Sublimegate Urdu Stories
انتظار کا درد - مکمل اردو کہانی
قسط وار کہانیاں |
والدین میری پیدائش سے بھی پہلے لندن شفٹ ہو گئے۔ میں وہیں پیدا ہوئی، پلی بڑھی اور تعلیم حاصل کی۔ گرچہ ہمارے گھر کا ماحول کچھ مشرقی اور کچھ مغربی تھا یعنی کہ ماحول کے اثر سے مشرقیت میں تھوڑا سا مغربیت کا رنگ بھی شامل ہو گیا تھا، لیکن اپنے طور طریقے میرے والدین نے پوری طرح نہیں بھلائے۔ ان کی تو خواہش تھی کہ اولاد خالصتاً مشرقی اقدار کی پاسداری کرے اور اپنے دین کی طرف مائل رہے۔
ہوش سنبھالتے ہی بچہ جس ماحول میں رہتا ہے ، اس کا اثر کم و بیش ضرور لیتا ہے۔ ہم تو پھر پیدا ہی وہاں ہوئے۔ اسکول میں بھی انگریز بچوں کے ساتھ صبح سے شام تک واسطہ رہتا تھا۔ والدین کٹر قسم کے مذہبی نہ تھے۔ بین بین چل رہے تھے اور وقت کے تقاضوں سے مغلوب و مجبور تھے۔ پس ہم کو بھی انہوں نے تھوڑی سی پابندی اور تھوڑی سی آزادی دی ہوئی تھی۔ بچپن بے فکری سے ہنستے کھیلتے گزر گیا۔ جب جوانی کے دور میں قدم رکھا، مغربی طور اطوار میں ڈھلنے لگے ۔
ماں، باپ کو فکر لاحق ہو گئی کہ اولاد پر مزید پابندی ضروری ہے ورنہ بے لگام ہوتے جائیں گے ۔ انہوں نے ہم دونوں بہنوں اور عدنان بھائی کو بات بات پر روکناٹو کنا شروع کر دیا۔ وہ اب روز ہی کہتے کہ دوست بنانے میں احتیاط سے کام لو۔ لڑکیاں ہو، لڑکیوں کو دوست بنائو، ان کے ساتھ وقت گزار و، لیکن ہمارے دوست لڑکے بھی تھے اور ہم ان کے ساتھ گھومنے پھرنے میں زیادہ فرحت محسوس کرتے تھے۔ اسی طرح عدنان بھائی کی دوست لڑکیاں ان سے بے تکلف ہو تیں تو والدہ کو پریشانی لاحق رہنے لگی کہ یہ بچے ایسی حرکات کو معمولی جانتے ہیں جن کی اجازت ہمارا دین نہیں دیتا تو یہ کیسے دیندار ہو سکتے ہیں۔ بہرحال لڑکپن خاصی خطر ناک عمر ہوتی ہے۔ اس دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور ٹین ایج کے بچوں کا یہ المیہ ہوتا ہے کہ وہ بڑوں کو خود سے زیادہ عقلمند نہیں سمجھتے۔
ان کو خاص طریقے سے ہینڈل نہ کیا جائے تو یہ باغی اور منہ پھٹ ہونے لگتے ہیں۔ میرے ساتھ اسکول میں ایک لڑکا پیٹر پڑھتا تھا۔ مجھے وہ بہت اچھا لگتا۔ ہر دم میرے ساتھ ہی رہتا۔ میرے ساتھ وقت گزار نا پسند کرتا تھا۔ بڑھتے بڑھتے ہماری قربت بڑھ گئی ، تب وہ مجھ سے جسمانی تعلق کا خواہاں ہوا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اس بات کی اجازت ہمارا مذہب نہیں دیتا۔ دوستی صرف باتوں تک محدود ہونی چاہئے اور جسمانی قرب کو ہم لوگ شادی سے ے قبل گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ میری باتیں اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ وہ خفا ہو جاتا۔ کہتا کہ تم لوگ کیا فرشتے ہو ؟ انسانی جبلت کے لحاظ سے تو تمہاری بات عقل کے تقاضے پر پوری نہیں اترتی۔
میں نے کئی بار سمجھایا کہ عقل کا تقاضا یہی ہے کہ شادی سے قبل لڑکا اور لڑکی جسمانی قرب سے دور رہیں ۔ بے شک محبت ایک ذہنی ہم آہنگی اور روحانی رشتے کا نام ہے لیکن وہ میری اس منطق کی سراسر نفی کرنے لگا۔ اس نے دلیل دی کہ محبت میں کوئی حد اور دوری نہیں ہو سکتی اور جذبات پر قدغن لگانے کا مطلب ہے کہ آپ فطرت کی نفی کر رہے ہیں وغیرہ وغیر ہ ۔ جب اس کا اصرار بڑھا۔ میں نے کہا کہ محبت سے زندگی کی خوشیاں عمر بھر کیلئے حاصل کرنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم شادی کر لیں اور بلا جھجھک زندگی بسر کریں۔ فطری جبلت کے تقاضوں کو کسی ضابطے کا پابند نہ کریں گے تو حیوان کہلائیں گے ۔ شادی کر کے ہم محبت بھری مسرتوں سے دامن بھر لیں گے، ہونے والی نسل کو تحفظ دیں گے ، ان کی بہترین تربیت مل کر کریں گے اور ان کو بے نام ، بے یار و مدد گار نہ چھوڑیں گے ۔ ہمارے یہاں تو بس یہی طریقہ ہے اپنی نسل کو پروان چڑھانے کا …!
ازدواجی بندھن باندھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کی وفاداری، خلوص اور محبت کے معیارات کو چیک کریں، جس کیلئے نکاح سے پہلے ایک دوسرے کے ہمراہ رہنے اور وقت گزارنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ اس طرح بعد میں ہم سوچ سمجھ کر نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں گے تو ہماری اولاد گوناگوں مسائل کا شکار نہ ہو گی، کیونکہ ہم مکمل ذہنی ہم آہنگی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوں گے ۔ یہ پیٹر کے خیالات تھے۔ اس کی باتیں مجھے حیران کر گئیں۔ میں نے تمہارے مذہب کے بارے میں کچھ کتابیں پڑھی ہیں اور عیسائیت کے بنیادی مذہبی اصول و قوانین کا مطالعہ کیا ہے ۔ وہاں بھی اس بارے میں کچھ حدود و قیود موجود ہیں۔ تمہارے مذہب میں بھی مرد و عورت کا ایسا تعلق جو بغیر نکاح قائم ہو، گناہ کے زمرے میں آتا ہے، لہٰذا قرابت کا صحیح پر مٹ نکاح ہے، شادی ہے … کیونکہ اس طرح مرد و عورت دونوں معاشرے کی نظروں میں تکریم پاتے ہیں، ان کی اولاد بھی تکریم پاتی ہے اور جائز رشتے میں بندھ جانے سے حقوق و فرائض جو میاں بیوی پر لاگو ہوتے ہیں، انہیں پورا کرنے سے زندگی بہترین ہو جاتی ہے۔ میں اس انگریز کے بچے کو گھنٹوں سمجھاتی تھی مگر پیٹر ایسی سوچوں سے نابلد تھا۔ وہ صرف جوانی کے خمار کارسیا تھا، تبھی میری باتیں اسے ناگوار گزرنے لگیں اور وہ مجھ سے دور ہوتا گیا۔
اس کی دوری نے مجھے تڑپایا۔ قلق ہوا، لیکن پھر یہ سب برداشت کرنا پڑا کیونکہ والدین کا ڈر تھا۔ وہ بھی مجھ کو اس امر کی اجازت نہ دیتے کہ گھر سے غائب رہ کر میں اپنے پسندیدہ دوست کے ساتھ راتیں بسر کروں، نائٹ کلب جائوں اور کوئی غلطی کر بیٹھوں۔ ایک مرحلے پر پیٹر مجھ سے شادی کے بندھن میں بندھ جانے پر آمادہ بھی ہو گیا لیکن یہ شرط آڑے آگئی کہ پہلے وہ اسلام قبول کرے گا پھر ہماری شادی ممکن ہو گی۔ وہ چڑ گیا۔ اس نے کہا۔ یہ کیا بات ہوئی ؟ میں اپنے عقائد کے ساتھ جیوں گا اور تم اپنے دینی عقائد کے ساتھ زندگی بسر کرو گی۔ ہم ایک دوسرے کے مذہبی معاملات اور عقائد میں سر مو مداخلت نہیں کریں گے تو پھر کوئی مسئلہ کیوں کھڑا ہو گا۔ پیٹر ، مسلمان لڑکی کسی مرد سے اسی وقت شادی کر سکتی ہے جب تک کہ وہ لڑکا یا مرد کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام قبول کرلے ورنہ ہماری شادی نہیں ہو سکتی۔ اس بات پر اس نے مجھے چھوڑ دیا یہ کہہ کر کہ تم مخلص نہیں ہو۔ یہ دکھ بہت تھا لیکن میں نے سہہ لیا۔ اپنے دین اور والدین کی خوشنودی کی خاطر ۔ ظاہر ہے کہ وہ کسی انگریز سے میری شادی کو قبول نہ کرتے۔ وہ کہتے تھے کہ مسلمان لڑکا ہو اور دیندار ہو۔
دیسی لڑکوں سے ہی ہماری لڑکیوں کی شادیاں ہوں گی۔ دل پر صبر کی سل رکھ لی یہ سوچ کر کہ اپنی اولاد کیلئے مسلمان لڑکی اور مسلمان لڑکے کو یہ قربانی دینی چاہئے ورنہ ہماری آئندہ نسل کا کیا ہو گا۔ میں صبر والی تھی۔ اپنی چھوٹی بہن روبینہ سے زیادہ سمجھدار اور پختہ سوچ کی حامل تھی کیونکہ والد صاحب کی نگرانی میں دین کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ پیٹر اور دوسرے دوستوں نے مجھے بے شک ایک بیمار سوچ کی لڑکی اور “مینٹلی سک” قرار دے دیا۔ میں نے ان کے کسی کمنٹ کا اثر نہ لیا۔ جس بات کو درست سمجھتی تھی، اس کو مان کر صبر و تحمل سے کام لیا لیکن میری بہن روبی مجھ ایسی نہ تھی۔ اس کی عمر ابھی صرف سولہ سال تھی۔ اس کے اندر جذبات کا ایک جوالا مکھی ابل رہا تھا۔ وہ اپنے بوائے فرینڈ کی ایسی دیوانی ہوئی کہ مذہب وغیرہ کی ساری حدود پار کر کے اس کے ہمراہ شب باسی کرنے لگی، یہاں تک کہ اپنے بوائے فرینڈ کو رات کو اپنے بیڈ روم میں لانے لگی۔ اس کا کہنا تھا کہ اسی سے شادی کرنی ہے تو پھر صبر کا عذاب کیوں سہیں۔
والدہ نے روکا، وہ نہ تھمی۔ والد کے علم میں یہ بات آگئی۔ وہ سخت برہم ہوئے۔ سختی سے منع کیا تور وبینہ نے پولیس کو فون کر دیا کہ ابو مجھ پر ظلم کرتے ہیں۔ والدین کے خلاف رپورٹ لکھوادی کہ مار پیٹ کرتے ہیں۔ بات پولیس تک پہنچی۔ وہ ابو کو ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ کہا کہ یہ آدمی ذہنی مریض ہے ، اسے علاج کی ضرورت ہے۔ والد صاحب ذہنی مریض نہ تھے۔ بہر حال بڑی مشکلوں سے جان چھوٹی یوں کہ روبینہ گھر سے چلی گئی۔ امی ، ابو کسی طرح اسے منا کر لائے پھر ہم سب کو پاکستان لے آئے۔ بہانہ رشتے داروں سے ملانے کا تھا۔اصل معاملہ یہ تھا کہ وہ ہم کو اس معاشرے سے دور رکھنا چاہتے تھے کہ جہاں شادی سے قبل مرد و عورت کے . و عورت کے ملاپ کو غیر معمولی یا معیوب نہ سمجھا جاتا تھا جس کی وجہ سے بن باپ کے بچوں اور سنگل مائوں کی بہتات تھی اور جب یہ مائیں بغیر باپ کے ان بچوں کی کفالت نہ کر سکتی تھیں تو گورنمنٹ کی تحویل میں دے دیتی تھیں، تبھی وہاں بے شمار چائلڈ ہوم کھلے ہوئے تھے۔ بہر حال جب ہم پاکستان آئے اور میں نے اپنے مشرقی کلچر کو دیکھا۔ مجھے یک گونہ سکون محسوس ہوا۔ ہم چچا کے گھر ٹھہرے تھے۔ مدت بعد ہم لوگوں کے آجانے سے وہ سبھی بہت مسرور تھے، خاص طور پر نوید جو میرے چچا کا بڑا بیٹا تھا اور مجھ سے دو برس بڑا تھا۔
خالدہ اس کی چھوٹی بہن، روبینہ کی ہم عمر تھی۔ چچا کے بچوں کی تو جیسے عید ہو گئی تھی، حالانکہ ان کے سالانہ پرچے ہو رہے تھے۔ وہ ہمارے پاس سے اٹھنے کا نام نہ لیتے تھے۔ چچی واری صدقے جاتیں اور سارا دن کچن میں ہمارے لئے نت نئی ڈشیں تیار کرتیں۔ چچا جان بھی ہمارے آجانے سے ایسے مسرور تھے جیسے ان کو کھوئی ہوئی جنت مل گئی ہو، تبھی میں نے سوچا یہ رشتے بھی کیا شے ہوتے ہیں جن کے بغیر انسان ادھورا ہی نہیں غریب ہو جاتا ہے۔ اب پتا چلا کہ اپنا وطن تو کھوئی ہوئی جنت جیسا ہے۔ نوید پندرہ دنوں میں امتحان سے فارغ ہو گیا۔ سارا وقت میرے ساتھ گزارنے لگا۔ پر کشش اور دلچسپ شخصیت کا مالک تھا۔ ہنس مکھ ، خندہ جبیں۔ حس مزاح اس کی بہت اعلیٰ تھی۔ سارا دن ہنساتا، لطیفے سناتا۔ پیٹر کی جدائی سے دل بجھا ہوا تھا۔ مرجھایا ہوا دل رفتہ رفتہ ایک نو خیز پھول کی مانند کھلتا گیا۔ کافی دنوں بعد ہنسی لبوں تک آئی اور اب میں نوید اور خالدہ کے ساتھ خوش خوش رہنے لگی۔ روبی کو کو البتہ لندن بھولتا نہ تھا۔ وہ چند دن بھی یہاں رکنا نہ چاہتی تھی۔ بار بار واپس لندن جانے کا تقاضا کرتی تھی۔ اس کو اپنا بوائے فرینڈ بہت یاد آتا جس کو وہ چند دنوں کے بعد واپس آجانے کا کہہ کر آئی تھی۔ میں تو خالدہ اور نوید کے ساتھ گھل مل گئی۔ ان کے ہمراہ شاپنگ اور سیر و تفریح کو جاتی تھی۔
تین ماہ تک روبی صبر کر سکی۔ اس نے اپنا برا حال کر لیا اور اکیلی ہی لندن جانے کا تہیہ کر لیا۔ وہ سفارت خانے سے رجوع کرنے جارہی تھی کہ والد صاحب نے روک دیا اور مجبور ہو کر ہم سب روبی کی وجہ سے دوبارہ لندن کیلئے عازم سفر ہوئے۔ روبی ہی نہیں میرا بھائی عدنان بھی اب یہاں مزید ر کنانہ چاہتا تھا اور وہ واپسی کیلئے پر تول رہا تھا، کیو نکہ اسے یہاں کی آب و ہوا، گرد و غبار ، فضائی آلودگی اور کنبہ سسٹم سب کچھ اذیت ناک محسوس ہو رہے تھے۔ جس روز ہم واپس لندن جارہے تھے ، نوید کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ خالدہ بھی رور ہی تھی۔ چچا اور چچی بے حداد اس تھے اور امی ، ابوان کو تسلی دے رہے تھے کہ فکر نہ کریں، ہم بہت جلد واپس آئیں گے ۔ ہم اب جلد جلد واپس لوٹیں گے کیونکہ ہمارا ارادہ ہے کہ اپنے بچوں کی شادیاں پاکستان میں اپنوں میں کریں۔ نوید کی آنکھوں میں نمی تھی لیکن امید کی کرن بھی چمک رہی تھی۔ اس خیال سے کہ میں واپس لوٹ کر آئوں گی اور بہت جلد اسے مل جائوں گی۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ ضرور آئوں گی، میرا انتظار کرنا، تم سے شادی کروں گی۔
ہمارے جانے کے بعد اس کے فون آتے ۔ وہ کہتا تھا کہ آپ لوگوں کے بعد اب دن بہت بو جھل گزرتے ہیں۔ اس کا رزلٹ آگیا، بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا تھا۔ تقریباً سال بھر ہمارا آپس میں رابطہ رہا۔ جیسے میں پیٹر کو نہ بھولی تھی، وہ بھی مجھے نہ بھلا سکا۔ بالآخر اس نے ابو کی شرائط مان لیں۔ دین اسلام کا مطالعہ کیا اور پھر اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد مجھ سے شادی کا خواہاں ہوا۔ میرے اصرار پر ابو نے میری خوشی کی خاطر رشتہ قبول کر لیا اور میں پیٹر کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھ گئی۔ روبینہ نے بھی اپنی مرضی سے اپنے بوائے فرینڈ سے شادی کر لی اور میرے بھائی نے اپنی دوست گوری میم میری کو مسلمان کر کے بیاہ رچا لیا مگر روبی اور عدنان بھائی کی شادیاں کامیاب نہ ہو سکیں۔ دونوں کی شادیاں طلاق پر ختم ہو گئیں، البتہ پیٹر کی میرے ساتھ نبھ گئی اور ہم کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے لگے، شاید اس لئے کہ ہم نے واقعی محبت کی تھی لیکن شادی بھی بہت سوچ سمجھ کر کی۔
میری شادی کے پندرہ برس بعد چچا جان کا پاکستان میں انتقال ہو گیا۔ چچی نے والد کو فون کیا کہ اب فیملی کے ہمراہ آجائے، ہم لوگ آپ کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ انتظار میں آپ کے بھائی اس دنیا سے چلے گئے ہیں اور اب جائداد کے کچھ مسائل درپیش ہیں۔ آکر ان کو حل کر جائے تو ہمارے کئی اور مسئلے حل ہو جائیں گے ۔ والد صاحب، امی، میں اور پیٹر مدت بعد ایک بار پھر پاکستان جارہے تھے۔ کچھ عجیب سے احساسات تھے۔ چچا جان کی رحلت کا دکھ اور اپنوں کا خلوص سب کچھ ساتھ تھا۔ ایئر پورٹ پر اترے نوید اور خالدہ نے آگے بڑھ کر استقبال کیا۔ نوید کی آنکھوں میں تو امید کے دیئے جگمگار ہے تھے۔ اس نے ابھی تک شادی نہ کی تھی۔ ہمارے ساتھ پیٹر کو دیکھ کر ٹھٹھکا پھر یہ سمجھا شاید کہ وہ ہمارا کوئی فیملی دوست وغیرہ ہے جو پاکستان دیکھنے کے شوق میں ساتھ آگیا ہے۔ خالدہ نے بھی عدنان بھائی کے انتظار میں سہاگ جوڑا نہ پہنا تھا۔ بڑی امیدوں کے ساتھ ان لوگوں نے ہم کو ریسیو کیا اور گھر لائے۔ ان کی امیدوں پر یہ جان کر اوس پڑ گئی کہ میں نے پیٹر سے اور عدنان نے میری سے شادی کر لی ہے۔
اتنے عرصے تک بھی بھلا کوئی کسی کا انتظار کرتا ہے ؟ میں نے نوید سے کہا تھا۔ کیوں نہیں ! کوئی عمر بھر بھی انتظار کر سکتا ہے ، اگر محبت سچی ہو تو ! تم کم از کم مجھے اپنی شادی کے بارے میں مطلع تو کر تیں، لیکن کیسے کرتیں ، تم نے تو سال بھر کے بعد رابطے ہی ختم کر دیئے تھے لیکن ہمارادل دیکھو آج تک تم سے روح کا رابطہ قائم رکھا ہوا ہے ، ہے نا عجیب بات …! ہاں نوید ، واقعی یہ عجیب بات ہی ہے۔ تم دیسی لوگ ہوتے ہی عجیب ہو۔ بہت بھولے ہوتے ہو، کتنی جلدی کسی کا یقین کر لیتے ہو اور پھر انتظار کی آگ میں جلتے رہتے ہو، جل جل کر خاک ہو جاتے ہو۔ ہم ان کے گھر ایک ماہ رہے۔ جائداد کے مسائل حل کرنے کے بعد واپسی کا مژدہ سنادیا۔
نوید اب بالکل خاموش رہتا تھا، ایک مردہ انسان کی مانند جیسے گونگا ہوتا ہے۔ چلتے وقت جب میں نے اسے خدا حافظ کہا تو ایک فقرہ ہی کہہ سکا۔ آپ کا بہت انتظار تھا، پندرہ برس پندرہ صدیاں بن کر گزر گئے لیکن یہ ایک ماہ جو آپ نے یہاں گزارا ہے ، لگتا ہے ایک پل کا خواب تھا، بڑا ہی بھیانک خواب۔ اے کاش میں اس بھیانک خواب کو دیکھنے کیلئے زندہ نہ ہوتا۔امی نے عدنان سے پوچھا۔ میری تو تم کو چھوڑ گئی ، اب خالدہ کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ اس نے کہا۔ ہاں ! ٹھیک ہے مما، جیسی آپ کی خوشی لیکن اس خوشی کو پورا کرنے دوبارہ آئیں گے ، ان کو انتظار تو کرنا ہو گا۔ انتظار … خالدہ نے حسرت سے دہرایا۔ کتنا انتظار ؟ معلوم نہیں۔ یہ کہہ کر ہم چلے آئے تھے اور آج تک واپس نہ جاسکے ۔ خالدہ نے شادی کر لی ہے یا ابھی تک عدنان بھائی کا انتظار کر
رہی ہے ، یہ بھی معلوم نہیں ہے کیونکہ دوبارہ ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories
0 تبصرے