اس نے ٹرے میں سالن کی کٹوری ، دستر خوان میں لپٹی ہوئی تازہ روٹی اور پانی کا گلاس رکھا۔ پھر تھکے تھکے قدموں سے بوا جی کے کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ سامنے پلنگ پر بیٹھی تسبیح کر رہی تھیں ۔ اس نے خاموشی سے کھانا ان کے سامنے رکھا اور کمرے سے نکل آئی۔ اچانک سامنے کچے صحن میں اس کی نظر کانچ کے کچھ ٹکڑوں پر پڑی۔ شاید گڈو اور ببلو سے کوئی بوتل ٹوٹ گئی تھی۔ کہیں یہ کسی بچے کے پاؤں میں چھب نہ جائیں۔ یہ سوچ کر وہ زمین پر بیٹھ گئی اور کانچ کے ٹکڑے اکٹھے کرنے لگی۔ بے دھیانی میں ایک لمبا سا ٹکڑا اس کے دائیں انگوٹھے میں گھس گیا۔ خون کا ایک فوارہ سا پھوٹ نکلا۔ وہ بھل بھل نکلتے خون کو بے تاثر نظروں سے دیکھنے لگی۔ چرر کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا اور کوئی ہولے ہولے چلتا ہوا اس کے بے حد قریب آکر بیٹھ گیا۔ اس نے جھکی نظریں اٹھا کر دیکھا تو ساکت رہ گئی۔
زوجه فضل دین ملاقات کے لیے حاضر ہو۔ ایک پاٹ دار آواز احاطے میں گونجی تو کئی گھنٹوں سے منتظر بیٹھی زبیدہ ہڑبڑا کر اٹھ کھڑی ہوئی اس نے اپنی چادر کو مضبوطی سے سر پر جمایا اور ڈگمگاتے قدموں سے ایک نیچی چھت اور پیلے در و دیوار والے کمرے میں داخل ہوئی جو قیدیوں سے ملاقات کے لیے مخصوص تھا۔
آج سے ٹھیک چھ مہینے اور دس دن پہلے پولیس فضل دین کو اس کے ڈھابہ نما ہوٹل سے گرفتار کر کے لے گئی تھی۔ بات بے حد معمولی جھگڑے سے شروع ہوئی تھی۔ دوگا ہک ہوٹل کے ملازم لڑکے سے الجھ پڑے۔ نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔ فضل دین نے ان کو چھڑوانے کے لیے ایک کو دھکا دیا تو اس کا سر اپنی میز کے کنارے سے جا ٹکرایا۔ سر پر پڑنے والی ضرب شدید ثابت ہوئی۔ اب وہ آئی سی یو میں تھا اور فضل دین جیل میں ۔ اتفاق سے متاثرہ شخص کی فضل دین کے بھائیوں سے پہلے سے ہی کچھ چپقلش چلی آ رہی تھی۔ اسی بات کو بنیاد بنا کر اس کے وارثوں نے غیر ارادی فعل کو قاتلانہ حملے میں بدل دیا۔
زبیدہ پر گویا اک قیامت ٹوٹ پڑی۔ ہوٹل بند ہو گیا۔ شوہر جیل چلا گیا۔ اب تین چھوٹے چھوٹے بچوں سمیت ایک بوڑھی جان کی ذمہ داری اس کے ناتواں کندھوں پر آپڑی۔ اس نے تو کبھی سبزی تک نہ خریدی تھی۔ ہوٹل کے لیے اکٹھا سامان آتا تو گھر کے لیے بھی آجاتا۔ اگر کبھی طبیعت ناساز ہوتی تو پکا پکایا بھی مل جاتا- بچوں کے اسکول سے لے کر دو اور دارو تک سب کچھ فضل دین کرتا تھا، مگر اب اس سب کو کرنے تھے- وہ رو کر کرتی یا ہنس کر کرتی، کرنا تھا ہی اور مسئلہ صرف سودا سلف کا نہ تھا، سلسلہ روزگار کا بھی تھی- مقدمہ بازی میں ہزاروں اٹھ گئے تھے اور مزید ہزاروں کی ضرورت کی۔ اسے رہ رہ کر اپنی ایف اے کی ادھوری تعلیم پر غصہ آتا تھا۔ وہ ماں باپ منوں مٹی تلے جا سوئے تھے جو یہ کہا کرتے تھے کہ ہم نے کون سا زیادہ پڑھا لکھا کر نوکری کروانی ہے۔ آج زندہ ہوتے تو خود بھی اس افسوس اور پچھتاوے کا حصہ بنتے جو وہ اکیلی جھیل رہی تھی۔
ایک دن وہ بے دلی سے گھر کی صفائی کر رہی تھی کہ الماری میں سے اسے ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے کچھ ٹکڑے ملے ۔ سبز رنگ کی چوڑیوں کو گولڈن رنگ کے گوٹے سے لپیٹ کر اس پر موتی ٹانکے گئے تھے۔ اس کو اپنا لڑکپن یاد آیا تو دل میں اک ہوک سی اٹھی۔ وہ چوڑیوں کی عاشق تھی۔ بازار سے ڈھیروں ڈھیر خرید لاتی۔ پھر گھنٹوں بیٹھ کر ان کو گوٹے کناری ، ستارے موتیوں سے سجاتی ۔ خاندان بھر میں اس کے معصوم شوق کی دھوم تھی ۔ پھر شادی ہوئی تو گھر کے جھمیلوں میں پڑ کر اپنا فن بھول بھال گئی۔ آج اتنے دن بعد ان چوڑی کے ٹکڑوں نے اس کو کیا کچھ یاد دلا دیا۔ ان ٹکڑوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔
ایک دن اس نے اپنی چھوٹی انگلی میں پہنی ہوئی ایک ماشے کی اس واحد انگوٹھی کو بیچا جو نجانے کیسے اب تک فروخت ہونے سے رہ گئی تھی۔ ان پیسوں سے وہ چوڑیاں اور ان کو سجانے کے لیے کچھ سامان خرید لائی۔ اس نے اپنے بھولے بسرے فن کو ازسرنو تازہ کیا۔ ابتدا میں بہت مشکل ہوئی۔ اس کے ہاتھ اب اس کام کے عادی نہ رہے تھے ۔ بار بار چوڑیاں ہاتھوں سے پھسل پھسل جاتیں۔ موتی ستارے ٹانگتے ہوئے سوئی سے انگلیوں میں چھید ہو جاتے مگر اس نے پریکٹس جاری رکھی۔ کچھ دن بعد وہ مہارت سے چوڑیاں سجانے لگی- موتی ، ستارے اور گوٹا کناری کا استعمال نہایت نفاست سے کرتی تو عام چوڑیاں بھی انکھوں کو خیرہ کرنے لگتیں۔
کام کا آغاز اس نے چھوٹے پیمانے سے کیا۔ گڈو اور بیلو کی مدد سے گھر کے باہر چوڑی گھر کا بورڈ آویزاں کر دیا۔ پہلے پہل تو آس پاس والوں نے تمسخر سے دیکھا پھر کچھ لڑکیاں بالیاں شوق شوق میں اندر بھی گھس آئیں۔ چند ایک نے کچھ خریداری بھی کی۔ پھر آہستہ آہستہ گاہک بڑھنے لگے۔ ابتدا میں منافع کی شرح بے حد قلیل تھی۔ اور بعض اوقات تو نہ ہونے کے برابر ہوتی۔ الٹا گھر کے کام ادھورے رہ جاتے۔ بچے آپس میں لڑ لڑ کر ادھ موا ہو جاتے۔ بوا کھانے کے لیے چلاتی رہتی۔ کئی دفعہ چوڑی ٹوٹ کر کانچ اس کی انگلی میں چبھ جاتا ۔ اس کی انگلیاں درد کرتیں مگر وہ لگی رہتی۔ پھر اپنی ایک دیرینہ دوست کے مشورے پر اس نے اسکولوں میں بھی اسٹال لگانا شروع کر دیا۔ یہاں پراستانیاں اسے کچھ بہتر معاوضہ دیتیں۔ پھر مہندی پر اسے چھوٹے چھوٹے آرڈرز بھی ملنے لگے۔
ہر دفعہ ملاقات پر وہ فضل دین کا اور فضل دین اس کا حوصلہ بڑھاتا۔ مگر کبھی کبھی وہ اس کی دگرگوں حالت دیکھ کر ٹوٹ جاتی ۔ مقدمہ مسلسل التوا کا شکار تھا۔ اس شخص کو ہوش آ چکا تھا۔ وکیل بہت پرامید تھا۔ مگر بے یقین کی صورت حال اس کا حوصلہ پست کر دیتی تھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ کتنے نامناسب رویوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا-
فضل دین کے بھائیوں نے خود کو لا تعلق کرلیا تھا۔ اس کی گھر سے غیر حاضری کو آوارہ گردی قرار دیا جاتا۔ وہ غیر ذمہ دار قرار دی جاتی۔ اس کی محنت کو وقت کا ضیاع سمجھا جاتا۔ بوا کے خیال میں اس کے پھوہڑ پن نے سارا گھر اجاڑ دیا تھا۔ جیل میں بھی فضل دین کو اس کے بارے میں مشکوک سی رپورٹ دی جاتی۔ کئی دفعہ تو وہ بھی اس کی طرف عجیب سوالیہ نظروں سے دیکھتا کہ اس کا دل ڈوب جاتا۔ وحشت حد سے بڑھ جاتی ۔ مگر فرار ممکن نہ تھا۔ مرد کے لیے آسان ہے مگر قدرت نے عورت میں یہ خصلت رکھی ہی نہیں۔ وہ گھر سے جڑی رہی اور وہ سب کرتی رہی جو اس کے آشیانے کو دھوپ چھاؤں سے بچائے رکھے۔
وہ حیرت سے جامد ہو گئی۔ فضل دین اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ اس نے بے حد نرمی سے اس کے زخمی انگوٹھے کو اپنی قمیض کے دامن سے لپیٹا اور کچھ سختی سے دبا کے رکھا اس کی آنکھوں سے دو گرم گرم آنسو نکلے اور فضل دین کی گود میں آگرے فضل دین نے قمیض کا دامن کھولا تو انگوٹھے سے خون نکلنا بند ہو چکا تھا۔ مگر قمیض کے عین وسط میں زبیدہ کے خون کا ایک دھبا سا پھیل چکا تھا۔ وہاں آس پاس اس کے دو آنسو بھی اس کے میلے دامن میں جذب ہو چکے تھے۔ فضل دین نے اس کی آنکھوں کو نرمی سے چھوا اور دھیرے سے گویا ہوا ۔ زبیدہ ! تمہارا خون اور آنسو میرے اوپر قرض ہیں۔ میں تمہارا یہ قرض چکانے کی کوشش کروں گا۔ میں لاعلم نہیں ہوں ۔ تمہاری محنت اور ریاضت میرا فخر ہے۔ یہ کہہ کر اس نے اس کے ہاتھوں کو لبوں سے لگا لیا۔ زبیدہ نے بھیگی پلکیں اٹھائیں اور مسکرا دی۔ سب گلے شکوے دم توڑ گئے۔ اس نے آج یہ جانا کہ کبھی کبھی صرف احساس ہی کافی ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ مرد عورت کے لیے ایک تاج محل ہی بنا دے۔ سونے چاندی کے پہاڑ ہی کھڑے کر دے۔ صرف دو لفظ تسلی کے، اعتماد کے اور مان کے کافی ہوتے ہیں۔ یہ دو لفظ صدیوں
کی تھکن اتار دیتے ہیں۔ صرف دو لفظ ۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے