بیوی کا امتحان

urdu font stories

وہ آج بہت خوش تھا، جتنا کوئی دولہا اپنے نکاح کے دن ہو سکتا ہے۔ اور پھر اس کی بیوی بھی تو اس کی من پسند تھی۔ گاؤں کی حسین ہیر، جسے وہ اڑا کر لے آیا تھا، اور اس کے دوست اس کی قسمت پر رشک کر رہے تھے۔ اسکول جاتی وہ نازک کلی، جو علی کی نظروں کو ایسی بھائی تھی کہ اس کی دنیا ہی الٹ پلٹ ہوگئی تھی۔ پھر بھلا علی کے رشتے سے کس کو انکار ہو سکتا تھا؟ وہ اکلوتا بیٹا تھا، نہ کوئی آگے تھا نہ پیچھے۔ آلو کے چپس کی ریڑھی لگاتا تھا، مگر اس کی شکل صورت بھی خاصی اچھی تھی۔ عمر 27 سال تھی، پری گل سے 10 سال بڑا تھا، مگر یہ تو معمولی بات تھی۔ اور پھر پری گل کی ماں کو بھی بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟ ساتھ ہی بیٹی کا بوجھ کم ہوتا۔ فوراً ہاں کر دی اور ہفتے کے اندر رخصتی کر کے بیاہ دی۔

میدے اور سندور جیسی رنگت، بڑی سیاہ آنکھوں اور معصومیت بھری مسکان کے ساتھ آج پری گل کا حسن دلکش تھا۔ بوسکی کی قمیض، گلے میں اجرک، اور بڑی بڑی مونچھوں کو بل دیتا علی، دوستوں کے جھرمٹ میں فخریہ سینہ تان کر بیٹھا تھا۔ "یار، بھابی تو بڑی خوبصورت ہے!" ایک نے کندھے پر ہاتھ مار کر تعریف کی۔ علی مونچھوں تلے ہنسا، لیکن دوسرا دوست بولا، "دیکھو، تمہیں بہت محتاط رہنا ہوگا۔ یہ سوہنی کڑیاں بڑی اڑیل ہوتی ہیں۔" تیسرا دوست بولا، "اور بے وفا بھی۔ میں کہتا ہوں، پہلے دن سے قابو میں رکھنا۔" علی کو یہ باتیں ناگوار گزریں، مگر اس نے کچھ نہیں کہا اور اٹھ کر چلا گیا۔

پری گل نئی نویلی دلہن کی طرح گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے میں مشغول ہوگئی تھی۔ علی نے اس پر سختی سے پابندیاں لگا دی تھیں کہ کبھی بیکار بیٹھنے نہ پائے۔ گھر کا ہر کونا شیشے کی طرح چمکنا چاہیے اور اسے محنت میں لگا رہنا چاہیے۔ علی نے دیکھتے ہی دیکھتے محسوس کیا کہ پری گل واقعے ہی سیدھی اور معصوم ہے۔ وہ نہ صرف اسے ہر روز اچھا کھانا بنا کر دیتی بلکہ ہر کام کو بھی اپنے ذمے لیتے ہوئے شوق سے کرتی تھی۔ مگر علی کبھی کبھار خود ہی اس کی کوششوں میں کیڑے نکالنے لگتا۔ ایک دن بولا، "نمک زیادہ ہے، تمہارا دھیان کہاں تھا؟" پری گل نے جھجکتے ہوئے جواب دیا، "محلے کی لڑکی سے باتیں کر رہی تھی۔" علی بگڑ گیا اور کہا، "میں نے تمہیں محلے کی لڑکیوں سے باتیں کرنے سے منع کیا تھا۔" پری گل چپ رہی اور علی کا دل بوجھل سا ہوگیا۔

علی روز شام کو چاٹ، سموسے، اور نمکو لے کر آتا اور ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کھاتا، لیکن پری گل کو ہمیشہ بچا کچا ملتا۔ کچھ دن گزرے تو ایک دن پری گل علی کے سامنے آ کھڑی ہوئی، اور بولی، "مجھے ایک طوطا چاہیے، جو سیٹی بجانا اور باتیں کرنا جانتا ہو۔" علی کا دماغ گھوم گیا اور غصے میں اسے ایک تھپڑ مارا۔ اس رات علی کی نظروں میں پری گل کا معصوم چہرہ بار بار گھومتا رہا اور اسے ایک ہی خیال ستانے لگا کہ شاید اب اسے میرے علاوہ کسی اور کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے۔ وہ کسی اور کو سوچنے لگی ہے، مگر کیوں؟

علی کے سخت رویے کی وجہ سے پری گل اس سے خوفزدہ رہنے لگی تھی، مگر وہ خوش تھا کہ اس کا رعب قائم ہوگیا ہے۔ مگر یہ جان نہیں پایا تھا کہ اس کے اس رویے نے اسے اپنے دل سے کتنا دور کر دیا ہے۔ ایک دن علی نے دیکھا کہ پری گل اپنے چوبارے پر کھڑی، ساتھ والے گھر کی منڈیر کی طرف جھک کر اشاروں میں بات کر رہی تھی۔ علی کے دماغ میں شک کے طوفان اٹھنے لگے۔ "تو اب یہ چوری چھپے دوستیاں کر رہی ہے؟" اس نے خود سے کہا۔ جب یقین ہوگیا کہ پری گل گھر آچکی ہے تو علی نے کھانے کے دوران اس سے دن بھر کی روداد پوچھی۔ پری گل نے ہر کام کا ذکر کیا مگر چھت پر جانے کا ذکر نہیں کیا۔ علی کو شک یقین میں بدلنے لگا کہ شاید پری گل اتنی معصوم نہیں جتنا وہ سمجھتا تھا۔

کچھ دن بعد، علی نے اسے رنگے ہاتھوں سیڑھیوں سے اترتے دیکھا، ہاتھ میں ایک رسالہ تھا۔ علی نے جھپٹ کر رسالہ لے لیا اور غصے سے پھاڑ کر پھینک دیا۔ پری گل کانپتی رہی اور علی غصے میں گھر سے نکل گیا۔ اگلے دن اس نے پری گل کو سختی سے کہا، "میرے غیر موجودگی میں کسی سے ملی تو تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا۔" وہ اسے محض ڈرانا چاہتا تھا، لیکن پری گل کے دل میں خوف مزید بڑھ گیا۔
محلے میں ایک دن میلہ لگا اور سہیلیاں پری گل کو لے گئیں۔ میلے میں گھومنے کے بعد جب گھر لوٹیں تو علی صحن میں ٹہل رہا تھا، جیسے اسی کا انتظار کر رہا ہو۔ پری گل مضبوط قدموں سے اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ "کہاں سے آرہی ہو؟" علی نے توقع کے مطابق سوال کیا۔ "میلے میں گئی تھی،" اس نے ہچکچاہٹ کے بغیر جواب دیا۔ علی نے حیرت سے اس کی آنکھوں میں بغاوت کو دیکھا، اور اس لمحے اسے احساس ہوا کہ شاید اس نے خود ہی اپنی محبت کو کھو دیا ہے۔ پری گل کی آنکھوں میں چھپی خود اعتمادی دیکھ کر اسے لگا کہ وہ شکست کھا گیا ہے۔

چند دن بعد، علی کے کاروبار میں پریشانی پیدا ہوگئی۔ اس کے آلو کے چپس بکنا بند ہوگئے تھے کیونکہ کسی نے اس کے چپس کے متعلق افواہ اڑا دی تھی۔ پری گل نے اس سے کہا، "آپ بوائز کالج کے باہر ریڑھی کیوں نہیں لگاتے؟ بلکہ چپس کے ساتھ پکوڑے، سموسے اور چکن رول بھی رکھیں۔" علی کو یہ مشورہ سمجھ آیا اور اس نے فوراً عمل کیا۔ پری گل کی باتوں کو اہمیت دینے لگا، اور اس نے محسوس کیا کہ پری گل اب بہت خوش رہتی ہے اور اسے اپنی پریشانیوں میں مدد دیتی ہے۔

دونوں کے تعلقات میں ایک نئی خوشی اور گرمجوشی آ گئی۔ علی اب اس کی رائے کو اہمیت دینے لگا تھا۔ اس کے لیے تحائف لاتا اور اس کی پرواہ کرتا۔ پری گل کی محبت اور دیکھ بھال سے علی کا دل بھی بدل گیا۔ علی کے دل میں جو شک اور پابندیاں تھیں، ان کی جگہ محبت نے لے لی۔ اس نے محسوس کیا کہ عورت کو محبت کے ذریعے زیر کیا جا سکتا ہے، پابندیاں صرف بغاوت کو جنم دیتی ہیں۔
علی نے کہا، "تم اتنی کیسے بدل گئیں؟ نہ تمہیں سہیلیوں کی ضرورت رہی اور نہ ہی تم میری حکم عدولی کرتی ہو۔" پری گل نے مسکرا کر کہا، "آپ میرے دوست بن گئے ہیں، اور آپ کی محبت نے مجھے بدل دیا ہے۔ پابندیوں اور روک ٹوک سے بغاوت پیدا ہوتی ہے، لیکن محبت سے دل جیتا جا سکتا ہے۔" علی نے خوشی سے کہا، "تو تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟" پری گل مسکرائی اور کہا، "شاید!" علی کو آج یقین ہوگیا کہ پری گل کی محبت نے اسے جیت لیا ہے۔

بادلوں نے چاند سے پہرا ہٹایا تو ستارے بھی کھلکھلا کر مسکرا اٹھے۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے