گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ پرانے لوگ گزرتے جاتے ہیں اور نئے لوگ پیدا ہوتے جاتے ہیں۔ نئے دور کے لوگ جدید سہولیات کو اپنا کر اور جدید ملبوسات پہن کر خود کو مہذب گردانتے ہیں، مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ لباس بدل جانے سے انسان کی فطرت نہیں بدل جاتی۔ جو جرائم پہلے ہوا کرتے تھے، وہ جرائم آج بھی ہو رہے ہیں، بلکہ آج تو بے تحاشا ہو رہے ہیں۔
میں ان دنوں پنجاب کے ایک پسماندہ دیہاتی علاقے کا تھانیدار تھا اور میرے تھانے کے دائرہ کار میں آس پاس کے پانچ گاؤں آتے تھے۔ یہ گاؤں زیادہ بڑے بھی نہیں تھے۔ ویسے بھی اس وقت آبادی کا یہ عالم نہیں تھا۔
وہ گرمیوں کے ابتدائی دن تھے۔ گرمی نے ابھی اپنا زور نہیں پکڑا تھا، پھر بھی دوپہر کے وقت بہت گرمی ہو جاتی تھی۔ ایسی ہی ایک دوپہر میں تھانے کے صحن میں لگے ایک درخت کے نیچے بیٹھا کچھ ضروری نوٹس لکھ رہا تھا کہ گاؤں کا نمبردار آ گیا۔
یہ نمبردار بڑا ہی خوشامدی قسم کا انسان تھا۔ زرا زرا سی بات پر تھانے آ جایا کرتا تھا اور لوگوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی مجھے آگاہ کرتا رہتا تھا۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ نمبردار تھانے کا مخبر بھی تھا۔
میں نے نمبردار سے بڑے تپاک سے ملاقات کی، اسے بٹھایا اور آنے کی وجہ دریافت کی۔ نمبردار نے بتایا کہ گاؤں کا ایک شخص برکت مسیح تھوڑی دیر پہلے اپنی بیوی کو سائیکل کے پیچھے بٹھا کر کہیں جا رہا تھا۔ جب وہ گاؤں کے باہر چھوٹی نہر کے پل پر پہنچا تو اچانک مخالف سمت سے ایک بیل گاڑی بڑی تیز رفتاری سے آئی۔ بیل گاڑی کے بیل کسی وجہ سے بھڑکے ہوئے تھے اور گاڑی بان کے کنٹرول میں نہیں تھے۔
نہر کے پل کے دونوں اطراف کوئی حفاظتی جنگلہ وغیرہ نہیں تھا۔ بیل گاڑی بے قابو ہو کر برکت مسیح پر چڑھ دوڑی۔ برکت مسیح نے بیل گاڑی سے بچنے کی کوشش کی تو وہ دونوں میاں بیوی سائیکل سمیت نہر میں جا گرے۔ بلندی زیادہ نہیں تھی، مگر پھر بھی جب تک برکت مسیح اپنے آپ کو سنبھالتا، اس کی بیوی پانی میں کافی غوطے کھا چکی تھی۔ برکت مسیح جب تک بیوی کے پاس پہنچا، وہ نیم مردہ ہو چکی تھی۔
برکت مسیح اپنی بیوی کو پکڑ کر پانی سے باہر لا رہا تھا کہ اس کی بیوی نے اس کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا اور برکت مسیح اپنی مردہ بیوی کو لے کر باہر نکلا۔
نمبردار کی بات سن کر میں نے سوچا کہ یہ تو ایک سیدھا سادا حادثہ تھا اور اس میں بظاہر پولیس کی دلچسپی والی کوئی بات نہ تھی۔ اس واقعے کے بارے میں کوئی رپورٹ درج کرنا بھی ضروری نہ تھا۔ نمبردار تو بس ویسے ہی اسے اپنا فرض سمجھ کر اور خوشامد حاصل کرنے کے لیے تھانے اطلاع دینے آ گیا تھا۔ میں نے نمبردار کا شکریہ ادا کیا اور وہ چلا گیا۔
ابھی اسے گئے ہوئے مشکل سے آدھا گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ دوبارہ تھانے آ گیا۔ اس بار اس کے ساتھ بارہ تیرہ سال کی عمر کا ایک لڑکا بھی تھا۔ نمبردار کے چہرے پر دبا دبا سا جوش تھا، جیسے وہ کوئی بہت ہی اہم خبر لے کر آیا ہو۔ میں نے نمبردار کو اپنے پاس بٹھایا اور اس سے پوچھا کہ ایسی کون سی نئی بات ہو گئی ہے کہ وہ دوبارہ واپس آ گیا ہے۔
نمبردار نے بڑے جوش سے کہا، ”تھانیدار صاحب! معاملہ گڑ بڑ ہے۔“ میں نے حیران ہو کر کہا، ”کیا مطلب؟ کون سا معاملہ گڑ بڑ ہے؟“ نمبردار نے کہا، ”جناب، وہی برکت مسیح اور اس کی گھر والی کا معاملہ گڑ بڑ ہے۔ آپ فوراً میرے ساتھ چلیں۔“
میں نے کہا، ”صاف صاف بتاؤ، کیا بات ہے؟ یہ کیا تم نے گڑ بڑ گڑ بڑ لگا رکھی ہے؟ پہلے مجھے پوری بات بتاؤ، پھر تمہارے ساتھ جاؤں گا۔“ نمبردار نے کہا، ”جناب، پوری بات تو آپ کو یہ لڑکا بتائے گا۔“ پھر نمبردار نے اس لڑکے کو میرے سامنے کھڑا کرتے ہوئے لڑکے سے کہا، ”اے کاکا! جو کچھ بھی تم نے دیکھا ہے، وہ سب تھانیدار صاحب کو بتاؤ۔“
لڑکا پہلے تو جھجکتا رہا، لیکن پھر میرے کہنے پر وہ بولنے لگا۔ اس لڑکے کی بات سن کر میں حیران رہ گیا۔ میں جس واقعے کو سیدھا سادا حادثہ سمجھ رہا تھا، وہ تو سیدھا سادا قتل کا واقعہ تھا۔
لڑکے نے بتایا کہ وہ بھی اسی گاؤں کا رہنے والا ہے۔ جس وقت یہ حادثہ ہوا، وہ نہر کے پل کے قریب ایک آم کے درخت پر چڑھا آم توڑ رہا تھا۔ دوپہر کا وقت تھا، گرمیوں کے دن تھے، اس لیے آس پاس کوئی آدمی نظر نہیں آ رہا تھا۔
اس نے دیکھا کہ ایک طرف سے ایک سائیکل سوار آ رہا تھا۔ سائیکل کے پیچھے ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ سائیکل والا یوں ہی نہر کے پل پر چڑھا تو مخالف سمت سے ایک بیل گاڑی نہر کے پل کی طرف آئی۔ اس بیل گاڑی کے بیل گاڑی بان کے قابو میں نہیں تھے۔ بے قابو بیل گاڑی سائیکل پر چڑھ دوڑی۔ سائیکل والے نے گھبرا کر سائیکل موڑی تو سائیکل سمیت نہر میں جا گرے۔ بیل رکے نہیں، بلکہ مزید گھبرا کر وحشت زدہ انداز میں بھاگتے چلے گئے۔
لڑکے نے درخت کے اوپر سے دیکھا کہ سائیکل کے پیچھے بیٹھی ہوئی عورت پانی میں ہاتھ مار رہی تھی۔ لڑکے نے بتایا کہ وہ ان سائیکل سوار مرد اور عورت کی مدد کے لیے اس لیے درخت سے نہیں اترا کہ اسے معلوم تھا کہ نہر میں پانی اتنا گہرا نہیں کہ کوئی ڈوب جائے۔ اور پھر عورت کے ساتھ ایک مرد بھی تھا، اس لیے وہ اوپر بیٹھا دیکھتا رہا۔
پھر لڑکے نے دیکھا کہ مرد پانی میں تیرتا ہوا عورت کے پاس پہنچا تو عورت بری طرح گھبرا چکی تھی اور پانی میں الٹے سیدھے ہاتھ مار رہی تھی۔ لیکن مرد کی حرکتیں مشکوک سی لگ رہی تھیں۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ اسے عورت کو بچانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پھر مرد نے عورت کے ہاتھ پکڑنے کی بجائے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور عورت کو نیچے پانی میں دبا دیا۔
عورت تڑپ کر اوپر کو اٹھی۔ عورت جب پانی سے ابھری تو مرد نے اس کا گلا پکڑ کر دبانا شروع کر دیا اور عورت تڑپنے لگی۔ لیکن مرد نے عورت کا گلا دبائے رکھا اور اسی طرح گلا دباتے دباتے ہی عورت کو پانی میں ڈبو دیا اور کافی دیر پانی کے اندر ہی دبائے رکھا۔ پھر مرد نے عورت کو پانی سے نکالا۔ اس وقت تک عورت اپنے ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑ چکی تھی۔
مرد نے ادھر ادھر دیکھا۔ آس پاس کوئی بندہ نظر نہیں آیا۔ دور کھیتوں میں کچھ لوگ کام کر رہے تھے اور کچھ درختوں کی چھاؤں میں بیٹھے تھے۔ مرد نے زور زور سے پکار کر ان لوگوں کو بلانا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر میں سات آٹھ آدمی وہاں پہنچ گئے۔
اور یہ لڑکا بھی درخت سے اتر کر ان لوگوں کے ساتھ جا کھڑا ہوا۔ اس وقت تک مرد عورت کو کنارے پر لے آیا تھا۔ قریب جا کر پتہ چلا کہ وہ عورت مر چکی تھی۔ اور اس عورت کا مرد لوگوں کو بتا رہا تھا کہ کس طرح بھڑکے ہوئے بیلوں کے ڈر کی وجہ سے وہ میاں بیوی نہر میں گر پڑے تھے اور اس کی بیوی پانی میں ڈوب کر مر گئی۔
لوگوں نے اس سے افسوس کا اظہار کیا۔ ایک شخص نے، جو غوطہ خوری جانتا تھا، سائیکل ڈھونڈ کر نہر سے باہر نکال دی۔ اور پھر ایک شخص اپنی گدھا گاڑی لے آیا۔ عورت کی لاش اس گدھا گاڑی پر رکھ کر گاؤں کی طرف چلے گئے۔
لڑکے کی بات ختم ہوئی تو میں نے پوچھا، ”کیا یہ بات تم نے وہاں کسی کو بتائی تھی؟“ وہ بولا، ”نہیں جی، میں تو بہت زیادہ خوفزدہ ہو گیا تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک انسان کو دوسرے انسان کا قتل کرتے ہوئے دیکھا تھا۔“ پھر وہ لوگ جب لاش گدھا گاڑی پر لے کر چلے گئے تو میں بھی وہاں سے ہٹ گیا۔
اسی وقت نمبردار اس حادثے کی اطلاع تھانے میں دے کر واپس جا رہا تھا۔ راستے میں اس لڑکے کا اور نمبردار کا آمنا سامنا ہو گیا۔ نمبردار کو دیکھ کر لڑکے نے یہی بہتر سمجھا کہ وہ ساری بات نمبردار کو بتا دے۔ جب نمبردار نے لڑکے کی زبانی یہ ساری بات سنی تو نمبردار لڑکے کو انہی قدموں لے کر واپس تھانے آ گیا۔
لڑکے کی زبانی یہ سارا واقعہ سن کر مجھے بھی یہ معاملہ گڑ بڑ نظر آنے لگا۔ لڑکے کی باتوں سے صاف پتہ چلتا تھا کہ برکت مسیح نے اپنی بیوی کو خود مارا ہے۔ اب اس قتل کی وجہ معلوم کرنا بہت ضروری تھا۔
میں نے نمبردار سے پوچھا، ”کیا برکت مسیح کے گھر میں دونوں میاں بیوی کے بیچ لڑائی جھگڑا رہتا تھا یا کوئی اور وجہ ایسی تھی کہ برکت مسیح نے تنگ آ کر اپنی بیوی کو مار دیا ہو؟“
نمبردار بولا، ”جناب، لڑائی جھگڑے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ برکت مسیح تو اپنی بیوی کا دیوانہ تھا۔ سارے گاؤں میں مشہور ہے کہ وہ اپنی بیوی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کچھ لوگ تو برکت مسیح کو رن مرید بھی کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ برکت مسیح کی بیوی تھی ہی اتنی خوبصورت اور جوان کہ اس عورت کا کوئی بھی خاوند ہوتا، وہ اس عورت کا غلام بن کر رہتا۔“
نمبردار کی یہ وضاحت سن کر مجھے مایوسی ہوئی کہ برکت مسیح اور اس کی بیوی میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں تھا اور یہ کہ برکت مسیح اپنی بیوی کو دیوانگی کی حد تک چاہتا تھا۔
نمبردار کی باتیں سن کر مجھے لڑکے کے بیان پر شک ہونے لگا کہ شاید کسی عداوت کی بنا پر یا کسی کے کہنے پر وہ لڑکا یہ بیان دے رہا تھا یا پھر اس نے جو دیکھا، وہ اس کی غلط فہمی ہو اور برکت مسیح واقعی اپنی گھر والی کو بچانے کی کوشش کر رہا ہو۔
میں نے سوچا کہ ابھی مجھے جلد بازی میں کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچنا چاہیے۔ پہلے مجھے مرنے والی کی لاش کا معائنہ کرنا چاہیے، اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنا ہو گا۔
میں نے فوراً دو کانسٹیبل ساتھ لیے اور نمبردار کو ساتھ لے کر برکت مسیح کے گھر کی طرف چل پڑا۔ نمبردار نے مجھے مرنے والی کا نام کامنی بتایا۔ میں نے کامنی کے مرنے کے وقت کا حساب لگایا۔ اس حادثے کو گزرے تین ساڑھے تین گھنٹے ہو گئے تھے۔ میں وقت کا حساب اس لیے لگا رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت زیادہ گزر جائے اور کامنی کو دفن کر دیا جائے۔ ویسے بھی اگر برکت مسیح نے کامنی کو خود مارا تھا تو پھر وہ اسے دفنانے میں جلدی کر سکتا تھا۔
اگر کامنی کو دفن کر دیا جاتا تو پھر قبر کشائی کے لیے مختلف مرحلوں سے گزرنا پڑتا اور میں ان مراحل سے بچنا چاہتا تھا۔ اس وقت میرے پاس کوئی واضح ثبوت بھی نہیں تھا کہ کامنی کو واقعی میں قتل کیا گیا ہے۔
بہرحال، انہی سوچوں میں گم ہم کامنی کے گھر پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ کامنی کے ماں باپ آ چکے تھے اور ابھی کامنی کی ایک خالہ کا انتظار تھا جو کہیں دور دراز رہتی تھی اور خالہ کے آنے کے بعد ہی کامنی کو دفنایا جانا تھا۔
وہاں رونا دھونا مچا ہوا تھا۔ کامنی کی ماں کے بین برداشت سے باہر تھے۔ پولیس کو دیکھ کر مرگ والے گھر میں ایک دم سکوت سا چھا گیا اور لوگ آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔ ذرا سی دیر میں پورے گاؤں میں یہ خبر پھیل گئی کہ برکت مسیح کے گھر پولیس آئی ہے۔
گاؤں میں جس کسی کو بھی پتہ چل رہا تھا، وہ برکت مسیح کے گھر کی طرف دوڑا چلا آ رہا تھا۔ وہاں لوگوں کا اچھا خاصا ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا۔
میں نے نمبردار سے کہا کہ وہ برکت مسیح کو میرے پاس لے آئے اور اکٹھے ہو جانے والے لوگوں سے کہے کہ وہ ادھر ادھر ہو جائیں۔ ابھی میں نمبردار کو یہ ہدایت دے ہی رہا تھا کہ ایک جوان آدمی ہمارے پاس آ گیا۔
آتے ہی اس نے مجھے سلام کیا۔ نمبردار نے مجھے بتایا کہ یہی برکت مسیح ہے۔ میں نے بڑے غور سے اس کا جائزہ لیا۔ وہ گندمی رنگت کا صحت مند آدمی تھا۔ چہرے کے نقوش بھی اچھے تھے۔ میں نے اس کی آنکھیں دیکھیں۔ آنکھیں سرخ تھیں اور ان میں اب بھی نمی نظر آ رہی تھی۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ روتا رہا ہے۔
میں نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا، ”برکت! کیا ہوا؟ مرد ہو کر عورتوں کی طرح آنسو کیوں بہا رہے ہو؟“ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تھپکی دیتے ہوئے کہا، ”مرد بنو، مرد!“
اس نے بے بسی سے میری طرف دیکھا اور دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھیں صاف کرنے لگا۔ وہ کچھ گھبرایا ہوا بھی لگ رہا تھا اور میری آمد سے حیران اور پریشان بھی لگ رہا تھا۔
میں نے کہا، ”برکت، میں تمہاری بیوی کی لاش دیکھنا چاہتا ہوں۔ اسے ہوا کیا تھا؟“ وہ رندی ہوئی آواز میں بولا، ”ہونا کیا تھا جناب، وہ نہر میں ڈوب کر مر گئی۔“ پھر برکت نے مجھے وہ تمام حادثہ سنایا جو میں پہلے بھی نمبردار کی زبانی سن چکا تھا۔
میں نے برکت مسیح سے کہا، ”میں لاش کو دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ اس حادثے کی تصدیق کر سکوں، ورنہ کل کلاں کوئی اور بات نہ نکل آئے۔ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ محض ایک قانونی کارروائی ہے تاکہ اس حادثے کا ریکارڈ تھانے کی فائل میں آ جائے۔“
میری بات سن کر اسے کچھ تسلی ہوئی اور وہ بولا، ”ٹھیک ہے جناب، آپ لاش دیکھ لیں۔“ میں نے اس سے کہا کہ وہ لاش والے کمرے سے تمام لوگوں کو باہر نکال دے تاکہ میں لاش کا معائنہ کر سکوں۔
وہ اندر چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد مجھے اندر بلا لیا۔ لاش ایک چارپائی پر رکھی ہوئی تھی۔ چارپائی پر گدا بچھا ہوا تھا اور ایک چادر سے سر سے لے کر پاؤں تک لاش کو ڈھانپ دیا گیا تھا۔
میں نے برکت مسیح کو بھی کمرے سے نکل جانے کو کہا تو وہ حیرانی سے میرا منہ دیکھنے لگا اور باہر جانے میں ہیل و حُجت کرنے لگا۔ میں نے کانسٹیبلوں کو اندر بلایا اور ان سے کہا کہ وہ اسے پکڑ کر کمرے سے باہر لے جائیں اور جب تک میں نہ کہوں، کسی کو اندر نہ آنے دیں۔
کانسٹیبل برکت مسیح کو کھینچتے ہوئے کمرے سے باہر لے گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں نے لاش پر پڑی چادر سر کی طرف سے پکڑی اور آہستگی سے کھینچ لی۔ یوں ہی چادر اتری، لاش کا چہرہ میرے سامنے آ گیا۔ وہ اتنی حسین تھی کہ اسے دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
لاش کی آدھ کھلی آنکھیں یوں لگ رہی تھیں جیسے وہ میری طرف دیکھ رہی ہو۔ وہ مری ہوئی بالکل نہیں لگ رہی تھی۔ اس کا بدن گورا چٹا تھا، نین نقش میں بڑی کشش تھی اور جسم کی ساخت بھی انتہائی موزوں تھی۔
کامنی کو دیکھ کر مجھے نمبردار کے الفاظ یاد آ گئے۔ اس نے کہا تھا کہ کامنی کا کوئی بھی خاوند ہوتا تو وہ اس کا غلام بن کر رہتا۔ بلا شبہ وہ خطرناک حد تک حسین عورت تھی۔ میں نے غور سے لاش کا معائنہ کرنا شروع کر دیا۔ آخر مجھے وہ چیز نظر آ گئی جو میں تلاش کر رہا تھا۔
اس کی گردن پر ہلکا سا سرخی مائل نشان تھا جو صرف غور سے دیکھنے پر ہی محسوس ہوتا تھا اور یہ اس بات کی نشانی تھی کہ اس کا گلا گھونٹا گیا ہے۔ میں نے اس کے جسم کا جائزہ لیا، مگر کوئی بھی چوٹ یا زخم کا نشان نظر نہ آیا۔
میں نے کانسٹیبل کو اندر بلایا اور اس سے کہا کہ وہ برکت مسیح پر نظر رکھیں، اسے ادھر ادھر نہ ہونے دیں۔ میں محض شک کی بنیاد پر کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے ضروری سمجھا کہ لاش کا پوسٹ مارٹم ہو جانے کے بعد ہی کوئی کارروائی کروں گا۔
میں نے نمبردار کو بلا کر اسے کہا کہ لاش لے جانے کا بندوبست کرے اور پھر موقع کی ضروری کارروائی کے بعد کامنی کی لاش ایک کانسٹیبل کے ہمراہ ہسپتال روانہ کر دی اور برکت مسیح کو لے کر تھانے آ گیا۔
تھانے پہنچ کر میں نے برکت مسیح کو حوالات میں بند کرا دیا اور خود بیٹھ کر اس واقعے پر غور کرنے لگا۔ ڈوب کر مرنے والے انسان کو آکسیجن نہیں ملتی اور اس کی سانس رک جاتی ہے۔ پانی میں گرنے کی وجہ سے اچانک خوف سے بھی دل کی حرکت بند ہو جاتی ہے اور دماغ کی نسوں پھٹ جاتی ہیں۔ ڈوب کر مرنے والوں کی آنکھیں آدھ کھلی ہوتی ہیں، ہاتھ اور پاؤں کی جلد سکڑ جاتی ہے، پھیپھڑوں، آنتوں اور معدے میں پانی بھر جانے کی وجہ سے جسم پھول جاتا ہے۔ پانی کے علاوہ ریت اور مٹی کے ذرات بھی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں، جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مرنے والا پانی میں ڈوب کر مرا ہے۔
میں نے کامنی کی لاش کا معائنہ کیا تھا تو مجھے اس لاش میں ڈوب کر مر جانے والی تمام علامتیں نظر آئی تھیں، جن سے ثابت ہوتا تھا کہ وہ ڈوب کر مری ہے۔ لیکن اس لڑکے کا بیان اور گردن پر دباؤ کا نشان مجھے شک میں ڈال رہے تھے کہ معاملہ گڑ بڑ ہے اور میں نے اسی شک کو بنیاد بنا کر کامنی کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دیا تھا۔ اب مجھے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کا انتظار تھا، اس کے بعد ہی میں کوئی کارروائی کر سکتا تھا۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اگلے دن شام کو ملنی تھی۔ پھر میں تھانے کے دیگر معاملات میں مصروف ہو گیا۔
اگلے روز جب میں تھانے پہنچا تو ایک کانسٹیبل نے مجھے بتایا کہ حوالات میں بند برکت مسیح میرے ساتھ بات کرنا چاہتا ہے۔ میں نے کانسٹیبل سے کہا کہ وہ برکت مسیح کو میرے پاس لے آئے۔ تھوڑی دیر بعد کانسٹیبل برکت مسیح کو میرے سامنے لے آیا۔ میں نے برکت کی طرف دیکھا، وہ بڑے خراب حال میں تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں، اسے شاید حوالات میں نیند نہیں آئی تھی۔ میں نے اسے بیٹھنے کو کہا۔ وہ میرے سامنے بیٹھ گیا تو میں نے اس سے حال احوال پوچھا اور کہا کہ وہ میرے ساتھ کیا بات کرنا چاہتا ہے۔ اس نے رونے والے انداز میں کہا، ”آپ نے مجھے یہاں بند کیوں کر رکھا ہے؟ میرا قصور کیا ہے؟“
میں نے کہا، ”مجھے ایک شک ہے اور اسی شک کی وجہ سے تم یہاں نظر بند ہو۔ میرا شک دور ہو جائے گا تو میں تمہیں فوراً جانے کی اجازت دے دوں گا。“ برکت مسیح نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا، ”جناب، ایک تو میری گھر والی مر گئی اور آپ نے مجھے ہی یہاں بند کر رکھا ہے۔ آخر میرا قصور کیا ہے؟“
میں ابھی اس سے اس قسم کی کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا کہ مجھے شک ہے کہ اس نے اپنی گھر والی کو گلا گھونٹ کر مار ڈالا ہے، کیونکہ ابھی مجھے صرف شک تھا، کوئی واضح ثبوت یا شہادت میرے پاس نہیں تھی۔ اس لیے پہلے میں پوسٹ مارٹم کی رپورٹ دیکھنا چاہتا تھا، اس کے بعد ہی کوئی بات کرنا چاہتا تھا۔ میں نے برکت مسیح سے کہا کہ اسے ابھی کچھ وقت کے لیے حوالات میں رہنا ہو گا اور مناسب وقت پر میں اسے چھوڑ دوں گا۔ میں نے کانسٹیبل سے کہا کہ اسے حوالات میں بند کر دو اور اسے کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔
شام پانچ بجے کے قریب ایک کانسٹیبل کامنی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اور اس کی لاش لے کر آ گیا۔ میں نے بڑی بے چینی سے پوسٹ مارٹم رپورٹ دیکھی۔ رپورٹ میں ڈاکٹر نے لکھا تھا کہ کامنی کی موت پانی میں ڈوبنے اور سانس بند ہو جانے کی وجہ سے ہوئی۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ مرنے والی کے پھیپھڑوں، آنتوں اور معدے میں اتنی مقدار میں پانی نہیں پایا گیا جو عام طور پر ڈوب جانے والے لوگوں کے پھیپھڑوں، آنتوں اور معدے میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ مرنے والی کے گلے پر کوئی وزنی چیز لگی ہے یا اس کا گلا دبایا گیا ہے۔ ایک اور اہم بات جو ڈاکٹر نے لکھی تھی، وہ یہ تھی کہ مرنے والی حاملہ تھی اور یہ تیسرے ماہ کا حمل تھا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ پڑھنے کے بعد میرا شک یقین میں بدل گیا کہ برکت مسیح نے اپنی گھر والی کو نہر میں گرنے کے بعد گلا گھونٹ کر مار ڈالا تھا۔ اب مجھے اس لڑکے کے بیان پر یقین ہو گیا کہ اس نے بالکل ٹھیک دیکھا تھا۔ میں نے برکت مسیح کو تفتیش میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
ہسپتال سے کامنی کی لاش بھی آ چکی تھی۔ میں نے گاؤں میں اطلاع بھجوا دی۔ کچھ دیر بعد کامنی کا باپ اور اس کے دو بھائی لاش وصول کرنے آ گئے۔ میں نے ضروری کارروائی کے بعد لاش ان کے حوالے کر دی۔ کامنی کے باپ نے اپنے داماد برکت مسیح کے متعلق پوچھا کہ اسے کیوں تھانے میں بند رکھا ہے تو میں نے اسے بتایا کہ مجھے شک ہے کہ کامنی کو اس کے خاوند نے مارا ہے۔ یہ بات سن کر کامنی کا باپ بہت حیران ہوا۔
میں نے اس سے پوچھا، ”کیا آپ کی بیٹی برکت کے گھر میں خوش تھی؟“ اس نے کہا، ”کامنی نے کبھی کوئی شکایت تو نہیں کی تھی، بلکہ کامنی تو ہمیشہ اپنے خاوند کی تعریف کرتی تھی اور وہ اپنے خاوند کے ساتھ بہت خوش تھی۔“ میں نے کہا، ”یاد کر کے بتاؤ، ان کے درمیان کبھی کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا تھا یا کبھی کامنی نے آپ کو گھر آ کر بتایا ہو کہ وہ آپس میں لڑے جھگڑے ہوں؟“ کامنی کے باپ نے دو ٹوک انداز میں کہا، ”کبھی بھی نہیں سرکار! ان کی شادی کو دو سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے، آج تک ایسی کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی سنی!“
میں نے کامنی کے باپ سے بہت سے سوال پوچھے اور مختلف طریقوں سے ٹٹولا، مگر اس سے مجھے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ پھر میں نے کامنی کے بھائیوں سے بھی کرید کرید کر پوچھا، مگر وہ بھی میرے کام کی کوئی بات نہ بتا سکے۔ کامنی کے باپ اور بھائیوں نے مجھ سے کہا کہ برکت چونکہ حوالات میں بند ہے تو اس لیے وہ کامنی کی لاش اپنے گاؤں لے جانا چاہتے ہیں اور وہاں اس کی آخری رسومات پوری کریں گے۔ میں نے ان سے کہا، ”میری طرف سے ایسی کوئی پابندی نہیں ہے، وہ کامنی کی لاش جہاں چاہیں لے جائیں۔“ کامنی کا باپ اور بھائی لاش لے کر چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد میں نے برکت مسیح کو حوالات سے بلایا اور اسے بتایا کہ کامنی کی لاش پوسٹ مارٹم کے بعد واپس آ گئی ہے اور اس کے سالے اور سسر لاش کو یہاں سے لے گئے ہیں۔ میری بات سن کر اس کی حالت خراب ہو گئی اور وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ کچھ دیر بعد اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا، ”مجھے بھی جانے کی اجازت دے دیں، میں اپنی کامنی کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرنا چاہتا ہوں۔“
میں نے کہا، ”انہی ہاتھوں سے جن ہاتھوں سے تم نے اس کا گلا دبایا تھا؟“ میری بات سن کر وہ یوں اچھلا جیسے میں نے اس کے پیروں میں بم پھینک دیا ہو۔ اس کی آنکھیں ضرورت سے زیادہ کھل گئیں اور اس کا رنگ پیلا پڑ گیا، جیسے جسم کا سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو۔ اس نے کچھ بولنے کی کوشش کی لیکن بول نہ سکا، صرف منہ ہلا کر رہ گیا۔ آخر اس نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھال کر کہا، ”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سرکار؟ بھلا میں اپنی کامنی کو قتل کیوں کروں گا؟ وہ تو میری جان تھی اور اپنی جان کو کوئی کیسے مار سکتا ہے؟“
میں نے کہا، ”اس کی وجہ بھی تم ہی بتاؤ گے، اگر نہیں بتاؤ گے تو میں خود معلوم کر لوں گا۔“ اس نے کہا، ”آپ جس سے مرضی پوچھ لیں، ہم دونوں کا پیار تو سارے گاؤں میں مشہور ہے اور پھر کامنی تو میرے بچے کی ماں بننے والی تھی اور میں اپنی گھر والی اور بچے کو کیسے قتل کر سکتا ہوں؟“ اس نے جو کچھ بھی کہا تھا، وہ وزن رکھتا تھا۔ لیکن میرے دماغ میں عینی شاہد لڑکے کا بیان اور پوسٹ مارٹم کی رپورٹ تھی، اس لیے میں اس کی کسی دلیل سے متاثر نہیں ہو سکتا تھا۔
میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ”دیکھ برکت، جھوٹ بولنے کا اب کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ کامنی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آ گئی ہے اور اس رپورٹ میں صاف طور پر لکھا ہے کہ مقتولہ کا گلا گھونٹا گیا ہے۔“ میری نظریں اس کے چہرے اور آنکھوں پر جمی ہوئی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ برکت کے چہرے پر پریشانی کی ایک لہر آئی اور غائب ہو گئی، یوں جیسے گھپ اندھیرے میں کوئی جگنو چمک کر بجھ جاتا ہے۔ میں نے اس سے کہا، ”کامنی کی گردن پر گلا گھونٹنے کا نشان موجود ہے، جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس کا گلا گھونٹا گیا ہے۔“
برکت نے کہا، ”جناب، جب ہم نہر میں گرے تھے، سائیکل بھی ساتھ ہی گرا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ سائیکل کا کوئی حصہ اس کی گردن پر لگ گیا ہو اور اس کا نشان بن گیا ہو۔“ اس نے دلیل اچھی دی تھی، لیکن میں ابھی اس کی کسی بات پر بھی یقین نہیں کر سکتا تھا۔
میں برکت کو جتنا سیدھا سادا سمجھ رہا تھا، وہ اس کے برعکس تیز اور چلتا پرزہ ثابت ہو رہا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ آسانی سے نہیں مانے گا۔ میں نے اس سے کہا کہ تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ خود ہی اقبالی بیان دے دو۔ اگر خود بیان دے دو گے تو میں تمہارے ساتھ رعایت کر دوں گا۔ اگر تم اقبالی بیان نہیں دینا چاہتے تو مجھے اس کی ضرورت بھی نہیں ہے، کیونکہ میرے پاس موقع کا گواہ موجود ہے جس نے تمہیں کامنی کا گلا گھونٹتے اور اسے پانی میں ڈبوتے ہوئے دیکھا ہے۔ پھر میں نے سارا واقعہ اسے تفصیل سے سنا دیا کہ کس طرح ایک لڑکے نے اتفاقاً اسے کامنی کا گلا گھونٹتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ پھر میں نے اس سے کہا، ”اب بولو، کیا کہتے ہو؟“
اب تو اس کی حالت خراب ہو گئی۔ وہ حیران اور پریشان سا میرے منہ کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔ میں اسے زیادہ سوچنے اور سنبھلنے کا موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔ میں نے ذرا غصے سے کہا، ”برکت، جلدی بولو، کیا کامنی کو تم نے قتل کیا ہے؟“ اس نے کہا، ”نہیں سرکار، میں نے قتل نہیں کیا۔ لوگ تو مجھے رن مرید کہتے ہیں اور یہ بات سچ بھی ہے۔ میں اپنی اتنی حسین بیوی کو قتل کیوں کروں گا؟“
میں نے کہا، ”مجھے اسی سوال کا جواب درکار ہے کہ تم اپنی بیوی کو قتل کیوں کرو گے؟“ میں نے برکت سے بہت سوال کیے اور گھما پھرا کر بھی اس سے اگلوانے کی کوشش کی، لیکن وہ اسی بات پر اڑا رہا کہ اس نے اپنی گھر والی کو قتل نہیں کیا اور اسے ضرورت کیا تھی کہ وہ اسے قتل کرتا۔ وہ اسی بات پر اڑ گیا۔ میں نے اسے دوبارہ حوالات میں بند کرا دیا۔
اب میں نے مخبروں سے کام لینے کا فیصلہ کیا۔ میں نے نمبردار سمیت تمام مخبروں کو اس کام پر لگا دیا کہ وہ برکت مسیح اور مقتولہ کامنی کے بارے میں اندر کی تمام باتیں معلوم کر کے لائیں۔ شام تک مخبروں نے مجھے رپورٹیں پہنچانی شروع کر دیں، لیکن ان خبروں میں میرے کام کی کوئی خبر نہیں تھی۔
میں نے عینی شاہد لڑکے کو تھانے بلا لیا اور اسے ایک بار پھر سے سارا واقعہ بیان کرنے کو کہا۔ لڑکے نے سارا واقعہ مجھے دوبارہ سنایا۔ میں نے لڑکے سے پوچھا، ”کیا اسے یقین ہے کہ برکت مسیح اپنی گھر والی کو پانی میں ڈبو رہا تھا اور اس کا گلا دبا رہا تھا؟“ لڑکے نے کہا، ”جس درخت پر وہ چڑھا تھا، وہ درخت نہر کے کنارے پر ہے اور وہاں سے بالکل صاف نظر آ رہا تھا۔ اور پھر آپ خود سوچیں کہ مجھے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے؟“
میں نے لڑکے سے پوچھا، ”کیا وہ نہر اتنی گہری ہے کہ کوئی اس میں ڈوب جائے؟“ لڑکے نے کہا، ”نہیں جناب، میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ وہ نہر اتنی گہری نہیں کہ کوئی اس میں ڈوب کر مر جائے۔ اس نہر میں تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی نہاتے رہتے ہیں، مگر آج تک کوئی بھی نہر میں نہیں ڈوبا۔“
میں نے لڑکے سے پوچھا، ”کیا تم نے ان دونوں میاں بیوی کو نہر میں گرتے ہوئے دیکھا تھا؟ کیا واقعی وہ بیل گاڑی کی وجہ سے نہر میں گرے تھے؟“ لڑکے نے جواب دیا، ”یہ بات میں ٹھیک سے نہیں بتا سکتا۔ بس اچانک بیل گاڑی اندھا دھند آئی اور گزر گئی، اس کے ساتھ ہی سائیکل نہر میں گرتی نظر آئی۔“ میں نے لڑکے کو جانے کی اجازت دے دی اور وہ چلا گیا۔
لڑکے کو گئے ہوئے ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ نمبردار آ گیا۔ نمبردار برکت مسیح کے متعلق کچھ معلومات لے کر آیا تھا۔ نمبردار کی معلومات کے مطابق برکت مسیح اور کامنی آپس میں دور کے رشتے دار تھے اور اسی وجہ سے ان کی شادی ہو گئی تھی۔ برکت مسیح ساتھ والے گاؤں کے ایک مشہور حکیم کے دواخانے پر صفائی اور دوائیاں وغیرہ کوٹنے کا کام کرتا تھا۔ برکت اپنی بیوی کو بہت چاہتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کامنی بہت خوبصورت تھی۔ برکت کامنی کے سامنے دبا دبا سا رہتا تھا اور اس کی جائز و ناجائز ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ کامنی برکت کے ساتھ لڑائی جھگڑا بھی کر لیتی اور اس کی بے عزتی بھی کر دیتی تھی، مگر برکت پھر بھی اس کی خوشامد میں لگا رہتا تھا۔ اسی وجہ سے لوگ اسے رن مرید اور جورو کا غلام کہتے تھے۔
نمبردار نے مزید بتایا کہ پچھلے دو تین مہینوں سے برکت مسیح کچھ پریشان اور گم صم رہنے لگا تھا۔ اسی دوران اس کی کامنی کے ساتھ ہلکی پھلکی ناراضگی بھی ہوئی تھی۔ میں نے نمبردار سے کہا، ”یہ تو عام سی باتیں ہیں جو تقریباً زیادہ تر لوگوں کو معلوم ہوں گی۔ میں تو برکت اور کامنی کے متعلق اندر کی باتیں معلوم کرنا چاہتا ہوں۔“
نمبردار نے کہا، ”جناب، اس سے زیادہ اندر کی باتیں تو آپ کو ایک عورت بتا سکتی ہے۔ آپ اس عورت کو بلا لیں، ہو سکتا ہے کہ اس سے آپ کو کوئی کام کی بات مل جائے۔“ میں نے کہا، ”تو پھر جلدی بتاؤ، کون ہے وہ عورت اور کیا نام ہے اس کا؟“
نمبردار نے مجھے بتایا کہ اس عورت کا نام سروری ہے۔ کامنی اور سروری میں بہت گہری دوستی تھی اور دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتی تھیں۔ میں نے اسی وقت ایک کانسٹیبل کو بلا کر کہا کہ وہ ابھی گاؤں جائے اور برکت کے ساتھ والے گھر میں رہنے والی عورت، جس کا نام سروری ہے، اسے بلا لائے۔ کانسٹیبل چلا گیا تو نمبردار نے مجھے سروری کے متعلق بتایا کہ سروری غریب سی عورت ہے اور بڑے زمینداروں کے گھروں میں کام کرتی ہے۔ اس کا خاوند گاؤں میں موچی کا کام کرتا ہے۔ نمبردار نے سروری کے متعلق یہ بھی بتایا کہ وہ بڑی تیز طرار اور لڑاکا قسم کی عورت ہے اور اسے گاؤں کے گھروں کی وہ باتیں بھی معلوم ہیں جو دوسروں سے چھپائی جاتی ہیں۔
نمبردار اٹھ کر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد ایک اور مخبر آ گیا۔ اس نے بھی اپنی رپورٹ میں زیادہ تر باتیں وہی بتائیں جو مجھے نمبردار بتا چکا تھا۔ البتہ اس مخبر نے ایک نئی بات یہ بتائی کہ برکت کو کوئی بیماری لگ گئی تھی اور وہ حکیم سے اس بیماری کی دوائی لے کر کھا رہا تھا۔ مخبر کو یہ بات حکیم کے پاس کام کرنے والے ایک اور ملازم سے معلوم ہوئی تھی۔ اس ملازم نے مخبر کو یہ بھی بتایا کہ برکت اس بیماری کی وجہ سے بہت پریشان نظر آتا تھا۔ تاہم اس ملازم کو یہ معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ برکت کو بیماری کیا تھی۔
میں نے اس مخبر کو شاباش دی اور اسے کہا کہ وہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ برکت کس مرض کی دوا کھا رہا تھا۔ مخبر چلا گیا تو تھوڑی دیر بعد وہ کانسٹیبل آ گیا جسے میں نے سروری کو لانے کے لیے بھیجا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ سروری کو لے آیا ہے، لیکن سروری اکیلی نہیں ہے، اس کا خاوند بھی ساتھ آیا ہے۔ میں نے کانسٹیبل سے کہا، ”ٹھیک ہے، وہ ان دونوں کو میرے پاس بھیج دے۔“ کانسٹیبل کمرے سے نکل گیا۔
چند لمحوں بعد ایک عورت اور مرد اندر آ گئے۔ میں نے دونوں کو غور سے دیکھا۔ عورت کی عمر تیس بتیس سال کے لگ بھگ ہو گی اور وہ کھلتے ہوئے گندمی رنگ کی ایک خوش شکل عورت تھی، جبکہ مرد کی عمر چالیس سال کے قریب تھی اور وہ دبلے پتلے جسم اور سانولے رنگ کا مالک تھا۔ میں نے ایک بات نوٹ کی کہ مرد گھبرایا ہوا اور پریشان لگ رہا تھا، جبکہ عورت پرسکون اور پراعتماد لگ رہی تھی۔
مرد نے باقاعدہ ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا، ”حضور، ہم غریبوں سے کیا قصور ہو گیا جو میری گھر والی کو آپ نے تھانے بلایا؟“ میں اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اس کا یا اس کی گھر والی کا کوئی قصور نہیں ہے اور نہ ہی انہوں نے کوئی جرم کیا ہے۔ بس اس کی گھر والی سے چند باتیں پوچھنی ہیں، اس لیے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے بڑی مشکل سے اسے سمجھا بجھا کر کمرے سے باہر بٹھا دیا اور سروری کو بیٹھنے کو کہا۔
سروری اطمینان سے میرے سامنے بیٹھ گئی اور سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی۔ میں نے سروری سے کہا، ”مجھے پتہ چلا ہے کہ کامنی کے ساتھ تمہاری بڑی پکی دوستی تھی۔ مجھے کامنی کے مرنے کا بے حد افسوس ہے اور میں تم سے کامنی کے متعلق کچھ باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔“ سروری نے آہ بھر کر کہا، ”بس جی، اللہ کو یہی منظور تھا۔ بڑی پیار کرنے والی تھی۔ بہرحال، آپ پوچھیں جو پوچھنا چاہتے ہیں، جو میرے علم میں ہو گا، بتا دوں گی۔“
میں نے انکشاف کرنے والے انداز میں کہا، ”مجھے شک ہے کہ کامنی پانی میں ڈوب کر نہیں مری، بلکہ اسے مارا گیا ہے۔“ میری بات سن کر سروری ذرا سی چونکی، حالانکہ میرا خیال تھا کہ یہ بات سن کر وہ اچھل پڑے گی۔ اس نے بڑے اطمینان سے کہا، ”آپ کا شک ٹھیک ہے۔ مجھے بھی اس بات کا شک تھا، مگر میں کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتی تھی۔“ سروری کی بات نے مجھے حیران کر دیا۔ میں نے اس سے پوچھا، ”تمہیں ایسا شک کیوں تھا اور شک تھا تو ضرور اس کی کوئی وجہ بھی ہو گی۔ تم مجھے وہ وجہ بتاؤ۔“
سروری نے کہا، ”تھانیدار صاحب، یہ بڑی لمبی کہانی ہے۔“ میں نے کہا، ”تم وقت کی بالکل پروا نہ کرو اور مجھے یہ کہانی ساری سنا دو۔“ میرے کہنے پر سروری نے مجھے تفصیل سے بتانا شروع کیا کہ کامنی دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اور دونوں بھائیوں سے چھوٹی تھی۔ اس وجہ سے والدین اور بھائیوں کی لاڈلی تھی۔ لاڈلی ہونے کی وجہ سے وہ کچھ خودسر ہو گئی تھی۔ جوان ہوئی تو ایسا قد کاٹھ اور رنگ روپ نکالا کہ ہر کسی کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ عیسائی گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اس پر زیادہ پابندیاں نہیں تھیں اور وہ آزادی سے گھوم پھر لیتی تھی۔ کامنی ہنسنے مسکرانے والی طبیعت کی لڑکی تھی۔ گاؤں کے ہر جوان کے دل میں وہ بستی تھی۔
کامنی کی اپنی برادری میں کئی لڑکے ایسے تھے جو اس کے امیدوار تھے، لیکن کامنی کو ان میں سے کوئی بھی پسند نہیں تھا۔ انہی دنوں کامنی کی دوستی گاؤں کے ایک ایسے لڑکے کے ساتھ ہو گئی جو ایک غریب باپ کا بیٹا تھا۔ وہ بڑا ہی خوبصورت جوان تھا۔ کامنی اس لڑکے کو پسند کرنے لگی تھی۔ اس کا نام کمال تھا، سب اسے کمالا کہتے تھے۔ کامنی اور کمالے کی چوری چھپے ملاقاتیں بڑھتے بڑھتے دیوانگی کی حدوں میں داخل ہو گئیں۔
ان کا عشق چھپ نہ سکا۔ ہوتے ہوتے یہ بات کامنی کے بھائیوں اور ماں باپ تک بھی پہنچ گئی۔ کامنی کے گھر والوں نے عقلمندی یہ کی کہ کامنی پر کوئی سختی کرنے کی بجائے فوری طور پر اس کی شادی کا بندوبست کر دیا اور تھوڑے دنوں کے بعد ہی اس کی شادی برکت سے طے کر دی۔ کمال کو جب کامنی کی شادی کا علم ہوا تو اس نے کامنی کو گھر سے بھاگ جانے کے لیے کہا، لیکن کامنی نے صاف انکار کر دیا۔ والدین کی عزت کی خاطر کامنی نے اپنی محبت اور خواہش کا گلا گھونٹ دیا اور برکت سے شادی کے لیے راضی ہو گئی۔
شادی سے کچھ روز پہلے کامنی کمالے سے ملی اور اس کے سینے سے لگ کر اتنا روئی کہ کمالا پریشان ہو گیا کہ اسے کچھ ہو نہ جائے۔ آخر کمالے نے بڑی مشکل سے اسے سنبھالا اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ مہینے میں دو بار اس سے ملنے اس کے سسرالی گاؤں آیا کرے گا۔ کامنی نے کمالے سے کہا کہ وہ اگر اس سے ملے گی تو بدنامی ہو گی۔ کمالے نے کہا کہ وہ آپس میں بات چیت نہیں کیا کریں گے، بلکہ دور دور سے ایک دوسرے کو دیکھ لیا کریں گے۔
پھر کامنی شادی کے بعد برکت کے گاؤں آ گئی اور کمالا وعدے کے مطابق ہر مہینے دو بار برکت کے گاؤں کا چکر لگاتا رہا اور وہ دونوں دور دور سے ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کی پیاس بجھاتے رہے۔ اسی دوران کامنی نے سروری کو اپنی ہمراز بنا لیا اور اسے کمالے کے متعلق سب کچھ بتا دیا۔ اس طرح سروری نے کامنی اور کمالے کے درمیان پیغام رسانی کرنا شروع کر دی۔ اب وہ ایک دوسرے تک اپنے دل کی بات بھی پہنچانے لگے تھے اور کبھی کبھار موقع دیکھ کر سروری ان کی ملاقات بھی کروا دیتی۔
یوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔ شادی کو ایک سال ہو گیا، مگر کامنی میں بچہ پیدا کرنے کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔ پھر دوسرا سال بھی گزرنے لگا اور کامنی کی کوکھ خالی رہی۔ اگر کسی عورت کو بچہ نہ ہو تو اس کی ذمہ داری عورت پر ڈال دی جاتی ہے کہ ضرور عورت میں کوئی نقص ہو گا، کیونکہ کوئی بھی مرد ایسی بات سننا گوارا نہیں کرتا کہ اس میں کوئی نقص ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف کمالا باقاعدگی سے کامنی کو ملنے آتا رہا۔ اب وہ سروری کے ذریعے ملاقات طے کر لیتے اور مقررہ جگہ پر پہنچ جاتے۔ انہوں نے ملاقات کے لیے ایک محفوظ جگہ ڈھونڈ لی تھی اور وہ وہیں ملتے تھے۔ یہ جگہ گاؤں کے باہر، جہاں کھیت ختم ہوتے تھے، اس سے ذرا آگے قبرستان کے پاس تھی۔ لوگ اس طرف سے گزرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔
اس زمانے میں دیہاتوں میں رفع حاجت کے لیے گھروں کے اندر لیٹرین بنانے کا رواج نہیں تھا، بلکہ آجکل بھی کئی دیہاتوں میں ایسا ہی ہے۔ گاؤں کے لوگ باہر کھیتوں میں یا ویران مقام پر رفع حاجت کے لیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عورتیں رات کو اندھیرا ہونے کے بعد ٹولیوں کی صورت میں رفع حاجت کے لیے جاتی تھیں اور گاؤں کے مرد عورتوں کی سہولت کی خاطر اس وقت کھیتوں کا رخ نہیں کرتے تھے۔ کامنی اور سروری بھی رفع حاجت کے لیے اکٹھی جاتی تھیں اور اکٹھی واپس آتی تھیں۔ جس روز کمالے نے آنا ہوتا، اس روز سروری کامنی کو مخصوص جگہ پر چھوڑ کر خود ادھر ادھر ہو جاتی تاکہ وہ دونوں آزادی سے مل سکیں۔ کمالا اور کامنی اکثر جذباتی ہو جاتے، مگر ایک حد کے اندر ہی رہتے تھے۔
کہتے ہیں کہ جوانی دیوانی ہوتی ہے۔ ایک روز اسی دیوانگی میں وہ نیکی اور بدی کی درمیانی حد کو پار کر گئے۔ جب کامنی ایک بار بہک گئی تو پھر وہ اکثر بہکنے لگی۔ اس طرح کامنی اور کمالے کی محبت میں گناہ کا زہر گھل گیا۔ وقت گزرتا گیا اور کامنی کی شادی کو دو سال گزر گئے۔ انہی دنوں کامنی کو اپنے اندر کچھ نئی تبدیلیاں محسوس ہونے لگیں تو اس نے سروری سے بات کی۔ سروری یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور کامنی کو سینے سے لگا کر مبارک باد دی کہ اس میں ماں بننے کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ خوشخبری سن کر کامنی بھی خوش ہوئی۔
رات کو جب برکت گھر آیا تو کامنی نے برکت کو بھی یہ خوشخبری سنائی کہ وہ باپ بننے والا ہے۔ کامنی کی بات سن کر برکت پہلے تو خوش ہوا، لیکن پھر یکدم بجھ سا گیا اور سر جھکا کر کچھ سوچنے لگا۔ کامنی نے برکت کی اس کیفیت کو کچھ زیادہ محسوس نہ کیا، مگر برکت اس بات کے معلوم ہونے کے بعد کہ وہ باپ بننے والا ہے، گم صم رہنے لگا اور اس کی طبیعت میں چڑچڑا پن پیدا ہو گیا۔
ایک روز کامنی نے برکت سے اس کے گم صم رہنے اور چڑچڑے پن کی وجہ پوچھ ہی لی۔ برکت نے کامنی کو جو جواب دیا، اسے سن کر کامنی کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ برکت نے کامنی سے کہا، ”یہ بچہ میرا نہیں ہے، کیونکہ میں باپ بننے کے قابل نہیں ہوں اور تم ایک بدکار عورت ہو۔ پتہ نہیں کس کا بچہ پیدا کر رہی ہو۔“ کامنی نے دکھ اور غصے سے کہا، ”یہ بچہ تمہارا ہی ہے۔ تم سے کس نے کہا کہ تم باپ نہیں بن سکتے؟“
برکت نے کامنی کو بتایا کہ جب ان کی شادی کو سال سوا سال بعد بھی ان کا بچہ نہ ہوا تو اس نے اس حکیم سے بات کی جس کے پاس وہ دوائیاں کوٹنے اور صفائی ستھرائی کا کام کرتا تھا۔ یہ بڑا قابل اور سیانا حکیم تھا۔ اس نے برکت سے کچھ باتیں دریافت کیں اور پھر اس کی گھر والی کے متعلق بھی کچھ باتیں پوچھیں اور برکت کی باتیں سن کر اس نتیجے پر پہنچا کہ کامنی بالکل ٹھیک ہے، جو بھی نقص ہے وہ برکت میں ہے۔ حکیم نے برکت سے کہا، ”فکر نہ کرو، گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ اسے ایک ایسی دوائی دے گا جس سے وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا، لیکن شرط یہ ہے کہ اسے لگاتار چھ ماہ تک دوائی کھانی ہو گی۔“
برکت نے کامنی کو بتایا کہ ”مجھے تو ابھی صرف دوائی کھاتے ہوئے دو ماہ ہی ہوئے ہیں، جبکہ حکیم نے چھ ماہ دوائی کھانے کا کہا ہے تو پھر میں اتنی جلدی اس قابل کیسے ہو سکتا تھا؟“ کامنی نے اس سے کہا، ”ہو سکتا ہے کہ تم دو ماہ میں ٹھیک ہو گئے ہو۔ دو ماہ کا عرصہ بھی تو کم نہیں ہوتا!“ کامنی کی یہ بات سن کر برکت کو کچھ تسلی ہوئی، لیکن پھر بھی وہ پوری طرح مطمئن نہیں ہوا۔
اب برکت کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ کبھی تو بالکل نارمل رہتا اور کبھی کامنی کے ساتھ لڑنے مرنے پر اتر آتا۔ مگر لڑنے کے بعد جلد ہی وہ کامنی کی منت سماجت اور خوشامد کر کے اسے منا لیتا۔ گھر کی یہ تمام باتیں اور برکت کے رویے کے بارے میں کامنی روز سروری کو سناتی تھی اور اس سے مشورہ لیتی تھی۔ کامنی نے سروری سے یہ بات بھی نہ چھپائی کہ کمالے کے ساتھ اس کی ملاقاتیں صاف نہیں رہیں۔ سروری نے کامنی کو محتاط رہنے کا مشورہ دیا۔
پھر ایک روز برکت اپنے کام سے واپس آیا تو اس کا موڈ بہت خراب تھا۔ اس نے گھر آتے ہی کامنی سے جھگڑا کرنا شروع کر دیا۔ اس نے کامنی سے کہا کہ وہ بدکار ہے اور اس کے پیٹ میں حرام کا بچہ پرورش پا رہا ہے۔ اس وقت تک کامنی کو حاملہ ہوئے تین ماہ ہو چکے تھے۔ برکت نے کامنی کو بتایا کہ اس نے حکیم سے بات کی تھی کہ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ دو ماہ دوائی استعمال کر کے بالکل ٹھیک ہو گیا ہو۔ حکیم نے اس سے کہا، ”نہیں، یہ ناممکن ہے، کیونکہ یہ دوائی چھ ماہ استعمال کرنے کے بعد ابھی اصل اور خاص دوائی بھی دو ماہ کے لیے استعمال کرو گے تب ٹھیک ہو گے۔ یہ دوائی جو ابھی استعمال کرتے ہو، اس دوائی سے ٹھیک ہونا ممکن نہیں!“
اس روز برکت اور کامنی میں اچھی خاصی لڑائی ہوئی۔ کامنی نے بھی برکت کو خوب ڈٹ کر جواب دیے۔ دراصل کامنی برکت کی بہت بڑی مجبوری بن گئی تھی۔ برکت زیادہ دیر کامنی سے ناراض نہیں رہ سکتا تھا اور یہ بات کامنی اچھی طرح جانتی تھی، اس لیے وہ برکت کی زیادہ پروا نہیں کرتی تھی۔ اس روز بھی یہی ہوا۔ حسب معمول برکت نے تھوڑی دیر بعد کامنی کو منا لیا۔
اس لڑائی جھگڑے کے دو دن بعد کی بات ہے کہ گاؤں کے باہر ایک مزار پر میلہ لگا ہوا تھا۔ یہ مزار نہر کے پار واقع تھا۔ کامنی نے برکت سے کہا کہ وہ اسے میلہ دکھا لائے۔ اس روز برکت کو حکیم کی دوکان سے چھٹی تھی۔ برکت کامنی کو سائیکل کے پیچھے بٹھا کر میلہ دکھانے لے گیا اور پھر خبر آ گئی کہ کامنی نہر میں ڈوب کر مر گئی۔
ساری بات سنا کر سروری نے کہا، ”تھانیدار صاحب! میں نے اس لیے آپ سے کہا تھا کہ مجھے بھی یہی شک ہے کہ کامنی کو مارا گیا ہے۔ یہی وجہ اور سارے حالات تھے جن میں سے کامنی آجکل گزر رہی تھی۔“ سروری نے تو میرا سارا مسئلہ ہی حل کر دیا تھا اور جس وجہ کو میں تلاش کر رہا تھا، وہ بھی تفصیل سے بتا دی تھی۔
میں نے سروری سے کمالے کا پتہ اور کچھ ضروری باتیں پوچھیں اور اس کا شکریہ ادا کر کے اسے جانے کی اجازت دے دی۔ ساتھ یہ تاکید بھی کر دی کہ مجھے اس کی جب بھی ضرورت پڑے گی، اسے دوبارہ بلا لوں گا۔ وہ گاؤں میں ہی موجود رہے، اگر کہیں جانا ضروری ہو جائے تو وہ مجھے اطلاع دے کر جائے۔
سروری کے جانے کے بعد میں نے اے ایس آئی کو بلایا اور اسے کمالے کے متعلق پوری طرح سمجھا کر کہا کہ وہ کمالے کو تھانے لے آئے اور اگر وہ آنے میں کوئی بہانہ کرے تو اس کی ٹھکائی کرتے ہوئے لائے۔ اے ایس آئی نے اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ”جناب، آپ بالکل فکر نہ کریں، میں اسے ابھی گھسیٹ کر لے آتا ہوں۔“ اے ایس آئی چلا گیا تو میں نے ایک کانسٹیبل کو بلایا اور اس سے کہا کہ حوالات سے برکت کو لے آئے۔
اب مجھے یقین ہو گیا تھا کہ برکت نے سوچ سمجھ کر اور پلان کے تحت کامنی کو قتل کیا تھا۔ میرے پاس موقع کا گواہ بھی موجود تھا اور پھر سروری کے بیان کی روشنی میں قتل کی وجہ بھی معلوم ہو گئی تھی۔ سروری بھی ایک اہم گواہ تھی۔ اس کے علاوہ میں نے ابھی کمالے کا بیان بھی لینا تھا اور ابھی میں نے ایک کام اور بھی کرنا تھا اور وہ کام یہ تھا کہ برکت کا میڈیکل چیک اپ کروانا تھا۔ میڈیکل چیک اپ سے میں یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ برکت اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں تھا، جبکہ اس کی بیوی تین ماہ کی حاملہ تھی اور برکت نے بدکاری کی وجہ سے اسے قتل کیا تھا۔
کانسٹیبل برکت کو لے آیا۔ میں نے کانسٹیبل کو باہر جانے کو کہا۔ برکت میرے سامنے کھڑا تھا۔ کانسٹیبل کے جانے کے بعد وہ کرسی پر بیٹھنے لگا تو میں نے غصے سے کہا، ”وہیں کھڑے رہو۔ میں تمہاری عزت کرنا چاہتا تھا، لیکن تمہیں عزت راس نہیں آئی۔ تم مسلسل مجھ سے جھوٹ بولتے رہے ہو۔ لیکن اب جھوٹ بول کر دکھاؤ، میں تمہیں الٹا نہ لٹکاؤں تو پھر کہنا! اس لیے تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ شرافت سے اقبالی بیان دے دو، فائدے میں رہو گے۔“
برکت نے پھر ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے کہا، ”میں اقبالی بیان کیوں دوں جب میں نے اپنی بیوی کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی میرے پاس اسے قتل کرنے کی کوئی وجہ تھی تو پھر میں آپ کے کہنے پر جھوٹا بیان کیوں دوں؟“ میں سمجھ گیا کہ وہ سیدھی طرح نہیں مانے گا، اس لیے میں نے اس پر سیدھا حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
میں نے اس سے کہا، ”یہ بتاؤ، کامنی کے پیٹ میں کس کا گناہ پرورش پا رہا تھا؟“ میرا سوال سن کر اس کا چہرہ تاریک ہو گیا۔ وہ اس طرح آنکھیں پھاڑ کر میری طرف دیکھنے لگا جیسے میں کوئی جن بھوت یا کوئی جادوگر ہوں۔ وہ مردہ سی آواز میں بولا، ”تھانیدار صاحب، کامنی میری بیوی تھی تو ظاہر ہے اس کے پیٹ میں میرا بچہ تھا۔“ میں نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا، ”تم بے غیرت ہو، تم اس قابل نہیں ہو کہ باپ بن سکو! اگر تم اب بھی نہیں مانو گے تو میں تمہارے اس حکیم کو یہاں بلا لوں گا جس کے پاس تم کام کرتے ہو اور جس کی دوائی کھا رہے ہو۔“
یہ اس کی مردانگی پر بہت بڑی چوٹ تھی۔ اسے یہ احساس تو پہلے ہی اندر سے مار رہا تھا کہ وہ باپ بننے کے قابل نہیں ہے، لیکن اس نے اپنے آپ کو یہ فریب دے رکھا تھا کہ شاید وہ حکیم کی دوائی سے ٹھیک ہو چکا ہے۔ اس نے سر جھکا لیا اور یوں بے حس و حرکت کھڑا رہا جیسے مر گیا ہو۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا تو مجھے اس کا چہرہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا اور مجھے اس پر ترس آنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے جنہیں وہ روکنے میں ناکام رہا تھا۔ یہ آنسو اس کی بے بسی ظاہر کر رہے تھے۔
وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولا، ”تھانیدار صاحب، میں بے غیرت نہیں ہوں۔ میں نے ہی کامنی کا گلا گھونٹ کر اسے مارا ہے، کیونکہ وہ بدکار تھی اور میں نے اسے اس کی بدکاری کی سزا دی ہے۔ اب آپ مجھ سے پوچھیں کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟“ میں نے اس سے کہا کہ وہ مجھے اپنا اقبالی بیان دے دے۔ پھر اس نے بڑی تفصیل سے مجھے اپنا لکھوایا۔ اس نے بڑا لمبا بیان دیا۔ اس کا پورا بیان سننے کے بعد اس کے دل کی باتیں باہر آئیں کہ کس طرح ایک عام اور بزدل آدمی کی غیرت جاگتی ہے۔
برکت مسیح نے اپنے بیان میں بتایا کہ اس کی شادی جب کامنی کے ساتھ ہوئی تو وہ کامنی کو پا کر بہت خوش ہوا، کیونکہ کامنی اس کی سوچ اور توقع سے بڑھ کر حسین تھی۔ برکت کامنی کے سامنے احساسِ کمتری کا شکار ہو گیا۔ کامنی کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا تھا اور پھر کامنی نے برکت کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اسے انگلیوں پر نچانا شروع کر دیا۔ برکت بڑی خوشی سے کامنی کے اشاروں پر ناچنے لگا اور بالکل ہی بیوی کا غلام ہو کر رہ گیا۔ گاؤں والوں نے اسے رن مرید کہنا شروع کر دیا تھا۔ مگر برکت کو کسی بھی بات کی کوئی پروا نہیں تھی۔ اسی طرح ان کی شادی کو ایک سال گزر گیا۔ سال گزر جانے کے بعد بھی کامنی میں اولاد کے آثار نظر نہ آئے۔
آس پڑوس کی عورتوں نے اپنی عادت کے مطابق باتیں بنانا شروع کر دیں کہ پتہ نہیں کیا وجہ ہے کہ ابھی تک اولاد نہیں ہوئی۔ لوگوں کی ان باتوں کے جواب میں کامنی تو ہنس کر بات کو ٹال دیا کرتی اور برکت کہتا تھا کہ اولاد کی اتنی جلدی کیا ہے، جب اللہ کو منظور ہو گا، اولاد بھی ہو جائے گی۔
یہاں میں کہانی سے ہٹ کر ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ مرد چاہے اپنی عورت کا غلام ہی کیوں نہ ہو، لیکن وہ یہ بات کبھی بھی سننا پسند نہیں کرتا کہ اس میں کوئی کمزوری ہے یا کمی ہے جس کی وجہ سے اولاد نہیں ہو رہی۔ کامنی اور برکت کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ برکت نے کامنی سے کہا کہ وہ کسی سیانی دائی سے اپنا معائنہ کرائے۔ ان وقتوں میں دائیاں ہی عورتوں کو زچگی کے مراحل سے گزارتی تھیں اور یہ دائیاں اپنے کام میں اس قدر مہارت رکھتی تھیں کہ حاملہ عورت کا پیٹ دیکھ کر ہی بتا دیتی تھیں کہ لڑکا ہو گا یا لڑکی۔
برکت کے کہنے پر کامنی نے گاؤں کی دائی سے اپنا معائنہ کرایا تو دائی نے کامنی کو بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے۔ کامنی نے برکت کو یہ بات بتائی اور اس سے کہا کہ وہ جس حکیم کے پاس کام کرتا ہے، اس کے ساتھ بات کرے اور اس سے اپنا معائنہ بھی کرائے۔ کامنی کے کہنے پر برکت نے حکیم سے بات کی تو حکیم نے برکت سے بہت سے سوال پوچھے، پھر کامنی کے متعلق بھی کچھ باتیں پوچھیں اور برکت کو بتایا کہ اس کی گھر والی بالکل ٹھیک ہے، اس میں کوئی نقص نہیں ہے، جو بھی کمی ہے وہ اس کے اندر ہے۔
پھر حکیم نے برکت کو سمجھایا کہ بعض مردوں میں اولاد پیدا کرنے والے جراثیم تعداد میں کم ہوتے ہیں اور مناسب علاج سے ان جراثیم کی تعداد کو بڑھایا جا سکتا ہے، اس لیے علاج کرانے میں اپنی ہتک محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ برکت کی رضا مندی پر حکیم نے اسے کچھ دوائیاں دیں اور اس سے کہا کہ چھ ماہ مسلسل دوائی کے استعمال سے وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔ برکت نے حکیم کی دی ہوئی دوائی استعمال کرنی شروع کر دی۔ اس وقت اس کی شادی کو دوسرا سال پورا ہونے والا تھا۔ برکت کو دوائی استعمال کرتے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ ایک روز کامنی نے اسے بتایا کہ وہ باپ بننے والا ہے۔
یہ سن کر برکت پہلے تو خوش ہوا، مگر پھر اسے حکیم کی بات یاد آ گئی کہ ابھی وہ باپ بننے کے قابل نہیں ہے اور اسے مسلسل چھ ماہ تک دوائی کھانا ہو گی تب جا کر وہ باپ بننے کے قابل ہو گا۔ برکت کی ساری خوشی خاک میں مل گئی۔ خوشی کی جگہ اسے شک اور وہم کے بچھو ڈنک مارنے لگے۔ وہ ایسی بات سوچنا نہیں چاہتا تھا کہ کامنی اسے دھوکہ دے رہی ہے اور اس کے لیے حرام کی اولاد پیدا کر رہی ہے۔ لیکن حقیقت اس کے سامنے کسی خوفناک ناگ کی طرح پھن پھیلائے کھڑی تھی۔
برکت کو کامنی سے پاگل پن کی حد تک محبت تھی اور اس نے اپنے آپ کو یہ فریب دینے کی بھی کوشش کی کہ ہو سکتا ہے کہ وہ دو ماہ دوائی کے استعمال سے ہی ٹھیک ہو گیا ہو۔ یہی سوچ کر اس نے حکیم سے بات کی اور اس سے پوچھا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ دو ماہ دوائی کھانے سے ہی وہ ٹھیک ہو گیا ہو؟ حکیم نے دو ٹوک انداز میں کہا، ”ناممکن!“ کیونکہ ابھی تو میں نے تمہیں پہلے مرحلے کی دوائی دی ہے، اصل دوائی تو اس دوائی کے بعد دوں گا جو اسے ٹھیک کرے گی۔
حکیم کی بات سن کر برکت کو یقین ہو گیا کہ کامنی اسے دھوکہ دے رہی ہے اور اس کے کسی کے ساتھ غلط قسم کے تعلقات ہیں۔ اس نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ وہ اس بات کا سراغ ضرور لگائے گا کہ وہ کون ہے جس کے ساتھ کامنی کے ناجائز تعلقات ہیں۔ اب وہ اس ٹوہ میں رہنے لگا۔ اکثر وقت بے وقت اچانک گھر پہنچ جایا کرتا، مگر اس نے ہر بار کامنی کو گھر میں موجود پایا۔ ان دنوں وہ بے حد چڑچڑا ہو گیا تھا اور کئی بار اس کی کامنی کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی بھی ہوتی رہی۔
برکت کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ وہ بیک وقت کامنی سے محبت بھی کرتا تھا اور نفرت بھی کرتا تھا۔ مگر اس کی منہ زور محبت کا جذبہ اتنا شدید تھا کہ اکثر نفرت پر غالب آ جاتا تھا۔ یوں برکت محبت اور نفرت کے درمیان میں پسنے لگا۔ اس کی یہ حالت ہو گئی کہ وہ ذہنی مریض بن گیا۔ برکت نے جب کئی دفعہ اچانک گھر آ کر دیکھا کہ کامنی گھر میں موجود ہوتی ہے تو اسے خیال آیا کہ کامنی ضرور رات کو اپنے آشنا سے ملنے جاتی ہو گی اور یہ تب ممکن ہوتا ہو گا جب وہ رفع حاجت کے لیے جاتی ہو گی۔
یہی سوچ کر برکت نے رات کو کامنی کا تعاقب کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ دو راتوں کو اس کے پیچھے پیچھے گیا، مگر کامنی نے کوئی بھی مشکوک حرکت نہیں کی تھی۔ اور پھر تیسری رات برکت نے سوچا کہ اگر آج بھی اسے کوئی سراغ نہ ملا تو وہ کامنی پر شک کرنا چھوڑ دے گا۔ اس رات وہ کافی فاصلہ رکھ کر کامنی اور سروری کے پیچھے جا رہا تھا۔ رات کا وقت تھا، ہر طرف کھیت اور درخت تھے، اس لیے اسے ان کا تعاقب کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہو رہی تھی۔
برکت نے محسوس کیا کہ اس رات کامنی اور سروری کچھ زیادہ ہی دور نکل آئیں تھیں۔ کافی آگے جا کر، جہاں کھیت ختم ہو جاتے تھے، وہاں سروری ایک کھیت کے اندر چلی گئی اور کامنی ہنستی ہوئی دوسری طرف چلی گئی۔ برکت کامنی کے تعاقب میں رہا۔ آگے جا کر کامنی کا رخ قبرستان کی طرف ہو گیا۔ وہاں سے کامنی ایک ٹیلے کے پیچھے جا کر غائب ہو گئی۔
برکت بڑی احتیاط سے ٹیلے کے قریب چلا گیا اور ایک درخت کی اوٹ سے دیکھنے لگا۔ اسے جو کچھ نظر آیا، وہ اس کی برداشت سے باہر تھا۔ اس نے دیکھا کہ کامنی ایک نوجوان کے ساتھ لپٹی ہوئی تھی اور دونوں کی دبی دبی ہنسی کی آوازیں آ رہی تھیں۔ پھر انہوں نے کچھ ایسی حرکتیں کرنا شروع کر دیں جو صرف میاں بیوی ہی کر سکتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ برکت اسی وقت ان دونوں کو قتل کر دیتا یا خود قتل ہو جاتا، لیکن برکت کچھ بھی نہ کر سکا اور وہاں سے ہٹ آیا۔ وہ روتا ہوا گاؤں کی طرف چل پڑا۔ کامنی کو دیکھ کر پتہ نہیں اسے کیا ہو جاتا تھا، کامنی کو دیکھ کر وہ سب کچھ بھول جاتا تھا۔
اس کے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ وہ فوراً کامنی کو طلاق دے دے، مگر پھر جب اسے یہ خیال آیا کہ اتنی خوبصورت بیوی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا تو اس نے طلاق کا ارادہ بدل دیا۔ پھر اس نے سوچا کہ وہ اس طرف سے آنکھیں بند کر لے، اس طرح کامنی بھی ساتھ رہے گی اور اس کی مردانگی کا بھرم بھی قائم رہے گا۔ دوسرے لفظوں میں اس نے بے غیرت بن جانے کا سوچ لیا تھا۔ لیکن پھر ایک روز ایک ایسا واقعہ ہو گیا کہ اس واقعے نے برکت کے دماغ میں انقلاب برپا کر دیا۔
ایک روز برکت مسیح گھر میں موجود تھا۔ اس روز اسے کام سے چھٹی تھی اور کامنی کسی کام کی غرض سے سروری کے گھر گئی ہوئی تھی۔ برکت نے گھر میں ایک مرغا اور تین مرغیاں پال رکھی تھیں جو اس وقت صحن میں پھر رہی تھیں کہ اچانک کسی ہمسائے کا ایک مرغا کھلے دروازے سے ان کے صحن میں آ گیا اور مرغیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے لگا۔ باہر سے آنے والا مرغا خاصا صحت مند تھا، جبکہ برکت کا مرغا کمزور سا نظر آتا تھا۔ برکت یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کا کمزور سا مرغا باہر سے آنے والے صحت مند مرغے پر باز کی طرح جھپٹ پڑا۔
پھر دونوں مرغوں میں خونریز لڑائی شروع ہو گئی۔ کچھ دیر بعد برکت نے دیکھا کہ اس کا مرغا کمزور پڑنے لگا تھا اور اس کی کلغی سے خون نکلنے لگا تھا۔ مگر اتنا زخمی ہونے کے باوجود بھی اس کا مرغا کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ مر جائے گا، بھاگے گا نہیں۔ برکت نے آگے بڑھ کر دوسرے مرغے کو باہر نکال دیا اور اپنے مرغے کو پکڑ کر اس کا خون صاف کیا اور چوم کر چھوڑ دیا۔ مرغے نے سینہ تان کر ایک زور دار بانگ دی اور مرغیوں کے پاس چلا گیا۔
اپنے مرغے کی جرات دیکھ کر اس کے دل میں خیال آیا کہ میں تو انسان ہوں، لیکن اس مرغ سے بھی بدتر ہوں۔ اس نے ایک جانور ہوتے ہوئے اپنی تین بیویوں کی کس طرح اپنی جان پر کھیل کر حفاظت کی ہے اور میں ہوں کہ مجھ سے ایک بیوی بھی نہیں سنبھالی جا رہی۔ اس واقعے نے برکت کے دماغ میں ہلچل مچا دی تھی۔ تھوڑی دیر بعد کامنی واپس آ گئی۔ اس نے آتے ہی برکت سے کہا کہ سروری کہہ رہی ہے کہ گاؤں کے باہر میلہ لگا ہے اور وہ اسے میلہ دکھا لائے۔
برکت کامنی کو سائیکل پر بٹھا کر میلے کی طرف چل پڑا۔ وہ سائیکل چلا رہا تھا اور اس کے دماغ میں کشمکش جاری تھی کہ وہ کامنی کو چھوڑ دے یا یوں ہی بے غیرت بنا رہے۔ کبھی محبت غالب آ جاتی تو کبھی نفرت کا غلبہ اس کے دماغ کو چڑھ رہا تھا۔ اس کے دماغ میں مرغے والا واقعہ پوری طرح حاوی ہو چکا تھا۔ یہی وہ لمحات تھے جب اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ بے غیرت بن کر زندہ نہیں رہے گا، بلکہ کامنی کو مار دے گا اور اس کے بعد اس کے یار کو بھی قتل کر کے خود پھانسی پر چڑھ جائے گا۔
وہ اپنی انہی سوچوں میں گم سائیکل چلا رہا تھا۔ جب وہ نہر کے پل پر چڑھے تو اچانک مخالف سمت سے ایک بیل گاڑی بڑی تیزی سے سائیکل پر چڑھ دوڑی۔ بیل خوفزدہ ہو کر بھڑکے ہوئے تھے، شاید انہوں نے راستے میں کسی سانپ کو دیکھ لیا تھا۔ آناً فاناً بیل گاڑی ان کے سر پر آن پہنچی تھی۔ بیل گاڑی سے بچنے کی ایک ہی صورت تھی کہ سائیکل کو پل سے نہر میں گرا دیا جاتا اور برکت نے بھی غیر ارادی طور پر یہی حرکت کی۔
نہر میں گرنے کے بعد جب برکت ذرا سنبھلا تو اسے کامنی کی آواز آئی، ”مجھے بچا لو برکت، میں مر جاؤں گی، میرا بچہ مر جائے گا، ہائے میرا بچہ!“ برکت نے جب ”ہائے میرا بچہ“ کے الفاظ سنے تو وہ پاگل ہو گیا اور اس پر ایسی دیوانگی طاری ہوئی کہ اسے کچھ ہوش نہ رہا۔ اسے بس یہی محسوس ہو رہا تھا کہ ہر طرف پانی کے چھینٹے اڑ رہے ہیں اور کامنی تڑپ رہی ہے اور ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔
جب اسے کچھ ہوش آیا تو اس نے دیکھا کہ کامنی کی گردن اس کے ہاتھوں میں ہے اور کامنی مر چکی ہے۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، اسے کوئی نظر نہ آیا۔ دور کھیتوں میں لوگ کام کر رہے تھے۔ اس نے شور مچا کر ان سب کو اکٹھا کر لیا اور بتایا کہ کس طرح وہ اور اس کی گھر والی نہر میں گر پڑے تھے اور اس کی گھر والی ڈوب جانے کی وجہ سے مر گئی ہے۔ لوگوں نے اس کے ساتھ افسوس کا اظہار کیا اور کامنی کی لاش اس کے گھر تک پہنچانے کا بندوبست کر دیا۔
دراصل برکت اس وقت دوہرے کردار کا مالک بن گیا تھا۔ وہ کامنی سے محبت بھی کرتا تھا اور نفرت بھی۔ اس کی محبت ہمیشہ ہی اس کی نفرت پر غالب آ جایا کرتی تھی۔ بس وہی ایک لمحہ ایسا آیا تھا کہ جب نفرت کا جذبہ اتنی شدت سے ابھرا کہ محبت کے جذبے پر غالب آ گیا اور اسی ایک لمحے میں برکت نے کامنی کا گلہ گھونٹ دیا۔
برکت کا بیان ختم ہوا۔ میں نے کانسٹیبل کو بلا کر برکت کو اس کے حوالے کر دیا کہ اسے دوبارہ حوالات میں ڈال دو۔ میں کچھ دیر آرام کرنے کے لیے اپنے کوارٹر میں جانے لگا تو اے ایس آئی نے حاضر ہو کر بتایا کہ وہ کمالے کو لے آیا ہے۔ میں نے کہا، ”ٹھیک ہے، وہ کمالے کو میرے پاس لے آئے۔“
ذرا ہی دیر بعد اے ایس آئی ایک خوبصورت جوان کو گردن سے دبوچے میرے پاس لے آیا۔ یہ کمالا تھا۔ اے ایس آئی نے اس کی گردن چھوڑ دی اور اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ میں نے کمالے سے پوچھا، ”کیا اسے معلوم ہے کہ کامنی نام کی ایک عورت نہر میں ڈوب کر مر گئی ہے؟“ اس نے کہا کہ جی ہاں، اسے معلوم ہے، یہ خبر تو دور دور تک پہنچ چکی ہے۔
میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا، ”تو پھر تمہیں تو بہت افسوس ہوا ہو گا کامنی کے مرنے کا؟“ اس نے گھبرا کر کہا، ”میرا اس سے کیا واسطہ جی! میری وہ کیا لگتی تھی جو مجھے افسوس ہو گا؟“ میں نے کہا، ”کمالے، میں نے تو سنا ہے کہ تم اتنی دور سے اس سے ملنے آتے رہتے تھے اور تمہاری اس کے ساتھ بڑی گہری دوستی تھی۔“ وہ بولا، ”آپ نے غلط سنا ہے جناب! میں تو اسے جانتا بھی نہیں ہوں۔“
اے ایس آئی کمالے کے پیچھے کھڑا تھا۔ میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اے ایس آئی کو مخصوص اشارہ کیا۔ اے ایس آئی نے پیچھے سے اس کے بال مٹھی میں جکڑ لیے اور اتنے زور سے پیچھے کو جھٹکا دیا کہ وہ لڑکھڑا کر پیچھے کو جا گرا۔ ابھی وہ اٹھ ہی رہا تھا کہ ایک زوردار تھپڑ اس کے بائیں گال پر پڑا اور وہ پھر گر پڑا۔ اس کے گال کی اندر سے جلد پھٹ گئی اور وہ منہ سے خون تھوکنے لگا۔ اے ایس آئی نے اسے بالوں سے پکڑا اور میرے سامنے کھڑا دیا۔
کمالا اچھا صحت مند تھا، لیکن اس کی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ اس پر لرزہ طاری ہو گیا تھا اور منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی۔ مجھے کمالے پر ذرا بھی رحم نہیں آ رہا تھا، کیونکہ اس کی وجہ سے ایک عورت قتل ہو گئی تھی۔ میں نے اس سے ذرا سختی سے کہا، ”اب بتاؤ، کامنی کے ساتھ تمہارے ناجائز تعلقات تھے یا نہیں؟ اگر اب بھی جھوٹ بولو گے تو میں تمہاری اس ماں سروری کو بلا لوں گا جو تمہاری ملاقاتیں کراتی رہی ہے۔“
کمالے نے تسلیم کر لیا کہ اس کے کامنی کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے اور وہ اس کے بچے کی ماں بننے والی تھی۔ کمالے نے بھی وہی باتیں بتائیں جو میں سروری سے سن چکا تھا۔ میں نے اس سے بیان لے کر اس کے دستخط کرا لیے۔
میں نے کیس مکمل کر کے عدالت میں پیش کر دیا۔ میرے کیس میں عینی شاہد لڑکے کا بیان، سروری کا بیان اور حکیم کا بیان بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ ملزم برکت مسیح کا بیان بھی شامل تھا۔ عدالت میں برکت اپنے بیان پر قائم رہا۔ دوسرے لوگوں کے بیان اور عینی شاہد لڑکے کی گواہی کی روشنی میں عدالت نے ملزم برکت مسیح کو سزاے موت کا حکم سنایا۔
(ختم شد)
اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہمیں ان دنوں پنجاب کے ایک پسماندہ دیہاتی علاقے کا تھانیدار تھا اور میرے تھانے کے دائرہ کار میں آس پاس کے پانچ گاؤں آتے تھے۔ یہ گاؤں زیادہ بڑے بھی نہیں تھے۔ ویسے بھی اس وقت آبادی کا یہ عالم نہیں تھا۔
وہ گرمیوں کے ابتدائی دن تھے۔ گرمی نے ابھی اپنا زور نہیں پکڑا تھا، پھر بھی دوپہر کے وقت بہت گرمی ہو جاتی تھی۔ ایسی ہی ایک دوپہر میں تھانے کے صحن میں لگے ایک درخت کے نیچے بیٹھا کچھ ضروری نوٹس لکھ رہا تھا کہ گاؤں کا نمبردار آ گیا۔
یہ نمبردار بڑا ہی خوشامدی قسم کا انسان تھا۔ زرا زرا سی بات پر تھانے آ جایا کرتا تھا اور لوگوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی مجھے آگاہ کرتا رہتا تھا۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ نمبردار تھانے کا مخبر بھی تھا۔
میں نے نمبردار سے بڑے تپاک سے ملاقات کی، اسے بٹھایا اور آنے کی وجہ دریافت کی۔ نمبردار نے بتایا کہ گاؤں کا ایک شخص برکت مسیح تھوڑی دیر پہلے اپنی بیوی کو سائیکل کے پیچھے بٹھا کر کہیں جا رہا تھا۔ جب وہ گاؤں کے باہر چھوٹی نہر کے پل پر پہنچا تو اچانک مخالف سمت سے ایک بیل گاڑی بڑی تیز رفتاری سے آئی۔ بیل گاڑی کے بیل کسی وجہ سے بھڑکے ہوئے تھے اور گاڑی بان کے کنٹرول میں نہیں تھے۔
نہر کے پل کے دونوں اطراف کوئی حفاظتی جنگلہ وغیرہ نہیں تھا۔ بیل گاڑی بے قابو ہو کر برکت مسیح پر چڑھ دوڑی۔ برکت مسیح نے بیل گاڑی سے بچنے کی کوشش کی تو وہ دونوں میاں بیوی سائیکل سمیت نہر میں جا گرے۔ بلندی زیادہ نہیں تھی، مگر پھر بھی جب تک برکت مسیح اپنے آپ کو سنبھالتا، اس کی بیوی پانی میں کافی غوطے کھا چکی تھی۔ برکت مسیح جب تک بیوی کے پاس پہنچا، وہ نیم مردہ ہو چکی تھی۔
برکت مسیح اپنی بیوی کو پکڑ کر پانی سے باہر لا رہا تھا کہ اس کی بیوی نے اس کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا اور برکت مسیح اپنی مردہ بیوی کو لے کر باہر نکلا۔
نمبردار کی بات سن کر میں نے سوچا کہ یہ تو ایک سیدھا سادا حادثہ تھا اور اس میں بظاہر پولیس کی دلچسپی والی کوئی بات نہ تھی۔ اس واقعے کے بارے میں کوئی رپورٹ درج کرنا بھی ضروری نہ تھا۔ نمبردار تو بس ویسے ہی اسے اپنا فرض سمجھ کر اور خوشامد حاصل کرنے کے لیے تھانے اطلاع دینے آ گیا تھا۔ میں نے نمبردار کا شکریہ ادا کیا اور وہ چلا گیا۔
ابھی اسے گئے ہوئے مشکل سے آدھا گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ دوبارہ تھانے آ گیا۔ اس بار اس کے ساتھ بارہ تیرہ سال کی عمر کا ایک لڑکا بھی تھا۔ نمبردار کے چہرے پر دبا دبا سا جوش تھا، جیسے وہ کوئی بہت ہی اہم خبر لے کر آیا ہو۔ میں نے نمبردار کو اپنے پاس بٹھایا اور اس سے پوچھا کہ ایسی کون سی نئی بات ہو گئی ہے کہ وہ دوبارہ واپس آ گیا ہے۔
نمبردار نے بڑے جوش سے کہا، ”تھانیدار صاحب! معاملہ گڑ بڑ ہے۔“ میں نے حیران ہو کر کہا، ”کیا مطلب؟ کون سا معاملہ گڑ بڑ ہے؟“ نمبردار نے کہا، ”جناب، وہی برکت مسیح اور اس کی گھر والی کا معاملہ گڑ بڑ ہے۔ آپ فوراً میرے ساتھ چلیں۔“
میں نے کہا، ”صاف صاف بتاؤ، کیا بات ہے؟ یہ کیا تم نے گڑ بڑ گڑ بڑ لگا رکھی ہے؟ پہلے مجھے پوری بات بتاؤ، پھر تمہارے ساتھ جاؤں گا۔“ نمبردار نے کہا، ”جناب، پوری بات تو آپ کو یہ لڑکا بتائے گا۔“ پھر نمبردار نے اس لڑکے کو میرے سامنے کھڑا کرتے ہوئے لڑکے سے کہا، ”اے کاکا! جو کچھ بھی تم نے دیکھا ہے، وہ سب تھانیدار صاحب کو بتاؤ۔“
لڑکا پہلے تو جھجکتا رہا، لیکن پھر میرے کہنے پر وہ بولنے لگا۔ اس لڑکے کی بات سن کر میں حیران رہ گیا۔ میں جس واقعے کو سیدھا سادا حادثہ سمجھ رہا تھا، وہ تو سیدھا سادا قتل کا واقعہ تھا۔
لڑکے نے بتایا کہ وہ بھی اسی گاؤں کا رہنے والا ہے۔ جس وقت یہ حادثہ ہوا، وہ نہر کے پل کے قریب ایک آم کے درخت پر چڑھا آم توڑ رہا تھا۔ دوپہر کا وقت تھا، گرمیوں کے دن تھے، اس لیے آس پاس کوئی آدمی نظر نہیں آ رہا تھا۔
اس نے دیکھا کہ ایک طرف سے ایک سائیکل سوار آ رہا تھا۔ سائیکل کے پیچھے ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ سائیکل والا یوں ہی نہر کے پل پر چڑھا تو مخالف سمت سے ایک بیل گاڑی نہر کے پل کی طرف آئی۔ اس بیل گاڑی کے بیل گاڑی بان کے قابو میں نہیں تھے۔ بے قابو بیل گاڑی سائیکل پر چڑھ دوڑی۔ سائیکل والے نے گھبرا کر سائیکل موڑی تو سائیکل سمیت نہر میں جا گرے۔ بیل رکے نہیں، بلکہ مزید گھبرا کر وحشت زدہ انداز میں بھاگتے چلے گئے۔
لڑکے نے درخت کے اوپر سے دیکھا کہ سائیکل کے پیچھے بیٹھی ہوئی عورت پانی میں ہاتھ مار رہی تھی۔ لڑکے نے بتایا کہ وہ ان سائیکل سوار مرد اور عورت کی مدد کے لیے اس لیے درخت سے نہیں اترا کہ اسے معلوم تھا کہ نہر میں پانی اتنا گہرا نہیں کہ کوئی ڈوب جائے۔ اور پھر عورت کے ساتھ ایک مرد بھی تھا، اس لیے وہ اوپر بیٹھا دیکھتا رہا۔
پھر لڑکے نے دیکھا کہ مرد پانی میں تیرتا ہوا عورت کے پاس پہنچا تو عورت بری طرح گھبرا چکی تھی اور پانی میں الٹے سیدھے ہاتھ مار رہی تھی۔ لیکن مرد کی حرکتیں مشکوک سی لگ رہی تھیں۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ اسے عورت کو بچانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پھر مرد نے عورت کے ہاتھ پکڑنے کی بجائے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور عورت کو نیچے پانی میں دبا دیا۔
عورت تڑپ کر اوپر کو اٹھی۔ عورت جب پانی سے ابھری تو مرد نے اس کا گلا پکڑ کر دبانا شروع کر دیا اور عورت تڑپنے لگی۔ لیکن مرد نے عورت کا گلا دبائے رکھا اور اسی طرح گلا دباتے دباتے ہی عورت کو پانی میں ڈبو دیا اور کافی دیر پانی کے اندر ہی دبائے رکھا۔ پھر مرد نے عورت کو پانی سے نکالا۔ اس وقت تک عورت اپنے ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑ چکی تھی۔
مرد نے ادھر ادھر دیکھا۔ آس پاس کوئی بندہ نظر نہیں آیا۔ دور کھیتوں میں کچھ لوگ کام کر رہے تھے اور کچھ درختوں کی چھاؤں میں بیٹھے تھے۔ مرد نے زور زور سے پکار کر ان لوگوں کو بلانا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر میں سات آٹھ آدمی وہاں پہنچ گئے۔
اور یہ لڑکا بھی درخت سے اتر کر ان لوگوں کے ساتھ جا کھڑا ہوا۔ اس وقت تک مرد عورت کو کنارے پر لے آیا تھا۔ قریب جا کر پتہ چلا کہ وہ عورت مر چکی تھی۔ اور اس عورت کا مرد لوگوں کو بتا رہا تھا کہ کس طرح بھڑکے ہوئے بیلوں کے ڈر کی وجہ سے وہ میاں بیوی نہر میں گر پڑے تھے اور اس کی بیوی پانی میں ڈوب کر مر گئی۔
لوگوں نے اس سے افسوس کا اظہار کیا۔ ایک شخص نے، جو غوطہ خوری جانتا تھا، سائیکل ڈھونڈ کر نہر سے باہر نکال دی۔ اور پھر ایک شخص اپنی گدھا گاڑی لے آیا۔ عورت کی لاش اس گدھا گاڑی پر رکھ کر گاؤں کی طرف چلے گئے۔
لڑکے کی بات ختم ہوئی تو میں نے پوچھا، ”کیا یہ بات تم نے وہاں کسی کو بتائی تھی؟“ وہ بولا، ”نہیں جی، میں تو بہت زیادہ خوفزدہ ہو گیا تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک انسان کو دوسرے انسان کا قتل کرتے ہوئے دیکھا تھا۔“ پھر وہ لوگ جب لاش گدھا گاڑی پر لے کر چلے گئے تو میں بھی وہاں سے ہٹ گیا۔
اسی وقت نمبردار اس حادثے کی اطلاع تھانے میں دے کر واپس جا رہا تھا۔ راستے میں اس لڑکے کا اور نمبردار کا آمنا سامنا ہو گیا۔ نمبردار کو دیکھ کر لڑکے نے یہی بہتر سمجھا کہ وہ ساری بات نمبردار کو بتا دے۔ جب نمبردار نے لڑکے کی زبانی یہ ساری بات سنی تو نمبردار لڑکے کو انہی قدموں لے کر واپس تھانے آ گیا۔
لڑکے کی زبانی یہ سارا واقعہ سن کر مجھے بھی یہ معاملہ گڑ بڑ نظر آنے لگا۔ لڑکے کی باتوں سے صاف پتہ چلتا تھا کہ برکت مسیح نے اپنی بیوی کو خود مارا ہے۔ اب اس قتل کی وجہ معلوم کرنا بہت ضروری تھا۔
میں نے نمبردار سے پوچھا، ”کیا برکت مسیح کے گھر میں دونوں میاں بیوی کے بیچ لڑائی جھگڑا رہتا تھا یا کوئی اور وجہ ایسی تھی کہ برکت مسیح نے تنگ آ کر اپنی بیوی کو مار دیا ہو؟“
نمبردار بولا، ”جناب، لڑائی جھگڑے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ برکت مسیح تو اپنی بیوی کا دیوانہ تھا۔ سارے گاؤں میں مشہور ہے کہ وہ اپنی بیوی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کچھ لوگ تو برکت مسیح کو رن مرید بھی کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ برکت مسیح کی بیوی تھی ہی اتنی خوبصورت اور جوان کہ اس عورت کا کوئی بھی خاوند ہوتا، وہ اس عورت کا غلام بن کر رہتا۔“
نمبردار کی یہ وضاحت سن کر مجھے مایوسی ہوئی کہ برکت مسیح اور اس کی بیوی میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں تھا اور یہ کہ برکت مسیح اپنی بیوی کو دیوانگی کی حد تک چاہتا تھا۔
نمبردار کی باتیں سن کر مجھے لڑکے کے بیان پر شک ہونے لگا کہ شاید کسی عداوت کی بنا پر یا کسی کے کہنے پر وہ لڑکا یہ بیان دے رہا تھا یا پھر اس نے جو دیکھا، وہ اس کی غلط فہمی ہو اور برکت مسیح واقعی اپنی گھر والی کو بچانے کی کوشش کر رہا ہو۔
میں نے سوچا کہ ابھی مجھے جلد بازی میں کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچنا چاہیے۔ پہلے مجھے مرنے والی کی لاش کا معائنہ کرنا چاہیے، اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنا ہو گا۔
میں نے فوراً دو کانسٹیبل ساتھ لیے اور نمبردار کو ساتھ لے کر برکت مسیح کے گھر کی طرف چل پڑا۔ نمبردار نے مجھے مرنے والی کا نام کامنی بتایا۔ میں نے کامنی کے مرنے کے وقت کا حساب لگایا۔ اس حادثے کو گزرے تین ساڑھے تین گھنٹے ہو گئے تھے۔ میں وقت کا حساب اس لیے لگا رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت زیادہ گزر جائے اور کامنی کو دفن کر دیا جائے۔ ویسے بھی اگر برکت مسیح نے کامنی کو خود مارا تھا تو پھر وہ اسے دفنانے میں جلدی کر سکتا تھا۔
اگر کامنی کو دفن کر دیا جاتا تو پھر قبر کشائی کے لیے مختلف مرحلوں سے گزرنا پڑتا اور میں ان مراحل سے بچنا چاہتا تھا۔ اس وقت میرے پاس کوئی واضح ثبوت بھی نہیں تھا کہ کامنی کو واقعی میں قتل کیا گیا ہے۔
بہرحال، انہی سوچوں میں گم ہم کامنی کے گھر پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ کامنی کے ماں باپ آ چکے تھے اور ابھی کامنی کی ایک خالہ کا انتظار تھا جو کہیں دور دراز رہتی تھی اور خالہ کے آنے کے بعد ہی کامنی کو دفنایا جانا تھا۔
وہاں رونا دھونا مچا ہوا تھا۔ کامنی کی ماں کے بین برداشت سے باہر تھے۔ پولیس کو دیکھ کر مرگ والے گھر میں ایک دم سکوت سا چھا گیا اور لوگ آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔ ذرا سی دیر میں پورے گاؤں میں یہ خبر پھیل گئی کہ برکت مسیح کے گھر پولیس آئی ہے۔
گاؤں میں جس کسی کو بھی پتہ چل رہا تھا، وہ برکت مسیح کے گھر کی طرف دوڑا چلا آ رہا تھا۔ وہاں لوگوں کا اچھا خاصا ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا۔
میں نے نمبردار سے کہا کہ وہ برکت مسیح کو میرے پاس لے آئے اور اکٹھے ہو جانے والے لوگوں سے کہے کہ وہ ادھر ادھر ہو جائیں۔ ابھی میں نمبردار کو یہ ہدایت دے ہی رہا تھا کہ ایک جوان آدمی ہمارے پاس آ گیا۔
آتے ہی اس نے مجھے سلام کیا۔ نمبردار نے مجھے بتایا کہ یہی برکت مسیح ہے۔ میں نے بڑے غور سے اس کا جائزہ لیا۔ وہ گندمی رنگت کا صحت مند آدمی تھا۔ چہرے کے نقوش بھی اچھے تھے۔ میں نے اس کی آنکھیں دیکھیں۔ آنکھیں سرخ تھیں اور ان میں اب بھی نمی نظر آ رہی تھی۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ روتا رہا ہے۔
میں نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا، ”برکت! کیا ہوا؟ مرد ہو کر عورتوں کی طرح آنسو کیوں بہا رہے ہو؟“ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تھپکی دیتے ہوئے کہا، ”مرد بنو، مرد!“
اس نے بے بسی سے میری طرف دیکھا اور دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھیں صاف کرنے لگا۔ وہ کچھ گھبرایا ہوا بھی لگ رہا تھا اور میری آمد سے حیران اور پریشان بھی لگ رہا تھا۔
میں نے کہا، ”برکت، میں تمہاری بیوی کی لاش دیکھنا چاہتا ہوں۔ اسے ہوا کیا تھا؟“ وہ رندی ہوئی آواز میں بولا، ”ہونا کیا تھا جناب، وہ نہر میں ڈوب کر مر گئی۔“ پھر برکت نے مجھے وہ تمام حادثہ سنایا جو میں پہلے بھی نمبردار کی زبانی سن چکا تھا۔
میں نے برکت مسیح سے کہا، ”میں لاش کو دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ اس حادثے کی تصدیق کر سکوں، ورنہ کل کلاں کوئی اور بات نہ نکل آئے۔ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ محض ایک قانونی کارروائی ہے تاکہ اس حادثے کا ریکارڈ تھانے کی فائل میں آ جائے۔“
میری بات سن کر اسے کچھ تسلی ہوئی اور وہ بولا، ”ٹھیک ہے جناب، آپ لاش دیکھ لیں۔“ میں نے اس سے کہا کہ وہ لاش والے کمرے سے تمام لوگوں کو باہر نکال دے تاکہ میں لاش کا معائنہ کر سکوں۔
وہ اندر چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد مجھے اندر بلا لیا۔ لاش ایک چارپائی پر رکھی ہوئی تھی۔ چارپائی پر گدا بچھا ہوا تھا اور ایک چادر سے سر سے لے کر پاؤں تک لاش کو ڈھانپ دیا گیا تھا۔
میں نے برکت مسیح کو بھی کمرے سے نکل جانے کو کہا تو وہ حیرانی سے میرا منہ دیکھنے لگا اور باہر جانے میں ہیل و حُجت کرنے لگا۔ میں نے کانسٹیبلوں کو اندر بلایا اور ان سے کہا کہ وہ اسے پکڑ کر کمرے سے باہر لے جائیں اور جب تک میں نہ کہوں، کسی کو اندر نہ آنے دیں۔
کانسٹیبل برکت مسیح کو کھینچتے ہوئے کمرے سے باہر لے گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں نے لاش پر پڑی چادر سر کی طرف سے پکڑی اور آہستگی سے کھینچ لی۔ یوں ہی چادر اتری، لاش کا چہرہ میرے سامنے آ گیا۔ وہ اتنی حسین تھی کہ اسے دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
لاش کی آدھ کھلی آنکھیں یوں لگ رہی تھیں جیسے وہ میری طرف دیکھ رہی ہو۔ وہ مری ہوئی بالکل نہیں لگ رہی تھی۔ اس کا بدن گورا چٹا تھا، نین نقش میں بڑی کشش تھی اور جسم کی ساخت بھی انتہائی موزوں تھی۔
کامنی کو دیکھ کر مجھے نمبردار کے الفاظ یاد آ گئے۔ اس نے کہا تھا کہ کامنی کا کوئی بھی خاوند ہوتا تو وہ اس کا غلام بن کر رہتا۔ بلا شبہ وہ خطرناک حد تک حسین عورت تھی۔ میں نے غور سے لاش کا معائنہ کرنا شروع کر دیا۔ آخر مجھے وہ چیز نظر آ گئی جو میں تلاش کر رہا تھا۔
اس کی گردن پر ہلکا سا سرخی مائل نشان تھا جو صرف غور سے دیکھنے پر ہی محسوس ہوتا تھا اور یہ اس بات کی نشانی تھی کہ اس کا گلا گھونٹا گیا ہے۔ میں نے اس کے جسم کا جائزہ لیا، مگر کوئی بھی چوٹ یا زخم کا نشان نظر نہ آیا۔
میں نے کانسٹیبل کو اندر بلایا اور اس سے کہا کہ وہ برکت مسیح پر نظر رکھیں، اسے ادھر ادھر نہ ہونے دیں۔ میں محض شک کی بنیاد پر کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے ضروری سمجھا کہ لاش کا پوسٹ مارٹم ہو جانے کے بعد ہی کوئی کارروائی کروں گا۔
میں نے نمبردار کو بلا کر اسے کہا کہ لاش لے جانے کا بندوبست کرے اور پھر موقع کی ضروری کارروائی کے بعد کامنی کی لاش ایک کانسٹیبل کے ہمراہ ہسپتال روانہ کر دی اور برکت مسیح کو لے کر تھانے آ گیا۔
تھانے پہنچ کر میں نے برکت مسیح کو حوالات میں بند کرا دیا اور خود بیٹھ کر اس واقعے پر غور کرنے لگا۔ ڈوب کر مرنے والے انسان کو آکسیجن نہیں ملتی اور اس کی سانس رک جاتی ہے۔ پانی میں گرنے کی وجہ سے اچانک خوف سے بھی دل کی حرکت بند ہو جاتی ہے اور دماغ کی نسوں پھٹ جاتی ہیں۔ ڈوب کر مرنے والوں کی آنکھیں آدھ کھلی ہوتی ہیں، ہاتھ اور پاؤں کی جلد سکڑ جاتی ہے، پھیپھڑوں، آنتوں اور معدے میں پانی بھر جانے کی وجہ سے جسم پھول جاتا ہے۔ پانی کے علاوہ ریت اور مٹی کے ذرات بھی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں، جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مرنے والا پانی میں ڈوب کر مرا ہے۔
میں نے کامنی کی لاش کا معائنہ کیا تھا تو مجھے اس لاش میں ڈوب کر مر جانے والی تمام علامتیں نظر آئی تھیں، جن سے ثابت ہوتا تھا کہ وہ ڈوب کر مری ہے۔ لیکن اس لڑکے کا بیان اور گردن پر دباؤ کا نشان مجھے شک میں ڈال رہے تھے کہ معاملہ گڑ بڑ ہے اور میں نے اسی شک کو بنیاد بنا کر کامنی کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دیا تھا۔ اب مجھے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کا انتظار تھا، اس کے بعد ہی میں کوئی کارروائی کر سکتا تھا۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اگلے دن شام کو ملنی تھی۔ پھر میں تھانے کے دیگر معاملات میں مصروف ہو گیا۔
اگلے روز جب میں تھانے پہنچا تو ایک کانسٹیبل نے مجھے بتایا کہ حوالات میں بند برکت مسیح میرے ساتھ بات کرنا چاہتا ہے۔ میں نے کانسٹیبل سے کہا کہ وہ برکت مسیح کو میرے پاس لے آئے۔ تھوڑی دیر بعد کانسٹیبل برکت مسیح کو میرے سامنے لے آیا۔ میں نے برکت کی طرف دیکھا، وہ بڑے خراب حال میں تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں، اسے شاید حوالات میں نیند نہیں آئی تھی۔ میں نے اسے بیٹھنے کو کہا۔ وہ میرے سامنے بیٹھ گیا تو میں نے اس سے حال احوال پوچھا اور کہا کہ وہ میرے ساتھ کیا بات کرنا چاہتا ہے۔ اس نے رونے والے انداز میں کہا، ”آپ نے مجھے یہاں بند کیوں کر رکھا ہے؟ میرا قصور کیا ہے؟“
میں نے کہا، ”مجھے ایک شک ہے اور اسی شک کی وجہ سے تم یہاں نظر بند ہو۔ میرا شک دور ہو جائے گا تو میں تمہیں فوراً جانے کی اجازت دے دوں گا。“ برکت مسیح نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا، ”جناب، ایک تو میری گھر والی مر گئی اور آپ نے مجھے ہی یہاں بند کر رکھا ہے۔ آخر میرا قصور کیا ہے؟“
میں ابھی اس سے اس قسم کی کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا کہ مجھے شک ہے کہ اس نے اپنی گھر والی کو گلا گھونٹ کر مار ڈالا ہے، کیونکہ ابھی مجھے صرف شک تھا، کوئی واضح ثبوت یا شہادت میرے پاس نہیں تھی۔ اس لیے پہلے میں پوسٹ مارٹم کی رپورٹ دیکھنا چاہتا تھا، اس کے بعد ہی کوئی بات کرنا چاہتا تھا۔ میں نے برکت مسیح سے کہا کہ اسے ابھی کچھ وقت کے لیے حوالات میں رہنا ہو گا اور مناسب وقت پر میں اسے چھوڑ دوں گا۔ میں نے کانسٹیبل سے کہا کہ اسے حوالات میں بند کر دو اور اسے کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔
شام پانچ بجے کے قریب ایک کانسٹیبل کامنی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اور اس کی لاش لے کر آ گیا۔ میں نے بڑی بے چینی سے پوسٹ مارٹم رپورٹ دیکھی۔ رپورٹ میں ڈاکٹر نے لکھا تھا کہ کامنی کی موت پانی میں ڈوبنے اور سانس بند ہو جانے کی وجہ سے ہوئی۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ مرنے والی کے پھیپھڑوں، آنتوں اور معدے میں اتنی مقدار میں پانی نہیں پایا گیا جو عام طور پر ڈوب جانے والے لوگوں کے پھیپھڑوں، آنتوں اور معدے میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ مرنے والی کے گلے پر کوئی وزنی چیز لگی ہے یا اس کا گلا دبایا گیا ہے۔ ایک اور اہم بات جو ڈاکٹر نے لکھی تھی، وہ یہ تھی کہ مرنے والی حاملہ تھی اور یہ تیسرے ماہ کا حمل تھا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ پڑھنے کے بعد میرا شک یقین میں بدل گیا کہ برکت مسیح نے اپنی گھر والی کو نہر میں گرنے کے بعد گلا گھونٹ کر مار ڈالا تھا۔ اب مجھے اس لڑکے کے بیان پر یقین ہو گیا کہ اس نے بالکل ٹھیک دیکھا تھا۔ میں نے برکت مسیح کو تفتیش میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
ہسپتال سے کامنی کی لاش بھی آ چکی تھی۔ میں نے گاؤں میں اطلاع بھجوا دی۔ کچھ دیر بعد کامنی کا باپ اور اس کے دو بھائی لاش وصول کرنے آ گئے۔ میں نے ضروری کارروائی کے بعد لاش ان کے حوالے کر دی۔ کامنی کے باپ نے اپنے داماد برکت مسیح کے متعلق پوچھا کہ اسے کیوں تھانے میں بند رکھا ہے تو میں نے اسے بتایا کہ مجھے شک ہے کہ کامنی کو اس کے خاوند نے مارا ہے۔ یہ بات سن کر کامنی کا باپ بہت حیران ہوا۔
میں نے اس سے پوچھا، ”کیا آپ کی بیٹی برکت کے گھر میں خوش تھی؟“ اس نے کہا، ”کامنی نے کبھی کوئی شکایت تو نہیں کی تھی، بلکہ کامنی تو ہمیشہ اپنے خاوند کی تعریف کرتی تھی اور وہ اپنے خاوند کے ساتھ بہت خوش تھی۔“ میں نے کہا، ”یاد کر کے بتاؤ، ان کے درمیان کبھی کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا تھا یا کبھی کامنی نے آپ کو گھر آ کر بتایا ہو کہ وہ آپس میں لڑے جھگڑے ہوں؟“ کامنی کے باپ نے دو ٹوک انداز میں کہا، ”کبھی بھی نہیں سرکار! ان کی شادی کو دو سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے، آج تک ایسی کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی سنی!“
میں نے کامنی کے باپ سے بہت سے سوال پوچھے اور مختلف طریقوں سے ٹٹولا، مگر اس سے مجھے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ پھر میں نے کامنی کے بھائیوں سے بھی کرید کرید کر پوچھا، مگر وہ بھی میرے کام کی کوئی بات نہ بتا سکے۔ کامنی کے باپ اور بھائیوں نے مجھ سے کہا کہ برکت چونکہ حوالات میں بند ہے تو اس لیے وہ کامنی کی لاش اپنے گاؤں لے جانا چاہتے ہیں اور وہاں اس کی آخری رسومات پوری کریں گے۔ میں نے ان سے کہا، ”میری طرف سے ایسی کوئی پابندی نہیں ہے، وہ کامنی کی لاش جہاں چاہیں لے جائیں۔“ کامنی کا باپ اور بھائی لاش لے کر چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد میں نے برکت مسیح کو حوالات سے بلایا اور اسے بتایا کہ کامنی کی لاش پوسٹ مارٹم کے بعد واپس آ گئی ہے اور اس کے سالے اور سسر لاش کو یہاں سے لے گئے ہیں۔ میری بات سن کر اس کی حالت خراب ہو گئی اور وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ کچھ دیر بعد اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا، ”مجھے بھی جانے کی اجازت دے دیں، میں اپنی کامنی کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرنا چاہتا ہوں۔“
میں نے کہا، ”انہی ہاتھوں سے جن ہاتھوں سے تم نے اس کا گلا دبایا تھا؟“ میری بات سن کر وہ یوں اچھلا جیسے میں نے اس کے پیروں میں بم پھینک دیا ہو۔ اس کی آنکھیں ضرورت سے زیادہ کھل گئیں اور اس کا رنگ پیلا پڑ گیا، جیسے جسم کا سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو۔ اس نے کچھ بولنے کی کوشش کی لیکن بول نہ سکا، صرف منہ ہلا کر رہ گیا۔ آخر اس نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھال کر کہا، ”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سرکار؟ بھلا میں اپنی کامنی کو قتل کیوں کروں گا؟ وہ تو میری جان تھی اور اپنی جان کو کوئی کیسے مار سکتا ہے؟“
میں نے کہا، ”اس کی وجہ بھی تم ہی بتاؤ گے، اگر نہیں بتاؤ گے تو میں خود معلوم کر لوں گا۔“ اس نے کہا، ”آپ جس سے مرضی پوچھ لیں، ہم دونوں کا پیار تو سارے گاؤں میں مشہور ہے اور پھر کامنی تو میرے بچے کی ماں بننے والی تھی اور میں اپنی گھر والی اور بچے کو کیسے قتل کر سکتا ہوں؟“ اس نے جو کچھ بھی کہا تھا، وہ وزن رکھتا تھا۔ لیکن میرے دماغ میں عینی شاہد لڑکے کا بیان اور پوسٹ مارٹم کی رپورٹ تھی، اس لیے میں اس کی کسی دلیل سے متاثر نہیں ہو سکتا تھا۔
میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ”دیکھ برکت، جھوٹ بولنے کا اب کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ کامنی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آ گئی ہے اور اس رپورٹ میں صاف طور پر لکھا ہے کہ مقتولہ کا گلا گھونٹا گیا ہے۔“ میری نظریں اس کے چہرے اور آنکھوں پر جمی ہوئی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ برکت کے چہرے پر پریشانی کی ایک لہر آئی اور غائب ہو گئی، یوں جیسے گھپ اندھیرے میں کوئی جگنو چمک کر بجھ جاتا ہے۔ میں نے اس سے کہا، ”کامنی کی گردن پر گلا گھونٹنے کا نشان موجود ہے، جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس کا گلا گھونٹا گیا ہے۔“
برکت نے کہا، ”جناب، جب ہم نہر میں گرے تھے، سائیکل بھی ساتھ ہی گرا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ سائیکل کا کوئی حصہ اس کی گردن پر لگ گیا ہو اور اس کا نشان بن گیا ہو۔“ اس نے دلیل اچھی دی تھی، لیکن میں ابھی اس کی کسی بات پر بھی یقین نہیں کر سکتا تھا۔
میں برکت کو جتنا سیدھا سادا سمجھ رہا تھا، وہ اس کے برعکس تیز اور چلتا پرزہ ثابت ہو رہا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ آسانی سے نہیں مانے گا۔ میں نے اس سے کہا کہ تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ خود ہی اقبالی بیان دے دو۔ اگر خود بیان دے دو گے تو میں تمہارے ساتھ رعایت کر دوں گا۔ اگر تم اقبالی بیان نہیں دینا چاہتے تو مجھے اس کی ضرورت بھی نہیں ہے، کیونکہ میرے پاس موقع کا گواہ موجود ہے جس نے تمہیں کامنی کا گلا گھونٹتے اور اسے پانی میں ڈبوتے ہوئے دیکھا ہے۔ پھر میں نے سارا واقعہ اسے تفصیل سے سنا دیا کہ کس طرح ایک لڑکے نے اتفاقاً اسے کامنی کا گلا گھونٹتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ پھر میں نے اس سے کہا، ”اب بولو، کیا کہتے ہو؟“
اب تو اس کی حالت خراب ہو گئی۔ وہ حیران اور پریشان سا میرے منہ کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔ میں اسے زیادہ سوچنے اور سنبھلنے کا موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔ میں نے ذرا غصے سے کہا، ”برکت، جلدی بولو، کیا کامنی کو تم نے قتل کیا ہے؟“ اس نے کہا، ”نہیں سرکار، میں نے قتل نہیں کیا۔ لوگ تو مجھے رن مرید کہتے ہیں اور یہ بات سچ بھی ہے۔ میں اپنی اتنی حسین بیوی کو قتل کیوں کروں گا؟“
میں نے کہا، ”مجھے اسی سوال کا جواب درکار ہے کہ تم اپنی بیوی کو قتل کیوں کرو گے؟“ میں نے برکت سے بہت سوال کیے اور گھما پھرا کر بھی اس سے اگلوانے کی کوشش کی، لیکن وہ اسی بات پر اڑا رہا کہ اس نے اپنی گھر والی کو قتل نہیں کیا اور اسے ضرورت کیا تھی کہ وہ اسے قتل کرتا۔ وہ اسی بات پر اڑ گیا۔ میں نے اسے دوبارہ حوالات میں بند کرا دیا۔
اب میں نے مخبروں سے کام لینے کا فیصلہ کیا۔ میں نے نمبردار سمیت تمام مخبروں کو اس کام پر لگا دیا کہ وہ برکت مسیح اور مقتولہ کامنی کے بارے میں اندر کی تمام باتیں معلوم کر کے لائیں۔ شام تک مخبروں نے مجھے رپورٹیں پہنچانی شروع کر دیں، لیکن ان خبروں میں میرے کام کی کوئی خبر نہیں تھی۔
میں نے عینی شاہد لڑکے کو تھانے بلا لیا اور اسے ایک بار پھر سے سارا واقعہ بیان کرنے کو کہا۔ لڑکے نے سارا واقعہ مجھے دوبارہ سنایا۔ میں نے لڑکے سے پوچھا، ”کیا اسے یقین ہے کہ برکت مسیح اپنی گھر والی کو پانی میں ڈبو رہا تھا اور اس کا گلا دبا رہا تھا؟“ لڑکے نے کہا، ”جس درخت پر وہ چڑھا تھا، وہ درخت نہر کے کنارے پر ہے اور وہاں سے بالکل صاف نظر آ رہا تھا۔ اور پھر آپ خود سوچیں کہ مجھے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے؟“
میں نے لڑکے سے پوچھا، ”کیا وہ نہر اتنی گہری ہے کہ کوئی اس میں ڈوب جائے؟“ لڑکے نے کہا، ”نہیں جناب، میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ وہ نہر اتنی گہری نہیں کہ کوئی اس میں ڈوب کر مر جائے۔ اس نہر میں تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی نہاتے رہتے ہیں، مگر آج تک کوئی بھی نہر میں نہیں ڈوبا۔“
میں نے لڑکے سے پوچھا، ”کیا تم نے ان دونوں میاں بیوی کو نہر میں گرتے ہوئے دیکھا تھا؟ کیا واقعی وہ بیل گاڑی کی وجہ سے نہر میں گرے تھے؟“ لڑکے نے جواب دیا، ”یہ بات میں ٹھیک سے نہیں بتا سکتا۔ بس اچانک بیل گاڑی اندھا دھند آئی اور گزر گئی، اس کے ساتھ ہی سائیکل نہر میں گرتی نظر آئی۔“ میں نے لڑکے کو جانے کی اجازت دے دی اور وہ چلا گیا۔
لڑکے کو گئے ہوئے ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ نمبردار آ گیا۔ نمبردار برکت مسیح کے متعلق کچھ معلومات لے کر آیا تھا۔ نمبردار کی معلومات کے مطابق برکت مسیح اور کامنی آپس میں دور کے رشتے دار تھے اور اسی وجہ سے ان کی شادی ہو گئی تھی۔ برکت مسیح ساتھ والے گاؤں کے ایک مشہور حکیم کے دواخانے پر صفائی اور دوائیاں وغیرہ کوٹنے کا کام کرتا تھا۔ برکت اپنی بیوی کو بہت چاہتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کامنی بہت خوبصورت تھی۔ برکت کامنی کے سامنے دبا دبا سا رہتا تھا اور اس کی جائز و ناجائز ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ کامنی برکت کے ساتھ لڑائی جھگڑا بھی کر لیتی اور اس کی بے عزتی بھی کر دیتی تھی، مگر برکت پھر بھی اس کی خوشامد میں لگا رہتا تھا۔ اسی وجہ سے لوگ اسے رن مرید اور جورو کا غلام کہتے تھے۔
نمبردار نے مزید بتایا کہ پچھلے دو تین مہینوں سے برکت مسیح کچھ پریشان اور گم صم رہنے لگا تھا۔ اسی دوران اس کی کامنی کے ساتھ ہلکی پھلکی ناراضگی بھی ہوئی تھی۔ میں نے نمبردار سے کہا، ”یہ تو عام سی باتیں ہیں جو تقریباً زیادہ تر لوگوں کو معلوم ہوں گی۔ میں تو برکت اور کامنی کے متعلق اندر کی باتیں معلوم کرنا چاہتا ہوں۔“
نمبردار نے کہا، ”جناب، اس سے زیادہ اندر کی باتیں تو آپ کو ایک عورت بتا سکتی ہے۔ آپ اس عورت کو بلا لیں، ہو سکتا ہے کہ اس سے آپ کو کوئی کام کی بات مل جائے۔“ میں نے کہا، ”تو پھر جلدی بتاؤ، کون ہے وہ عورت اور کیا نام ہے اس کا؟“
نمبردار نے مجھے بتایا کہ اس عورت کا نام سروری ہے۔ کامنی اور سروری میں بہت گہری دوستی تھی اور دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتی تھیں۔ میں نے اسی وقت ایک کانسٹیبل کو بلا کر کہا کہ وہ ابھی گاؤں جائے اور برکت کے ساتھ والے گھر میں رہنے والی عورت، جس کا نام سروری ہے، اسے بلا لائے۔ کانسٹیبل چلا گیا تو نمبردار نے مجھے سروری کے متعلق بتایا کہ سروری غریب سی عورت ہے اور بڑے زمینداروں کے گھروں میں کام کرتی ہے۔ اس کا خاوند گاؤں میں موچی کا کام کرتا ہے۔ نمبردار نے سروری کے متعلق یہ بھی بتایا کہ وہ بڑی تیز طرار اور لڑاکا قسم کی عورت ہے اور اسے گاؤں کے گھروں کی وہ باتیں بھی معلوم ہیں جو دوسروں سے چھپائی جاتی ہیں۔
نمبردار اٹھ کر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد ایک اور مخبر آ گیا۔ اس نے بھی اپنی رپورٹ میں زیادہ تر باتیں وہی بتائیں جو مجھے نمبردار بتا چکا تھا۔ البتہ اس مخبر نے ایک نئی بات یہ بتائی کہ برکت کو کوئی بیماری لگ گئی تھی اور وہ حکیم سے اس بیماری کی دوائی لے کر کھا رہا تھا۔ مخبر کو یہ بات حکیم کے پاس کام کرنے والے ایک اور ملازم سے معلوم ہوئی تھی۔ اس ملازم نے مخبر کو یہ بھی بتایا کہ برکت اس بیماری کی وجہ سے بہت پریشان نظر آتا تھا۔ تاہم اس ملازم کو یہ معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ برکت کو بیماری کیا تھی۔
میں نے اس مخبر کو شاباش دی اور اسے کہا کہ وہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ برکت کس مرض کی دوا کھا رہا تھا۔ مخبر چلا گیا تو تھوڑی دیر بعد وہ کانسٹیبل آ گیا جسے میں نے سروری کو لانے کے لیے بھیجا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ سروری کو لے آیا ہے، لیکن سروری اکیلی نہیں ہے، اس کا خاوند بھی ساتھ آیا ہے۔ میں نے کانسٹیبل سے کہا، ”ٹھیک ہے، وہ ان دونوں کو میرے پاس بھیج دے۔“ کانسٹیبل کمرے سے نکل گیا۔
چند لمحوں بعد ایک عورت اور مرد اندر آ گئے۔ میں نے دونوں کو غور سے دیکھا۔ عورت کی عمر تیس بتیس سال کے لگ بھگ ہو گی اور وہ کھلتے ہوئے گندمی رنگ کی ایک خوش شکل عورت تھی، جبکہ مرد کی عمر چالیس سال کے قریب تھی اور وہ دبلے پتلے جسم اور سانولے رنگ کا مالک تھا۔ میں نے ایک بات نوٹ کی کہ مرد گھبرایا ہوا اور پریشان لگ رہا تھا، جبکہ عورت پرسکون اور پراعتماد لگ رہی تھی۔
مرد نے باقاعدہ ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا، ”حضور، ہم غریبوں سے کیا قصور ہو گیا جو میری گھر والی کو آپ نے تھانے بلایا؟“ میں اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اس کا یا اس کی گھر والی کا کوئی قصور نہیں ہے اور نہ ہی انہوں نے کوئی جرم کیا ہے۔ بس اس کی گھر والی سے چند باتیں پوچھنی ہیں، اس لیے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے بڑی مشکل سے اسے سمجھا بجھا کر کمرے سے باہر بٹھا دیا اور سروری کو بیٹھنے کو کہا۔
سروری اطمینان سے میرے سامنے بیٹھ گئی اور سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی۔ میں نے سروری سے کہا، ”مجھے پتہ چلا ہے کہ کامنی کے ساتھ تمہاری بڑی پکی دوستی تھی۔ مجھے کامنی کے مرنے کا بے حد افسوس ہے اور میں تم سے کامنی کے متعلق کچھ باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔“ سروری نے آہ بھر کر کہا، ”بس جی، اللہ کو یہی منظور تھا۔ بڑی پیار کرنے والی تھی۔ بہرحال، آپ پوچھیں جو پوچھنا چاہتے ہیں، جو میرے علم میں ہو گا، بتا دوں گی۔“
میں نے انکشاف کرنے والے انداز میں کہا، ”مجھے شک ہے کہ کامنی پانی میں ڈوب کر نہیں مری، بلکہ اسے مارا گیا ہے۔“ میری بات سن کر سروری ذرا سی چونکی، حالانکہ میرا خیال تھا کہ یہ بات سن کر وہ اچھل پڑے گی۔ اس نے بڑے اطمینان سے کہا، ”آپ کا شک ٹھیک ہے۔ مجھے بھی اس بات کا شک تھا، مگر میں کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتی تھی۔“ سروری کی بات نے مجھے حیران کر دیا۔ میں نے اس سے پوچھا، ”تمہیں ایسا شک کیوں تھا اور شک تھا تو ضرور اس کی کوئی وجہ بھی ہو گی۔ تم مجھے وہ وجہ بتاؤ۔“
سروری نے کہا، ”تھانیدار صاحب، یہ بڑی لمبی کہانی ہے۔“ میں نے کہا، ”تم وقت کی بالکل پروا نہ کرو اور مجھے یہ کہانی ساری سنا دو۔“ میرے کہنے پر سروری نے مجھے تفصیل سے بتانا شروع کیا کہ کامنی دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اور دونوں بھائیوں سے چھوٹی تھی۔ اس وجہ سے والدین اور بھائیوں کی لاڈلی تھی۔ لاڈلی ہونے کی وجہ سے وہ کچھ خودسر ہو گئی تھی۔ جوان ہوئی تو ایسا قد کاٹھ اور رنگ روپ نکالا کہ ہر کسی کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ عیسائی گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اس پر زیادہ پابندیاں نہیں تھیں اور وہ آزادی سے گھوم پھر لیتی تھی۔ کامنی ہنسنے مسکرانے والی طبیعت کی لڑکی تھی۔ گاؤں کے ہر جوان کے دل میں وہ بستی تھی۔
کامنی کی اپنی برادری میں کئی لڑکے ایسے تھے جو اس کے امیدوار تھے، لیکن کامنی کو ان میں سے کوئی بھی پسند نہیں تھا۔ انہی دنوں کامنی کی دوستی گاؤں کے ایک ایسے لڑکے کے ساتھ ہو گئی جو ایک غریب باپ کا بیٹا تھا۔ وہ بڑا ہی خوبصورت جوان تھا۔ کامنی اس لڑکے کو پسند کرنے لگی تھی۔ اس کا نام کمال تھا، سب اسے کمالا کہتے تھے۔ کامنی اور کمالے کی چوری چھپے ملاقاتیں بڑھتے بڑھتے دیوانگی کی حدوں میں داخل ہو گئیں۔
ان کا عشق چھپ نہ سکا۔ ہوتے ہوتے یہ بات کامنی کے بھائیوں اور ماں باپ تک بھی پہنچ گئی۔ کامنی کے گھر والوں نے عقلمندی یہ کی کہ کامنی پر کوئی سختی کرنے کی بجائے فوری طور پر اس کی شادی کا بندوبست کر دیا اور تھوڑے دنوں کے بعد ہی اس کی شادی برکت سے طے کر دی۔ کمال کو جب کامنی کی شادی کا علم ہوا تو اس نے کامنی کو گھر سے بھاگ جانے کے لیے کہا، لیکن کامنی نے صاف انکار کر دیا۔ والدین کی عزت کی خاطر کامنی نے اپنی محبت اور خواہش کا گلا گھونٹ دیا اور برکت سے شادی کے لیے راضی ہو گئی۔
شادی سے کچھ روز پہلے کامنی کمالے سے ملی اور اس کے سینے سے لگ کر اتنا روئی کہ کمالا پریشان ہو گیا کہ اسے کچھ ہو نہ جائے۔ آخر کمالے نے بڑی مشکل سے اسے سنبھالا اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ مہینے میں دو بار اس سے ملنے اس کے سسرالی گاؤں آیا کرے گا۔ کامنی نے کمالے سے کہا کہ وہ اگر اس سے ملے گی تو بدنامی ہو گی۔ کمالے نے کہا کہ وہ آپس میں بات چیت نہیں کیا کریں گے، بلکہ دور دور سے ایک دوسرے کو دیکھ لیا کریں گے۔
پھر کامنی شادی کے بعد برکت کے گاؤں آ گئی اور کمالا وعدے کے مطابق ہر مہینے دو بار برکت کے گاؤں کا چکر لگاتا رہا اور وہ دونوں دور دور سے ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کی پیاس بجھاتے رہے۔ اسی دوران کامنی نے سروری کو اپنی ہمراز بنا لیا اور اسے کمالے کے متعلق سب کچھ بتا دیا۔ اس طرح سروری نے کامنی اور کمالے کے درمیان پیغام رسانی کرنا شروع کر دی۔ اب وہ ایک دوسرے تک اپنے دل کی بات بھی پہنچانے لگے تھے اور کبھی کبھار موقع دیکھ کر سروری ان کی ملاقات بھی کروا دیتی۔
یوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔ شادی کو ایک سال ہو گیا، مگر کامنی میں بچہ پیدا کرنے کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔ پھر دوسرا سال بھی گزرنے لگا اور کامنی کی کوکھ خالی رہی۔ اگر کسی عورت کو بچہ نہ ہو تو اس کی ذمہ داری عورت پر ڈال دی جاتی ہے کہ ضرور عورت میں کوئی نقص ہو گا، کیونکہ کوئی بھی مرد ایسی بات سننا گوارا نہیں کرتا کہ اس میں کوئی نقص ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف کمالا باقاعدگی سے کامنی کو ملنے آتا رہا۔ اب وہ سروری کے ذریعے ملاقات طے کر لیتے اور مقررہ جگہ پر پہنچ جاتے۔ انہوں نے ملاقات کے لیے ایک محفوظ جگہ ڈھونڈ لی تھی اور وہ وہیں ملتے تھے۔ یہ جگہ گاؤں کے باہر، جہاں کھیت ختم ہوتے تھے، اس سے ذرا آگے قبرستان کے پاس تھی۔ لوگ اس طرف سے گزرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔
اس زمانے میں دیہاتوں میں رفع حاجت کے لیے گھروں کے اندر لیٹرین بنانے کا رواج نہیں تھا، بلکہ آجکل بھی کئی دیہاتوں میں ایسا ہی ہے۔ گاؤں کے لوگ باہر کھیتوں میں یا ویران مقام پر رفع حاجت کے لیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عورتیں رات کو اندھیرا ہونے کے بعد ٹولیوں کی صورت میں رفع حاجت کے لیے جاتی تھیں اور گاؤں کے مرد عورتوں کی سہولت کی خاطر اس وقت کھیتوں کا رخ نہیں کرتے تھے۔ کامنی اور سروری بھی رفع حاجت کے لیے اکٹھی جاتی تھیں اور اکٹھی واپس آتی تھیں۔ جس روز کمالے نے آنا ہوتا، اس روز سروری کامنی کو مخصوص جگہ پر چھوڑ کر خود ادھر ادھر ہو جاتی تاکہ وہ دونوں آزادی سے مل سکیں۔ کمالا اور کامنی اکثر جذباتی ہو جاتے، مگر ایک حد کے اندر ہی رہتے تھے۔
کہتے ہیں کہ جوانی دیوانی ہوتی ہے۔ ایک روز اسی دیوانگی میں وہ نیکی اور بدی کی درمیانی حد کو پار کر گئے۔ جب کامنی ایک بار بہک گئی تو پھر وہ اکثر بہکنے لگی۔ اس طرح کامنی اور کمالے کی محبت میں گناہ کا زہر گھل گیا۔ وقت گزرتا گیا اور کامنی کی شادی کو دو سال گزر گئے۔ انہی دنوں کامنی کو اپنے اندر کچھ نئی تبدیلیاں محسوس ہونے لگیں تو اس نے سروری سے بات کی۔ سروری یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور کامنی کو سینے سے لگا کر مبارک باد دی کہ اس میں ماں بننے کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ خوشخبری سن کر کامنی بھی خوش ہوئی۔
رات کو جب برکت گھر آیا تو کامنی نے برکت کو بھی یہ خوشخبری سنائی کہ وہ باپ بننے والا ہے۔ کامنی کی بات سن کر برکت پہلے تو خوش ہوا، لیکن پھر یکدم بجھ سا گیا اور سر جھکا کر کچھ سوچنے لگا۔ کامنی نے برکت کی اس کیفیت کو کچھ زیادہ محسوس نہ کیا، مگر برکت اس بات کے معلوم ہونے کے بعد کہ وہ باپ بننے والا ہے، گم صم رہنے لگا اور اس کی طبیعت میں چڑچڑا پن پیدا ہو گیا۔
ایک روز کامنی نے برکت سے اس کے گم صم رہنے اور چڑچڑے پن کی وجہ پوچھ ہی لی۔ برکت نے کامنی کو جو جواب دیا، اسے سن کر کامنی کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ برکت نے کامنی سے کہا، ”یہ بچہ میرا نہیں ہے، کیونکہ میں باپ بننے کے قابل نہیں ہوں اور تم ایک بدکار عورت ہو۔ پتہ نہیں کس کا بچہ پیدا کر رہی ہو۔“ کامنی نے دکھ اور غصے سے کہا، ”یہ بچہ تمہارا ہی ہے۔ تم سے کس نے کہا کہ تم باپ نہیں بن سکتے؟“
برکت نے کامنی کو بتایا کہ جب ان کی شادی کو سال سوا سال بعد بھی ان کا بچہ نہ ہوا تو اس نے اس حکیم سے بات کی جس کے پاس وہ دوائیاں کوٹنے اور صفائی ستھرائی کا کام کرتا تھا۔ یہ بڑا قابل اور سیانا حکیم تھا۔ اس نے برکت سے کچھ باتیں دریافت کیں اور پھر اس کی گھر والی کے متعلق بھی کچھ باتیں پوچھیں اور برکت کی باتیں سن کر اس نتیجے پر پہنچا کہ کامنی بالکل ٹھیک ہے، جو بھی نقص ہے وہ برکت میں ہے۔ حکیم نے برکت سے کہا، ”فکر نہ کرو، گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ اسے ایک ایسی دوائی دے گا جس سے وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا، لیکن شرط یہ ہے کہ اسے لگاتار چھ ماہ تک دوائی کھانی ہو گی۔“
برکت نے کامنی کو بتایا کہ ”مجھے تو ابھی صرف دوائی کھاتے ہوئے دو ماہ ہی ہوئے ہیں، جبکہ حکیم نے چھ ماہ دوائی کھانے کا کہا ہے تو پھر میں اتنی جلدی اس قابل کیسے ہو سکتا تھا؟“ کامنی نے اس سے کہا، ”ہو سکتا ہے کہ تم دو ماہ میں ٹھیک ہو گئے ہو۔ دو ماہ کا عرصہ بھی تو کم نہیں ہوتا!“ کامنی کی یہ بات سن کر برکت کو کچھ تسلی ہوئی، لیکن پھر بھی وہ پوری طرح مطمئن نہیں ہوا۔
اب برکت کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ کبھی تو بالکل نارمل رہتا اور کبھی کامنی کے ساتھ لڑنے مرنے پر اتر آتا۔ مگر لڑنے کے بعد جلد ہی وہ کامنی کی منت سماجت اور خوشامد کر کے اسے منا لیتا۔ گھر کی یہ تمام باتیں اور برکت کے رویے کے بارے میں کامنی روز سروری کو سناتی تھی اور اس سے مشورہ لیتی تھی۔ کامنی نے سروری سے یہ بات بھی نہ چھپائی کہ کمالے کے ساتھ اس کی ملاقاتیں صاف نہیں رہیں۔ سروری نے کامنی کو محتاط رہنے کا مشورہ دیا۔
پھر ایک روز برکت اپنے کام سے واپس آیا تو اس کا موڈ بہت خراب تھا۔ اس نے گھر آتے ہی کامنی سے جھگڑا کرنا شروع کر دیا۔ اس نے کامنی سے کہا کہ وہ بدکار ہے اور اس کے پیٹ میں حرام کا بچہ پرورش پا رہا ہے۔ اس وقت تک کامنی کو حاملہ ہوئے تین ماہ ہو چکے تھے۔ برکت نے کامنی کو بتایا کہ اس نے حکیم سے بات کی تھی کہ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ دو ماہ دوائی استعمال کر کے بالکل ٹھیک ہو گیا ہو۔ حکیم نے اس سے کہا، ”نہیں، یہ ناممکن ہے، کیونکہ یہ دوائی چھ ماہ استعمال کرنے کے بعد ابھی اصل اور خاص دوائی بھی دو ماہ کے لیے استعمال کرو گے تب ٹھیک ہو گے۔ یہ دوائی جو ابھی استعمال کرتے ہو، اس دوائی سے ٹھیک ہونا ممکن نہیں!“
اس روز برکت اور کامنی میں اچھی خاصی لڑائی ہوئی۔ کامنی نے بھی برکت کو خوب ڈٹ کر جواب دیے۔ دراصل کامنی برکت کی بہت بڑی مجبوری بن گئی تھی۔ برکت زیادہ دیر کامنی سے ناراض نہیں رہ سکتا تھا اور یہ بات کامنی اچھی طرح جانتی تھی، اس لیے وہ برکت کی زیادہ پروا نہیں کرتی تھی۔ اس روز بھی یہی ہوا۔ حسب معمول برکت نے تھوڑی دیر بعد کامنی کو منا لیا۔
اس لڑائی جھگڑے کے دو دن بعد کی بات ہے کہ گاؤں کے باہر ایک مزار پر میلہ لگا ہوا تھا۔ یہ مزار نہر کے پار واقع تھا۔ کامنی نے برکت سے کہا کہ وہ اسے میلہ دکھا لائے۔ اس روز برکت کو حکیم کی دوکان سے چھٹی تھی۔ برکت کامنی کو سائیکل کے پیچھے بٹھا کر میلہ دکھانے لے گیا اور پھر خبر آ گئی کہ کامنی نہر میں ڈوب کر مر گئی۔
ساری بات سنا کر سروری نے کہا، ”تھانیدار صاحب! میں نے اس لیے آپ سے کہا تھا کہ مجھے بھی یہی شک ہے کہ کامنی کو مارا گیا ہے۔ یہی وجہ اور سارے حالات تھے جن میں سے کامنی آجکل گزر رہی تھی۔“ سروری نے تو میرا سارا مسئلہ ہی حل کر دیا تھا اور جس وجہ کو میں تلاش کر رہا تھا، وہ بھی تفصیل سے بتا دی تھی۔
میں نے سروری سے کمالے کا پتہ اور کچھ ضروری باتیں پوچھیں اور اس کا شکریہ ادا کر کے اسے جانے کی اجازت دے دی۔ ساتھ یہ تاکید بھی کر دی کہ مجھے اس کی جب بھی ضرورت پڑے گی، اسے دوبارہ بلا لوں گا۔ وہ گاؤں میں ہی موجود رہے، اگر کہیں جانا ضروری ہو جائے تو وہ مجھے اطلاع دے کر جائے۔
سروری کے جانے کے بعد میں نے اے ایس آئی کو بلایا اور اسے کمالے کے متعلق پوری طرح سمجھا کر کہا کہ وہ کمالے کو تھانے لے آئے اور اگر وہ آنے میں کوئی بہانہ کرے تو اس کی ٹھکائی کرتے ہوئے لائے۔ اے ایس آئی نے اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ”جناب، آپ بالکل فکر نہ کریں، میں اسے ابھی گھسیٹ کر لے آتا ہوں۔“ اے ایس آئی چلا گیا تو میں نے ایک کانسٹیبل کو بلایا اور اس سے کہا کہ حوالات سے برکت کو لے آئے۔
اب مجھے یقین ہو گیا تھا کہ برکت نے سوچ سمجھ کر اور پلان کے تحت کامنی کو قتل کیا تھا۔ میرے پاس موقع کا گواہ بھی موجود تھا اور پھر سروری کے بیان کی روشنی میں قتل کی وجہ بھی معلوم ہو گئی تھی۔ سروری بھی ایک اہم گواہ تھی۔ اس کے علاوہ میں نے ابھی کمالے کا بیان بھی لینا تھا اور ابھی میں نے ایک کام اور بھی کرنا تھا اور وہ کام یہ تھا کہ برکت کا میڈیکل چیک اپ کروانا تھا۔ میڈیکل چیک اپ سے میں یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ برکت اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں تھا، جبکہ اس کی بیوی تین ماہ کی حاملہ تھی اور برکت نے بدکاری کی وجہ سے اسے قتل کیا تھا۔
کانسٹیبل برکت کو لے آیا۔ میں نے کانسٹیبل کو باہر جانے کو کہا۔ برکت میرے سامنے کھڑا تھا۔ کانسٹیبل کے جانے کے بعد وہ کرسی پر بیٹھنے لگا تو میں نے غصے سے کہا، ”وہیں کھڑے رہو۔ میں تمہاری عزت کرنا چاہتا تھا، لیکن تمہیں عزت راس نہیں آئی۔ تم مسلسل مجھ سے جھوٹ بولتے رہے ہو۔ لیکن اب جھوٹ بول کر دکھاؤ، میں تمہیں الٹا نہ لٹکاؤں تو پھر کہنا! اس لیے تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ شرافت سے اقبالی بیان دے دو، فائدے میں رہو گے۔“
برکت نے پھر ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے کہا، ”میں اقبالی بیان کیوں دوں جب میں نے اپنی بیوی کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی میرے پاس اسے قتل کرنے کی کوئی وجہ تھی تو پھر میں آپ کے کہنے پر جھوٹا بیان کیوں دوں؟“ میں سمجھ گیا کہ وہ سیدھی طرح نہیں مانے گا، اس لیے میں نے اس پر سیدھا حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
میں نے اس سے کہا، ”یہ بتاؤ، کامنی کے پیٹ میں کس کا گناہ پرورش پا رہا تھا؟“ میرا سوال سن کر اس کا چہرہ تاریک ہو گیا۔ وہ اس طرح آنکھیں پھاڑ کر میری طرف دیکھنے لگا جیسے میں کوئی جن بھوت یا کوئی جادوگر ہوں۔ وہ مردہ سی آواز میں بولا، ”تھانیدار صاحب، کامنی میری بیوی تھی تو ظاہر ہے اس کے پیٹ میں میرا بچہ تھا۔“ میں نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا، ”تم بے غیرت ہو، تم اس قابل نہیں ہو کہ باپ بن سکو! اگر تم اب بھی نہیں مانو گے تو میں تمہارے اس حکیم کو یہاں بلا لوں گا جس کے پاس تم کام کرتے ہو اور جس کی دوائی کھا رہے ہو۔“
یہ اس کی مردانگی پر بہت بڑی چوٹ تھی۔ اسے یہ احساس تو پہلے ہی اندر سے مار رہا تھا کہ وہ باپ بننے کے قابل نہیں ہے، لیکن اس نے اپنے آپ کو یہ فریب دے رکھا تھا کہ شاید وہ حکیم کی دوائی سے ٹھیک ہو چکا ہے۔ اس نے سر جھکا لیا اور یوں بے حس و حرکت کھڑا رہا جیسے مر گیا ہو۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا تو مجھے اس کا چہرہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا اور مجھے اس پر ترس آنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے جنہیں وہ روکنے میں ناکام رہا تھا۔ یہ آنسو اس کی بے بسی ظاہر کر رہے تھے۔
وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولا، ”تھانیدار صاحب، میں بے غیرت نہیں ہوں۔ میں نے ہی کامنی کا گلا گھونٹ کر اسے مارا ہے، کیونکہ وہ بدکار تھی اور میں نے اسے اس کی بدکاری کی سزا دی ہے۔ اب آپ مجھ سے پوچھیں کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟“ میں نے اس سے کہا کہ وہ مجھے اپنا اقبالی بیان دے دے۔ پھر اس نے بڑی تفصیل سے مجھے اپنا لکھوایا۔ اس نے بڑا لمبا بیان دیا۔ اس کا پورا بیان سننے کے بعد اس کے دل کی باتیں باہر آئیں کہ کس طرح ایک عام اور بزدل آدمی کی غیرت جاگتی ہے۔
برکت مسیح نے اپنے بیان میں بتایا کہ اس کی شادی جب کامنی کے ساتھ ہوئی تو وہ کامنی کو پا کر بہت خوش ہوا، کیونکہ کامنی اس کی سوچ اور توقع سے بڑھ کر حسین تھی۔ برکت کامنی کے سامنے احساسِ کمتری کا شکار ہو گیا۔ کامنی کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا تھا اور پھر کامنی نے برکت کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اسے انگلیوں پر نچانا شروع کر دیا۔ برکت بڑی خوشی سے کامنی کے اشاروں پر ناچنے لگا اور بالکل ہی بیوی کا غلام ہو کر رہ گیا۔ گاؤں والوں نے اسے رن مرید کہنا شروع کر دیا تھا۔ مگر برکت کو کسی بھی بات کی کوئی پروا نہیں تھی۔ اسی طرح ان کی شادی کو ایک سال گزر گیا۔ سال گزر جانے کے بعد بھی کامنی میں اولاد کے آثار نظر نہ آئے۔
آس پڑوس کی عورتوں نے اپنی عادت کے مطابق باتیں بنانا شروع کر دیں کہ پتہ نہیں کیا وجہ ہے کہ ابھی تک اولاد نہیں ہوئی۔ لوگوں کی ان باتوں کے جواب میں کامنی تو ہنس کر بات کو ٹال دیا کرتی اور برکت کہتا تھا کہ اولاد کی اتنی جلدی کیا ہے، جب اللہ کو منظور ہو گا، اولاد بھی ہو جائے گی۔
یہاں میں کہانی سے ہٹ کر ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ مرد چاہے اپنی عورت کا غلام ہی کیوں نہ ہو، لیکن وہ یہ بات کبھی بھی سننا پسند نہیں کرتا کہ اس میں کوئی کمزوری ہے یا کمی ہے جس کی وجہ سے اولاد نہیں ہو رہی۔ کامنی اور برکت کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ برکت نے کامنی سے کہا کہ وہ کسی سیانی دائی سے اپنا معائنہ کرائے۔ ان وقتوں میں دائیاں ہی عورتوں کو زچگی کے مراحل سے گزارتی تھیں اور یہ دائیاں اپنے کام میں اس قدر مہارت رکھتی تھیں کہ حاملہ عورت کا پیٹ دیکھ کر ہی بتا دیتی تھیں کہ لڑکا ہو گا یا لڑکی۔
برکت کے کہنے پر کامنی نے گاؤں کی دائی سے اپنا معائنہ کرایا تو دائی نے کامنی کو بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے۔ کامنی نے برکت کو یہ بات بتائی اور اس سے کہا کہ وہ جس حکیم کے پاس کام کرتا ہے، اس کے ساتھ بات کرے اور اس سے اپنا معائنہ بھی کرائے۔ کامنی کے کہنے پر برکت نے حکیم سے بات کی تو حکیم نے برکت سے بہت سے سوال پوچھے، پھر کامنی کے متعلق بھی کچھ باتیں پوچھیں اور برکت کو بتایا کہ اس کی گھر والی بالکل ٹھیک ہے، اس میں کوئی نقص نہیں ہے، جو بھی کمی ہے وہ اس کے اندر ہے۔
پھر حکیم نے برکت کو سمجھایا کہ بعض مردوں میں اولاد پیدا کرنے والے جراثیم تعداد میں کم ہوتے ہیں اور مناسب علاج سے ان جراثیم کی تعداد کو بڑھایا جا سکتا ہے، اس لیے علاج کرانے میں اپنی ہتک محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ برکت کی رضا مندی پر حکیم نے اسے کچھ دوائیاں دیں اور اس سے کہا کہ چھ ماہ مسلسل دوائی کے استعمال سے وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔ برکت نے حکیم کی دی ہوئی دوائی استعمال کرنی شروع کر دی۔ اس وقت اس کی شادی کو دوسرا سال پورا ہونے والا تھا۔ برکت کو دوائی استعمال کرتے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ ایک روز کامنی نے اسے بتایا کہ وہ باپ بننے والا ہے۔
یہ سن کر برکت پہلے تو خوش ہوا، مگر پھر اسے حکیم کی بات یاد آ گئی کہ ابھی وہ باپ بننے کے قابل نہیں ہے اور اسے مسلسل چھ ماہ تک دوائی کھانا ہو گی تب جا کر وہ باپ بننے کے قابل ہو گا۔ برکت کی ساری خوشی خاک میں مل گئی۔ خوشی کی جگہ اسے شک اور وہم کے بچھو ڈنک مارنے لگے۔ وہ ایسی بات سوچنا نہیں چاہتا تھا کہ کامنی اسے دھوکہ دے رہی ہے اور اس کے لیے حرام کی اولاد پیدا کر رہی ہے۔ لیکن حقیقت اس کے سامنے کسی خوفناک ناگ کی طرح پھن پھیلائے کھڑی تھی۔
برکت کو کامنی سے پاگل پن کی حد تک محبت تھی اور اس نے اپنے آپ کو یہ فریب دینے کی بھی کوشش کی کہ ہو سکتا ہے کہ وہ دو ماہ دوائی کے استعمال سے ہی ٹھیک ہو گیا ہو۔ یہی سوچ کر اس نے حکیم سے بات کی اور اس سے پوچھا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ دو ماہ دوائی کھانے سے ہی وہ ٹھیک ہو گیا ہو؟ حکیم نے دو ٹوک انداز میں کہا، ”ناممکن!“ کیونکہ ابھی تو میں نے تمہیں پہلے مرحلے کی دوائی دی ہے، اصل دوائی تو اس دوائی کے بعد دوں گا جو اسے ٹھیک کرے گی۔
حکیم کی بات سن کر برکت کو یقین ہو گیا کہ کامنی اسے دھوکہ دے رہی ہے اور اس کے کسی کے ساتھ غلط قسم کے تعلقات ہیں۔ اس نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ وہ اس بات کا سراغ ضرور لگائے گا کہ وہ کون ہے جس کے ساتھ کامنی کے ناجائز تعلقات ہیں۔ اب وہ اس ٹوہ میں رہنے لگا۔ اکثر وقت بے وقت اچانک گھر پہنچ جایا کرتا، مگر اس نے ہر بار کامنی کو گھر میں موجود پایا۔ ان دنوں وہ بے حد چڑچڑا ہو گیا تھا اور کئی بار اس کی کامنی کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی بھی ہوتی رہی۔
برکت کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ وہ بیک وقت کامنی سے محبت بھی کرتا تھا اور نفرت بھی کرتا تھا۔ مگر اس کی منہ زور محبت کا جذبہ اتنا شدید تھا کہ اکثر نفرت پر غالب آ جاتا تھا۔ یوں برکت محبت اور نفرت کے درمیان میں پسنے لگا۔ اس کی یہ حالت ہو گئی کہ وہ ذہنی مریض بن گیا۔ برکت نے جب کئی دفعہ اچانک گھر آ کر دیکھا کہ کامنی گھر میں موجود ہوتی ہے تو اسے خیال آیا کہ کامنی ضرور رات کو اپنے آشنا سے ملنے جاتی ہو گی اور یہ تب ممکن ہوتا ہو گا جب وہ رفع حاجت کے لیے جاتی ہو گی۔
یہی سوچ کر برکت نے رات کو کامنی کا تعاقب کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ دو راتوں کو اس کے پیچھے پیچھے گیا، مگر کامنی نے کوئی بھی مشکوک حرکت نہیں کی تھی۔ اور پھر تیسری رات برکت نے سوچا کہ اگر آج بھی اسے کوئی سراغ نہ ملا تو وہ کامنی پر شک کرنا چھوڑ دے گا۔ اس رات وہ کافی فاصلہ رکھ کر کامنی اور سروری کے پیچھے جا رہا تھا۔ رات کا وقت تھا، ہر طرف کھیت اور درخت تھے، اس لیے اسے ان کا تعاقب کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہو رہی تھی۔
برکت نے محسوس کیا کہ اس رات کامنی اور سروری کچھ زیادہ ہی دور نکل آئیں تھیں۔ کافی آگے جا کر، جہاں کھیت ختم ہو جاتے تھے، وہاں سروری ایک کھیت کے اندر چلی گئی اور کامنی ہنستی ہوئی دوسری طرف چلی گئی۔ برکت کامنی کے تعاقب میں رہا۔ آگے جا کر کامنی کا رخ قبرستان کی طرف ہو گیا۔ وہاں سے کامنی ایک ٹیلے کے پیچھے جا کر غائب ہو گئی۔
برکت بڑی احتیاط سے ٹیلے کے قریب چلا گیا اور ایک درخت کی اوٹ سے دیکھنے لگا۔ اسے جو کچھ نظر آیا، وہ اس کی برداشت سے باہر تھا۔ اس نے دیکھا کہ کامنی ایک نوجوان کے ساتھ لپٹی ہوئی تھی اور دونوں کی دبی دبی ہنسی کی آوازیں آ رہی تھیں۔ پھر انہوں نے کچھ ایسی حرکتیں کرنا شروع کر دیں جو صرف میاں بیوی ہی کر سکتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ برکت اسی وقت ان دونوں کو قتل کر دیتا یا خود قتل ہو جاتا، لیکن برکت کچھ بھی نہ کر سکا اور وہاں سے ہٹ آیا۔ وہ روتا ہوا گاؤں کی طرف چل پڑا۔ کامنی کو دیکھ کر پتہ نہیں اسے کیا ہو جاتا تھا، کامنی کو دیکھ کر وہ سب کچھ بھول جاتا تھا۔
اس کے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ وہ فوراً کامنی کو طلاق دے دے، مگر پھر جب اسے یہ خیال آیا کہ اتنی خوبصورت بیوی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا تو اس نے طلاق کا ارادہ بدل دیا۔ پھر اس نے سوچا کہ وہ اس طرف سے آنکھیں بند کر لے، اس طرح کامنی بھی ساتھ رہے گی اور اس کی مردانگی کا بھرم بھی قائم رہے گا۔ دوسرے لفظوں میں اس نے بے غیرت بن جانے کا سوچ لیا تھا۔ لیکن پھر ایک روز ایک ایسا واقعہ ہو گیا کہ اس واقعے نے برکت کے دماغ میں انقلاب برپا کر دیا۔
ایک روز برکت مسیح گھر میں موجود تھا۔ اس روز اسے کام سے چھٹی تھی اور کامنی کسی کام کی غرض سے سروری کے گھر گئی ہوئی تھی۔ برکت نے گھر میں ایک مرغا اور تین مرغیاں پال رکھی تھیں جو اس وقت صحن میں پھر رہی تھیں کہ اچانک کسی ہمسائے کا ایک مرغا کھلے دروازے سے ان کے صحن میں آ گیا اور مرغیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے لگا۔ باہر سے آنے والا مرغا خاصا صحت مند تھا، جبکہ برکت کا مرغا کمزور سا نظر آتا تھا۔ برکت یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کا کمزور سا مرغا باہر سے آنے والے صحت مند مرغے پر باز کی طرح جھپٹ پڑا۔
پھر دونوں مرغوں میں خونریز لڑائی شروع ہو گئی۔ کچھ دیر بعد برکت نے دیکھا کہ اس کا مرغا کمزور پڑنے لگا تھا اور اس کی کلغی سے خون نکلنے لگا تھا۔ مگر اتنا زخمی ہونے کے باوجود بھی اس کا مرغا کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ مر جائے گا، بھاگے گا نہیں۔ برکت نے آگے بڑھ کر دوسرے مرغے کو باہر نکال دیا اور اپنے مرغے کو پکڑ کر اس کا خون صاف کیا اور چوم کر چھوڑ دیا۔ مرغے نے سینہ تان کر ایک زور دار بانگ دی اور مرغیوں کے پاس چلا گیا۔
اپنے مرغے کی جرات دیکھ کر اس کے دل میں خیال آیا کہ میں تو انسان ہوں، لیکن اس مرغ سے بھی بدتر ہوں۔ اس نے ایک جانور ہوتے ہوئے اپنی تین بیویوں کی کس طرح اپنی جان پر کھیل کر حفاظت کی ہے اور میں ہوں کہ مجھ سے ایک بیوی بھی نہیں سنبھالی جا رہی۔ اس واقعے نے برکت کے دماغ میں ہلچل مچا دی تھی۔ تھوڑی دیر بعد کامنی واپس آ گئی۔ اس نے آتے ہی برکت سے کہا کہ سروری کہہ رہی ہے کہ گاؤں کے باہر میلہ لگا ہے اور وہ اسے میلہ دکھا لائے۔
برکت کامنی کو سائیکل پر بٹھا کر میلے کی طرف چل پڑا۔ وہ سائیکل چلا رہا تھا اور اس کے دماغ میں کشمکش جاری تھی کہ وہ کامنی کو چھوڑ دے یا یوں ہی بے غیرت بنا رہے۔ کبھی محبت غالب آ جاتی تو کبھی نفرت کا غلبہ اس کے دماغ کو چڑھ رہا تھا۔ اس کے دماغ میں مرغے والا واقعہ پوری طرح حاوی ہو چکا تھا۔ یہی وہ لمحات تھے جب اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ بے غیرت بن کر زندہ نہیں رہے گا، بلکہ کامنی کو مار دے گا اور اس کے بعد اس کے یار کو بھی قتل کر کے خود پھانسی پر چڑھ جائے گا۔
وہ اپنی انہی سوچوں میں گم سائیکل چلا رہا تھا۔ جب وہ نہر کے پل پر چڑھے تو اچانک مخالف سمت سے ایک بیل گاڑی بڑی تیزی سے سائیکل پر چڑھ دوڑی۔ بیل خوفزدہ ہو کر بھڑکے ہوئے تھے، شاید انہوں نے راستے میں کسی سانپ کو دیکھ لیا تھا۔ آناً فاناً بیل گاڑی ان کے سر پر آن پہنچی تھی۔ بیل گاڑی سے بچنے کی ایک ہی صورت تھی کہ سائیکل کو پل سے نہر میں گرا دیا جاتا اور برکت نے بھی غیر ارادی طور پر یہی حرکت کی۔
نہر میں گرنے کے بعد جب برکت ذرا سنبھلا تو اسے کامنی کی آواز آئی، ”مجھے بچا لو برکت، میں مر جاؤں گی، میرا بچہ مر جائے گا، ہائے میرا بچہ!“ برکت نے جب ”ہائے میرا بچہ“ کے الفاظ سنے تو وہ پاگل ہو گیا اور اس پر ایسی دیوانگی طاری ہوئی کہ اسے کچھ ہوش نہ رہا۔ اسے بس یہی محسوس ہو رہا تھا کہ ہر طرف پانی کے چھینٹے اڑ رہے ہیں اور کامنی تڑپ رہی ہے اور ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔
جب اسے کچھ ہوش آیا تو اس نے دیکھا کہ کامنی کی گردن اس کے ہاتھوں میں ہے اور کامنی مر چکی ہے۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، اسے کوئی نظر نہ آیا۔ دور کھیتوں میں لوگ کام کر رہے تھے۔ اس نے شور مچا کر ان سب کو اکٹھا کر لیا اور بتایا کہ کس طرح وہ اور اس کی گھر والی نہر میں گر پڑے تھے اور اس کی گھر والی ڈوب جانے کی وجہ سے مر گئی ہے۔ لوگوں نے اس کے ساتھ افسوس کا اظہار کیا اور کامنی کی لاش اس کے گھر تک پہنچانے کا بندوبست کر دیا۔
دراصل برکت اس وقت دوہرے کردار کا مالک بن گیا تھا۔ وہ کامنی سے محبت بھی کرتا تھا اور نفرت بھی۔ اس کی محبت ہمیشہ ہی اس کی نفرت پر غالب آ جایا کرتی تھی۔ بس وہی ایک لمحہ ایسا آیا تھا کہ جب نفرت کا جذبہ اتنی شدت سے ابھرا کہ محبت کے جذبے پر غالب آ گیا اور اسی ایک لمحے میں برکت نے کامنی کا گلہ گھونٹ دیا۔
برکت کا بیان ختم ہوا۔ میں نے کانسٹیبل کو بلا کر برکت کو اس کے حوالے کر دیا کہ اسے دوبارہ حوالات میں ڈال دو۔ میں کچھ دیر آرام کرنے کے لیے اپنے کوارٹر میں جانے لگا تو اے ایس آئی نے حاضر ہو کر بتایا کہ وہ کمالے کو لے آیا ہے۔ میں نے کہا، ”ٹھیک ہے، وہ کمالے کو میرے پاس لے آئے۔“
ذرا ہی دیر بعد اے ایس آئی ایک خوبصورت جوان کو گردن سے دبوچے میرے پاس لے آیا۔ یہ کمالا تھا۔ اے ایس آئی نے اس کی گردن چھوڑ دی اور اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ میں نے کمالے سے پوچھا، ”کیا اسے معلوم ہے کہ کامنی نام کی ایک عورت نہر میں ڈوب کر مر گئی ہے؟“ اس نے کہا کہ جی ہاں، اسے معلوم ہے، یہ خبر تو دور دور تک پہنچ چکی ہے۔
میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا، ”تو پھر تمہیں تو بہت افسوس ہوا ہو گا کامنی کے مرنے کا؟“ اس نے گھبرا کر کہا، ”میرا اس سے کیا واسطہ جی! میری وہ کیا لگتی تھی جو مجھے افسوس ہو گا؟“ میں نے کہا، ”کمالے، میں نے تو سنا ہے کہ تم اتنی دور سے اس سے ملنے آتے رہتے تھے اور تمہاری اس کے ساتھ بڑی گہری دوستی تھی۔“ وہ بولا، ”آپ نے غلط سنا ہے جناب! میں تو اسے جانتا بھی نہیں ہوں۔“
اے ایس آئی کمالے کے پیچھے کھڑا تھا۔ میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اے ایس آئی کو مخصوص اشارہ کیا۔ اے ایس آئی نے پیچھے سے اس کے بال مٹھی میں جکڑ لیے اور اتنے زور سے پیچھے کو جھٹکا دیا کہ وہ لڑکھڑا کر پیچھے کو جا گرا۔ ابھی وہ اٹھ ہی رہا تھا کہ ایک زوردار تھپڑ اس کے بائیں گال پر پڑا اور وہ پھر گر پڑا۔ اس کے گال کی اندر سے جلد پھٹ گئی اور وہ منہ سے خون تھوکنے لگا۔ اے ایس آئی نے اسے بالوں سے پکڑا اور میرے سامنے کھڑا دیا۔
کمالا اچھا صحت مند تھا، لیکن اس کی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ اس پر لرزہ طاری ہو گیا تھا اور منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی۔ مجھے کمالے پر ذرا بھی رحم نہیں آ رہا تھا، کیونکہ اس کی وجہ سے ایک عورت قتل ہو گئی تھی۔ میں نے اس سے ذرا سختی سے کہا، ”اب بتاؤ، کامنی کے ساتھ تمہارے ناجائز تعلقات تھے یا نہیں؟ اگر اب بھی جھوٹ بولو گے تو میں تمہاری اس ماں سروری کو بلا لوں گا جو تمہاری ملاقاتیں کراتی رہی ہے۔“
کمالے نے تسلیم کر لیا کہ اس کے کامنی کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے اور وہ اس کے بچے کی ماں بننے والی تھی۔ کمالے نے بھی وہی باتیں بتائیں جو میں سروری سے سن چکا تھا۔ میں نے اس سے بیان لے کر اس کے دستخط کرا لیے۔
میں نے کیس مکمل کر کے عدالت میں پیش کر دیا۔ میرے کیس میں عینی شاہد لڑکے کا بیان، سروری کا بیان اور حکیم کا بیان بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ ملزم برکت مسیح کا بیان بھی شامل تھا۔ عدالت میں برکت اپنے بیان پر قائم رہا۔ دوسرے لوگوں کے بیان اور عینی شاہد لڑکے کی گواہی کی روشنی میں عدالت نے ملزم برکت مسیح کو سزاے موت کا حکم سنایا۔
(ختم شد)

