میری ملازمہ میری سوکن

sublimegate urdu stories


دونوں ماں بیٹیاں رحیم یار خان کے نزدیکی ایک مضافاتی علاقے سے تلاش روزگار کی خاطر کراچی آگئی تھیں۔ ماں کا نام جنت خاتون اور بیٹی کا صفیہ تھا۔ جنت کے نقوش تیکھے تھے لیکن غربت نے اس کے حسن کو نگل لیا تھا۔ اس کا خاوند فالج سے معذور تھا۔اسے اپنے گائوں میں کسی رشتہ دار کے پاس چھوڑ کر آگئی تھی۔ جنت کو شروع میں کوئی کام نہ ملا۔ وہ ایک کچی آبادی میں اپنے دور کے رشتہ دار کے یہاں ٹھہری تھی۔ جلد ہی قریبی چند کو ٹھیوں میں اسے برتن دھونے اور جھاڑو پونچھے کا کام مل گیا۔ یہ دونوں ماں بیٹیاں صبح سویرے گھر سے نکلتیں اور پانچ گھروں میں کام کر کے شام سات بجے گھر لوٹ آتیں۔ فی بنگلہ دو ہزار او سطاً آ جرت ملتی، یوں مہینے کے دس بارہ ہزار کما لیتی تھیں۔

ایک کمرے کا کرایہ 2 ہزار اور پانچ سو بجلی کے بل میں ادا کرنے کے بعد ماہانہ آٹھ ہزار روپے باقی رہ جاتے تھے۔ جنت با قاعدگی سے اپنے شوہر کو گائوں چار ہزار بھجوادیتی۔ باقی رقم گزارے کے لئے کافی ہو جاتی۔ چھ ماہ اسی طرح کام کرنے کے بعد جنت سست پڑ گئی۔ یہ دسمبر کا مہینہ تھا۔ ایک روز اس نے ہمارا د ر کھٹکھٹایا۔ میں لان میں کرسی ڈالے دھوپ سینک رہی تھی۔ ان دنوں ملازمہ کام چھوڑ کر چلی گئی تھی اور کام والی ماسی کی مجھے اشد ضرورت تھی۔ گیٹ کھولا تو لگا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل سے نکلی دعا قبول کر لی ہے، کیونکہ پچھلے پندرہ دن سے گھر میں صفائی نہ ہوئی تھی۔ کھانا پکانے اور برتن دھونے سے ہی ایسی تھکن ہو جاتی کہ نڈھال ہو جاتی۔ باقی کام پڑا رہتا۔ جنت اندر آ گئی۔

 وہ خود تو لا غرسی تھی لیکن اس کی 14 سالہ بیٹی تنومند اور خوبصورت تھی۔ سمجھ گئی تھی ان کو کام کی ضرورت ہے ، پھر بھی آنے کا مقصد دریافت کیا۔ بیگم صاحبہ ہم کو کام چاہئے ، جنت نے کہا۔ کیا کام کرو گی؟ جھاڑو پونچھا، بر تن، کپڑے دھلائی، کھانا بنانا جو کام آپ بتائیں گی کر دیں گے۔ تم تو لا غرسی لگتی ہو، کام کیسے کرو گی۔ کیا بیمار ہو ؟ نہیں بیگم صاحبہ بیمار تو نہیں ہوں، کام کی زیادتی نے یہ حال کر دیا ہے۔ جب گائوں سے آئی تھی تگڑی اور صحت مند تھی۔ کتنے گھروں کا کام پکڑ لیا ہے تم نے۔ پانچ گھروں کا … اب چھٹے گھر کا کرو گی؟ میں نے بے یقینی سے کہا اور وہ بھی اس حالت میں۔ باقی گھروں کا چھوڑ دوں گی اگر آپ اچھی تنخواہ تنخواہ دیں گی۔ ہم بھی گھر ، گھر کام کر کے تھک جاتے ہیں۔

 ہاں … مجھے بھی سارے دن کے لئے کوئی گھریلو ملازمہ چاہئے ۔ کھانا میں خود بناتی ہوں۔ باقی کا سب کام کرنا ہو گا۔ آپ کیا تنخواہ دیں گی ؟ ہم دونوں ماں بیٹیاں کام کریں گی۔ آٹھ ٹھیک ہیں۔ نہیں بیگم صاحب … پانچ گھر چھوڑ کر ایک گھر کا اسی لئے کرنا چاہتی ہوں کہ کم از کم دس ہزار مل جائیں۔ دو ہزار کرایہ اور چار اپنے بیمار شوہر کی دوا کے لئے۔ میرے پلے سے ہر ماہ چلے جاتے ہیں۔ باقی میں گزارا مشکل سے ہوتا ہے ، بڑی مہنگائی ہے۔ ہاں .. وہ تو ہے ، میں نے تھوڑی دیر سوچا۔ بڑی مشکل سے ہاتھ لگی تھیں۔ اگر ابھی ان کو نہ رکھا تو خبر نہیں پھر کب کوئی معاون ملے۔ اچھا، ٹھیک ہے لیکن صبح سات بجے کچن میں موجود ہونا۔ ناشتہ بنانے میں مدد درکار ہو گی۔ صاحب سویرے کام پر جاتے ہیں، ان کو ٹھیک ساڑھے سات بجے ناشتہ چاہئے۔ ٹھیک ہے بی بی …. شام کو کب تک رہو گی۔ جب تک آپ کا کام ختم نہ ہو گا۔ جب چھٹی ملے گی تب جائیں گے۔

میں نے جنت اور اس کی بیٹی کو رکھ لیا۔ ایک ماہ میں ان دونوں نے ثابت کر دیا کہ وہ بہترین معاون خدمت گار ہیں۔ جو کام بتاتی خوش اسلوبی سے کرتیں۔ میرے بنگلے کا سرونٹ کوارٹر خالی پڑا تھا۔ حبیب نے کہا ان کو کوارٹر دے دو۔ دن رات رہیں گی تو تم کو شام کے بعد بھی سہولت مل جائے گی۔ میں نے کہا کل سے اپنا سامان لے آنا اور یہاں ہی رہنا سہنا۔ پانی بجلی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے آرام سے رہو گی۔ اگلے روز وہ ایک رکشے پر اپنا مختصر سا سامان لے آئی اور کوارٹر کی صفائی کر کے اسے آباد کر دیا۔ سرونٹ کوارٹر میں جنت اور صفیہ کے دن رات رہنے سے مجھے واقعی سہولت ہو گئی تھی۔ 

جنت تو شام کو کوارٹر میں جا گھستی سو جاتی، صفیہ کو جب آواز دیتی وہ دوڑی آتی۔ دونوں ناشتہ اور کھانا ہمارے گھر سے کھاتی تھیں۔ اس طرح اچھا کھاناملتا ان کی بچت ہو جاتی۔ دوادار و کبھی خود لیتیں کبھی میں لے دیتی۔ جنت میرے پاس خوش تھی۔ میں اس کے آجانے سے پر سکون تھی۔ خاص طور پر صفیہ بہت اچھی لڑکی تھی۔ اس نے اتنی سہولت دی کہ اب میں بغیر ہاتھ پیر ہلائے اپنے بیڈ روم میں لیٹی ٹی وی دیکھتی رہتی، وہ پانی بھی ہاتھ میں لا دیتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صفیہ نکھر نے لگی، خوبصورت تو تھی۔ اچھا کھانے سے اور زیادہ رنگ روپ نکال لیا۔ محنت مشقت نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا۔ زیادہ تنو مند ہو گئی لیکن جنت روز بہ روز کمزور اور نڈھال رہنے لگی۔ جیسے کسی مرض نے اندر اندر اسے گھلا دیا ہو ۔ بالآخر وہ بیمار پڑ گئی۔ ڈاکٹر کو دکھایا۔ اس نے کچھ ٹیسٹ وغیرہ لکھ کر دیئے۔

 پتا چلا اس کے گردے کام چھوڑ رہے ہیں۔ یہ رپورٹ آئی تو میں دہل گئی۔ اب وہ زیادہ تر کوارٹر میں لیٹی رہتی لیکن صفیہ نے جنت کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ وہ زیادہ تن دہی سے کام کرنے لگی تا کہ ان کو ملازمت سے ہم جواب نہ دے دیں۔ ظاہر ہے جس لڑکی کے ماں باپ دونوں بیمار ہوں اور کمانے والا کوئی نہ ہو ، وہ غربت سے ڈر کر کام کی مشین نہ بنے گی تو اور کیا کرے گی۔ انہی دنوں جبکہ جنت بیمار تھی، گائوں سے اس کے رشتہ دار کا فون آگیا کہ تمہارا شوہر زیادہ بیمار ہے جلد آئو۔ بی بی کچھ رقم ایڈوانس دے دیں۔ بے شک صفیہ کو اپنے پاس رکھ لیں۔ وہاں نہ جانے کیا حالات در پیش ہوں۔ رقم تو چاہئے ہو گی۔ میں نے اس کے حال پر ترس کھاتے ہوئے تنخواہ کے علاوہ دس ہزار اور بھی دیئے کہ پیشگی تنخواہ سمجھ لو۔ حبیب سے کہا کہ اماں جنت کو رحیم یار خان جانے والی کوچ پر بٹھا آئو۔ 

وہ خود اسے اپنی کار میں اڈے تک لے گئے اور ٹکٹ بھی خرید کر دیا۔ اماں جنت ، صفیہ کو میرے حوالے کر کے گائوں چلی گئی۔ جاتے ہوئے اس نے اپنی بچی کا ہاتھ میرے ہاتھوں میں دے کر کہا تھا۔ بیگم صاحبہ یہ میری نہیں آپ کی بچی ہے اور اسے اپنی بچی ہی سمجھنا۔ اگر میں لوٹ کر نہ آسکوں تو سمجھ لینا کہ اس کا آپ کے سواد نیا میں کوئی نہیں ہے۔ اسے کسی کے حوالے مت کرنا۔ اس کی شادی بھی آپ ہی کسی اچھے انسان سے کر دینا۔ میں اس کا منہ تکتی رہ گئی اور وہ یہ چند باتیں میرے گوش گزار کر کے روانہ ہو گئی۔ شاید اس کی چھٹی حس بتارہی تھی کہ کے اب اسے لوٹنا نصیب نہ ہو گا۔ وہ کافی عرصہ سے بیمار تھی اور ہم سے چھپاتی رہی تھی۔ اپنی ہمت سے کام لیتی رہی، آخر کو پاپی پیٹ کو پالنا تھا۔

گائوں پہنچی تو پتہ چلا کہ اسی روز صبح دم اس کا شوہر فوت ہو گیا ہے۔ وہ بین کرنے کو وقت پر آموجود ہوئی تھی۔ شوہر کی وفات کے ہفتہ بعد اماں جنت بھی اس جہان سے سدھار گئی۔ اس کے رشتہ دار جو عظیم گوٹھ میں مکین تھے۔ انہوں نے آکر اطلاع دی لیکن صفیہ کو لے جانے کی بات نہ کی اور ہم نے بھی اس تذکرے کو نہ چھیڑا۔ حبیب نے کہا کہ اگر لڑکی کا سگا بھائی بہن ماموں وغیرہ آتا تو بات کر لیتے۔ دور کے رشتہ داروں کے پاس تو صفیہ خود بھی جانانہ چاہتی تھی۔ صفیہ نے بتایا تھا کہ وہ اکلوتی ہے۔اس کا کوئی بہن بھائی نہیں ہے ، ماموں بھی نہیں ہے۔ سوتیلے چچا اور پھو بھی ہیں لیکن وہ صفیہ اور اس کی ماں سے ملتے نہ تھے۔ ان سے کوئی توقع عبث تھی باقی رشتہ دار … رشتہ لینے کے چکر میں ضرور آئیں گے لیکن وہ کسی کے ساتھ نہیں جائے گی بلکہ ہمارے پاس ہی رہے گی۔ بچی نے اپنا فیصلہ ہم کو سنادیا۔

 یہ ایک خوش آئند بات تھی کہ صفیہ کسی کے پاس جانے کی بجائے ہمارے ساتھ رہنا چاہتی تھی، اس کے رہنے سے ہم کو بہت سکھ اور آرام تھا۔ اس کی ماں سے وعدہ کیا تھا سو نباہنے میں بھی ہمارا فائدہ ہی تھا لہٰذا میں نے اسے تسلی دی کہ اس کی مرضی کے بغیر کسی رشتہ دار کے حوالے نہ کروں گی۔ بلکہ ہم بیٹی بنا کر رکھیں گے۔ وہ اس تسلی پر خوش اور مطمئن ہو گئی، پہلے سے بھی زیادہ محنت اور جانفشانی سے کام کرتی۔ مجھے نت نئے لباس پہننے کا شوق تھا۔ چند دن ایک جوڑا پہنتی تو پھر جی اوب جاتا۔ نئے جوڑے بنوا لیتی اور اپنے پہنے ہوئے نئے نئے جوڑے صفیہ کو بخش دیتی۔ اچھے لباس میں تو وہ شہزادیوں جیسی لگتی۔

 مہمان آتے تو اسے ہمارا رشتہ دار سمجھتے ۔ پانچ برس اور بیت گئے ، وہ چوبیس کے لگ بھگ ہو چکی تھی لیکن میرے دل میں اس کو بیاہنے کا خیال نہ آیا۔ بھلا کیسے بیاہ دیتی اگر وہ شادی ہو کر اپنے گھر کی ہو جاتی تو میرے گھر کا کام کاج کون کرتا۔ جس طرح دلجمعی سے وہ کرتی تھی۔ اتنی مخلص اور ایماندار گھریلو ملازمہ کا ملنا، جو چوبیس گھنٹے خدمت میں حاضر رہتی ہو اور آف بھی نہ کرے۔ کسی کام سے انکار نہ کرے اور جس کا کوئی ولی وارث بھی نہ ہو۔ فی زمانہ ممکن ہی نہ تھا۔ اب تو مجھے اسے تنخواہ دینے کی بھی فکر نہ تھی، صفو کہتی باجی میں ان پیسوں کا کیا کروں گی، آپ اپنے پاس جمع کرتی جائیں۔ تب خیال آتا تھا شاید یہ اس لئے تنخواہ میرے پاس جمع کرانا چاہتی ہے کہ کبھی اس کی شادی ہو گی تو یہ جمع شدہ رقم کام آئے گی۔
تین بچوں کے بعد میں نے فیملی پلانگ پر عمل کیا لیکن کچھ ایسی دوائیاں دس برس لگاتار استعمال کیں کہ بالآخران دوائیوں کارد عمل شروع ہو گیا، جس کے نتیجے میں بیمار رہنے لگی۔ اس بیماری میں صفونے میری جان توڑ کر خدمت کی۔ علاج سے افاقہ نہ ہوا کئی ماہ ڈاکٹروں اور لیڈی ڈاکٹر ز کو دکھایا، دوائیاں جو مسلسل کھارہی تھی، انہوں نے بند کرادیں۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، بالآخر بستر سے لگ گئی۔ بیٹی ماہ رخ اب پندرہ برس کی تھی۔ اس سے چھوٹی تیرہ کی اور جواد نو سال کا ہو گیا تھا۔ جب ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کو کینسر کا خطرہ ہے بہتر ہے کہ جسم کے اندرونی اس حصے کو نکلوادیں جس میں کینسر کا اندیشہ ہے۔ آپ ٹھیک ہو جائیں گی۔ میں ڈر رہی تھی آپریشن نہ کرانا چاہتی تھی حبیب نے یہی مشورہ دیا کہ ہمارے ماشاء اللہ تین بچے ہیں اور اولاد کی خواہش تو نہیں ہے جو آپریشن ڈاکٹر کہتے ہیں کرالینا چاہئے۔ وقت پر علاج ہو جائے تو بڑے اور نا قابل علاج مرض سےبچا جا سکتا ہے۔ حبیب کے کہنے پر آپریشن کے لئے تیار ہوگئی۔ وہ دن آگیا جب آپریشن تھا۔ بچوں کو صفیہ کے پاس چھوڑ کر ہم لاہور چلے گئے۔ آپریشن ہو گیا۔ رپورٹس صحیح آئی تھیں۔ کوئی کینسر وغیرہ نہ تھا۔ پندرہ دن اسپتال میں رہ کر گھر آگئے۔ رفتہ رفتہ میں صحت یاب ہو گئی۔

 دو سال بالکل ٹھیک ٹھاک رہی۔ اچانک ایک روز طبیعت بگڑ گئی۔ فورا اسپتال لے گئے جریان خون سے بہت کمزور اور زرد پڑ گئی تھی۔ ڈاکٹرز کی کوشش سے عارضی طور پر افاقہ ہوا۔ پندرہ روز بعد پھر سے بیمار ہو گئی۔ وہی کیفیت، دوبارہ اسپتال لے گئے ، بتایا کہ کینسر ہے۔ بمشکل دوماہ جی پائیں گی۔ پہلے تو حبیب نے مجھے نہ بتایا لیکن ایک روز فون پر ڈاکٹر سے بات کر رہے تھے کہ اپنی بیماری کے بارے میں سن لیا۔ دل تھام کر رہ گئی … سوچا۔ زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن میرے بعد میرے بچوں کا کیا ہو گا اور حبیب کیا کریں گے۔ کیا خبر یہ دوسری شادی کر لیں۔ بچے سوتیلی ماں کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے ۔ خدا جانے سوتیلی ماں ان سے کیا سلوک کرے۔ سوچ سوچ کر پریشان رہنے لگی۔ اپنے سے زیادہ بچوں کی فکر کھائے جاتی تھی، صفیہ تنہائی میں تسلی دیتی۔ باجی حوصلہ رکھیں۔ ایسا کچھ نہ ہو گا۔ یہ آپ کا وہم ہے لیکن میں کیسے اس کی طفل تسلیوں سے بہل جاتی۔ حقیقت تو حقیقت ہوتی ہے جو روز روشن کی طرح عیاں تھی۔ صفیہ میری خدمت میں گھلی جاتی تھی۔ وہ دبلی ہو کر آدھی رہ گئی۔ اسے میرا غم کھائے جاتا تھا۔

ایک دن جبکہ بچے سو گئے دوا کھلانے کے بعد وہ پلنگ پر بیٹھ گئی اور میری ٹانگیں دبانے لگی۔ صفیہ ! میں نے کہا… زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں میری زندگی تو پھر ایک بجھتا چراغ ہے۔ ایک بات کہوں برا تو نہ مانو گی ۔ کہئے باجی … میں ہر گز برا نہ مانوں گی۔ سنو… میری حیات کے دن گنے جاچکے ہیں۔ چاہتی ہوں کہ اپنی زندگی میں صاحب سے تمہار انکاح کرادوں۔ کیا تم میری خاطر یہ قربانی دے سکتی ہو ؟ آپ کی خاطر جان بھی دے سکتی ہوں باجی. لیکن حبیب صاحب سے نکاح؟ وہ میرے بڑے بھائی ہیں۔ ہمیشہ ان کو اسی نظر سے دیکھا ہے۔ ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔ صفیہ، سمجھنے کی کوشش کرو۔ دیکھو میں تو بستر مرگ پر ہوں اور تمہاری شادی کی عمر نکل رہی ہے، وقت پر تم کو دلہن نہ بنایا۔ تم پر بڑا ظلم کیا ہے اور اب اپنے اس ظلم کا کفارہ بھی ادا کرنا چاہتی ہوں۔ صاحب تم سے عمر میں کچھ بڑے سہی لیکن بوڑھے نہیں ہیں۔
 ان کو بھی بیوی کی ضرورت ہو گی اور تم بھی اس گھر میں سکون سے رہو گی۔ میرے بعد بچوں کو ماں کا پیار دو گی۔ مجھے تم پر بھروسہ ہے۔ میں اس امر کیلئے اپنے صاحب کو منالوں گی ۔ بس تم راضی ہو جائو۔ کافی لیت و لعل کے بعد اس نے بالآخر میری مرضی کے آگے سر جھکادیا۔ شاید یہ سوچ کر کہ میرے بعد اس کا بھی تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ کیا پتہ آئندہ حالات میں اسے در بدر ہونا پڑ جائے۔ حبیب کو میں نے منالیا اور صفیہ کا نکاح ان سے کرادیا۔ بچے بھی اس امر پر ناخوش نہ تھے۔ صفیہ سوکن بن گئی۔ اسے سوکن بنا کر مجھے ملال نہ ہوا ایک طرح سے خوشی ہوئی۔ وہ اب بھی ویسے ہی میری تابعدار تھی اور حبیب میرا اس قدر خیال کرتے تھے کہ میرے سامنے اس کے ساتھ کلام کرنے سے بھی احتراز کرتے تھے۔ گھر اور امور خانہ جیسے چل رہے تھے ویسے ہی چلتے رہے۔ حبیب کو بیرون ملک جانے کا موقع مل گیا تو مجھے بھی ساتھ لے گئے ، امریکا میں علاج کرایا۔ خدا کے فضل سے اصل مرض کا پتہ چل گیا۔ 

مجھے کینسر نہیں تھا، میں صحت یاب ہو گئی۔ گھر لوٹی تو خوشیاں دامن میں بھر کر۔ بچوں کو خوب گلے لگا کر روئی اور ہنسی بھی کہ خدا نے مجھے نئی زندگی دے دی تھی۔ صفیہ بھی خوش تھی لیکن وہ کبھی کبھی بھجی بھجی لگتی کیونکہ حبیب نے نکاح ضرور کیا تھا لیکن وہ سوتے میرے ہی بیڈ روم میں تھے۔ صفیہ کے بیڈ روم میں بدستور میرے بچے اس کے ساتھ ہوتے تھے۔ صفیہ آج بھی میرے ساتھ ہے۔ میری سوکن ہے لیکن ہم بہنوں کی طرح رہتی ہیں۔ میں نے اسے اور اپنے شوہر کوان کے جائز حقوق بھی دے دیے ہیں۔ 

اللہ تعالی کے خوف اور خوشنودی کی خاطر لیکن جس دن میری سوکن کی باری میرے شریک زندگی کے ہمراہ رہنے کی ہوتی ہے میں بہت اداس ہو جاتی ہوں اور چھپ چھپ کر آنسو بہاتی ہوں۔ سچ ہے کہ سوکن ریشم کی گڑیا بھی ہو تو گراں ہوتی ہے۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے