یتیم لڑکی کی محبت

urdu font stories

بابا جان کی وفات کے بعد امی شدید حالات کے سبب بیمار رہنے لگیں۔ انہیں ٹی بی تھی ۔ میرے آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے وہ ہمت ہار چکی تھیں۔ ان کے بعد اب میرا سب سے قریبی رشتہ خالہ کا تھا۔ وہ مجھے اپنے گھر لے آئیں۔
 
 خالہ کا ایک ہی سپوت راحت تھا۔ ہم دونوں ساتھ ہی پڑھتے تھے، جب ذرا ہوش سنبھالا تو خالہ ہماری منگنی کر کے ہر اندیشے سے آزاد ہوئیں۔ ادھر خاندان بھر میں خالہ کی نیک دلی کے چرچے ہونے لگے کہ انہوں نے رحم دلی سے کام لے کر سگی بھابھی کو دردر کی ٹھوکروں سے بچا لیا ہے۔ خالو میرے چچا تھے۔ ایک ہی گھر میں اپنے منگیتر کے ساتھ کھیلتے ہوئے بڑی ہو گئی ، جب رشتوں کی سمجھ آئی تو منگیتر سے حجاب بھی آنے لگا اور میں راحت سے الگ تھلگ رہنے لگی ۔ بات بھی کرنے سے گریز کرنے لگی۔ 
 
اس کو شرم و حیا کہہ لیں یا خالہ کی تربیت ، جو اپنے سپوت سے میری منگنی کر کے بظاہر ہر اندیشے سے بے نیاز ہو گئی تھیں۔ لیکن اندیشے شانت بھی ہو جائیں تو شیطان انسان کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ جب موقع پاتا ہے وار کرنے سے نہیں چوکتا۔ بے شک میں راحت سے دوری اختیار کئے رہتی تھی لیکن بہرحال وہ میرا منگیتر تھا، مجھے اس سے لگاؤ تھا۔ وہ ایک خوبرو اور دلکش نو جوان تھا، لیکن میرا تو بچپن کا ساتھی تھا، حالانکہ مجھ سے دس برس بڑا تھا، پھر بھی وہ میرے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔

ایک روز کی بات ہے۔ خالہ کسی تقریب میں گئی ہوئی تھیں کہ اچانک راحت گھر آ گیا۔ میں اکیلی تھی ، دو پہر کے تین بج رہے تھے۔ وہ سیدھا میرے کمرے میں چلا آیا اور مجھے ہاتھ سے پکڑ کر مسہری پر بٹھا دیا۔ میں بھی اس طرح اس سے بے تکلف نہ ہوئی تھی اور یہ احساس بھی تھا کہ گھر میں دوسرا کوئی نہیں ہے۔ میں خوف سے ٹھنڈی پڑ گئی، تو وہ ہنسنے لگا۔ عجیب لڑکی ہو، اپنے ہونے والے شوہر سے ڈرتی ہو۔ دیکھو تم میری ہونے والی بیوی ہو۔ کافی دیر تک وہ مجھ سے ایسی باتیں کرتا رہا اور میں ہوں ہاں میں جواب دیتی رہی۔ گھبراہٹ کے مارے میرا برا حال تھا۔ جی چاہتا تھا کہ جلدی سے خالہ آجائیں تاکہ میری راحت سے جان چھوٹے۔ وہ بہت غور سے میرا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ آخر کہنے لگا۔ تم مجھ سے اتنا کیوں شرماتی ہو؟ کیوں اس قدر دور دور رہتی رہو؟ مجھے یہ بات پسند نہیں ہے۔ آج میں تمہارے اور اپنے درمیان ان بے معنی فاصلوں کو مٹا ڈالنا چاہتا ہوں تا کہ تم بے تکلفی سے مجھ سے بات کر سکو۔ میں نے بہت اس سے دامن چھڑانا چاہا۔
 
 بد قسمتی سے وہ میرا منگیتر تھا اور اسی حق کے واسطے سے میں وقت سے پہلے سہاگن ہو گئی۔ وہ تو چلا گیا، مگر جب خالہ واپس آئیں تو شام تک میری آنکھیں رو رو کر سرخ ہو چکی تھیں، انہوں نے کچھ پوچھنا چاہا لیکن میں افسردہ تھی کہ خالہ کی ہمت نہ پڑی۔ وہ اکثر مجھے اداس دیکھ کر یہ خیال کر لیتی تھیں کہ مجھے اپنی مرحومہ ماں کی یاد آئی ہو گی ۔ اس پر وہ مجھے کہتی کچھ نہ تھیں، البتہ پیار بھرا سلوک زیادہ کرنے لگتی تھیں۔ اس دن بھی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ مجھے کام نہ کرنے دیا، کھانا خود پکایا اور کافی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کر کے میرا جی ہلکا کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔

دنوں میں ارادہ کرتی رہی کہ اس واقعہ کا ذکر خالہ سے کر دوں ، مگر کیسے کرتی ؟ حجاب مانع تھا اور میں راحت سے بھی ڈرتی تھی۔ تب ہی یہ سوچ کر چپ ہو گئی کہ خالہ کے دل میں ہرائی ڈالنے سے کیا فائدہ، جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ اب آخر تو میں نے راحت ہی کی دلہن بنتا ہے۔ دراصل مجھ میں ہمت نہ تھی جانے کیوں یتیم بچیاں بزدل ہو جاتی ہیں لیکن قدرت کو میری یه راز داری منظور نہ تھی ۔ اس نے خود میرا راز افشا کر دیا۔ تب خالہ نے حیران ہو کر پوچھا۔ یہ سب کیا ہے؟ اپنے صاحبزادے سے پوچھئے، وہی اس غلطی کے ذمہ دار ہیں۔
 
 خالہ نے راحت سے پوچھا تو وہ قسمیں کھانے لگا۔ اماں میں قصور وار نہیں ، انعم جھوٹ بولتی ہے۔ نہ جانے کون ہمارے گھر کی عزت کو خاک میں ملا گیا ہے اور اب یہ جھوٹی تہمت مجھ پر ہے۔ میں کسی غیر کا کیا، اپنے سر کھلوانے کو ہرگز تیار نہیں اور اگر تم نے مجھے مجبور کیا تو میں ہمیشہ کے لیے چلا جاؤں گا۔ خاله سن کر دنگ رہ گئیں، گرچہ ان کا دل نہیں مان رہا تھا۔ میں سچی تھی ، ان کا بیٹا جھوٹا تھا مگر انہوں نے ایک ہی بات کی۔ اگر تم سچی تھیں انعم تو جب میرے بیٹے نے تمہاری جانب ہاتھ بڑھایا تو تم نے مجھے تب ہی کیوں نہ آگاہ کیا۔ اب جبکہ راز چھپ نہیں سکتا، تم اس کا بھانڈہ پھوڑ رہی ہو۔ میں جان گئی کہ خالہ پر اولاد کی محبت غالب آ گئی ہے۔ یوں انہوں نے اپنے کو سچا اور مجھے جھوٹا قرار دے دیا۔ ان کو اپنے شوہر سے بھی خوف آرہا تھا کہ ان کو معلوم ہو گیا تو پہلی بات یہی منہ سے نکالیں گے کہ راحت کو گھر بدر کرو۔
 
 منگنی تو ہو ہی گئی تھی، پھر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے کیوں چھوٹ گیا ؟ یا پھر بیٹے کو مورد الزام ٹھہرایا تو اسے آڑے ہاتھوں لیں گے کہ گھر میں یہ کیا تماشا ہو رہا ہے۔ خالو غصے کے بہت تیز تھے، سب ان سے ڈرتے تھے۔ خالہ نے مجھے ہی قصور وار ٹھہرایا۔ یہاں تک کہہ دیا کہ وہ لڑکا ہے، تم تو لڑ کی ہو۔ میں نے ایسی کیا غلط تربیت دی تھی کہ جو تمہارے ساتھ ہو گزرے، مجھے کانوں کان خبر نہ کرو ۔ اب تو وہی مثال تم پر صادق آئے گی کہ جس تھالی میں کھاؤ، اس میں چھید ۔ اس کے بعد ماں بیٹے نے جو سلوک میرے ساتھ کیا، میرا کلیجہ منہ کو آنے لگا۔دونوں نے طوطے کی طرح میری طرف سے آنکھیں پھیر لیں۔ میں ہی بدکردار ٹھہرائی گئی۔ میں خالہ کی بے رخی سے رو رو کر دیوانی ہوئی جاتی تھی۔ مجھے راحت کی بے وفائی سے زیادہ خالہ کی محبت کے چھن جانے کا دکھ تھا۔ اب رہ ہی کیا گیا تھا میری دنیا میں، اک خالہ کی محبت کا سہارا بچا تھا، سو وہ بھی ٹوٹا۔ دل سے راحت کے لیے بد دعائیں نکلنے لگیں۔

سوچتی تھی کہ اگر میں پسند نہ تھی، تو مجھ سے شادی نہ کرتا۔ منع کر دیا ہوتا ۔ یہ سب چال چلنے کی کیا ضرورت تھی، بیٹے کے تیور دیکھ کرخالہ اس سے ڈر گئیں – صاف کہ دیا کہ میں یہ پھندہ اپنے گلے میں نہیں ڈال سکتا – شادی بعد میں جائے گی ابھی تو مجھے بہت کچھ کرنا ہے -اس طرح کی ہے تکی باتیں کر مجھے بلکہ خالہ کو بھی مایوس کر دیا۔ مجبور ہو کر انہوں نے ایک لیڈی ڈاکٹر کا سہارا لیا ، جو ان کی رشتہ داری تھی۔ اس کو عزت و ناموس کا واسطہ دیا اور بڑی مشکل سے رضا مند کیا۔ یوں انہوں نے ناموسی تو بچائی لیکن ایک گناہ کبیرہ اپنے سر لے لیا۔ اس بات سے خالو کو بھی آگاہ نہ کیا۔ میری بے گناہی جانتی تھیں، پھر بھی مجھے سے پوچھا۔ ؟ اگر کوئی پسند ہے تو میں تمہاری اس سے شادی کر دیتی ہوں تا کہ دوبارہ ایسا واقعہ نہ ہو میں کیا جواب دیتی۔ میری تو زبان پتھر کی ہو گئی تھی ۔ جو ملزم تھا، ان کی ممتا نے اسکو بری کر دیا اور میں فریاد بھی نہ کر سکی۔ 
 
اب مجھے گھر میں رکھنا ان کے لیے خطرہ تھا۔ لہذا کوشش کر کے میرا رشتہ تلاش کیا اور میری شادی کر دی خالو ایسا نہ چاہتے تھے مگر بیٹے کے انکار سے مجبور گئے تھے سوچا تھا شوہر سہاگ رات سے نکال دیں گے مگر ایسا کچھ نہ ہوا، وہ مجھے پا کر خوش ہو گئے۔ پیار و محبت سے پیش آئے اور بعد میں بھی بہت اچھا رکھا۔ ہر طرح کا سکھ اور آرام دیا۔ ان کی محبت اور تحفظ پاکر میں پچھلے داغ کو بھول گئی۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔ اب میں خاوند کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھی۔ بچپن سے یتیمی کی زندگی ملی تھی۔ سوچا کرتی کہ برے دنوں کے بعد اچھے دن بھی ضرور آئیں گے۔ 
 
شادی کے بعد جوں ہی یتیمی کا تکلیف دہ دور ختم ہوا، اللہ تعالی نے مجھ پر رحمتوں کی بارش کر دی۔ دن سکون سے گزر رہے تھے۔ یہ میری خام خیالی تھی۔ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ شوہر کے گھر میں میرے لئے سکھ کی گھڑیاں بہت کم تھیں ۔ چونکہ خالو سگے چچا تھے۔ اگر چہ انہوں نے مجھے بیٹی کی طرح رخصت کیا تھا ، لیکن میری شادی کے بعد ان کو احساس ہوا کہ جو پیار ایک بیٹی کو دیا جاتا ہے ، وو ایسا پیار مجھے نہیں دے سکے۔ انہیں اپنی خفت کا تب احساس ہوا، جب میں ان کے گھر سے رخصت ہو گئی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے ان کی خدمت میں بھی غفلت نہ کی تھی۔ ہر وقت ان کی تابعداری کیا کرتی تھی۔
ان کے سارے کام بہت خلوص اور نیک نیتی سے کرتی تھی۔ علی الصباح اٹھ کر چائے ان کے ہاتھ میں دینا,وقت پر ناشتہ دینا، ان کے کپڑے دھو کر استری کرنا، جوتے پالش کر کے رکھنا فرض تھا ، جو کام بیٹیاں بھی شاید اتنی توجہ سے نہ کرتی ہوں گی میں کرتی تھی۔ میرے وجود سے ان کو راحت تھی یہ بات اس وقت خالو کو سمجھ میں آئی جب میں ان کے گھر نہ رہی تھی تھی۔ خالہ اتنا خیال نہ رکھ پاتی تھیں۔ وہ دیر سے اٹھتی تھیں اور خالو کو جلدی کام پر جانا ہوتا تھا ۔ اب وہ خود چائے تیار کر کے کام پر نکل جاتے ، خالہ کو نہ جگاتے۔ ان کو وقت پر دھلے ہوئے کپڑے ، وقت پر کھانا ، اب ہر چیز کی تکلیف ہوئی تو انہوں نے سوچا کہ انعم میرا کتنا خیال کرتی اور میں نےاس کی پروا نہ کی ۔ اپنی اس خطا کا ازالہ کرنے ، وہ اکثر میرے گھر آتے اور کہتے کہ بیٹی میرا گھر تیرا ، میں تمہارے باپ جیسا ہوں، لہذا تمہاری خیر خبر لینا میرا فرض بنتا ہے۔ 
 
عید، شب برات یا جب بھی میرے گھر آتے تو خالہ کو مجبور کرتے کہ چلو، بیٹی کو لے آتے ہیں۔ اس کا ہمارے سوا اور تو کوئی ہے نہیں۔ بچیاں شادی کے بعد تہواروں اور تقریبات پر میکے آتی ہیں۔ بے چاری خود سے تو نہیں آتی ، ہم ہی اسے لے آتے ہیں تاکہ اسے یہ احساس تنگ نہ کرے کہ اس کا میکہ نہیں ہے۔ خالو کو اندر کے معاملے کا تو کوئی علم نہ تھا۔ خالہ آنا کانی کرتیں تو ان کو برا بھلا کہتے وہ دونوں مجھے لینے آجاتے۔ بے شک خالہ دل سے یہی چاہتی تھیں کہ میں ان کے گھر نہ آؤں تا کہ میرا سامنا ان کے بیٹے سے نہ ہو مگر خالو کی وجہ سے مجبورا ان کو آنا پڑتا تھا۔ میں لاکھ نہ نہ کرتی، مگر میرے شوہر جو بھلے مانس تھے، کہتے تمہارے بزرگ ہمارے گھر چل کر آتے ہیں تمہارے والدین کی جگہ ہیں، انہوں نے پالا پوسا ہے، محبت سے آتے ہیں۔ تم ان کو منع نہ کرو اور دو چار روز کے لیے چلی جاؤ۔ اب میں بھی مہر بہ لب کہ کیا کہوں؟ کیوں جانا نہیں چاہتی , جانا ہی پڑتا تھا۔

خالو کو اس بات کا دکھ تھا کہ راحت نے مجھ سے شادی سے انکار کیا تھا، ایک یتیم بچی کا دل توڑا تھا۔ وہ بیٹے سے اس وجہ سے ناخوش تھے ، تب ہی اور زیادہ میرا خیال کرتے تھے۔ گرچہ میں خالہ کے گھر کم کم جاتی۔ کبھی بچوں کی بیماری کا بہانہ بناتی اور بھی کوئی اور بہر حال جس بات کا ڈر تھا وہ ہو کر رہی۔ ایک روز میں چھت پر کپڑے پھیلانے گئی تو راحت اوپر آ گیا۔ خالہ سورہی تھیں اور خالو گھر پر نہ تھے۔ عید میں دو دن باقی تھے۔ وہ آتے ہی بولا ماضی کو کتنی جلد فراموش کر دیا تم نے؟ بے وفا عورت کا اعتبار نہیں ہوتا۔ میں نے بے وفائی نہیں کی تم نے مجھے پر ستم ڈھایا اور بے وفائی بھی تم ہی نے کی، مجھ سے شادی سے انکار کیا۔ میں تمہاری خالہ کی لڑکی تھی کوئی غیر نہیں۔ چچازاد بھی تھی مگر تم نے نجانے کیوں مجھ پر اتنا ظلم ڈھایا ۔ معاف کردو۔ اس کے بعد اس نے مجھے پھر سے ماضی کے رستے پر لے جانا چاہا مگر میں نے صاف انکار کر دیا۔
میں پیار کرنے والے شوہر اپنے بچوں کے باپ سے دھوکا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ جب میں نے اسے سختی سے جھٹکا تو وہ بولا ۔ یاد رکھنا ! تمہارے شوہر کو ایک دن ساری بات بتا کر تمہیں اس کے گھر کے قابل نہ چھوڑوں گا، جس کی ملکہ بن کر تم اس قدر اتراتی ہو۔ میں اندر سے تو سہم گئی مگر اوپر سے ظاہر کیا کہ میں اس کی دھمکی سے ڈرنے والی نہیں ہوں ۔ اسے جتلا دیا کہ جو کہنا ہے کہہ دو۔ وہ مجھ پر اعتبار کرتے ہیں ، تم ہی برے بنو گے۔ میں سمجھتی تھی کہ وہ یوں ہی دھمکی دے رہا ہے۔ تہیہ کر لیا کہ اب دوبارہ اس گھر میں قدم نہیں رکھوں گی، چاہے خالو ناراض ہو جائیں۔ مجھے ہر حال میں اپنے شوہر کی عزت اور اپنا خوشیوں بھرا گھر بچانا تھا۔ راحت کے دل میں خدا جانے کیا ارادہ چھپا ہوا تھا۔ میں نے دل سے دعا کی۔ اے خدا! وہ وقت آنے سے پہلے کہ میرے شوہر کا اعتماد چکنا چور ہو، یا تو مجھے اٹھا لینا یا پھر راحت کو موت دے دیتا، تا کہ وہ گھڑی آنے کا خوف باقی نہ رہے۔ چاہے یہ کوثر کو میرے اوپر گزرے برے واقعہ کا بتائے یا نہ بتائے ، صاف ظاہر تھا کہ وہ جھوٹا معاملہ گھڑ کر بتاتا۔ میرے دل سے نکلی دعا قبول ہو گئی مگر کس طرح کہ میں ہی اجڑ گئی۔

ابھی میں خالہ کے گھر میں تھی عید کو تین دن گزر چکے تھے۔ کوثر عید کے دن بچوں سے مل کر گئے تھے اور اب مجھے لینے کے لئے آرہے تھے۔ میں گھر جانے کی تیاری میں لگی تھی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ میرے رشتے کے دیور آئے تھے، جن کا گھر ہمارے گھر کے پاس تھا۔ انہوں نے اطلاع دی کہ کوثر بھائی کا اچانک ہارٹ فیل ہو گیا ہے۔ جب دورہ پڑا وہ گھر میں اکیلے تھے۔ ان کو طبی امداد کے لیے ڈاکٹر تک لے جانے والا کوئی نہ تھا۔ صبح چار بجے ہارٹ اٹیک ہوا اور دس بجے منیر بھائی نے انہیں فون کیا کیونکہ ان کی گاڑی ورکشاپ میں تھی اور کوثر نے ان بھائی سے گاڑی مانگی تھی تاکہ مجھے اور بچوں کو میکے سے گھر لے آئیں ۔ منیر نے سوچا کہ ڈیوٹی سے ان کو دیر نہ ہو جائے لہذا فون کیا تو جواب نہ آیا۔ تب اپنی چھت پر گئے کہ کوثر بھائی کو آواز دے کر بلا لوں ، خبر نہیں فون کیوں نہیں اٹھا رہے ۔ چھت پر سے جھانکا تو دم بخود رہ گئے۔ وہ صحن میں پڑے تھے ان کے بڑے بھائی کو فورا فون کیا۔ وہ آ گئے، ان کے پاس گھر کی دوسری چابی تھی۔ انہوں نے دروازہ کھولا اندر گئے ، وہ اس جہاں سے جا چکے تھے۔ پڑوس میں ڈاکٹر صاحب رہتے ہیں، انہوں نے موت کی تصدیق کی اور اب آپ کو اطلاع کرنے آیا ہوں۔ آپ لوگ میرے ساتھ چلیں۔
یہ احوال انہوں نے خالو کو بتایا تھا۔ وہ بے چارے بھی سٹھیا گئے۔ ان کی ہمت نہ ہو رہی تھی کہ کس طرح مجھ کو اتنی بری خبر سنائیں ۔ خالہ کو بتایا، وہ میرے پاس آئیں، بولیں۔ بیٹی تمہارے شوہر کی طبیعت خراب ہے تہمارا دیور لینے آیا ہے ۔ جلدی جلدی بچوں کو گاڑی میں بٹھایا اور خالہ خالو کے ہمراہ گھر پہنچی – راسته بهر انکی عمردرازی کی دعائیں پڑھتی آئی مگر ایک بھی دعا قبول نہ ہوئی۔ راحت کی دھمکی کا ڈر تو گیا لیکن ساتھ ہی میری خوشیاں بھی منہ موڑ گئیں ۔ یہ دھمکی اس نے جھوٹ میں دی تھی یا سچ میں یہ وہی جانتا ہے مگر میرا تو کلیجہ ہی نکال لیا ۔ میں نے دل سے دعا کی تھی کہ کوئی میرے ماضی کا داغ ، میرے شوہر کونہ بتائے۔ یہ بھی دعا کی تھی کہ خدا مجھے اٹھا لے یا راحت کو موت دے دے۔ دعا کیسے بدل گئی۔ نہ تو مجھے موت نے اٹھایا اور نہ راحت کو آئی لیکن میرے رحم دل اور محبت کرنے والے جیون ساتھی کو ساتھ لے گئی۔

عدت تک میں کوثر کے گھر رہی، اس کے بعد خالہ اور خالو سر ہو گئے کہ چھوٹے بچوں کا ساتھ ہے۔ تم جوان ہو، اس عمر میں کیسے اکیلی رہ سکتی ہو۔ سسرال والوں نے بھی یہی مشورہ دیا کہ تمہارے خالو خالہ صحیح کہتے ہیں ۔ جب تک بچے باشعور نہیں ہو جاتے تم اپنے خالو کے گھر جا کر رہو۔ سسرال میں کوئی بھی میرے بچوں کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہ تھا۔ کوئی چارہ نہ دیکھ کر مجھے خالو کے گھر آنا پڑا مگر کس دل سے؟ یہ میں جانتی ہوں یا میرا خدا۔ جب اللہ تعالی کسی کا دل پلٹتا ہے، تو دیر نہیں لگتی۔ جس کو میں اپنے لیے ایک زہریلا سانپ ، اپنا سب سے بڑا دشمن جانتی تھی ، وہی میرے اور میرے بچوں کے یتیم ہو جانے پر بے حد دکھی ہوا۔ اس کے بعد اپنا سامان اٹھا کر چھت پر بنے کمرے میں منتقل ہو گیا۔
 
 راحت بہت اچھا کما رہا تھا اس کا کاروبار جم چکا تھا۔ ان کے پاس روپے کی کمی نہ تھی لیکن اس نے ابھی تک دوسری شادی نہ کی ، جبکہ پہلی بیوی جو اس کی پسند سے اس گھر کی بہو بن کر آئی تھی ، شادی کے سال بعد ہی طلاق لے کر چلی گئی-میری بیوگی میں اس نے اپنی خطا کا حق اس طرح ادا کیا کہ ہمارے خرچے کے لیے خالہ اور خالو کو علیحدہ رقم دینے لگا لیکن مجھے اس بات کا علم نہ تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ خالو ہمارا خرچہ اٹھاتے ہیں، جبکہ وہ تو اب برائے نام دکان پر جاتے تھے تمام کاروبار راحت کو سونیا ہوا تھا۔
 اس بات کا علم مجھے بعد میں ہوا مجھے بیوہ ہوئے چار سال بیت گئے مگر میں اس دکھ کو نہ بھلا سکی تھی، ہمہ وقت افسردہ رہتی تھی۔ خالو اب بیمار رہنے لگے تھے۔ چیک کرایا تو پتا چلا کہ کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہو چکا ہے، یہ بڑی دکھ دینے والی خبر تھی۔ ایک روز خالو میرے پاس آئے اور کہا۔ بیٹی میری ایک بات مانو گی ؟ کیوں نہیں خالو جی ! آپ کی ہر بات مانوں گی۔ آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔ اس لیے بیٹی کہ مجھے جان لیوا مرض لاحق ہو گیا ہے اور تمہاری خالہ کی صحت بھی اب پہلے جیسی نہیں رہی۔ موت تو ہر ایک کے ساتھ ہے، ہمارے بعد تمہارے اور تمہارے بچوں کا کیا ہوگا؟ یہی سوچ کر ہم دونوں پریشان رہتے ہیں۔ بیٹی میری بات مانو ا تم راحت سے نکاح کر لو۔ اگر تم راضی ہو جاؤ تو تم اور تمہارے بچے محفوظ ہو جائیں گے۔ در در بھٹکنے سے بچ جائیں گے۔ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر راضی ہو جاؤ ۔ ہم تم کو بہو بنائیں گے، میں تب ہی سکون سے مرسکوں گا۔
 
 میرے گمان میں بھی نہ تھا کہ خالو اچانک ایسی بات کہہ دیں گے۔ میں نے کہا۔ آپ میرے لیے والد کا درجہ رکھتے ہیں لیکن اب یہ ممکن نہیں ہے۔ کبھی راحت کے ساتھ جس نے بچپن کی منگتی کو توڑا اور خود شادی سے انکار کیا، بھلا اب جبکہ میں بیوہ اور تین بچوں کی ماں ہوں، کیسے نکاح کر سکتا ہے۔ اس نے اصرار کیا ہے۔ اب وہ دل سے پچھتاتا ہے اپنی غلطی پر کہ تم کو کیوں ٹھکرایا ؟ اللہ نے اسے اس کی سزا دے دی۔ جس لڑکی سے محبت کی شادی کی اور چاہت سے بیوی بنایا ، اسی نے وفا نہ کی۔ اس کی بے وفائی کو جھیلنے کے درد نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ بے وفائی سہنے کی تکلیف کیسی ہوتی ہے۔ خالو کی زبان سے یہ سب سن کر میں دنگ رہ گئی ، لیکن میرا دل نہیں مانتا تھا جبکہ راحت میرے بچوں کا بہت خیال رکھتا تھا۔ 
ان کو گھمانے، پھرانے لے جاتا، ان کے لیے ہرشے لے کر آتا لیکن ہم دونوں آپس میں کلام نہ کرتے تھے۔ بالآخر اس نے جب میرے پیروں پر ہاتھ رکھ کر معافی مانگی تو میں نے بھی سوچا کہ خالو سچ کہتے ہیں۔ ان کے بعد میرا کیا ہوگا؟ میرے بچوں کا کون سہارا بنے گا؟ راحت سہارا بنا بھی تو دنیا ہم کو ایک ساتھ رہنے نہ دے گی۔ بچوں کی بھلائی تو اسی میں تھی کہ میں راحت کو معاف کر دیتی اور جس گھر نے مجھ کو یتیمی میں پناہ دی تھی ، ان سے ان کو محروم نہ ہونے دیتی۔ بہت غور و خوض کے بعد میں نے خالو خالہ کی بات مان لی اور یوں ایک بار پھر اسی گھر کا حصہ بن گئی، جس گھر میں بچپن گزارا تھا۔

تین ماہ بعد ہی خالو کی وفات ہو گئی۔ اب خالہ، میں اور میرے بچے راحت کی ذمہ داری بن گئے تھے ۔ اس نے ہمیں احسن طریقے سے رکھا کہ میں پچھلے سارے غم بھلانےپر مجبور ہوگئی۔ کبھی کبھی یہ شکوہ ضرور میرے لبوں پر آجاتا کہ راحت ! اگر تم نے مجھ سے شادی کرنا ہی تھی ، تو وقت پر کیوں نہ کی؟ کیوں مجھے اتنا دکھ دیا اور بیچ منجدھار میں چھوڑ دیا۔ ایک روز اس نے جواب دے ہی دیا۔ انسان سے بھول ہو جاتی ہے اور وہ غلط فیصلہ کر بیٹھتا ہے۔ دراصل میں نے اپنے دوست کو ساری بات بتا کر مشورہ لیا تھا۔ اس نے کہا کہ اب تم ہرگز یہ شادی مت کرنا، ورنہ لوگ تمہاری بیوی اور اولاد پر عمر بھر انگلیاں اٹھائیں گے، کیونکہ تمہاری منگیتر نے واقعہ کے پانچ ماہ گزرنے کے بعد انہونی سے پردہ اٹھایا۔ اگر وہ پہلے اس بات سے تمہاری والدہ کو آگاہ کر دیتی تو غلطی پر پردہ پڑ جاتا لیکن اب اسے چھپایا نہ جاسکے گا اور سارا خاندان تم لوگوں پر تھو تھو کرے گا۔
 بس میں نے اپنے ذہن سے نہ سوچا اور تم کو بیچ منجدھار میں چھوڑ دیا مگر تمہاری شادی کے بعد بہت پچھتایا اور یہی پچھتاوا دوزخ کی آگ بن کر میرے وجود کو جلاتا رہتا تھا۔ مجھے کسی پل چین نہ آتا تھا۔ صد شکر کہ تم مل گئی ہو تو سکون ملا ہے ۔ انسان جب راہ راست پر آجاتا ہے تو اسے واقعی سکون مل جاتا ہے، اب تو میں تم کو چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔
 
اس کے آنسو اس کی سچائی کی دلیل تھے۔
ختم شد

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے