طلاق کا عجیب فیصلہ

sublimegate urdu stories

والد کشمیری اور والدہ ایرانی تھیں۔ دونوں ہی حسین تھے۔ اللہ نے مجھے بھی بے پناہ حسن سے نواز دیا۔ تبھی کسی کو خاطر میں نہ لاتی کہ مجھے اپنے خوبصورت ہونے پر ناز تھا۔ خاندان کے لڑکے سبھی کہتے ، لڑکی تو ہیرا ہے لیکن اس کا دل پتھر کا ہے۔ جتنی بھی قدر کرو، یہ موم ہوتا ہی نہیں۔ دل آویز خان ہمارے دور کے رشتے داروں میں سے تھا۔ اس کی والدہ نے مجھے شادی میں دیکھا تو امی کے ہاتھ پکڑ لئے کہ مہ ناز پرور کو میری بہو بنا دو، عمر بھر تابعدار رہوں گی۔

والد صاحب میری شادی اپنے بھائی کے بیٹے سے کرانا چاہتے تھے لیکن دل آویز کی ماں پیچھے پڑگئی۔ بالآخر والد صاحب کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔ یہ لوگ امیر کبیر تھے ۔ سوچا اپنے بھتیجے کے پاس کیا رکھا ہے ، اس پر تعلیم یافتہ بھی نہیں۔ بہتر ہے کہ بیٹی کا مستقبل دیکھوں اور رشتہ داری پر اولاد کو قربان نہ کروں۔ ابو نے آنٹی فریدے کا بھرم رکھا اور ان کے بیٹے سے میری بات پکی کر دی جو پنڈی میں اعلیٰ افسر تھے۔ میرے سسرال والوں کا شمار شہر کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ یہ ایک بھائی، چار بہنیں تھیں۔ اللہ کا دیا بہت کچھ تھا۔ شروع میں ساس، سسر اور نندوں نے بہت خیال رکھا۔ دل آویز خان بھی واری صدقے ہوتے تھے۔ ان دنوں یوں محسوس ہوتا جیسے میں ہی اس راج دھانی کی ملکہ ہوں۔ 

جس کو اپنا گھر، اپنی جنت کہتے ہیں۔ بہت جلد خدا نے ایک بیٹا دے دیا۔ میں اسے پا کر نہال اور اس کے پیار میں سرشار ہو گئی۔ جن دنوں سلیمان ڈیڑھ سال کا تھا میرے جیون ساتھی کا تبادلہ ہو گیا اور ہم پنڈی سے پشاور چلے گئے۔ دوسری بار امید سے تھی، تبھی ننھے سے ماں کا دودھ چھڑانا تھا۔ یہاں آکر سکون تو ملا لیکن ننھے سلیمان کو اکیلے سنبھالنے کی مجھے عادت نہ تھی۔ دادی کا وہ دلا را، میری نندوں کی آنکھ کا تارا تھا۔ زیادہ وقت وہی سنبھالتے اور میں آرام کرتی۔ یہاں آکر پتا چلا کہ اکیلے رہ کر بچہ سنبھالنا کس قدر دشوار امر ہے۔ بیٹے کا دودھ چھڑایا تو وہ ہلکان ہو گیا۔ اب سلیمان کا یہ حال کہ وہ دادی اور پھوپھیوں کو یاد کر کے روتا۔ رات کو اٹھ کر بیٹھ جاتا۔ ہماری ساس سارا دن سلیمان کیلئے طرح طرح کے کھانے تیار کرتی تھیں۔ جو وہ کھاتا، وہی بنا دیتیں۔ کبھی قیمے والی کھچڑی تو کبھی آلو کے کٹلس، سوجی کا حلوہ … غرض سو طرح کے کھاجے بناتیں کہ بچہ کچھ تو کھالے گا۔ ایسانہ ہو کمزور ہو جائے۔ پشاور آکر مجھے کسی قسم کی تکلیف نہ تھی۔ 

سب سکھ حاصل تھا۔ شوہر بھی ہر طرح سے خیال رکھتے تھے لیکن سلیمان نے پریشان کر دیا تھا۔ میرے ہاتھ کی پکی کوئی چیز نہ کھاتا، فیڈر بھی نہ لیتا۔ چھوٹا اتنا تھا کہ زبردستی نہ کر سکتی تھی۔ جب کھانے کی کوئی چیز منہ تک لے جاتی، ہونٹ بھینچ کر چہرہ دوسری طرف موڑ لیتا۔ بازار کی کوئی شے دل آویز خان بچے کو نہ کھلانے دیتے کہ پیٹ خراب ہو گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میرا لخت جگر روز بروز کمزور ہوتا گیا، کھڑا ہوتا تو گر پڑتا تھا۔ اپنے شوہر کو چھوڑ کر نہیں جاسکتی تھی کہ وہ پل بھر بھی میرے بغیر نہیں رہتے تھے۔ ادھر بچے کو دادی اور پھوپھیوں کی اداسی کھائے جاتی تھی۔ بالآخر یہی فیصلہ کیا کہ کچھ دنوں کیلئے پنڈی چلی جائوں تا کہ سلیمان اپنی دادی اور پھوپھیوں سے مل لے۔

دل آویز خان کافی افسردہ تھے۔ شادی کے بعد یہ پہلا موقع تھا ہم جدا ہونے جارہے تھے۔ شوہر کو اداس دیکھ کر میرا دل گھبرانے لگا۔ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تبھی وہ بولے۔ ناز، کیوں روتی ہو۔ ارے بھئی دو ہفتے کیلئے ہی جارہی ہو، عمر بھر کیلئے تو نہیں ! میں نے آنسو پونچھ دیئے اور اس وقت تک انہیں دیکھتی رہی جب تک کہ وہ ہماری نظروں سے او جھل نہ ہو گئے۔ سلیمان گھر پہنچ کر پر سکون ہو گیا۔ دادی اور پھوپھیوں کو دیکھتے ہی نہال تھا۔ ایک کی گود سے اترتا تو دوسرے کی گود میں چڑھ جاتا۔ اس کی دادی نے گاجر کا حلوہ بنایا، بڑے شوق سے کھایا۔ وہ جو چیز بنا کر اسے کھلاتیں، پیٹ بھر کر کھاتا اور رات بھر آرام سے سویا رہتا۔

 ساس نے مجھے کہا۔ بیٹی ناز، تم مجھ سے کچھ کھانا بنانا سیکھ لو، خاص طور پر سلیمان کی پسند کی چیزیں جو وہ شوق سے کھاتا ہے۔ روز دو تین قسم کے کھانے بنالیا کرو اس کیلئے، ایک کو نہ کھائے گا تو دوسری ڈش کھالے گا۔ جب سے ہم پنڈی آئے تھے، واقعی سلیمان نے رغبت سے کھانا شروع کر دیا تھا۔ سونے سے پہلے ہماری ساس خود اسے کھلادیتیں اور وہ ساری رات کروٹ بھی نہ لیتا ، صبح سویرے اٹھتا تھا اور اس کے اٹھنے سے پہلے ہی کوئی نہ کوئی شے مثلاً گھیر ، سوپ ، دلیہ وغیرہ تیار کر دیتی تھیں۔ سسرال میں رہ کر سلیمان کی طرف سے مجھے بہت آرام تھا لیکن دل آویز صاحب روز فون کر کے پوچھتے تھے۔ ہاں بھئی! تو کب آنے کا پرو گرام ہے؟ اتنے دن گزر گئے تمہارے بغیر، اب تو آجائو۔ 

آنٹی تو سلیمان کی خاطر ابھی بھی روکتی تھیں کہ کچھ دن اور ٹھہرو، بچے میں ذرا جان پڑی ہے تو جانے لگی ہو۔ وہاں جا کر یہ پھر سے کمزور ہو جائے گا۔ آخر کب تک …. خان صاحب نے چھٹی لی اور مجھے خود لینے آگئے۔ پشاور آکر جی اور برا رہنے لگا۔ سلیمان نے پھر سے و ہی روش اپنالی۔ کچھ نہ کھانا اور روتے رہنا۔ دل آویز نے یہ حل نکالا کہ ایک اچھی ” میڈ“ کی تلاش میں دن رات ایک کر دیا جو بچے کو سنبھالنے ، اسے کھلائے، پلائے، نہلائے اور مجھے آرام کرنے دے۔ بہت جلد ایک ” میڈ“ کا انتظام ہو گیا۔ یہ ادھیڑ عمر تھی اور دو بچوں کی ماں تھی۔ اس کو رہنے کا ٹھکانہ درکار تھا۔ ہمارے صاحب نے سرونٹ کوارٹر دے دیا۔ اس نے آتے ہی سلیمان کو سنبھال لیا۔ اسے بچوں کی پرورش کا تجربہ تھا۔ یوں بھی نیک اور مخلص عورت تھی۔ خاوند اسے چھوڑ کر چلا گیا تھا اور دو سال سے اس کا کچھ پتا نہ تھا۔ یہ بیچاری بچوں کا پیٹ پالنے کو ہمارے گھر ملازمہ بن کر آگئی تھی اور اسے لانے والا ہمارا چوکیدار تھا جس کی زیب بی بی رشتہ دار تھی۔ زیب چونکہ ضرورت مند تھی لہٰذا اس نے سلیمان کے فرائض اچھی طرح سنبھال لئے ۔ طرح طرح کے مزیدار کھانے بناتی تھی اور اس کے دونوں بچے سلیمان کے ساتھ کھیلتے۔ وہ بہت خوش رہنے لگا۔ 

مجھے ایک بڑی پریشانی سے نجات مل گئی ، سکون سے ہو گئی۔ زیب ایک گھریلو عورت تھی۔ میرے دیگر گھریلو کام بھی کر دیتی تھی۔ میں اس کی شکر گزار تھی اور وہ میری شکر گزار تھی کہ اب میں اور سلیمان رات بھر بھر پور نیند سوتے تھے۔ جن دنوں میرے یہاں دوسرے بچے کی پیدائش متوقع تھی، زیب کا گمشدہ خاوند لوٹ کر آگیا اور وہ ہم سے معذرت کر کے اپنے گھر چلی گئی۔ شوہر نے اسے ملازمت کرنے اور گھر سے نکلنے کی اجازت نہ دی۔ وہ دوبارہ نہیں آئی البتہ اس بار چوکیدار نے ایک ایسی خاتون کا انتظام کر دیا جس نے نرسنگ ٹریننگ لی تھی اور ایک اسپتال میں بطور نرس کچھ عرصے کام بھی کیا تھا۔ اس کا نام شمسہ تھا۔ مطلقہ تھی، معمولی شکل وصورت تھی۔ سراپا پرکشش تھا، لباس نک سک سے درست اور حلیہ ہر وقت ٹھیک رکھتی تھی۔ یعنی سلیقے میں باکمال تھی۔ بات کرنے میں بھی ایک طریقہ تھا۔ قصہ مختصر بڑی اسٹائلش قسم کی تھی۔

پہلی بار جب ادب کے ساتھ گھل مل کر باتیں کیں تو مجھ کو اچھی لگی۔ اس میں کچھ ایسے ہنر تھے کہ مالکہ ہونے کے باوجود میں نے اس سے دوستانہ رویہ اختیار کر لیا۔ اب وہ میری ملازمہ نہیں بلکہ میری سہیلی بن گئی تھی۔ ہم ایک میز پر ساتھ بیٹھ کر کھاتے پیتے اور جب میں بور ہوتی تو وہ شگفتہ شگفتہ باتوں سے بناتی ۔ جی خوش ہو جاتا۔ کچھ ہی دنوں بعد میرے ہاں ولادت متوقع تھی اور اب بالکل ہی گھر کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔ شمسہ ہمارے سارے معاملات دیکھتی۔ نوکر، خانساماں سبھی اس کی نگرانی میں کام کرتے تھے۔ سودا سلف منگوانا، اس کی دردسری تھی۔ مہینے بھر کے راشن، کچن کے سامان کی لسٹ وہ پہلے سے تیار کر لیتی ہے تھی۔ پڑھی لکھی ہونے کی وجہ سے زیادہ سمجھدار رتھی۔ ہر معاملے میں خوب سوجھ بوجھ سے کام لیتی۔ سلیمان کو بھی کچھ اس طرح رجھا لیا کہ وہ زیب کو بھول کر آنٹی شمسہ کا گرویدہ ہو گیا۔ شمسہ کی عمر تیس کے لگ بھگ ہو گی لیکن اپنا خیال رکھنے کی وجہ سے وہ بمشکل سترہ اٹھارہ کی نظر آتی۔

 میرے خاوند کو بھائی صاحب کہتی۔ میرے گمان سے تو وہ بھی اسے بڑے بھائی ہی کی نظر سے ہی دیکھتے تھے اور سسٹر شمسہ کہا کرتے تھے۔ جتنا سکون زیب نے دیا، اس سے کہیں زیادہ شمسہ سے ملا۔ بچے کی پیدائش کے وقت میں اسپتال میں تھی۔ اس نے سلیمان اور گھر کو سنبھالا ۔ جب میں ننھی بیٹی لئے گھر آئی تو شمسہ نے بہت خوشی منائی۔ ہماری ساس سفر نہ کر سکتی تھیں۔ انہوں نے بیٹیوں کو بھیج دیا اس ہدایت کے ساتھ کہ اپنی بھابی اور بچوں کو لیتی آنا۔ سلیمان کیلئے تو بہت اداس تھیں۔ جب تک پشاور میں رہی، شمسہ نے میری خوب دیکھ بھال کی۔ اب چھلا ہو گیا تھا۔ نندوں نے اصرار کیا۔ بھابی … امی کے پاس چلئے ، وہ اپنی نو مولود پوتی کیلئے بہت اداس ہیں۔ سلیمان کے بابا نے بھی کہا۔ ہاں … ہاں چلی جائو ، ان لوگوں کا ساتھ ہے پھر کیسے جا پائو گی ۔ امی جان تمہارا شدت سے انتظار کر رہی ہیں۔

 کچھ دن وہاں آرام کر لو ، جب فون کرو گی لینے آجائوں گا۔ مجھے خان کی فکر نہ تھی۔ شمسہ تو گھر میں تھی ہی۔ میرے والد ان دنوں بیمار تھے اور ان کی فکر کھائے جاتی تھی۔ میں پنڈی آگئی ۔ خان صاحب کا پہلے روز فون آجاتا پھر ہفتہ بعد آنے لگا۔ مجھے یہاں آئے ایک ماہ بیت گیا، لینے بھی نہ آئے تو میں نے فون کر کے کہا۔ اب آجایئے ہیں اور بچے آپ کیلئے بہت اداس ہیں۔ بولے ایک ضروری دورے پر کل جانا ہے ، ہفتہ بعد آکر لے جائوں گا۔ انہی دنوں والد شدید بیمار پڑ گئے اور پھر رضائے الہی سے وفات پاگئے۔ میرے خان وفات پر آئے اور ایک روز بعد واپس پشاور چلے گئے۔ اس موقع پر میں ساتھ نہ جاسکی کیونکہ امی کے پاس رہنا واجب تھا۔ ابو کے چالیسویں تک میکے میں رہی اور پھر واپسی کی تیاری باندھ لی۔ حیرت اور دکھ اس بات کا تھا کہ میرے والد کی فوتگی پر غیروں کی طرح آکر چلے گئے تھے ، حالانکہ اس دوران دو تین بار آنا ان کا بنتا تھا۔ پنڈی سے پیشاور بہت دور نہ تھالیکن میری اور والدہ کی دلجوئی کو اپنے فرائض منصبی کا بہانہ کر کے نظر انداز کر دیا اور میں سوچتی رہ گئی۔ ایک روز ہمارے خانساماں کا فون آگیا۔ تعزیت کے بعد کہا۔ بی بی … آپ کو گئے بہت دن ہو گئے ہیں۔ اب لوٹ آیئے ۔ خان صاحب کو اتنے دن اکیلے چھوڑ دینا درست نہیں ہے، فوراً آیئے۔ باباشاہ کے لہجے سے چونک گئی۔ کوئی ایمر جنسی لگتی تھی۔ خدا خیر کرے۔ 

میرے خان ٹھیک ہوں ۔ ایسے تو بابا نے بھی فون نہ کیا تھا۔ ابو کی تعزیت کے بہانے سے فون کر کے مجھے جیسے ہوشیار کرنا چاہتے ہوں۔ میں نے رخت سفر باندھا اور ڈرائیور کے ساتھ پشاور چلی آئی۔ مجھے یوں اچانک دیکھ کر شمسہ حیران رہ گئی۔ وہ گھر میں ہی تھی حالانکہ خان کہتے تھے۔ میں نے اسے چھٹی دے دی ہے۔ جب تم آئو گی آجائے گی، ابھی اس کی ضرورت نہیں ہے۔ شمسہ تم موجود ہو ؟ خان تو کہہ رہے تھے کہ …! ناز بی بی میں آج ہی آئی تھی آپ کا پتا کرنے ، ویسے میں چھٹی پر ہی تھی۔ شکر ہے کہ تم آج آگئی ہو، ورنہ دو بچوں کو سنبھالنا اکیلے تو میرے لئے ممکن ہی نہ تھا۔ خان صاحب ہم کو دیکھ کر بظاہر خوش ہو گئے۔ بچوں کو پیار کیا، بولے… تم نے اچانک آکر سر پرائز دیا ہے ورنہ میں کل روانہ ہو رہا تھا تم لوگوں کو لینے آرہا تھا۔ کچھ دن معمول کے مطابق گزرے۔ میں نے سلیمان اور فرحان دونوں کی ذمہ داری شمسہ پر ڈال دی۔ خود آرام سے سو جاتی۔ ابو کی وفات کے بعد ویسے بھی کافی ڈسٹرب رہی تھی۔ یہاں آکر لگا سکون کی وادی میں آگئی ہوں اور جنت میں قدم رکھ دیا ہے۔ کچھ دنوں بعد ایک روز کچن میں گئی تو خانساماں شاہ بابا نے میرے کان میں کھسر پھسر کی ۔ بی بی … اس کم ذات شمسہ کو نکالو ور نہ پچھتائو گی۔

کیوں بابا …؟ یہ بدنیت آپ کے گھر بار پر قبضہ نہ کرلے میں دنگ رہ گئی شاہ بابا کے منہ سے ایسی بات سن کر کانوں پر یقین نہ آیا کہ خان بابا ایک ذمہ دار اور سنجیدہ بزرگ تھے۔ وہ ہر گز حقائق سے بعید محض کسی شک یا گمان کے تحت اتنی بڑی بات نہ کر سکتے تھے۔ میں بھی شک کی بھٹی میں جلنے لگی لیکن کوئی ثبوت نہ تھا کہ شمسہ سے باز پرس کرتی۔ اس کا رویہ پہلے جیسے ہی تھا اور خان بھی اس سے لئے دیئے رہتے تھے ، تاہم اپنے اندر کی کھولن آرام نہ دیتی تھی۔ بلا جواز شمسہ سے الجھنے لگی۔ بات بات پر ٹوکنے لگی۔ اسے برا لگتا لیکن نوکری اس نے پھر بھی نہ چھوڑی۔ میں بھی اسے نکالنے کا سوچ کر سوچ میں پڑ جاتی تھی۔ اگر یہ چلی گئی تو کیا کروں گی؟ دو چھوٹے بچوں کو کیسے سنبھالوں گی۔ اتنے سارے کام بچوں کے اکیلی کیونکر سر انجام دوں گی ؟ اتنی اچھی خدمت گار پھر کہاں ملے گی ؟ ایسا نہ ہو وہم کے مارے اس کو نکال بیٹھوں پھر بعد میں پچھتائوں، گویا وہ میری زندگی کا لازمہ بن گئی تھی۔ ایک روز دل آویز خان نے کہا کہ وہ لاہور سرکاری کام سے جارہے ہیں۔ تین دن بعد لوٹیں گے۔

 ان کے جانے کے بعد اگلے روز شمسہ نے بھی چھٹی مانگ لی۔ کہنے لگی۔ میری امی بیمار ہیں اور مجھے ان کے پاس نو شہرہ جانا ہے۔ ابھی چھوٹی بہن کا فون آیا ہے ،امی شدید بیمار ہیں۔ وہ پریشان لگ رہی تھی۔ میں نے جانے کی اجازت دے دی اور کہا کہ اگر ضرورت ہو تو میں گاڑی، ڈرائیور تمہارے ساتھ بھیج دوں؟ کہنے لگی۔ شکریہ میں چلی جائوں گی۔ اس نے ہفتہ بھر کی چھٹی لی تھی۔ دو دن میں ہی دونوں بچوں نے رورو کر میرا برا حال کر دیا۔ دن میں تارے دکھا دیئے۔ پچھتانے لگی کہ کیوں اتنے سارے دنوں کیلئے اس کو رخصت دے دی، میاں کو تو آنے دیا ہوتا۔ خدا جانے یہ عور تیں کیسے اپنے چار چار ، پانچ پانچ بچے سنبھالتی ہیں۔ دل آویز خان کو گئے تیسرا دن تھا کہ چھوٹا بیٹا بیمار ہو گیا۔اسے اسہال کے ساتھ بخار نے آلیا۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی نکالو ، فرحان کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے۔ دونوں بچوں کو لے کر میں بچوں کے ڈاکٹر کے پاس چلی گئی۔ گھر لوٹتے ہوئے ایک جگہ ہماری گاڑی ٹریفک میں پھنس گئی۔
 سامنے ایک ریسٹورنٹ نظر آرہا تھا۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے شمسہ اور اپنے خاوند کو اس ریسٹورنٹ سے نکلتے دیکھا۔ آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ گویا دونوں اسی شہر میں تھے اور دونوں نے مجھ سے جھوٹ بول کر میری آنکھوں میں دھول جھونکی تھی۔ یہ وقت کیسے گزرا، کیا بتائوں۔ دونوں کے واپس آنے تک انگاروں پر بسر ہو رہی تھی۔ بالآخر دل آویز آئے، چھوٹا بچہ کافی بیمار تھا، میرا جھگڑا اس وقت بنتا نہ تھا لیکن خود پر قابو نہ رکھ سکی اور پھٹ پڑی۔ ان کو مجھ سے ایسی امید نہ تھی۔ بچے کی بیماری کا خیال کرتے ہوئے مجھ پر ہاتھ نہ اٹھایا۔ غصے میں آگ بگولہ گھر سے چلے گئے۔ شمسہ کو انہوں نے مطلع کر دیا کہ اب گھر مت جانا۔ وہ نہ آئی لیکن کچھ دن بعد میری امی کے ماموں کا فون آگیا جو کہ پشاور میں ہی رہتے تھے لیکن ہمارے گھر نہیں آتے تھے۔ بولے … ناز بیٹی … احمد خان میرا دوست نکاح خواں ہے۔

 اس کے ذریعے پتا چلا ہے کہ دل آویز خان نے شمسہ نامی خاتون سے نکاح کر لیا ہے اور میں نے تصدیق کر لی ہے کہ تمہارے شوہر نے نکاح کیا ہے۔ فی الحال تمہاری ماں کو نہیں بتایا کہ وہ سوگ کی حالت میں ہے اور عدت میں ہے۔ تم کو بتارہا ہوں، حوصلہ رکھنا اور کوئی ایسا قدم مت اٹھانا جو تمہارے اور تمہارے بچوں کیلئے نقصان دہ ہو۔ ساس کو فون کیا۔ اس نے بھی کہا کہ مردوں سے مقابلہ نہیں کیا جاتا۔ اچھی بیوی کی طرح اپنے بچوں کی خاطر حالات سے سمجھوتہ کر لو اور اپنے گھر کو چھوڑ کر مت جانا۔ اس وقت میں اس قدر صدمے میں تھی کہ مجھے کسی کی نصیحت ، کسی کی آواز بھی سنائی نہ دے رہی تھی۔ میں نے ڈرائیور سے کہا۔ رشید بابا مجھے پنڈی لے چلو اور چابیاں میں نے چوکیدار کے حوالے کر دیں کہ جب صاحب آئیں تو ان کو دے دینا، وہ شوق سے دوسری بیوی کو گھر لے آئیں۔ بس یہی میری غلطی تھی۔ جب آشیانہ چھوڑا تو وہ ہمیشہ کیلئے چھوٹ گیا۔ ماں کہا کرتی تھیں۔ بیٹی … جب ایک چڑیا اپنا گھونسلا چھوڑ کر اڑ جاتی ہے تو وہ دوسری کیلئے جگہ چھوڑ دیتی ہے پھر اس میں دوسری چڑیا آجاتی ہے۔
میکےآ کر امی کو بھی نہ بتایا میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ سوگ کی حالت میں ان کو دکھ نہیں دینا چاہتی تھی مگر دکھ برداشت بھی نہ ہو رہا تھا۔ سوچا ہی نہیں کہ امی بیچاری کی کفالت کرنے والا نہیں رہا، میری کفالت کون کرے گا۔ ایک ہفتہ بمشکل ضبط کیا اور پھر شاہ بابا کو فون کیا۔ شاہ بابا، کیا صاحب گھر آگئے ہیں ؟ ہاں بی بی… وہ آگئے ہیں۔ انہوں نے آتے ہی آپ کا پوچھا۔ جب بتایا کہ آپ بچوں کو لے کر چلی گئی ہیں تو چھ سات دن بعد وہ دوسری بیوی کو گھر لے آئے۔ اسی بدبخت شمسہ کو آپ صاحب کے آنے سے پہلے کیوں گئیں بی بی ! آپ کو ان کا انتظار کرنا چاہئے اپنا گھر نہ چھوڑنا تھا۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ دل آویز اپنے بچوں کی خاطر میرے پاس ضرور آئے گا لیکن اس مغرور کو شاید اپنی دولت کا گھمنڈ تھا۔ وہ نہیں آیا لیکن مجھے طلاق بھجوا دی۔ اس نے عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا کہ بچوں کی ماں ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ 

عدالت نے بڑا بیٹا باپ کے حوالے کرنے کا آرڈر دیا اور چھوٹی کو میرے پاس رہنے دیا۔ سلیمان سات سال کی عمر میں اس ۔ عمر میں اس لئے باپ کی حوالگی میں دے دیا گیا کہ اس کی غریب ماں اس کی ضروریات بحسن و خوبی پوری نہ کر سکے گی جبکہ باپ اس کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا مقدور رکھتا تھا۔ بچے کے اچھے مستقبل کی خاطر یہ فیصلہ ہوا تھا لیکن یہ کسی نے نہ سوچا کہ وہ تو میرے جگر کا ٹکڑا اور میری امیدوں کا مرکز تھا۔اس کا وجود میرا سہارا تھا، میری زیست کا دیپک اسی سے جلتا تھا اور اب میں زندہ ہو کر بھی مردہ ہوں۔ بیٹی بھی شاید باپ کے پاس چلی جائے۔ بے شک کہ میں نے اس روز اپنے شوہر سے بد زبانی کی تھی۔ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا۔ بے شک میں آرام طلب تھی، کام سے میری جان جاتی تھی لیکن کسی عورت کو سگھڑ نہ ہونے کی اتنی بڑی سزا تو نہ ملنی چاہئے ۔ آج ساس کہتی ہیں کہ پھوہڑ تھی اس لئے اپنے بخت کو ٹھکراگئی اور میرے بچوں کا باپ کہتا ہے سگھڑ نہ تھی، طلاق اس لئے نہیں دی بلکہ اس لئے دی کہ بغیر اجازت کیوں میرا گھر چھوڑ کر گئی۔ اگر اس دن گھر چھوڑ کر نہ جاتی تو میں ناز کو کبھی طلاق نہ دیتا۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے