بھابھی کا شیطانی کھیل

urdu stories 
 
میری بھابھی سے ہر روز ایک عورت ملنے آتی تھی۔وہ برقع پہن کر آتی اور میری بھابھی اسے لے کر کمرے میں چلی جاتی اور اندر سے دروازہ بھی بند کر لیتی تھی۔میں حیران تھی کہ یہ عورت کون ہے، اور کمرے میں کیا کرتی ہے؟ ایک دن میں پہلے ہی کمرے میں چھپ کر بیٹھ گئی، اور انتظار کرنے لگی، میرے بھائی کے چلے جانے کے بعد وہ عورت آئی اور سیدھی بھابھی کے کمرے میں چلی گئی، اس نے جیسے ہی برقع اتارا تو اسے دیکھ کر میر ےپاؤں تلے زمین ہی نکل گئی،  کیونکہ وہ تو ایک چھ فٹ لمبا ؟؟
 
------------------

 میری عمر اس وقت گیارہ سال تھی جب ہماری امی اس دنیا سے چلی گئی، میں اور میرا بڑا بھائی اس بھر دنیا میں اکیلے رہ گئے، امی ہم سے بہت پیار کرتی تھی اور ہماری ہر ضرورت کا خیال رکھا کرتی تھی، ہمارے پاپا پہلے ہی  فوت ہو گئے تھے، ہماری امی کالج میں پروفیسر تھیں، ساتھ میں پاپا کی پنشن بھی تھی تو اچھا گزر بسر ہو رہا تھا۔لیکن ہمارے ہنستے بستے گھر کو کسی کی نظر کھا گئی۔

میرا بھائی جو اس وقت پندرہ سال کاتھا ،اور تعلیم حاصل کر رہا تھا، اس کے لیے یہ بڑا صدمہ تھا، کیونکہ اب گھر کی ذمہ دار اس پر آ پڑی تھی، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور تعلیم کیساتھ کیساتھ کام بھی کرنے لگا، وہ سیدھا سادہ سا لڑکا تھا۔مجھ سے اپنے بھائی کی اداسی دیکھی نہیں جاتی تھی، میں کوشش کرتی کہ میرا بھائی خوش رہے، لیکن وہ گم سم رہنے لگا۔یہ بات مجھے بہت تکلیف دیتی تھی۔

وقت تیری سے گزر گیا ، میں نے کالج میں ایڈ مشن لیا تو بھائی  کی بنک میں جاب ہو گئی، میں کالج جانے لگی تو زندگی میں اک نیا موڑ آ گیا، مجھے اپنے بھائی کے لیے اک پیاری سی دلہن ڈھونڈنا تھی، مجھ اس بات کی خوشی تھی کہ بھائی کی شادی ہو جائے تو اس کی زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں لوٹ آئیں گی۔اس لیے میں نے اپنے رشتہ داروں میں لڑکی دیکھنا شروع کر دی، کہیں بھی کوئی شادی یا کوئی اور تقریب ہوتی ، میری نظر ہمیشہ لڑکیوں پر ٹک جاتی، لیکن کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

ایک سال مزید گزر گیا، میرا بھائی میرا بہت خیال رکھتا  تھا کیونکہ میں ہی اس کے لیے سب کچھ تھی،آخرایک رشتہ دار خاتون کی مدد سے ایک لڑکی پسند کر لی، اور یوں میں اپنے بھائی کے لیے اک پیاری سی بھابی لانے میں کامیاب ہو گئی، وہ بہت ہی پیاری تھی اس کا نام شمائلہ تھا۔وہ بھی میرا بہت خیال رکھتی تھی، اس طرح بھائی کی زندگی میں بھی خوشیاں لوٹ آئیں، اور ہم اکثر باہر گھومنے بھی جایا کرتے تھے۔

ایک سال بیت گیا ، مجھے دوسرے شہر پڑھنے کے لیے جاناپڑا، بھائی اور بھابھی سے دور جانا نہیں چاہتی تھی، لیکن بھائی کے اسرار پر یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ایڈمیشن مل گیا اور وہاں شفٹ ہو گئی۔میرے بھائی کی شادی کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا لیکن ابھی تک میری بھابی کی گود خالی تھی،  ایک ماہ کے بعدمیں گھر آئی تو بھابھی سے کہا : بھابھی مجھے ایک پیارا سا آپ کے جیسا بے بی چاہیے۔میری بات سن کر میری بھابی مسکرا دی لیکن کوئی جواب نہ دیا۔

رات کو بھائی سے بھی ملاقات ہوئی تو وہ میری شادی کے لیے فکر مند تھا لیکن میں نے کہ دیا کہ پہلے تعلیم مکمل کروں گی، پھر شادی کا سوچوں گی، دوسرے دن میں اور میری بھابھی گھر میں اکیلی تھیں، کہ اک عورت آئی ، میری بھابھی نے بتایا کہ ان کے علاقے کی مشہور دائی ہے، وہ عورت برقع پہنے ہوئے تھی، گھر میں اس وقت کوئی مرد بھی نہیں تھا، پھر بھی اس نے برقع نہ اتارا، میں نے زیادہ توجہ نہ دی اور اپنے کمرے میں چلی گئی اور سوچا شاید بھابی اس سے کوئی مشورہ کرنا چاہتی ہو گئی کیونکہ ابھی تک بے بی  نہیں ہوا تھا۔

میں دل میں سوچنے لگی کہ میڈیکل سائنس بہت ترقی کر چکی ہے، اگر بھائی اور بھابھی کسی اچھی لیڈی ڈ اکٹر سے مشورہ کر لیتے تو زیادہ اچھا ہوتا، سارا دن وہ دائی کمرے میں رہی اور کبھی کبھی بھابھی کی سسکاریوں کی آواز بھی آتی لیکن مجھے بڑی شرم محسوس ہوتی۔شام میں جب بھائی آیا تو مجھے  بس سٹاپ تک چھوڑنے آیا، وہ کچھ پریشان سا دیکھائی دیتا تھا۔

آخر میں نے پوچھ ہی لیا، لیکن بھائی ٹال گیا اور یوں میں ایک بار پھر ہاسٹل آ گئی۔کبھی کبھار بھابی سے فون پر بات ہوتی تو وہ فوراً کسی مصروفیت کا بہانا بنا کر کال کاٹ دیتی۔حالانکہ گھر میں ایسی کوئی مصروفیت بھی نہیں ہوتی تھی۔اس لیے میں نے فون کرنا بند کر دیا بس بھائی سے بات ہو جاتی اور خیریت معلوم ہو جاتی۔
مڈ کے ایگزامز کے بعد اک ہفتے کے لیے گھر آئی تو صورتحال  بہت بدل چکی تھی، نہ بھابھی سیدھے منہ بات کر رہی تھی اور نا ہی بھائی، ان کا رویہ بالکل بدل چکا تھا، اب تو بھابھی بات بات  پر ناراض ہو جاتی اور بھائی بھی واپس آ کر اپنے کمرے میں چلے جاتے۔مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا، لیکن کوئی بتا بھی نہیں رہا تھا۔

اگلے دن جب بھائی بنک چلے گئے تو میں ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھی تھی، وہی عورت آئی جو پہلے بھی بھابھی سے ملنےآیا کرتی تھی۔لیکن عجیب بات تھی وہ بات بھی نہیں کرتی تھی،مجھے دیکھ کر وہ رک گئی اور بھابھی کو دیکھنے لگی جو نہا کر کمرے سے نکل رہی تھی۔میں اپنے کمرے میں چلی گئی اور بھابھی اس عورت کو لے کر کمرے میں چلی گئی۔میں بھائی اور بھابھی کے رویے سے کافی پریشان تھی، اور اس عورت کا کیا چکر تھا، یہ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔

اچانک میری چھٹی حس نے مجھے خبر دار کیا کہ کوئی گڑ بڑ ہے، اور مجھ سے کچھ چھپایا جا رہا ہے۔میں اپنے کمرے سے باہر نکل آئی اور دیکھا تو بھابی کے کمرے کا دررازہ بند ہو چکا تھا۔میں جب دروازے کے پاس سے گزری تو اک عجیب بات ہوئی کمرے سے بھابھی کے رونے کی آ واز آ رہی  تھی میں فکر مند ہوئی کہ کیا معاملہ ہے۔دروازے پر دستک دی لیکن کوئی جواب نہ آیا آخر میں اپنے کمرے میں لوٹ آئی، کچھ دیر بعد وہ عورت تیزی سے کمرےسے باہر نکلی اور چلی گئی۔
اب تو معاملہ کافی سنگین ہو چکا تھا، اور اس راز تک پہنچنا ضروری ہو گیا تھا اس لینے میں نے ایک پلان بنا لیا، اس پلان پر عمل کرنے کے لیے ، اگلے دن جب بھابھی نہارہی تھی، میں اس کے کمرے میں چھپ کر بیٹھ گئی کہ آج دیکھو تو سہی کہ کیا ماجرا ہے۔وہ عورت مقررہ وقت پر ہمارے گھر آئی ،  اس وقت بھائی گھر پر نہیں تھے ، ۔

مجھے ایک بات کہ فکر ہو رہی تھی کہ اگر کوئی پرابلم ہو گئی تو  میں کیسے سامنہ کروں گی، لیکن دل کو تسلی دی اور کمرے میں چھپی رہی۔وہ عورت کمرے میں داخل ہوئی ، بھابھی نہا کر باہر آ چکی تھی، کچھ دیر دونوں نے کوئی بات نہیں کی۔پھر اچانک وہ ہوا جسے دیکھ پر میرے ہوش اڑ گئے۔  اس عورت نے برقع اتارا تو اندر سے اک چھ فٹ لمبا تڑنگا نوجوان نکلا، اب ساری بات سمجھ میں آ رہی تھی، اس کے بعد کافی دیر دونوں باتیں کرتے رہے، وہ لڑکا بھابھی کا بوائے فرینڈ رہ چکا تھا، لیکن شادی نہ ہو سکی تو دونوں نے ناجائز  تعلقات استوار کر لیے اور اس طرح وہ لڑکا برقع پہن کر ہر روز بھا بھی سے ملنے آ نے لگا۔

اب مجھے غصہ بھی آ رہا تھا کہ ابھی سامنے آ کر بھا بھی کو رنگے ہاتھوں پکڑ لوں، لیکن بھائی گھر پر نہیں تھے اس لیے میرے لیے کوئی بڑی پرابلم ہو سکتی تھی۔لیکن کچھ دیر بعد میری بھابھی نے خود کو بے لباس کر دیا، یہاں تک کہ بالکل برہنہ ہو گئی، یہ منظر دیکھ کر میں شرم سے پانی پانی ہو گئی اور اپنی آنکھیں بند کر لی، میرا جسم تھر تھر کانپ رہا تھا، مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں ابھی بے ہوش ہو کر گر پڑوں گی۔میں نےخود کو بڑی مشکل سے کنٹرول کیا ہوا تھا،لیکن دوسرے ہی لمحے کمرے کی لائیٹ آف ہو گئی اور پھر وہی بھابھی کی سسکاریوں اور رونے کی آواز آنے لگی۔

ایک گھنٹے بعد کمرے کی لائٹ آن ہوئی تو  بھابھی کمرے میں اکیلی تھی، شاید وہ مرد جا چکا تھا، بھابھی ابھی تک بیڈ پر دراز تھی اور لباس پہن چکی تھی، اب وقت تھا کہ میں ان کے سامنے آ جاتی اور ان کا سارا کیا چٹھا کھول کر ان کے سامنے رکھ دیتی۔میں کپڑوں والی الماری میں تھی ، میرا جسم پسینے سے شرابور ہو رہا تھا، میں جیسے بھابی کے سامنے آئی اس کے اوسان خطا ہو گئے، کہ تم کمرے میں کیسے آ گئی؟ دروازہ ابھی تک لاک تھا، میں آگے بڑھی اور بولی: بس بھابھی آپ کا کھیل ختم ہوا، میں نے آج اپنی آنکھوں سے اس برقع پوش مرد کو دیکھا ہے جو بہت دنوں سے آپ سے عورت بن کر ملنے آ رہا تھا۔

مجھ سے ایک غلطی ہو گئی ، میں سمجھی وہ مرد جا چکا ہے لیکن وہ واش روم میں تھا، میں اس سے بے خبر بھابھی سے بات کیے جا رہی تھی کہ اچانک اس نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا، مجھ پر اک آفت ٹوٹ پڑی ، میں چلانا چاہتی تھی مگر اس نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا، میں کسمساکر رہ گئی،۔

میری بھابی نے اس مرد سے کہا: سکندر اس کو مت چھوڑنا نہیں تو یہ میرا راز کھول دے گی، اس کو ایسا مزہ چکھاؤ کہ ساری زندگی یاد رکھے اور کسی کو منہ دیکھانے کے لائق بھی نہ رہے، یہ کہ کر بھابھی کمرے سے باہر چلی گئی اور وہ درندہ مجھے اٹھا کر بیڈ پر لے گیا۔ میں بہت گھبرا گئی، کہ یہ سب کیا ہو گیا، میرے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔میں نے اس مرد کی بہت منت سماجت کی لیکن وہ مجھے چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوا۔

کچھ ہی دیر میں میری عزت لٹنے والی تھی، مجھے اپنے بچاؤ کے لیے فوراً کچھ کرنا تھا۔آخر میں نے خود کو نارمل کیا اور اپنا جسم ڈھیلاچھوڑ دیا، وہ مرد سمجھا کہ میں اب مزاحمت نہیں کرو گی، میں نے اسے ایسا محسوس کرایا جیسے میں اپنی رضامندی کا اظہار کر چکی ہوں۔میں خاموش ہو گئی۔

وہ اپنے کپڑے اتارنے لگا، تھوڑکے لیے وہ مجھ سے غافل ہوا، مجھے یاد آیا کہ بھائی اپنے کمرے میں بیڈ کی دراز میں ایک لوڈڈ پستول رکھا کرتا تھا، اگر وہ اس وقت دراز میں ہوتا تو میں اپنے بچاؤ کے لیے بہت کچھ کر سکتی تھی۔میں نے برق رفتاری سے دراز کھولی تو وہاں پستول موجود تھا، میں نے فوراً پستول اٹھا کر پن ہٹائی اور اس مرد کا نشانہ لیا اور بولی: خبر دار اگر تم نے میرے ساتھ کچھ گیا تو گولی مار دوں گی۔

زہریلی ناگن اور شادی کی رات

وہ سمجھا کہ میں اک کمزور لڑکی ایسا نہیں کر سکتی ، وہ میری طرف بڑھا اور پستول پر جھپٹا، لیکن میرے پاس اب کوئی آپشن نہیں تھا، میں نے ٹریگر دبا دیا ، گولی اس کے بازو کو چھیدتے ہو گزر گئی، وہ نیچے گرا اور درد سے کراہنے لگا، پھر اٹھا اور میری طرف لپکا،میں نے دو دفعہ ٹریگر دبا دیا، لیکن اس دفعہ چلائی گئی پہلی گولی اسے کے بھیجے میں گھس گئی، اور دوسری گولی، کمرے میں داخل ہوتی میری بھابھی کے سینے میں دل کے مقام میں پیوست ہو گئی۔جواس مرد کی کراہنے کی آ واز سن کے کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔

میرے سامنے اس قوت دولاشیں پڑی تھیں، پستول میرے ہاتھ سے گر گیا، اور میں بے ہوش ہوگئی۔جب ہوش آیا تو ہسپتال میں تھی، اور میرا بھائی اور دو پولیس والے بھی موجود تھے۔اک پولیس والے نے پوچھا: جی بیٹا اب کچھ بہتر محسوس کر رہی ہیں تو بتا سکتی ہیں، وہ مفرور قاتل آپ کے گھر میں کیسے آیا؟ اور آپ کی بھابھی کیسے قتل ہوئی، اور وہ مفرور کیسے مرا؟

تین ڈاکو اور تین کنواری لڑکیاں

میرے پاس اک کہانی بن گئی ، میں نے اصل بات چھپا دی اور اسے چور قرار دے کر بتا دیا کہ  اس نے میری بھابی کو قتل کر ڈ ا لا لیکن مجھے موقع مل گیا اورگھر میں موجود بھائی کے پستول سے اس کو ہلاک کر دیا۔
عدالت نے مجھے دو سال سزا سنائی اور یوں میں جیل چلی گئی مگر ایک بھیانک کھیل اپنے انجام کو پہنچا۔

شادی کی پہلی را ت تھی

 محترم خواتین و حضرات  ۔۔۔ !امید ہی آپ کو آج کی کہانی پسند آئی ہو گئی۔ ہمارے اس چینل کو سبسکرائب ضرور کر لیں، بہت شکریہ 
 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے