شک کا زہریلا سانپ

sublimegate urdu stories

Sublimegate Urdu Stories

 شک کا زہریلا سانپ - اخلاقی کہانی

قسط وار کہانیاں

آج ہی تو وہ آئی تھی، بانکی سجیلی سانولی سلونی لڑکی ، جس نے ابھی نئے نئے خواب اپنی آنکھوں میں بسانے شروع کئے تھے۔ ان خوابوں نے اس کی رنگین تتلیوں جیسی آنکھوں کا حسن اور بھی بڑھا دیا تھا، مگر وہ آتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ جب کسی نے اُسے تسلی کے دو بول نہ کہے تو اس نے گلے میں دو پٹہ کس کر خود کشی کی کوشش کی۔ وہ پندرہ برس کی نا سمجھ لڑکی تھی، بہت پاکیزہ اور معصوم صورت، مگر آج وہ زندگی کو کس رُخ سے دیکھ رہی تھی۔
 
 ہر طرف دھوپ ہی دھوپ تھی، جو اس کے سراپا کو جلا رہی تھی۔ وہ کہاں پناہ تلاش کرتی؟ کسی سائبان تلے جا کر کھڑی ہوتی ؟ ماں باپ جو مضبوط سائبان ہوتے ہیں، مر چکے تھے۔ باجی، خدا کی قسم میرا کوئی قصور نہیں۔ میں کوئی بری لڑکی نہیں ہوں۔ میں نے تو کبھی تصور میں بھی کسی غلط بات کے بارے میں نہیں سوچا، مگر خدا جانے کیوں لوگ مجھ سے برائی کی توقع کرتے ہیں۔ شاید وہ اپنی غلط سوچوں کا پر تو مجھ میں دیکھتے ہیں۔ 
 
میں نے اس کی بات سن کر سوچا کہ جب یہ معصوم اتنی بری نہیں، تو کیوں اس کو بُرا سمجھا گیا ہے ؟ جس نے ابھی زندگی کا شعور بھی اچھی طرح حاصل نہیں کیا، جس نے ابھی زندگی کا اصل چہرہ نہیں دیکھا، اس کے لئے ابھی سے حیات اس قدر تلخ کیسے ہو گئی کہ ہر جانب نفرت کی گھٹائیں اس کی جانب بڑھنے لگیں۔ اس کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ یہ خود اس بے خبر کے علم میں بھی نہیں ہے۔ آج یہ لڑکی میرے پاس حواس باختہ آئی تھی۔ خدا جانے کس موڑ پر اس سے کیا خطا ہو گئی تھی کہ زندگی خود اس کی دشمن بن گئی اور سمندر کی ریت کی طرح اس کے پاؤں غلیظ حالات کی دلدل میں دھنسنے لگے ہیں۔ آج یہ نو خیز عمر کی لڑکی زندگی سے کس قدر مایوس تھی۔ وہ ایسی ہو گئی تھی کہ اگر کبھی کوئی خوشی بھولے سے بھی اس کی راہ میں آجائے گی تو وہ خوشی سے ہراساں ہو جایا کرے گی۔بچپن میں تو اس کو کبھی یہ احساس نہ ہوا تھا کہ اس کی آئندہ زندگی اتنی تلخ ہو جائے گی۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اس کو اس کے اپنے ہی لوگوں نے یہ احساس دلا دیا کہ وہ اب کھل کر سانس بھی نہیں لے سکے گی۔

بالی عمر میں لڑکیاں خواب دیکھتی ہیں، مگر رافعہ بولی۔ قسم ہے ، ابھی تو میں نے خواب دیکھنے شروع بھی نہیں کئے تھے۔ ایک شام بس میں خوش تھی، ایسے ہی بلاوجہ اور وہ شام میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ جب دو پہر کے وقت گھر کا کام ختم کر کے ہیں سستانے کو بیٹھی تھی۔ ٹھنڈی ہوا نے ماحول کو خوشگوار بنادیا تھا۔ شام ڈھلنے کو ہوئی تو وقت تھم سا گیا۔ سما اور بھی سہانا ہو گیا تو میر ادل خود بخود خوشی سے جھومنے لگا۔ جی چاہنے لگا کہ آنگن کے درخت میں پینگ پڑی ہوتی تو میں جھولے لیتی۔ میں اپنے صحن میں کھڑی نیم کے پیڑ کی طرف دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ ابھی تو میں نے صحن صاف کیا ہے اور یہ پتے پھر ٹہنیوں پر سے بکھر گئے ہیں۔ کیوں نہ ان کو ایک بار پھر سے سمیٹ دوں کہ مجھے کوڑا کرکٹ سے اٹا آنگن بالکل اچھا نہیں لگتا تھا۔ تبھی میں جھاڑو اٹھانے کے لئے برآمدے میں گئی تھی کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔
 
 ان دنوں ہمارے گھر نیا نیا فون لگا تھا۔ اس خوشی میں کہ بھاگ کر فون اٹھالوں، میں نے ہاتھ میں پکڑی جھاڑو پھینک دی۔ مجھے خبر نہ تھی کہ بھائی چھت سے مجھے دیکھ رہا ہے۔ میں فون اٹھانے کو کمرے میں بھاگی شاید اس نے بھی گھنٹی کی آواز سن لی تھی۔ بھا بھی گھر پر نہیں تھیں۔ مجھے خود نہیں پتا کہ مجھے فون اٹھانا کیوں اچھا لگتا تھا۔ شاید اس لئے کہ گھر میں یہ ایک نئی چیز آئی تھی، بس اس روز شوق کے سوا کوئی غلط بات نہ تھی۔ میں نے فون اٹھا کر ہیلو کہا۔ اُدھر سے ایک مرد کی اجنبی آواز سنائی دی۔ اس نے بھی جواب میں ہیلو کہا۔ جی فرمایئے! آپ کو کس سے بات کرنی ہے ؟ اجی محترمہ تم ہی سے تو بات کرنی ہے۔ 
 
اس نے جھٹ سے جواب دیا۔ مجھ سے بات کرنی ہے ؟ حالانکہ میں تو آپ کو جانتی بھی نہیں۔ اچھا یہ بتاؤ کہ تمہارا نام کیا ہے ؟ میں کیوں اپنا نام بتاؤں ؟ اس لئے کہ پھر میں بھی تم کو اپنا نام بتادوں گا۔ کیوں بھئی ؟ نہیں بتاتی نام اور مجھے تم کو جاننے کا کوئی شوق بھی نہیں ہے۔ اچھا نام نہیں بتائی تو مت بتاؤ، مگر یہ بتادو کہ کون سی کلاس میں پڑھتی ہو؟ کیوں کیا تم نے میرے پرچوں کے نمبر لگانے ہیں ؟ اچھا بھئی، چلو اتناہی بتا دو کہ تم رہتی کہاں ہو ؟ کیوں؟ کیا تم میرے ابا کو لینے آ رہے ہو ؟ خیر تو ہے شاید تمہارا دماغ کھسک گیا ہے۔ سچ کہتی ہوں میں نے اس کو کچھ بھی نہ بتایا۔ بھلا میں ایک اجنبی کو اپنا نام پتا کیوں بتا دیتی۔ میں فون بند کرنے لگی تو وہ بولا۔ آخری بات، پھر فون نہیں کروں گا۔ بولو ! آخری بات یہ کہ تمہاری آواز بہت پیاری ہے ، کالی کوئل جیسی۔ اس پر مجھے ہنسی آ گئی اور میں ہنستے ہوئے بولی۔ اور تم کالے کوئے جیسے۔ یہ کہہ کر میں نے فون رکھ دیا۔

مجھے خبر نہ تھی کہ میرا بھائی میرے پیچھے کھڑا ہے۔ اس نے مجھے ہنستے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔ رافعہ کس کا فون ہے ؟ اور تم کس سے باتیں کر رہی تھیں ؟ میں تو گھبرا ہی گئی۔ خوف سے پیلی پڑ گئی۔ میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے اور گھبراہٹ چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ بھائی کے تیور بگڑے ہوئے تھے۔ اس نے گرج کر کہا۔ سچ سچ بتاؤ کہ کس کا فون تھا اور تم کس کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھیں ؟ آخر کون کمبینہ تھا فون پر ؟ وہ برس رہا تھا۔ بھیا کہا نہ کہ رانگ نمبر تھا۔ رانگ نمبر تھا تو فوراً بند کیوں نہیں کر دیا ؟ اتنی دیر تک باتیںکرنےکی کیا ضرورت تھی ؟ کیا ہر سوال کا جواب رانگ نمبر کرنے والے کو دینا ضروری ہوتا ہے جواب دو مجھے اس بات کا بھیا میں کوئی بری باتیں نہیں کر رہی تھی۔ کہا نا کہ رانگ نمبر تھا۔ میں بچارگی سے بول رہی تھی، مگر بھائی کا غصہ بڑھنے لگا۔ تم ایسے نہیں بتاؤ گی۔ 

پھر وہ مجھے گھسیٹتا ہوا صحن میں لے گیا اور دھمکیاں دینے لگا کہ جلدی بتا دو وہ کون شخص ہے ؟ ور نہ مجھے پوچھنا آتا ہے۔ میں تم کو جان سے مار ڈالوں گا۔ میں بالکل تیار نہ تھی۔ بہت زیادہ گھبرانے لگی تبھی بھائی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور لگا مجھے چولہے کے پاس پڑی لکڑی سے پیٹنے۔ میں ہراساں ہو کر چلانے لگی، تبھی وہ پڑوسیوں کے خوف سے باز آ گیا۔ لکڑی پھینک دی اور پھنکارتا ہوا گھر سے نکل گیا۔ اس دن کے بعد اس نے فون کو تالا لگادیا پھر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا۔ اس نے مجھے شک اور شبہے کی آگ میں جلانا شروع کر دیا۔ ہر وقت اس کی نگاہوں میں میرے لئے نفرت بھری رہتی تھی۔ اب تو میں بڑے بھائی کے خوف سے تھر تھر کانپتی تھی۔ اس کے ڈر سے صحن میں بھی نہ نکلتی تھی۔ کھڑکی کے پاس بھی کھڑی نہیں ہوتی تھی۔ باہر گلی میں نہیں جھانکتی تھی کہ وہ آکر مجھے پیٹنا نہ شروع کر دے۔ اور تو اور ، مجھے فون سے نفرت ہو گئی۔ اس دن کے بعد پھر کبھی فون کو ہاتھ نہیں لگایا۔ مجھے اب فون کی طرف دیکھنے سے بھی خوف آتا تھا۔ میری زندگی مسلسل ایک خوف کے تحت بسر ہونے لگی۔ ایسی اذیت تھی جو آہستہ آہستہ اثر کرنے والے زہر کی مانند مجھے اندر اندر سے کھارہی تھی۔ میں اس اذیت بھرے ڈر کو ہر گز الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔

ابھی میں اس اذیت سے چھٹکار انہیں پاسکی تھی کہ ایک دن غضب ہو گیا۔ بتاتی چلوں کہ میرے ماں باپ مر چکے تھے اور میں بھائی کے پاس رہتی تھی۔ اس دن میں ، گھر میں اکیلی تھی۔ بھابھی میکے گئی ہوئی تھیں کہ اچانک کسی نے بیل دی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ سمجھی شاید بھابھی آ گئی ہیں، مگر وہاں ایک نوجوان کھڑا تھا۔ شاید کسی تنظیم سے وابستہ تھا، وہ چندہ مانگنے آیا تھا۔ میں نے بس اتنا ہی پوچھا تھا کہ تم کون ہو بھائی ! کہ اوپر سے میرا بھائی آ گیا۔ اس نے نوجوان کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا، پھر کہا۔ بھاگ یہاں سے ، کوئی چندہ نہیں ہے۔ میں تو فوراً کمرے میں چلی گئی۔ 
 
جانے اورکیا کچھ بھائی نے اس سے سوال جواب کئے، مجھے نہیں معلوم، لیکن آکر بھائی صاحب میرے تو گلے ہی پڑ گئے۔ کون تھا وہ ؟ سچ بتا دو۔ تم اس سے کیا باتیں کر رہی تھیں۔ میں نے لاکھ قسمیں کھائیں کہ ایسی کوئی بات نہیں میں تو اس آدمی کو جانتی نہیں۔ تو پھر جب بیل پر دوڑ کر دروازے پر جاتی کیوں ہو۔ بھائی جان ، جب گھر میں کوئی نہ ہو تو مجھے ہی جانا پڑتا ہے۔ جھوٹ بولتی ہو تم ! پہلے بھی کتنی بار یہ چندے کے بہانے آتا رہا ہے۔ کیا اس دن تم فون پر اسی سے باتیں کر رہی تھیں ؟ میں نے لاکھ یقین دلایا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ میں اس آدمی کو نہیں جانتی، یہ پہلے کبھی نہیں آیا، مگر ان کا شک دور نہ ہوا۔

وہ یہی چاہ رہے تھے کہ میں ہر صورت بس اقرار کر لوں کہ میں اس نوجوان کو پہلے سے جانتی ہوں۔ خدا جانے میر ابھائی کیا چاہتا تھا ۔ ایک دن وہی نوجوان اُسے پھر سے ہماری گلی میں نظر آ گیا۔ وہ اب ہمارے برابر والے دروازے کی بیل بجا رہا تھا۔ بھائی سمجھا کہ اُن کو آتا دیکھ کر وہ دوسرے گھر کے دروازے کی جانب چلا گیا ہے۔ بس انہوں نے اُسے جا لیا۔ بولے۔ کمینے اب میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔ تیری تو میں جان لے کر چھوڑوں گا۔ جان چکا ہوں کہ تو ادھر کے چکر کیوں لگاتا ہے۔ وہ لاکھ کہتا رہا کہ بھائی صاحب، میں چندہ لینے آتا ہوں۔ آپ کی گلی کے بہت سارے گھرانے ہمارے مدرسے اور یتیم خانے کے لئے چندہ دیتے ہیں، مگر بھائی نہ مانا۔ اس سے اس کا ٹھکانہ اور نام پتاسب لکھوا لیا اور کہا۔ تم میرے پاس فلاں جگہ آجانا۔ وہاں میرا دفتر ہے ، وہاں آکر چندہ لے جانا، لیکن خبردار ! جو میرے گھر کی بیل بجائی۔

اس کے بعد تو میرے بھائی نے میری زندگی ہی اجیرن کر ڈالی۔ ہر وقت کہتے کہ اب اگر اس چندے والے کو ادھر دیکھا کہ آیا ہے ، تو میں نہ صرف تجھ پر تیزاب پھینک کر تیری صورت بگاڑ دوں گا ، اس کو بھی جان سے مار دوں گا، ورنہ تو باز آجا۔ تو اپنی اچھی شکل پر ہی اتراتی ہے۔ غیر مردوں سے عشق بازی کرتی ہے۔ تجھ کو گھر کی عزت کا ذرا بھی خیال نہیں ہے۔ بس میں اسی خوف سے تھر تھر کانپتی تھی کہ کسی روز سوتے میں میرا بھائی مجھ پر تیزاب نہ پھینک دے اور میری صورت بگاڑ دے۔ میں تو اب سکھ کی نیند سو بھی نہیں سکتی تھی۔ بھابھی بھی بھائی کو سمجھاتی تھیں کہ خواہ مخواہ کیوں اپنی معصوم بہن پر شک کرتے ہو ؟ اب تو وہ اسکول بھی نہیں جاتی۔ سارا دن گھر میں رہتی ہے مگر ان پر اثر نہ ہوتا تھا۔ 
 
ایک دن وہ بد نصیب چندہ مانگنے والا بھائی کے پاس دفتر چلا گیا۔ اسے تو چندہ مانگنا ہی تھا کیونکہ تنظیم کی طرف یہ کام اس کے سپر د تھا کہ مقررہ ہدف پورا کرے۔ اُسے دیکھتے ہی بھائی کا پارہ چڑھ گیا اور انہوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ نجانے کتنا بھاری گلدان اس کے سر پر مارا کہ وہ زمین پر گر گیا۔ گلدان پیتل کا تھا۔ وہ بے چارا دھان پان سا مصیبت کا مارا لڑکا، گلدان کی چوٹ سے ہی مر گیا۔ پولیس بھائی کو گرفتار کرنے کو سر گرداں تھی اور یہ چھپے ہوئے تھے۔ بھابھی کے بھائی نے آ کر خبر دی تو بھا بھی اور میں رونے لگے۔ بس اُسی رات میں خوف سے ، منہ اندھیرے گھر سے نکل پڑی۔ مجھے لگتا تھا کہ موقعہ ملتے ہی بھائی گھر آئے گا اور مجھے بھی جان سے مار دے گا۔ جب اس چندے والے پر رعایت نہیں کی ، اس کو جان سے مار دیا تو مجھے کیوں چھوڑیں گے ۔ گھر سے نکل تو گئی ، اب خود مجھے پتا نہیں تھا کہ کہاں جارہی ہوں۔ نہ منزل کا پتا تھا اور نہ رستوں کی خبر – گشت پر پھرتے ہوئے ایک پولیس آفیسر نے مجھے پکڑ لیا اور عدالت لے آیا اور اب یہ مجھے دار الامان لے آئے ہیں۔

ان دنوں میں ہی دار الامان کی انچارج تھی، جب رافعہ کو وہاں لایا گیا تھا۔ اس کی باتیں سنیں تو دل خون کے آنسو رو دیا ۔ جن پھولوں کو حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے ہم ان کو کتنی بے دردی سے روند ڈالتے ہیں۔ ایک معصوم لڑکی کی زندگی، اپنے سگے بھائی کی نفرت اور شک و شبہ کی وجہ سے اجیرن ہو گئی تھی۔ وہ اب زندگی سے ہی مایوس نظر آتی تھی۔ گھر جو ایک لڑکی کی سب سے مضبوط پناہ گاہ ہوتا ہے وہ اس کو چھوڑنے پر مجبور ہو چکی تھی۔ ٹیلی فون سے اس کو خوف آتا تھا۔ بھائی کی محبت پر شک کا سانپ پہرہ دے رہا تھا۔ وہ مایوسی کی باڑ میں کیوں نہ گھرتی۔ اس کی منزل دار الامان نہ تھی۔
 
 جس بھائی کے گھر میں وہ رہتی تھی، اس کے باپ کا گھر تھا۔ اس گھر کی وہ بھی حصے دار تھی۔ کوئی بتائے ! کیا ایسی لڑکیاں عمر بھر کسی پر اعتماد کر سکتی ہیں یا کبھی خوشگوار زندگی جی سکتی ہیں ؟ معاشرے کے ایسے رویوں کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ؟ ان معصوم لڑکیوں پر یا ان کے سر پرستوں پر ، جو اپنے ذہن کی تنگی سے گھر کے آنگن کو ان کے لئے عقوبت خانہ بنا دیتے ہیں تبھی تو یہ اس قید سے گھبرا کر بھاگ نکلتی ہیں، تو پھر ایسی کوئی لڑکی کسی غلط آدمی کے ہتھے چڑھ جائے تو کیا ہوتا ہے اس کے ساتھ ؟ کیا کبھی یہ سوچا ہے کسی نے !

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے