میں اپنے جیون ساتھی کے ہمراہ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھی۔ ہمارے چار بچے تھے۔ صحن دن بھر ان کی من موہنی چہکاروں سے گونجتا رہتا تھا۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا میرا گھر جو رشک جنت تھا کبھی تنکوں سے بنے آشیانے کی مانند بکھر جائے گا اور میں اس کے نشان ڈھونڈتی رہ جائوں گی۔ سولہ برس کی عمر میں میری شادی سبحان سے ہوئی اور میں اپنے خاوند کے ساتھ گیارہ برس ہی گزار سکی کہ ناگہانی ایسی ایک آندھی چلی جو میری خوشیوں کو خس و خاشاک کی طرح اڑا کر لے گئی۔
سبحان ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھے ، ہم لاہور میں رہا کرتے تھے۔ وہ مجھے ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتے تھے لہٰذا ز یادہ روک ٹوک نہ رکھتے۔ جب چاہتی رشتہ داروں یا پڑوس میں چلی جاتی۔ سبحان نے کبھی منع نہ کیا۔ شاپنگ کیلئے بھی کسی نے نہ پڑوسن کو ساتھ لے لیتی تھی۔ خاوند کا مجھ پر بھروسہ تھا، میرے لئے یہ بات باعث افتخار تھی کہ وہ مجھے کہیں آنے جانے سے نہ روکتے تھے اور شکی انسان نہ تھے تب ہی تو ہمارا گھر رشک جنت تھا۔
مجھے اپنے خاوند سے پیار تھا میں ان سے اور وہ مجھ سے مخلص تھے۔یہی اخلاق تھا جس نے ہمارے گھر آنگن کو خوشیوں کی مہرکار سے مہکا رکھا تھا۔ ایک دن سبحان گھر آئے تو اداس تھے۔ میں نے محسوس کر لیا کوئی غیر معمولی بات ہوئی ہے۔ میں نے انہیں کھانا دیا۔ کچھ دیر انہوں نے آرام کیا پھر میں نے ان سے پریشانی کی وجہ پوچھی کہنے لگے۔ میرا تبادلہ اسلام آباد ہو گیا ہے لیکن تم کو اور بچوں کو ساتھ نہیں لے جاسکتا وہاں فی الحال رہائش کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ سوچتا ہوں تم یہاں اکیلی کیسے رہو گی ؟ بس اتنی سی بات ہے اور آپ اس قدر پریشان ہیں یہ محلہ میرے لئے اجنبی نہیں ہے یہ ہمارا آبائی گھر ہے۔ برسوں سے یہ لوگ ہمارے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو جانتا ہے۔ پڑوسی دکھ سکھ میں کام آنے والے لوگ ہیں مجھے یہاں کسی بات کا ڈر نہیں ہے۔ آپ سکون سے اسلام آباد جائے ، رہائش کا بند و بست جلد کر کے ہم کو لے جائے گا۔ یہ تو ٹھیک ہے لیکن بچے چھوٹے ہیں، چار بچوں کا ساتھ ہے ان کے کئی مسئلے مسائل ہوتے ہیں۔
سوچ رہا ہوں کچھ دنوں کیلئے تم لوگوں کو گائوں اپنے بڑے بھائی کے پاس شفٹ کرادوں۔ ایسانہ کریں… اپنے گھر کے سوا مجھے اور بچوں کو کہیں چین وسکون نہیں ملے گا۔ بڑے دونوں اسکول جاتے ہیں، گائوں میں کیسے پڑھ پائیں گے ؟ وہ گم صم سے رہ گئے پھر کہا اچھا۔ اپنا اور بچوں کا خاص خیال رکھنا، کچھ مشکل محسوس کرو تو اپنے بھائی آفاق کو بلوا لینا وہ تمہارے ساتھ رہ جائے گا۔ جب تک کہ وہاں فیملی کیلئے رہائش کی سہولت نہ مل جائے مجھے تمہاری اور بچوں کی جدائی برداشت کرنا پڑے گی۔ سبحان اسلام آباد چلے گئے اور میں لاہور میں قیام پذیر رہی۔ گھر ذاتی تھا کرایہ وغیرہ کامسئلہ نہ تھا، محلہ دار اچھے تھے۔ سبحان فون پر خیریت دریافت کرتے اور میں ان کو تسلی دیتی کہ فکر نہ کریں ہم کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔ ایک روز چھوٹے بیٹے اشعر کو بخار ہو گیا، میں نے پڑوسن سے کہا کہ میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلو، اشعر کو دکھانا ہے وہ بولی … آج میری بیٹی کے رشتہ کے سلسلے میں کچھ مہمان آرہے ہیں ورنہ ضرور چلتی ۔ تمہارے ساتھ اپنے بیٹے کو بھیج دیتی ہوں۔ اسے لے جائو۔
منان میرے سامنے چھوٹے سے بڑا ہوا تھا اور اب وہ اٹھارہ برس کا تھا۔ اسے چھوٹے بھائی ایسا جانتی تھی۔ میں نے اعتراض نہ کیا اور اس کے ساتھ اشعر کو کلینک دکھانے لے کر چلی گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اشعر کو دیکھا۔ کچھ دوائیاں لکھ دیں اور ہم گھر آنے کیلئے سڑک پر نکلے … اچانک ایک گاڑی وہاں آکر رکی۔ یہ شخص منان کے دوست کا کزن تھا اور منان کو اچھی طرح جانتا تھا۔ اس نے کہا، منان بھائی کیا بات ہے اتنی گرمی میں ادھر کیا کر رہے ہو ؟ اپنی باجی کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس آیا تھا ان کے بچے کو دکھانا تھا۔ ہم سڑک پر ٹیکسی کیلئے کھڑے تھے تب ہی وہ شخص بولا … میری گاڑی میں بیٹھ جائو بھائی میں ادھر ہی جا رہا ہوں۔ منان نے مجھ سے پوچھا۔ اس روز دھوپ تیز تھی۔ سوچا کہ بچے کو تیز بخار ہے ، گاڑی میں ہی چلے جاتے ہیں۔ منان سے کہا، چلو ان کی گاڑی میں ہی چلے جاتے ہیں جلدی پہنچ جائیں گے۔
یوں ہم نے ریاض کی لفٹ قبول کر لی۔ گھر کے قریب پہنچی تو خیال آیا کہ جلدی میں دوائیوں کا نسخہ تو میں ڈاکٹر صاحب کی میز پر ہی بھول آئی ہوں۔ منان واپس ڈاکٹر صاحب کے کلینک جانا ہے۔ میں نسخہ ادھر بھول آئی ہوں۔ منان نے کہا کوئی بات نہیں باجی، میں جا کر لے آتا ہوں۔ نہیں میں ساتھ چلتی ہوں ممکن ہے پرچہ گر گیا ہو تو ڈاکٹر صاحب سے دوبارہ لکھوانا ہو گا۔ میں نے بچہ منان کی گود میں دے کر کہا، ایسا کرو… اشعر کو باجی حمیدہ کو دے دو اور واپس آ جائو۔ ریاض بولا ہاں ہاں … منان بچے کو بخار کی حالت میں دوبارہ لے جانا درست نہیں ہے اس کو گھر میں دے دو۔ ہم دوبارہ ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔ منان اشعر کو بانہوں میں لے کر اتر گیا اور گھر کے اندر چلا گیا۔ میں گاڑی میں بیٹھی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ واپس آکر اورگھر اندر تو ہمارے ساتھ موٹر میں بیٹھتا … ریاض نے گاڑی اسٹارٹ کر دی اور تیزی سے سڑک پر لے آیا۔ میں نے کہا۔ ریاض بھائی یہ آپ کیا کر رہے ہیں منان کو تو آجانے دیں۔ کہنے لگا۔ گاڑی میں پیٹرول ڈلوا لوں پھر اسے بھی لے چلتا ہوں۔ ذرا جلدی ہے کیونکہ چار بجے مجھے پشاور روانہ ہونا ہے۔ اس کے بعد تو گاڑی فراٹے بھر نے لگی۔
یوں ہم نے ریاض کی لفٹ قبول کر لی۔ گھر کے قریب پہنچی تو خیال آیا کہ جلدی میں دوائیوں کا نسخہ تو میں ڈاکٹر صاحب کی میز پر ہی بھول آئی ہوں۔ منان واپس ڈاکٹر صاحب کے کلینک جانا ہے۔ میں نسخہ ادھر بھول آئی ہوں۔ منان نے کہا کوئی بات نہیں باجی، میں جا کر لے آتا ہوں۔ نہیں میں ساتھ چلتی ہوں ممکن ہے پرچہ گر گیا ہو تو ڈاکٹر صاحب سے دوبارہ لکھوانا ہو گا۔ میں نے بچہ منان کی گود میں دے کر کہا، ایسا کرو… اشعر کو باجی حمیدہ کو دے دو اور واپس آ جائو۔ ریاض بولا ہاں ہاں … منان بچے کو بخار کی حالت میں دوبارہ لے جانا درست نہیں ہے اس کو گھر میں دے دو۔ ہم دوبارہ ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔ منان اشعر کو بانہوں میں لے کر اتر گیا اور گھر کے اندر چلا گیا۔ میں گاڑی میں بیٹھی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ واپس آکر اورگھر اندر تو ہمارے ساتھ موٹر میں بیٹھتا … ریاض نے گاڑی اسٹارٹ کر دی اور تیزی سے سڑک پر لے آیا۔ میں نے کہا۔ ریاض بھائی یہ آپ کیا کر رہے ہیں منان کو تو آجانے دیں۔ کہنے لگا۔ گاڑی میں پیٹرول ڈلوا لوں پھر اسے بھی لے چلتا ہوں۔ ذرا جلدی ہے کیونکہ چار بجے مجھے پشاور روانہ ہونا ہے۔ اس کے بعد تو گاڑی فراٹے بھر نے لگی۔
میں نے احتجاج کیا تو اس نے پانی کی بوتل مجھے دی۔ باجی آپ پانی پی لیں۔ گھبرایئے نہیں ابھی واپس چلتے ہیں۔ وہ سامنے گھر سے گاڑی کے کاغذات اٹھانے ہیں ورنہ پشاور جاتے ہوئے رستے میں چالان ہو جائے گا۔ مجھے پیاس لگ رہی تھی۔ میں نے بوتل منہ سے لگا لی۔ اس میں نہ جانے کیا ملا تھا کہ پیتے ہی میں بے ہوش ہو گئی اور جب آنکھ کھلی تو اپنے گھر اور بچوں سے بہت دور آچکی تھی۔ قصہ مختصر ریاض کا تعلق بردہ فروشوں کے گروہ سے تھا اور میں بے وقوف اس کی گاڑی میں اس بھروسے پر بیٹھی رہی کہ یہ منان کا دوست ہے۔ اس نے تو ایسی پھرتی دکھائی کہ منان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ پشاور لا کر ریاض نے جن کے حوالے کیا یہ بہت بے رحم تھے جو اغوا شدہ مردوں … عورتوں اور بچوں کو علاقہ غیر میں لگنے والی انسانوں کی منڈی تک پہنچاتے تھے اور اغوا کنندہ افراد فروخت کر کے دام کھرے کر لیتے تھے۔ یہاں ہر جمعرات کو منڈی لگتی جس میں عور تیں، مرد، بچے، بچیاں فروخت کیلئے لائی جاتی تھیں اور ان کو خرید نے ملک اور بیرون ملک سے لوگ آتے تھے۔ جیسا مال ہوتا تھا ویسے دام لگتے تھے۔
منڈی میں انسانوں کو بکائو مال کی طرح بکتاد یکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ کیا واقعی دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے … اوہ میرے خدا تیری دھرتی پر کیسے کیسے ظلم نہیں ڈھائے جاتے اور انسان پر انسان سے بڑھ کر کسی نے ظلم نہ ڈھایا ہو گا… دولت ایسی بری چیز تو ہے کہ اسے بدترین ذرائع سے حاصل کرنے پر بھی آدمی نہیں شرماتا۔ معصوم بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے بکتا دیکھا۔ ننھی منی بچیاں اپنے پیارے ماں ، باپ اور بہن، بھائیوں سے دور یہاں بیچنے کو لائی جاتی تھیں اور خریدنے والے نہ جانے کس مقصد سے ان معصوم پھولوں کو خرید کر لے جاتے تھے۔ وہ ان لڑکوں کو گویا غلام بناتے تھے اور لڑکیاں بازار حسن کی زینت بنا دی جاتی تھیں۔ ان کے افسردہ اور اداس چہرے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ خرید نے والے پاکستانی بھی تھے اور غیر ملکی بھی۔ خوبصورت نوخیز لڑکیاں تو بیرون ملک کے قحبہ خانوں کیلئے بھی لے جائی جاتی تھیں۔ کچھ لوگ تو بے اولاد ہونے کے باعث بچے گود لینے کی خاطر بھی انہیں خریدنے آئے اور کچھ شادی کیلئے عورت خرید رہے تھے۔ اکثر افراد کو ملازمہ کا مسئلہ مستقل طور پر حل کرنا تھا۔
ایک شخص جس نے میرا سودا طے کیا، لاہور ہی کا ایک امیر آدمی تھا یعنی میرا ہم وطن۔ میں جب اس کے ساتھ گاڑی میں لاہور لے جائی جارہی تھی۔ اس نے رستے میں بتایا۔ شکر کرو کہ ہم تم کو کسی برے مقصد کیلئے نہیں لے جار ہے۔ ہم کو ایک ملازمہ چاہئے جو دن رات ساتھ رہے اور چھوٹے بچوں کی پرورش میں میری بیوی کی مدد کرے۔ بہت ملازمائیں رکھیں لیکن وہ چند دن کام کر کے بھاگ جاتی ہیں اور خدمت گار عورت کا مسئلہ کسی طرح حل نہیں ہوتا تو اب ہم نے مستقل بنیادوں پر اسے حل کرنے کا سوچا۔ کسی نے ہمیں یہاں لگنے والی منڈی کے بارے میں بتایا تھا۔ مجھے خریدنے والے میرے مالک کا نام اسلم بٹ تھا اور یہ خاصا امیر شخص تھا۔ اس کی بیوی کے ہاں حال میں دو جڑواں بچے ہوئے تھے۔
ایک شخص جس نے میرا سودا طے کیا، لاہور ہی کا ایک امیر آدمی تھا یعنی میرا ہم وطن۔ میں جب اس کے ساتھ گاڑی میں لاہور لے جائی جارہی تھی۔ اس نے رستے میں بتایا۔ شکر کرو کہ ہم تم کو کسی برے مقصد کیلئے نہیں لے جار ہے۔ ہم کو ایک ملازمہ چاہئے جو دن رات ساتھ رہے اور چھوٹے بچوں کی پرورش میں میری بیوی کی مدد کرے۔ بہت ملازمائیں رکھیں لیکن وہ چند دن کام کر کے بھاگ جاتی ہیں اور خدمت گار عورت کا مسئلہ کسی طرح حل نہیں ہوتا تو اب ہم نے مستقل بنیادوں پر اسے حل کرنے کا سوچا۔ کسی نے ہمیں یہاں لگنے والی منڈی کے بارے میں بتایا تھا۔ مجھے خریدنے والے میرے مالک کا نام اسلم بٹ تھا اور یہ خاصا امیر شخص تھا۔ اس کی بیوی کے ہاں حال میں دو جڑواں بچے ہوئے تھے۔
اس نے مجھے سمجھا دیا کہ رستے میں شور مچانے کی ضرورت نہیں، ہم تم کو اچھی طرح اور عزت سے رکھیں گے اور تم شکر کرو گی کہ ہم نے تمہیں خریدا ہے تم کسی برے آدمی کا تر نوالہ بننے سے بچ گئی ہو۔ تم بھی پاکستانی ہو اور ہم بھی۔ تم میری ہم وطن ہو اس لئے بہن بنا کر رکھوں گا مگر بھاگنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ دوبارہ وہیں پہنچا دی جائو گی جہاں سے آئی ہو۔ پھر تمہاری قسمت کہ وہاں تم سے کیسا سلوک ہو اور دوبارہ کس قسم کے آدمی کے ہاتھ بیچی جائو۔ میں نے بٹ صاحب کی باتیں غور سے سنیں یہ جان لیا کہ یہ آدمی درست کہہ رہا ہے۔ میری قسمت اچھی تھی جو میں کسی سوڈانی افریقی یا کسی دوسرے غیر ملکی کے ہاتھوں فروخت نہیں ہوئی۔ اپنے وطن میں دوبارہ اپنے بچوں سے ملنے کی ایک آس تو تھی۔ سوچا، ان لوگوں کی خدمت کروں گی کبھی انہیں مجھ پر رحم آجائے گا اور مجھے گھر والوں سے ملنا بھی نصیب ہو جائے گا۔ بٹ کی بیوی مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔
اس کو ایسی خدمت گار چاہئے تھی جو میری جیسی شریف ہو اور بچوں کی پرورش کرنا جانتی ہو۔ اس نے مختصر انٹرویو لیا اور میری بیتا کو سرسری سنا۔ بولی ابھی چند سال تو تم کو اپنا ماضی بھلا کر میرا ساتھ دینا ہو گا جب تک میرے بچے بڑے نہیں ہو جاتے۔ پھر دیکھا جائے گا کہ کیا کرنا ہے۔ اگر تم نے ہمارے ساتھ اچھے طریقے اور ایمانداری سے وقت گزارا تو ضرور کوشش کروں گی کہ تمہارے بچوں سے تمہیں ملوا دوں۔ ابھی فوری طور پر یہ ممکن نہیں ہو گا، تم کو بٹ صاحب نے چار لاکھ میں محض اسلئے خریدا ہے کہ ہم اپنے جڑواں بچے پلوا سکیں۔ تم کہیں ہمارے گھر سے بھاگ نہ جائو۔ اس کے لئے تمہاری کڑی نگرانی رکھی جائے گی۔ چوکیدار تم پر دن رات نظر رکھیں گے اور تم گھر سے باہر قدم نہیں نکالو گی۔ لیکن گھر کے اندر تم کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو گی ، کھانا پینا اور ضرورت کی ہر شے تمہیں ملے گی۔
میں نے جان لیا کہ بیگم کو میری زندگی کے دکھ تکلیفوں، میرے آنسوئوں سے کچھ غرض نہیں تھی۔ ان کو صرف اپنی سہولت آرام اور ضرورت کا خیال تھا۔ انہوں نے بہت اچھی طرح مجھے یہ احساس دلا دیا کہ میں ان کی ایک خریدی ہوئی چیز ہوں۔ ایک لونڈی کنیز . جس کے انہوں نے لاکھوں روپے ادا کئے ہیں۔ اب میرا ان کی قیام گاہ سے ہلنا بھی بغیر ان کی اجازت کے سنگین غلطی ہو گا۔ جس کی سزا کے طور پر وہ مجھے دوبارہ انہی ظالموں کے حوالے کر سکتے تھے جن سے مجھے خریدا تھا۔ وزیرستان کی جانب پاکستان کی آخری چوکی کے بعد سے جو علاقہ شروع ہوتا تھا اور علاقہ غیر کہلاتا تھا، اس جگہ کے تصور سے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔ جہاں پاکستان کے مختلف شہروں اور علاقوں سے اغوا کر دہ انسانوںکے گروہ لا کر انسانی منڈی میں فروخت کئے جاتے تھے۔
بعد میں حساس اداروں کے طفیل اس علاقے کو کنٹرول میں لے کر ان محصور لوگوں کی بڑی تعداد کو تحویل میں لیا گیا اور انہیں آزاد کرایا گیا تھا۔ میں نے بٹ صاحب کی بیگم کے ساتھ اس امر پر سمجھوتہ کر لیا کہ ان کے نوزائیدہ بچوں کی ایک ماں کی طرح خدمت اور دیکھ بھال کروں گی۔ ان کا دل جیت لوں گی تا کہ وہ مجھ پر رحم کھا کر مجھے میرے کنبے سے ملوا دیں۔ وہ میری ہم وطن پاکستانی تھیں سو ، مجھے ان سے اچھی امیدیں تھیں۔ ان کے ایک بچے کی ذمہ داری مکمل طور سے میں نے سنبھال لی اور بچے کو اپنی ممتا کی گود میں بھر لیا۔ بہت محبت سے اٹھاتی۔ دھیان سے دیکھ بھال کرتی۔ وہ بھی مجھ سے خوب ہل گیا۔ مالکن کو یقین آ گیا کہ اچھی اور شریف عورت ہے اور یہ ہم کو دھوکا نہ دے گی۔ ایک بچہ میرے حوالے اور دوسرا ان کے پاس ہوتا۔ مالکن کا خیال ٹھیک تھا میرا ان لوگوں کو دھو کہ دینے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
اس امید کی وجہ سے کہ وہ ایک دن خوش ہو کر مجھے اپنی کڑی قید سے آزاد کر دیں گے۔ میں ان کے گھر کا ایک فرد بن چکی تھی۔ ان کے بچوں کی پیار سے پرورش کر رہی تھی جس کے بدلے وہ بھی مجھ سے اچھا سلوک کرتے تھے تاہم یہ لوگ میری سخت نگرانی کرتے تھے۔ مالکن مجھ پر نگاہ رکھتیں، کہیں میں کسی سے بات نہ کروں۔ مجھے اجازت نہ تھی کہ ان کے گھر سے باہر جھانکوں یا قدم بھی باہر نکالوں۔ گھر آنے والے مہمانوں سے بھی کلام کرنے کی اجازت نہ تھی۔ کتنی بڑی بد نصیبی تھی کہ میرا گھر یہاں سے تھوڑی دور ہی تھا اور میں اپنے گھر نہ جاسکتی تھی نہ کسی کو پیغام بھجوا سکتی تھی اور نہ بچوں سے مل سکتی تھی۔ کبھی کبھی اپنے بچوں کی اس قدر یا دستاتی کہ جی کرتا یہاں سے کسی طرح بھاگ نکلوں۔ بعد میں جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
اس امید کی وجہ سے کہ وہ ایک دن خوش ہو کر مجھے اپنی کڑی قید سے آزاد کر دیں گے۔ میں ان کے گھر کا ایک فرد بن چکی تھی۔ ان کے بچوں کی پیار سے پرورش کر رہی تھی جس کے بدلے وہ بھی مجھ سے اچھا سلوک کرتے تھے تاہم یہ لوگ میری سخت نگرانی کرتے تھے۔ مالکن مجھ پر نگاہ رکھتیں، کہیں میں کسی سے بات نہ کروں۔ مجھے اجازت نہ تھی کہ ان کے گھر سے باہر جھانکوں یا قدم بھی باہر نکالوں۔ گھر آنے والے مہمانوں سے بھی کلام کرنے کی اجازت نہ تھی۔ کتنی بڑی بد نصیبی تھی کہ میرا گھر یہاں سے تھوڑی دور ہی تھا اور میں اپنے گھر نہ جاسکتی تھی نہ کسی کو پیغام بھجوا سکتی تھی اور نہ بچوں سے مل سکتی تھی۔ کبھی کبھی اپنے بچوں کی اس قدر یا دستاتی کہ جی کرتا یہاں سے کسی طرح بھاگ نکلوں۔ بعد میں جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
کیا خبر صحیح سلامت اپنے گھر تک پہنچ ہی جائوں ، اپنے شوہر اور بچوں سے مل جائوں۔ پھر ان عورتوں کے کرب سے بھرے چہرے یاد آجاتے اور ان کی چیخیں کانوں سے ٹکرانے لگتی تھیں جو بھاگنے کی کوشش میں پکڑی گئیں اور دوبارہ بکنے کیلئے وہاں لے جائی گئی تھیں۔ جہاں میں رہتی تھی یہ دو منزلہ گھر تھا۔ اوپر کی منزل میں بٹ صاحب کے سب سے چھوٹے بچے کے ساتھ ہوتی ہوتی تھی۔ ایک شب آدھی رات کو جب میں ان کے بچے کو سینے سے لگارہی تھی۔ دل میں ہوک سی اٹھی اور مجھے اپنے بچوں کی سسکیاں سنائی دینے لگیں… یوں لگا جیسے کہ وہ مجھے یاد کر کے رو رہے ہوں اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر مجھے گھر کےآنگن میں ڈھونڈتے پھرتے ہوں۔ تڑپ کر اٹھ بیٹھی ، اس وقت میری ممتا پوری طرح بیدار ہو چکی تھی۔ بے تابی سے کمرے کے چکر کاٹنے لگی، بٹ صاحب کا بچہ مجھے اپنے ساتھ نہ پاکر کسمسایا اور میرے قدموں کی آہٹ سے بچے کی آنکھ کھل گئی۔
میں نے دوبارہ تھپک کر سلا دیا۔ مین گیٹ سے نکل بھاگنا نا ممکن تھا۔ میں نے کھڑکی سے جھانکا اور بلندی کا اندازہ لگایا۔ میں پچھلی طرف سے نیچے اترنے لگی۔ کھڑکی سے نیچے دیوار پر اینٹیں فاصلے سے اس طرح لگی ہوئیں تھیں کہ ان پر سنبھل کر پیر رکھنے سے نچلی منزل تک جایا جا سکتا تھا۔ ابھی تھوڑا سا فاصلہ زمین سے باقی تھا کہ میرا پیر خلا میں لٹک گیا اور میں دھڑام سے گر گئی۔ دراصل یہاں پہنچ کر اینٹیں ہی ختم ہو گئی تھیں۔ رات کے اندھیرے میں نیچے کی طرف جھانک کر اس بات کا اندازہ نہ کر سکی تھی کہ زمین سے چھ فٹ اوپر اینٹیں نصب نہیں ہیں۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ وہاں چار پائی بچھی ہوئی تھی، میں اس پر جا گری اور مجھے چوٹ نہ آئی۔ تب میں نے دیوار کے ساتھ چار پائی کو کھڑا کر دیا اور اس کی مدد سے پر لے گھر میں کود گئی۔
یہ پڑوسی کا گھر تھا۔ آہٹ پر ان کا نوکر اور اس کی بیوی جاگ گئے۔ وہ دیوار کے قریب عقبی صحن میں چار پائی ڈالے سو رہے تھے۔ انہوں نے مجھے پکڑ لیا، میں نے ہاتھ جوڑے کہ میں چور نہیں ہوں ایک بے بس مظلوم عورت ہوں جو ان لوگوں کی قید میں ہوں … کہا کہ خدارا شور نہ مچائو میں سارا حال بتاتی ہوں۔ میرا احوال سن کر وہ بھی رور ہے تھے اور میں بھی رورہی تھی۔ وہ مجھے سرونٹ کوارٹر میں لے آئے۔ عورت نے اپنے وہ کپڑے دیئے جو میں نے پہن لئے اور اپنا لباس وہاں ہی پھینک دیا۔ انہوں نے مجھے کرایہ بھی دیا۔ راتوں رات میں گھر چلی گئی۔ گھر کو تالا لگا تھا۔ گھر کے باہر بیٹھی رہی، یہاں تک کہ فجر کی اذان سنائی دی۔ ہزاروں آرزوئیں دل میں تھیں۔ خوشی کے آنسو خوف سے مل کر عجب احساس کے ساتھ بہہ رہے تھے۔
یہ پڑوسی کا گھر تھا۔ آہٹ پر ان کا نوکر اور اس کی بیوی جاگ گئے۔ وہ دیوار کے قریب عقبی صحن میں چار پائی ڈالے سو رہے تھے۔ انہوں نے مجھے پکڑ لیا، میں نے ہاتھ جوڑے کہ میں چور نہیں ہوں ایک بے بس مظلوم عورت ہوں جو ان لوگوں کی قید میں ہوں … کہا کہ خدارا شور نہ مچائو میں سارا حال بتاتی ہوں۔ میرا احوال سن کر وہ بھی رور ہے تھے اور میں بھی رورہی تھی۔ وہ مجھے سرونٹ کوارٹر میں لے آئے۔ عورت نے اپنے وہ کپڑے دیئے جو میں نے پہن لئے اور اپنا لباس وہاں ہی پھینک دیا۔ انہوں نے مجھے کرایہ بھی دیا۔ راتوں رات میں گھر چلی گئی۔ گھر کو تالا لگا تھا۔ گھر کے باہر بیٹھی رہی، یہاں تک کہ فجر کی اذان سنائی دی۔ ہزاروں آرزوئیں دل میں تھیں۔ خوشی کے آنسو خوف سے مل کر عجب احساس کے ساتھ بہہ رہے تھے۔
میں نے اجڑی ہوئی دہلیز کو پار کیا مگر وہاں تو دھول اڑ رہی تھی۔صبح کا نور پھیل چکا تھا اور در پر تالا میرا منہ چڑا رہا تھا۔ سبحان اور بچے وہاں نہیں تھے۔ میں نے کلیجہ تھام لیا اور پڑوسن کا در بجایا۔ منان کے والد نے در کھولا ، انہوں نے بتایا کہ جب تمہاری گمشدگی کے بعد سبحان کو فون پر اطلاع دی وہ خود آ گئے۔ ان کے آنے تک منان کی ماں تیرے بچوں کے پاس رہی مگر یہ تو بتا کہ تو اس نامراد ریاض کے ساتھ کیوں بھاگ گئی اپنے شوہر ، گھر اور معصوم بچوں کو چھوڑ کر۔ ہم نے تو تیرے بارے کبھی ایسا سوچا تک نہ تھا۔ چاچا جی میں نہیں بھاگی تھی اس نامراد نے مجھے نہ جانے کیسا پانی پلا کر بے ہوش کیا اور علاقہ غیر لے گیا۔ وہاں مجھے فروخت کر دیا، میں کسی طرح بھی رابطہ نہ کر سکتی تھی۔۔ وہ نے میں وہ مجھے اندر لے گئے۔ بیوی نے نماز ختم کر لی تھی۔ میں نے ان کو بتایا کہ کیا واقعہ ہوا تھا۔ وہ بولیں. بیٹی سجان نے تو یہی سمجھا کہ تو بچے چھوڑ کر بھاگ گئی ہے پھر بھی اس نے تیرا انتظار کیا، بعد میں مایوس ہو کر اپنے بچے لے گیا اور گھر کو تالا لگا گیا۔ تالے کی چابی البتہ ہم کو دے گیا ہے کہ شاید کہ تم لوٹ کر آ جائو۔ میں نے روتے دل کے ساتھ تالا کھولا۔
جہاں آنگن میں دھول اڑ رہی تھی اور مکڑیوں نے کمروں میں جالے تان رکھےتھے۔ گھر کے ایک کونے میں میرے بچوں کے کھلونے پڑے ہوئے تھے۔ جن کی خاطر جان پر کھیل کر بھاگی ان کی صور تیں بھی دیکھنی نصیب نہ ہو سکیں۔ منان کے والد نے سبحان سے رابطہ کیا۔ انہوں نے میری پاک دامنی کا یقین نہ کیا اور کہا کہ آشنا نے چھوڑ دیا ہے تو اب لوٹ کر آ گئی ہے۔ اس کو کہو کہ میرے گھر میں اس کیلئے جگہ نہیں ہے۔ بچوں کی خاطر میں اس کو قبول کر بھی لوں تو میرے والدین، رشتہ دار اور میرا سماج اسے قبول نہیں کرے گا … جہاں سے آئی ہے وہیں چلی جائے۔ صدمے سے اتنی بیمار پڑی کہ موت آنکھوں کے سامنے رقص کرتی نظر آنے لگی۔
خدا ترس لوگوں نے علاج کروایا۔ سب ہی یہی سمجھتے ہیں کہ میں نے شوہر اور بچوں سے بے وفائی کی ہے۔ سبحان نے یہ گھر میرے نام کر دیا تھا۔ آج بھی اسی گھر میں رہتی ہوں اس امید کے ساتھ کہ کبھی سبحان معاف کر دیں اور لوٹ آئیں۔ محلے والوں کے کپڑے سی کر گزارا کرتی ہوں۔ … عورت کی بھی کیا زندگی ہے؟
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے