ماں کے انتقال کے بعد رشتہ داروں نے میرے والد کی دوسری شادی کروا دی۔ یہ نئی عورت غیر خاندان سے تھی، مزاج میں نخوت اور رویے میں تلخی لیے ہوئے۔ اس نے گھر میں قدم رکھتے ہی ابا کے معاملات پر اپنا اختیار جما لیا اور ہمیں ہمیشہ غصے بھری نظروں سے دیکھتی۔ ان دنوں میری عمر دس سال تھی اور میرا بھائی اختر صرف چھ سال کا تھا۔ ہمارے گھر آنے والی یہ نئی ملکہ کیا ماں جیسا پیار دیتی، الٹا اختر کی ذمہ داری بھی میرے ہی سر آ گئی۔
میں جب تک والد کے گھر رہی، ننھے اختر کو سوتیلی ماں کی سختیوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی۔ لڑکیاں جیسے امربیل کی طرح تیزی سے بڑھتی ہیں، چھ سال پلک جھپکتے گزر گئے اور میری عمر سولہ سال ہو گئی۔ تب والد نے میرا رشتہ اپنے کزن کے بیٹے معظم سے طے کر دیا۔ یوں میں سسرال آ گئی اور سوتیلی ماں کی اذیت سے نجات پر خدا کا شکر ادا کیا، مگر اب اختر کی فکر ستانے لگی۔
سوتیلی ماں دن رات والد کے کان بھرتی کہ لڑکے کی تعلیم پر پیسے برباد نہ کرو، اسے کھیتی باڑی میں لگا دو تاکہ کوئی فائدہ ہو۔ ابتدا میں والد نے اس کی باتوں پر زیادہ توجہ نہ دی، مگر بالآخر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا۔ جب اختر نے آٹھویں کا امتحان دیا، تو والد نے بھی سوتیلی ماں کے دباؤ کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔
ایک روز اختر بخار کی وجہ سے اسکول نہیں گیا۔ ابا شہر گئے ہوئے تھے، واپس آئے تو ماں بولی: جب تم شہر سے باہر جاتے ہو تو یہ لڑکا اسکول سے ناغہ کرلیتا ہے۔ ایسے یہ خاک پڑھے گا؟ اسے پڑھائی سے دلچسپی ہے ہی نہیں۔ ابا نے بیوی کی بات کا یقین کرلیا اور اختر پر بہت غصہ ہوئے۔ اس کے ماتھے کو چھو کر بھی نہیں دیکھا کہ بخار ہے یا نہیں۔ بس اتنا کہا: تم اب اسکول نہیں جاؤ گے، جبکہ ان کے دونوں چھوٹے بیٹے، جو دوسری بیوی سے تھے، اسکول جاتے تھے۔
تب اختر بولا: ابا! دونوں بھائی تو اسکول جاتے ہیں، مجھے بھی پڑھنے دیں۔ اگر آج میری سگی ماں زندہ ہوتی تو کیا آپ مجھے اسکول جانے سے منع کرتے؟ اس پر ابا کو غصہ آگیا اور انہوں نے اختر کو دو تھپڑ جڑ دیئے کہ میرے سامنے زبان چلاتا ہے۔ کدھر ہیں اس کی کتابیں؟ گم کرو ان کو۔ اس پر ماں نے کتابیں کنویں میں پھینک دیں۔ اس روز میرا بھائی خوب رویا اور بغیر سوچے سمجھے گھر سے نکل گیا۔ ان دنوں اس نے آٹھویں پاس کی تھی اور نویں کلاس میں گیا تھا۔ سوائے میرے، اختر کا اس دنیا میں اور کوئی نہ تھا۔ وہ میرے پاس آیا اور تمام احوال سنا کر بولا: مجھے اپنے دوست کے پاس کراچی جانا ہے۔ وہ وہاں ایک مل میں کام کرتا ہے، مجھے بھی نوکری دلوادے گا۔
میں کراچی میں رہ کر نوکری کروں گا اور پڑھتا بھی رہوں گا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ابھی چند دن تم میرے پاس رک جاؤ، تمہارے بہنوئی یہیں تمہارے لیے کوئی بندوبست کردیں گے۔ لیکن وہ بولا: نہیں، اب مجھے یہاں نہیں رہنے دیں گے اور میں ماں کے ظلم و ستم سے تنگ آچکا ہوں۔ ابا بھی وہی زبان بولنے لگے ہیں، جو ماں کہتی ہے۔ ایسا کب تک چلے گا؟ یہ نہ ہو کہ میں کسی روز خودکشی کرلوں یا دریا میں چھلانگ لگا دوں۔ اس کے تیور دیکھ کر ڈر گئی۔ اس کے جانے کا غم تو بہت تھا، مگر اب روک بھی نہیں سکتی تھی، لہذا کچھ رقم دے دی تاکہ بس کا کرایہ بھر سکے۔ رقم پاس ہوگی تو چند دن کا گزارہ کر لے گا۔ کیا خبر، جاتے ہی نوکری نہ ملے۔ رقم لے کر وہ چلا گیا، مگر جلدی میں دوست کا خط اس کی الماری میں رکھا رہ گیا، جس میں اس کا پتہ درج تھا۔ وہ لڑکا کبھی بھائی کے ساتھ ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا، اس کے بعد ماں باپ کے ساتھ کراچی چلا گیا تھا۔
اختر نے کراچی کا ٹکٹ خریدا اور ریل میں بیٹھ گیا۔ جیب میں میری دی ہوئی چند سو روپے کی رقم تھی۔ جب وہ کراچی کینٹ اسٹیشن پر اترا تو اچانک یاد آیا کہ جلدی میں وہ خط تو لے کر ہی نہیں آیا جس میں دوست کا پتہ لکھا ہوا تھا۔ اب سوچ میں پڑ گیا کہ کہاں جائے؟ شہر میں کوئی جان پہچان نہیں تھی، صرف اتنا یاد تھا کہ دوست نے خط کے لفافے پر "ناظم آباد" لکھا تھا، مگر مکان کا نمبر وغیرہ یاد نہیں رہا۔ ایک ٹیکسی والے کو کہا کہ اسے ناظم آباد لے جائے۔
رستے میں ٹیکسی ڈرائیور نے باتوں باتوں میں سمجھ لیا کہ یہ لڑکا پہلی بار شہر آیا ہے اور اسے راستوں کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ ناظم آباد چورنگی پر اس نے ٹیکسی روک دی اور کہا: "یہاں اتر جاؤ، ناظم آباد آ گیا ہے"۔ پھر اضافی کرایے کا مطالبہ کیا۔ اختر بولا: "لالہ جی، آپ تو بہت زیادہ مانگ رہے ہیں"۔ اتنا کہنا تھا کہ ڈرائیور کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا اور اس نے اختر کی جیب سے بٹوہ چھین کر بھاگ گیا۔ اختر بے چارہ بے بس کھڑا دیکھتا رہ گیا، اور سمجھ ہی نہ سکا کہ یہ سب کیسے ہوا۔ وہ وہاں کھڑا، ہونقوں کی طرح، خالی جیب اور مایوسی کے ساتھ رہ گیا۔
اسی حالت میں وہ دو گھنٹے تک ایک درخت سے ٹیک لگا کر کھڑا رہا۔ کچھ دیر بعد ایک سیٹھ نے اسے دیکھا اور پوچھا: "میں جب اپنی گاڑی یہاں پارک کرکے گیا تھا تو تم یہیں کھڑے تھے، اب آیا ہوں تو بھی یہیں کھڑے ہو، کیا بات ہے؟" اختر نے مختصراً اپنا حال سنایا۔ سیٹھ نے اس کی بات سن کر اسے گاڑی میں بٹھایا اور اپنے گھر لے آیا۔ اسے کپڑے اور کھانا دیا اور اس کے بعد گفتگو شروع کی۔ سوالات کا سلسلہ چلتا رہا، سیٹھ پوچھتا اور اختر جواب دیتا رہا۔ آخرکار سیٹھ نے سمجھایا: "بیٹا، تم ابھی کم عمر ہو، شہر کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور یہاں کوئی جان پہچان بھی نہیں۔ بہتر ہے کہ تم کچھ وقت میرے پاس رہ جاؤ۔"
سیٹھ منان کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ اختر ان کے گھر میں رہنے لگا۔ سیٹھ صاحب کا کاروبار اچھا چل رہا تھا، مالی حالات مستحکم تھے، اور گھر کے سب افراد دین دار اور نماز روزے کے پابند تھے۔ اختر کو چند دنوں میں پرکھنے کے بعد سیٹھ منان نے اسے اپنایا، اور اختر ان کے ساتھ خوشی سے رہنے لگا۔ سیٹھ صاحب کا بڑا بیٹا لندن میں پڑھ رہا تھا، اور باقی بچے بھی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ صبح سب اسکول چلے جاتے تو اختر کو اپنے اسکول کے دن یاد آتے۔
اختر کا گھر میں کام بس اتنا تھا کہ وہ ڈرائیور کے ساتھ سبزی منڈی جاتا، دکان سے کچھ چیزیں لے آتا، اور ہلکا پھلکا کام کر دیتا۔ مگر وہ اسے نوکری نہیں سمجھتا تھا، اور گھر والوں نے بھی کبھی اسے نوکر نہیں سمجھا۔ اسی لیے اس نے تنخواہ کا کبھی مطالبہ نہیں کیا، اور سیٹھ صاحب نے بھی کبھی تنخواہ نہیں دی۔ تین سال تک اختر ان کے ساتھ رہا، ڈرائیونگ بھی سیکھ لی، اور گھر میں آنے والے ماسٹر سے پڑھنا شروع کیا۔ یوں اس نے میٹرک کا امتحان پرائیویٹ دیا اور پاس کر لیا۔
اختر مجھے خط لکھتا رہتا تھا، کیونکہ جاتے وقت میں نے اس سے وعدہ لیا تھا کہ جہاں بھی رہو، مجھے باقاعدگی سے خط لکھتے رہو تاکہ مجھے تمہاری خیریت معلوم ہو۔ ایک روز جب میں بیمار ہوئی، تو اسے خط میں لکھ دیا کہ طبیعت خراب ہے، آ کر مل جاؤ، میں تمہارے لیے بہت اداس ہوں۔ اختر نے یہ خط سیٹھ کو دکھایا، جس پر سیٹھ نے نہ صرف اسے چھٹی دے دی بلکہ تین سال کی جمع شدہ تنخواہ بھی کپڑوں کے ایک سوٹ کیس کے ساتھ دے کر اسے رخصت کیا۔
گاؤں پہنچتے ہی اختر سیدھا میرے پاس آیا۔ اب وہ ماشاءاللہ جوان ہو گیا تھا۔ ایک ماہ کی چھٹی لے کر آیا تھا، مگر دو ماہ رک گیا۔ سیٹھ کے خط آنے لگے کہ بیٹا، واپس آ جاؤ، کیوں نہیں آتے؟ اگر کوئی مسئلہ ہے تو لکھو۔
ہمارے گاؤں میں ایک شخص بے روزگار لوگوں کو بیرون ملک بھیجتا تھا۔ بھائی نے اس سے بات کی۔ اس نے مقررہ رقم لے کر اختر کو سعودی عرب بھیج دیا۔ سعودی عرب جانے کے بارے میں سیٹھ اور اس کے گھر والے بے خبر تھے۔ اکثر ان کے خط بھائی کے نام آتے تو میرے شوہر خطوط کو اختر کو بھجوا دیتے تھے۔ اختر ان خطوط کا جواب نہ دیتا کیونکہ اب اسے ان لوگوں سے شرم آتی تھی کہ بغیر بتائے جاکر ان سے دغا کی تھی۔ کچھ عرصہ بعد آخرکار ان کو خط لکھ ہی دیا کہ کمانے کی خاطر وہ دیارِ غیر میں ہے، لیکن اطلاع نہیں دے سکا، اس کے لیے معافی کا خواستگار ہے۔ اس خط کا جواب سیٹھ کے بیٹے کی طرف سے آیا تو اختر کے دل پر قیامت گزر گئی کیونکہ سیٹھ کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا تھا اور کاروبار پر اس کے پارٹنر نے قبضہ کرلیا تھا۔
اختر نے کراچی کا ٹکٹ خریدا اور ریل میں بیٹھ گیا۔ جیب میں میری دی ہوئی چند سو روپے کی رقم تھی۔ جب وہ کراچی کینٹ اسٹیشن پر اترا تو اچانک یاد آیا کہ جلدی میں وہ خط تو لے کر ہی نہیں آیا جس میں دوست کا پتہ لکھا ہوا تھا۔ اب سوچ میں پڑ گیا کہ کہاں جائے؟ شہر میں کوئی جان پہچان نہیں تھی، صرف اتنا یاد تھا کہ دوست نے خط کے لفافے پر "ناظم آباد" لکھا تھا، مگر مکان کا نمبر وغیرہ یاد نہیں رہا۔ ایک ٹیکسی والے کو کہا کہ اسے ناظم آباد لے جائے۔
رستے میں ٹیکسی ڈرائیور نے باتوں باتوں میں سمجھ لیا کہ یہ لڑکا پہلی بار شہر آیا ہے اور اسے راستوں کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ ناظم آباد چورنگی پر اس نے ٹیکسی روک دی اور کہا: "یہاں اتر جاؤ، ناظم آباد آ گیا ہے"۔ پھر اضافی کرایے کا مطالبہ کیا۔ اختر بولا: "لالہ جی، آپ تو بہت زیادہ مانگ رہے ہیں"۔ اتنا کہنا تھا کہ ڈرائیور کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا اور اس نے اختر کی جیب سے بٹوہ چھین کر بھاگ گیا۔ اختر بے چارہ بے بس کھڑا دیکھتا رہ گیا، اور سمجھ ہی نہ سکا کہ یہ سب کیسے ہوا۔ وہ وہاں کھڑا، ہونقوں کی طرح، خالی جیب اور مایوسی کے ساتھ رہ گیا۔
اسی حالت میں وہ دو گھنٹے تک ایک درخت سے ٹیک لگا کر کھڑا رہا۔ کچھ دیر بعد ایک سیٹھ نے اسے دیکھا اور پوچھا: "میں جب اپنی گاڑی یہاں پارک کرکے گیا تھا تو تم یہیں کھڑے تھے، اب آیا ہوں تو بھی یہیں کھڑے ہو، کیا بات ہے؟" اختر نے مختصراً اپنا حال سنایا۔ سیٹھ نے اس کی بات سن کر اسے گاڑی میں بٹھایا اور اپنے گھر لے آیا۔ اسے کپڑے اور کھانا دیا اور اس کے بعد گفتگو شروع کی۔ سوالات کا سلسلہ چلتا رہا، سیٹھ پوچھتا اور اختر جواب دیتا رہا۔ آخرکار سیٹھ نے سمجھایا: "بیٹا، تم ابھی کم عمر ہو، شہر کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور یہاں کوئی جان پہچان بھی نہیں۔ بہتر ہے کہ تم کچھ وقت میرے پاس رہ جاؤ۔"
سیٹھ منان کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ اختر ان کے گھر میں رہنے لگا۔ سیٹھ صاحب کا کاروبار اچھا چل رہا تھا، مالی حالات مستحکم تھے، اور گھر کے سب افراد دین دار اور نماز روزے کے پابند تھے۔ اختر کو چند دنوں میں پرکھنے کے بعد سیٹھ منان نے اسے اپنایا، اور اختر ان کے ساتھ خوشی سے رہنے لگا۔ سیٹھ صاحب کا بڑا بیٹا لندن میں پڑھ رہا تھا، اور باقی بچے بھی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ صبح سب اسکول چلے جاتے تو اختر کو اپنے اسکول کے دن یاد آتے۔
اختر کا گھر میں کام بس اتنا تھا کہ وہ ڈرائیور کے ساتھ سبزی منڈی جاتا، دکان سے کچھ چیزیں لے آتا، اور ہلکا پھلکا کام کر دیتا۔ مگر وہ اسے نوکری نہیں سمجھتا تھا، اور گھر والوں نے بھی کبھی اسے نوکر نہیں سمجھا۔ اسی لیے اس نے تنخواہ کا کبھی مطالبہ نہیں کیا، اور سیٹھ صاحب نے بھی کبھی تنخواہ نہیں دی۔ تین سال تک اختر ان کے ساتھ رہا، ڈرائیونگ بھی سیکھ لی، اور گھر میں آنے والے ماسٹر سے پڑھنا شروع کیا۔ یوں اس نے میٹرک کا امتحان پرائیویٹ دیا اور پاس کر لیا۔
اختر مجھے خط لکھتا رہتا تھا، کیونکہ جاتے وقت میں نے اس سے وعدہ لیا تھا کہ جہاں بھی رہو، مجھے باقاعدگی سے خط لکھتے رہو تاکہ مجھے تمہاری خیریت معلوم ہو۔ ایک روز جب میں بیمار ہوئی، تو اسے خط میں لکھ دیا کہ طبیعت خراب ہے، آ کر مل جاؤ، میں تمہارے لیے بہت اداس ہوں۔ اختر نے یہ خط سیٹھ کو دکھایا، جس پر سیٹھ نے نہ صرف اسے چھٹی دے دی بلکہ تین سال کی جمع شدہ تنخواہ بھی کپڑوں کے ایک سوٹ کیس کے ساتھ دے کر اسے رخصت کیا۔
گاؤں پہنچتے ہی اختر سیدھا میرے پاس آیا۔ اب وہ ماشاءاللہ جوان ہو گیا تھا۔ ایک ماہ کی چھٹی لے کر آیا تھا، مگر دو ماہ رک گیا۔ سیٹھ کے خط آنے لگے کہ بیٹا، واپس آ جاؤ، کیوں نہیں آتے؟ اگر کوئی مسئلہ ہے تو لکھو۔
ہمارے گاؤں میں ایک شخص بے روزگار لوگوں کو بیرون ملک بھیجتا تھا۔ بھائی نے اس سے بات کی۔ اس نے مقررہ رقم لے کر اختر کو سعودی عرب بھیج دیا۔ سعودی عرب جانے کے بارے میں سیٹھ اور اس کے گھر والے بے خبر تھے۔ اکثر ان کے خط بھائی کے نام آتے تو میرے شوہر خطوط کو اختر کو بھجوا دیتے تھے۔ اختر ان خطوط کا جواب نہ دیتا کیونکہ اب اسے ان لوگوں سے شرم آتی تھی کہ بغیر بتائے جاکر ان سے دغا کی تھی۔ کچھ عرصہ بعد آخرکار ان کو خط لکھ ہی دیا کہ کمانے کی خاطر وہ دیارِ غیر میں ہے، لیکن اطلاع نہیں دے سکا، اس کے لیے معافی کا خواستگار ہے۔ اس خط کا جواب سیٹھ کے بیٹے کی طرف سے آیا تو اختر کے دل پر قیامت گزر گئی کیونکہ سیٹھ کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا تھا اور کاروبار پر اس کے پارٹنر نے قبضہ کرلیا تھا۔
ان کے گھر والے سب اچانک بہت سی مالی پریشانیوں میں گھر گئے تھے۔ اختر نے خط پڑھا تو تڑپ کر رہ گیا۔ اس کو اجنبی شہر میں سہارا دینے والے آج مشکلات کا شکار تھے اور وہ ان سے کوسوں دور، دو بول تسلی کے بھی نہ دے سکتا تھا۔ اختر وہاں جس شخص کے پاس ڈرائیور تھا، اس نے دیانت سے کام کرنے پر اختر کو اپنا بیٹا بنالیا تھا۔ بھائی نے اُسے بتایا کہ اس کے محسن کا کنبہ پریشانیوں میں گھرا ہے اور وہ ان کی مالی مدد کرنا چاہتا ہے، تو اس کے کفیل نے اس کی ماہانہ تنخواہ بڑھا دی اور کہا کہ تم ابھی جاؤ مت، یہاں سے ان کی مالی مدد کرتے رہو۔ پس پھر وہ تنخواہ کا بیشتر حصہ سیٹھ کی بیوی کو بھیجنے لگا، جس کو وہ ماں کہتا تھا۔ یہ رقم بھیج کر اختر کو بہت خوشی ہوتی۔ دلی سکون اور طمانیت ملتی تھی کہ وہ مرحوم کے گھر رقم بھیج کر احسان کا بدلہ چکا سکتا ہے۔ اُسے لگتا، جیسے وہ یہ رقم اپنے ہی گھر والوں کو بھیج رہا ہے۔
جلد ہی سیٹھ کا بڑا لڑکا لندن سے تعلیم مکمل کر کے لوٹ آیا اور اپنے وطن میں اُسے ایک غیر ملکی کمپنی میں اعلیٰ عہدہ مل گیا، یوں اس کنبے کے گرتے ہوئے حالات سنبھل گئے۔ جب اختر چھٹی لے کر پاکستان آیا تو سب سے پہلے سیٹھ کے گھر گیا۔ انہوں نے ایک بیٹے کی طرح اُسے گلے لگایا۔ سیٹھ کی بیوی نے کہا، اختر بیٹے، اگر تم بروقت ہماری مدد نہ کرتے تو میرے بچے اپنی تعلیم مکمل نہ کرپاتے۔ خیر، اختر سمجھتا تھا کہ اس نے تو اپنا فرض پورا کیا ہے کیونکہ ان لوگوں نے بھی تو اجنبی شہر میں اس کو اس وقت اپنے گھر میں رکھا تھا، جب نہ اس کا رہنے کا ٹھکانہ تھا اور نہ کوئی دوسرا آسرا تھا۔ انہوں نے بغیر کسی واقفیت اور ضمانت کے اس پر اعتبار کرلیا تھا۔ اُن لوگوں نے اختر کو اپنے پاس روک لیا کیونکہ اب بھی ان کو اس کی بہت ضرورت تھی۔
وہی ان کے گھر کی دیکھ بھال کرتا اور ڈرائیوری بھی کرتا تھا۔ سیٹھ کی بیوی اکثر اس سے کہتی کہ بیٹا اختر! ماں باپ کا حق بہت ہوتا ہے۔ تم اتنے نیک ہو کہ ہم غیروں کو ماں باپ سمجھا اور اولاد جیسا حق ادا کیا۔ تمہیں چاہئے کہ اب اپنے اصل ماں باپ کا بھی حق ادا کرو اور دیر نہ کرو۔ بزرگوں کی زندگی کا کیا بھروسہ، بعد میں انسان کو پچھتانا پڑتا ہے۔ اس نے کچھ اس طرح سمجھایا کہ بھائی والد کے گھر جانے پر رضامند ہو گیا۔ اس کا دل گرچہ اب بھی وہاں جانے پر راضی نہ تھا، پھر بھی اس خاتون کے کہنے سننے پر وہ گاؤں آگیا۔ ایک مدت بعد بابا سے ملنے گھر پہنچا تو ان کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ باپ ضعیف ہوچکا تھا اور ماں بھی پہلے جیسی نہ رہی تھی۔ باپ دیکھ کر رونے لگے اور سوتیلی نے گلے لگایا۔ اس کا جی نہ چاہتا تھا سوتیلی ماں کے گلے لگے، مگر مجبوراً چپ رہا۔
یہاں گھریلو مالی حالات بہت خراب تھے۔ باپ کی دکان بند ہوچکی تھی، زمین بھی بیٹوں نے تھوڑی تھوڑی کر کے بیچ دی اور روپیہ بزنس کے شوق میں ٹھکانے لگا دیا۔ دونوں ہی لڑکے نافرمان نکلے۔ باپ کا یہ حال دیکھ کر اختر کو دوبارہ جهد لوٹنا پڑا۔ اب وہ آدھی سے زیادہ تنخواہ گھر بھجوانے لگا تاکہ ان کے گھریلو اخراجات کے علاوہ باپ کا علاج بھی ہوسکے۔ دو سال بعد اسے چھٹی ملی تو وہ اس وجہ سے گھر لوٹا کہ باپ بیمار ہے اور چھوٹے بھائیوں کے حالات بھی دیکھنے ہیں۔ کب تک وہ نکمے پھریں گے؟ ان کو کوئی دکان ہی ڈال دے، تو والدین کے لئے روزی روٹی کا کوئی ذریعہ بنے۔ گھر آیا تو پتا چلا کہ حالات اور بگڑ چکے ہیں۔ جو جمع پونجی بچائی تھی، اس سے دونوں سوتیلے بھائیوں کو دکان لے کر دی اور سامان بھی ڈال دیا۔ ایک ماہ کی چھٹی بڑھا لی اور باپ کا علاج معالجہ کرانے لگا۔
ابا کے گھر کے قریب ہماری سگی والدہ کی خالہ زاد بہن، نسرین خالہ رہتی تھیں، جن کا ہم سے خاص انس تھا، اسی وجہ سے اختر بھی ان سے مانوس تھا اور اکثر ان کے گھر جانے لگا۔ ان کی بیٹی، ثانیہ، جو اختر کی ہم عمر تھی، اس سے دوستی گہری ہوگئی اور آہستہ آہستہ دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کرنا شروع کر دیا۔ نسرین خالہ نے بھی بیٹی کے جھکاؤ کو محسوس کیا اور سوچا کہ اختر برا لڑکا نہیں ہے، کماتا بھی ہے اور ہے بھی اپنا۔ چنانچہ انہوں نے اختر سے کہا، "بیٹے، مجھے پسند کی شادی پر اعتراض نہیں، ہم تو ویسے بھی ایک ہی خاندان سے ہیں۔ تم اپنے والدین کو لے آؤ اور ثانیہ کے ساتھ منگنی کرلو تاکہ کوئی باتیں نہ بنائے۔"
اختر نے گھر جا کر والدین سے بات کی۔ سوتیلی ماں نے اوپر اوپر سے تو خوشی کا اظہار کیا مگر ابا سے نجانے کس طرح بات کی کہ وہ نسرین خالہ کا نام سنتے ہی آگ بگولا ہوگئے۔ اختر کو سخت سست سنائی اور کہا، "گھر آتے ہی محلے میں عشق لڑانے لگے ہو؟ اگر شادی کرنی ہے تو ہم سے کہو، میں تمہاری شادی مسعودہ سے کرادوں گا، جو تمہاری ماں کی بھانجی ہے۔ بس، یہی میرا آخری فیصلہ ہے۔"
یوں ایک طرف میں اور اختر تھے، اور دوسری طرف ابا، جبکہ ماں نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ اختر نے مجھ سے مشورہ کیا، میں نے کہا، "بھائی، ماں اور ابا کے اپنے مفادات ہیں، تم ان کی مالی مدد کرتے رہو مگر شادی اپنی پسند سے کرو۔ میں اور تمہارے بہنوئی تمہارا رشتہ لے کر جائیں گے اور خالہ کو راضی کر لیں گے۔" میں نے اپنے شوہر سے بات کی، انہوں نے کہا، "میں تمہارے والد سے بات کروں گا، امید ہے انہیں منا لوں گا۔"
شوہر ابا سے بات کرنے گئے مگر سوتیلی ماں ان کے پاس سے نہ ہٹی، اور یوں وہ پوری بات نہ کر سکے۔ ابا نسرین خالہ کا نام سنتے ہی ناراض ہوگئے اور کہنے لگے، "اختر کی شادی تو میری بیوی کی بھانجی سے ہی ہوگی، یہ میرا آخری فیصلہ ہے، دوبارہ مجھے سمجھانے کی ضرورت نہیں۔" جب شوہر نے مجھے یہ حال سنایا، میں بہت افسردہ ہوگئی۔ تب انہوں نے کہا، "میں تمہارے بھائی کی سول میرج کرا دیتا ہوں۔ تم اس معاملے سے الگ رہنا، لڑکی نکاح کے بعد اپنے والدین کے گھر ہی رہے گی، جب تک اختر سعودی عرب سے اس کے ویزے کا انتظام نہیں کر لیتا، یہ بات راز ہی رکھنی ہوگی۔"
اسی طرح کیا گیا۔ دوستوں کی مدد سے اختر اور ثانیہ کا نکاح ہوگیا، اور اختر نکاح کے بعد سعودی عرب روانہ ہوگیا تاکہ وہاں سے ویزا اور قانونی کاغذات بنوا سکے۔ مجھے معلوم تھا کہ میں نے ابا کی رضا کے بغیر یہ قدم اٹھایا ہے، بے شک لوگ مجھے نافرمان اور اختر کو ناخلف کہیں، مگر میں نے اپنے بھائی کی خوشی کے لیے یہی فیصلہ کیا۔ اختر کو اپنی زندگی کی حقیقی خوشی ملی تھی، جو اس کا حق تھا۔
کافی مدت تک ابا اختر سے ناراض رہے، مگر بعد میں راضی ہوگئے۔ البتہ سوتیلی ماں کے دل پر کیا گزری، اس کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتی۔
ابا کے گھر کے قریب ہماری سگی والدہ کی خالہ زاد بہن، نسرین خالہ رہتی تھیں، جن کا ہم سے خاص انس تھا، اسی وجہ سے اختر بھی ان سے مانوس تھا اور اکثر ان کے گھر جانے لگا۔ ان کی بیٹی، ثانیہ، جو اختر کی ہم عمر تھی، اس سے دوستی گہری ہوگئی اور آہستہ آہستہ دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کرنا شروع کر دیا۔ نسرین خالہ نے بھی بیٹی کے جھکاؤ کو محسوس کیا اور سوچا کہ اختر برا لڑکا نہیں ہے، کماتا بھی ہے اور ہے بھی اپنا۔ چنانچہ انہوں نے اختر سے کہا، "بیٹے، مجھے پسند کی شادی پر اعتراض نہیں، ہم تو ویسے بھی ایک ہی خاندان سے ہیں۔ تم اپنے والدین کو لے آؤ اور ثانیہ کے ساتھ منگنی کرلو تاکہ کوئی باتیں نہ بنائے۔"
اختر نے گھر جا کر والدین سے بات کی۔ سوتیلی ماں نے اوپر اوپر سے تو خوشی کا اظہار کیا مگر ابا سے نجانے کس طرح بات کی کہ وہ نسرین خالہ کا نام سنتے ہی آگ بگولا ہوگئے۔ اختر کو سخت سست سنائی اور کہا، "گھر آتے ہی محلے میں عشق لڑانے لگے ہو؟ اگر شادی کرنی ہے تو ہم سے کہو، میں تمہاری شادی مسعودہ سے کرادوں گا، جو تمہاری ماں کی بھانجی ہے۔ بس، یہی میرا آخری فیصلہ ہے۔"
یوں ایک طرف میں اور اختر تھے، اور دوسری طرف ابا، جبکہ ماں نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ اختر نے مجھ سے مشورہ کیا، میں نے کہا، "بھائی، ماں اور ابا کے اپنے مفادات ہیں، تم ان کی مالی مدد کرتے رہو مگر شادی اپنی پسند سے کرو۔ میں اور تمہارے بہنوئی تمہارا رشتہ لے کر جائیں گے اور خالہ کو راضی کر لیں گے۔" میں نے اپنے شوہر سے بات کی، انہوں نے کہا، "میں تمہارے والد سے بات کروں گا، امید ہے انہیں منا لوں گا۔"
شوہر ابا سے بات کرنے گئے مگر سوتیلی ماں ان کے پاس سے نہ ہٹی، اور یوں وہ پوری بات نہ کر سکے۔ ابا نسرین خالہ کا نام سنتے ہی ناراض ہوگئے اور کہنے لگے، "اختر کی شادی تو میری بیوی کی بھانجی سے ہی ہوگی، یہ میرا آخری فیصلہ ہے، دوبارہ مجھے سمجھانے کی ضرورت نہیں۔" جب شوہر نے مجھے یہ حال سنایا، میں بہت افسردہ ہوگئی۔ تب انہوں نے کہا، "میں تمہارے بھائی کی سول میرج کرا دیتا ہوں۔ تم اس معاملے سے الگ رہنا، لڑکی نکاح کے بعد اپنے والدین کے گھر ہی رہے گی، جب تک اختر سعودی عرب سے اس کے ویزے کا انتظام نہیں کر لیتا، یہ بات راز ہی رکھنی ہوگی۔"
اسی طرح کیا گیا۔ دوستوں کی مدد سے اختر اور ثانیہ کا نکاح ہوگیا، اور اختر نکاح کے بعد سعودی عرب روانہ ہوگیا تاکہ وہاں سے ویزا اور قانونی کاغذات بنوا سکے۔ مجھے معلوم تھا کہ میں نے ابا کی رضا کے بغیر یہ قدم اٹھایا ہے، بے شک لوگ مجھے نافرمان اور اختر کو ناخلف کہیں، مگر میں نے اپنے بھائی کی خوشی کے لیے یہی فیصلہ کیا۔ اختر کو اپنی زندگی کی حقیقی خوشی ملی تھی، جو اس کا حق تھا۔
کافی مدت تک ابا اختر سے ناراض رہے، مگر بعد میں راضی ہوگئے۔ البتہ سوتیلی ماں کے دل پر کیا گزری، اس کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتی۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے