواب دیا۔

 آپی تو اس وجہ سے اپنے دکھ نہ بتاتی تھیں کہ والدین کو تکلیف نہ ہو اور امی ابو اس فکر میں غلطاں کہ از خود کیسے مداخلت کریں۔ بالآخر ایک روز رحیم داد کا فون آگیا کہ تمہاری بیٹی گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ والد نے پوچھا کہاں گئی ہے ، ہماری بیٹی ایسا نہیں کر سکتی۔ بھائی نے امی ابو کو ملتان بھیجا۔ آپی کے بچے سہمے ہوئے تھے ، انہوں نے بتایا کہ اس عورت کی وجہ سے ابو نے ہماری ماں کو مارا پیٹا تھا پھر شام کو مونچھوں والے انکل آئے تھے اور امی کو گاڑی میں بٹھا کر لے گئے تھے۔ والد صاحب کو داماد نے کہا کہ وہ خود اپنی مرضی سے مجھے بتائے بغیر چلی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ کے پاس پہنچی ہو گی اور آپ نے اسے کہیں چھپادیا ہے تا کہ مجھ پر مقدمہ کر سکیں۔ والد صاحب نے بھانپ لیا کہ حالات سنگین ہیں تو انہوں نے پولیس اسٹیشن جاکر رپورٹ درج کروائی لیکن رحیم داد کافی امیر اور اثر ورسوخ والا آدمی تھا۔ اس نے پولیس کو دے دلا کر چپ کرادیا۔ والد صاحب ملتان میں دھکے کھا کر آگئے۔ انہوں نے کافی کوشش کی کہ کسی طریقے سے ان کی گمشدہ بیٹی کی خبر مل جائے مگر ربیعہ آپی کا کوئی سراغ نہ ملا۔

خدا جانے ہماری بہن کے ساتھ کیا ہوا۔ اسے بیچ دیا گیا یا کہیں غائب کیا گیا، زمین کھا گئی کہ آسمان نگل گیا … الٹا الزام ہم پر لگا دیا کہ بیٹی کو تم لوگوں نے خود رو پوش کیا ہے۔ آپی کو ہم سے بچھڑے کئی برس بیت چکے ہیں۔ ہم آج بھی اسی اس پر جی رہے ہیں کہ کبھی تو وہ لوٹ کر آئیں گی۔ ایک روز انیس کے دوست ابو سے ملنے آئے۔ وہ بھی ان کے ساتھ محکمے کے آفیسر تھے۔ انہوں نے ارادہ ظاہر کیا کہ انیس آپ لوگوں سے رشتہ داری کا خواہاں ہے اور اس مقصد کیلئے خاص طور پر مجھے بھیجا ہے تا کہ اس کا مدعا بیان کروں۔ والد صاحب نے کہا۔ ارشاد بیٹا، سوچ کر جواب دوں گا۔ پھر ابو ، امی اور بھائی کی میٹنگ ہوئی۔ ابرار بھائی مان کر نہ دے رہے تھے کہ انیس جب تک کسی اپنے خاندان کے فرد سے نہ ملائے گا، صوفیہ کا رشتہ نہیں دیں گے۔

 ربیعہ کے بارے بھی آپ لوگوں کی یہی غفلت ہوئی تھی کہ وہ گم ہو گئی ۔ غیروں سے اپنے بھلے چاہے کم پڑھے لکھے ہوں، غریب ہوں ، تجھے کیوں نہ ہوں ۔ کم از کم ان کے عیب ثواب سے آگا ہی تو ہوتی ہے۔ کچھ دن مسئلہ زیر بحث رہا، بالآخر والد صاحب نے انیس کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ بھائی کو سمجھایا۔ بیٹا، ہر بچی اپنی قسمت لے کر پیدا ہوتی ہے۔ اللہ نے چاہا تو ہماری صوفیہ کی اچھی قسمت ہو گی۔ انیس سے میرا رشتہ ہو گیا اور آئندہ کا معاملہ قسمت پر چھوڑ دیا گیا۔ شادی کے بعد وہ مجھے اپنے بنگلے میں لے آئے۔ واقعی بہت اچھے شوہر اور اچھے انسان ثابت ہوئے۔ خوش اخلاق ایسے کہ اسٹاف کا ہر آدمی ان کی تعریف کرتا تھا۔ ان کے بارے میں ہر کسی کی یہ رائے تھی کہ وہ بہت ایماندار ، دیانتدار اور صاحب حیثیت شخص ہیں۔ انہوں نے مجھے عزت، محبت، توجہ ، احترام اور پیار سبھی کچھ دیا۔ 

ایک دن جبکہ وہ کسی کام سے کراچی گئے ہوئے تھے، کچھ کتابیں ترتیب سے رکھتے ہوئے ان کی ڈائری مجھے مل گئی۔ ایک پیرا گراف پڑھنے پر میں ششدر رہ گئی ۔ حقیقت آشکار ہو گئی کہ انہوں نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا کہ ان کے والدین اور رشتے دار کوئی بھی اس دنیا میں نہیں ہے حالانکہ ان کے والدین اسی دنیا میں تھے اور زندہ تھے۔ انہوں نے ہم سب سے اتنا بڑا جھوٹ کیوں بولا۔ میر اسر گھومنے لگا۔ آخر اس بات میں ایسی کیا مصلحت تھی کہ ان کو ساری دنیا کو دھوکا دینا پڑا۔ جوں جوں سوچتی جاتی تھی، میری الجھن اور پریشانی بڑھتی جاتی تھی۔ میں شدت سے انیس کے کراچی سے لوٹ آنے کا انتظار کرنے لگی۔ ایک ہفتہ کا کہہ گئے تھے لیکن ایک ماہ گزر گیا اور وہ نہ لوٹے تو میری حالت غیر ہونے لگی۔ مجھے ربیعہ آپی کا انجام یاد آنے لگا۔ ان کی بھی تو اسی طرح ایک اجنبی سے شادی ہوئی تھی، بالآخر لا پتا ہو گئیں۔

وہ ایک ہفتہ بعد آگئے۔ میرے تن مردہ میں جان پڑ گئی، جیسے میری زندگی میری خوشیاں لوٹ آئی ہوں۔ اپنی خوشیوں کو بچانے کی خاطر ان سے کوئی سوال نہ کیا۔ ماحول کو نا خوشگوار نہیں کرنا چاہتی تھی۔ سچ ہے سانپ کا ڈسارسی سے ڈرتا ہے۔ آپی کا انجام سامنے تھا۔ دن اسی طرح گزرتے رہے۔ دیکھتے دیکھتے دس برس گزر گئے۔ اس دوران خدا نے دو خوبصورت پھول میری گود میں کھلا دیئے۔ سوچتی تھی کہ اس عرصے میں یہ پھر کراچی نہیں گئے۔ اگر کسی سے تعلق ہوتا تو دوبارہ جاتے۔ ایک دن دفتر سے فون آیا کہ میں کراچی جا رہا ہوں، جلد لوٹ آئوں گا، اپنا اور بچوں کا خیال رکھنا۔ ایک ہفتہ کا کہہ کر گئے اور دو ہفتے بعد لوٹے۔ 
افسردہ افسردہ تھے۔ رات کو سونے سے پہلے میں نے دودھ کا گلاس ان کو دیتے ہوئے پوچھ ہی لیا۔ آپ کافی عرصے بعد دوبارہ کراچی گئے اور واپس آئے ہیں تو پریشان لگتے ہیں۔ کیا بات ہے ؟ میں بستر پر ان کے قریب بیٹھ گئی۔ دیکھئے میں آپ کی شریک میں آپ کی شریک حیات ہوں، کیا میرا یہ حق نہیں ہے کہ آپ کے دکھ سکھ اور پریشانیوں میں حصہ دار بنوں۔ آپ نے مجھے اپنی خوشیوں میں حصے دار بنایا تو پریشانی کے موقع پر بھی مجھے مت بھولئے۔ میں ہر حال میں ثابت قدم رہوں گی۔ اگر دوسری شادی کر لی ہے تو بھی سوکن قبول کرلوں گی لیکن مجھے سچ بتادیجئے۔ میری بات سن کر سوچ میں پڑ گئے ، پھر یوں گویا ہوئے۔ میں نے زندہ رہنے کیلئے دکھ اٹھایا۔ 

اس کا یہ مطلب نہیں کہ کم عمری سے ہی دکھ اٹھاتا آیا ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ پہلوئی کی اولاد ہونے کی وجہ سے سب بڑے بچے کو زیادہ پیار کرتے ہیں مگر میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ میرے ساتھ بالکل الٹ ہوا۔ چھوٹے بھائی کو سب پیار کرتے تھے ، اسی کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ میرے چھوٹے بہن، بھائی اور بھی تھے لیکن واجد کوامی، ابو نے اس قدر چاہا جیسے وہ کوئی خاص بچہ ہو۔ ان کیلئے اسے بڑی دکانوں سے قیمتی برانڈڈ کپڑے لے کر دیتے مگر ہم کو جو مل گیا، لے دیا۔ اس بات پر میرا دل کڑھتا تھا۔ کبھی کبھی احتجاج کرتا تومار کھا لیتا اور واجد جو چاہتا وہی ہو جاتا۔ نہیں معلوم یہ امتیازی سلوک کیوں روارکھا گیا۔ 

واجد منہ زور تھا، وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتا، ابو سے بد تمیزی کرتا تو امی کو غصے میں گالیاں دیتا لیکن دونوں اس کی گستاخیاں برداشت کرتے۔ اسے ۔ اسے ایک بہت اچھے اسکول میں پڑھا رہے تھے جبکہ میں ایسے تعلیمی ادارے میں پڑھنے جاتا تھا جس کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور تعلیم کا معیار بھی گرا ہوا تھا۔ ایک روز جبکہ میرے پاس رجسٹر خریدنے کے پیسے نہ تھے ، ابو سے پیسے مانگے تو انہوں نے ڈیٹ دیا۔ دل بہت دکھا، تبھی میں نے گھر چھوڑ دیا اور اپنے دوست کے گھر چلا گیا۔ اس کے ابو نے میری دلجوئی کی اور ایک اچھے کالج میں داخلہ کر دیا۔ میں انہی کے گھر رہ کر پڑھتا رہا۔ والد صاحب کو انکل اشرف نے فون بھی کیا کہ تمہارا بیٹا ہمارے پاس ہے۔ والد نے پلٹ کر نہ پوچھا اور نہ لینے آئے ۔ والدہ نے فون ضرور کیا لیکن میں نے ان کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔ انکل اشرف نے مجھے دلا سادیا اور کہا جب تک چاہو یہاں رہ سکتے ہو لیکن ایک شرط ہے تم دل لگا کر پڑھو گے ۔ میں نے پڑھائی میں ایسا دل لگایا کہ کلاس میں ٹاپ کیا۔ یوں تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے لاہور میں ملازمت ملی تب کراچی بھی چھوڑ دیا۔ 
انکل اشرف کا انتقال ہو گیا اور میرا دوست بھی ملازمت کے سلسلے میں بیرون ملک چلا گیا تو میں نے ان کے گھر جانا بھی چھوڑ دیا اور اپنے کام سے دل لگا لیا۔ میری محنت اور دیانت کے باعث ترقی کے مواقع ملتے گئے لیکن اپنا، گھر اپنا خاندان نہ مل سکا۔ میں انا پرست تھا، لوٹ کر گھر نہ گیا۔ تم سے شادی کے بعد میں کراچی گیا تا کہ والدین کو یہ خبر سنائوں اور تم کو گھر لے جائوں۔ افسوس انہوں نے تم کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا۔ اگر چا کی بیٹی سے شادی کروگے تو گھر آسکتے ہو۔ یہ چچازاد میری بچپن کی منگیتر تھی اور ابھی تک اس کی شادی نہ ہو سکی تھی۔ والدین کی اس شرط کو قبول کرنے سے میں قاصر تھا۔ تم کو دکھ دینا نہ چاہتا تھا۔ افسردہ ہو کر لوٹ آیا لیکن تم کو کچھ نہ بتایا کیونکہ تم نے بھی کوئی سوال نہ کیا تھا۔

اس بات پر نادم ہوں کہ تم سے شادی جھوٹ بول کر کی تھی۔ جانتا تھا کہ والد میری شادی کسی اور جگہ کرنے پر راضی نہ ہوں گے اور میں شادی تم سے ہی کرنا چاہتا تھا۔ ایک بار تم کو تمہارے آنگن میں دیکھا تو دل میں تمہاری صورت اتر گئی۔ اسی لئے تمہاری والدہ کو رشتے کیلئے کہا کرتا تھا اور خود کو اس دنیا میں تنہا ظاہر کر کے تمہارے والد سے ہمدردی حاصل کر لی۔ بے شک اسے تم فراڈ کہو یا دھوکا لیکن تم کو ہی حاصل کرنے کیلئے یہ سب کیا۔ دس سال تک میں کراچی گیا اور نہ پھر والدین سے ملا۔ ایک روز مجھے میرے ایک دوست نے فون کر کے اطلاع دی کہ واجد کی شادی ہو گئی ہے اور اس نے شادی کے بعد والدین کو گھر سے چلے جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس نے پورے گھر پر قبضہ کر لیا تھا۔ والدین بے چارے بیٹی اور داماد کے گھر پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔ 

میں بہن اور بہنوئی کے گھر گیا اور والدین کی قدم بوسی کی۔ ان کے گلے ملا اور انہوں نے بھی مجھے گلے سے لگا لیا۔ وہ بہت دکھی تھے اور ان کو میری اشد ضرورت تھی۔ میں نے ان کو فلیٹ لے کر دیا۔ آج وہ نادم ہیں کہ انہوں نے واجد سے والہانہ پیار کر کے ہمارے ساتھ زیادتی کی اور اب در بدر ہو گئے ہیں۔ چھوٹا بھائی بیرون ملک تھا، اسے بلا کر والدین کو اس کے حوالے کر آیا ہوں اور تسلی دے کر آیا ہوں کہ فکر نہ کریں، میں بھی ان کی خدمت کیلئے ہم دم حاضر ہوں۔ صوفیہ ، میری سب سے بڑی یہ خواہش ہے کہ تم مجھے معاف کر دو اور میرے والدین کو اپنے والدین سمجھ کر قبول کر لوتاکہ میں سکون سے کام کر سکوں اور اپنے بچوں کو مثالی اولاد بنا کر ان کے سامنے لے جائوں۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئے۔ 
تھوڑی دیر میں خاموش سوچتی رہ گئی بالآخر اپنے شوہر کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر کہا۔ انیس، آپ کی جیسی خوشی، مجھے منظور ہے، جو آپ کہیں گے وہی کروں گی، مجھے آپ کے والدین سے کوئی عناد یا گلہ نہیں ہے بلکہ خوشی ہے کہ یہ قیمتی ہستیاں مجھے اور آپ کو مل گئی ہیں۔ ہم ضرور ان کی خدمت کریں گے بلکہ ہمارے بچے بھی کریں گے۔ خدا ان کو لبی عمر دے، مجھے صرف ان کی دعائیں چاہئیں۔ انیں بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے وہ بنگلہ جو ان کے نام پر تھا، میرے نام کر دیا اور مجھے لے کر کراچی گئے۔ اپنے والدین سے ملوایا، تب میں سوچتی رہ گئی کہ ان کے والدین نے اتنے اچھے بیٹے کے ساتھ کیوں امتیازی سلوک کیا ہو گا۔ میں تو ایسا کبھی نہ کروں گی اور اپنے سارے بچوں کے ساتھ یکساں سلوک کروں گی۔ بڑا بیٹا ہو یا چھوٹا یا کہ بیٹیاں … اولاد تو سبھی پیاری ہوتی ہے۔