فریبی شکنجہ

Sublimegate Urdu Stories

Sublimegate Urdu Stories

 فریبی شکنجہ - سبق آموز کہانی

قسط وار کہانیاں
ایک تپتی دوپہر میں میرا کزن علی شیرانی دکان کے سامنے گھنے پیڑ کے نیچے کھڑا کسی دوست کا انتظار کر رہا تھا کہ اتنے میں ایک خاتون سامنے سے آتی دکھائی دی۔ سراپا دلکش اور چال مستانہ تھی ۔ چلنے کے انداز نے چونکا دیا۔ ایسی عام عورتوں کی چال نہیں ہوتی ، جیسے کوئی مورنی چل رہی ہو۔ وہ قریب آئی۔ حیرت ہوئی کہ وہ علی کی طرف ہی آرہی تھی۔ خاصی حسین و جمیل – عمر یہی کوئی پینتیس کے درمیان ہوگی مگر بائیس کی لگتی تھی۔ سولہ سنگھار تو نہ کئے تھی لیکن ہلکا میک اپ ضرور ، سولہ سنگھار جیسا تھا۔
 
 بڑی بڑی آنکھیں اور دراز پلکیں۔ اس پر گلابی چہرہ اور یاقوتی ہونٹ ۔ وہ کسی شاعر کی غزل معلوم ہوتی تھی۔ علی اسکی دید میں کھویا تھا۔ وہ قریب آکر پوچھنے لگی۔ آپ کی نظر میں کوئی دو کمرے کا مکان ہو تو بتائیے مجھ کو کرایہ پر رہائش درکار ہے۔ اس نے کچھ اس ادا سے پوچھا کہ جی چاہا کہیے، مکان تو میرے علم میں کوئی خالی نہیں ہے البتہ میرا گھر حاضر ہے تاہم یہ باتیں کسی انجانی خاتون کو کہنے کی نہ تھیں ۔ ظاہر ہے جوتے نہیں کھانے تھے۔ ابھی تو کوئی مکان میری نظر میں نہیں ہے۔ دو ایک روز میں ضرور معلوم کر لیں۔ یہ گھر کے برابر میری دکان ہے۔ یہاں آکر معلوم کرنا ہوگا، پھر بولی۔ پانی کا ایک گلاس تو دیں … بڑی سخت دھوپ ہے۔ علی دوڑ کر دکان میں گیا اور کولڈ ڈرنک گلاس میں لے آیا۔ پی کر اس نے گلاس واپس کیا ، اف گرمی کی بھی حد ہے ، تب ہی میرے کزن نے کہا۔ آپ اتنی دھوپ میں پھر رہی ہیں کہاں سے آئی ہیں؟ میرا نام صفیہ ہے اور آپ کی دکان سے تھوڑی دور کچھ فاصلے پر رہتی ہوں۔ کرایہ کا مکان ہے لیکن اب مالک مکان خالی کرنے کو کہہ رہا ہے۔ اس لئے اتنی پریشان ہوں . گھر میں اور کوئی نہیں خود تلاش کرنے پر مجبور ہوں ۔ یہ مالک مکان بے مروت سا شخص ہے۔ اس نے چند دن کی مہلت دی ہے کہ نیا گھر ڈھونڈوں، کئی دن سے ماری ماری پھر رہی ہوں لیکن اس محلے میں کوئی ٹھکانہ نہیں مل رہا۔ 
 
کسی دوسرے محلے میں علی نے اتنا ہی کہا تھا کہ خاتون نے بات کاٹ دی۔ کہیں اور نہیں رہنا چاہتی کہ یہ دیکھا بھالا محلہ ہے۔ اکیلی رہتی ہوں نا اس لئے- آپکے شوہر ؟ وہ سعودیہ میں ہیں۔ محنت مزدوری کی خاطر گئے ہیں۔ یہاں تنخواہ کم تھی خرچہ پورا نہیں ہوتا تھا۔ دونوں بچے بھی اسکول جاتے ہیں اور میں خود گھر پر سلائی وغیرہ کرتی ہوں ایسا کہتے کہتے ، ایک بے بس عورت کی طرح جو مجبور ہو- اسکی آواز مدہم ہو گئی اور آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ علی کو اس پر رحم آ گیا کہا، گھبرایئے نہیں۔ میں جلد کوئی مکان تلاش کروں گا آپ کو جب وقت ملے آکر ملاقات کر لینا ۔ تب وہ گویا ہوئی میں روز اسی وقت آپ کے گھر کے پاس ایک بچی کو قاعدہ پڑھانے آتی ہوں تب ہی آپ سے ملاقات کرلوں گی۔ یہ کہہ کر وہ چلی گئی مگر گہرا تاثر دل پر چھوڑ گئی کیونکہ میرا یہ کزن کچھ عرصہ ملک سے باہر رہا تھا۔ وہاں ایک عورت سے شناسائی ہوگئی جو ساتھ دفتر میں کام کرتی تھی وہ بالکل صفیہ کی ہم شکل تھی تب ہی اس نے بڑے غور سے دیکھا اور اسی باعث ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔

دوسرے دن وہ پھر اسی وقت آئی … وہ غور سے دیکھنے لگا تو وہ بولی۔ آپ کیوں مجھے اس طرح دیکھتے ہیں؟ جواب دیا۔ صفیه در اصل میں کچھ عرصہ بیرون ملک رہا ہوں، وہاں میرے ساتھ یہ ہوا کہ ایک عورت زندگی میں آ گئی۔ بہت دلربا تھی مجھ کو اچھی لگتی تھی کچھ عرصہ ساتھ گزارہ اور پھر ہم بچھڑ گئے ۔ اب میں نے تم کو دیکھا ہے تو مجھے وہ گزرے دن یاد آ گئے۔ یہ ساری باتیں صفیہ نے سنیں اور کسی تاثر کا اظہار نہیں کیا وہ ایک دو دن چھوڑ کر آجاتی ۔ دکان پر ملاقات ہو جاتی تھی۔ مکان کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ ایک دن صفیہ نے خود آ کر اپنے مکان کا پتہ بتایا اور کہا کہ میں صبح نو بجے کے بعد دو بجے تک گھر پر ہوتی ہوں پھر بچیوں کو پڑھانے چلی جاتی ہوں۔ کوئی کام ہو تو بلا جھجھک گھر آجانا۔ کچھ عرصہ بعد صفیہ سے ملاقات ہوئی تو وہ ناراض ہونے لگی کہ میں نے تم کو گھر پر آنے کی کہ ضرور آؤں گا۔ دراصل میں سمجھا تھا کہ تم نے رسماً کہا ہوگا کیونکہ اکیلی عورت کے یہاں ہمارے دعوت دی تھی اور تم اب تک نہیں آئے۔ 
 
میں بھی اب تمہاری دکان پر بھی نہیں آؤں گی۔ معاشرے میں کسی اجنبی مرد کا آنا جانا ٹھیک نہیں سمجھا جاتا۔ اگلے دن وہ کچھ تھیلے کر اس کے بھر پہنچا۔ صفیہ کے دروازہ کھولا اور اس کو دیکھ کر خوش ہو گئی۔ احترام سے گھر کے اندر لے جا کر بٹھا دیا۔ کچھ خاطر تواضع کی اور تھوڑی دیر ادھر ادھر کی با تیں ہیں۔ اس کے بعد علی نے اجازت لی۔ اب وہ اکثر دکان پر آتی، کوئی نہ کوئی مجبوری باتوں باتوں میں جتلائی۔ وکان سے علی وہ اشیاء دے دیتا اور گھر آنے کی دعوت دیکر چلی جاتی۔ ہفتے میں ایک بار اس کے اصرار پر وہ اس کے گھر جانے لگا۔ وو جب جاتا صفیہ اکیلی ہی ہوئی بچے وغیرہ کہیں نظر نہیں آتے تھے۔ایک دن علی کو بخار آ گیا اور دکان پر نہ گیا. دو تین دن تک دکان بند رہی جب طبیعت سنبھلی ، دکان کھلی تو پڑوسی دکاندار نے بتایا کہ ایک عورت صفیہ نامی آئی تھی اور کافی پریشان لگ رہی تھی۔ مجھ سے پوچھا کہ دکان کیوں بند ہے۔
 
 خیریت تو ہے میں نے کہا معلوم نہیں کہہ گئی ہے کہ جب دکان کھلے تو علی سے کہنا کہ مجھ سے رابطہ کرئیں۔ اس پیغام پر وہ کچھ پریشان ہوا کہ ایسی کیا بات ہوگئی کہ پڑوسی کو پیغام دے کر گئی ہے۔ شاید اسے پیسوں کی ضرورت ہو یا کوئی اور مشکل ہو۔ چار دن بعد دکان کھولی تھی لہذا شام تک رہا پھر دکان بند کر کے وہ سیدھا صفیہ کے مکان پر گیا۔ ساتھ کچھ راشن اور ضرورت کا سامان بھی لے لیا کہ اس کی ضرورت ہوگی ۔ دروازه بجایا نہ کھلا ۔ آواز دی۔ صفیہ میں ہوں علی دروازہ کھولو در تک قدموں کی آہٹ آئی مگر در نہ کھلا تب علی نے ذرا زور سے دستک دی تو آہستہ سے بولی علی لوٹ جاؤ میں کل آؤں گی حیرت زدہ لوٹ گیا سوچا جانے کیا بات ہے دکان پر پیغام چھوڑا اور اب در نہیں کھول رہی تھی۔ عجیب عورت تھی۔ اگلے دن صبح ہی وہ آ گئی ۔ شکوہ کیا کہ خود بلا کر در، وا نہ کیا ۔ کیا بات تھی؟ کہا۔ شام کے بعد کسی مرد کا یوں میرے گھر آنا ٹھیک نہیں۔ تب ہی دروازہ نہیں کھولا کیونکہ مالک مکان قریب والے گھر میں رہتے ہیں اور وہ نظر رکھتے ہیں۔ کچھ دنوں سے شک کر رہے ہیں کہ میرے گھر میں پتہ نہیں کون آتا ہے۔ علی نے سوال کیا کیا صفیہ، تمہارے گھر میں دوسرے لوگ بھی آتے ہیں جو وہ لوگ شک کرتے ہیں۔ جواب دیا۔ صرف رشتہ دار آتے ہیں رشتہ دار تو سب کے گھر آتے ہیں لہذا. علی تم ابھی میرے گھر مت آنا۔ جب حالات ٹھیک ہوں گے۔ میں بتا دوں گی بلکہ اب میں خود ہی تم سے ملنے آ جاؤں گی۔

خیر تمہاری مرضی … میں تو تمہیں کچھ سامان دینے آیا تھا۔ یہ کہہ کر علی نے وہ سامان اس کے سامنے رکھ دیا۔ فوراً اس نے اٹھا لیا۔ اسکے بعد صفیہ باقاعدگی سے دکان پر آنے لگی وہ اس کو ضرورت کی ہر چیز دے دیتا اور وہ بڑے شوق سے ساتھ لے کر چلی جاتی ۔ کبھی کبھی جب دکان پر کوئی نہ ہوتا۔ اسے پردے کے پیچھے بیٹھ جانے کو کہتا وہ خوشی سے وہاں بیٹھی رہتی ۔ کولڈ ڈرنک اور بسکٹ ایک سے تواضع ہوتی۔ بہت مسرور ہوتی ۔ ایک بار علی نے یونہی مذاق میں اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ چوڑیاں پہنو گی تو وہ اس کے شانے سے آ لگی اور کسی بات پر پھر نا راضگی کا اظہار نہیں کیا۔ اسکے بعد وہ جب بھی آتی کچھ نہ کچھ فرمائش ضرور کرتی بھی جوتے کپڑے اور بھی رقم مانگ لیتی۔ 
 
اس انداز سے گفتگو کرتی جیسے علی سے زیادہ چاہنے والا اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ اب وہ ایسے ٹائم پر بھی آنے لگی جب دکان پر گاہک ہوتے یعنی رش کا وقت ہوتا۔ علی ایسے توجہ نہ دے پاتا تو وہ وہاں پڑی کرسی پر بیٹھ جاتی تب علی لڑکا ملازم لڑکے کو کہتا کہ پوچھو اسے کیا چاہئے۔ پوچھتا وہ اپنا مقصد حاصل کرے چلی جاتی – مزے کی بات یہ ہے کہ صفیہ نے بھی کوئی وعدہ کیا اور نہ اظہار الفت کا موقع دیا۔ اس کے باوجود وہ اس کے ہاتھوں لگتا رہا۔ اگر کوئی تہوار ہوتا تو پھر وہ دل کھول کر جو چاہتی وصول کرتی ۔ وہ کچھ اس طرح اداکاری کرتی کہ مجال ہے دوسرے کو جھوٹ کا گمان ہو۔ یوں وہ میرے اس سادہ لوح کزن کو کافی حد تک بیوقوف بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ ایک دن کا ذکر کہ وہ دکان پر آئی۔ ابھی بیٹھی تھی کہ وہاں علی کا ایک دیرینہ دوست آ گیا۔ علی نے صفیہ کو اپنے گھر کے اندر بھیج دیا۔ 
 
تب اس کے دوست نے پوچھا کہ علی تم اس کو کب سے جانتے ہو اور تمہاری اس سے کیسے دوستی ہوئی۔ ایسی عورتوں کو اپنے گھر نہیں جانے دینا چاہئے۔ کزن نے مختصری بات بتائی تو دوست نے کہا کہ یار ذرا ہوشیار رہنا کیونکہ یہ عورت اچھے چلن کی نہیں ہے۔ ارشد کی بات سن … علی کو غصہ آ گیا کہا۔ دوست بنو رقیب کیوں بن رہے ہو۔ اس بیچاری نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ ارشد نے جواب دیا کہ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا تم فلاں وقت پر مجھ سے ملنے آجانا۔ اس دھو کے باز کے سارے کرتوت تم کو معلوم ہو جائیں گے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اگلے روز علی کا صفیہ کے مکان کی طرف نکلنا ہوا۔ یہ رات کا وقت تھا، دیکھا ایک مرد اس کے گھر سے نکل کر جا رہا ہے۔ غور سے دیکھا تو وہ بھی دوست تھا۔ ارشد کا بھی شناسا تھا۔ ثاقب نام تھا۔ اسے دیکھ کر علی رک گیا اور بولا ، یارا دھر کہاں گئے تھے۔ اپنا ٹھکانہ ہے روز ادھر آتا جاتا ہوں کیوں تم کیوں پوچھ رہے ہو۔ ویسے ہی کیونکہ میں دن کو یہاں آتا جاتا ہوں۔ اس پر ثاقب نے صفیہ سے متعلق ایسی باتیں کہیں کہ علی کا خون کھول گیا۔ بات کرتے ہوئے ثاقب بار بار اوپر دیکھ رہا تھا۔
 
 علی کی نظر بھی صفیہ کے مکان کی چھت پر گئی وہاں وہ کھڑی سب کچھ دیکھ رہی تھی تب ہی جلدی سے پیچھے ہوئی ثاقب پوچھنے لگا۔ خیر تو ہے تم یہ باتیں مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو لیکن میرے کزن کا وہ حال کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں بہر حال اسوقت دوست کو ٹال دیا اور صفیہ کا در نہیں بجایا البتہ گھر آ کر کھانا کھایا اور نہ کسی سے بات کی۔ مارے غصے کے اس کو نیند نہیں آئی ۔ رات بھر کا نٹوں پہ لوٹتا رہا ۔ ثاقب سے اس نے مالک مکان کا نمبر لے لیا تھا۔ صبح اٹھ کر اس نے مالک مکان کے نمبر سے صفیہ سے بات کرنا چاہی تو جواب ملا کہ وہ گھر پر موجود نہیں ہے۔ علی کا جی جل کر راکھ ہو گیا۔ اس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ عورت جھوٹ بولنے میں ماہر ہے۔ اگلے روز ارشد آ گیا، بولا ۔ آج شام میر ہے ڈیرے آجانا تمہاری دوست سے ملاقات کروانی ہے۔ مجھ کو سب باتیں معلوم ہو چکی ہیں۔ کل ثاقب ملا تھا اس کے گھر سے نکلتے ہوئے ساری حقیقت کھل گئی ہے لیکن یار افسوس اس بات کا ہے کہ یہ عورت اتنے عرصے مظلوم و بے کس بن کر مجھ سے فائدہ اٹھاتی رہی ہے اور مجھے شک بھی نہ گزرنے دیا۔ خیر وہ کچھ اور بھی راز افشا کرتا رہا مگر علی نے جو آنکھوں سے دیکھ لیا تھا کافی تھا اب اور کیا سنتا ۔

انسان جب کسی پر اندھا اعتماد کرتا ہے پھر دھوکا کھا کر شکوہ کرنے کا حق تو ہوتا ہی ہے۔ اسی سبب وہ بار بار فون کرتا رہا مگر صفیہ جان چکی تھی کہ علی کو ثاقب نے حقیقت بتادی ہے لہذا اس نے ایک بار بھی آکر فون پر بات نہ کی۔ کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ وہ مکان تبدیل کر کے چلی گئی ہے۔ صفیہ کی ایک سہیلی بھی تھی جس کا نام شازیہ تھا۔ وہ علی کی دکان سے سودا لیا کرتی تھی ، ایک روز وہ آئی تو پوچھا۔ کافی عرصہ سے صفیہ سے ملاقات نہیں ہوئی وہ اب دکان پر کیوں نہیں آتی ؟ شازیہ بولی کہ معلوم نہیں۔ کئی روز سے مجھے بھی نہیں ملی، وہ مکان چھوڑ کر چلی گئی ہے۔
 
 نئے مکان کا پتہ معلوم ہے تو بتا دو۔ اس سے ضروری بات کرتی ہے۔ علی نے کافی منت کی لیکن شازیہ نے کچھ نہیں بتایا بلکہ صاف انکار کر گئی کہ مجھے نہیں معلوم ۔ جب علی نے اس کو کافی سامان دیا اور قیمت کم لی تو شازیہ نے آخر کار بتا دیا کہ منع کرگئی ہے کہ کسی بھی حال میں علی کو میرا نیا پتہ نہ بتانا اب تم کہتے ہو تو بتا دیتی ہوں مگر کیا فائدہ ہے تم ہی کو خسارہ ہوگا – شازیہ سچ کہہ رہی تھی لہذا اس نے دوبارہ صفیہ کا پتہ معلوم کرنے پر اصرار نہ کیا بلکہ خدا کا شکر ادا کیا کہ جلد اس دھو کے باز عورت سے نجات مل گئی اس کے فریبی شکنجے سے جان چھوٹ گئی۔ جانے کب تک اور بے وقوف بنتا اور رسوائی الگ ہوئی کیونکہ دکاندار کو اپنی ساکھ پیاری ہوتی ہے ایک بار اگر رسوائی ہو جائے تو پھر کوئی گاہک دکان پر آنا پسند نہیں کرتا۔ یه داستان میرے کزن نے شادی کے بعد سنائی تھی کیونکہ میری شادی علی سے ہوئی ۔ وہ اب میرے شوہر ہیں۔ شادی کے تین سال بعد ہمارے یہاں بچی کی پیدائش ہوئی اور جب بچی چار سال کی ہوئی تو ایک عورت ہمارے گھر آئی ، اس وقت علی گھر پر نہ تھے وہ عورت پریشان اور خستہ حال لگی۔ اپنا نام صفیہ بتایا اور بولی، آپ کے محلے میں گھر لیا ہے۔
 
 میں قاعدہ پڑھاتی ہوں، اگر آپ نے بچی کو پڑھوانا ہو تو روز آجایا کروں۔ میں نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ بے سکون چہرہ اور بے رونق آنکھیں تھیں۔ مجھے اچانک صفیہ کی داستان یاد آ گئی جو علی نے سنائی تھی اور میں نے فورا کہہ دیا کہ نہیں، مجھے اپنی بچی کو قاعدہ نہیں پڑھوانا۔ میں خود اسے پڑھالوں گی۔ جانے کیوں مجھے میری چھٹی حس نے اس وقت یہی کہا کہ ہو نہ ہو، یہ وہی صفیہ ہے اور اب ہے اور اب مدت بعد بہانے سے آئی ہے ۔ یہ پہلے ہمارا گھر دیکھ چکی تھی۔ اس وقت ساس زندہ تھیں وہ ہوتیں تو ضرور پہچان لیتیں۔ 
میری نند بھی اب بیاہی جا چکی تھی ۔۔ خدا جانے یہ وہی تھی یا کوئی اور مصیبت زدہ تھی تا ہم دل پر بوجھ سا آگیا ۔ سوچتی رہی اگر وہ نہ تھی کوئی بدحال غربت کی ماری مصیبت زدہ تھی تو اے کاش اس کی کچھ مدد کر دیتی۔ ہمارے معاشرے میں دھوکے بازی عام ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تلخ تجربے کے بعد ہمارا دل نہیں چاہتا کہ کسی پر بھروسہ کریں۔ مدد کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر پاتے کیونکہ غلط قسم کے لوگ، مستحق لوگوں کیلئے باعث نقصان بن جاتے ہیں ۔ یوں کہنا چاہئے کہ ڈوبتے ہیں تو دوسروں کو بھی لے ڈوبتے ہیں۔ سانچ کو آنچ نہیں غربت میں بھی چاہئے کہ لوگ سیدھے راستے پر چلیں کیونکہ جو سیدھے راستے پر چلتے ہوں اللہ تعالی ضرور ان کی مدد کرتا ہے جبکہ غلط راہوں کے مسافر اپنا سکون عزت اور سب کچھ کھو دیتے ہیں۔ آخر میں خالی دامن رہ جاتے ہیں اور انہیں کچھ نہیں ملتا۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے