بے شرم بھائی


میرا ایک ہی بھائی تھا، جو بڑا ہی سنگدل نکلا۔ جب تک ماں باپ زندہ رہے ، عافیت رہی۔ ان کے دنیا سے جاتے ہی بے امان ہو گئی۔ ابا نے بہت چاہا تھا کہ لاڈلا بیٹا پڑھ لکھ جائے، مگر وہ ساتویں سے آگے پڑھ کر نہ دیا۔ اس نے بری سوسائٹی اپنائی اور نشے کا عادی ہو گیا۔ نو عمری میں نشہ کرنے کی وجہ سے وہ کہیں کا نہیں رہا۔

والد بچارے دن بھر مزدوری کرتے، تب کہیں گھر کا خرچہ چلتا تھا۔ بھائی ایوب کو ابا کی محنت کی کمائی کے ضائع ہونے کا بھی احساس نہ تھا۔ وہ جب گھر آتا، ماں سے رقم طلب کرتا نہ ملتی تو دنگا فساد کرتا اور مار پیٹ پر اتر آتا۔ ماں کی بالیاں، میری چاندی کی چوڑیاں، میرے جہیز کے لئے رکھے ہوئے برتن، کپڑے، سلائی مشین تک اس کے نشے کی نذر ہو گئے ، مگر یہ ایسا دوزخ تھا، جو بھرتا ہی نہ تھا۔ ماں باپ غم میں گھل گھل کر مر گئے ، مگر یہ آگ ایسی تھی کہ بجھتی نہ تھی۔ میں اب کلی طور پر بھائی کے رحم و کرم پر رہ گئی۔ اماں نے میرے بیاہ کے لئے پائی پائی جوڑ کر جو کچھ بنایا تھا بھائی نے نشے سے بھرے سگریٹ کے کش لے لے کر پھونک ڈالا۔ اب گھر میں پکانے کا برتن رہا نہ چار پائی اور بستر رہے۔ گھر ڈھنڈروا ہو گیا کہ توا اور انگیٹھی تک نہ رہ گئی۔ آخری پونجی میں رہ گئی تھی تو بھائی نے اس کو بھی ٹھکانے لگانے کا ارادہ کر لیا۔ وہ جس شخص سے اپنا نشہ پورا کرنے کا سامان خریدتا تھا، وہ ادھیڑ عمر کا بدخصلت اور بدقماش آدمی تھا تبھی کوئی اس کو رشتہ نہ دیتا تھا۔ ایوب اس کی عادات سے خوب واقف تھا، لیکن اس کو اس بات سے کیا غرض کہ اس کی بہن کی آئندہ زندگی میں کوئی سکھ ملے گا یا نہیں۔ اسے تو اپنی غرض پوری کرنا تھی۔ جب قرض بہت چڑھ گیا اور نشہ پانی کو پھوٹی کوڑی نہ رہی تو بھائی نے اس آدمی سے ایک عجب سودا کر لیا۔ نشے کے بدلے بہن کا سودا۔ ایوب نے ملنگے کو کہا کہ تم مجھے ہیروئن دیا کرو، میں تمہار ا نکاح اپنی بہن سے کروا دیتا ہوں۔ نکاح سے پہلے ملنگا ایک بار ہمارے گھر آیا۔ بھائی خود اس کو گھر لایا تھا تا کہ وہ مجھے دیکھ لے۔ میں چولہے کے پاس بیٹھی اس کی راکھ کرید رہی تھی، کیونکہ گھر میں پکانے کو کچھ بھی نہ تھا، ملنگے نے مجھے دیکھا اور دوسرے دن دو آدمی لے آیا، ادھر ایوب بھائی نے محلے کے دو آدمی بلائے اور میرا نکاح ہو گیا۔ نہ سہیلیاں آئیں ، نہ ڈھولک بجی اور میری شادی ہو گئی۔ اس شادی کے بدلے میں بھائی نے اس سے وعدہ لیا تھا کہ وہ روز اس کو نشہ مہیا کرے گا۔

میرا شوہر اچھا آدمی نہ تھا مگر میں نے سوچا کہ اس کو اپنے حسن سلوک سے اچھا کر لوں گی۔ میں اکثر ایسی باتیں سنتی تھی کہ اگر بیوی اچھی ہو تو اپنے ایثار اور سیرت سے شوہر کو راہ راست پر لاسکتی ہے، مگر شوہر نے پہلے ہی دن مجھے پیر کی جوتی سمجھا اور میں اسے سر کا تاج سمجھ کر اس کی عزت کرنے لگی تا کہ وہ بھی میری عزت کرے۔ شروع میں تو ملنگے کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا کہ گھر میں عورت آگئی تھی۔ اسے بھی گھر کا سکھ دیکھنے کو ملا، گرم کھانا اور صاف ستھرے کپڑے ملنے لگے۔ وہ میرے لئے روز کبھی کباب، کبھی گرم گرم جلیبیاں لاتا اور میں دن رات اس کی خوشنودی میں مری جاتی تھی۔ رفتہ رفتہ اس کا رنگ اترنے لگا۔ جس روز نشہ زیادہ کر لیتا، بہت مارتا۔ میں گھٹ گھٹ کر روتی، سسکیاں بھی دبا لیتی کہ کہیں میری آواز گھر سے باہر نہ چلی جائے۔ رورو کر دل ہی دل میں بھائی کو کوستی، جس نے صرف اپنے نشے کے لالچ میں مجھے ایسے بے ضمیر انسان کے حوالے کیا تھا۔ دن جوں توں کر کے گزرتے رہے۔ بھائی میری شادی کے بعد کبھی میرے گھر نہ آیا کہ میری حالت دیکھتا اور میں اس کو غیرت دلاتی، اس سے اپنا دکھ سکھ کہتی، کوئی شکوہ ہی کرتی۔ گرچہ وہ روز شام کو ملنگے کے پاس ہیروئن لینے آتا تھا، مگر اس کے خفیہ اڈے پر ، جہاں اس جیسے چند جواری اور نشی جمع ہوتے تھے۔ ایک بار اس کے اڈے پر پولیس کا چھا پہ پڑ گیا۔ ملنگا اس وقت وہاں موجود نہ تھا، اس لئے اس کے ساتھی تو پکڑے گئے مگر وہ کہیں چھپ گیا۔ پولیس اس کی تلاش میں تھی۔ ایک دن گھر کی تلاشی لینے بھی آئی۔ چند دن کی گمشدگی کے بعد ایک رات ملنگا آدھی رات کو گھر آیا اور کہنے لگا کہ میرے ایک دوست نے میری ضمانت دے دی ہے ، مگر پولیس والے پھر بھی تنگ کریں گے۔ تم ایک کام کرو۔ اور اس نے جو کام میرے ذمے لگایا، میں اس کو بیان نہیں کر سکتی۔ مجھے اپنے کانوں پر اعتبار نہ آیا کہ یہ آدمی اتنا کھٹیا اور گرا ہوا ہے کہ بیوی، جو اس کی عزت ہے ، اس کو برائی کے رستے لے جانے پر تیار ہے۔ میں نے اسے صاف انکار کر دیا۔ ملنگے کے گھر میں ، میں نے باعزت رہنے کے لئے ہر طرح کی اذیت برداشت کی تھی۔ سوچا کہ اگر اس چار دیواری میں بھی مجھے تحفظ نہ ملے تو اس قید میں دکھ سہنے کا کیا فائدہ، سو پہلی بار زبان کھولی کہ بد کردار ! اب تو میری عزت کے بھی درپہ ہے ، شرم کر ، میں تیرے دو بچوں کی ماں ہوں۔ کم از کم اس رشتے کے تقدس کا تو خیال کر۔ اس پر ملنگے نے مجھے مار مار کر گھر سے نکال دیا۔ ان دنوں میری چھوٹی بچی صرف چھ ماہ کی اور بیٹا چار سال کا تھا۔ ان کو بھی میرے ساتھ گھر سے باہر کر دیا۔

اس بے رحم انسان نے یہ بھی نہ سوچا کہ ان معصوموں کا کیا ہو گا اور میں بچوں کا پیٹ کیسے پالوں گی۔ میں روتی جاتی اور سوچتی جاتی کہ اگر آج بھائی مل جائے تو اس کا گریبان پکڑ کر پوچھوں کہ کیا بھائی ایسے ہی گھر میں بہنوں کو بیاہتے ہیں۔ اب بتاؤ ! دو معصوم بچوں کے ساتھ اس بھری دنیا میں میں کہاں جاؤں ؟ میرے والد کے ایک دوست کلیم احمد ایک وکیل کے پرانے منشی تھے۔ ان کی بیٹی میری سہیلی تھی۔ میں اس کے گھر چلی گئی۔ رورو کر اپنا احوال منشی چاچا کو کہہ سنایا۔ انہوں نے تسلی دی اور اپنے گھر ٹھہرالیا۔ دوسرے روز مشورہ کرنے کے لئے وہ مجھے اپنے وکیل کے دفتر لے گئے۔ انہوں نے مجھ سے سارا حال سن کر بچوں کے خرچے کا کیس عدالت میں میرے شوہر پر دائر کرادیا۔ ایک پیشی پر میں وکیل صاحب کے دفتر میں بیٹھی تھی کہ وہاں ان کے بہت سے موکل آگئے ، سارا کمرہ مردوں سے بھر گیا۔ میں ایک طرف کونے میں بیٹھی تھی۔ اتنے لوگ دیکھ کر گھبراگئی۔ شرم سے اپنا منہ دوپٹے میں چھپا لیا کیونکہ میں کبھی اس طرح اجنبی مردوں کے سامنے نہیں گئی تھی، ہمیشہ پردے میں گھر میں رہتی رہی تھی۔ اس وقت میری ایسی حالت ہو گئی کہ جی چاہا زمیں پھٹے اور میں اس میں سما جاؤں۔ وہ لوگ اپنے اپنے مسئلے پر باتیں کر کے تھوڑی دیر بعد چلے گئے، لیکن ایک آدمی بیٹھا رہا۔ وکیل صاحب نے اس کے لئے چائے منگوائی، پھر وہ کسی کام سے باہر چلے گئے۔ اب میں اور وہ اجنبی کمرے میں اکیلے رہ گئے۔ میں نظریں نیچی کئے فرش کو گھور رہی تھی۔
 
 ماتھے پر پسینے کے قطرے آچکے تھے۔ تبھی وہ اجنبی بولا۔ بی بی ! میں وکیل صاحب کا رشتے دار ہوں۔ کافی دیر سے تمہیں یہاں بیٹھے دیکھ رہا ہوں۔ یقیناً تم کسی مسئلے کے لئے آئی ہو مگر بہت پریشان دکھائی دیتی ہو۔ کیا بات ہے؟ کیا تمہارا کوئی مقدمہ ہے ؟ اگر وکیل صاحب کی فیس دینے سے قاصر ہو تو بتاؤ میں کم پیسوں میں تمہارا کام کروا دوں گا۔ میں نے ہمت کر کے بمشکل اس کو اپنا حال کہہ سنایا۔ میری کہانی سن کر بہت حیران ہوا۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ بہت خدا ترس انسان ہے، جس کو میری آپ بیتی سن کر دکھ ہوا ہے۔ کہنے لگا۔ بی بی ! اگر میں ایک مشورہ دوں تو کیا تم مانوں گی ؟ میں شش و پنج میں پڑ گئی جانے کیا مشورہ دیں گے۔ تب وہ کہنے لگے۔ تم عورت ذات ہو اور سر پر کسی محرم کا ہاتھ بھی نہیں۔ یہ کچہریاں تمہارے جیسے لوگوں کی جگہ نہیں۔ اگر تم یہ مقدمہ بازی چھوڑ دو، تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے دن سے میرے مرنے تک تمہارے تمام اخراجات میرے ذمہ ہوں گے۔ سوچ رہی تھی کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ ایک اجنبی ، نا آشنا، میر اس کا کیا رشتہ ناتا۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ وکیل صاحب آگئے اور بتانے لگے کہ بی بی، یہ میرا پھو پھی زاد بھائی ہے۔ جنگی قیدی تھا۔ چھ ماہ ہوئے واپس آگیا ہے۔ اس کا نام احسن ہے اور یہ اپنے نام کی طرح نیک سیرت ہے۔

احسن نے وکیل صاحب سے کہا کہ بی بی کو راضی کریں کہ یہ مقدمہ بازی میں خود کو اور اپنے بچوں کو نہ الجھائیں۔ یہ بچوں والی ہیں ، اتنی خواری برداشت نہ کر پائیں گی۔ کچھ سوچتے ہوئے وکیل صاحب بولے۔ خاتون ! تم ایک شریف عورت ہو۔ کسی حد تک احسن کا خیال درست ہے۔ ہمارے ملک میں انصاف اور قانون کا سسٹم لمبی مدت کے پیچ و خم میں الجھتا ہے تو کافی وقت تک خواری برداشت کرنا پڑتی ہے، جبکہ تم جیسی ستم زدہ کو فی الفور انصاف اور امداد کی ضرورت ہے۔ 
 
بے شک انصاف کے حصول میں وقت لگ سکتا ہے تب تک تم اور تمہارے بچے کہاں سے کھاؤ گے اور رہائش بھی تم کو درکار ہو گی۔ تبھی احسن ایسا کہہ رہا ہے۔ یہ تمہاری مدد کرنا چاہتا ہے اور کچھ سوچ کر ہی یہ مشورہ دے رہا ہے۔ پھر احسن بولے۔ تم بخوبی جانتی اور سمجھتی ہو کہ مقدمے بازی میں یہاں کسی قدر دھکے کھانے پڑتے ہیں کہ اچھے بھلے خوشحال مرد تباہ ہو جاتے ہیں، تم تو پھر اکیلی عورت ہو۔ میں نے تم کو حقیقت سمجھادی ہے۔ آگے تم جانو اور تمہارے وکیل، تبھی وکیل صاحب بولے۔ خاتون ابھی تم منشی صاحب کے ہمراہ گھر چلی جاؤ۔ ہم منشی جی سے مشورہ کر کے تمہارے اور تمہارے بچوں کے لئے کوئی اچھا حل سوچتے ہیں۔ میں منشی چاچا کے گھر آگئی۔ احسن اور وکیل صاحب نے ان کو سمجھایا اور راضی کیا کہ کیس نہ کریں بلکہ اس خاتون اور ان کے بچوں کے مستقبل کا کوئی مستقل حل سوچیں۔ انہوں نے چاچامنشی کو تجویز دی کہ وہ مقدمہ ختم کر دیں گے تو احسن، خاتون اور بچوں کا خرچہ تاحیات ادا کرنے پر راضی ہے، کیونکہ احسن کے بیوی بچے اس وقت بنگلہ دیش میں مارے گئے تھے جب اس کی وہاں ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ وہ تب مشرقی پاکستان تھا، پھر بنگلہ دیش بن گیا۔
 
 احسن خان کو تبھی جنگی قیدی بنا لیا گیا تھا۔ وہ اپنے بیوی بچوں کو کھونے کا گہرا دکھ اور صدمہ سہ چکے تھے۔ انہوں نے میری اور میرے بچوں کی کفالت کی بات سچے دل سے کی تھی۔ چاچا منشی کا چھوٹا سا گھر تھا، ان کا اپنا بھی کنبہ تھا۔ میں عمر بھر تو ان کے پاس نہیں رہ سکتی تھی اور اپنے بچوں کی خاطر دوسری شادی بھی مجھے منظور نہ تھی، لہٰذا میں نے اس بات کو مان لیا کہ وہ اگر مجھے بہن بنانا چاہتے ہیں تو میں صدق دل سے اس ناتے کو قبول کر لوں گی۔ اگلے ہفتے وہ آئے اور ایک مکان کی چابی مجھے دے گئے ، جو اُن کی ملکیت تھا اور اب خالی پڑا ہوا تھا۔ اس میں انہوں نے ضرورت کا سامان بھی رکھوا دیا تھا۔ چچا منشی نے مجھے اس مکان میں شفٹ کر دیا اور وہ میرے سر پرست و نگراں مقرر ہو گئے۔ وہ دن میں ایک چکر میرے پاس لگا جاتے تھے۔ جب محلے والوں سے واقفیت ہو گئی تو میں بے خوف ہو کر وہاں رہنے لگی۔ احسن باقاعدگی سے خرچہ دیتے تھے۔ محلے والوں سے کہہ دیا تھا کہ یہ میری بہن ہے ، خود وہ کسی اور جگہ رہتے تھے۔ چند ماہ بعد احسن کی والدہ نے ان کی شادی اپنی بھانجی سے کر دی تو وہ والدہ اور بیوی کو بھی میرے پاس لے کر آئے۔ دونوں ہی بہت اچھی خواتین تھیں۔

انہوں نے خود میرے بچوں کو اسکول لے جاکر ان کا داخلہ کروایا اور قرآن مجید کی تعلیم کے لئے مولوی صاحب سے بات کی۔ احسن بھائی باقاعدگی سے گھر کا خرچہ ہر ماہ بھجواتے رہے، پھر وہ عرب امارات چلے گئے۔ وہاں سے بھی وہ مجھے مقرر رقم اپنی بیگم اور والدہ کے ذریعہ بھیجتے رہے، یہاں تک کہ میرے بچے بڑے ہو گئے۔ میرے بیٹے کو انہوں نے انجینئرنگ کالج میں داخلہ دلوا دیا اور میری بیٹی کی شادی ایک اچھے گھرانے میں کروائی۔ اسے رخصت کرنے وہ بیرون ملک سے وطن واپس آئے۔ اب میں گھر میں اکیلی رہ گئی تھی، ادھر ان کی بیگم اور بچے اکیلے ہو گئے کیونکہ احسن بھائی کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا، تبھی بھابھی اصرار کر کے مجھے اپنے ساتھ لے گئیں اور اپنے گھر کا اوپر کا پورشن ، مجھے رہنے کے لئے دے دیا۔ اس طرح ہم ساتھ رہنے لگیں۔ اب میرا بڑھاپا ہے۔ احسن بھائی بھی ستر برس کے ہو چکے ہیں، مگر ہمارے درمیان بہن بھائی کا وہ مقدس رشتہ قائم ہے جو سگا بھائی نہ نبھا سکا، لیکن منہ بولے بھائی نے نبھا دیا۔ آج میں اکیلی نہیں، احسن بھائی اور ان کی بیگم میرے ساتھ ہیں۔ میرے بچے بھی لاوارث نہیں، ان کا ماموں کا حسن سلامت ہے، جس پر جتنا فخر کروں کم ہے۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے