میں نے ایسے گھرانے میں جنم لیا، جہاں تکلیف کو حمل اور غربت کو شرافت کے لبادے میں چھپا دیا جاتا ہے۔ کچھ یاد نہیں بچپن کیسے بیتا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں پائی جب ذرا ہوش سنبھالا ، گھر کی فضا کو مکدر پا یا ۔ وجہ والد صاحب کی تنک مزاجی تھی ۔ دنیا نے ترقی کر لی مگر ان پر زمانے کی تیز رفتاری کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ اب بھی اپنی سوچ و چار میں ایسے ہی تھے، جیسے ان کے دادا پر دادار ہے ہوں گے۔
جب سے ہوش سنبھالا ، یہی دیکھا کہ ہمارے والدین میں ہمہ وقت ایک فاصلہ اور خاموشی کی دیوار حائل رہتی ہے۔ خدا جانے ، کب وہ آپس میں مل بیٹھ کر اپنائیت سے بات کرتے تھے۔ ہاں کبھی کسی بات پر اختلاف کی وجہ سے لڑ پڑتے تو اس جھگڑے کا خمیازہ ہم بچوں کو بھگتنا پڑتا اور دنوں تک گھر کی فضا مکدر ، تناؤ بھری بلکہ زہریلی ہو جاتی ، اس کھنچاؤ بھری فضا میں سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا ۔ بات بات پر کبھی اماں، کبھی ابا کے ہاتھوں ہماری پٹائی ہو جاتی۔ ابا کے سامنے تو اتنی ہمت نہ ہوتی کرکھل کر بات کر سکتے ۔ ہماری شوخیاں اور شرارتیں ان کے قدموں کی چاپ میں دب کر رہ جاتی تھی تھیں۔ گھر میں ہم دو بہنیں اور دو بھائی تھے۔ مجھے اللہ نے اچھی صورت دی تھی، تبھی نو خیز عمر میں ہی رشتوں کا تانتا بندھ گیا۔ کبھی خالہ آرہی ہیں تو کبھی پھو پھی ، انہی دنوں میری امی کی خالہ رشتے کے لئے آئیں ۔
میرے والدین نے ان سے وعدہ کر لیا کہ وہ سائرہ یعنی میرا رشتہ ان کے بیٹے مسرور کو دیں گے۔ بس پھر کیا تھا، لڑکیاں مجھ کو اس کے نام چھیڑنے لگیں۔ یہیں سے میرے دل میں منگیتر سے محبت کی ابتدا ہوئی۔ میرا جی چاہتا تھا کہ میں ایک نظر مسرور کو دیکھوں کہ وہ کیسا ہے؟ پھر یہ خواہش دل میں جڑ پکڑتی گئی۔ مجھے اپنے ننھیال والوں سے بہت محبت تھی۔ نانی جان ان دنوں کسی دوسرے شہر میں رہتی تھیں۔ میں اکثر گرمیوں کی چھٹیوں میں اس آس پر وہاں جاتی تھی کہ شاید وہ لوگ بھی وہاں آجائیں۔ میں اکثر اپنی کا پیوں پر ایم ایم لکھتی رہتی ۔ یہ کم عمر لڑکیوں کے مشغلے ہوتے ہیں ۔ میں بھی ان ہی جذباتی لڑکیوں کی مانند خود کو ان مشغلوں سے بہلائے رھتی تھی۔ مسرور کی خیالی محبت نے میرے ارد گرد حصار سا بنا لیا تھا۔ میں نے اپنے روز و شب اس کے تصورات سے سجا رکھے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ میرے ذہن میں اس کی محبت کے نقش گہرے ہوتے جاتے تھے۔ ممکن ہے یہ نو خیز عمر کی خود فریبی ہو ، لیکن ان دنوں تو یہ بات زندگی اور موت کے سوال سے اہم لگتی تھی۔ آخر ایک دن خدا نے میری سن لی۔ ابا جان موٹر سائیکل کے حادثے میں زخمی ہو گئے تو مسروران کو دیکھنے تھوڑی دیر کے لئے ہمارے گھر آیا۔
وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا اور مجھے اس کے سامنے جانے سے گھبراہٹ سی ہو رہی تھی۔ یوں وہ مجھے دیکھے اور بات کئے بناواپس چلا گیا۔ میں نویں جماعت میں تھی کہ خالہ سجو اپنے بیٹے کی منگنی کی رسم کرنے کی غرض سے آگئیں ۔ جب ابا جان کو پتا چلا کہ مسرور صرف آٹھویں تک پڑھا ہے تو انہوں نے اس بات پر میرا رشتہ دینے سے منع کر دیا اور بولے۔ لڑکا میٹرک پاس بھی نہیں ہے۔ میں بیٹی کا رشتہ اس کو کیوں کر دے سکتا ہوں؟ خالہ کو انکار کی توقع نہ تھی کہ بچپن میں بات طے ہو چکی تھی۔ ان کو بہت صدمہ ہوا اور وہ بجھے دل کے ساتھ واپس لوٹ نہیں ۔ ان کے اس طرح افسردہ جانے کا مجھ کو بے حد دکھ ہوا، لیکن میں اس دکھ کا اظہار کس سے کرتی ؟ چپکے چپکے آنسو بہا کر رہ گئی۔ اب میں ہر اپنی ہتھیلیوں ، کتابوں اور کاپیوں کے پنوں پر ایم لکھتی رہتی تھی۔ تبھی سنا کہ اس کی منگنی رشتہ داروں میں ہوگئی ہے ۔ اس خبر کو سن کر مجھے ایسا محسوس ہوا، جیسے کسی نے میری بہت قیمتی چیز چھین لی ہے اور اب میں خالی ہاتھ رہ گئی ہوں ۔ میں نے شادی نہ کرنے کی قسم کھائی۔
جب بھی ہمارے گھر رشتے کے لئے کوئی آتا ، جی چاہتا کہ میں خودکشی کرلوں۔ بچپن سے جس کے خیال نے ذہن میں رنگ بھرے ہوئے تھا، اس کو دل سے نکالنا میرے لئے محال تھا۔ میں نے اپنا غم اپنے دل میں چھپا لیا۔ اب جب بھی کوئی ہم جولی مجھے مسرور کے نام سے چھیڑتی تو میں آنسو پی کر رہ جاتی نہیں چاہتی تھی کہ ان میں سے کسی کو اس بات کا علم ہو کہ میری شادی اب اس سے نہیں ہو رہی ہے تا کہ میری سبکی نہ ہو۔ جب میں نے میٹرک کا امتحان دیا تو سجو خالہ کے بڑے لڑ کے فاضل کی شادی کا بلاوا آگیا۔ اپنے گھر والوں کے ہمراہ میں بھی دھڑکتے دل کے ساتھ اس کی شادی میں گئی ۔ معلوم نہیں تھا کہ مسرور اپنی منگنی ٹوٹنے کے بعد خوش ہے یا نا خوش ؟ میں تو بہر حال خیالی محبت کی آگ میں جل رہی تھی۔ اس کے گھر والوں کا رویہ ہمارے ساتھ اچھا تھا مگر وہ اکھڑا اکھڑا اور خاموش تھا۔ اس نے مجھ سے بالکل بات نہ کی ۔ البتہ اس کی بہن عائشہ میرے ساتھ بہت دوستانہ انداز سے بات کرتی تھی۔ اس کی زبانی پتا چلا کہ بھائی جان منگنی کرنا نہیں چاہتے تھے لیکن والدین نے مجبور کر دیا۔ اب وہ بہت پریشان رہتے ہیں ۔
کسی سے ہنستے بولتے نہیں جیسے کوئی دکھ لگ گیا ہو۔ شاید مجھ سے رشتے سے انکار پر اس کی بھی وہی کیفیت ہوئی تھی ، جو میری ہوئی تھی۔ بارات والے دن اس کو مجھ سے بات کرنے کا موقعہ مل گیا۔ کہنے لگا۔ آپ تو امیر ہیں ، ہم غریب لوگ ہیں ، اسی لئے آپ کے والد نے ہمیں ٹھکرا دیا۔ میں نے اسے اپنی مجبوری بتائی کہ میں والد صاحب کے آگے مجبور ہوں ورنہ بچپن سے دل میں بسا آپ کا خیال دل سے جاتا نہیں ہے۔ بس میں اتنا ہی اظہار کر سکی۔ اس نے بھی اپنے دل کا سارا غبار نکال دیا۔ کہنے لگا کہ یہ کتنا ظلم ہے۔ بچپن سے ہمیں کہا جاتا ہے کہ فلاں لڑکی تیری دلہن بنے گی۔ تبھی آدمی خوابوں اور خیالوں میں اس کے پیکر کو سجائے رکھتا ہے، پھر اچانک پتا چلتا ہے کہ وہ کبھی ہماری نہیں بن سکی گی۔ میں نے مسرور کو نصیحت کی کہ اب تو تمہاری منگنی کسی اور سے ہو چکی ہے۔ تم بچپن کی اس بات کو اور مجھے بھول جاؤ ۔ دوسرے دن ولیمہ تھا۔ ہماری دوبارہ بات چیت نہ ہو سکی اور میں افسردہ دل لئے واپس آگئی۔ وہ ہم کو لاری میں سوار کرانے آیا تھا۔ بس جتنی دیر لاری اڈے پر کھڑی رہی ، وہ بھی بس کی کھڑکی کے پاس کھڑا رہا ۔اس نے مجھ سے فون کرنے کو کہا تھا مگر یہ ایک مشکل کام تھا کیونکہ ہمارے گھر لڑکیوں کے لئے فون کرنا آسان نہیں تھا۔ اچھا خط لکھ دینا۔ وہ بولا ۔ خط لکھنا تو اور بھی ٹیڑھی کھیر ہے کہ اس کو پوسٹ کیسے کیا جائے گا۔ یہ بھی مشکل ہے۔ ایسی باتوں پر سخت پابندیاں ہیں۔
جب سے میں مسرور سے مل کر آئی تھی ، دل اور زیادہ پریشان تھا۔ کچھ دن گزرے تھے کہ وہ ہمارے گھر آگیا اور موقع ملتے ہی ایک چھوٹا سا کاغذ کا پرزہ مجھے تھمادیا، جس پر لکھا تھا کہ اگر تم ساتھ دو، تو میں اپنی منگنی ختم کروادوں گا۔ اس نے اپنی بھابھی کو ساری بات بتا کر التجا کی کہ وہ ہماری مدد کریں۔ اس کی بھابھی نے کچھ ایسی باتیں اس کے سسرال والوں تک پہنچا دیں کہ سچ مچ اس کی منگنی ٹوٹ گئی ۔ اس کی بھابھی ہمارے گھر آئی اور ساری با تیں مجھے بتا کر چلی گئی۔ ان باتوں سے میں پریشان ہو گئی تھی اپنی بہن سے ذکر کر دیا۔ انہوں نے امی جان کو بتادیا۔ امی نے بجائے معاملہ سلجھانے کے ابا جان کے حضور بڑھا چڑھا کر پیش کر دیا کہ ایسا نہ ہو کہ مسرور کی منگنی ٹوٹنے کا الزام ہماری بچی پر لگ جائے اور خاندان بھر میں ہماری عزت دو کوڑی کی ہوکر رہ جائے ۔ ابا جان تو تھے ہی آتش مزاج ، یہ بات سن کر بھڑک اٹھے، حالانکہ بات کچھ بھی نہ تھی۔ نہ میں نے اور نہ مسرور نے محبت کی کوئی ریہرسل کی تھی یا ملاقاتیں کی تھیں۔ قدرت کی طرف سے ہمارے دلوں میں کی جو محبت موجود تھی، وہ بھی انہی بزرگوں کی وجہ سے تھی، جو چاند طرح شفاف تھی۔ مسرور کو اس بات کا غم تھا کہ کم تعلیم کی وجہ سے اس کو ٹھکرا دیا گیا لہذا اس نے آگے پڑھنے کی کوششیں تیز کر دیں اور سپر وائزر کی ٹریننگ بھی لی ۔
اس دوران میں نے بھی ایک اسکول میں بطور ٹیچر ملازمت کر لی ۔ اس دوران ہمارے درمیان ایک سہیلی کے ذریعہ تین خطوط کا تبادلہ بھی ہوا۔ میں نے اسے لکھا کہ رشتہ عزت سے طے کرنا ہے تو اپنے والدین کو پھر سے ہمارے گھر بھیجو۔ اس طرح سجو خالہ ایک بار پھر میرا ہاتھ مانگنے ہمارے گھر آئیں ۔ والد صاحب کو بھی ہماری محبت کا تھوڑا بہت علم ہو چکا تھا لیکن ان کو جو باتیں میرے اور مسیر دور کے بارے میں بتائی گئیں، وہ لگائی بجھائی کے روپ میں تھیں اور بالکل جھوٹ تھیں ، جب کہ ابا جان نے اپنے اور ہم بیٹیوں کے در میان اتنا فاصلہ رکھا ہوا تھا کہ میں ان باتوں کی تردید بھی نہیں کر سکتی تھی ، لہذا جب خالہ دوبارہ رشتہ مانگنے آئیں تو منہ کی کھا کر چلی گئیں۔ ابا جان نے ان کو نہ صرف رشتہ دینے سے انکار کر دیا، بلکہ تلخ لب ولہجہ میں انہیں ، ان کی کم تر حیثیت کا بھی احساس دلایا اور ان کے بیٹے کو نکما ، بد کردار اور نجانے کیا کیا کہہ دیا کہ جس لڑکی سے اس کی منگنی ٹوٹی تھی ، وہ میرے والد کے رشتہ دار تھے۔ مجھ کو بھی میری بہن کے ذریعے کہلوا دیا کہ اگر میں اس رشتے پر مصر ہوں تو وہ مجھے خالی ہاتھ گھر سے چلتا کر دیں گے۔ اس دھمکی نے یہ اثر کیا کہ میں صرف منمنا کر اتنا ہی کہہ سکتی کہ ابا جان میں تو آپ کی مرضی اور رضا پر راضی ہوں۔ میری اپنی کوئی رائے نہیں ہے۔ اس پر بھی ان کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اور انہوں نے مجھ سے بات چیت ہی بند کر دی ۔ امی نے بھی سمجھ داری نہ دکھائی، بلکہ دن رات مجھے طعنوں کا نشانہ بنانے لگیں، یہاں تک کہ بات بے بات مجھے بھی جوتا اور بھی چمٹا کھینچ مارتیں۔
میں حیران تھی کہ میں نے ایسا کون سا قدم والدین کی مرضی کے خلاف اُٹھا لیا ہے کہ ان کی بدسلوکی کی مستحق ٹھہری ہوں۔ اسکول میں ، ایک ٹیچر میرا بے حد خیال کرتی تھیں ۔ ان کو میرے گھر یلو حالات کا اچھی طرح علم تھا۔ وہ مجھ سے ہمدردی کرتی رہتیں اور تسلی دیتیں۔ انہوں نے اپنی والدہ سے میرے دکھوں کا ذکر کیا تو ان کی والدہ اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر ہمارے گھر آئیں۔ ان کا آنا غضب ہو گیا۔ امی ابا تو پہلے ہی شکی مزاج بنے بیٹھے تھے، یہی سمجھے کہ شاید اب بھی میری وجہ سے یہ لوگ رشتہ مانگنے آگئے ہیں۔ میں ان کے صاحبزادےمیں دلچسپی رکھتی ہوں۔ میں بھی گھر کے حالات اور والدین کی محدود سوچ سے تنگ تھی۔ اب میری زبان کا تالا بھی کھل گیا۔ اماں نے پوچھا۔ کیا اس رشتے کے آنے میں تیری مرضی تھی ۔ میں نے جواب دیا۔ ہاں، اب اس رشتے کو ہاں کر دو، ورنہ ایسا نہ ہو اس سے بھی گیا گزرا رشتہ آجائے اور آپ لوگوں کو ہاں کہتے بنے ۔ ماں نے ابا کو آمادہ کیا کہ یہ رشتہ ٹھیک ہے، ہاں کر دو۔ ایسا نہ ہو کہ اس کے بعد ایسے ویسے رشتے آئیں ، تب لڑکی کا کیا کریں گے؟ کیا عمر بھر گھر میں بٹھائے رکھیں گے۔ تب ہماری بدنامی اور بڑھ جائے گی۔ اس طرح میری شادی ٹیچر کے بھائی نذیر احمد سے ہو گئی۔ اور شادی بھی ایسی ہوئی، جیسے گھر سے کوئی جنازہ اُٹھا ہو۔ ابا نے تو رخصتی تک مجھ سے ترک کلام ہی رکھا۔
یوں میں دُکھے دل سے روتی ہوئی بابل کے گھر سے رخصت ہو گئی۔ یہی سوچتی رہی کہ یا الہی ! میرا کیا قصور تھا؟ جو باپ نے اتنی بے رخی برتی۔ ٹیچر جو پہلے غم گسار سہیلی جیسی تھی ، جب تند بنی تو یک دم بدل گئی۔ شروع میں شوہر کا رویہ میرے ساتھ اچھا تھا، آہستہ آہستہ اس کا اصل روپ بھی سامنے آتا گیا، کیونکہ میری نند اس کو شادی سے قبل کی ہر بات بتا چکی تھی۔ اس نے وہ باتیں جن کی قطعی کوئی اہمیت نہ تھی ، وہ بھی نذیر سے کہہ دیں اور یہ بھی کہ میں مسرور سے شادی کرنا چاہتی تھی ، وہ میرے بچپن کی چاہت تھا۔ اس سے شادی نہ ہونے پر مجھ کو دکھ ہے اور میرے دل سے اس کی یاد جاتی نہیں ہے۔ یہ باتیں میں نے نجمہ سے تب کہی تھیں، جب میں پڑھائی میں دلچسپی نہ لیتی تھی تو وہ میری ہمدرد بن کر میرے دکھ پوچھا کرتی تھی اور میں اس پر اعتبار کر کے، اسے سہیلی جیسا جان کر دل کی بات کہہ دیا کرتی تھی۔ مجھے کیا خبر تھی کہ جس کو میں ماضی کا راز دار بنا رہی ہوں ، کبھی میرے نند بن بن کر دشمن بن جائے گی۔ اس نے تو نذیر کو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ لڑکیاں مجھے مسرور کے نام سے چھیڑا کرتی تھیں اور یہ بھی کہ میرے والد مسرور کی وجہ سے مجھ سے بدظن ہوئے، تبھی انہوں نے مجھے رخصتی کے وقت دعا دے کر رخصت نہ کیا تھا۔ نجمہ کے کمینے پن کی وجہ سے نذیر مجھ سے ایسے بدظن ہوئے کہ میری زندگی دکھوں کا الاؤ بن گئی ۔
سچ ہے ، مرد اگر تنگ نظر ہو تو اتنی سی بات بھی بیوی کی زندگی کو جہنم بنانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ اب میرے شوہر نے مجھ سے ناکردہ گناہوں کا انتقام لینا شروع کر دیا۔ ان کو میرے غم اور خوشی کا کوئی احساس ہی نہ رہا۔ میرے ساتھ ان کا بندھن تو جیسے بس وقت گزاری کا سلسلہ تھا۔ اگر میں پریشان ہوتی تو فوراً طعنہ دیتا کہ میں مسرور کے لئے پریشان ہوں۔ میں نے قسم اٹھا کر یقین دلایا کہ میرے لئے اب وہی سب کچھ ہیں، میں ماضی کو بھلا چکی ہوں۔ ہاں مگر جب وہ میرے ساتھ اہانت بھر اسلوک کرتا تو ضرور یہ خیال آتا کہ کیوں میں نے ٹیچر کے ہمدردانہ رویہ سے متاثر ہو کر اس کے بھائی کا رشتہ قبول کر لیا تھا۔ لوگ باہر سے کچھ نظر آتے ہیں، اندر سے کچھ ۔ جب برتاؤ ہوتا ہے، ان کی اصل حقیقت تب کھلتی ہے۔ میں گھر یلو پریشانیوں میں نیم جان ہو گئی تھی ، جن میں روز بہ روز اضافہ ہوتا گیا۔ دوبار حالات سے عاجز آ کر میکے چلی گئی مگر وہاں بھی میرے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔ ابا جان مجھ سے کلام نہ کرتے تھے اور امی بات بات پر طعنہ دیتیں کہ تیری وجہ سے مسرور نے اپنی منگنی تڑ والی۔ اب اس کی ماں جہاں ملتی ہے، مجھے قہر آلود نگاہوں سے دیکھتی ہے، تیرے کرتوتوں نے خاندان بھر میں مجھ کو ذلیل کر دیا ہے۔ آخر میں نذیر کے گھر واپس آگئی۔
شادی کے گیارہ ماہ بعد میرے یہاں ایک بچی پیدا ہوئی تھی۔ اس کے بعد تو حالات انتہائی مایوس کن ہو گئے بھی میں نے اس طوق کو گلے سے اتار پھینکنے کی ٹھان لی۔ ایک روز میں بازار گئی اور دوکاندار سے چوہے مار د و ا طلب کی۔ ایک پیکٹ خریدا اور رات ساری دوانگل گئی اور مرنے کے انتظار میں لیٹ گئی مگر سوائے تھوڑ اسا جی متلانے کے کچھ نہ ہوا۔ الٹی تک نہ آئی۔ مجھے لگا، جیسے یہ زہریلی دوا نہ تھی بلکہ میں نے پرانا سا آٹا پھانک لیا تھا۔ نیند نجانے رات کے کسی پہر آئی۔ گر چه طبیعت بھاری بھاری تھی ۔ صبح آنکھ کھولیں تو حیرت زدہ تھی کہ میں زندہ تھی اور دنیا کو دیکھ رہی تھی۔ حیرت میں ڈوب گئی کہ مری نہیں تو کم از کم طبیعت تو خراب ہوتی۔ اس کا مطلب صاف ظاہر تھا کہ وہ دوا جعلی تھی ۔ شوہر نے بچی کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد میکے بھیجا اور بعد میں ابا جان کو خط لکھ دیا کہ میں آپ کی بیٹی کو نہیں رکھ سکتا۔
آپ اس کو اپنے پاس ہی رکھیں۔ یہ ہر وقت افسردہ رہتی ہے۔ شاید اس کے دل سے ابھی تک اپنے بچپن کے منگیتر کی یاد نہیں گئی۔ سسرال میں، میں اپنے آدھے سے زیادہ اخراجات خود برداشت کرتی تھی۔ سروس کرتی تھی اور گھر کو بھی سنبھالتی تھی۔ خاوند کے کپڑے جوتوں، بنیان اور رومال تک میں خود پورے کرتی تھی لیکن میری کوئی خدمت میرے خاوند کا دل نہ جیت سکی ، صرف نند کی بدخواہی کی وجہ سے جو روایتی حسد کا شکار ہو کر میری دشمن بن گئی ۔ بہر حال ، میکے والوں نے منت سماجت کر کے سسرال والوں کو راضی کیا اور مجھے گھر بھیج دیا۔ اب میں فٹ بال کی طرح تھی ۔ ادھر والے ٹھوکر مارتے تو اُدھر جا پہنچتی تھی ، دوسری طرف والے ٹھوکر مارتے تو پھر میکے کے آنگن میں آگرتی ۔ اسی دوران اللہ تعالی نے بیٹے جیسی نعمت سے نواز دیا ، مگر شوہر کے تیور چڑھے ہی رہے۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہفتوں مجھ سے بات نہ کرتے اور نجمہ سے کہتے کہ میرے لئے کوئی دوسری لڑکی ڈھونڈ وتا کہ میں دوبارہ گھر آباد کر سکوں ۔ اس نے اپنا کمرہ، بوریا بستر ، سب کچھ الگ تھلگ کر لیا تھا۔ میرا تیسرا بچہ سترہ دن کا تھا اور میں اب بھی نوکری کرنے پر مجبور تھی۔ وہ کہتے کہ اسکول جاؤ تو بچے کو ساتھ لے کر جاؤ ۔
بات بات پر کہتے کہ میرے گھر سے چلی جاؤ۔ میں کہاں جاتی ؟ میرے تین بچوں کا بوجھ کون برداشت کرتا۔ مجبور ہو کر میں بچوں کو شوہر کے گھر چھوڑ کر آگئی۔ میں صرف چھوٹا بچہ ساتھ لائی تھی۔ میرا خاوند اور نند شاید اسی دن کے انتظار میں تھے۔ میکے آتے ہی انہوں نے مجھے طلاق بھجوادی اور طلاق کے چار ماہ بعد نذیر نے دوسری شادی کر لی۔ ادھر میکے میں کسمپرسی کی زندگی گزارتی رہی۔ کسی نے سر پر پیارسے ہاتھ نہ رکھا، نہ میرے بچے کو پیار اور باپ کی شفقت دی۔ سروس کر کے اپنے اور بچے کا پیٹ پالتی تھی اور باقی دونوں بچوں کی دید کو ترستی تھی ، جو اپنے باپ کے پاس تھے۔ ایک روز سجو خالہ امی سے ملنے آئیں ۔ وہ کافی ضعیف ہو چکی تھیں۔ مجھ کو بتایا کہ مسرور بیرون ملک چلا گیا تھا۔ آٹھ برس بعد لوٹا ہے لیکن ابھی تک شادی نہیں کی ۔ ایک روز میں نے تمہارا احوال بتایا تو رود یا۔ بیٹی اس کے دل میں اب تک تیری محبت موجود ہے ۔ خدا جانے یہ کیسی محبت ہے کہ وقت کی گرداب تک اس پر نہیں پڑی۔ اس کے دل میں تیری تصویر پہلے دن کی طرح اُجلی اجلی ہے۔ میں خاموشی سے ساری باتیں سنتی رہی تب خالہ نے تنہائی میں کہا۔ بیٹی شاید تیرے ماں باپ اس بات پر راضی نہ ہوں ۔ خدا جانے روز اول سے تمہارے باپ کو ہم سے کیوں اللہ واسطے کا بیر ہے، لیکن تم اگر ایک بار مسرور سے بات کر لو تو شاید تم دونوں کو سکون مل جائے گا۔ انہوں نے مجھے ایک پرچہ دیا جس پر اس کا نمبر لکھا ہوا تھا۔
میں بھی اپنی ویران اور دکھوں بھری زندگی سے تنگ تھی۔ بھا بھیاں مجھے اور میرے بچے کو قہر آلود نگاہوں سے دیکھتی تھیں۔ خود کماتی ، خود کھاتی تھی پھر بھی بھائی مجھے بوجھ جانتے تھے۔ سو ایک روز جب گھر میں کوئی نہ تھا میں نے مسرور کو فون کر دیا۔ کچھ باتیں ، کچھ پچھتاوے، کچھ مایوسیاں اور افسوس کے تذکرے ، آخر اس نے سیدھی بات کہہ دی۔ سائرہ وقت بہت بدل چکا ہے۔ میں نے ابھی تک شادی نہیں کی۔ تم بھی کئی برس سے طلاق یافتہ زندگی بسر کر رہی ہو۔ اب بھی وقت ہے۔ ہم نکاح کر کے گھر بسا لیتے ہیں۔ اگر تم راضی ہو تو مجھے دو چار دن میں بتادینا، ورنہ میں دوبارہ تم کو بھی فون نہ کروں گا۔ میں نے کافی سوچا اور پھر مجھے اس کی پیش کش میں ہی عافیت نظر آئی ۔ ابا ضعیفی اور بیماری سے جھوج رہے تھے اور اماں کی بہوؤں کے آگے کیا چلتی ۔ میں نے مسرور کو ہاں کہہ دی، البتہ پہلے امی سے مشورہ کیا تھا۔ تب انہوں نے ناک پر انگلی رکھ کر کہا تھا۔ اے نوج! چالیس سال کی ہو رہی ہو، کیا اب دوسری شادی تم کو زیب دے گی؟ وہ بھی اُسی کے ساتھ جس کے ساتھ مفت میں بدنام ہوئیں۔ لوگ باتیں کر کر ہمارا کلیجہ چھلنی کر دیں گے۔ اچھا اماں ، ٹھیک ہے۔ میں ایسے ہی گزارلوں کی باقی زندگی بھی۔
ماں کو تو میں نے چپ کرادیا مگر میرا دل چپ نہ ہوا۔ وہ سسکے جاتا تھا ۔ بچے بڑے ہو گئے تھے ، باپ کے گھر میں پلے بڑھے ماں کے گھر کا راستہ بھول چکے تھے۔ میں نے تو حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ مسرور نے میری سلگتی تنہائی میں پھر سے پتھر پھینک دیا تھا۔ شاید اُسے بھی تنہائی کا عذاب مٹانے کو کسی سہارے کی ضرورت تھی ، سونے گھر میں کسی زندگی کی آرزوتھی۔ میں سوچا کرتی تھی کہ کون ہوگا جو بڑھاپے میں ساتھ دے گا ؟ یہ دنیا والے یا میرے بچے جو میرے نہ ر ہے تھے۔ ان کو تو اب میری صورت بھی یاد نہ رہی ہوگی ۔ پہلے کبھی دوسری شادی کا سوچا تک نہ تھا کہ میرے بچے دورسہی ان کے ذہن میں ماں کا تصور تو ہوگا ۔ وہ کیا سوچیں گے اور پھر لوگوں کی حقارت بھری نگاہوں کی تاب کیوں کر لاسکوں گی کہ چالیس برس کی ہو چکی ہوں ۔ رشتہ داروں کی حقارت بھری باتیں میرے وجود کوریزہ ریزہ کر دیں گی اور آج جب تنہائی نے مجھے ریزہ ریزہ کرڈالا تھا تو مجھ کو کوئی پوچھنے والا نہ تھا تبھی میں دوبارہ شادی کے بارے سوچنے پر مجبور ہوگئی ۔ سوچا کہ اگر مرد دوسری شادی کرلے تو کچھ انوکھی بات نہیں ، بیوی کا کفن تک میلا نہیں ہوتا اور دوسری شادی ہو جاتی ہے، پھر اگر عورت کرلے تو مجرم کیوں ؟ یہاں تک کہ اس کی اپنی اولاد اسے نہیں بخشتی۔ میں تو فیصلہ کرنے سے ڈر رہی تھی آخر مسرور نے ہمت بندھائی کہ دنیا والوں سے میں مقابلہ کروں گا مگر بڑھاپا تنہا کا ٹنا بھی ایک سزا ہے کیوں نہ ہم دونوں مل کر اسے کاٹیں۔
تمہارے پاس تو اولاد جیسا نازک سہارا بھی نہیں ہے۔ تیسرا بیٹا بھی باپ کی طرف اُڑان بھرنے کی سوچ رہا ہے، تبھی میں نے اتنا بڑا فیصلہ کر لیا۔ آج لوگ مجھ سے خفا ہیں، کچھ مجھ پر ہنس رہے ہیں لیکن مجھے کسی کی پروا نہیں ۔ میرا شوہر میرا سہارا ہے ۔ مسرور ہر قدم پر مجھ کو مضبوط تحفظ کا احساس دلاتا ہے۔ خدا کا شکر کہ میں نے وقت پرصحیح قدم اُٹھا لیا ۔ دنیا کا کیا ہے، بے سہارا عورت پر باتیں تو سب بناتے ہیں، بُرے وقت کام کوئی نہیں آتا۔ اگر دوسری شادی مرد کا حق ہے تو دین نے عورت کو بھی حق دیا ہے۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
2 تبصرے
Zabardast
جواب دیںحذف کریںBhot achy khani Hy
جواب دیںحذف کریں