یہ کہانی میری خالہ کی ہے، جو آج سے پچیس سال پہلے اغوا ہوگئی تھیں۔ اس کہانی کو پڑھ کر آپ سوچیں گے کہ انسان پر انسانوں کے ہاتھوں کیسے کیسے ستم ڈھائے جاتے ہیں اور کتنی عورتیں صرف انسانی خودغرضی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ انہیں انصاف دلوانے والا آج بھی کوئی نہیں۔ ہمارے نانا ایک خوشحال آدمی تھے۔ گھر میں کسی چیز کی کمی نہ تھی اور جائیداد بھی کافی تھی، اسی لیے بچوں کی پرورش انتہائی ناز و نعم میں ہو رہی تھی۔ مگر گھر کی یہ خوشی اور بے فکری زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔ نانا جان کو اچانک دل کا دورہ پڑا، اور وہ انتقال کر گئے۔
میری امی، خالہ اور ماموں چھوٹی عمروں میں ہی یتیم ہوگئے۔ ہماری نانی اس وقت جوان تھیں، جب وہ اچانک بیوہ ہوگئیں۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا، یعنی تین بچوں کی ماں ہونے کے باوجود، ان کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی۔ وہ بے حد خوبصورت تھیں، اتنی کہ تین بچوں کی ماں ہونے کے باوجود غیر شادی شدہ معلوم ہوتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ بیوگی ان کے لیے اور بھی عذابِ جان بن گئی۔ شوہر کے فوت ہوجانے کے بعد نانی جان پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ جب کمانے والا نہ رہا تو خوشحالی کب تک رہتی؟ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ گھر کا سامان بیچ بیچ کر گزارہ ہونے لگا۔ زمین اور جائیداد کا سارا نظام درہم برہم ہوگیا۔
جب نظام چلانے والا نہ رہے تو معاشی حالات کا دگرگوں ہونا ایک یقینی امر تھا۔مجبور ہو کر ہماری نانی کو جائیداد کے معاملات سنبھالنے کے لیے گھر سے باہر قدم نکالنا پڑا۔ مگر یہ بات ان کے دیوروں کو سخت ناگوار گزری۔ انہوں نے طرح طرح کے الزامات لگانے شروع کر دیے، ان کے کردار پر انگلیاں اٹھانے لگے اور ان کے چال چلن کے بارے میں افواہیں پھیلانے لگے۔ گویا بیوہ ہونا کوئی بہت بڑا جرم تھا جس کی سزا انہیں ہر حال میں ملنی چاہیے تھی۔
آخر کار خاندان والوں نے فیصلہ کیا کہ ذکیہ، ہماری نانی، کی دوسری شادی کر دی جائے اور ان کے بچوں کو چچاؤں کے حوالے کر دیا جائے۔ چچا تو پہلے ہی اس تاک میں تھے کہ کسی نہ کسی طرح ان بچوں کو اپنے قبضے میں لے کر جائیداد پر قابض ہوجائیں۔ باقی لوگ شاید اس بات کو نہ سمجھتے ہوں، مگر ذکیہ خوب سمجھتی تھیں۔وہ بہت روئیں پیٹیں مگر ان کے میکے والوں نے ان کی ایک نہ سنی۔ ایک دن سسرال والے آئے اور دونوں بچیوں کو اپنے ساتھ لے گئے، جبکہ ان کا چھوٹا بیٹا، جو اس وقت ڈھائی سال کا تھا، نانی کے پاس رہنے دیا گیا۔ نانی کی دوسری شادی کروا دی گئی۔ اس وقت میری امی کی عمر گیارہ سال تھی اور خالہ صبا بمشکل آٹھ سال کی تھیں۔ خالہ بڑی شوخ اور شرارتی تھیں۔ وہ خوبصورت بھی تھیں، بالکل ماں جیسی۔ چچاؤں کو یہی فکر تھی کہ کسی نہ کسی طرح ان یتیم لڑکیوں کو جائیداد سے محروم رکھا جائے۔ انہوں نے پہلے میری امی کی شادی کر دی اور ان سے جائیداد کا حق لکھوا لیا۔
میرے ابا نے اس وقت کہا کہ مجھے جائیداد کی ضرورت نہیں، اللہ کا دیا سب کچھ ہے، ہمیں صرف لڑکی کا رشتہ چاہیے، ہمیں پیسے کی لالچ نہیں ہے۔ادھر سے اطمینان ہوگیا، اور ماموں تو ابھی چھوٹے سے تھے۔ اب ایک خار باقی تھی، یعنی امی کی شادی کے بعد خالہ صبا رہ گئیں۔ چچاؤں نے ان کے لیے بھی جلدی سے رشتہ ڈھونڈا اور شادی کر دی، حالانکہ وہ لوگ اچھے نہ تھے اور خالہ بھی بہت کم عمر تھیں۔ ایسی لڑکی جس کے سر پر نہ ماں کا سایہ ہو، نہ باپ کی شفقت، اور نہ ہی چچاؤں نے پلٹ کر خبر لی ہو، وہ سسرال میں کس کے سہارے زندگی گزارتی؟ سسرال والوں نے سوچا کہ اس کا تو کوئی ہے نہیں، چنانچہ انہوں نے خالہ پر خوب ستم ڈھائے۔ ایک دن خالہ کے شوہر نے نشے کی حالت میں انہیں رات کے وقت مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ کہیں پاس پڑوس میں جا بیٹھیں گی، صبح واپس آ جائیں گی یا میکے چلی جائیں گی۔
جب صبا کئی دن تک گھر نہ لوٹیں تو ان کے شوہر نے میکے جا کر پتا کیا، مگر وہ وہاں بھی نہ گئی تھیں۔ تب اس نے خالہ کے چچاؤں کو بتایا کہ تمہاری بھتیجی بری چلن کی تھی، کسی شخص سے ملتی تھی اور ایک دن غائب ہوگئی۔ یقیناً وہ اسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے، بہتر ہوگا کہ اس کی تھانے میں رپورٹ درج کروا دی جائے۔اس بیان پر پورے خاندان میں ہلچل مچ گئی۔ چچاؤں نے فوراً تھانے میں رپورٹ درج کروا دی۔ پھر سارے خاندان والوں نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے کو یہیں دفن کر دیا جائے، کیونکہ تلاش کرنے سے مفت کی بدنامی ہوگی۔ اب جو ہونا تھا، وہ ہو چکا تھا۔
میری نانی بہت روئیں پیٹیں کہ میری بیٹی ایسے بھاگ جانے والی نہیں، ضرور اس کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوا ہے۔ اسے تلاش تو کرو، مگر کون تلاش کرتا؟ امی اپنے گھر اور بچوں میں مصروف تھیں، اور سوتیلے نانا بھی اس معاملے میں پڑنے کو تیار نہ تھے۔ پھر دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے رہے۔ یہاں تک کہ چوبیس سال گزر گئے۔ نانی کے ایک دیور کا صرف ایک بیٹا تھا، جو فوت ہوگیا، اور دوسرا دیور بے اولاد ہی رہا۔ اس طرح وہ دونوں، جو جائیداد کے لالچ میں ہماری نانی کو ان کے بچوں سے جدا کر چکے تھے، خود بے اولاد مر گئے۔
یتیموں کی جائیداد ان کے کسی کام نہ آئی۔آخرکار جب ماموں جوان ہوئے تو یہ جائیداد انہی کو ملی، یعنی حقدار کو اس کا حق مل کر رہا، مگر اس جائیداد کی خاطر نانی بیچاری نے بے حد دکھ اٹھایا۔ وہ اپنی معصوم بچیوں سے جیتے جی دور کر دی گئیں۔ فروری کی ایک خشک شام تھی، جب دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا، سامنے میرے ماموں جان کھڑے تھے۔ امی جان نے پوچھا، کیسے آنا ہوا؟ کہنے لگے، ہماری کھوئی ہوئی بہن کا پتا چل گیا ہے۔ وہ ایک دیہات میں موجود ہے۔ہمارے شہر کی ایک لڑکی کافی عرصہ پہلے گم ہوگئی تھی، جو اسی دیہات میں فروخت کی گئی تھی۔ وہ کسی نہ کسی طرح وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئی، تو اسی نے آ کر بتایا کہ وہاں ایک عورت موجود ہے جو اپنا اصلی نام صبا بتاتی ہے۔ وہ ہمارے شہر کا نام اور ہمارے رشتہ داروں کے نام بھی لیتی تھی، جو کہ ہمارے ہی نام تھے۔
ماموں جان نے جب یہ سنا تو بے چین ہوگئے۔ انہوں نے امی سے مشورہ کیا، تو امی نے بھی کہا کہ کسی عورت یا آدمی کو اس دیہات میں بھیجو، تاکہ یہ تصدیق ہو سکے کہ وہ واقعی ہماری بہن ہے یا نہیں۔امی اور ماموں نے محلے کی ایک عورت اور اس کے شوہر کو تیار کیا جن کے عزیز اس گاؤں کے قریب رہتے تھے، وہ وہاں گئے۔ پھر وہ عورت صبا خالہ کے گھر کسی طرح پہنچی اور ان کو جا کر ہماری نانی جان کا خط دیا۔ صبا خالہ اپنی والدہ کا خط پڑھ کر بے قرار ہوگئیں۔ عورت اور اس کا شوہر واپس آگئے اور حالات بتائے۔ اب تو ہماری نانی جان رونے پیٹنے لگیں کہ میں خود جاؤں گی اپنی بیٹی کے پاس۔ ماموں جان نے نانی جان کو سمجھایا کہ جلدی نہ کرو، پہلے میں خود جاکر تصدیق کرتا ہوں، پھر آپ کو لے چلوں گا۔
ماموں نے اس آدمی کی منت سماجت کی کہ مجھے اس دیہات میں لے چلو، وہ راضی نہ ہوتا تھا۔ پھر اس شرط پر راضی ہوا کہ میں صرف آپ لوگوں کو ان آدمیوں کے نام اور گھر کا پتا دیتا ہوں جہاں پر آپ کی بہن رہتی ہے۔ مگر میں ان کے گھر آپ کے ساتھ نہ جاؤں گا۔ ان لوگوں سے دشمنی مول نہیں لے سکتا۔ خیر ماموں جان نے اس شخص سے ان لوگوں کا پتا لے لیا۔ اپنے ساتھ ایک اور آدمی کو تیار کیا۔ اگلے دن وہ اس گاؤں کو روانہ ہوگئے اور اس آدمی کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گئے۔ بہن نے بھائی کو پہچان لیا۔ دونوں گلے مل کر خوب روئے۔ اس آدمی کا نام روشن تھا جس کے گھر میں خالہ صبا اس کی بیوی بن کر رہتی تھیں۔ روشن نے بھائی اور بہن کے ملنے پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ اس نے ماموں کو بتایا کہ میں نے آپ کی بہن کو پچیس سال پہلے ڈھائی ہزار روپے میں خریدا تھا۔ اس زمانے میں ڈھائی ہزار روپے بھی کافی رقم تھی۔ اب خالہ صبا کے اس آدمی سے دو بیٹے تھے اور ایک بیٹی، بڑا بیٹا شادی شدہ تھا، بیٹی سب سے چھوٹی تھی۔
ان لوگوں نے ماموں کی آؤ بھگت کی بلکہ خالہ سے ملنے کے لیے آنے والوں پر کوئی اعتراض بھی نہ کیا لیکن انہوں نے خالہ جان کو ماموں کے ساتھ میکے بھیجنے سے منع کردیا۔ وہ کہتے تھے جس کو ملنا ہو، بے شک ہمارے گھر آجائے مگر ہم اپنی عورت کو جانے نہیں دیں گے یا پھر اپنی کوئی عورت آپ لوگ اس کے بدلے میں ہمارے پاس امانت چھوڑ جاؤ، یہ اپنے رشتہ داروں سے مل کر واپس آجائے گی تو پھر تم لوگ بھی اس کے بدلے میں چھوڑی ہوئی عورت آکر ہم سے لے جانا۔ غرض یہ کہ وہاں سے خالہ کو لے کر آنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ ماموں جان نے پولیس کی مدد حاصل کرنی چاہی تو بھی خاندان والوں نے ساتھ نہ دیا اور صاف کہہ دیا کہ ہم پہلے تمہاری وجہ سے کیا کم بے عزت ہوئے، جو اب رہی سہی کسر پوری کرنی ہے۔ ہمیں پولیس کی خواریاں نہیں بھگتنی۔
ماموں جان بغیر خالہ کو لیے واپس آگئے۔ نانی جان کو آ کر حال بتایا تو وہ تڑپنے لگیں کہ میں ہر صورت میں صبا کے پاس جاؤں گی، چاہے کچھ ہو جائے۔ انہیں بار بار غش آنے لگے اور وہ بیمار ہوگئیں۔ ان کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ لہٰذا یہ فیصلہ ہوا کہ امی جان، نانی اور ماموں دوبارہ گاؤں جائیں گے اور ان لوگوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کریں گے۔
اگر وہ لوگ خالہ صبا کو تھوڑے دنوں کے لیے ساتھ بھیجنے پر راضی ہوگئے تو ٹھیک ورنہ جو اللہ کو منظور، ملاقات تو ہوجائے گی۔امی، نانی جان اور ماموں پھر گاؤں روانہ ہوگئے۔ ہم نے یہ چار دن اللہ اللہ کر کے کاٹے۔ پانچویں دن تقریباً دو بجے دوپہر سب لوگ واپس آن پہنچے۔ ہماری جان میں جان آئی۔ میں نے پہلی بار اپنی گمشدہ خالہ کو دیکھا۔ ساتھ ان کا بڑا بیٹا اختر اور لڑکی سکینہ بھی آئے تھے۔ خالہ تو امی جان سے کہیں زیادہ بڑی لگتی تھیں۔ چہرے پر جھریاں پڑچکی تھیں اور غموں کی دھوپ نے ان کی آنکھوں کی چمک کو دھندلا دیا تھا۔ امی جان نے بتایا کہ وہ لوگ کسی طرح خالہ کو بھیجنے پر رضامند نہ تھے۔ مگر ان کے بڑے بیٹے نے ساتھ دیا کہ میں اپنی ماں کو لے جاتا ہوں اور میں ہی واپس لے آؤں گا، اس لیے وہ بھی ساتھ آیا ہے۔ خالہ کے گزرے وقت کی کہانی سب نے سنی اور سب ہی روتے رہے۔ بڑی ستم بھری داستان تھی۔ وہ ایک ایک ظلم کو یاد کرکے روتی اور کہتی تھیں کہ اب کبھی واپس نہ جاؤں گی۔ اپنوں کی شکلیں تک بھول گئی تھیں۔
برسوں پہلے جب پہلے شوہر نے نشے کی حالت میں رات کے وقت گھر کا دروازہ کھول کر باہر گلی میں دھکا دیا تھا تو خالہ بیچاری ایک جاننے والی کے گھر رات کو پناہ لینے کی خاطر چلی گئی تھی۔ اس عورت کا نام زبیدہ تھا۔ خالہ نے سوچا تھا کہ رات کو زبیدہ آپا کے پاس گزار لوں گی، صبح سوچوں گی کہ کیا کروں۔ خالہ نے بتایا۔ جب میں زبیدہ کے گھر پہنچی اور اس کو ماں کہا تو اس نے گلے سے لگالیا۔ بڑی تسلی دی اور خاطر تواضع بھی کی۔ کہنے لگی بے فکر ہو کر یہاں سوجا۔ میں صبح ہی تم کو تمہارے میکے پہنچا دوں گی۔
صبح اس نے شوہر کو ساتھ لیا اور مجھے تانگے میں بٹھا کر بسوں کے اڈے پر لائی۔ یہاں سے ہم لاری میں بیٹھے۔ میں راستوں سے ناواقف تھی۔ مجھے کچھ پتا نہ چلا کہ یہ مجھے کہاں لے کر جارہے ہیں۔ جب ہم ایک گاؤں میں اترے تو یہ مجھے کسی اور گھر میں لے آئے تھے۔ جگہ معلوم نہیں کون سی تھی مگر یہ اجنبی لوگ تھے۔ مجھے یہاں چھوڑ کر یہ دونوں میاں بیوی غائب ہو گئے۔ میں نے رونا شروع کردیا تو ان لوگوں نے مجھ پر بہت سختی کی کہ چپ رہو اور پچھلی زندگی کو بھول جاؤ کیونکہ ہم نے تم کو رقم دے کر خریدا ہے۔ پھر میرا نکاح زبردستی کردیا گیا۔ میرا شوہر مجھے ایک دیہات میں لے آیا، جہاں اس کے کچھ رشتہ دار پہلے سے رہتے تھے۔ یہ لوگ مجھ سے بہت محنت کراتے تھے، مارتے بھی تھے، کبھی رحم بھی کھاتے تھے، میں روتی تھی کبھی چپ ہوجاتی تھی، پھر بچے ہوگئے اور زندگی ایسے ہی گزرتی گئی۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ خالہ صبا واپس جانا نہیں چاہتی تھیں۔ وہ واپس جانے پر راضی ہی نہ تھیں۔ ماموں اور نانی جان بھی ان کو واپس بھیجنے پر تیار نہ تھے۔ آخر کار ماموں نے کسی طرح ان کے بیٹے اختر کو سمجھا بجھا کر چلتا کردیا۔ سکینہ نے بھی ماں کو چھوڑ کر واپس جانے سے انکار کردیا۔ اختر کو بہت غصہ آیا، جاتے جاتے وہ یہ دھمکی دے کر گیا کہ میں اپنی ماں کو واپس لے کر جاؤں گا یا تم لوگوں سے بدلہ لوں گا۔ ماموں جان وکیل کے پاس گئے تاکہ قانونی تحفظ حاصل کرسکیں۔ اس نے کیس کا مشورہ دیا اور ماموں نے ان لوگوں پر کیس کردیا۔ چند مہینے اس طرح گزر گئے۔ خالہ صبا کبھی نانی جان کے پاس رہتیں، کبھی امی جان کے پاس تو کبھی میرے ماموں اور ممانی کے گھر رہتیں، مگر حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جلد ہی تمام رشتہ داروں کے رویے بدلنے لگے۔
سب خالہ صبا کو طنز کا نشانہ بنانے لگے۔ سکینہ الگ پریشان رہتی، رشتہ دار مشورہ دیتے تھے کہ سکینہ کی شادی کردو اور خالہ صبا کی بھی کہیں شادی کردو تاکہ وہ لوگ آ کر انہیں پھر نہ لے جاسکیں۔ پہلے خاوند کے پاس گئے۔ وہ نشے میں ادھ موا ہو کر زندہ لاش بن چکا تھا۔ اس نے خالہ کے حالات میں دلچسپی نہ لی۔ امی جان اپنے معاملات میں الجھی ہوئی تھیں۔ ممانی بھی خالہ کی پروا کرنے پر تیار نہ تھیں۔ نانی جان بوڑھی ہو کر خود ایک ذمہ داری بن چکی تھیں۔ ان دو عورتوں کا بوجھ خاندان والوں پر بڑھ گیا۔ اب سبھی خالہ اور اس کی بیٹی کو بوجھ سمجھنے لگے۔ اس دوران ایک مرتبہ میں ماموں کے گھر گئی تو خالہ نے رو کر مجھے کہا، نجمہ، اللہ کے واسطے تم ہی ان لوگوں کو سمجھاؤ کہ اب میری اور شادی نہ کریں۔ مجھ بوڑھی ہڈیوں کو مذاق نہ بنائیں، میری عمر اب شادی کرنے کی نہیں رہی۔ وہ رورو کر کہتی تھیں کہ میں ساری زندگی ان لوگوں کی خدمت کر کے گزار لوں گی مگر ان کو کہو میری شادی نہ کریں۔
ان کی باتیں سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ مگر میں کیا کرسکتی تھی، صرف تسلی ہی دے سکتی تھی۔ میں نے کہا، خالہ، آپ فکر نہ کریں، یہ لوگ آپ کے اپنے ہیں، کوئی دشمن تو نہیں ہیں۔ یہ لوگ وہی کریں گے جو آپ کے حق میں اچھا ہوگا۔اس دوران خاندان میں مختلف رشتہ دار زیر بحث لائے جانے لگے۔ آخرکار ایک رشتہ پسند کر لیا گیا۔ اس آدمی کا نام منیر تھا، پہلی بیوی وفات پاچکی تھی اور اولاد بھی جوان تھی۔ گھر بار چلانے کے لیے ایک عورت کی ضرورت تھی۔ اس سے ماموں نے خالہ صبا کا نکاح پڑھوا دیا۔ اس نکاح کی تقریب میں ہماری امی جان نے بھی شرکت کی۔ واپس آ کر امی جان نے بتایا کہ آدمی تو بس ٹھیک ہی لگتا ہے، اب آگے صبا کی قسمت۔
اب خالہ کی شادی کو سال ہوچکا ہے۔ ہم لوگ ابوظہبی آچکے ہیں۔ خالہ کی بیٹی بھی ان کے ساتھ رہتی ہے، یہ دونوں ماں بیٹی نئے گھر میں کس حال میں ہیں، اللہ جانے، لیکن مجھے تو جب بھی خالہ جان کی زندگی یاد آتی ہے، دل میں ایک خلش سی پیدا ہوتی ہے۔ سوچتی ہوں، بعض عورتیں کتنی بدنصیب ہوتی ہیں جن کو عمر بھر چین سے جینا میسر نہیں آتا، جیسا کہ ہماری خالہ صبا ہیں جن کی زندگی کے پچیس سال انسانی خودغرضی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
(ختم شد)